احکامِ قربانی

احکامِ قربانی

عید الاضحیٰ کو ’’اضحیٰ‘‘ کا نام چاشت کے وقت قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کی وجہ سے دیا جاتا ہے-  نیز ہرذبیحہ (ذبح کی ہوئی چیز )کو ’’أُضْحِيَّةٌ‘‘نہیں کَہ سکتے کیونکہ اصطلاحِ شرع میں یہ  نام ہے اس  مخصوص جانور کا جس کو نیتِ قربت کی شرائط  اور اسباب کے پائے جانے کے وقت ذبح کیاجائے - [1]

(اس کے وجوب کی شرائط: عاقل، بالغ، اسلام، آزاد، مقیم، صاحب استطاعت، قربانی کاوقت)

قرآنِ کریم میں تقریباً نصف دَرجن آیاتِ مبارکہ میں قربانی کی حقیقت، حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے- تاریخِ  قربانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخِ انسانی- اس  کی ابتداء حضرت  آدَم (علیہ السلام)کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب میں یوں ارشادفرمایا :

’’وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّم اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ‘‘ [2]

’’(اے نبی مکرم(ﷺ)!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے جب دونوں نے (اﷲ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی‘‘-

امام طبریؒ نے اس آیت مبارک کے تحت حضرت اِبن عباس (رضی اللہ عنہ)سے رِوایت نقل کی جس کا مفہوم یہ ہے:

’’اللہ عزوجل کی بارگاہ ِ اقدس میں حضرت ہابیل (علیہ السلام) نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کر کے قربانی پیش کی- اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا‘‘-

مزید آپ (علیہ السلام) نے ابن رافع (علیہ السلام)کی روایت نقل کرتے ہوئے رقم فرمایا:

’’اور وہ مینڈھا جنت میں چرتا رہا یہاں تک کہ اس کو سیدنا اسماعیل بن ابراہیم (علیہ السلام)کافدیہ بنایا گیا‘‘-

اِس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم (علیہ السلام)کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں رہی-البتہ اس امت میں  اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل(علیہ السلام)کے واقعہ مبارک سے ہوئی-جیسا کہ حضرت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) کا قول ہے کہ اصحاب رسول (ﷺ) نے عرض کیا:

’’یا رسول اللہ (ﷺ) قربانی کیا چیز ہے؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام)کی سنت ہے- صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کی کہ اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: ہر بال کے عوض ایک نیکی- صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) نے عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ) اگر اون ہو؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی‘‘-   [3]

ایک مقام پہ اللہ پاک نے قربانی کے جانور کو شعائراللہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

’’وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰـھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ ‘‘[4]

’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے‘‘-

اندازہ لگائیے کہ! اللہ پاک نے قربانی کے جانور  کو شعائر ا للہ اور شعائر اللہ کی تعظیم کو دلوں کے تقوٰی کی علامت قرار دیا ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْم بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ‘‘[5]

’’اور ہم نے ہر امت کیلیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام لیں‘‘-

یاد رہے! کہ اہل عرب کے نزدیک ’’بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ‘‘ سے مراد اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری ہيں-اس میں ان  لوگوں کا رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قربانی کا جانور ذبح کرنے کی بجائے غریبوں کو وہ رقم صدقہ کر دی جائے -

فضیلت ذوالحج،تکبیرات ِ تشریق:

وَالْفَجْرِo وَلَیَالٍ عَشْرٍo[6]

’’اس صبح کی قَسم اور دس (مبارک) راتوں کی قَسم‘‘-

اسی آیت کے تحت امام الطبریؒ سیدنا عبد اللہ بن عباس(رضی اللہ عنہ) کا فرمان مبارک نقل کرتے ہوتے لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے، یہ ذوالحجہ کی پہلی (دس) راتیں ہیں‘‘-

حضرت هُنَيْدَة بن خالد کی زوجہ صحابیہ نبی مکرم (ﷺ) کی بعض ازواج مطہرات ؓسے بیان کرتی ہیں :

’’کَانَ رَسُوْلُ اللہِ (ﷺ) یَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّۃِ‘‘

’’رسول اللہ (ﷺ) ذوالحجہ کے (پہلے) 9دنوں کے روزے رکھتے‘‘-   [7]

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے  مروی  ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلیے عشرہ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں ان میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور ایک رات کی عبادت شبِ قدر کی عبادت کے برابر ہے‘‘ -[8]

ایامِ تشریق ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی صبح سے تیرہ تاریخ کی نمازِ عصر تک بالغ مرد اور عورت پر تکبیر تشریق واجب ہے- البتہ مرد بلند آواز سے اور عورت آہستہ سے تکبیرات ادا کرے گی-حضور رسالت مآب (ﷺ) اپنی حیاتِ طیب میں یہ عمل مبارک فرمایا کرتے تھے-

’’حضرت علقمہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول کریم (ﷺ) یومِ عرفہ کی فجر سے قربانی  کے (آخری) دن کی عصر تک تکبیرات  ادا فرمایا کرتے تھے‘‘-[9]

( تکبیرات تشریق یہ ہیں:’’الله أكبر الله أكبر لا الہ الا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد)

اب یہاں نہایت اختصارکے ساتھ قربانی  کے فضائل و مسائل رقم کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں -

تاجدارِ دو عالم سرور کائنات ()  کی قربانی:

’’رسول اللہ (ﷺ) جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے سینگوں والے اور سیاہ رنگ کے ہوتے ایک اپنی امت کی جانب سے ذبح فرماتے جو بھی اللہ پاک کو ایک جانتا ہو اور آپ  (ﷺ) کی رسالت کا قائل ہو دوسرا محمد (ﷺ) اور آل محمد (ﷺ)کی جانب سے ذبح فرماتے‘‘-  [10]

حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا میں عید الاضحیٰ کے روز عید گاہ میں رسول اللہ  (ﷺ)کی خدمت میں موجود تھا جب آپ (ﷺ) نے خطبہ مکمل فرمایا تو منبر سے اترے اور ایک مینڈھا لایا گیاتو رسول اللہ (ﷺ) نے اسے اپنے دست اقدس سے ذبح فرمایا اور ارشاد فرمایا :

’’اللہ پاک کے نام سے شروع، اللہ اکبر (اللہ بڑا ہے) یہ میری طرف سے ہے اور میرے اس امتی کی طرف سے جو قربانی نہ کرسکے‘‘- [11]

حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ :

’’میں عید الاضحیٰ کے روز عید گاہ میں رسول پاک (ﷺ) کی خدمت اقدس میں حاضر تھا- جب آپ (ﷺ) نے خطبہ مکمل فرمایا تو منبر سے نیچے تشریف لائے اور ایک مینڈھا لایا گیا- رسول اللہ(ﷺ) نے اسے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا اور ارشاد فرمایا:’’بسم اللہ، اللہ اکبر، یہ میری طرف سے اور میرے ہر اس امتی کی طرف سے جو قربانی نہ کر سکے ‘‘-   [12]

حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کا

مبارک عمل اورعوام کے لیے سبق:

حضرت حنش (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے:

’’میں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ رسول پاک (ﷺ) نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ  (ﷺ) کی طرف سے قربانی کروں- چنانچہ (ارشاد عالی کے تحت) ایک قربانی حضور پاک (ﷺ) کی طرف سے پیش کر رہا ہوں ‘‘-  [13]

علمائے کرام ان روایاتِ مبارکہ سے استنباط فرماتے ہیں کہ جن کے والدین یا عزیز و اقارب فوت ہو گئے ہوں ان کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں-یعنی ایک شخص دوسرے شخص کی جگہ قربانی کر سکتا ہے-

قربانی کی فضیلت:

’’حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے سیدہ  فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) سے ارشاد فرمایا:

’’اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت) موجود رہو؛ اِس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دِن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا (زیادہ) کرکے رَکھا جائے گا- حضرت ابوسعیدخدری (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی: یا رسول اللہ! (ﷺ) کیا یہ فضیلت آلِ محمد (ﷺ) کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حق دار ہیں یا کیا یہ فضیلت آلِ محمد (ﷺ) کیلیے خصوصاً اور تمام  مسلمانوں کے لیے عموماً  ہے؟ آپ (ﷺ) نے اپنی زبان گوہر فشاں سے ارشاد فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد (ﷺ) کیلیے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کیلیے بھی ہے‘‘-[14]

’’حضرت سیدنا امام حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) سے مروِی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی“- [15]

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے  مروی  ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو‘‘-[16]

قربانی کی استطاعت رکھنے والے کیلئے حکم:

حضرت اُم سلمہ (رضی اللہ عنہا) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہو وہ دس ذوالحجہ تک اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے اور پھر دسویں تاریخ کو قربانی کے بعد حجامت بنوائے‘‘-  [17]

قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والے  کیلیے حکم:

 حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے ایک شخص کو فرمایا :

’’مجھے ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کرنے کا حکم ہوا اللہ تعالیٰ نے اس دن کو میری امت کے لئے عید بنایا- اس شخص نے عرض کی اگر میرے پاس کچھ نہ ہو اور صرف ایک ہی اونٹنی یا بکری ہو تو کیا میں اس کی قربانی کروں؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ تم اپنے بال کٹواؤ،  ناخن تراشو، مونچھوں کے بال چھوٹے کرو اور زیرِ ناف بالوں کو صاف کرو پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری پوری قربانی یہی ہے‘‘-  [18]

جانور کا جن عیوب سے پاک ہوناضروری ہے :

رسو ل اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’چار قسم کے جانور وں کی قربانی درست نہیں- ایک کانا جانور جس کا کانا پن صاف معلوم ہو- دوسرا بیمار جانور جس کی بیماری عیاں ہو- تیسرا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن صاف معلوم ہو- چوتھا ناتواں اور کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ‘‘-[19]

حضرت جری بن کلیب (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے کہ :

’’میں نے حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) سے سنا کہ  رسول پاک (ﷺ) نے اس جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو -پھر انہوں  نے اس کا تذکرہ حضرت سعید بن المسیب (رضی اللہ عنہ) سے کیا تو انہوں نے فرمایا ہاں جب سینگ آدھا یا آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں اگر اس سے کم ہو تو درست اور جائز ہے‘‘-[20]

یاد رہے! کہ فقہائے کرام نے جانوروں کے عیوب کا احادیثِ رسول (ﷺ) کی روشنی میں جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جانور کا جو نقص اس کی قیمت میں کمی کا باعث ہو وہ عموماً عیب میں شمار ہوتا ہے-

قربانی کے گوشت اور کھال کا حکم:

حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے:

’’رسول اللہ (ﷺ) نے پہلے تو قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا پھر آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کھاو، سفر کے لیے جمع کرو اور تم ذخیرہ بھی کر سکتے ہو‘‘-[21]

اسی طرح قربانی کی کھالوں کے بارے میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے مجھے قربانی کی ہر چیز تقسیم کرنے کا حکم فرمایا خواہ گوشت ہو یا جھول، سب غریبوں میں تقسیم کر دی جائے ان مذکورہ احادیث مبارکہ سے فقہاء کرام نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

’’قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص کو غنی یا فقیر کو بھی دے سکتا ہے (جس طرح حج کے دوران کرتے ہیں) بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کے لئے مستحب ہے- بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کر لے ایک حصہ فقراء، دوسرا عزیز و اقارب  اور تیسرا اپنے گھر والوں کے لئے لیکن ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے- کُل کاصدقہ کر دینا بھی جائز ہے اور کُل کا گھر میں رکھ لینا بھی جائز ہے- تین دن سے زائد اپنے اور گھر والوں کے لئے لینا بھی جائز ہے‘‘- [22]

’’قربانی کا چمڑا اور اس کی جھول، رسی اور اس کے گلے کا ہار ان سب چیزوں کا صدقہ کردے -قربانی کے چمڑے سے جائے نماز، چھینی،رتھیلی، مشکیزہ ، دستر خوان ،ڈول وغیرہ بنائے جاسکتے ہیں ‘‘-[23]

’’اگر قربانی کا چمڑا بیچا تورقم صدقہ کرنا ضروری ہے ‘‘-   [24]

’’قربانی کاچمڑا یا گوشت یا اس کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو دیت میں نہیں دے سکتا‘‘-  [25]

جانوروں کی عمریں:

حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)  نے ارشار فرمایا:

’’صرف مسنہ (ایک سال کی بکری، دو سال کی گائے اور پانچ سال کا اونٹ) کی قربانی کرو ، ہاں اگر تم کودشوار ہو تو 6،7ماہ کا مینڈھا ذبح کرو (جو سال کا معلوم ہوتا ہو)‘‘-[26]

طریقہ ٔقربانی :

حضرت شداد بن اوس (رضی اللہ عنہ) سے مروی حدیث پاک ہے کہ آقا کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو ، تم میں سے کسی شخص کو چاہیے کہ وہ چھری کو (اچھی طرح) تیز کر لے اور ذبیحہ کو آرام پہنچائے‘‘ -[27]

دودھ والے جانور کا ذبح کرنا:

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے کہ:

’’رسول اللہ(ﷺ) ایک انصاری کے پاس تشریف لے گئے- اس نے رسول اللہ(ﷺ)کی خاطر بکری ذبح کرنے کے لئے چھری اٹھائی- رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا دودھ والی کو ذبح نہ کرنا‘‘ - [28]

جمہورِ فقہا کا قول ہے کہ جو عورت اچھی طرح سے ذبح کر سکتی ہے، اسی طرح جو بچہ اچھے طریقے سے ذبح کر سکتا ہو اس کا ذبح کرنا بھی جائز ہے-  [29]

خلاصہ ِ کلام :

قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروطِ تقوٰی کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کر سکتے ہیں-دین اسلام میں نیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے- جیسا کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) ارشاد فرماتے ہیں:

’’اعمال کادارومدار نیت پہ ہے ہر انسان کیلیےوہی کچھ ہے جس کی وہ نیت کرتاہیے ‘‘-[30]

یہ بات ہرمسلمان کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر اس قول و فعل کو جو چیز چار چاند لگاتی ہے وہ اس کی نیت ہے- جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشا د فرمایا:

’’مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بہترہے ‘‘-[31]

آپ (ﷺ) نے مزید ارشاد فرمایا:

’’جس نے نیکی کی نیت کا ارادہ کیا لیکن اس نے عمل نہ کیا تو اس کیلیے (اللہ پاک کی طرف سے) نیکی لکھ لی جائیگی‘‘[32]

 یہ سب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کااللہ تعالیٰ سے قلبی تعلق اور اخلاص کا اعلیٰ مقام ہی تھا کہ اللہ پاک نے آپ (علیہ السلام) کی اعمال صالحہ  کو رہتی دنیا تک قابل رشک بنا دیا اور بطور سنت جاری و ساری فرما دیا-

اس لیے فقہاء کرام نے قربانی کیلیے ’’قربت کی نیت‘‘ کی شرط لگائی ہے   اگر کسی نے قربانی سے اللہ عزوجل کے قرب کی نیت نہ کی تو قربانی صحیح نہ ہوگی،نیت کی اہمیت و فضیلت بیان کرتے ہوئے سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے اپنے پنجابی کلام میں ارشادفرمایا :

ج:جے رَبّ ناتیاں دھوتِیاں مِلدا تاں مِلدا ڈڈواں مَچھیاں ھو
جے رَبّ لَمیاں وَالاں مِلدا تاں مِلدا بھیڈاں سَسّیاں ھو
جے رَبّ رَاتیں جاگیاں مِلدا تاں مِلدا کال کڑچھیاں ھو
جے رَبّ جَتیاں سَتیاں مِلدا تاں مِلدا ڈَانداں خَصیاں ھو
اِنہاں گلاں رَبّ حاصل ناہیں باھوؒ رب مِلدا دِلیاں ہچھیاں ھو

صوفیاء کرام کی  بارگاہ ِ اقدس سے بھی طالب کو قلب و نگاہ کی پاکیزگی نصیب ہوتی ہے-آج جب مادیت پرستی اپنی انتہاؤں کو چھور رہی ہے، لوگ دنیاوی غرض کے بغیر سلام کرنا بھی وقت کاضیاع سمجھتے ہیں،رشتے ناتے پروان چڑھانے میں دنیاوی اغراض و مقاصد کرترجیح دی جاتی اور اخلاص سے لبریز بولے جانے والے الفاظ محض رسمی کاروائی   ہوتی ہے -

ان حالات میں مرشد کریم سلطان العارفینؒ کے دربار پُر انوار و گوہر بار سے  اخلاص و للہیت اور انوار و تجلیات کے وہ چشمے پھوٹے ،جس نے عرب وعجم کا امتیاز کیے بغیر ہرخاص و عام کو سیراب فرما کر ان کےقلوب و اذہان  کو معطر فرمایا-آج اسی قافلے کی قیادت جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمدعلی (دامت برکاتہم العالیہ )فرما کر ’’اسم اللہ ذات‘‘  کے خزانے سے مالا مال فرما رہے ہیں-مالک پاک ہمیں قرآن وسنت کے مطابق اولیاء کاملین  کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے-

٭٭٭


[1](ابن عابدین شامی ، رد المحتار على الدر المختار، كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ)

[2](المائدہ:27)

[3](سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی)

[4](الحج:36)

[5](الحج:34)

[6](الفجر:2)

[7](سنن ابی داؤد،کتاب الصوم)

[8](سنن الترمذی، ابواب الصوم)

[9](مصنف ابن شیبہ، كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ)

[10]( ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی)

[11]( سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا)

[12](ایضاً)

[13](ایضاً)

[14](سنن الکبری، کتاب الضحایا)

[15]( المعجم الكبير للطبرانی، باب:حسن بن حسن بن علي عن أبيهؓ)

[16]( مسند احمد بن حنبل)

[17]( سنن نسائی ، کتاب الضحایا)

[18](ایضاً)

[19](ایضاً)

[20](ایضاً)

[21](ایضاً)

[22]( در مختار ،کتاب الاضحیہ)

[23](ایضاً)

[24](ایضاً)

[25](ایضاً)

[26]( صحیح مسلم ، کتاب الصید الذبائح)

[27](ایضاً)

[28](ابن ماجہ، کتاب الذبائح)

[29](نعم الباری فی شرح صحیح البخاری، ج:11،ص:573)

[30](بخاری شریف، باب:بدء الوحی)

[31](شعب الایمان، باب:اخلاص العمل للہ عزوجل وترک الریاء)

[32](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر