حضور غوث الاعظم کی مایہ ناز تصنیف

حضور غوث الاعظم کی مایہ ناز تصنیف

حضور غوث الاعظم کی مایہ ناز تصنیف

مصنف: لئیق احمد جنوری 2020

فرقہ حلولیہ:

ان لوگوں کے مذہب میں خوبصورت عورت اور بے ریش حسین لڑکے کے بدن کی طرف دیکھنا حلال ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ بوس و کنار اور معانقہ مباح ہے-

فرقہ حالیہ:

ان کاکہنا ہے کہ مرشد کا ایک مرتبہ ایسا بھی ہے کہ اگر وہ اس پر پہنچ جائے تو شریعت اس پر حکم نہیں لگاتی- یہ سب بدعت ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی سنت کے خلاف ہے-

فرقہ اولیا ئیہ:

اس فرقہ کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ بندہ جب مراتب ولایت پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے تکالیف شرع ساقط ہوجاتی ہیں اور ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ ولی نبی سے افضل ہے کہ نبی کا علم وحی جبرائیل علیہ السلام کے واسطہ سے ہے اور ولی کا علم بغیر کسی واسطہ کے ہے- اس عقیدہ کے باعث وہ ہلاک ہوگئے -

فرقہ شمرانیہ:

اس فرقہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ صحبت قدیمی ہے اور اس کے باعث ’’او امر نواہی‘‘ ساقط ہوجاتے ہیں- ان کے نزدیک دف و طنبورہ و دیگر آلات موسیقی اور لہوو لعب حلال ہے اور عورتوں سے کسی بھی طرح کا تمتع حلال نہیں-

فرقہ حبیہ:

اس فرقہ کے افراد کہتے ہیں کہ بندہ جب مراتب محبت حاصل کر لیتا ہے تو اس سے شرعی تکالیف ساقط ہو جاتی ہیں- یہ لوگ اپنی شرمگاہوں کو نہیں ڈھانپتے-

فرقہ حوریہ:

اس گروہ کے عقائد بھی فرقہ حالیہ سے ملتے جلتے ہیں لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ جب ان پر حال کا دورہ پڑتا ہے تو اس میں وہ حور سے مباشرت کرتے ہیں اور جب ہوش میں آتے ہیں تو غسل کر لیتے ہیں- وہ جھوٹ بکتے ہیں اور اس عقیدہ کے باعث ہلاکت میں مبتلا ہیں-

فرقہ اباحیہ:

اس فرقہ کے لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تارک ہیں، حرام کو حلال قرار دیتے ہیں اور عورتوں کو ہر طرح سے مباح جانتے ہیں-

فرقہ متکاسلہ:

اس گروہ کے لوگوں نے کاروبار کرنا چھوڑ دیا ہے اور دربدر غداری کرتے پھرتے ہیں- بظاہر یہ ترک دنیا کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اپنی مشکلات و مجبوریوں کا واویلا کرتے رہتے ہیں-ان کے اس عقیدے نے انہیں ہلاکت کے گڑھے میں لا گرایا ہے-

فرقہ متجاہلہ:

اس فرقہ کے لوگ فاسقوں والا لباس پہنتے ہیں، ان کے متعلق فرمان حق تعالیٰ ہے:’’ظالموں سے میل جول مت رکھو ورنہ ان کے ظلم کی آگ تمہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی-

فرقہ وافقیہ:

اس گروہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت غیر اللہ کو ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی لہٰذا انہوں نے معرفت الٰہی کی طلب ہی ترک کر دی اور اس جہالت کے باعث وہ ہلاک ہوگئے-

فرقہ الہامیہ:

یہ لوگ تارک علم ہیں اور علم پڑھنے سے روکتے ہیں، فلاسفہ و حکماء کی اتباع کرتے ہیں-ان کا کہنا ہے کہ قرآن ایک حجاب ہے، یہ شعرو شاعری کو قرآنِ طریقت کہتے ہیں اس لئے قرآن کو چھوڑ کر اپنی اولاد کو اشعار سکھاتے ہیں- وِرد و وظائف ترک کر کے ہلاکت میں جا پڑے ہیں-[1]

مضامین تصوف کا استدلال قرآن مجید سے:

جدت پسند مفکرین علم تصوف پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ علم تصوف کی بنیاد قرآن مجید میں موجود نہیں ہے اور یہ اعتراض بھی ناقدین کی جانب سے کیا جاتا ہے کہ صوفیاءکرام روحانیت کے تناظر میں اپنی تصانیف میں جو موضوعات زیر بحث لاتے ہیں وہ کتاب اللہ سے مطابقت و موافقت نہیں رکھتے- اگر ان تنقیدات کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ تعصب کا شاخسانہ نظر آتے ہیں- کیونکہ صوفیائے کرام نے اپنی بے شمار کتب میں مضامین تصوف کو آیات قرآنی سے بیان کیا ہے- زیر بحث تصنیف لطیف میں حضور غوث الاعظم محی الدین سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) نے علم تصوف کے تمام موضوعات کے دلائل قرآن مجید کی آیات سے پیش کیے ہیں- اس تصنیف لطیف میں آپ نے اس قدر آیات مبارکہ سے استدلال کیا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قرآن سے باہر کوئی تصوف ہے ہی نہیں- آپ کی اس تصنیف کا عربی متن 103 صفحات پر محیط ہے اور اس مختصر تصنیف میں آپ نے 140 آیات کریمہ سے استفادہ کیا ہے- آپؒ کا کتاب اللہ کی آیاتِ کریمہ سے یہ طرزِ استدلال اس بات کا ثبوت ہے کہ مضامینِ تصوف کے دلائل قرآن مجید کی ہر سورۃ سے پیش کیے جا سکتے ہیں- آپؒ نے قرآن مجید کی جن جن آیات کو اپنی تصنیف لطیف میں بطورِ استدلال پیش فرمایا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں-

پارہ نمبر: 1

i.    البقرہ: 87

ii.  البقرہ :60

iii. البقرہ: 82

iv. البقرہ :110

v.   الفاتحہ :05

پارہ نمبر: 2

i.    البقرہ: 222

ii.  البقرہ: 197

iii. البقرہ :198 (دو مرتبہ)

iv. البقرہ :245

v.   البقرہ :165

vi. البقرہ :238 (دو مرتبہ)

vii.البقرہ: 196

پارہ نمبر :3

i.    البقرہ: 269

ii.  البقرہ :264

iii. البقرہ :255

پارہ نمبر: 4

i.    آلِ عمران :191

ii.  آلِ عمران: 92

iii. آلِ عمران :97

پارہ نمبر: 5

i.    النساء: 69

پارہ نمبر: 6

i.    المائدہ :15 (دو مرتبہ)

پارہ نمبر :8

i.    الانعام :160

ii.  الاعراف :54

iii. الاعراف :56

iv. الاعراف :99

پارہ نمبر :9

i.    الاعراف :172

ii.  الاعراف :180

iii. الانفال: 9

پارہ نمبر :11

i.    یونس :62 (دو مرتبہ)

ii.  یونس :64

iii. یونس :81

iv. توبہ :120 (دو مرتبہ)

پارہ نمبر :12

i.    ھود :113

پارہ نمبر :13

i.    ابراہیم :5 (دو مرتبہ)

ii.  یوسف :108

iii. ابراہیم: 27

iv. ابراہیم: 24

v.   الرعد: 12

vi. الرعد: 17

پارہ نمبر :14

i.    الحجر :29

ii.  النمل: 125

پارہ نمبر :15

i.    الکہف :65

ii.  الاسراء :13

iii. الکہف :30

iv. الاسراء :81

v.   الکہف :10

vi. الکہف :17

vii.الاسراء :72

viii.الاسراء :79

پارہ نمبر: 16

i.    طہٰ :55

ii.  طہٰ: 7 (دو مرتبہ)

iii. الکہف: 110

iv. طہٰ: 8

v.   الکہف :88

vi. طہٰ :10

vii.طہٰ: 17

viii.طہٰ :114

پارہ نمبر :17

i.    الحج :46

پارہ نمبر :18

i.    المومنون :15 (دو مرتبہ)

ii.  النور :35 (3 مرتبہ)

iii. الانبیاء: 107

iv. النور: 26 (2 مرتبہ)

v.   المومنون: 1

vi. المومنون: 2

vii.المومنون: 3

viii.المومنون: 17

پارہ نمبر :19

i.    الفرقان :70

ii.  النمل :06

iii. الفرقان: 70

پارہ نمبر :20

i.    القصص :88

پارہ نمبر :22

i.    الفاطر :35

ii.  الفاطر: 10

پارہ نمبر :23

i.    یٰسین :33

ii.  ص :82

iii. ص :83

iv. الزمر: 23

v.   الزمر :22

vi. الزمر :17

vii.الزمر :18

viii.الصافات :35

پارہ نمبر :24

i.    الزمر :42

ii.  فصلت :46

iii. السجدہ :16

پارہ نمبر :25

i.    الشوری :11 (دو مرتبہ)

ii.  الجاثیہ :23

iii. الشوری :25 (دو مرتبہ)

iv. الشوری :23

v.   الشوری :20

vi. الشوری :40

پارہ نمبر :26

i.    الفتح :27

ii.  محمد (ﷺ):19

iii. محمد(ﷺ): 2

iv. ق :32

v.   الفتح :26

پارہ نمبر :27

i.    الرحمٰن :19

ii.  الرحمٰن :20

iii. ذاریات: 56

iv. طور :24

v.   الواقعہ: 17

vi. القمر: 55 (دو مرتبہ)

vii.النجم :11 (دو مرتبہ)

viii.الرحمٰن: 22

ix. ذاریات: 50

x.   الرحمٰن: 22

پارہ نمبر :28

i.    الحشر: 23

ii.  المنافقون: 28

پارہ نمبر :29

i.    القیامہ: 22 (دو مرتبہ)

ii.  القیامہ: 23

iii. الدھر: 2

iv. الدھر :21

پارہ نمبر: 30

i.    التین :5

ii.  العادیات: 9

iii. العادیات :10

iv. القارعہ :6

v.   القارعہ :7

vi. النباء :10

vii.النازعات: 40

viii.النازعات:41

مضامین تصوف پر آپؒ نے اپنے اس مختصر رسالہ میں 27 پاروں سے 140 آیات کو پیش کیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ صوفیاء کرام کی تعلیمات قرآن و سنّت سے اخذ شدہ ہیں-

ظاہری اور باطنی پہلوؤں سے موضوعات کی تقسیم:

آپؒ کی اس تصنیف لطیف کی یہ خاصیت بھی ہے کہ آپ نے سینکڑوں موضوعات کو ہر دو ظاہری اور باطنی پہلوؤں سے بیان کیا ہے اور ہر موضوع کے ظاہری اور باطنی پہلوؤں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کیا ہے اور ساتھ ساتھ اہل علم کو تنبیہ بھی کی ہے کہ جو گفتگو اس رسالے میں بیان ہو رہی ہے، ان پر لازم ہے کہ اس کا انکار نہ کریں- بلکہ ان مقامات علوم کو سمجھنے کی کوشش کریں- جیسا کہ آپؒ فصل سوم کے آخر میں اس حوالے سے رقمطراز ہیں-

’’جب ایسی خبریں علماء کے پاس پہنچیں اور وہ ان مقالات کا مطالعہ کریں جن کا ذکر اسی رسالہ میں آگے آرہا ہے تو ان پر لازم ہے کہ ان کا انکار نہ کریں اور ان مقامات علوم کو سمجھنے کی کوشش کریں- ان کی کنہ و حقیقت کو پرکھیں، مقام علیین پر اپنی توجہ مرکوز کرکے انتہائی کوشش کریں تاکہ علم لدنی اور معرفتِ ذات احدیت حاصل کریں‘‘-

ویسے تو آپؒ نے متعدد موضوعات کو ہر دو ظاہری اور باطنی پہلوؤں سے بیان کیا ہے لیکن اختصار کے پیش نظر صرف 30 موضوعات اہل علم کی دلچسپی کے لیے درج ذیل ہیں:

i.   توبہ عام، توبہ خاص

ii.  عین صغریٰ، عین کبریٰ

iii. ظاہری وضو، باطنی وضو

iv. طہارت ظاہر، طہارت باطن

v.  خلوتِ ظاہری، خلوتِ باطنی

vi. حرکات جسمانیہ، حرکات روحانیہ

vii.خواب آفاق، خواب انفس

viii.علمائے ظاہر، علمائے باطن

ix. علم ظاہر، علم باطن

x.  جسمانی حالت، روحانی حالت

xi. تفسیر عوام کے لیے، تاویل خواص کے لیے

xii.دارالفناء، دارالبقاء

xiii.جمال الٰہی کا دیدار، صفات الٰہی کا دیدار

xiv.معرفتِ صفات الٰہی، معرفت ذاتِ الٰہی

xv.آئینہ جمال، آئینہ جلال

xvi.جہاد اصغر، جہاد اکبر

xvii.نماز شریعت، نماز طریقت

xviii.روزہ شریعت، روزہ طریقت

xix.زکوۃ شریعت، زکوۃ طریقت

xx.حج شریعت، حج طریقت

xxi.وجدِ جسمانی، وجدِ روحانی

xxii.کعبہ ظاہر، کعبہ باطن

xxiii.ظاہرِ قرآن، باطنِ قرآن

xxiv.روح جسمانی، روح نورانی، روح سلطانی، روح قدسی

xxv.عالمِ ملک، عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت، عالمِ لاہوت

