انسان کی جب عالم ارواح سے عالم فانی میں آمد ہوئی تو پھرایک خاص عنایت ہوئی جو عہد و پیمان ارواح نے بارگاہِ ایزدی میں کیے ان کی یاد آوری کے لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ خاص اور محبوب بندے مقرر کیےجن کو نبوت و رسالت کے منصب سے سرفراز کیا - بعض یکے بعددیگرے معبوث ہوئے اور بعض ایک ہی عہد میں مختلف علاقوں اور قوموں تک رشد و ہدایت کا پیغام پہنچاتے رہے-
پیغام ایک ہی تھا ’’شرک کی نفی اور توحید کا اثبات‘‘ - انبیاءکرام(علیھم السلام) ہی وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جنہیں بہ نسبت مخلوق زیادہ قرب نصیب ہے-قرب قربانی سے آتا ہے اور دین بھی یہی تقاضا کرتا ہے- اگررشد و ہدایت کے ان روشن میناروں کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کی زیست کے شب و روز قربانیوں سے بھرے ہوئے ہیں - کسی کا جسم آرے سے کٹ جاتا ہے تو کوئی زندہ مچھلی کے پیٹ میں چلا جاتا ہے- کسی کے وجود میں کیڑے آجاتے ہیں تو کسی کو کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے- سب صبر و استقلال کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اسے مشیتِ الٰہی سمجھتے ہیں -
انہی میں سے ایک ہستی آئی جسے اللہ تعالیٰ نے خلیل اللہ فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ کا دوست-حضرت ابراہیم(علیہ السلام)- اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست سے منفرد قربانیاں لیں مثلاً جان، مال اور اولاد- دوست کو دوست سے عشق اس درجے کا تھا کہ ذرا برابر بھی پایۂ استقلال میں لغزش تک نہ آئی - جان کی قربانی کی بات کی جائے تو آگ کا اتنا بڑا آلاؤ جو دور دور تک دکھائی دیتا ہے اس کو سینے سے لگا کر گلزار بنادیا - مال کی قربانی دیکھی جائے تو ہزارہا بکریوں کے ریوڑ کوایک بار یار کے نام سنانے کی اجرت پر وار دیا-
اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست سے اولاد کی قربانی جہان سے انوکھی لی- حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کی زندگی کے تقریباً آٹھ عشرے بیت گئے جب اولادِ نرینہ سے نوازاگیا یعنی حضرت اسماعیل(علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی- کچھ ہی دن گزرے اشارہ ہوا ،ماں بیٹے کو گھرسے دور چھوڑ دیا جائے مشیتِ ایزدی تھی لہٰذا عملداری ہوئی- اہلیہ اور بیٹے کو ساتھ لیا صفا ومروٰی کے قریب جنگل و بیاباں میں چھوڑ آئے - کھانے کو کچھ میسرنہ پینے کوکچھ دستیاب، بس یار کی رضا ہے سب کچھ کروائے جارہی ہے- ماں بھوک سے نڈھال، بیٹا پیاس سے بلک رہا ہے، ہونٹ خشک ہوئے جا رہے ہیں- پانی کی تلاش میں کبھی صفا پر تو کبھی مروٰی پر تشریف لے جاتیں-اضطراب کی کیفیت ہے، تلاشِ آب میں اِدھر والدہ بھاگ رہی ہیں، اُدھرننھے اسماعیل(علیہ السلام) ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں، ننھی ایڑی کی رگڑ سے سنگلاخ زمیں سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا - بیٹے کے قدموں کی رگڑ سے جوپانی نکلا وہ آبِ شفا اور زم زم ٹھہرااورجہاں ماں کے مبارک قدم لگے ان چوٹیوں کو شعائراللہ کا شرف نصیب ہوا-
ادھر بیٹا اسماعیل(علیہ السلام) لڑکپن کی طرف سفر کر رہا ہے اُدھر باپ کو خواب آتا ہے اے میرے خلیل! اپنے دل کے قریب جو چیز ہے اسے میری راہ میں قربان کرو- حکم کی تعمیل کا سماں باندھا، ایک کے بعد دوسری قربانی کررہے ہیں لیکن خواب ہے کہ تھم نہیں رہا-ایک ہی خواب کا تسلسل انہیں یہاں تک لے آیا کہ ماسوٰی فرزند ارجمند اسماعیل(علیہ السلام) دل کے قریب کچھ بھی نہیں - آپ کے دل نے گواہی دی جو آپ سوچ رہے ہیں اس کو عملی جامہ پہنائیں کہیں حکم کی بجا آوری میں دیر نہ ہو جائے- مصمم ارادہ فرمایا اور لخت جگر کو طلب کیا، صورت حال سے آگاہ فرمایا تو حضرت اسماعیل(علیہ السلام) نے سرتسلیم خم کیا- سامان کا بندوبست کیا اور باپ بیٹا قربان گاہ کی طرف روانہ ہوئے- شیطان لعین نے رکاوٹیں ڈالنے کے کئی جتن کیے - باری باری سب کے پاس گیا ،ماں، باپ اور بیٹا لیکن ماسوٰی مایوسی اور ناکامی کے کچھ حاصل نہ ہوا- اُدھر عاشقانِ الٰہی جب قربان گاہ پہنچے تو حضرت اسماعیلؑ نے عرض کی ابّا حضور آنکھوں پہ پٹی باندھ لیں کہیں بیٹے کی محبت میں فرض سے کوتاہی نہ ہوجائے، باپ نے چھری کی دھار کو تیز کیا کہیں دیر نہ ہوجائے-
حضرت اسماعیل(علیہ السلام) نیچے لیٹتے ہیں اور حضرت ابراہیم(علیہ السلام) آنکھوں پہ پٹی باندھے گردن پہ چھری چلا تے ہیں - چھری ہے کہ چلنے کا نام نہیں لیتی، پریشانی بڑھنے لگی کہ کہیں یار ناراض تو نہیں ہوگیا آتے آتے دیر جوہوگئی- دل میں یہ خیال آتا ہے تو اگلے لمحےچھری چل جاتی ہے- جب آنکھ سے پٹی کھولی بیٹا سلامت پاس کھڑا ہے اور جنتی دنبہ ذبح ہوا پڑا ہے-
اسی لمحے آواز آئی، قرآن کہتا ہے: اے پیارےخلیل!’’واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچّا کردکھایابے شک ہم محسنوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (سو تمہیں مقامِ خلّت سے نواز دیا گیا ہے)‘‘-میں سمجھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بیٹے کی جان لینا مقصد نہیں تھا بلکہ مقصد دُنیا والوں کو سبق دینا تھا کہ جب مالکِ حقیقی کا حُکم آ جائے تو مال و متاع کی کیا حیثیت؟ اولاد کو بھی قربان کر دو- اس کی راہ میں قربانی دینے والوں کی اہمیت کو بزبانِ حضرت سلطان باھوؒ پڑھیے!
میں قُربان تنہاں توں باھُو جیہڑے سَر قربانی کر دے ھُو |
یہ وہ خلیل اللہ و ذبیح اللہ(علیہ السلام) کی قربانیاں تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے زندہ رکھنے کےلیے ملت ابراہیم کے اعمال میں شامل کردیا- شمولیت صلہ کے مترادف ہے- آج جب ہمارے سامنے بیت اللہ آتا ہے یا حج بیت اللہ کا ارادہ کرتے ہیں تو ان ہستیوں کی یاد بھی جز و لازم بن جاتی ہے- بیت اللہ کے معماراعظم بھی آپ ہیں، حج کی ادائیگی کے کثیراعمال ابراھیم و آلِ ابراھیم (علیہ السلام) کی سنت ہیں جو ادا نہ کیے جائیں تو سفرحج رائیگاں جاتا ہے-
آپ کی قربانیاں امتِ محمدی(ﷺ) کیلیے اپنے اندرکئی سبق سمیٹے ہوئے ہیں جو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے- مقصدحیات یعنی قربِ الٰہی وہ قربانی کے بغیرممکن نہیں - دین قربانی مانگتا ہےاورقربان ہو جانے سے بقا نصیب ہوتی ہے- ہمارے پاس کچھ بھی نہیں سب اسی ذات کا دیا ہے- جو رضا سمجھ کے جھک گیا وہ قرب کے اعلیٰ مقام پہ فائض ہوگیا- اقبال کے الفاظ پہ اختتام کرتے ہیں :
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم |
|
نہایت اِس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسماعیلؑ |
٭٭٭