اسرائیل : ایک مسلسل بڑھتی ہوئی استعماریت

اسرائیل : ایک مسلسل بڑھتی ہوئی استعماریت

اسرائیل : ایک مسلسل بڑھتی ہوئی استعماریت

مصنف: پروفیسر ڈاکٹر اویا ایکگوننج ستمبر 2014

غزہ میں آج کی ڈرامائی صورتحال:-

اسرائیل نے 7 جولائی 2014 سے غز ہ پر بمباری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے- 14 اگست کو اگرچہ اسرائیلی افواج اور غزہ کی طاقتوں کی جانب سے  72گھنٹوں کے لئے جنگ بندی کا اعلان ہوا مگر72  گھنٹے مکمل ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا کہ دوبارہ تصادم کا آغاز ہو گیا اور ابھی تک اس بات کو  کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا اور فیصلہ کن مذاکرات ہو بھی سکیں گے یا کہ نہیں-

اسرائیل غزہ سے آنے والے میزائیلوں سے بچنے کے لئے ’’آئرن ڈوم شیلڈ‘‘ (Iron-Dome Sheild ) نظام کا استعمال کر رہا ہے- جبکہ  عسکری ماہرین کے مطابق غزہ کے میزائیلوں میں سے اکثر گھروں میں تیار کردہ سادہ میزائیل ہیں جو کہ اسرائیل کے جدید نظام کا مقابلہ نہیں کر سکتے- گزشتہ30 دنوں میں اگرچہ غزہ سے ایسے ہزاروں راکٹ داغے گئے ہیں مگر اسرائیل میں ان کا نقصان بہت ہی کم ہوا اور ابھی تک کل 76 ہلاکتوںاور  کچھ لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں-اسرائیلی ماہرین کی مطابق غزہ سے فائر کئے جانے والے راکٹوں کی رینج شروع میں 25 پھر 40 اور  آخری اطلاعات کے مطابق 90کلو میٹر تک ہو چکی ہے-

اسرائیلی حکومت نے ان راکٹوں کے بدلے میں غزہ پر ـــ’’آپریشن  پروٹیکٹیو  ایج‘‘ (Operations Protective Edge) کے نام سے مکمل  فوجی مہم شروع کر رکھی ہے جو 29 سے زائد روز سے جاری ہے اور اس تمام وقت میں بمشکل 72 گھنٹے کے لئے اسے روکا گیا ہے-تا وقت اسرائیل کی اس  فوجی مہم کے فضائی اور زمینی حملوں میں  2,000 لوگ مارے جا چکے ہیں ا ور دس ہزار سے زیادہ لوگ زخمی اور اپاہج کئے جا چکے ہیں-چالیس فیصد مارے  جانے والے بارہ سال سے کم عمر کے بچے ہیں-لگتا ہے کہ اس تنازعہ کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے- بحرحال دونوں اطراف  کے مخصوص اہداف ہیں اور جنگ بندی کے لئے کچھ نہ کچھ شرائط ہیں-

فلسطینی چاہتے ہیں کہ اسرائیل غزہ پر غاصبانہ قبضہ ختم کرے اور اس پر لگائی جانیوالی پابندیاں اٹھائے تاکہ وہ اپنے معا ملات خود سنبھالیں اور اپنی  زندگیاں بہتر بنا سکیں-اس مقصد کے لئے وہ چاہتے ہیں کی انکی بندرگاہ کو کھولا جائے تاکہ وہ غز ہ میں ضروریات زندگی کی اشیاء جیسے خوراک، صحت او ر  تعمیراتی سامان کی درآمد آزادانہ کر سکیں-اسرائیلی قبضے سے قبل وہاں ایک ہوائی اڈہ اور ایک بندرگاہ تھی جسے قبضے کے بعد بند کر دیا گیا - دوسری طرف اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں تمام سرنگیں بند کی جائیں اور تمام ہتھیار یا تو تلف کئے جائیں یا پھر اسرائیل کے حوالے کئے جائیں تا کہ اسرائیلی شہری لمبے عرصے تک ’’محفوظ‘‘ رہ سکیں-اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے 14 اگست2014ء کو اپنی تقریر میں کہا ہے :

’’ یہ آپریشن اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک اسرائیلی شہریوں کے لئے لمبے عرصے تک ’’سکون اور سیکیورٹی‘‘کا بندوبست نہیں ہو جاتا- اسرائیل کا مقصد حماس کا خاتمہ ہے -‘‘

اگر 1947 سے دیکھا جائے تو اسرائیل نے کئی جنگوں اور مو قعوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطین کی اٹھہتر فیصد زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور صرف  22 فیصد زمین وہاں کے مقامی اور اصل حق داروں کے لئے چھوڑی ہے اور دنیا بھر سے آ کر غیر قانونی طور پہ آباد ہونے والے یہودیوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث یہ بچی کھچی 22 فیصد زمین بھی اسرائیلی حکومت نے متنازع بنا رکھی ہے-اسرائیلی کنیسیٹ (پارلیمنٹ) کے ممبرز کے مطابق اسرائیل کو تمام فلسطین پر قبضہ کر کے اسے مکمل طور پر ’’یہودی سر زمین‘‘ (Jewish land) بنا دینا چاہیے اور انکے تمام ہمسایہ ممالک اور باقی دنیا کو اسے بطور ’’یہودی ریاست ‘‘ قبول کر لینا چاہیے-جبکہ فلسطینی یقین رکھتے ہیں کہ بیسو یں صدی کے ابتدائی نصف میں برطانیہ اور فرانس جیسے سابقہ نو آبادیاتی ممالک نے ان کی سرزمین غیر قانونی طور پہ ان سے چھین کر یہودی آبادکاروں کو دے دی - بعد ازاں دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ نے اس نئی قائم ہونے والی یہودی ریاست کی حمایت اور اس کی حفاظت کی-

اس وقت اسرائیل اس کوشش میں ہے کہ فلسطینیوں سے باقی 22 فیصد علاقہ بھی چھینا جائے جبکہ غزہ اور مغربی کنارہ پر رہنے والے فلسطینی اس تگ و دو میں ہیں کہ اب انکے پاس جو علاقہ باقی رہ گیا ہے اس پر آزادی سے جی سکیں اور تھوڑی بہت آزاد حکومت قائم رکھ سکیں-

 غزہ کی پٹی کا کل رقبہ 400 مربع میل ہے اور اس میں اٹھارہ لاکھ فلسطینی آباد ہیں - ان میں سے ڈھائی لاکھ کے قریب لوگ پناہ گاہوں ا ور ٹینٹوں  میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں-

اسرائیل کے پاس 20,200 مربع کلو میٹر کا علاقہ ہے اور 2014ء کے انکے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی آبادی کم و بیش اکیاسی لاکھ چونتیس ہزار ہے - دنیا بھر سے یہودی آبادکار اسرائیل آ رہے ہیں-صرف 2013ئمیں سولہ ہزار چھ سو یہودی وہاں آ کر آباد ہوئے ہیں ا ور اس سے اسرائیلی حکومت پر انکے لئے رہائش کی جگہ مہیا کرنے کے لئے بڑھتے ہوئے دباؤ کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے-اور انہیں اس کیلئے واحد اور آسان راستہ فلسطینیوں کی زمین کی صورت میں نظر آتا ہے جو کہ  1947سے سکڑتی جا رہی ہے - غزہ اور مغربی کنارہ دونوں فلسطین کے کُل تاریخی علاقہ کا 22 فیصد ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا بھر سے ہجرت کر کے آنے والے ہر یہودی ریلے کی جگہ بنانے کے لئے فلسطینیوں پر ان کی اپنی ہی سر زمین کو مزید تنگ کر دیا جاتا رہا ہے-مزید برآں سالہا سال کے اسرائیلی قبضے اور اسرائیل کے ہاتھوں مسلسل توہین ، ذلت ، تکلیف اور اپنے گھر بار اور زمین چھن جانے کے خوف اور دباؤ کے باعث عربوں میں آزادی اور مزید ترقی کی خواہش بڑھ رہی ہے-

فوجی  کاروائیوں  میں  استعمال  ہونے  والے  حربے :-

غزہ میں 2014 ء کا ’’آپریشن پروٹیکٹیو ایج‘‘ اسرائیل کے پانچ سال قبل ہونے والے ’’ آپریشن کاسٹ  لِڈ‘‘ (Operation Cast Lead) سے کہیں بدتر ہے بائیس روزہ یہ آپریشن 27  دسمبر 2008سے 18 جنوری 2009 تک جاری رہا تھا - اسرائیل کا حربہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے-سب سے پہلے یہ کہ اسرائیل نے 2009ء کے لبنان پر حملے سے گہرا سبق سیکھا ہے جہاں اسے نہ صرف فوجی بلکہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی تبا ہی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا-

اسرائیل نے دسمبر 2008ئمیں آپریشن کاسٹ لِڈ اور ’’آپریشن پلر آف ڈیفنس‘‘ (Operation Pillar of Defence)  نومبر 2012ء میں شروع کیا تھا -حالیہ آپریشن ’’آپریشن پروٹیکٹیو ایج ‘‘ جو کہ ابھی جاری ہے، اسرائیل نے اس سے قبل غیر عسکری معاملات میں پوری طرح تیاری کر رکھی ہے جس میں سیاسی ، سفارتی ، تجارتی ، معاشی ، نفسیاتی اور تقسیم در تقسیم جیسے کھیل شامل ہیں- اس لئے اس بار اسے پہلے جیسی تنقید اور رد عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا - اس لئے اس بار وہ غزہ میں ہر طرح کی تباہی پھیلا رہا ہے اور جونہی حملہ شروع ہوا تو اس نے اپنی میڈیا مہم اور باقاعدہ پرا پیگنڈہ بھی شروع کر دیا-

2006 کی لبنان کی جنگ سے ساتھ ہی اسرائیل میں وزیر اعظم ہاؤس میں ایک ’’قومی معلوماتی ڈائریکٹوریٹ ‘‘ (National Information Directorate)  قائم کیا گیا تھا اور اسکے تحت کئی اداروں کو اسرائیل کا ہم خیال بنایا گیا جنہوں نے دنیا بھر میں یہ پیغام سرکاری اور غیر سرکاری طور پر  پھیلا یا- اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جونہی اسرائیل نے حملہ کیا اس کے سفارتکاروں ، بلاگرز اور حامیوں نے ایسے  محتاط انداز میں خبریں دینا شروع کیں کہ  اسرائیل مظلوم دکھائی دینے لگے- مغر بی دنیا کے تمام بڑے چینلوں جیسے کہ سی این این ، فاکس نیوز ، بی بی سی ، سی این بی سی پر نظر آ نے والی حالیہ خبروں اور رویے سے اسرائیل کے اس نظام کی کامیابی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے - ایک بات واضح ہے کہ سفارتی سطح پر امریکہ اور اسرائیل اکٹھے کام کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل کو فوجی اور معاشی امداد جاری رہے-انہوں نے اقوام متحدہ کو انتہائی احتیاط کے ساتھ اس انداز میں متشکل کیا ہے کہ ان کے مقاصد پورے ہوتے رہیں-اگر اسرائیل پر تنقید کی جاتی ہے یا اسے اپنی پالیسی بدلنے کو کہا جاتا ہے تو اقوام متحدہ میں امریکہ کی ویٹو پاور اسرائیل کو ’’آئرن ڈوم‘‘ (Iron Dome) کی طرح محفوظ رکھتی ہے-واشنگٹن کی مشر ق و سطیٰ کی پالیسیوں کی بنیاد اسرائیلی مفادات کے تحفظ پر ہے-

