تقویٰ اسم ہے،تاء کی جگہ واؤ ہے اور اس کی اصل ’’وَقْوٰى‘‘ہے یہ فعلیٰ کے وزن ہے اور و’’وَقَيْتُ‘‘ سے بنا ہے- پس جب واؤ پہ فتحہ آئی تو واؤ کو تاء سے بدل دیا گیا اور ’’التُّقاةُ‘‘ اس کی جمع ہے - [1]
علامہ میر سید جرجانیؒ نے اس کی توضیح میں مختلف اقوال رقم فرمائے ہیں،جو کہ حسبِ ذیل ہیں -
اہلِ حقیقت کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے اُس کے عذاب سے بچناہے وہ اس طرح کہ نفس کو ہر اس چیز سے بچانا ہے جس کے کرنے یا نہ کرنے کی وجہ سے وہ سزا کا مستحق ٹھہرے-اطاعت میں تقویٰ یہ ہے کہ اس میں اخلاص پیدا کیا جائے اورمعصیت میں تقویٰ کا مطلب کہ معصیت کو ترک کردیاجائے اور اس سے بچا جائے -(تقویٰ کا مطلب ہے کہ) بندہ ماسوی اللہ سے بچ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آدابِ شریعت کی پاسداری تقویٰ ہے اور کہا گیا ہے کہ ہرا س چیز سے بچنا تقویٰ ہے جو تجھے اللہ عزوجل سے دور کر دے-نیز نفس کی لذات کو ترک کرنا اور ممنوعات سے دور رہنا تقویٰ ہے-ایک قول یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم اپنے دل میں اللہ عزوجل کے علاوہ کسی چیزکو نہ دیکھو، ایک قول یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو کسی سے اچھا نہ سمجھو- الغرض! ماسوی اللہ کو ترک کرنا تقویٰ ہے اور اسی طرح حضورنبی کریم (ﷺ) کی قولاً اور فعلاً اقتداء کرنا تقویٰ ہے‘‘-[2]
علامہ سید غلام رسول سعیدی صاحبؒ تقویٰ کے مختلف مراتب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’1:نفس کی کفر اور شرک سے حفاظت کرنا
2: نفس کی کبیرہ گناہوں سے حفاظت کرنا
3:نفس کی صغیرہ گناہوں سے حفاظت کرنا
4 :نفس کی خلاف سنت سے حفاظت کرنا
5:نفس کی خلافِ اولیٰ سے حفاظت کرنا
6:نفس کی ماسوٰی اللہ سے حفاظت کرنا
سو جوشخص تقوی ٰ کے کسی ایک مرتبہ پر فائز ہو یہ کتاب اس کے لیے تقویٰ کے اگلے مرتبہ کیلیے ہدایت ہے‘‘- [3]
الحمدللہ عزوجل تقویٰ کا پہلا مرتبہ ہر ذی شعور مسلمان کو حاصل ہے،اگلے مراتب کے بارے میں ہر انسان اپنا محاسبہ کر کےجائزہ لے سکتاہے کہ وہ کہاں کھڑاہے؟
قرآن مجید اور تقویٰ :
دراصل قرآن مجید چونکہ ام الکتاب ہے اور اس میں تمام بنی نوع انسان کے لیے احکام مرتب فرما دئیے گئے-حتی کہ کفار آج بحربیکراں (وسیع سمندر) سے فائدہ اٹھانے کے لیے مطالعہ کرتے ہیں اسی طرح جب ہم تقویٰ کے معانی و مفہوم قرآن پاک میں تلاش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آدمی چاہے تقوی ٰ کے کسی مقام پہ ہو اللہ عزوجل کی لاریب کتاب اس کی حوصلہ افزائی فرماتی ہے-جیساکہ اللہ پاک نے تقوی ٰ کے اعلیٰ مقام پہ فائز اخص الخواص کے مقام و مرتبے کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ‘‘[4]
’’اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئےاپنی جان بیچ دیتا ہے‘‘-
اخَص الْخَواص مقربینِ بارگاہِ الٰہی کا ہی نصیبہ ہے کہ وہ اپنا جینا مرنا سب اللہ عزوجل کے لئے کردیتے ہیں-اپنی جان مولائے کریم کو بیچ دیتے ہیں اور اس کی یاد اور محبت میں ڈوب کر سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہوجاتے ہیں - اس مقام پہ ان کے لیے غیر کودیکھنا،سننا وغیرہ حرام ہوجاتاہے اور اس کے تمام امور کا مقصد صرف اور صرف اللہ عزوجل کی رضا رہ جاتی ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا :
’’قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘[5]
’’(اے محبوب مکرم (ﷺ) فرما دیں، بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے‘‘-
مزید ارشاد فرمایا:
’’ وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا‘‘[6]
’’اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے بنے رہو‘‘-
جہاں تک متوسط حضرات (خاص الخاص) ان کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان مبارک ہے:
’’وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى- فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى‘‘[7]
’’اور رہا وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا- تو بیشک جنت ہی (اس کا) ٹھکانہ ہے‘‘-
جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے ان کے بارے میں اللہ رب العزت ارشادفرماتاہے:
’’اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآىٕرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا‘‘[8]
’’اگر کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے دوسرے گناہ بخش دیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے‘‘-
اب مزید اللہ عزوجل کی توفیق خاص سے تقوی ٰکے بارے میں قرآن مجید سے چند فرامین مبارکہ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :
1:ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ ج- هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ[9]
’’وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں ہدایت ہے ڈر والوں(یعنی اہل ِ تقوٰی) کو ‘‘-
اب یہ چیز روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ قرآن مجید سے اگر علم وعرفان کے بیج دل میں لگانے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں قلوب واذہان کو تقوٰی ٰکے نور سے منور کرنا ہو گا-
اس آیت مبارک کی تفسیر میں امام بغویؒ سیدنا عمر فاروق ؓ کا قول مبارک نقل فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت کعب الاحبارؓ سےفرمایا :ہمیں تقویٰ کے بارے میں بتائیں- تو حضرت کعبؓ نے عرض کی: ’’کیا آپ کبھی خاردار راستے پر چلے ہیں؟‘‘ آپؓ نے جواب دیا:ہاں- حضرت کعبؓ نے سوال کیا:آپ نے کیاطریقہ استعمال کیا؟ حضرت عمرؓ حضرت کعبؓ سے فر مانے لگے:’’میں کانٹوں سے بچ بچ کر اور کپڑوں کو سمیٹ کر چلا‘‘-حضرت کعبؓ بولے: ’’یہی تقویٰ ہے‘‘ -[10]
یعنی دنیا کی مثال خا ر دار راستے کی ہے-مومن کا کام یہ ہے کہ اس میں سے گزرتے ہوئے دامن سمیٹ کرچلے-اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ ہر کام میں دیکھے کہ اس میں خدا کی خوشنودی مضمر ہے یا نہیں-
علامہ جلال الدین سیوطیؒ ’’تفسیر درمنثور‘‘ میں اس کی تفسیر میں رقمطرازہیں کہ:
’’اللہ کے عذاب سے ڈر کر اس کے نور کے مطابق اطاعت خداوندی یعنی اس کے احکا م پر عمل کرنے کا نام تقویٰ ہے‘‘-[11]
2:یٰاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ[12]
’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے (انسانوں) کو پیدا کیا تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو‘‘-
یہ آیت مبارک اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عبادت کی غر ض و غایت یہ ہے کہ وہ انسان کو منزلِ ’’تقویٰ‘‘ تک پہنچا دے- اس میں اللہ رب العز ت کے دو اوصاف مبارکہ کا بیان ہوا ایک یہ وہ تمہارا رب ہےاور دوسرا اسی نے تمہیں تخلیق کیا-
’’رب‘‘ وہ ذات ہے جس کی تربیت سے کوئی چیز اپنی استعداد کے مطابق ارتقاء کے تمام مراحل طے کرتی ہوئی درجۂ کمال تک پہنچ جاتی ہے- گویا کہ کائنات کی ہر شے ظاہراً اور باطناً ہروقت اپنے وجود کی بقاء اور ارتقاء کی خاطر اس کے لطف وکرم کی محتاج ہے ؛اور ان کے جملہ کمالات کا حصول اسی کے فضل وکرم پہ ہے-کیونکہ اگروہ ارادہ ِ تخلیق نہ فرمائے توکسی چیز کو وجود ہی نہ ملے اور اگر اہتمامِ تربیت نہ فرمائے تو زندگی کی گاڑی کا ایک پہیہ بھی گردش میں نہ آئے -اس لیے عقل بھی اس بات کا تقا ضاکرتی ہے کہ جب ہم اسی کا دیا ہوا کھا رہے ہیں اور اسی کاعطاء کردہ اثاثہ استعمال کررہے ہیں تو پھر زندگی کے ایک ایک لمحے پر اس کا اختیار تسلیم کر کے اس کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں کیوں نہیں ڈالتے؟
3: یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ[13]
’’اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو‘‘-
اس آیت مبارکہ کی تفسیر فرماتے ہوئے علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو تقویٰ کی تلقین فرماتے ہوئے ایسے نازیبا کاموں سے منع فرمارہا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنیں اور لوگ ذات اقدس کی قربت سے محروم ہو جائیں تو واضح ارشاد فرمایا کہ لحاظ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو‘‘- [14]
4: فَاصْبِرْط اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ [15]
’’پس صبر کرو بیشک(بھلا) انجام پر ہیز گاروں کیلیے ہے‘‘-
5:فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَ[16]
’’تو جو پرہیزگاری کرے اور سنورے( اصلاح کرے) تو اس پر نہ کچھ خوف اور نہ کچھ غم‘‘-
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:
’’جو انبیائے کرام کی مخالفت سے بچتا رہا اس نے ان کے احکام پر عمل کیا-تو اس پردلیل یہ ہے کہ بروز قیامت ایمان والوں کو خوف و و حزن نہیں ہوگا اور نہ وہ گھبراہٹ و پریشانی سے دوچار ہوگا‘‘-[17]
6:الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ [18]
’’(اللہ عزوجل کے ولی) وہ ہیں وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں‘‘-
اس آیت مبارکہ کی تفسیر فرماتے ہوئے مفسر شہیر حضرت سید نعیم الدین مراد آبادیؒ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے ولی وہی ہیں جو ایمان اور تقویٰ دونوں کے جامع ہوں وہ خالص اللہ تعالیٰ کیلئے محبت کر کے اطاعت کے ذریعے ذات اقدس کا قرب طلب کرنے والے ہوں‘‘-[19]
’’7: یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْطوَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ‘‘[20]
’’اے ایمان والو اگر اللہ سے ڈرو گے تو تمہیں وہ دے گا جس سے حق کو باطل سے جدا کرلو اور تمہاری برائیاں اتار دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘-
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ رقمطراز ہیں:
’’یہاں تقویٰ سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا اور معصیت کو ترک کرنا ہے- فرقان سے مراد دلوں کی بصیرت ہے جس سے حق و باطل میں امتیاز کرنا سہل ہو جائے- اسی تناظر میں حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘ تو معنٰی یہ ہواکہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ایسی بصیرت اور فراست عطا فرماتا ہے جس سے ان کی دور اندیشی میں اضافہ ہوجاتا ہے اہل تقویٰ کے دل میں نورانیت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا سینہ معرفت ربانی کیلئے کُھل جاتا ہے- یہ امر اس وقت باطن میں ظہور پذیر ہوتا ہے جب دل سے ماسویٰ اللہ فنا ہوکر نفس کا تزکیہ ہو جائے اور خصائل رذیلہ دور ہو جائیں اسی وقت اس شخص کے دل میں تقویٰ کی حقیقت متحقق ہو جاتی ہے-نیز جس خوش نصیب کو قلبی تقویٰ نصیب ہوتاہے اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں اللہ عزوجل ہر اس چیز کی تعظیم القاء فرما دیتا ہے جس کا تعلق اس کی ذاتِ اقدس سے ہوتاہے- دوسری چیز جو تقویٰ کے صلہ میں حاصل ہوتی ہے وہ کفارہ سیئات ہے یعنی جو خطا یا لغزش سرزد ہوتی ہے تقویٰ ان کا بدل ہو جاتا ہے‘‘-[21]
8: ذٰلِكَۗ ق وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ[22]
’’بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے‘‘-
مفتی احمد یار خان نعیمیؒ ’’شعائر اللہ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’دینی شعائر یعنی علامتوں کا برقرار رکھنا سنتِ الٰہی ہے جیسے صفا مروہ کو اللہ رب العزت نے باقی رکھا کیونکہ یہ بزرگوں کی یاد گارہیں -لہذا بزرگانِ دین کے تبرکات اور ان کے روضے وغیرہ باقی رکھے جائیں تاکہ انہیں دیکھ کر ایمان تازہ کریں-(مزید ارشادفرمایا) ناجائز کاموں کی وجہ سےسنت نہیں چھوڑی جاسکتی لہذا قبورِ اولیاء پر گانے وغیرہ کی وجہ سے زیارتِ قبر جوسنت ہے نہ چھوڑی جائے گی-(البتہ ناچ گانے اور دیگر منہیات شرعیہ کی روک تھام کی جائے)جیسے بتوں کی موجودگی میں خانہ کعبہ کاطواف اور صفا مروہ کی سعی بند نہ ہوئی‘‘- [23]
مزید ارشادفرماتے ہیں:
’’شعائر اللہ کی تعظیم قلبی تقویٰ کے ساتھ مربوط ہے-دلوں کا تقویٰ سب سے رفیع مقام ہے اگر یہ نہیں تو جسم،عقل اور اعضائے بدن کا تقویٰ بھی میسر نہیں آتا- قلبی تقویٰ تعظیم و ادب سے ملتا ہے قلبی تقویٰ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اس کیلئے تعظیم کی نعمت آستانہ نبوت (ﷺ) سے سینہ بسینہ اچھی صحبتوں کے وسیلے سے ملتی ہے- اس طرح تعظیم کے ساتھ تقویٰ باطنی کی دولت سے مالا مال شخص خشیت جمال، ہیبت کمال اور خوف کمال جیسی صفات اعلیٰ سے متصف ہو جاتا ہے- اسی طرح مومن کوشعائر اللہ کی تعظیم کی وجہ سے ہدایت و بندگی کے ساتھ دل کی طہارت اور تقویٰ نصیب ہوتا ہے‘‘-[24]
یہ تو معلوم ہوگیا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم سے اللہ عزوجل قلوب کو تقویٰ کی نعمت عظمیٰ عطا فرماتا ہے-اب شعائراللہ ہیں کیا،جب قرآن مجید،فرقانِ حمید سے اس کا سوال کرتے ہیں تو جواب عطاہوتاہے :
9:اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِج فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا‘‘[25]
’’بےشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے‘‘-
تمام مفسرین کرام اس بات پہ متفق ہیں کہ صفاومروہ کو جو مقام ِ عظمت ملا وہ سیدہ حاجرہ ؓ کے قدمین شرفین کے مَس ہونے کی وجہ سے ملا -اللہ عزوجل نے اپنی رضا کی خاطر ان اٹھنے والوں قدم مبارک کی برکت سے انہیں شعائراللہ بنا دیا اور تا قیامت حاجیوں پرسید ہ ،طیبہ ،طاہرہؒ کی ادا کو بصدق دل بجا لانے کا حکم ارشاد فرما دیا گیا-
مزید ارشادفرما یا :
وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًی [26]
’’اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ‘‘-
مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکرسیدنا ابراہیم ؑ نے کعبہ معظمہ کی تعمیر کی- وہ بھی اللہ عزوجل کے خلیل کے قدموں کی برکت سے شعائر اللہ بن گیااوراس کی تعظیم ایسی لازم ہو گئی کہ طواف کے نفل اس کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھنا سنت ہو گئے- جب بزرگوں کے قدم پڑجانے سے صفا مروہ اور مقام ابراہیم ؑشعائر اللہ بن گئے اور قابل تعظیم ہو گئے تو قبو ر انبیا ء و اولیاء جس میں یہ حضرات دائمی قیام فرما ہیں یقیناً شعائر اللہ ہیں اور ان کی تعظیم لازم ہے-جیساکہ اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں:
فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْہِمْ بُنْیَانًا ط رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ ط قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰی اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْہِمْ مَّسْجِدًا [27]
’’تو بولے ان کے غار پر کوئی عمارت بناؤ ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے تھے قسم ہے کہ ہم تو ان پر مسجد بنائیں گے‘‘-
اصحاب کہف کے غار پر جو ان کی آرام گاہ ہے گذشتہ مسلمانوں نے مسجد بنائی اور رب نے ان کے کام پر ناراضگی کا اظہار نہ کیا معلوم ہوا کہ وہ جگہ شعا ئر اللہ بن گئی جس کی تعظیم ضروری ہو گئی-
لَا اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ -وَ اَنْتَ حِلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ [28]
’’مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب مکرم (ﷺ)آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں‘‘-
وَالتِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِلا- وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَ لا- وَ ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ [29]
’’انجیر کی قسم اور زیتون اور طور سینا اور اس امان والے شہر کی‘‘
وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ [30]
’’اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو اور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے ‘‘-
ان آیات مبارکہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ طور سینا پہاڑ اور مکہ معظمہ اس لیے عظمت والے بن گئے کہ طور کو کلیم اللہ سے اور مکہ معظمہ کو حبیب اللہ (ﷺ) سے نسبت ہو گئی-
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے پیارو ں کی چیزیں شعائر اللہ ہیں جیسے قرآن شریف، خانہ کعبہ، صفا مروہ پہاڑ ،مکہ معظمہ،بیت المقدس، طورسینا، مقابر اولیاء اللہ و انبیاء کرام، آب زمزم وغیرہ اورشعائر اللہ کی تعظیم و تو قیر قرآنی فتوے سے دلی تقویٰ ہے جو کوئی نمازی رو زہ دار تو ہو مگر اس کے دل میں تبرکات کی تعظیم نہ ہو وہ دلی پر ہیز گا ر نہیں-
ان آیات قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ جہاں کہیں قرآن کریم میں تقویٰ کا ذکر ہے وہاں یہ تقویٰ دلی یعنی متبرک چیزوں کی تعظیم ضرور مراد ہے- یہ آیات کریمہ تقویٰ کی تمام آیات کی تفسیر ہیں- جہاں تقوی کا ذکر ہو وہاں یہ قید ضروری ہے- رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘ [31]
’’بےشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کیلیے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘-
معلوم ہوا کہ مجلس میں سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا احترام تقویٰ ہے- کیونکہ یہ بھی شعائر اللہ ہے اور شعائر اللہ کی حرمت دلی تقویٰ ہے-
دراصل ایمان جڑ ہے اورتقویٰ اس کی شاخیں،پھل وہی کھاسکتا ہے جو ان دونوں کی حفاظت کرے- اسی طر ح بخشش کے پھل اسی کو نصیب ہوں گے جو ایمان اور تقویٰ دونوں کا حامل ہو- تقویٰ کے مختلف پہلوؤں کا مختصر جائزہ لینے کے بعد خلاصہ کلام یہی ہے کہ اسلام کے تمام ارکان و جملہ عبادات میں تقویٰ روح کی حیثیت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی موجودگی کے احساس اورتصدیق کو دل و روح میں بیدار کر کے قربت حق تعالیٰ سے روشناس کرواتا ہے- ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ رب العزت کے قوانین و ضوابط اور شریعت محمدی (ﷺ) کی مکمل پابندی کرتے ہوئے تقویٰ کو دل میں جاگزیں کریں- تاکہ ہم بھی صالحین کی اقتداء میں معرفت الٰہی اور قرب و وصال سے بہرہ مند ہو سکیں-
٭٭٭
[1]ابن منظور، محمد بن مكرم بن على، لسان العرب(بیروت: دار صادر- 1414ھ)فصل: الواو،جلد15،ص:33-
[2]الجرجانی،علي بن محمد بن علي، کتاب التعریفات،(بيروت:دار الكتب العلميۃ ،1403ه)،باب التاء ج 1۔ص:65
[3]سعیدی ،غلامہ رسولؒ،تبیان القرآن،الطبع السادس(لاہور،پاکستان،فرید بک سٹال) رجب:1426ھ،ج:1،ص:257
[4]البقرۃ:207
[5]الانعام:162
[6]المزمل:08
[7]النزعٰت:40-41
[8]النساء:31
[9]البقرۃ:02
[10]بغوی، الحسين بن مسعود بن محمدؒ(محی السنه)،معالم التنزيل في تفسير القرآن۔( بيروت: دار إحياء التراث العربي -1420هـ)۔ج ا،ص: 82
[11]سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر ، الدر المنثور ۔ (بیروت : دارالفکر)ج:1،ص:61
[12]البقرۃ:21
[13]البقرۃ:278
[14]ابن کثیر،حافظ عماد الدین تفسیر ابن کثیر،(لاہور : مکتبہ ءجویریہ، اردو بازار)تفسیر تحت الآیت:البقرہ،278، 1/374
[15]ھود:49
[16]الاعراف:35
[17]القرطبي ،محمد بن أحمد بن أبي بکر، أبو عبد الله الجامع لأحكام القرآن، الطبعة : الثانية ، (القاهرة: دار الكتب المصرية)زیرِآیت الاعراف:35، 7/202
[18]یونس:63
[19]مرادآبادی،سیدنعیم الدین،تفسیرخزائن العرفان،(کراچی:تاج کمپنی،الطبع،1989)،تحت الآیت :سورہ یونس،63
[20]الانفال29
[21]المظهري، محمد ثناء الله، التفسير المظهري،(الباکستان:مكتبة الرشدية1412ھ )،تحت سورہ انفال:29، 4/54
[22]الحج:32
[23]نعیمی، احمد یار خان،تفسیر نعیمی،(گجرات :نعیمی کتب خانہ، 1999ء)،زیرِآیت،البقرۃ:158
[24]نعیمی، احمد یار خان،تفسیر نعیمی،(گجرات :نعیمی کتب خانہ، 1999ء)ج:17،ص:809
[25]البقرۃ:158
[26]البقرۃ:125
[27]الکھف:21
[28]البلد:1-2
[29]التین:1-3
[30]البقرۃ:58
[31]الحجرات:03