{مسلم انسٹیٹیوٹ کی ریسرچ ٹیم نے مؤرخہ سترہ جولائی ۲۰۱۴ء کو مسئلہ فلسطین اور غزہ کی موجودہ صورتحال کے متعلق پاکستان میں فلسطین کے سفیر ہز ایکسیلنسی ولید ابو علی کا خصوصی انٹرویو کیا- اس کا مقصد اُن کے خیالات جاننے کے ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کو اُجاگر کرنا اور اِس کے حل کیلئے آواز بلند کرنا ہے- طویل انٹرویو کا خلاصہ درج ذیل ہے-}
پچھلی چھ(۶) دہائیوں سے جب بھی اسرائیل اور اسرائیلی حکومت مسائل کا شکار ہوتی ہے یا اندرونی بحران کا شکار ہوتی ہے ، وہ اپنے مسائل غزہ یا جنوبی لبنان میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں- اسرائیل کے خلاف ۱۹۴۸ء سے شروع ہونے والی ہماری جدوجہد آج بھی جاری ہے،ہم نے ہمیشہ اپنے حقوق کی بات کی ہے کہ ہمارے لوگ واپس آئیںاور ہم آزادی کے ساتھ ایک جمہوری فلسطینی ریاست میں رہیں ، بدقسمتی سے فلسطینیوں کو تین زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے، قریباً ڈیڑھ ملین کے قریب فلسطینی اسرائیل میں رہ رہے ہیں اور وہ اپنے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں حالانکہ وہ اسرائیلی شہریت بھی رکھتے ہیں مگر انہیں دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے - دوسرے وہ فلسطینی ہیں جو غزہ اور مغربی کنارہ بشمول یروشلم میں آباد ہیںاور اسرائیلی قبضہ کا سامنا کر رہے ہیں-تیسرا گروہ وہ ہے جو سمندر پار یعنی دُنیا بھر میں مقیم ہیں اور وہ اپنی واپسی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں تا کہ اپنے گھروں میں واپس آباد ہو سکیں، یہ جدوجہد جاری رہے گی جب تک فلسطینیوں کو اُن کے حقوق نہیں مل جاتے اور آزاد فلسطین ،جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو،کا قیام عمل میں نہیں آتا-
اسرائیل کے قیام کا منصوبہ برطانیہ نے بنایا اس سے قبل وہاں یہودی ایک اقلیت کے طور پر آباد تھے اور اُن کے ساتھ مساوی سلوک برتا جاتا تھا اور ہم نے ہمیشہ یہودیوں کو believer (اہلِ کتاب)کے طور پر تسلیم کیا اور یہاں مَیں واضح کرنا چاہوں گا کہ ہم فلسطینیوں کی جدوجہد یہودیوں کے خلاف قطعاًنہیں ہے- ہم بحیثیت مسلمان یہ مانتے ہیں کہ عیسائی اور یہودی believer (اہلِ کتاب)ہیں اور اِن کے ساتھ برابری کے ساتھ رہا جا سکتا ہے - چنانچہ ہماری جدوجہد یہودیوں کے خلاف نہیں بلکہ اسرائیل کے خلاف ہے جو کہ صیہونیت کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ در حقیقت مغربی نظریہ اور مغربی سیاسی ایجنڈا ہے اور اسرائیل اس ایجنڈا کی خطے میں نمائندگی کرتا ہے- جب یورپ میں یہودیوں کا ہولو کاسٹ کیا گیا اُس وقت یہودی نہ صرف فلسطین بلکہ دیگر عرب ممالک میں بھی رہ رہے تھے اور اُن کے ساتھ یکساں اور منصفانہ سلوک کیا جاتا تھا چنانچہ اصل مسئلہ یہودی مذہب کا نہیں بلکہ اسرائیل کا فلسطین پرغیرقانونی قبضہ کا ہے- اسرائیل نے فلسطین پر برطانیہ اور مغربی حمایت پر ۱۹۴۸ء میں قبضہ کیا اور مغربی اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل حمایت اب تک جاری ہے-اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں فلسطینی علاقہ پر دوبارہ قبضہ کیا اور اس کے خلاف ہماری جدوجہد جاری ہے- ہم نے اسرائیل کے ساتھ دو بڑی جنگوں یعنی ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء میں سامنا کیا یقینا مزاحمت کرنا اور اپنی آزادی کیلئے لڑنا فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے چاہے وہ غزہ میں ہوں یا مغربی کنارہ میں- جغرافیائی طور پر مغربی کنارہ اور غزہ میں کوئی رابطہ نہیں ہے- ۱۹۶۷ء سے قبل غزہ کی پٹی مصر کے زیرِ انتظام تھی اور مغربی کنارہ اُردن کے زیرِ انتظام تھا مگر ان دونوں میں کوئی جغرافیائی رابطہ نہیں تھا اسی لئے آج غزہ میں لاکھوں لوگ گزشتہ سات سال سے دُنیا سے الگ تھلگ یعنی کٹے ہوئے ہیں وہ اسرائیلی محاصرے میں ہیں اور اُن سے ایساسلوک کیا جاتا ہے جیسا ایک بڑے قیدخانے میں قیدیوں کے ساتھ- ڈیڑھ ملین(پندرہ لاکھ) فلسطینیوں کا باہر کی دُنیا سے کوئی رابطہ نہیں ماسوائے رفاہ کراسنگ کے جو کہ مصر کے زیرِکنٹرول ہے- اِسی طرح مغربی کنارہ کے لوگوں کا بھی باہر کی دُنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے سوائے اُردن کے بارڈر کے جہاں وہ غزہ کی نسبتاً بہتر طریقے سے آ جا سکتے ہیں-
ہم فلسطینیوں نے دو ریاستی فارمولا (Two state formula)تسلیم کیا ہے جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ تاریخی علاقہ کے کُل بائیس فیصد علاقہ پر آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا اورایک فلسطینی زیادہ سے زیادہ اتنا ہی دے سکتا ہے کہ وہ تاریخی علاقہ کے بائیس فیصد پر آمادہ ہو جائے اور یہ اِ س وجہ سے ہے کہ عالمی برادری نے فلسطینیوں پر دبائو ڈالا ہے کہ وہ یہ فارمولا تسلیم کر لیںباوجود اِس کے کہ ہم نے یہ فارمولا تسلیم کر لیا مگر اسرائیل نے تسلیم نہیں کیا- ہم نے ۱۹۶۷ء کے بارڈر کے مطابق آزاد فلسطین کا فارمولا تسلیم کیا مگر بد قسمتی سے پچھلی دو دہائیوں میں عالمی برادری، امریکہ، روس اور یورپی یونین کی اس حل کیلئے کی گئی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوگئیں کیونکہ بنجمن نیتن یاہو اور اس کی موجودہ اسرائیلی حکومت کسی بھی امن معاہدہ کے سخت خلاف ہیں جس سے فلسطین اور اسرائیل کے مابین تعلقات معمول پر آسکیں اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے اور خطے میں پائیدار امن ممکن ہو-
اگر موجودہ صورتحال پر بات کریں تو یہ انتہائی کرب ناک ہے اسرائیل کی نہایت مضبوط اور جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کی فلسطینی معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کے خلاف جارحیت کا آج دسواں روز ہے- اسرائیل عالمی برادری کو یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ فلسطینی حملوں کے خلاف فقط اپنادفاع کر رہا ہے، جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس تنازعہ کا اصل شکار کون بن رہا ہے مگر بدقسمتی سے جب اسرائیل اور فلسطین کی بات آتی ہے، عالمی برادری دوہرے معیارات اختیار کرتی ہے- غزہ میں ہمارا خون بہہ رہا ہے، روزمرہ کی زندگی متأثر ہو رہی ہے ، آج صبح کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۲۷ /افراد شہید کئے جا چکے ہیں،۱۶۸۲/زخمی ہو چکے ہیں، اسرائیل کی جانب سے ۲۳۶۸ /فضائی حملے کئے جاچکے ہیں اوراسرائیلی ایف سولہ طیّاروں کے حملوں میں۶۳۱ گھر تباہ کئے جا چکے ہیں اور صرف اس بات کا اندازہ لگائیے کہ جب کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے، یہ کیسا موازنہ ہے کہ ایک طرف ایف سولہ طیارے عمارتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور دوسری جانب ہاتھ سے بنے ہوئے راکٹ اسرائیل کی جانب پھینکے جا رہے ہیںجن کی وجہ سے اسرائیل میں نہ کوئی ہلاکت ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی شخص زخمی ہوا ہے- اسی لئے دونوں اطراف کے متأثرین کا موازنہ کیا جائے کہ کتنے اسرائیلی اور کتنے فلسطینی متأثر ہوئے ہیں تو ہمیں جواب مل جاتا ہے- مقامی طور پر نیتن یاہو الفتح اور حماس میں ہونے والی مفاہمت سے ناخوش ہے- نیتن یاہو نے اسرائیلی آبادکاروں کے لاپتہ اور بعد میںہلاک ہونے پر فلسطینیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا لیکن کوئی بھی نیتن یاہو کو ایک پندرہ سالہ فلسطینی کی ہلاکت کیلئے موردِ الزام نہیں ٹھہرا رہا جسے ایک یہودی پادری (priest)نے اغوا کیا اور پھر ہلاک کر دیا-یہ عالمی برادری کا دوہرا معیار ہے کہ اسرائیلی آبادکاروں کی ہلاکت کی مذمت کی گئی جبکہ ہم نہیں جانتے کہ انہیں کس نے ہلاک کیا ہے اور دوسری جانب پندرہ سالہ فلسطینی محمد ابو خدائر کی ہلاکت پر عالمی برادری نے چپ سادھ لی جسے اسرائیلی مذہبی شخصیت نے ہلاک کیا- اس وقت جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ریاستی دہشت گردی ہے جس کا شکار معصوم شہریوں کو بنایا جا رہا ہے- غزہ کرۂ ارض پرسب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے جس کی لمبائی شمال سے جنوب کی جانب چالیس کلومیٹر جبکہ مشرق سے مغرب کی جانب دس کلومیٹر ہے یعنی چار سو مربع کلومیٹر کے علاقہ میں ڈیڑھ ملین فلسطینی آباد ہیں چنانچہ چار فلسطینی اوسطاً ایک مربع میٹر جگہ پر آباد ہیں-ایسے میں اگر اسرائیلی ایف سولہ طیارے اوپر سے سیب اور مالٹے بھی برسائیں تو فلسطینیوں کوہلاک کیا جا سکتا ہے لیکن اسرائیل غزہ میں جدید میزائلوں اور ہتھیاروں سے معصوم فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہا ہے، اس سے غزہ کی پٹی میں ہلاکتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے-
اسرائیل شمالی غزہ میں بارڈر کے قریب کے علاقہ کو خالی کروانا چاہ رہا ہے تا کہ وہاں سے اسرائیل کے خلاف راکٹ نہ چلائے جا سکیں- چنانچہ وہ غزہ کی پٹی اور اسرائیل کی سرحد کا درمیانی علاقہ خالی کروانا چاہ رہے ہیں ،اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے عزائم میں سے ایک یہ بھی ہے، اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی مزاحمتی قوت کم سے کم ہو جائے اور اسرائیل پر راکٹ نہ داغے جا سکیں- یہ دس ہزار فلسطینی جو غزہ سے نقلِ مکانی کر رہے ہیں، یہ سکولوں میں پناہ لے رہے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ یہ موسم گرما ہے اور سکول عارضی طور پر بند ہیں جو اُن کی رہائش کا سبب ہیں اُس وقت تک جب ہم اُن کیلئے کوئی حل تلاش نہیں کرتے کہ یا تو یہ اپنے گھروں کو واپس جائیں یا کوئی اور متبادل جگہ تلاش کی جائے-
مَیں یہ بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ فلسطین کی قیادت اور عوام نے پہلے ہی روز سے عالمی برادری سے رابطہ شروع کیا خصوصاً طاقتور ممالک سے جو اسرائیل پر دبائو ڈال کر سیز فائر کروا سکیں تا کہ غزہ میں خون بہنا بند ہو اور جانوں کا ضیاء روکا جا سکے- ہمارے صدر اور دیگر قیادت نے قطر، ترکی، قاہرہ، یورپی یونین، امریکی انتظامیہ ، او آئی سی، مسلم ممالک کے ذریعے کوششیں کیں کہ کسی طرح جنگ بندی ہو اور جانوں کا ضیاع روکا جائے اور مزید معاملات بعد میں بات چیت کے ذریعے حل کئے جائیں- عرب وزرائے خارجہ نے قاہرہ میں ملاقات کی اور مصرکے اِقدام پر تبادلہ خیال کیا- اگر آپ یہ پوچھیں کہ مصر کے فارمولے میں کیا چیز اچھی ہے تو فقط یہ کہ امن قائم کر کے مزید خون بہنے سے روکا جائے - مَیں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جب تک خون بہنا بند نہیں ہوتا اس بات کی کوئی وُقعت نہیں کہ آپ اس فارمولے سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں - آج ہمارے صدر قاہرہ کے دورے پر ہیں اور کل ترکی جائیں گے اور وہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس خون کو مزید بہنے سے روکا جائے-جہاں تک یہ سوال ہے کہ حماس نے اسے کیوں مسترد کیا تو حماس نے اسرائیل کے ساتھ ۲۰۱۲ ء میں مصر کے ذریعے (Hudna, a ceasfire agreement)’’ ہُدنہ معاہدہ ‘‘پر دستخط کئے تھے اور حماس کو اُس ہدنہ معاہدہ کی شرائط کو بہتر بنانا ہے-اصل مسئلہ حماس، الفتح یا کوئی اور فلسطینی پارٹی نہیں ہے بلکہ فلسطین کی عوام ہیں جن کا خون بہہ رہا ہے اور وہ اس وقت اصل متأثرین ہیں- ہمیں اسرائیلی جرائم اور غزہ میں نہتے معصوم عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنا ہے - میرے نزدیک سب سے اہم یہ ہے کہ ہم فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے روزمرہ کے مظالم اور ہلاکتوں کو روک سکیں-
اگر مغربی میڈیا کی بات کی جائے تویہ واضح ہے کہ مغربی میڈیا فلسطینیوں کے درد کو بیان نہیں کر رہا کیونکہ اسرائیل میڈیا کے تمام بڑے ہاؤسزکو استعمال کرتا ہے - سی این این، بی بی سی کے مالکان کون ہیں؟ مَیں نے یہ بات بارہا کی ہی ہے کہ اسرائیل اور یہودی دُنیا بھر میں ’’ڈبل ایم‘‘ یعنی میڈیا اور پیسہ (media and money) کو کنٹرول کرنے میں بہت آگے ہیںچنانچہ وہ اپنے آپ کو مظلوم(victim) کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی لئے اسرائیل کو ترجیح دی جاتی ہے- انہوں نے فلسطینی خاندانوں کی تصاویر لے کر مغربی میڈیا میں اسرائیلی خاندانوں کی تصاویر کے طور پر پیش کیں جنہیں فلسطینیوں کے راکٹوں کا نشانہ بتایا گیا-وہ حقائق کو تبدیل کر کے عالمی برادری کو قائل کرنا چاہ رہے ہیں کہ اصل مظلوم (victim) وہ ہیں اور عالمی برادری مان لیتی ہے کیونکہ میڈیا اُن کے ہاتھ میں ہے-
مَیں بہت دکھ اور صدمے میں مبتلا ہوا جب اسرائیل فلسطین میں جارحیت کا مرتکب ہو رہا تھا جب فلسطینیوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا تھا جب فلسطینی بیٹیوں کے سہاگ اجاڑے جا رہے تھے جب فلسطینی ماؤں کی گودیں ویران کی جارہی تھیں جب فلسطین کے نہتے اور بے گناہ مسلمان سبزیوں کی طرح کاٹے جا رہے تھے جب زخمی اور یتیم بچوں کی آہ و بکا خُدا کا عرش ہلا رہی تھی اس وقت مسلم امہ فٹبال ورلڈ کپ کے میچز دیکھنے میں مگن تھی کہ برازیل میں کیاہو رہا ہے- مَیں یہ دیکھ کر بہت افسردہ ہوا کہ واشنگٹن، نیویارک، میڈرڈ، لندن اور حتیٰ کہ تل ابیب میں مظاہرے شروع ہوئے جبکہ بہت سے مسلم ممالک کے دارلخلافہ نے غزہ کی صورتحال کے متعلق کچھ نہیں کہا جو کہ بہت باعثِ افسوس ہے- او آئی سی کے ستاون اسلامی ممالک کے کنٹرول میں کونسا میڈیا ہے جو کہ مغرب میں اثر انداز ہو سکتا ہے جہاں اسرائیل کے حمایتی پائے جاتے ہیں ہم اسرائیل کے حامیوں کو کیسے قائل کر سکتے ہیں؟
اگر اِنسانی حقوق کے اداروں کی بات کی جائے تو میں یہ کہنا چاہوں گا اصل مسئلہ جیسا کہ مَیں پہلے بھی نشاندہی کر چکا ہوںکہ وہ دوہرے معیارات کا ہے- انسانی حقوق کے تمام ادارے فلسطین میں حقائق دیکھ رہے ہیں اور وہ اسرائیلی جرائم کے گواہ ہیں چاہے وہ چیک پوسٹوں پر ہوں، چاہے گرفتاریاں اور قتل ہوں، وہ قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں، عورتوں، بچوں اور طلباء پر ڈھائے جانے والے مظالم ہوں، غزہ میں اور مغربی کنارہ میں، اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاںہوں اور بدقسمتی ہے کہ اگر ایک فلسطینی کسی اسرائیلی پر پتھر پھینکے تو عالمی برادری اسرائیل کے ساتھ ایک ٹانگ پر کھڑی ہو کر احتجاج کرتی ہے لیکن اگر نمازِ تراویح کے بعد غزہ میں ایف سولہ طیاروں کے ذریعے حملہ کر کے ایک ہی خاندان کے اُنیس افراد شہید کر دیے جاتے ہیں اور پینتالیس زخمی ہو جاتے ہیں تو اِسے اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق قراردیا جاتا ہے- یہ وہ دوہرے معیارات ہیں جن کے متعلق مَیں بات کر رہا ہوں توپھر کون سے انسانی حقوق؟ مغربی دُنیا کی نظروں میں اسرائیل خطے میں ایک جمہوری طاقت ہے جو انسانی حقوق کا خیال رکھتا ہے- وہ کونسے انسانی حقوق ہیں جن کے تحت فلسطینی قیدیوں کو بغیر جرم کے کئی سال تک قید میں رکھا جاتا ہے عورتوں کا اسقاطِ حمل چیک پوسٹوں پر ہوتا ہے، فلسطینی زخمی چیک پوسٹوں پر ایمبولینسوں میں انتقال کر جاتے ہیں اور تمام انسانی حقوق کے علمبردار اس کے چشم دید گواہ ہیں- اگر اُن کی رپورٹس پڑھی جائیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسرائیل کس قدر انسانی حقوق پامال کر رہا ہے-
جہاں تک موجودہ کرائسس کے حل کا تعلق ہے تو اس میں بعض قُوّتیں مؤثّر اور تعمیری کردار ادا تو کر سکتی ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ اِس کے لئے کس قدر پُر عزم ہیں ؟ مثلاً امریکہ ہے ، اقوامِ متحدہ ہے اور اسلامی دُنیا ہے -
(۱) امریکی انتظامیہ اُن طاقتوں میں سے ہے جو اسرائیل پر دبائو ڈال سکتے ہیں کہ وہ غزہ میں مظالم ڈھانا بند کرے مگر جب ہم صدر باراک اوبامہ کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے تو ایسے میں اُن سے کسی تعمیری اور منصفانہ کردار کی اُمید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ ہم نے امریکہ پر اعتبار کیا اور نو ماہ تک مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا -جان کیری نے خطے کے بارہ دورے کئے اور نیتن یاہو اور اسرائیلی حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ جامع امن معاہدہ تک پہنچ جائیں مگر نیتن یاہو نے کوئی بات نہیں سنی- اسرائیل پر واحد امریکہ دبائو ڈال سکتا ہے کیونکہ امریکہ ہی اسرائیل کا سب سے بڑا ڈونر(امداد دینے والا) ہے جواسرائیل کو سالانہ چار بلین ڈالر دیتا ہے- امریکہ ہی اسرائیل کو دبائو ڈال کر منوا سکتا ہے کہ وہ امن معاہدہ تک پہنچ جائے-
(۲) اگر اقوامِ متحدہ کا مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے پُر عزم یا مؤثر کردار کا جائزہ لیا جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ اقوامِ متحدہ مؤثر یا پُر عزم ہے - ابھی تک جتنی بھی قراردادیں فلسطین کیلئے پاس کی گئیں ہیں وہ قراردادیں سب کی سب کسی الماری(Shelf)کی زینت ہیں- بدقسمتی سے اقوامِ متحدہ بہت محدود حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اپنے طور پرکرے بھی تو کیا کرے؟ اس کا حال بھی او آئی سی جیسا ہے یہ دونوں ’’چیرٹی آرگنائزیشن‘‘ بن کے رِہ گئی ہیں - بدقسمتی سے امریکہ ہی ایک طاقتور ملک ہے ،اور صرف وہی ایک ملک ہے جو اسرائیل کے اوپر دبائو ڈال سکتا ہے اور اس کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ فلسطین کے ساتھ امن معاہدہ کرے -
(۳) بدقسمتی سے مسلم اُمہ، مسلم ممالک اور عرب لیگ اپنے اندرونی مسائل سے دو چار ہیں اور وہ ان سے نکلنے کیلئے نبردآزماء ہیں- مسئلہ فلسطین پوری مسلم اُمہ کا مسئلہ ہے اور یہ مسلم دُنیا اور عرب ممالک کی اوّلین ترجیح رہا ہے مگر اب وہ اس مسئلے کے حوالے سے محدود ہیں ،اسکی وجہ مسلم ممالک کے اندر مسائل ہیں- خطے اور دُنیا کی مجموعی صورتحال بدل رہی ہے جو کہ اسرائیل کے مفاد میں ہے نہ کہ فلسطین کے مفاد میں- ہم فلسطینی سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے حتیٰ کہ ہم آزاد فلسطینی ریاست حاصل کر لیں جس کا دارالحکومت یروشلم، بیت المقدس ہو جہاں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی مہمان نوازی کر سکیں کیونکہ بہت سے ممالک چھ عشروں سے فلسطینیوں کی میزبانی کر رہے ہیں - مسلم دُنیا کو مسئلہ فلسطین کو اوّلین ترجیح دینی چاہئے جیسا کہ وہ پہلے بھی دیتی رہی ہے، مسئلہ فلسطین مسلم دُنیا کو متحد کرنے کا ذریعہ ہے- دُنیا بھرکے ڈیڑھ ارب مسلمان فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اس مسئلہ کے حل کیلئے دعا گو ہیں- اصل مسئلہ مسلم دُنیا کی قیادت کا ہے جب ہمیں صحیح قیادت میسر آئے گی تب مسلم اُمہ متحد ہو گی اور ہم سب ایک ایجنڈا لے کر چلیں گے اور ترجیح دیں گے بالخصوص ان مسائل کو جن کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے- جب تک مسلم اُمہ اپنے دل و جذبات کے ساتھ ساتھ عملی طور پر فلسطین کی مدد نہیں کرتی، میرا نہیں خیال کہ ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے-
****