غزہ اور غزہ کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی نا انصا فیوں کا اندازہ راج سورانی کی بتائی ہوئی تفصیلات سے لگایا جا سکتا ہے-وہ غزہ میں فلسطینیوں  کے انسانی حقوق کے سنٹر کے ڈائیر یکٹر ہیں-اُنکا تجزیہ اور اعداد و شمار ٹھوس اور متعین ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس جنگی صورتحال کے بعد غزہ میں اسرائیل اور فلسطین کا مستقبل کیا ہو گا-مسٹر سورانی بیان کرتے ہیں :

’’غزہ کے ہر باسی کے دل و دماغ پر اس جارحیت کے اثرات ہمیشہ کیلئے نقش ہوگئے ہیں-اس جارحیت کے اختتام پر 1400 فلسطینی جاں بحق ہو چکے تھے جن میں سے82  فیصد جو کہ بہت بڑی تعداد ہے بے گناہ شہری تھے-جنوری 2009ء میں غزہ قدرتی آفت زدہ علاقہ کا منظر پیش کر رہا تھا-لوگ  صدمے سے نڈھال ہو چکے تھے لیکن ساری تباہی اور بربادی کے درمیان میں ایک امید کی کرن تھی ……کون بھول سکتا ہے غزہ پر سفید گندھک کی  بارش اور وہ دکھ اور تکلیف جو اس نے ہمارے خاندانوں کو پہنچائی؟ کون بھول سکتا ہے اس بلا امتیاز فوجی بمباری کو اور ڈرون حملوں کو جن میں صرف نہتے شہری اور بچے مارے گئے، یا پھر کون بھول سکتا ہے بلڈوزروں اور دھماکا خیز مواد کو جس نے غزہ کے گھروں کو کھنڈرات میں بدل دیا؟ ہمارا خیال تھا کہ معصوم شہریوں کو  انصاف ملے گا ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا- اقوام متحدہ کا مشن یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اسرائیل کی پالیسیاں ارادتاََ غیر متوازن طاقت کے استعمال پر مشتمل ہیں جن کا ہدف دشمن نہیں بلکہ سارا  انفراسٹرکچر ہے اور عملاََ اس میں ساری عام آبادی (کا قتلِ عام) شامل ہے- ‘‘

2009 میں فلسطینی سنٹر فا ر ہیومن رائٹس (PCHR) نے 490 جرائم کی شکا یات درج کروائیں - اور گزشتہ پانچ سالوں میں ادارے کو صرف ان میں سے 40 شکا یات کے جوابات موصول ہوئے جن میں سے تقریباََ تمام کے تمام درمیانے درجے کے رد عمل کی شکا یت موصول ہو ئی ہیں - صرف تین جوابات ایسے تھے کہ جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ کیسز بند کر دیئے گئے ہیں…… پچھلے پانچ سالوں میں اسرائیل کے نظام انصاف نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہلیان فلسطین اور قانون کی بالادستی سے رخ موڑ لیا ہے-اسرائیل نے اپنی ذ مہ داریوں اور جنگی جرائم کی خلاف ورزی کے الزامات کی شفاف تحقیقات کروانے انکار کر رکھا ہے بلکہ اپنی افواج اور اسکے عہدیداران کو کھلی چھوٹ اورتحفظ فراہم کر رکھا ہے-

نہ صرف یہ کہ عام شہریوں کو ہرجانہ (Compensation) نہیں ملتا بلکہ اسرائیلی عدالتوں میں ہرجانے کا دعویٰ کرنے والے غزہ کے مظلوم لوگوں کے راستے میں جھوٹی اور روڑے اٹکانے والی یقین دہا نیاں کرائی جاتی ہیں یعنی کہ پاور آف اٹارنی کے فارم پر کسی اسرائیلی سفارتکار سے دستخط کروائے جانے چاہیں (جو کہ غزہ کی پٹی کی حالیہ بندش کی صورتحال میں ناممکن ہے) اور آٹھویں ترمیم اسرائیل کو کسی بھی ’’عسکری صورتحال‘‘ میں بری الذمہ قرار دیتی ہے (عین ایک ایسی صورتحال جس سے نبٹنے کے لئے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین بنائے گئے ہیں)-یہ ناانصافی کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے اور اس معاملے میں بین الاقوامی دنیا کی مداخلت کی ضرورت ہے-اگر بین الاقوامی قوانین کو مؤثر بنانا ہے تو ان کا اقوام متحدہ کی سطح پر اور بین الاقوامی جرائم کی عدالت ’’انٹرنیشنل کریمینل کورٹ‘‘ (ICC) اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ICJ) کے ذریعے ان کا اطلاق کرنا ہو گا- بحرحال دنیا اور اس کے نظامِ انصاف نے اہلیان غزہ سے اپنا رخ موڑ رکھا ہے-

زیادہ تر پوچھے جانے والے سوالات:-

۱-مغربی اور عرب دنیا کا فلسطین اور بالخصوص سانحہ غزہ کے بارے میں کیا رویہ ہے؟

 مغربی اور عرب ممالک کا رویہ اُن کے سابقہ رویوں سے کچھ مختلف نہیں۔ سارے فلسطین بالخصوص غزہ میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے جو نہایت ہولناک اور ناقابلِ یقین ہے اور اِس معاملے میں مغربی اور عرب ممالک کی بے حسی صاف نظر آتی ہے جو کہ ناقابلِ فہم ہے- یہاں ایک بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مغربی اور عرب عوام نے تو کھل کر اس سانحہ پر صدائے احتجاج بُلند کی ہے جب کہ حکومتیں ’’مفاداتی مصلحتوں‘‘ کے پیشِ نظر خاموش ہیں -

۲- غزہ میںبار بار تباہی اور انسانی صعوبتوں کے بارے میں اسرائیلیوں کا کیا رویہ ہے؟

اسرائیلی عسکری قوتوں کے حملوں سے جو غزہ کے بے بس اور مجبور لوگوں کو تکالیف سہنا پڑ رہی ہے اِس بارے میں اسرائیلیوں کا رویہ زیادہ تبدیل نہیںہوا- دنیا بھر میں اسرائیلی حمائتیوں نے غزہ کے شہداء کے متعلق میں جو سیاہ کن اور حقارت آمیز رویہ دکھایا ہے اُس کی حالیہ دو مثالیں حاضر ہیں :

.نیسیٹ) (Knesetکی اسرائیلی ممبر آئیلیٹ شیکڈ ((Ayelet Shaked نے کہا ہے :

’’صرف بچوں کو مارنا کافی نہیںبلکہ عورتوں اور آنے والی نسلوں کو بھی نشانہ بنایا جائے- ‘‘

اِس تبصرے پر بہت زبردست ردِ عمل آیا- (12اَگست 2014)

ـنیسیٹ) (Knesetکے اسرائیلی ڈپٹی اِسپیکر موشی فیلن(Moshe Feiglin) نے فیس بُک(Facebook) پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وحشیانہ تجاویز پوسٹ کیں:

’’یکجا کرو، قلع قمع کروـ۔۔۔۔ہمیں چاہئے کہ اِن کو خیموں میںسب کو یکجا کر کے قلع قمع کر دیں‘‘-   (Ali Abunimak) 3 اَگست 2014)ــــ

۳- غزہ کی لڑائی میں اِسرائیلی حمایتوں کا کیا رویہ ہے؟

جیسا کہ آپ جانتے ہیں غزہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اور اِس کے لوگ اپنی آزادی اور زمین کے لئے لڑ رہے ہے اور اِسرائیلی مملکت اپنے حمایتیوں کی مدد سے اِس علاقہ کو بندشوں میں جکڑ کر ایک بڑے زندان کی شکل دے رہی ہے - اِسرائیلی عسکری قوتوں کے حمائتیوں اور اسرائیلی سیاسی جماعتوں کو انسانی تکالیف اور بے جا طاقت کے استعمال کی کوئی پرواہ نہیں کہ اِنسانی تکالیف کو کم کیا جائے اورناجائز قوت کا اِستعمال نہ کیا جائے-دوسری جانب وہ مسلسل آنے والے وقت میں اسرائیل کیلئے امداد کے وعدے لے رہے ہیں-در حقیقت تمام وجوہات کے باوجود ’آپریشن پروٹیکٹیو ایج‘ کو صحیح ثابت کرنا اور اسرائیلی فوج کے اقدامات کے جوازاِسرائیلی وزیرِاعظم کے الفاظ میں پوشیدہ ہیں-

۴- غزہ کے لوگوں اور اِسرائیلی حکومت کے درمیان مسلسل تنازعات اور ٹکراؤ کی اصل وجہ کیا ہے؟

اِس کا ایک ہی لفظ میں جواب ہے - تسلّط،ہر چیز پر تسلّط جمانا-

غزہ کی حالیہ جنگ کے آغاز کے تین دِن بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے تل ابیب میں پریس کونفرنس رکھوائی ۔ ٹائمز آف اِسرائیل   کے مطابق اُس نے عبرانی زبان میں کہا

’’میرے خیال میں اِسرائیل کے لوگوں کو اب سمجھ جانا چاہیے جو میںہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ کسی بھی صورت ِحال یا کسی بھی معاہدے کے تحت ہم دریائے اُردن کے مغربی علاقے کی سیکیورٹی نہیں چھوڑ سکتے -‘‘

چنانچہ آج  جوکچھ فلسطین میں ہو رہا ہے وہ در اصل حماس یا کسی واقعہ کے وجہ سے نہیں ہے-یہ راکٹوں ، انسانی ڈھال (human shields) ، دہشت گردی یا سرنگوں کے متعلق نہیں ہے-یہ سب کچھ فلسطینیوں اور اُن کی زندگی پر اسرائیل کے مستقل تسلط اور قبضے کیلئے ہے- اصل میں نیتن یاہو اس اختیار اور اسے حاصل کرنے کے متعلق کہہ رہا ہے-یہ کئی عشروں سے اِسرائیلی حکومت کی پالیسی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت، خود مختاری اور اُن کی حاکمیت سمجھنے سے انکاری ہیں- جیسا کہ نیٹین یاہو کے اپنے الفاظ سے ظاہرہے کہ، بہر کیف اسرائیل فلسطین سے چاہتا ہے کہ وہ اِن کے زِیر رہے اور وہ اُن سے اِس سے کم بات کو قبول نہیں کرے گا - یہ صرف اُس فلسطینی ’ریاست‘ کو قبول کرے گا جو ایک حقیقی ریاست کے تصور سے مبّرا ہو: اِن کی سیکیورٹی ، سرحدیں، فضائی حدود، سمندری حدود، تعلقات ، وسائل حتّیٰ کہ اِن کی حاکمیت بھی اسرائیل کے پاس ہو-

نیتین یاہو نے خود کہا تھاکہ اِسرائیل نے جو کچھ کیا وہ صرف دہشت گردی کو ختم کرنے اور سرنگوں کو تباہ کرنے کیلئے کیا - جتنی بھی تباہی غزہ میں ہوئی اور انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ، اِن سب کے ذمہ دار صرف اور صرف حماس اور غزہ کے لوگ ہیںاور وہ اِن تمام مصائب کے ذمہ دارہیں جو اِن پر آپڑے ہیں- اِن کے تمام بیانات سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اِن رویوںاور اِسرائیلی حکومت کے موقف میں ’آپریشن کاسٹ لِڈ‘ سے ’آپریشن پروٹیکٹیوایج‘ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اصل میں 1947 سے کچھ بھی تبدیل نہیںہوااور نہ ہی یہ آ سکتی ہے کیونکہ تنازعہ کی وجہ ہی جب تسلُّط اور تسلُّط کو دوام بخشنا ہے تو پھر تبدیلی کیسے آسکتی ہے - لہٰذا یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ عالمی میڈیا میں صہیونی پروپیگنڈا بازوں نے جو کچھ حیلہ سازی کی ہے وہ محض ڈرامہ بازی ہے اور ’’ہوسِ تسلُّط‘‘ پہ پردہ ڈالنے کی کوشش ہے اور دُنیا کو یہ تاثر دینا ہے کہ تنازعہ حماس کا پیدا کردہ ہے - جب کہ 2014 ء کے زندہ معاشرے کا ہر شہری جانتا ہے کہ تنازعہ صرف و صرف اسرائیلی ہٹ دھرمی اور تسلط کی وجہ سے ہے -

۵- غزہ اور اِن کے لوگوں کے لئے اتنی نفرت کیوں؟

راشد خالدی نے اپنے مضمون ’’غزہ میں اجتماعی سزا‘‘(Collective Punishment in Gaza) میںجِن خیالات پر زور دیا ہے اُن کی تلخیص یا خُلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ اِسرائیل اِس وقت غزہ میں کر رہا ہے وہ ایک مجموعی و اجتماعی سزا ہے-یہ غزہ کی زیرِ حکم بستی بننے کے انکار کی سزا ہے -یہ فلسطینیوں کے متحد ہونے کی سزا ہے ، یہ حماس اور الفتح کا عشروں پرانے اختلافات بھلا کر فلسطین اور فلسطینیوں کے لئے مل کر کام کرنے کے عزم کی سزا ہے ، حماس اور دوسری تنظیموں کی جانب سے اِسرئیلی قبضے ’’عملِ اشتعال‘‘ اور پُر اَمن مظاہرین پر طاقت کے بے جا استعمال کے خلاف غیر مسلح و دیگر طرح کے ردِّ عمل کی سزا ہے - باوجود سالہا سال کی جنگ بندی کے غزہ پر سے اسرائیلی محاصرہ کبھی بھی نہیں اُٹھ سکا- فلسطینیوں کو اِن کے ہونے کی سزا ملنے کی ایک لمبی داستان ہے-یہ حماس اور اُس کے راکٹوںسے قبل کی اسرائیلی پالیسی ہے اور اس سے بھی پہلے اِسرائیل نے غزہ کوایک کھلا قید خانہ اور ہتھیاروں کے استعمال کی تجربہ گاہ بنا ڈالا- اسرائیل کا یہ رویّہ حماس کے معرضِ وجود میں آنے سے بھی قبل کا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ لوگ یہ سوال اٹھائیں کہ آخر کیا ایسے اقدامات ہوئے اور کون سے ایسے کام کئے گئے جن کی وجہ سے اہلِ فلسطین نے حماس کو معرضِ وجود میں لایا - آخر کوئی نا انصافی ، کوئی ظلم و جبر اور کوئی تو انسانی حقوق کی پامالی ایسی ہوئی ہے کہ فلسطینیوں نے ایسا تلخ و سخت قدم اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے - نیز یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کسی جگہ تو فلسطینیوں نے عالمی برادری کی آنکھوں میں اپنے لئے ’’اجنبیت‘‘ دیکھی ہے کہ انہیں یہ یقین ہو گیا ہے کہ باہر سے کوئی مدد کرنے والا نہیں آئے گا ہمیں خود ہی اپنی زمین ، باپ دادا کی ہڈیوں اور بالخصوص ’’القدس شریف‘‘ کے تحفظ کی خاطر حماس بنانا ہو گی - آخر ظلم کی بھی تو کوئی حدد ہوتی ہے ذرا غور سے دیکھیں یہ کب سے ہوتا آرہا ہے ؟ اور کس کس طرح ہوتا آرہا ہے ؟ آخر کون ، کب تک اور کتنا برداشت کر سکتا ہے ؟

1948ئمیںاِسرائیل نے ہزاروں معصوموں کی جان لی، اور لوگوں میںخوف وہراس پھیلایااورلاکھوں کو بے دخل کیا،اور اُس زمین پر اپنی ایک نام نہاد یہودی اکثریتی ریاست بنائی جب کہ وہاں اُس وقت پینسٹھ فی صد عرب آباد تھے-1967 میںاسرائیل نے مزید لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر کیااور اُن کے علاقے پر قبضہ کیا جہاں سینتالیس سال بعد بھی تسلّط جمایا ہوا ہے -

1982 میں فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن اورفلسطینیوں کی قومیت ختم کرنے کیلئے اِسرائیل نے لبنان پر حملہ کرکے سترہ ہزار افراد کو قتل کر دیا جن میں بیشتر عام شہری تھے-انیس سو اسی(1980) کی دہائی کے آخری حصے میں جب مظلوم فلسطینی اٹھ کھڑے ہوئے اور اسرائیلیوں پر پتھراؤ اور عام ہڑتالوںکا سلسلہ شروع کیا تو اسرائیل نے ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو گرفتار کیا ، 1967 سے ساڑھے سات لاکھ سے زائد افراد اِسرائیلی جیلوں میں وقت گزار چکے ہیں جو آج کے حساب سے کُل مردوں کی آبادی کا چالیس فی صدبنتا ہے- اُن پر ہر لحاظ سے تشدد کیا گیاجو اِنسانی حقوق کے گروپ بیتسلم (B'tselem) نے بھی ثابت کیا-

دوسری انتفادہ کے دوران ،جو(2000) میںشروع ہوئی، اِسرائیل نے مغربی کنارہ پر دوبارہ حملہ کر دیا(جو کبھی مکمل طور پر چھوڑا ہی نہیں گیا تھا)- 1990 کی دہائی سے لے کر آج تک امن عمل (peace process)کے دوران اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی زمین پرقبضہ اور آباد کاریاں جاری ہیںاور ابھی تک امریکہ میں بجائے اِسرائیل کے مستقل جابرانہ کردار پر بات چیت کرنے کے اِسرائیل کے اپنے دفاع اور فلسطینیوں کی تکالیف اور اذیت کی وجہ اُن کا اپنا کردار ٹھہرانے تک محدود رہا ہے-

پچھلے سات سال سے بھی زیادہ عرصہ سے ، اِسرائیل نے غزہ کی پٹی کو ایک محاصرے میں رکھ کر مسلسل حملوں کے عذاب میںمبتلا کر رکھاہے- اِسرائیل فلسطینیوںپر الزام لگانے کے بہانے ڈھونڈ تاہے کبھی کہتا ہے کہ اِنہوںنے حماس کو چنُا اور ہماری باتوں کو ماننے سے اِنکاری ہیں، اِنہوں نے راکٹ برسائے، انہوں نے محاصرہ سے نکلنے کیلئے  سُرنگیں بنائیںوغیرہ وغیرہ- اِسرائیلیوں کا ہر بہانہ ایک دھوکا ہے اور ایک وجہ سچائی کو چھپانا بھی ہے- آخر کیا ہو گا جب چار سو مربع میل علاقہ پرجو نیو یارک شہر کا تیسراحصہ بنتاہے ، ۸۔۱ ملین(اٹھارہ لاکھ) لوگوں کو قید کیا جائے ، جس کے ساتھ ان کو سرحدوں پر کوئی اختیارات نہ ہوں، اور ماہی گیروں کو سمندر تک رسائی میسر نہ ہو (اوسلو اکارڈز ((Oslo accordsنے بیس کلو میٹر میں سے تین کی اجازت دی)، باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو اور دن رات ڈرون(Drones) کی بھنبھناہٹ کانوں میں گونجتی رہتی ہو،-آخر کار یہ بستی جوابی کاروائی کرے گی-

مآخذاور نتائج:-

جب عرب دنیا میں اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے اور اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں تو ذہن میں سب سے پہلی یہی سوچ  آتی ہے کہ عرب ممالک کب اس کا سدِّ باب کریں گے- چار سو مربع میل کے علاقے اور1.8  ملین لوگوں پر مشتمل غزہ کی پٹی اس المیہ سے دوچار ہے  جہاں آدھے سے زیادہ تعداد بچوں اور بوڑھوں کی ہے لیکن کسی بھی عرب ملک نے درست مؤقف اور راست اقدام اختیار نہیں کیا اورنہ ہی اس تنازعہ کو ختم کرنے کیلئے کوئی اٹھ کھڑا ہوا ہے -اگرچہ اس معاملے پر عرب تنظیموں نے اجلاس بلانے اور اقدامات کرنے کیلئے پلان بنائے مگر کسی نے عملاََ کچھ نہیں کیا - مصر نے کوئی قدم نہیں اٹھایا جو کہ سب سے قریب اور سیاسی طور پر سب سے اہم ہے، بلکہ اس سے بدتر کہ اس نے رفاہ کو جانے والی سرنگیں بھی تباہ کر دی ہیں جو محصو ر غزہ کے لئے لائف لائن کی حیثیت رکھتی تھیں-ان سرنگوں کے ذریعے مصر اور دوسرے ممالک سے اہلیان غزہ کو کھانے پینے کی اشیاء ، ادویات ، اور ضروریات زندگی کی دوسری اہم اشیاء بھجوائی جاتی تھیں-السیسی کی حکومت نے اسرائیل کے دباؤ پر ان سرنگوں میں پانی بھر دیا ہے-

دوسرے امیر عرب ممالک غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی اور اسے تباہ و برباد ہوتا دیکھ رہے ہیں اور اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں-

لگتا ہے کہ ان رویوں کے پیچھے انسانیت اور انصاف کے بجائے فرقہ بندی کی سوچ کار فرما ہے-غزہ سے جوابی کاروائیاں حماس کی جانب سے ہو رہی ہیں جو کہ ایک سنی تحریک ہے-بعض نمایاں عرب ممالک کے خیال میں غزہ کی حماس، مصر کی اخوان المسلمون (Muslim Brotherhood) کی دوسری شکل ہے- پچھلے دو سالوں سے عرب کی ’’سخت گیر سُنّی‘‘ حکومتیں’’نرم سنی‘‘ اخوان المسلمون کے خلاف ہیں چاہے وہ مصر میں ہو یا کہیں بھی اور - یہ خطرناک صورتحال ہے اور ہو سکتا ہے کہ بد قسمتی سے یہ سارے مشرق وسطیٰ کی تقسیم اور بطور خاص شیعہ سنی دھڑے بننے کا باعث بن جائے-مذ ہبی بنیادوں پر ہونے والی تباہی کا اندازہ یورپ میں قرون وسطیٰ میں ہونے والی جنگوں کے اثرات سے لگایا جا سکتا ہے اور اس خطرناک رجحان کا ہر قیمت پر سد باب کرنا ہو گا-

یورپ کا رویہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے-ان کی سیاسی چالوں سے ایک بات عیاں ہے کہ انکے بیشتر ممالک مثلاً انگلینڈ، فرانس، اٹلی، جرمنی   وغیرہ نے اپنے ماضی کے نوآبادیاتی نظام کو ابھی تک نہیں بھلایا-آجکل انیسویں صدی کی طرح کسی ملک پر براہِ راست حملہ اور قبضہ کرنے کا رجحان  نہیں رہ گیا لیکن اکیسویں صدی میں نئے اور اچھوتے طریقہ کار آزمائے جا رہے ہیں اور بنیادی طور پر اس کے دو راستے ہیں:

پہلا راستہ ایک مقا می ریاست کے ذریعے جو کہ سامراجی طاقت کے ایجنٹ کے طور پر کام کر سکے اور بہت بڑے پیمانے پر سیا سی او ر معاشی فوا ئد پہنچا سکے، اسرائیل اس منظر نامے پر مکمل طور پر پورا اترتا ہے-

دوسرا یہ کہ ملک کے اندر مقامی گروہ متحرک کئے جا ئیں اور ان کی پرا پیگنڈہ مہم کی مالی اور فوجی امداد یقینی بنائی جائے اور ملک کو اتنا کمزور بنا دیا جائے کہ یہ غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جائے اور عرب سپرنگ (Arab Spring) کے بعد سے حالات اس دوسری صورتحال کی جانب بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں-

یورپ کے مغربی ممالک ’’دفاع‘‘ اور ’’سیکیورٹی ‘‘ کی پالیسی کے بہا نے اسرائیل کی ہر طرح کی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں،صرف گنتی کے چند  دانشور، کارکن اور با ضمیر لوگ غزہ میں اسرائیل کے طاقت کے استعمال اور ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھاتے نظر آ رہے ہیں-

ایک ایسی شخصیت برطانیہ کی ایک منسٹر تھیں جنہوں نے ’’ اسرائیل کی طرف سے ہزاروں معصوم شہریوں کے بے دریغ قتل پر اپنی حکومت کے ناقابلِ دفاع رویے پر‘‘ احتجاجاََ استعفیٰ دے دیا- پرائم منسٹر ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کے نا قابلِ دفاع رویے پر جو اس نے اسرائیل کے لئے اپنا رکھا ہے، برٹش کیبنٹ میں آ نے والی پہلی پاکستانی نژاد مسلمان خاتون نے 5 اگست کو مستعفی ہونے کا اعلان کر د یا-

دفترِ خارجہ میں مذہب اور کمیونٹی کی وزیر لیڈی سعیدہ وارثی نے اس بنیاد پر استعفیٰ دیا کہ برطانوی حکومت نے اسرائیل کے بے جا طاقت کے استعمال پر منا سب رد عمل نہیں دیا جس میں 67 اسرائیلی اور 1867 فلسطینی باشندے مارے جا چکے ہیں-انھوں نے اسرائیل کے غزہ میں اقوامِ متحدہ کے سکولوں اور ہسپتالوں پر حملے پر سخت نا پسندیدگی کا اظہار کیا کہ جہاں لوگوں کو بمباری سے پہلے گھروں سے نکلنے تک کا وقت نہیں دیا جاتا- انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی پر انہوں نے برطانوی حکومت کے موجودہ رویے پر بھی سخت تنقید کی ہے-

مغربی ممالک کے اسرائیل کے بارے میں خاموش رویہ اور در پردہ ساتھ اُن کے اپنے اطمینان کیلئے ہے:

(۱) وہ (مغربی ممالک ) چاہتے ہیں کہ مغرب میں رہنے والے یہودی یورپ کی بجائے اسرائیل میں جا کر آباد ہوں-یورپی لوگوں کی یہ پرانی اور تاریخی سوچ ہے جس کا  باقاعدہ اور بدترین اظہار دوسری جنگ عظیم میں کیا گیا تھا-

(۲) یورپی ممالک مشرق وسطیٰ کو اپنی نو آبادیات کی طرح ان پر اثر رسوخ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے توانائی کے ذخائر پر قبضہ قائم رہے-جو کچھ ہم   دیکھ رہے ہیں یہ در پردہ انہی نتائج کو حاصل کرنے کے حیلے ہیں-

(۳) یورپ کو مشرق وسطیٰ کے توانائی کے ذخائر اور کاروباری راستے(trade routes) قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے -یہ ’’یوریشیا‘‘ (Eurosia) کا راستہ ہے جو کہ اکیسویں صدی کی تمام پالیسیوں کا ہدف ہے-

ان سیاق و سباق میں غزہ کے قریب دریافت ہونے والے قدرتی گیس کے نئے ذخائر اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر اپنے غاصبانہ قبضے کو مضبوط بنانے کا جواز فراہم کر رہے ہیں گا اور یہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اہلیان غزہ کو وہاں سے نکالا جائے تاکہ آزادی سے وہاں ڈرلنگ  (Drilling) کا آغاز کیا جائے - مزید تفصیلات کے لئے اس موضوع سے متعلق تازہ ترین سامنے آنے والی معلومات کو بغور پڑھنا اور ان کا تجزیہ کرنا چاہیے( جس کا تفصیلی تجزیہ مسلم انسٹیٹیوٹ میں ہمارے کولیگ باسط ضیأ شیخ نے بھی اپنے تحقیقی مضمون ’’ غزہ بُحران : قدرتی گیس کے زاویے سے‘‘ (Palestinian Conflict; The Natural Gas Twist) میں کیا ہے ) - ان معلومات کا تجزیّہ کر کے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسرائیل کی دِلی تمنّا ہی یہ ہے کہ ’’ فلسطینیوں کو ان کی زمین اور وسائل سے محروم کیا جائے او ر ان کا استحصال کیا جائے جس کے نتیجے میں فلسطین کی اقتصادی ترقی کو روکا جائے-تمام باضابطہ معاہدوں کے برعکس اسرائیل نے زمینی وسائل پانی، ساحلی، سمندری ، ہائیڈروکاربن غرض تمام قدرتی وسائل کو اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے جن پر فلسطینی اتھارٹی کا اختیار برائے نام ہی ہے ‘‘-اس سے واضح ہوتا ہے کہ “Operation Cast Lead” کے دوران اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کو پیروں تلے روندتے ہوئے فلسطین کے گیس کے ذخائر پر طاقت کے زور سے قبضہ کیا-

اسرائیل غزہ کے لوگوں سے ان کے بنیادی انسانی حقوق چھین کر او ر ان پر ان کی اپنی ہی سرزمین تنگ کر تے ہوئے ان سے ہر قسم اور ہر طرح کی  بات چیت کرنے سے انکار کر رہا ہے -

اسرائیل ہمیشہ ’’یہود دشمنی‘‘(anti-semetism) کے الزام کا ہتھیار استعمال کر تے ہوئے دانشورو ں اور اصل حقائق سے واقف لوگوں کو خاموش کروا رہا ہے - ایک ہفتہ قبل اصل حقائق اور معاملات کو قریب سے دیکھنے والے ایک شخص نے رپورٹ لکھی-امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر اور آئرلینڈ کے صدر میری رابنسن نے کچھ بزرگ دانشوروں کے ساتھ غزہ کی موجودہ صورتحال پر ایک رپورٹ ’’دی ایلڈر ز- اے گروپ آف ایلڈر سٹیٹس من ‘‘   (the Elders -a group of elder statesmen)لکھی اور اس کے آخر میں مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے گئے:

’’ابتدائی مقصد غزہ میں اسرائیل، سمندر، اور مصر کے راستے لوگوں اور ساز و سامان کی آزادانہ ترسیل ہونی چاہیے-امریکہ اور یورپ کو جان جانا چاہیے کہ حماس نہ صرف ایک عسکری دھڑا ہے بلکہ فلسطین کی سیاسی طاقت بھی ہے-نہ تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ اس سے اس کے اپنے ہی خاتمے کیلئے تعاون کرنے کی امید رکھی جا سکتی ہے-یہ فلسطین کے لوگوں کی معقول تعداد کی نمائندہ جماعت ہے اور اس کی اس جائز سیاسی حیثیت و اہمیت کو تسلیم کئے بغیر اہل مغرب اس سے یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہتھیار ڈال دیں-2006ء کے بین الاقوامی نگرانی میں کئے گئے الیکشن کے نتیجے میں حماس فلسطین میں طاقت بن کر ابھری، اس کے بعد سے مغربی طاقتوں کے رویوں نے صاف طور پر الٹا اثر کیا - بہر حال امن کے لئے اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے-‘‘……’’اِسرائیل ، فلسطین ، اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے راہنماؤں کو جان لینا چاہیے کہ پالیسیوں میں اس قسم کی  تبدیلیاں ان کی ممکنہ پہنچ میں ہیں جو اسرائیل اور فلسطین کو قریب لا سکتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ مقدس سر زمین پر ایک دن ہمیشہ کے لئے (پُر امن) خاموشی  ہو جائے-‘‘

غزہ اور وہاں کے لوگ اپنے حقوق اور اپنی زمین کا تحفظ کرنے میں ضرور کامیاب ہوں گے-

(ترجمہ : ایم اے خان - یو کے)

٭٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر