پچھلے مضمون میں فرضیت ِ حج، فضیلتِ حج، شرائطِ حج، اقسامِ حج، مواقیتِ حج، احرام، حج بدل اور حج کے باطنی پہلو کے حوالے سے چند معروضا ت پیش کیں اس مضمون میں اللہ عزوجل کی توفیق سے فرائضِ حج، واجباتِ حج، سنن ِحج، ممنوعاتِ حج اورطریقۂ حج کے بارے میں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں:
حج کی شرائط و فرائض:
مختلف فتاوٰی جات،عالمگیری ،رضویہ اور دیگر کتب ِفقہ میں مذکور حج کی شرائط و فرائض کا خلاصہ درج ذیل ہے :
- اِحرام باندھنا ، یہ شرط ہے
- وقوفِ عرفہ: یعنی نویں ذوالحجہ کے غروب آفتاب سے دسویں کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے کسی وقت مقامِ ’’عرفات‘‘ میں ٹھہرنا
- طوافِ زیارت : طواف کے سات پھیروں میں سے کم از کم چار پھیرے مکمل کرنا- یہ دونوں چیزیں یعنی وقوفِ عرفات اور طوافِ زیارت حج کے رکن ہیں-
- نیت:ارادہ باندھنا
- ترتیب: یعنی پہلے احرام باندھنا پھر عرفہ میں ٹھہرنا پھر طواف زیارت، ہر فرض کا بالترتیب اپنے وقت پر ادا کرنا
- مکان: یعنی وقوف عرفہ، میدانِ عرفات میں نویں ذی الحجہ کو ٹھہرنا سوائے بطنِ عرفہ کے (یہ حرم ایک نالہ ہے جو مسجد نمرہ کے مغرب کی طرف یعنی کعبہ معظمہ کی طرف واقع ہے- یہاں وقوف جائز نہیں) اور مسجد الحرام کا طواف کرنا-
- ہر فرض کا اپنے وقت پر ہونا -
نوٹ:بعض علماء نے سعی کو بھی حج کے فرائض میں شمار کیا ہے-
حج کے واجبات :
فتاوٰی رضویہ میں مذکور واجبات کی تفصیل درج ذیل ہے:
v میقات سے احرام باندھنا، یعنی میقات سے بغیر احرام نہ گزرنا اور اگر میقات سے پہلے ہی احرام باندھ لیا تو جائز ہے -
v صفا ومروہ کے درمیان دوڑنا اس کو سعی کہتے ہیں
v سعی کو صفا سے شروع کرنا اور اگر مروہ سے شروع کی تو پہلا پھیرا شمار نہ کیا جائے،اس کا اعادہ کرے-
v اگر عذرنہ ہو تو پیدل سعی کرنا،سعی کا طواف معتد بہ کے بعد یعنی کم سے کم چار پھیروں کے بعد ہونا -
v دن میں وقوف کیا تو اتنی دیر تک وقوف کرے کہ آفتاب ڈوب جائے خواہ آفتاب ڈھلتے ہی شروع کیا ہو یا بعد میں غرض غروب تک وقوف میں مشغول رہے اور اگر رات میں وقوف کیا تو اس کے لیے کسی خاص حد تک وقوف کرنا واجب نہیں مگر وہ اس واجب کا تارک ہوا کہ دن میں غروب تک وقوف کرتا-
v وقوف میں رات کا کچھ جز آ جانا
v عرفات سے واپسی میں امام کی متابعت کرنا یعنی جب تک امام وہاں سے نہ نکلے یہ بھی نہ چلے،ہاں اگر امام نے وقت سے تاخیر کی تو اسے امام کے پہلے چلا جانا جائز ہے اور اگر بھیڑ وغیرہ کسی ضرورت سے امام کے چلے جانے کے بعد ٹھہر گیا ساتھ نہ گیا جب بھی جائز ہے -
v مزدلفہ میں ٹھہرنا -
v مغرب و عشاء کی نماز کا وقت عشاء میں مزدلفہ میں آکر پڑھنا -
v تینوں جمروں پر دسویں،گیارہویں، بارہویں تینوں دن کنکریاں مارنا یعنی دسویں کو صرف جمرۃ العقبہ پر اور گیارہویں بارھویں کو تینوں پر رمی کرنا-
v جمرہ عقبہ کی رمی پہلے دن حلق سے پہلے ہونا-
v ہر روز کی رمی کا اسی دن ہونا -
v سر مونڈانا یا بال کتروانا-
v ایام نحر (سر مونڈانا یا بال کتروانا) حرم شریف میں ہونا اگرچہ منٰی میں نہ ہو -
v قران اور تمتع والے کو قربانی کرنا
v قربانی کا حرم اور ایام نحر میں ہونا -
v طواف افاضہ کا اکثر حصہ ایام نحر میں ہونا -عرفات سے واپسی کے بعد جو طواف کیا جاتا ہے اس کا نام طواف افاضہ ہے اور اسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں - طواف زیارت کے اکثر حصہ سےجتنا زائد ہے یعنی تین پھرے ایام نحر کے غیر میں بھی ہو سکتا ہے -
v طواف حطیم کے باہر سے ہونا -
v دہنی طرف سے طواف کرنا یعنی کعبہ معظمہ طواف کرنے والے کی بائیں جانب ہو -
v عذر نہ ہو تو پاؤں سے چلنا لازم ہے اور طواف نفل اگر گھسٹتے ہوئے شروع کیا تو ہو جائے گا مگر افضل یہ ہے کہ چل کر طواف کرے -
v طواف کرنے میں نجاست حکمیہ سے پاک ہونا، یعنی جنب و بے وضو نہ ہونا ، اگر بے وضو یا جنابت میں طواف کیا تو اعادہ کرے-
v طواف کرتے وقت ستر چھپا ہونا یعنی اگر ایک عضو کی چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ کھلا رہا تو دم واجب ہوگا اور چند جگہ سے کھلا رہا تو جمع کریں گے،غرض نماز میں ستر کھلنے سے جہاں نماز فاسد ہوتی ہے یہاں دم واجب ہوگا-
v طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا ، نہ پڑھی تو دم واجب نہیں-
v کنکریاں پھینکنے اور ذبح اور سر منڈانے اور طوا ف میں ترتیب یعنی پہلے کنکریاں پھینکنے، پھر غیر مفرد قربانی کرے، پھر سر منڈوائے ،پھر طواف کرے -
v طواف صدر یعنی میقات سے باہر کے رہنے والوں کیلیے رخصت کا طواف کرنا - اگر حج کرنے والی حیض یا نفاس سے ہے اور طہارت سے پہلے قافلہ روانہ ہو جائے گا تو اس پر طواف رخصت نہیں -
v وقوف عرفہ کے بعد سر منڈانے تک جماع نہ ہونا -
v احرام کے ممنوعات، مثلاً سلا کپڑا پہنے اور منہ یا سر چھپانے سے بچنا - [1]
مسئلہ:
حج کے فرائض میں سے اگر کوئی ایک فرض چھوٹ جائے تو حج صحیح نہیں ہوگا جس کی تلافی دم سے بھی ممکن نہیں- اگر واجبات میں سے کوئی ایک واجب چھوٹ جائے تو حج صحیح ہوجائے گا مگر دَم لازم آتا ہے خواہ قصداًترک کیا ہو یا سہواً خطا کے طور پر ہو یا نسیان کے، وہ شخص اس کا واجب ہونا جانتا ہو یا نہیں، ہاں اگر قصداً کرے اورجانتا بھی ہے تو گنہگار بھی ہے مگر واجب کے ترک سے حج باطل نہ ہوگا، البتہ بعض واجب کا اس حکم سے اِستثنا ہے کہ ترک پر دَم لازم نہیں، مثلاً طواف کے بعد کی دونوں رکعتیں یا کسی عذر کی وجہ سے سر نہ منڈانا یا مغرب کی نماز کا عشا تک مؤخر نہ کرنا یا کسی واجب کا ترک، ایسے عذر سے ہو جس کو شرع نے معتبر رکھا ہو یعنی وہاں اجازت دی ہو اور کفارہ ساقط کر دیا ہو-
حج کی سنتیں :
v طواف قدوم یعنی میقات کے باہر سے آنے والا مکہ مکرمہ میں حاضر ہو کر سب میں پہلا جو طواف کرے اسے طواف قدوم کہتے ہیں - طواف قدوم مفرد اور قارن کے لیے سنت ہے، متممتع کے لیے نہیں-
v طواف کا حجر اسود سے شروع کرنا-
v طواف قدوم یا طواف فرض میں رمل کرنا-
v صفا و مروہ کے درمیان جو دو میل اخضر ہیں، ان کے درمیان دوڑنا -
v امام کا مکہ میں ساتویں کو اور
v عرفات میں نویں کو اور
v منٰی میں گیارہویں کو خطبہ پڑھنا -
v آٹھویں کی فجر کے بعد مکہ سے روانہ ہونا کہ منٰی میں پانچ نمازیں پڑھ لی جائیں -
v نویں رات منٰی میں گزارنا
v آفتاب نکلنے کے بعد منٰی سے عرفات کو روانہ ہونا
v وقوف عرفہ کے لیے غسل کرنا -
v عرفات سے واپسی میں مزدلفہ میں رات قیام کرنا -
v آفتاب نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منٰی کو چلے جانا -
v دس اور گیارہ کے بعد دونوں راتیں منٰی میں گزارنا -
v ابطح یعنی وادی محصب میں اترنا - [2]
احرام میں ممنوع کام :
حج کے دوران حالتِ احرام میں جن کا موں سے منع کیا گیا ہے ان کی تفصیل اور خلاصہ بیان کرتے ہوئے علامہ سید غلام رسول سعیدی صاحبؒ فرماتے ہیں:
v محرم جماع کرنے سے یا اپنی بیوی سے جماع کا ذکر کرنے سے احتراز کرے گا اپنی بیوی کو شہوت سے نہیں چھوئے گا نہ بوسہ دے گا -
v کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں کرے گا -
v کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرے گا -
v خشکی کے جانوروں کو شکار نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف اشارہ کرے گا، نہ ان کی طرف رہنمائی کرے گا-
v قصدًا یا بلا قصد خوشبو نہیں لگائے گا (خوشبو کا سونگھنا مکروہ ہے، خوشبو دار صابن سے نہانا یا شیمپو استعمال کرنا جائز نہیں) اگر خوشبو دار چیز پکی ہوئی تھی تو حرج نہیں، اگر کچی ہو اور دوسری چیز سے مخلوط ہو اور خوشبو مغلوب ہو تو جائز ہے اگر غالب ہو تو جائز نہیں، اگر بعینہ خوشبو دار چیز کھائی تو اس پر دم ہے -
v ناخن نہ کاٹے -
v چہرےکو نہیں ڈھانپے گا، چہرے کا بعض حصہ مثلاً منہ یا ٹھوڑی کو ہتھیلی سے نہیں ڈھانپے گا -
v سر کو نہیں ڈھانپے گا -
v داڑھی کو نہیں کاٹے گا،سرمیں تیل نہیں ڈالے گا نہ بالوں میں خضاب لگائے گا، نہ ہاتھوں پر مہندی لگائے گا
v سر کے بال یا بدن کے بال نہیں منڈائے گا -
v سلے ہوئے کپڑے نہیں پہنے گا -
v عمامہ یا ٹوپی نہیں پہنے گا -
v چمڑےکے موزے نہیں پہنے گا البتہ اگر ان کو ٹخنوں کےنیچے سے کاٹ دیا جائے تو پنڈلیاں اور ٹخنے کھلے رہیں تو جائز ہے (ایسی چپل پہن سکتا ہے جس سے وسط قدم چھپا ہوا ہو اور ٹخنے کھلے ہوئے ہو- سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد مبارک ہے کہ موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن سکتا ہے) جرابیں پہننا جائز نہیں کیونکہ ان سے ٹخنے چھپ جاتے ہیں -
v جس کپڑے کو ایسی چیز سے رنگا گیا ہو جس سے رنگنے کے بعد خوشبو آئے مثلاً زعفران اور ورس وغیرہ اس کو نہ پہنے-
v مکہ مکرمہ کے کسی درخت کو نہ کاٹے - [3]
حج ادا کرنے کا مختصر طریقہ
آخر میں ادائیگی حج کی مکمل تفصیل اور طریقہ جاننے کیلئے علامہ شرنبلالی، حسن بن عمار، کی درسِ نظامی میں پڑھائی جانے والی کتاب نور الایضاح کے باب:’’کتاب الحج فصل فی کیفیۃ ترکیب افعال الحج‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے - یہاں اس کا خلاصہ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :
1- یوم الترویہ(حج کا پہلا دن - 8 ذی الحجہ)
غسل ، احرام،طواف ِ قدوم اور منی روانگی :
اس روز صبح سویرے اٹھ کر غسل کریں یا وضو کا اہتمام کریں اور مسنون طریقے سے احرام باندھ کر دو رکعت نفل ادا کریں حج کی نیت کرتے ہوئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یہ دعا عرض کرے :
’’ اللَّهُمَّ إنِّي أُرِيدَ الْحَجَّ فَيَسِّرْهُ لِي وَتَقَبَّلْهُ مِنِّي‘‘
’’یا اللہ ! میں حج کا ارادہ کرتا ہوں اسے میرے لیے آسان کردے اور میری طرف سے قبول فرما‘‘-
نماز کے بعد حج کی نیت سے تلبیہ کہو اور وہ یہ ہے :
’’لَبَّيکَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْکَ لَبَّيْکَ لَا شَرِيْکَ لَکَ لَبَّيْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِيْکَ لَک‘‘
’’یا اللہ عزوجل! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں ا ور ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘-
منیٰ کو روانہ ہونے سے قبل طواف قدوم (آنے کا طواف) کریں-طواف قدوم کے بعد منٰی کو روانہ ہو جائیں، منی میں قیام کرکے ظہر، عصر ، مغرب، عشاء اور 9 ذی الحجہ کی نماز فجر ادا کریں- منی میں یہ پانچوں نمازیں ادا کرنا اور آج کی رات منی میں گزارنا سنت ہے بہتر ہے کہ رات کو بھی تلبیہ، استغفار،بارگاہِ خیر الانام میں ہدیہ درود و سلام و دیگر دعائیں پڑھتے رہیں-
2- یوم عرفہ(حج کا دوسرا دن- 9 ذی الحجہ)
یہ مغفرت کا دن بھی کہلاتاہے اسی دن حج کا رکن اعظم (وقوفِ عرفات) ادا کیا جائے گا-اسی دن کو صبح تلبیہ پڑھتے ہوئے منیٰ سے عرفات کے لئے روانہ ہوجائیں- دوپہر ڈھلتے ہی کوشش کریں کہ مسجد نمرہ جائیں اور نماز (ظہر اور عصر اکٹھی) مسجد نمرہ میں جاکر اداکریں- کوشش کریں کہ قبلہ رو ہو کر غروب آفتاب تک اللہ رب العز ت کی بارگاہ اقدس میں ہاتھ پھیلائے ہوئے تکبیر و تہلیل، ذکر، دعا و استغفار میں مشغول رہے اور بالخصوص حضور تاجدارِ کائنات سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں ہدیہ درُود شریف پیش کرنا ہر گزنہ بھولیں- غروب آفتاب کے بعدتلبیہ پڑھتے ہوئے عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوجائیں- مگر امام سے قبل میدان عرفات سے نہ نکلیں، مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں عشاء کے وقت میں ادا کریں، رات مزدلفہ میں گزاریں، جب آپ میدان مزدلفہ میں پہنچیں گے تو اس میدان کی آخری حد پر نظر آنے والے پہاڑ(جسے مشعر حرام کہتے ہیں ) کے آس پاس ٹھہریں وگرنہ مزدلفہ کی حدود میں جہاں جگہ مل جائے ٹھہر جائیں اور کوشش کریں کہ پوری رات اپنے رب کریم کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے ہوئے تکبیر و تہلیل، ذکر، دعا و استغفار میں گزرے اور سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں ہدیہ درود شریف پیش کریں-
3- یوم نحر(حج کا تیسرا دن- 10 ذی الحجہ)
یہ عیدالاضحٰی کا دن ہے،عام لوگ اس دن نمازِ عید کے بعد قربانی ادا کرتے ہیں مگر مناسک حج کی اہمیت کی وجہ سے حاجی نماز عید سے مستثنٰی ہوتے ہیں- اس روز کی مصروفیات کی تفصیل کچھ یوں ہے :
وقوف مزدلفہ اور منٰی کی طرف روانگی
10 ذی الحجہ کو نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک مزدلفہ میں وقوف لازمی ہے-جب طلوع آفتاب میں دو رکعت پڑھنے کا وقت رہ جائے تو مزدلفہ سے منٰی کی طرف روانہ ہونا چاہئے-منٰی میں رَمی کیلئے کنکریاں مزدلفہ ہی سے اٹھا کر محفوظ کرلیں تاکہ وہاں کوئی پریشانی نہ ہو-
جمرہ عقبہ (بڑے شیطان) پر پہلی رمی اور فریضہ قربانی منٰی پہنچ کر سب سے پہلے جمرہ عقبہ پر سات کنکریوں کی رمی کریں - یہ رمی طلوع شمس سے غروب شمس تک کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے- ہر کنکری پھینکتے وقت زبان سے یہ الفاظ ادا کریں-
’’بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُ اَکْبَرْ رَغْمًا لِلشَّيْطَانِ‘‘
’’اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو سب سے بڑا ہے تاکہ شیطان ذلیل ہو‘‘-
رمی سے فارغ ہو کر سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسماعیلؑ کی سنت مبارکہ (قربانی ) اد ا کریں -
حلق یا تقصیر
قربانی کے بعد قبلہ رو بیٹھ کر مرد حلق (سرمنڈوانا) یا تقصیر (بال کتروانا) کروائیں لیکن حلق، تقصیر کی نسبت زیادہ افضل ہے کیونکہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِيْنَ‘‘
’’اے اللہ سرمنڈوانے والوں کو بخش دے‘‘-
سرمنڈواتے وقت مسنون یہ ہے کہ دائیں جانب سے پہلے منڈوائیں اور اگر بال کتروانے ہوں تو انگلی کے پور کے برابر کتروائیں- عورتیں انگلی کی ایک پور کے برابر بال کتروائیں- مرد اور خواتین اپنے بالوں کو دفن کردیں-
احرام اتارنا اور حج کی سعی
قربانی، حلق و تقصیر اور احرام کھولنے کے بعد طواف زیارت کیلئے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوں- طواف زیارت حج کا دوسرا اہم رکن ہے جب طواف زیارت کرلیا تو اب احرام کی تمام پابندیاں ختم ہوگئیں-
طواف زیارت کے بعد آپ روزمرہ کے لباس میں صفا و مروہ کی سعی کریں گے- حج کی سعی کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھیں- ان امور کی انجام دہی کے بعد آپ اللہ رب العزت کی بارگاہِ بے نیاز میں سجدہ ِشکر بجا لائیں کہ اس ذاتِ اقدس نے حج جیسی سعادت عظمٰی سے نوازا ہے-
ایام رمی(حج کا چوتھا، پانچواں اور چھٹا دن- 11، 12، 13 ذی الحجہ)
حج کے چوتھے اور پانچویں دن، 11 اور 12 ذی الحجہ کو منیٰ میں قیام کرکے تینوں جمرات پر زوال کے بعد سات سات کنکریاں ماریں-
طواف وداع
جب واپسی کا ارادہ ہو تو طواف وداع بجا لائیں مگر اس میں رمل ہے نہ سعی اور نہ ہی اضطباع، پھر دو رکعت مقام ابراہیم ؑ پر پڑھ کر زم زم پر آئیں اپنے ہاتھ سے پانی لیں اور قبلہ رو ہوکر خوب سیر ہوکر پئیں- ہر سانس میں نظریں اٹھا کر اللہ کے پیارے گھر کو بھی تکتے رہیں- اپنے جسم، سر اور منہ پر بھی پانی لگائیں-سیدنا حضرت عبداللہ بن عباسؓ آب زم زم نوش فرماتے وقت یوں دعا مانگتے تھے:
’’اَللّٰهُمَّ اَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا وَّاسِعًا وَّ شِفَاءً مِنْ کُلِّ دَاءٍ‘‘
’’اے اللہ میں تجھ سے نفع دینے والے علم اور کشادہ روزی اور ہر بیماری سے شفاء کا طالب ہوں‘‘-
حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’زم زم کا پانی ہر اس مقصد کے لیے ہے جس کےلیے پیا جائے‘‘-
زم زم سے فارغ ہونے کے بعد مقام ملتزم پر آئیں- باب کعبہ پر کھڑے ہوکر بوسہ دیں- خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر پیکرِ عجز و انکساری بن کر یہ دعا مانگیں:
’’اَللَّهُمَّ اِنَّ هَذَا بَيْتُكَ الَّذِي جَعَلْتَهُ مُبَارَكًا وَ هُدًى لِلْعَالِمِينَ َللَّهُمَّ كَمَا هَدَيْتنِي لَهُ فَتَقَبَّلْ مِنِّي، وَلَا تَجْعَلْ هَذَا آخِرَ الْعَهْدِ مِنْ بَيْتِك وَارْزُقْنِي الْعَوْدَ إلَيْهِ حَتَّى تَرْضَى عَنِّي بِرَحْمَتِك يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِين‘‘
’’یا اللہ ! یہ تیرا گھر ہے جسے تو نے مبارک اور تمام جہان والوں کے لیے ہدایت بنایا -یا اللہ! جس طرح تو نے مجھے اس کی طرف ہدایت عطا فرمائی اسے میری طرف سے قبول بھی فرما اسے اپنے گھر کی آخری حاضری نہ بنا اور مجھے دوبارہ آنے کی توفیق عطا فرما یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے میں تیری رحمت کا سہارا لیتا ہوں اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے ‘‘-
٭٭٭
[1]احمد رضا خان ، فتاویٰ رضویہ، ج: 10، ص: 789
[2]عظمی ، امجد علی ، صدر الشریعہ ، بہار شریعت ( لاہور : ممتاز اکیڈمی ، باب، حج کا بیان ،ج:1، ص:592)
[3](سعیدی، غلام رسول، تبیان القرآن الطبع السادس(لاہور،پاکستان،فرید بک سٹال) رجب:1426ھ، ج:1، ص:1، ص:759-760)