انیسویں صدی میں فلسطین کثیر ثقافتی آبادی پر مشتمل تھا جس میں 86% مسلم10% عیسائی اور 4% یہودی امن کے ساتھ رہ رہے تھے- انتہاء پسند صیہونیوں (Zionists) نے یہودیوں کے لئے علیحدہ ناجائز ریاست بنانے کا فیصلہ کیا جس پرانیسویں صدی کے اختتام میں یہودی طے شدہ منصوبہ کے تحت فلسطین میں منتقل ہونا شروع ہوگئے -برطانیہ ،جس کا اُس وقت فلسطین پر کنٹرول تھا، نے انہیں ہجرت کی اجازت دے دی اوران کی آمد مقامی باشندوں کے لئے پریشانی اور سخت کشیدگی کا باعث بنی-
پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ برطانیہ نے عرب حکمرانوں کو 1916ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت پہ آمادہ کر لیا جس کے بدلے میں اُن کے ساتھ آزاد عرب ریاست بشمول فلسطین کا وعدہ کیا گیا جب کہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالفور اعلامیہ(Balfour Declaration ) 1917ئمیں فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیاگیا - 1920میں نو آبادیاتی طاقتوں نے خلافتِ عثمانیہ کو مختلف ریاستوں میں بانٹ دیا اور اثاثوں کو لوٹ لیاجب جرمنی میں ہٹلر نے طاقت حاصل کی تو یہودی جرمن نازیوں کے تشدد کا نشانہ بنے- مؤرخین کے مطابق 60لاکھ یہودی اس ہو لو کاسٹ میں لقمۂ اَجل بنے -
جنگِ عظیم دوم کے بعد اقوامِ متحدہ نے صہیونیوں کے دبائو کی وجہ سے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے اور یروشلم کو اقوامِ متحدہ کی زیرنگرانی عالمی انتظام کے حوالے کرنے کی تجاویز پیش کیں- یہودی اقلیت کو57% فیصد اور مسلمان اکثریت کو43% فیصد زمین ملنا تھی-اِن تجاویز کی امریکہ سے منظوری کے بعد 14مئی 1948ء کو اسرئیلی ریاست کے قیام کا دعویٰ کیا گیا،علیحدگی کے اِس منصوبہ اور اسرائیل کے قیام کو عرب ریاستوں نے مسترد کر دیا جس کی وجہ سے 1948میں عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی -عراق ،شام،لبنان ،اُردن، یمن اور سعودی عرب کی مشترکہ ا فواج کو شکست ہوئی اور اسرائیلی فوج نے78%فلسطینی علاقے پر قبضہ کر لیا-
750,000فلسطینیوں کو نکال کر پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا گیا -اُن میں سے20لاکھ اُردن میں 4,27,057لبنان میں 47,770 شام میں 788,108مغربی کنارہ میں 11,00,000غزہ میں اور 2,50,000 اسرائیل میں بے گھر ہوئے- 500قصبوں اور دیہاتوں کو کو خالی کروا کر تباہ کیا گیا 1956میں برطانیہ ،فرانس اور اسرائیل کی فوجوں نے مصر پر حملہ کیا کیونکہ جمال عبد الناصر نے نہر سوئز کی نیشنلائزیشن کی اگرچہ مصر کوشکست ہوئی لیکن عالمی دبائو کے باعث حملہ آوروں کو انخلا کرنا پڑا -1967 میں چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے شام کی گولان کی چوٹیوں، اُردن کا مغربی کنارہ اور مصرسے غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا تب سے یہ علاقے اسرائیلی فوجی قبضہ میں ہیں- 1973 میں اسرائیل نے سینائی پر قبضہ کرلیا لیکن کیمپ ڈیوڈ معاہدے (Camp David Accord)کے تحت 1978میں مصر کو واپس کر دیا- 1970میں لبنان میں حزب اللہ کے ایک طاقت ور گروپ کے طور پر سامنے آنے اور (Palastine Liberation Organization ) کے بیروت میں ہیڈ کوارٹرکے قیام پر اسرائیل نے 1982 میں لبنان پر حملہ کیا اور حزب اللہ PLO کے بنیادی ڈھانچہ کو تباہ کردیا- اسی دوران مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں میں انتفادہ کی تحریک کا آغاز ہو ا -اسرائیلی فوج نے ہزاروں پتھر اٹھائے نوجوان فلسطینیوں کو شہید کر دیا-
1993میں امریکہ کی ثالثی میں اوسلو امن معاہدہ طے پایا اسرائیل نے PLOکو تسلیم کر لیا او راسے محدود خود مختا ری دے دی- غزہ کو نوزائیدہ فلسطینی اتھارٹی PAکے سپرد کردیا گیا اس معاہدہ کا اصل مقصد انتفادہ کی تحریک کو ختم کرنا تھا جس کے باعث اسرائیل بدنام ہو رہا تھا، اِس معاہد ہ سے اسرائیل کو فلسطین میں زمین، پانی اور دیگر وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے میںآسانی ہوئی- 1994میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے جزوی طور پر انخلاء کیا اور 2000 میں لبنان سے انخلا کیا-البتہ اس نے نئی بستیاں آباد کرنے کی حکمت عملی جار ی رکھی اور 2002/2003 میں حفاظتی باڑ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ حماس او رنمایاں فلسطینیوںکے قتل کی مہم کا بھی آغاز کر دیا-
نومبر 2004 میں پُر اَسرار حالات میں یاسر عرفات کی موت کے بعد محمود عباس PLOکے چئیرمین اور بعد میںPAکے صدر بن گئے- ستمبر 2005 میں اسرائیلی فوجیوں نے غزہ سے مکمل طور پر انخلاء کر لیا- جنوری 2006 میں حماس نے انتخابات جیت لئے اور الفتح کی گورنمنٹ کو معزول کر دیا جو اس کے بعد غیر مقبول ہو گئی- اس وجہ سے لڑائی کا آغاز ہو گیا اور جون 2007میں حماس کے جنگجوئوں نے غزہ پر کنٹرول حاصل لیا اوررحکومت تشکیل دے دی تل ابیب نے حماس کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور حماس کی تحریک اور ضروریات زندگی کی ترسیل کے گرد گھیرا تنگ کر دیا- امریکہ اور مغرب نے اسرائیل کے نقطۂ نظر کے تائید کرتے ہوئے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا پھر اسرائیل نے محمود عباس کی زیرِ قیادت الفتح اور حماس میں دوری پیدا کرنے کی کوشش کی نیتجتاََ محمود عباس کی قیادت میںا لفتح نے اسرائیل کے زیرِ کنٹرول مغربی کنارہ پر حکومت قائم کرلی-
تب سے غزہ کی پٹی پہ بسنے والے17 لاکھ فلسطینی اسرائیل کے فوجی اور معاشی محاصرہ میں آگئے حتیٰ کہ امریکہ / اسرائیل نواز مصر بھی حسنی مبارک کی قیادت میں محاصرہ کا حصہ بن گیا- تل ابیب نے اوسلو کے معاہدہ کی پاسداری سے انکار کر دیا جس کے تحت فلسطینیوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ غزہ اور مغربی کنارہ پر آزادحکومت بنائیں جس کا دارلحکومت یروشلم ہو - دو ریاستوں کے قیام کا فارمولا گریٹر اسرائیل (Greater Israel)کے ماسٹر پلان کے حق میں نہیں تھا- 10,000 فلسطینیوں مرد ،عورتیں اور بچے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں ،اُن پر جسمانی تشدد روزانہ کا معمول ہے ،پنا ہ گزینون کو اپنے گھروں میں جانے کی اجازت نہیں-جس زمین پر یہودی بستیاں آباد ہوگئیں وہ عظیم سرزمین بن گئی، پانی کے وسائل پر اسرائیل کا قبضہ ہے، رابرٹ فسک (Robert Fisk) کے مطابق مستقبل میں فلسطینی ریاست کی کوئی سرحد نہیں ہوگی بلکہ یہ اسرائیل کے اندر ہی ایک علاقہ ہو گا-
غزہ پر متعدد بار ہوائی توپ خانہ سے حملے کئے گئے او زمینی جارحیت بھی کی گئی تاکہ حماس کی حکومت کو ناکام بنایا جائے - اسرائیلی فوجوں نے 2008/09, 2007 آپریشنCast Lead اور2012 میں آپریشن Pillar of Defence میں ظالمانہ جارحیت کا ارتکاب کیا- ہر جارحیت میں غزہ کے سینکڑوں لوگ شہید ہوئے ،مصر نے غزہ کے لوگوں کے مصائب میں اضافہ کرتے ہوئے رفاہ کراسنگ اور خفیہ سرنگ، جو سنائی میں کھلتی تھی، ان کو تباہ کردیا- دونوں کے مابین صرف اخوان المسلمون کے محمد مُرسی کی حکومت کے دوران، جون 2012 سے جولائی 2013 تک، دوستانہ مراسم قائم رہے جس نے نومبر 2012 میں جنگ بندی میں مدد کی لیکن مرسی کی حکومت کی معزولی اور ایک اسرائیل نواز حکومت کا آناحماس کے لئے بڑے نقصان کا باعث بنا -ایران نے حماس کی دفاعی قابلیت کے لئے راکٹ فراہم کر کے مددکی -2006 میں لبنان پر اسرائیلی حملے میں حزب اللہ اور حماس کے اتحاد نے اسرائیل کو پہلی مرتبہ دفاع پر مجبور کیا-
2012 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو اقوام متحدہ میں observer entity' سےnon-member state' کہ درجہ پر ترقی دے دی ، جس کا مطلب در حقیقت فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنا تھا -23 اپریل 2014کو الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمتی معاہدہ طے پایا جس میں دونوں مخالف گروپ اتحاد اور ایک عبوری خود مختار حکومت کے قیام پر متفق ہوئے جو انتخابات کا انعقاد کروائے گی چنانچہ سات سالہ دشمنی کا اختتام ہوا جو اسرائیل کے حق میں نہیں تھی- 29 مئی 2014 کو صدر محمود عباس نے اسرائیلی پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وزیراعظم رامی حمداللہ کو دعوت دی کہ وہ قومی اتحادی حکومت کی سربراہی کریں اور طویل عرصہ سے منتظر اتحادی حکومت نے 2 جون 2014کو ’’ رَمَلَّہ ‘‘میں حلف اٹھایا -غز ہ کے وزیراعظم اسماعیل ہانیہ اور ان کی کابینہ مستعفٰی ہوگئے اور الفتح اور حماس کی باہمی مشاورت سے آزاد ممبران پر مشتمل17 رکنی کابینہ منتخب کی گئی اگرچہ مفاہمتی معاہدہ طے پا گیا ہے لیکن پھر بھی حماس اور مغربی کنارہ کی قیادت میں خلفشار باقی ہے-
اسرائیل جس کو ایک منصوبے کے تحت مسلم سرزمین پر قائم کیا گیا وہ حماس اور الفتح کے اتحاد پر بہت نالاں ہے اور اس کے بدلے میں اس نے مغربی کنارے اور نیو یروشلم میں ۱۵۰۰ نئی آبادکاریاں کی ہیں- اسرائیل اس کوشش میں ہے کہ وہ اس اتحاد کو ختم کر کے دشمنی میں بدل سکے- ۱۲جون ۲۰۱۴ء کو تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور قتل کا الزام حماس پر لگاتے ہوئے اسرائیلی پولیس نے۳ جولائی کو مشرقی یروشلم سے ۱۵ سالہ فلسطینی طارق ابو خدائر کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا اور ۴ جولائی کو اس کے ایک کزن محمد ابو خدائرکو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جس کو بعد میں تین اسرائیلی نوجوانوں نے شہیدکر دیا - ۴۶۰ سے زائد فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم سے شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا اور ان کو جیل بھیج کر ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا- ایک انفرادی جرم ،جو کہ واضح نہیں کہ کس نے کیا ہے ،اس کی سزا ۷۔۱ملین فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر دی گئی- اسرئیلی سوشل میڈیا پر یہودی لڑکوں اور لڑکیوں نے فلسطینیوں کے قتل کی مہم بھی شروع کی-
اِن مظالم کے سبب حماس کے مسلح وِنگ نے اسرائیل کے جنوبی شہروں بشمول اشدود پر احتجاج کے طور پر میزائل داغے جس کے ردِعمل میں اسرائیل کی دفاعی افواج نے یکم جولائی کو غزہ کی پٹی پر حماس کے پندرہ ٹھکانوںپر فضائی حملے کئے-آٹھ جولائی کے بعد اسرائیل نے۲۰۱۲ کی جنگ بندی کے معاہدے کو توڑ دیا اورProtective Edge کے نام سے آپریشن شروع کیا-سولہ جولائی تک تیرہ سو فضائی حملوں میں دو سو بیس فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد عورتوں،بچوں ،اور معذور افرادکی ہے- زخمیوں کی تعداد بارہ سو پچاس جبکہ پانچ سو مکانات تباہ ہوئے ہیں -حماس کے گھر ترجیحی نشانہ پر ہیں-ستتر فیصد سے زیادہ اَموات بے گناہ شہریوں کی بتائی جاتی ہیںلیکن باقی ۲۳فیصد کو کس قانون کے تحت گناہ گار ٹھہرایا جا رہا ہے اس پر بھی سوالیہ نشان ہے-
یہ گزشتہ دو سال کی بد ترین بربریت ہے اوریقینا حماس اور الفتح کے درمیان ہونے والی مصالحت کا ردِعمل ہے-اسرائیلی قیادت، خاص طور پر وزیرِ دفاع موشے یآلون(Moshe Ya'alon) مستقبل، میں میزائل حملوں کو روکنے کے لئے حماس کے پورے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا چاہتی ہے اور انہوں نے زمینی کاروائی کی منصوبہ بندی بھی کر رکھی ہے-Dani Dayan نے حکومت پرزور دیا کہ وہ غزہ کی بجلی اور تیل کی ترسیل منسوخ کردے-نیتن یاہو نے ایک لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ کا علاقہ خالی کرنے کا کہا ہے زمینی کاروائی کے خوف سے دس ہزار فلسطینیوں نے اقوامِ متحدہ کے کیمپوں میں پناہ لے لی ہے-ہسپتالوں میں اَدویات اور طبعی آلات کی شدید کمی ہے،مسلسل بمباری پانی کا کمزور نظام بھی تبا ہ کر رہی ہے اور لاکھوں افراد پانی کی قلت کا شکار ہیں-
حماس نے اِس مدت کے دوران سات سو ستترراکٹ داغے جِن میں سے اکثریت کو اسرائیل کے میزائل شِکن نظام نے تباہ کر دیا-دُنیا بھر میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز(IDFs ) کی طرف سے غزہ کے لوگوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا گیا،مصر نے۱۵ جولائی کو حماس سے مشاورت کے بغیر فائر بندی کا فارمولا پیش کیالیکن اس معاہدے میں سمندر کی ناکہ بندی اور غزہ کے لوگوں کی طرف سے مالی اور جانی نقصان کے معاوضے کا کوئی تذکرہ نہیں تھا - اِن وجوہات کے سبب جنگ بندی کا دورانیہ صرف چھ گھنٹے تک ہی محدود رہا-حماس اوردوسرے مسلح گروہوں مثلاًاِسلامی جہاد،پاپولر فرنٹ،ڈیمو کریٹک فرنٹ کی جانب سے فلسطین کی آزادی کے لیے مسلسل راکٹ حملوں کو جواز بنا کر اسرائیل نے دوبارہ کاروائی شروع کر دی-
مغربی کنارہ،غزہ کی پٹی،اور یروشلم گزشتہ سنتالیس سال سے اسرائیلی فوج کے غیر قانونی قبضہ میں ہیں-اسرائیلی افواج گنجان آباد علاقوں جن میں پناہ گزین کیمپوں ،سکولوں،اپارٹمنٹس ،مساجداور ہسپتالوں پر بے دردی سے بمباری کر رہی ہیں،جمہوریت کے چمپئین اور انسانی حقوق منافقت میں دھنس گئے ہیںاُن کے جھوٹے اور دوہرے معیارات،ظالمانہ اسرائیلی طرزِ عمل کو جارحیت کے شکار کے طور پر تحفظ دے رہے ہیں اور اسے اپنے دفاع اور اپنے لوگوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا حوصلہ دے رہے ہیں-امریکی ایجنڈے پر چلنے والامغرب اسرائیل کی نام نہاد مظلومیت پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہا ہے-اسرائیلی اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ وہ ہر وقت داغے جانے والے راکٹوں سے بچنے کے لیے پناہ ڈھونڈتے ہیں اور اِن کے شور سے آرام سے سو نہیں سکتے-اسرائیلی اور معتصب مغرب کے مطابق اسرائیلی مقدس گائیں اور فلسطینی قابلِ ضائع اجناس کی طرح ہیں-امریکہ کے لیے اسرائیل کا تحفظ سب سے زیادہ اہم اور اوّلین ترجیح ہے-مغربی دُنیا غزہ، جو کہ ایک کھلے قید خانہ کی مانند ہے، پر اسرائیلی افواج کی جانب سے ہونے والی بمباری پر خاموش ہے اور اُس کو ہلاک ہونے والے بچے اور نوحہ خانی کرتی مائیں نظر نہیں آتیں- عالمی طاقتیں بشمول اقوامِ متحدہ حماس پر راکٹ حملوں کی روک تھام کے لئے زور دے رہی ہیں جِن کے سبب ایک اسرائیلی فوجی ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیںجبکہ وہ اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ صبروتحمل کی دست بستہ درخواست کر رہی ہیں-
امریکی قیادت اسرائیلی حکمرانوں کی طرف سے طنز اور بے عزتی کو ہنس کر برداشت کرتی ہے اورامریکہ نہ صرف فرمانبرداری سے ان کی بلیک میلنگ کی حکمت عملی کو قبول کرتا ہے بلکہ اسرائیل کے کالے کارناموں کا دِلجمعی سے دفاع کرتا ہے اور اچھے مزاج کو قائم رکھنے کی خاطر اِن کے سامنے جھکتا بھی ہے - اسرائیل کو مطمئن کرنے کی یہ پالیسی دہائیوں سے چل رہی ہے اور اِس پالیسی میں تبدیلی کا کوئی اِمکان نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل سے امریکی عوام عرصہ دراز سے تھک چکی ہے، وہ اسرائیلی حکمرانوں کے ناپسندیدہ غرور اور نارواسلوک سے نفرت کرتے ہیں اوراسرائیلی بربریت کے متأثرین کے لیے افسوس محسوس کرتے ہیں،وہ امریکی قیادت پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں کہ وہ اپنے مفادات کی پرواہ کئے بغیر اسرائیل سے احکامات لیتی ہے - انہوں نے اسرائیل کا بھیانک چہرہ دیکھ لیا ہے جو کہ انیس سو سڑسٹھ سے فلسطین پر قبضہ کیے ہوئے ہے اوروہ یہودی بستیوں کی آباد کاری کے لئے مسلسل فلسطینیوں پر مظالم کے ساتھ ساتھ فلسطینی علاقے پر قبضہ کر رہا ہے-
اب وہ سوال کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کیوں تل ابیب کے احکامات کی تابع ہے جبکہ وہ ہر سال اُسے تین بلین ڈالر امدادبھی فراہم کرتے ہیں-وہ سوال کرتے ہیں کہ اسرائیل کے بے لگام جرائم اور فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو جان بوجھ کر کیوں نظر انداز کیا جاتاہے اور اِس کی مجرمانہ کاروائیوں کی حمایت کیوں کی جاتی ہے؟ اسرائیلی مظالم کے خلاف پوری دُنیا کے تمام حلقوں سے ایسے غصہ سے بھرے جذبات سنے جا سکتے ہیں - عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیلی رہنمائوں پرجنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کی آوازیں بھی بلند ہو رہی ہیں حتٰی کہ اسرائیل میں موجود یہودی بھی اپنے حکمرانوں کی جانب سے مسلط کی گئی تشدد آمیز پالیسیوں سے رُخ پھیر رہے ہیں-یورپ میں بھی اسرائیل کی حمایت میں کمی ہو رہی ہے-
عالمی برادری کو امریکی اور یورپ کی عوام کی اِس سوچ میں تبدیلی سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور مجموعی طور پر اسرائیل پرزور دینا چاہئے کہ وہ اپنے پاگل پن کو فوری روکے اور اپنے غیر قانونی قبضے سے فلسطینی زمین کو خالی کرے اورپناہ گزین فلسطینیوں کو اُن کے اپنے گھروں میں لوٹنے کا حق دے-مسلمان حکمرانوں،او آئی سی اور عرب لیگ کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے لازمی طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے-
اِس سلسلے میں تمام مسلمان ممالک اِس مسئلہ کو اقوامِ متحدہ میں اتحادکے ساتھ اور پُر زور طریقے سے اٹھانا چاہئے-مزید برآں،جارحانہ اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب پرسب کو ساتھ ملکر عالمی عدالتِ انصاف میںجانا چاہیے-اِس کے علاوہ، پناہ گزینوں کو ہر ممکنہ امداد اور اُن کی فلاح کے لیے مخصوص فنڈبھی قائم کرنا چاہئے-
٭٭٭