علم تصوف کے موضوع پر ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں اکثر کتب ایسے اہل علم و تقوی صوفیائے کرام کی ہیں جو نہ صرف علوم باطنیہ کے فیضان سے مالا مال تھے بلکہ علوم شریعت میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا - لیکن تصانیفِ تصوف میں جو انفرادیت تاثیر اور جامیعت ’’سرّالاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار‘‘ کو حاصل ہے اس کی نظیر پیش کرنا نا ممکن ہے- سرّالاسر شہباز لا مکانی، غوث صمدانی، محبوب سبجانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی(قدس اللہ سرّہٗ) کی مشہور زمانہ تصنیف ہے جس میں آپؒ نے شریعت طریقت معرفت و حقیقت کے اسرار کو پیش فرمایا ہے- اس تصنیف کی یہ خاصیت بھی ہے کہ اس میں 100 سے زائد موضوعات کو ہر دو ظاہری اور باطنی پہلووں سے بیان کیا گیا ہے- آپؒ نے اس تصنیف میں علم تصوف کے مضامین پر اپنی پُر تاثیر علمی اور مدلل گفتگو فرمائی ہے کہ سالک راہ معرفت حق تعالیٰ کے اسرار سے لبریز ہوجاتا ہے- گو کہ یہ کتاب آپؒ نے بعض طالبوں کے اصرار پر مبتدی طالبان مولیٰ کیلیے رقم فرمائی تھی لیکن نا چیز کی رائے میں یہ تصنیف اتنی علمی وسعت رکھتی ہے کہ موجودہ زمانے میں تجدید پسندوں کی طرف سے اہل تصوف پر جو اعتراضات وارد کئے جاتے ہیں ان کا مدلل جواب اس تصنیف لطیف کی روشنی میں دیا جا سکتا ہے-
1:سرالاسرار کی وجہء تصنیف :
محی الدین محبوب سبحانی سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی قدس اللہ سرّہٗ ’’سرّالاسرار‘‘ کے مقدمے میں اس تصنیف سے متعلق فرماتے ہیں :
’’طالبوں میں سے بعض نے ہم سے التماس کی کہ ہم اُن کی خاطر ایک ایسا نسخہ تیار کریں جو اِس موضوع پر اُن کی پوری پوری کفایت کرے لہٰذا ہم نے اُن کی فرمائش کے مطابق یہ مختصر سا رسالہ جمع کیا ہے جو صرف اُن کیلئے ہی نہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی کافی شافی ہو گا- ہم نے اس کا نام ’’سِرُّ الْاَسْرَارِ فِیْمَا یَحْتَاجُ اِلَیْہِ الْاَبْرَارِ‘‘رکھا ہے کیونکہ ہم نے اِس میں اُن مسائل ِشریعت و طریقت و حقیقت کا ذکر کیا ہے جن کی عموماً جستجو رہتی ہے- یہ رسالہ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے چوبیس حروف اور رات دن کے چوبیس گھنٹوں کی نسبت سے ایک مقدمہ چوبیس فصول پر مشتمل ہے‘‘-[1]
’’سرّالاسرار‘‘ کی تصنیف کے وقت بغداد کے سیاسی و مذہبی حالات:
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس اللہ سرّہٗ جب حصول علم کے لیے بغداد تشریف لائے اس وقت مسلمان کئی جہات سے طوائف الملوکی کا شکار تھے- خلافت پر مسند نشین حصول اقتدار کے لیے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال چکے تھے- فرقہ پرستی اور گمراہی عام ہوچکی تھی باطل قوتوں نے مسلمانوں کے خلاف مذہبی، سیاسی، اقتصادی، اعتقادی اور بے شمار سازشوں کا جال بچھا دیا تھا وہ بغداد جس کو کبھی عالم اسلام کی مرکزیت کا شرف حاصل تھا اس کی مرکزیت روبہ زوال ہو چکی تھی- بدقسمتی سے انہی ایام میں صلیبیوں نے بیت المقدس میں خون کی ہولی کھیلی اور مسلمان شہداء کا مثلہ کیا- ایک روایت کے مطابق صلیبیوں کے گھوڑوں کے سم مسلمان عربوں کے خون میں ڈوب گئے تھے ، اس پُر آشوب دور فتن میں آپؒ نے صدائے حق کو بلند کیا اور دین کو زندہ فرمایا- آپؒ نے اپنی تصنیفات کے ذریعے ان علمائے سو کو بے نقاب فرمایا جو ملت اسلامیہ میں فرقہ واریت کا بیچ بو رہے تھے جو خود کو خلیفہ کے دربار سے منسلک ہونے میں فخر محسوس کرتے تھے اور آپؒ نے ان جاہل بدعتی صوفیاء کی گمراہیوں کو بھی سالکانِ طریقت پہ واضح کیا جنہوں نے اہل سنت کے منہج سے ہٹ کر اہل بدعت کی راہ کو اختیار کیا- آپؒ نے تصوف کا دعویٰ کرنے والے گمراہ فرقوں کی اقسام نظریات اور علامات کو تفصیل سے اپنی تصانیف میں بیان فرمایا ہے- آپؒ نے اپنے عہد کے پیش نظر اپنی تصانیف میں استدلالی مؤقف کی بنیاد مروجہ فلسفیانہ اور فقیہانہ طرز سے ہٹ کر قرآن و حدیث پر رکھی تاکہ فتنوں کی بیخ کنی کی جا سکے-یہ تھے وہ سیاسی اور مذہبی حالات جن میں آپؒ نے اپنی تصنیف لطیف ’’سرّ الاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار‘‘ تصنیف فرمائی-
تصنیف لطیف سرّالاسرار کی عظمت و اہمیت:
سرّالاسرار یعنی ’’رازوں کے راز‘‘آپؒ کی یہ تصنیف واقعی اسرار الہٰی کا مجموعہ ہے گو کہ یہ کتاب آپؒ نے بعض طالبوں کے اصرار پر تصوف کے موضوع پر ابتدئی رہنمائی مہیا کرنے کی غرض سے لکھی تھی لیکن تصنیف لطیف کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ مبتدی ہو یا منتہی یہ تصنیف ہر سالک کی کامل رہنمائی کرتی ہے- حضور غوث اعظم قدس اللہ سرّہٗ کی اسی تصنیف کا اردو ترجمہ کرنے والے عظیم محقق و مترجم سید امیر خان نیازی صاحب اس تصنیف سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’گو کہ یہ کتاب مبتدی طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی کے لئے ابتدائی معلومات مہیا کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہے-لیکن اس کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب تو منتہی طالبوں کے لئے بھی یکساں راہنما ہے-سیدی و مرشدی غوث صمدانی غوث محی الدین شاہ عبد القادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی یہ تصنیف جس کا نام ’’ سرالاسرار فیما یحتاج الیہ الابرار‘‘ ہے، اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے جو مختصر ہونے کے باوجود اتنی جامع و پر اثر ہے کہ اس کا مطالعہ کے بعد طالب حق راہ حق میں خود کو لا یحتاج پاتا ہے-اس کے مطالعہ سے صاحب مطالعہ پر اس قدر اسرارِ ربانی منکشف ہوتے ہیں کہ اسے مزید انکشافات کی حاجت ہی نہیں رہتی‘‘-[2]
سرالاسر کے مضامین کا خلاصہ:
آپؒ نے اپنی تصنیف لطیف کا مختصر خلاصہ خود اپنی تصنیف کے مقدمے میں یوں بیان فرمایا ہے:
’’ہم نے اس کا نام ’’سِرُّ الْاَسْرَارِ فِیْمَا یَحْتَاجُ اِلَیْہِ الْاَبْرَارِ‘‘ رکھا ہے کیونکہ ہم نے اِس میں اُن مسائل ِشریعت و طریقت و حقیقت کا ذکر کیا ہے جن کی عموماً جستجو رہتی ہے- یہ رسالہ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے چوبیس حروف اور رات دن کے چوبیس گھنٹوں کی نسبت سے ایک مقدمہ چوبیس فصول پر مشتمل ہے‘‘-[3]
’’مقدمہ میں ابتدائے خلق کو بیان کیا گیا ہے اور فصول میں سے پہلی فصل میں انسان کا اپنے اصلی وطن کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے- دوسری فصل میں انسان کا مقام ’’اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘‘ میں منتقلی کا بیان ہے- تیسری فصل میں ارواح کا اجسام میں تصرف کرنے کا بیان ہے- چوتھی فصل میں علوم بیان کیے گئے ہیں- پانچویں فصل میں توبہ و تلقین کو بیان کیا گیا ہے- چھٹی فصل میں اہل تصوف کے احوال بیان کئے گئے ہیں- ساتویں فصل اذکار کے بارے میں ہے- آٹھویں فصل میں ذکر اللہ کی شرائط بیان کی گئی ہیں- نویں فصل میں دیدارِ الٰہی کو بیان کیا گیا ہے- دسویں فصل میں حجابات ظلمانیہ و نورانیہ کو زیر بحث لایا گیا ہے- گیارھویں فصل سعادت و شقاوت کے بارے میں ہے- بارہویں فصل میں فقراء کا بیان ہے- تیرھویں فصل میں طہارتِ شریعت و طہارتِ طریقت کا بیان ہے- چودھویں فصل میں نمازِ شریعت و نمازِ طریقت کا ذکر ہے- پندرھویں فصل عالمِ تجرید میں طہارتِ معرفت سے متعلق ہے-سولہویں فصل میں زکوٰۃِ شریعت اور زکوۃِ طریقت کوبیان کیا گیا ہے- سترہویں فصل میں روزۂ شریعت اور روزۂ طریقت کو زیر بحث لایا گیا ہے -اٹھارہویں فصل میں حجِ شریعت اور حجِ طریقت کو بیان کیا گیا ہے- انیسویں فصل میں وجد و صفا کا بیان ہے- بیسویں فصل میں اورادِ خلوت و عزلت کا بیان ہے- اکیسویں فصل اورادِ خلوت سے متعلق ہے- بائیسویں فصل میں خواب اور اونگھ میں پیش آنے والے واقعات بیان کئے گئے ہیں- تئیسویں فصل اہلِ تصوف کے بارے میں ہے اور چوبیسویں فصل میں اس کتاب کا اختتام ہے- مجھے اس کام کی توفیق اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے-مجھے اُسی پر بھروسہ ہے اور مَیں اُسی کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘-[4]
*اس کتاب کے مختلف نسخوں کے بارے کچھ معلومات
پہلا نسخہ:
یہ نسخہ حماة میں واقعہ ’’استانہ‘‘ لائبریری میں موجود ہے -اس قلمی نسخے کا عنوان ’’سِرُّالْاِسْرَارِ وَمَظْھَرُ اْلَانْوَارِ فِيْمَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ الْاَ بْرَارُ‘‘ ہے- مخطوطہ بہتر (72) اور اق (144صفحات)پر مشتمل ہے-ہر صفحے پر تیرہ سطریں اور ہر سطر میں تقریباً سات سے آٹھ کلمات ہیں-یہ نسخہ791ھ کا لکھا ہوا ہے- یہ ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی کتابت سنہری حروف سے کی گئی ہے-کہیں کہیں تعلیقات بھی ہیں- خط نسخ میں بہت خوبصورت لکھائی کی گئی ہے-بعض کلمات سونے کے پانی سے لکھے گئے ہیں جو سرخ رنگت میں بہت بھلے محسوس ہوتے ہیں-کتاب کا نمبر 57.7عام ہے-آج کل یہ نسخہ سید الحاج صالح گیلانی نقیب اشراف حماة کی ملکیت میں ہے-
دوسرا نسخہ:
یہ نسخہ بھی بغداد کی لائبریری دارالسلام میں موجود ہے-اس کا عنوان-’’رِسَالَةُ فِیْ عِلْمِ الظَّاھِرِ وَ الْبَاطِن‘‘ ہے- تعداد ِ اوراق 29 ہے اوسطاًہر صفحے پر نو (9) سطریں اور ہر سطر میں تقریباً گیارہ (11) کلمات ہیں- تاریخ تکمیل 15 صفر 1096ھ لکھی ہوئی ہے - خط نسخ میں لکھا ہوا یہ نسخہ نظر ثانی شدہ ہے-بعض کلمات سرخ روشنائی سے لکھے گئے ہیں-لائبریری میں اس کا نمبر 9177 عام ہے-
تیسرا نسخہ:
یہ نسخہ ’’اظاھریہ‘‘ لائبریری میں ہے- رسالے کا عنوان ہے-’’اسلوك فی باطن الاسرار‘‘ غلاف پر- یہ نسخہ 27 اور اق پر مشتمل ہے- ہر صفحہ پر تقریباً 23 سطریں اور ہر سطر میں اوسطاً 8 لفظ ہیں- تاریخ تالیف 6 ربیع الاول 1127ھ لکھی گئی ہے-نسخہ محمد ادیب تقی کی ملکیت رہا جو 1292ھ میں پیدا ہوئے اور 1358ھ میں انتقال کر گئے- لائبریری نمبر 11232 عام ہے-
چوتھا نسخہ:
ظاہر یہ لائبریری میں موجود یہ نسخہ ’’اَلْاِسْرَارُ فِیْمَا یَحْتَاجُ اِلَیْهِ الْاَبْرَارُ‘‘ کے نام سے مشہور ہے-اس کے ابتدائی صفحات بوسیدہ ہیں-اس کے کل چوبیس اوراق ہیں- ہر صفحہ پر اوسطاً سترہ سطور اور ہر سطر میں تقریباً بارہ الفاظ ہیں-اس کی کتابت خان بن ملا ویابن ملا نصر خان نے طاخ کے قصبے میں اپنے آقا اسکندر کے حکم سے کی-تاریخ کتابت 1170ھ ہے یہ نسخہ بھی خط نسخ میں بہت خوش خط لکھا گیا ہے- لائبریری میں نمبر 3956عام دیا گیا ہے-
پانچواں نسخہ:
یہ نسخہ بھی ظاہر یہ کہ لائبریری میں موجود ہے-’’رسالہ فی التصوف‘‘ کے نام سے موسوم ہے- کل اورق 39 ہیں-ہر صفحے پر 15 سطور اور ہر سطر میں تقریباً دس الفاظ ہیں- نسخہ خط نسخ میں لکھا گیا ہے لیکن کہیں کہیں فارسی عبارات گڈ مڈ ہوگئیں ہیں-لائبریری میں نسخے کو 6919 نمبر عام دیا گیا ہے-
چھٹا نسخہ:
یہ بھی ظاہریہ لائبریری کی زینت ہے-اس کا عنوان کتاب فی التصوف ہے- 62اوراق پر مشتمل نسخے کے ہر صفحہ پر تیرہ سطور اور ہر سطر میں تقریباً آٹھ الفاظ ہیں- نسخہ نظر ثانی شدہ ہے اور سر عنوان یہ کلمات لکھے ہوئے ہیں ’’تقدمہ من جمال الدین جمالی الحمصی اخیه الحاج محمد عبدالدائم الحلبی‘‘ لائبریری میں اس کا نمبر 7389 عام ہے-
ساتواں نسخہ:
’اسرار الاسرار‘ کے عنوان سے یہ نسخہ حلب کی ’الوطنیہ‘ لائبریری میں موجود ہے-اس کے اوراق 37، ہر صفحے پر 19 سطور اور ہر سطر میں نو سے دس الفاظ ہیں- یہ ایک بہترین نسخہ ہے- عام لکھائی خط نسخ میں ہے لیکن عنوانات خط شکستہ میں ہیں-اس کی تکمیل جمعرات کے دن 1274ھ کو ہوئی کتاب کا نمبر 1858 عام ہے-[5]
سرالاسرار میں موجود صوفیانہ نکات:
فنِ تصوف اور سلوک میں یہ تصنیف لطیف نایاب موتی کی حیثیت رکھتی ہے اور سالکان راہ کی ہر مقام پر عقدہ کشائی کرتی ہے- فن تصوف اور سلوک پر اس تصنیف لطیف کے تناظر میں آپؒ کی پر مغز گفتگو چند عنوانات کے تحت پیش خدمت ہیں-
تصوف کی تعریف:
لفظ تصوف چار حروف پر مشتمل ہے یعنی ’’ت، ص، و، ف‘‘- حرف ’’ت‘‘ سے توبہ ہے اور توبہ بھی دو قسم کی ہے توبہ ظاہر اور توبہ باطن- توبہ ظاہر یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعضائے ظاہر کو قولاً و فعلاً گناہ و معصیت سے طاعت کی طرف اور مخالفات سے موافقات کی طرف موڑ دے- توبہ باطن یہ ہے کہ جب ایسا ہو جائے اور اس کے اوصاف ذمیمہ اوصاف حمیدہ میں بدل جائیں تو مقام ’’ت‘‘ کا کام ختم ہو جاتا ہے- حرف ’’ص‘‘ سے صفائی ہے اور صفائی بھی دو قسم کی ہوتی ہے- قلب کی صفائی اور سِرّ کی صفائی- قلب کی صفائی یہ ہے کہ دل ان بشری کدورتوں یا دینوی رغبتوں سے پاک ہوجائے جو بکثرت سونے اور زیادہ بولنے کی خواہش سے یا زیادہ کمانے کی محبت، بکثرت جماع کرنے کی طلب، اہل و عیال کی حد سے زیادہ محبت و غیرہ سے دل میں پیدا ہو جاتی ہیں- مذکورہ بالا خصائل بد سے دل کو صاف کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مرشد کامل کی زیر نگرانی پہلے بلند آواز کے ذکر اللہ کا شغل اختیار کیا جائے- حتیٰ کہ ذکر خفی کا مقام آجائے جیسا کہ فرمان حق تعالیٰ ہے:’’بے شک مومن وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں‘‘- یعنی ان کے دل میں خشیت الٰہی بھر جائے اور خشیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دل خواب غفلت سے بیدار ہوجائے اور ذکر اللہ کی صیقل سے آئینہ دل اس قدر شفاف ہو جائے کہ اس میں خیر و شر کی ایک غیبی صورت نقش ہوجائے- جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے:’’عالم نقش و نگار کرتا اور عارف صیقل یعنی دل کو صاف کرنے کا عمل کرتا ہے‘‘-سِر کی صفائی ماسویٰ اللہ سے اجتناب کرنے، اللہ سے محبت کرنے اور سری زبان کے ساتھ اسمائے توحید کا دائمی ذکر کرنے سے حاصل ہوتی ہے- جب انسان یہ صفت حاصل کر لیتا ہے تو مقام ’’ص‘‘ کے تکمیل ہو جاتی ہے- حرف ’’و‘‘ سے ولایت ہے جس کا انحصار تصفیہ پر ہے اور اس کے متعلق فرمان حق تعالیٰ ہے:’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر خوف ہے نہ غم، ان کے لئے خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت کی زندگی میں بھی‘‘-ولایت کا نتیجہ وجود میں اخلاقِ الٰہیہ کی نمود ہے جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان ہے:’’اخلاقِ الٰہیہ سے متخلق ہو جاؤ‘‘-چنانچہ صفات بشری کا لباس اتار کر صفات الٰہیہ کا لباس پہننا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں فرمان حق تعالیٰ:’’جب میں کسی بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کے کان، اس کی آنکھیں ، اس کی زبان، اس کے ہاتھ اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں، پھر وہ مجھ ہی سے سنتا ہے، مجھ ہی کو دیکھتا ہے، مجھ ہی سے بولتا ہے، مجھ ہی سے پکڑتا ہے اور مجھ ہی سے چلتا ہے-پس خود کو ماسویٰ اللہ کی آلائشوں سے پاس صاف رکھو جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:آپ فرمادیں کہ حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا ہے کہ باطل مٹنے ہی کی چیز ہے‘‘- یہاں پر پہنچ کر مقام ’’و‘‘ حاصل ہو جاتا ہے- حرف ’’ف‘‘سے فنا فی اللہ جلا لہ کا مرتبہ ہے – جب صفات بشری فنا ہو جاتی ہیں تو صفاتِ احدیت باقی رہ جاتی ہیں- اللہ تعالیٰ پاک ذات ہے، اسے فنا ہے نہ زوال- پس بندہ فانی کو رب باقی کے ساتھ اس کی رضا کے مطابق بقا نصیب ہو جاتی ہے اور قلبِ فانی کو سرِ باقی کے ساتھ بقاء حاصل ہو جاتی ہے اور وہ اس کی نظر بن جاتا ہے-
صوفیاء کو اہل تصوف کیوں کہا جاتا ہے؟
اس کتاب مستطاب کے مطابق صوفیاء کرام کو اہل تصوف کا نام اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا باطن نور معرفت و توحید سے صاف کر لیتے ہیں یا انہیں یہ نام اَصحابِ صُفّہ (رضی اللہ عنہ) کی نسبت سے دیا جاتا ہے یا پھر اس وجہ سے دیا جاتا ہے کہ وہ صوف کا لباس پہنتے ہیں، مبتدی صوفیا بکریوں کی سخت اون کا صوف پہنتے ہیں، متوسط صوفیا بکریوں کی درمیانی اون کا صوف پہنتے ہیں اور منتہی صفیا نرم اون کا مگر مرقع (کٹاپھٹا) صوف پہنتے ہیں- اسی طرح ان کے باطنی حالات اور کھانے پینے کے معاملات بھی ان کے حسب مراتب مختلف ہوتے ہیں-صاحب تفسیر المجمع کہتا ہے کہ زاہدوں کو چاہیے کہ وہ کھر درا لباس پہنیں اور چھوٹا موٹا کھائیں پئیں-اہل معرفت عمدہ لباس پہنیں اور عمدہ خوراک کھائیں کہ لوگوں کا اپنے مراتب کے مطابق رہنا سنت نبوی (ﷺ) ہے تا کہ کوئی اپنی حد سے تجاوز نہ کرے کیونکہ بارگاہ احدیت میں اس کا مقام صف اول میں ہے-
تصوف کا دعوی کرنے والے بدعتی گروہ:
اہل تصوف ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ بارہ قسم کے ہیں: پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو سنی کہلاتے ہیں اور اپنے ہر قول و فعل میں شریعت و طریقت کی موافقت کرتے ہیں، یہ اہل سنت و الجماعت کے لوگ ہیں (یعنی اہلِ حق) -ان میں سے بعض تو حساب و عذاب کے بغیر جنت میں جا ئیں گے اور بعض سے آسان سا حساب لیا جائے گا اور انہیں (زندگی کی بعض غفلتوں کی وجہ سے) تھوڑا سا عذاب دے کر جہنم سے جنت میں بھیج دیا جائے گا-انہیں کافروں اور منافقوں کی طرح ہمیشہ کے لئے دوزخ میں نہیں رہنے دیا جائےگا-اس کے علاوہ باقی جتنے گروہ ہیں وہ سب کے سب بدعتی ہیں، ان میں سے(1) حلولیہ ہیں)-(2) حالیہ ہیں،(3) اولیائیہ ہیں (4) ثمرانیہ ہیں،(5) حبیہ ہیں، (6) حوریہ ہیں، (7) اباحیہ ہیں، (8) متکاسلہ ہیں، (9) متجاہلہ ہیں ، (10) وافقیہ ہیں اور(11) الہامیہ ہیں-
(جاری ہے)
[1](سرّالاسرار، ص:15)
[2](سرّالاسرار، ص:8)
[3](سرّالاسرار، ص:15)
[4](سرّالاسرار، ص:15-17)
[5](اردو ترجمہ سرالاسرار ، مترجم ظفر اقبال کلیار، ص:13-15، زاویہ پبلیشر ،لاہور)