xxvi.ذکرِ زبان، ذکرِ نفس، ذکرِ قلب، ذکرِ روح، ذکرِ سرّ، ذکرِ خفی، ذکرِ خفی الخفی

xxvii.تجلی آثار، تجلی افعال، تجلی صفات، تجلی ذات

xxviii.عقلِ معاش، عقلِ معاد، عقلِ روحانی، عقلِ کُل

xxix.نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ، نفسِ ملحمہ، نفسِ مطمئنہ

xxx.             کعبہ ظاہر ، کعبہ باطن

اس کتاب میں علم تصوف کے تناظر میں عمومی و خصوصی مسائل پر بھرپور رہنمائی موجود ہے- یہ فہرست پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اہل علم میں اس کتاب کو پڑھنے کی دلچسپی بڑھے اور وہ براہ راست علم معرفت کے اس بحرِ بیکراں سے مستفید ہوں اور آپؒ کے قلم سے نکلے ہوئے پرتاثیر کلمات سے اپنے علمی اور روحانی دامن کو بھریں-

اصطلاحاتِ تصوف:

کسی بھی شعبے کے علوم کے حصول کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اولاً اس علم یا فن کی بنیادی اصطلاحات اور ان کی تعریفات کو جانا جائے-

ہرفن کی خاص اصطلاحات ہوتی ہیں جس کو سمجھے بغیر اس علم کی تفہیم ناممکن ہوتی ہے- فن تصوف کی بھی اپنی اصطلاحات ہیں جن میں سے بعض اصطلاحات کو صوفیاء کرام نے اپنے روحانی تجربات کے پیش نظر وضع کیا ہوتا ہے- آپؒ کی اس تصنیف میں موجود اصطلاحاتِ تصوف کا مفہوم بعض اصطلاحات کے پیش نظر دیگر تصانیف تصوف میں موجود اصطلاحات سے یکسر مختلف ہیں- اس لیے تعلیمات غوثیہ پر تحقیق کرنے والے محققین پر لازم ہے کہ وہ آپ کی تصانیف میں موجود کسی بھی اصطلاح کو آپ کے منہج اور آپ کے فرامین کے تحت سمجھیں-آپ نے اپنی اس تصنیف میں جن جن اصطلاحات کی تشریح و توضیح پیش کی ہے- ان میں سے چند اہم اصطلاحات اہل علم کی دلچسپی کیلئے پیش خدمت ہیں-

i.   حقیقت محمدیہ (ﷺ)

ii.  عالمِ ناسوت، ملکوت، جبروت، لاہوت

iii. علمِ شریعت، طریقت، معرفت و حقیقت

iv. کنز

v.  احدیت

vi. طفلِ معانی

vii.حجاباتِ ظلمانی

viii.حق الیقین

ix. روحِ اعظم

x.  عین الروح

xi. الکسوۃ العصریہ

xii.محویت

xiii.شجرِ تلقین

xiv.مجموعہ کون

xv.کونِ جامع

xvi.تصرفِ تعلیفیہ

xvii. فقر

xviii.نفسِ امارہ، لوامہ، ملحمہ، مطمئنہ

xix.وصال

xx .وجد

یہاں اختصار کے پیش نظر چند ضروری اصطلاحاتِ تصوف کو پیش کیا گیا ہے جن کی تشریح وتوضیح یا ان اصطلاحات کی عمیق معلومات آپؒ نے اپنی اس تصنیف لطیف میں بیان کی ہیں- علم تصوف کے سالک کیلیے ان اصطلاحات کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ سلوک کے کسی بھی مرحلے پر اسے کوئی دھوکہ نہ دے سکے-

حرفِ آخر:

اس مقالے میں آپؒ کی تصنیف لطیف ’’سرّالاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار‘‘ کا منتخب عنوانات کے تحت ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے- یہ تصنیف فنِ تصوف پر مختصر مگر جامع اور پُر تاثیر ہے، جس سے ہزاروں لاکھوں سالکانِ حق فیض یاب ہوتے رہے ہیں اور ان شاء اللہ تاقیامت ہوتے رہیں گے- اس مقالے کا مقصد اس تصنیف کی عظمت و اہمیت کو اہل علم تک تحقیقی انداز میں پیش کرنا تھا- اللہ تعالیٰ ہم سب کو محی الدین غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی قدس اللہ سرّہٗ کی تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے- (آمین)

٭٭٭


[1](سرالاسرار، ص 205 - 211)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر