غزہ کا حالیہ بحران اور عالمِ اسلام کی ذِمہ داری

غزہ کا حالیہ بحران اور عالمِ اسلام کی ذِمہ داری

غزہ کا حالیہ بحران اور عالمِ اسلام کی ذِمہ داری

مصنف: عزت مآب الشافی احمدمحمد(سفیرِسوڈان برائے پاکستان) ستمبر 2014

 تمام اِنسانیت اور اُمت ِمسلمہ کے لئے انتہائی غمگین اَمر ہے کہ غزہ میں معصوم فلسطینیوں پربد ترین مظالم ڈھائے جا ر ہے ہیں-اسرائیل کی جانب سے ڈھایا جانے والا تشدد باعثِ افسوس ہے-یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے بلکہ غزہ میںیہ حملے آئے روز کا معمول ہیںلیکن اس مرتبہ یہ حملہ بڑے اور وسیع پیمانے پر کیا گیا ہے - یہ امتِ مسلمہ اور ہر امن پسند و اِنسانیت پسند انسان کے نزدیک قابِل مذمت فعل ہے-اِن سب کوغزہ پر حملے اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے وہاں کے معصوم لوگوں پر ہونے والے پُر تشدد حملوں کے خلاف کھڑا ہوجانا چاہیے-

عالمی برادری کو بھی اس مسئلہ کو زیر غور لاتے ہوئے غزہ پر ہونے والے اسرائیلی حملوںکو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے- فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ناجائز اور غیر قانونی ہے اور اسرائیل ایک قابض قوت ہے-تمام عالمی قواعد و ْضوابط کے تحت شہید ہونے والے فلسطینیوں کی موت کا ذمہ دار اسرائیل ہے کیونکہ یہ ایک غاصب قوت ہے اور فلسطینی اپنی ہی سر زمین پر ایک قابض قوت کے زیرِ اثر بد ترین زندگی گزار رہے ہیں- عالمی برادری کوان معصوم لوگوں پر ہونے والے پُر تشدد حملوں کو روکنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے-غزہ ایک باریک پٹی ہے جہاں ڈیڑھ ملین سے زائد لوگ آ باد ہیںہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر طرف سے اسرائیل کے ہوائی، زمینی اور سمندری حملوں کا مقصد غزہ کے معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانا اور اُن کی زندگیوں کو تبا ہ کرنا ہے-یہ صورتحال قطعاًناقابلِ قبول ہے اور تمام دُنیا کو اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اِس متکبرانہ اور جاہلانہ طرزِ عمل کو روکناچاہیے-

 یہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں مسلمان روزے رکھ رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طلبگار ہوتے ہیں-فلسطین میں بھی ہمارے بہن بھائی روزے رکھ رہے تھے جب افطار کا وقت آتا تو ہم کھجوروں اور مشروبات کے ساتھ افطار کی تیاری کرتے جبکہ غزہ میں ہمارے بہن بھائیوں پر افطار کے وقت آگ اور بم برسائے جاتے -ان حالات میں ہم تمام مسلمانوںبالخصوص حکمرانون کو حرکت میں آنا چاہئے، ایسی صورت حال میں اسرائیل کے لیے صر ف چند مذمتی الفاظ اور بیان کافی نہیں،مسلمان حکمرانوں کو اسرائیل اور اس کے حامیوں پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ ہم بحیثیت مسلمان اسرائیل کے اس رویے کے اِن جارحانہ اقدامات کے سخت خلاف ہیں اور اسے روکنے کیلئے اسرائیل اور اُس کے حامیو ں کے خلاف عملی اقدامات کریں گے اور ان سب سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر دیں گے- یہ واقعی بہت بڑی بدقسمتی ہے اور ہمیں فقط اتنا کہہ کر معاملہ ختم نہیں کر دینا چاہئے کہ ہم افسوس کے ساتھ اظہارِ مذمت کرتے ہیں-امتِ مسلمہ کو تمام ممالک میں پُر امن طریقے سے احتجاج کرنے چاہئیںتا کہ مسلم ممالک کے سربراہان پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ اس مسئلہ پر ایک واضح موقف کے ساتھ مضبوط پوزیشن لیں-ہمارے صحافیوں، ا سکالرز اور دیگر لوگو ں کو اس ضمن میں فعال ہونا چاہئے اور کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ غزہ یا فلسطین کی نہیں بلکہ پوری اُمت کی جنگ ہے- غزہ کے بھائیوں کے لئے ہماراپیغام ہے کہ ہم سب ان کے لیے دعا گو ہیںکہ اللہ ان کی مدد اور حفاظت فرمائے-وقت آگیا ہے کہ تمام فلسطینیوں ، اُمتِ مسلمہ کے سربراہان اور اُمراء کو متحد ہو جانا چاہئے کیونکہ اسرائیل حماس ، الفتح اور الجہاد میں فرق کئے بغیر تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے- ایک عام مسلمان سے لیکر بادشاہوں تک،وہ سب کو دہشتگرد ہی گردانتا ہے- ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اگر اسرائیل آج حماس اور فلسطین کے لوگوں کو ختم کر رہا ہے تواگلی باری ہمسایہ اِسلامی ممالک کی ہو گی اور اسرائیل کا یہ فساد مصر سے لے کر سعودی عرب تک پورے خطے میں پھیل جائے گا اور کوئی بھی مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت نہیں کر سکے گاجس کی تصاویر ہم سب بڑی محبت کے ساتھ اپنے پاس رکھتے ہیں- ہمیں ان حقائق کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے- ہمارے تمام فلسطینی بھائیوں، حماس ، الفتح اور الجہاد کو ا ختلافات بھلا کر یکجا ہونا چاہیے- صیہونیت اور اسرائیل کے خلاف یہ ایک بہت بڑی جدو جہد ہے اور کسی بھی چیز کواس دوران فلسطینیوں کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے- اگر فلسطینی اکٹھے ہو جائیں اور تمام امتِ مسلمہ بھی اُن کے پیچھے کھڑی ہو جائے تو تمام اِنسانیت فلسطینیوں کے پیچھے کھڑی ہو جائے گی اور پھر اسرائیل نہ صرف فوجی بلکہ اخلاقی طور پر بھی یہ جنگ ہار جائے گا-

(ترجمہ : عثمان حسن)

٭٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر