علم کی ضرورت و اہمیت : احادیث مبارکہ اور اقوال ائمہ دین کی روشنی میں

علم کی ضرورت و اہمیت : احادیث مبارکہ اور اقوال ائمہ دین کی روشنی میں

علم کی ضرورت و اہمیت : احادیث مبارکہ اور اقوال ائمہ دین کی روشنی میں

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی فروری 2022

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں دل ہوتا ہے سیپارہ

قرآن کے تقریباً 78 ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو اللہ عزوجل نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے قلب اقدس پہ نازل فرمایا وہ ’’اِقْرَاْ‘‘ ہے، یعنی پڑھیئے-مزید قرآن پاک کی 6ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو 5 آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے- علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہو- سیدی رسول اللہ (ﷺ) اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ حصول ِ علم کی رغبت اور تلقین فرماتے، غزوہ بدر کے موقع پہ آپ (ﷺ( ہر اس اسیرکو جو مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاتا تھا آزاد فرما دیتے تھے-اس عمل سے اسلام اور پیغمبر اسلام (ﷺ) کی نظر میں تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے -

 قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ علم کی اپنی بارگاہ ِ اقدس میں فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا:

’’يَرْ‌فَعِ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَ‌جَاتٍ ۚ وَاللّٰـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ ‘‘[1]

’’اللہ عزوجل تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ عزوجل کو تمہارے کاموں کی خبر ہے‘‘-

ایک اورمقام پہ ارشادفرمایا:

’’كُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ‘‘[2]

’’اللہ والے ہوجاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس سے کہ تم درس کرتے ہو ‘‘-

اسی طرح قرآن مجید میں جہاں اللہ عزوجل نے جگہ جگہ آقا کریم  (ﷺ) کی صفات محمودہ کا ذکر فرمایا وہاں آپ (ﷺ) کی بعثت مبارک کی غایت اولیٰ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘[3]

’’جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا‘‘-

اللہ عزوجل کی بارگاہ اقدس میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اللہ عزو جل نے اپنے محبوب مکرم (ﷺ)کے وسیلہ جلیلہ سے ہم سب کو یہ دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا:

’’ وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘[4]

’’اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے‘‘-

اسی علم کی اہمیت کے پیش ِ نظر یہاں فضیلتِ علم کے بارے میں چند فرامین مصطفٰے(ﷺ) لکھنے اور ہمارے اکابرین کی علمی محبت اورجستجو کی عملی کاوشوں اور ا ن کے فرمودات کو لکھنے کی سعی سعید کرتے ہیں -

1:سیّدنا معاویہؓ روایت کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہےاور میں (علم ) کو تقسیم کرنے والا ہوں عطا کرنے والا تو اللہ ہی ہے‘‘-[5]

2: حضور نبی کریم (ﷺ)نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے حق میں دعا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اے اللہ !ان کو دین کی فہم اورعلم ِ تاویل عطافرما‘‘-[6]

3: حضرت امامہ باہلی ؓسے مروی ہے:فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عالم تھا اور دوسرا عابد، رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’عالم کی فضیلت عابد پہ ایسے ہی ہے جیسے کہ میری فضیلت تم میں سے ادنی شخص پر ہے‘‘-[7]

4:حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے بھاری ہوتا ہے‘‘-[8]

5:حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ(ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

’’میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا اور میں نے اس سے دودھ پیا- یہاں تک کہ اس کی سیرابی کا اثر میں نے اپنے ناخنوں میں ظاہر ہوتا دیکھا، اس کے بعد میں نے اس کا بچا ہوا دے دیا- آپ کا اشارہ حضرت عمرؓ کی طرف تھا - صحابہ کرامؓ نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)!’’آپ(ﷺ) نے اس کی کیا تعبیر کی؟ تو حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشادفرمایا: علم‘‘-[9]

6: حضرت کثیر بن قیسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے آقا کریم (ﷺ) کو ارشاد فرماتے ہوئے سُنا:

’’جو کسی راستہ پہ چلا جس میں علم کی تلاش کرتا تھا اللہ عزوجل اس کیلئے جنت کی طرف راستہ کو آسان فرما دیتا ہے اور بے شک فرشتے طالب علم سے خوش ہوکر اس کے لیے اپنے پربچھاتے ہیں اور اس طالب علم کے لیے زمین و آسمان کی ہرچیز استغفارکرتی ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی بخشش طلب کرتی ہیں-بے شک عالم کی عابد پر فضیلت اس طرح ہے جس طرح چاند کی دیگر تمام ستاروں پر فضیلت ہے-بے شک علماء انبیاء (علیھم السلام) کے وارث ہیں- انبیاء دینار اور درہم نہیں چھوڑتے،  بے شک وہ علم ورثہ میں چھوڑتے ہیں جس نے علم حاصل کیا اس نے وافر حصہ لیا‘‘-[10]

7: حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص حصولِ علم کے لئے نکلا وہ اس وقت تک اﷲ کی راہ میں ہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹ آتا‘‘-[11]

8: حضرت ابو الدرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ سيدی رسول اللہ(ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’ روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا‘‘-[12]

9:حضرت عمرفاروقؓ فرماتے ہیں:

’’سیادت (منصب) کے حصول سے قبل فقہ حاصل کرو، امام ابو عبد اللہ بخاریؒ فرماتے ہیں حصول منصب کے بعد بھی (علم حاصل کرو) کیونکہ حضورنبی کریم (ﷺ) کے اصحابؓ  نے بڑی عمر کے بعد بھی حاصل کیا‘‘-[13]

10: حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ نے ارشاد فرمایا:

’’ایک گھڑی بھر علم کا حصول ایک رات کے قیام سے بہترہےاور ایک دن علم حاصل کرنا تین ماہ کے روزوں سے افضل ہے‘‘-[14]

امام مناویؒ اس حدیث مبارک کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پا ک اس کے بارے میں ہے جس نے شرعی علم حاصل کیا تاکہ اس پہ عمل کیاجائے -[15]

11: حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ سے مرو ی ہے فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرا کروتو دلی مراد حاصل کرلیاکرو،عرض کی ،یاسول اللہ (ﷺ)! جنت کے باغ کیا ہیں؟آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:’’علم کی مجالس‘‘-[16]

12:سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’دین کی تھوڑی فہم حاصل کرنا،عبادت کی کثرت سے بہتر ہے ‘‘-[17]

13: حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں:

’’ امرو نہی کے بارے میں (علم کا ) ایک باب پڑھنا، اللہ عزوجل کی راہ میں 70 غزوات میں شرکت سے مجھے زیادہ پسندیدہ ہے‘‘-[18]

14: حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ:

آقا  کریم(ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں ایک شخص حاضر ہو ا اور آپ (ﷺ) سے عبادت گزاروں اور فقہاء کے بارے میں سوال کیا اور عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ)! اللہ عزوجل کے ہاں عبادت گزار افضل ہیں یا فقہاء؟ تو سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے اپنی زبان گوہرفشاں سے ارشاد فرمایا:اللہ عزوجل کے ہاں ایک فقیہہ ہزار عبادت گزاروں سے افضل ہے ‘‘-[19]

15: جب سید ی رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا تو آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’تیری وجہ سے ایک آدمی کاہدایت پاجانا تیرے لیے دنیا ومافیھا سے بہتر ہے‘‘-[20]

16:سیدنا رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’جس آدمی کو موت آئی اس حال میں کہ وہ علم حاصل کر رہا ہو تاکہ وہ اسلام کو زندہ کرے تو اس کے اور انبیاء کرامؑ کے درمیان ایک درجہ کا فرق ہوگا‘‘-[21]

اخلاصِ نیت :

سید ی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پہ ہے‘‘-اس لیے ہم سب کو اپنے اعمال سر انجام دیتے وقت اپنی نیت اور قلبی رجحان کا ضرور محاسبہ کرنا چاہیے -ورنہ بعض اوقات پہاڑ جیسا عمل نیت میں اخلاص کے فقدان کی وجہ سے رائیگاں چلا جائے گا-اگرچہ نیت کے موضوع پہ علماء کرام نے باقاعدہ ابواب باندھے ہیں،یہاں صرف موضوع کی مناسبت سے چار روایا ت لکھنے کی سعی سعید کرتے ہیں :

1: حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’جس نے علم جو محض اللہ عزوجل کی خاطر حاصل کرنا چاہیے،کسی دنیاوی مقصد کی خاطر حاصل کیا، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گا‘‘-[22]

2: حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے،:

’’علم اس لیے حاصل نہ کرو کہ علماء سے مناظرے کرو گے، سادہ لوگوں سے بحث کرو گے اورمجلس کو اپنی طرف متوجہ کرو گے جو شخص ایساکرے گا وہ جہنم کا مستحق ہے ‘‘-[23]

3:حضرت جعفر بن حیانؓ فرماتے ہیں:

’’ان اعمال کا سرمایہ ان کی نیت ہے ،پس اپنی نیت کی وجہ سے وہاں تک پہنچ جاتا ہے جہاں تک اپنے عمل سے نہیں پہنچتا‘‘-[24]

4:حضرت زُبیدؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں:

’’مجھے خوش کر تا ہے کہ میر ی ہرمعاملے میں(حُسن) نیت ہو یہاں تک کہ کھانے اور سونے میں بھی -[25]

علم کیلئے سفر اختیار کرنے کی فضیلت :

1:حضرت کثیر بن قیسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ:

’’میں حضرت ابودرداءؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی:اے ابودرداءؓ !میں آپ کے پاس سیدی رسول اللہ (ﷺ)کے شہر مدینہ طیبہ سے اس حدیث کے لیے حاضر ہوا ہوں،جس کے بارے میں مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ اسے حضور نبی کریم (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں-حضرت ابودرداءؓ نے پوچھا: تجھے کوئی تجارت نہیں لائی ؟عرض کی: نہیں- پوچھا: تجھے کوئی غرض نہیں لائی؟عرض کی: نہیں‘‘-[26]

2: امام بخاری نے ’’بابُ الخُروْج فی طلب العلم‘‘ میں بیان کیا ہے:

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ ؓ نے حضرت عبد اﷲ بن اُنیس ؓ کی طرف ایک حدیث کی خاطر ایک مہینے کا سفر طے کیا‘‘-[27]

3 :حضرت عمر ؓروایت بیان فرماتے ہیں:

’’مَیں اور میر اانصاری پڑوسی بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے اور یہ مدینہ کے بالائی حصہ پرتھا،ہم باری باری سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے تھے ایک دن میں جاتااورایک دن وہ ،پس جس دن میں جاتا تو اس دن نزولِ وحی کی خبر لے کرآتا اور جس دن وہ جاتاتو وہ بھی اس طرح کرتا‘‘-[28]

ا س حدیث مبارک کی شرح میں علامہ سیّد غلام رسول سعیدیؒ لکھتے ہیں کہ:

’’ اس (حدیث مبارک ) سے طلبِ علم کی حرص کاجواز معلوم ہوتا ہے، اسی لیے حضرت عمر اورو ہ انصاریؓ باری باری سیدی رسول اللہ (ﷺ)کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے ‘‘- [29]

4:حضرت معاویہ بن یحیی ؓفرماتے ہیں کہ:

’’اللہ عزوجل نے حضرت داؤد ؓ کی طرف وحی فرمائی کہ:

’’لوہے کے جوتے اورلوہے کا عصا بنالے اور علم کے حصول میں شروع ہوجا یہاں تک کہ عصاٹوٹ جائے  اور جوتے پھٹ جائیں‘‘-[30]

6: حضرت زکریا بن عَدی ؓفرماتے ہیں کہ:

’’میں نے حضرت ابن مبارک ؓ کی خواب میں زیارت کی تو میں نے کہا آپ کے ساتھ اللہ عزوجل نے کیا معاملہ فرمایا تو آپ ؓ نے فرمایا:’’اللہ عزوجل نے مجھے میرے علم حدیث کی خاطر سفر کی وجہ سے بخش دیا‘‘-[31]

7: حضرت عبداللہ ؓفرماتے ہیں:

’’جو بھی آیت مبارک نازل ہوئی میں اس کے شان نزول کو جانتا ہوں اور مجھے علم ہوتا کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والا ہے اور میرا اونٹ یاسواری مجھے پہنچاسکتی تو میں اس کے پاس جاتا‘‘-[32]

8’’حضرت عبداللہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالببؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے انہیں بیان فرمایا کہ مجھے ایک شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) سے ایک حدیث مبارک سن رکھی ہے جو میں نےآپ (ﷺ) سے نہیں سنی تھی -آپ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک اونٹ خرید ا ، اس پر اپنا سامان باندھا اور ایک ماہ تک اس شخص کی طرف چلتا رہا یہاں تک ملک شام آیا، تو وہ حضرت عبداللہ بن اُنَیْس انصاریؓ تھے-آپ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی طرف پیغام بھیجا کہ جابر ؓ دروازے پہ ہے- آپ ؓ فرماتے ہیں کہ میری طرف قاصد آیا اور اس نے کہا کہ جابر بن عبد اللہ؟تو میں نے کہا: ہاں!-آپ ؓفرماتے ہیں کہ قاصد حضرت عبداللہ بن اُنَیْس انصاریؓ کی طرف گیا (اور میرا تعارف کروایا) تو آپ ؓ باہر تشریف لائے اور   باہم ایک دوسرے کو گلے لگایا،آپ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے سیدی رسول اللہ (ﷺ)سے مظالم کے بارے میں ایک حدیث مبارک سُن رکھی ہے جو میں نے نہیں سُنی: تو مجھے ڈر لگا کہ حدیث مبارک کے سُننے سے پہلے میرایا آپ کاوصال ہوجائے‘‘-[33]

9: حضرت سعید بن مُسیّب ؓ فرماتے ہیں کہ:

’’ میں ایک حدیث مبارک کی طلب میں کئی دن اور کئی راتیں سفر کرتا رہتا تھا‘‘-[34]

علم کی اہمیت ائمہ دین کے

اقوال مبارکہ کی روشنی میں :

1:سیدنا امام حسن بن علی بن ابی طالبؓ اپنے صاحبزادوں اور بھتیجوں کو فرمایا کرتے تھے:

’’ تم علم سیکھو، اگر اسے یاد نہ رکھ سکو تو اسے لکھ کر اپنے گھروں میں رکھ لو‘‘-[35]

2:امام غزالیؒ سیدنا عبداللہ بن عباسؒ کا قول مبارک نقل کرتے ہیں :

’’میں نے طلبِ علم کے وقت عاجزی اور فروتنی اختیار کی اور جب مجھ سے علم طلب کیا جانے لگا تو میں معزز بن گیا‘‘-[36]

حضرت ابو درداء ؓ فرماتے ہیں کہ:

’’ میراایک مسئلہ سیکھنا میرے لیے پوری رات کے قیام سے پسندیدہ ہے‘‘-[37]

مزید ارشادفرماتے ہیں :

’’جس نے یہ خیال کیا کہ علم کی طلب میں صبح کے وقت جانا جہاد نہیں تو اس کی رائے اورعقل میں نقص ہے ‘‘-[38]

علم ظاہر اور علم باطن باہم لازم وملزوم :

ظاہر وباطن میں اولین ترجیح باطن کی ہے کیونکہ جب تخلیق آدم ؑ ہوئی اور فرشتوں کو اللہ عزوجل نے سجدہ کاحکم مبارک ارشادفرمایا توا س وقت سیدنا آدم ؑ کے ظاہر ی وجود میں روح آنے کے بعد سجدہ کا حکم ارشادفرمایا ،جب تک ظاہر ی وجودتھا تو فرشتوں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ مبارک میں سیدنا آدم ؑ کے خلیفہ ہونے پہ سوال بھی اٹھایا مزید یہ کہ اللہ پاک نےصرف ظاہری ڈھانچے کو سجدہ کا حکم بھی نہیں ارشاد فرمایا بلکہ ارشادفرمایا:

’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہٗ سٰجِدِیْنَ‘‘ [39]

’’پھر جب میں اس (کے ظاہر) کو درست کر لوں اور اس (کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس (کی تعظیم) کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا‘‘-

اس لیےاگر غیر جانبدارانہ تجزیہ کیاجائے تو پورے کا پورا انسان’’روحانیت‘‘سے عبارت ہےاور اگر انسان سے ’’روح‘‘کو نکال لیا جائے تو باقی اس کے پاس بچتا کیا ہے؟ باقی ’’ڈیڈ  باڈی ‘‘بچے گی،جس کو کو ئی ذی شعور گھر رکھنے کو تیار نہیں ہوتا -

جس طرح اسلام انسان کے ظاہری وجود کی تربیت کا سامان مہیا کرتا ہے اسی طرح اسلام انسان کے وجودِ باطنی کی تربیت کا سامان بھی فراہم کرتا ہے، جس طرح انسان کا بشری وجود اسلام کا موضوع ہے بعینہٖ انسان کا روحانی وجود بھی اسلام کا موضوع ہے -

گویا کہ روحانیت ایک مستقل موضوع ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس کو آپ کسی زمانے کے ساتھ مقیدکر سکتے ہیں اور اِسی رُوحانیت کے پیشِ نظر انسان کو باطنی مشاہدات نصیب ہوتے ہیں -

اللہ عزوجل نے اپنی لاریب کتاب میں ظاہرکے ساتھ باطن کی طرف یوں توجہ دلائی ہے کہ :

’’وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ‘‘[40]

’’اور تم ظاہری اور باطنی گناہ چھوڑ دو‘‘-

دوسرے مقام پہ ارشادفرمایا:

’’أَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً‘‘[41]

’’اللہ عزوجل نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں‘‘

مزید ارشادفرمایا:

’’ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ‘‘[42]

’’وہی (سب سے) اوّل اور (سب سے) آخر ہے اور (اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے‘‘-

ان آیات بیّنات سے یہ واضح ہوا کہ ظاہر کی طرح باطن بھی ایک حقیقت ہےاوربلاشبہ روحانیت کو چھوڑ کر انسان کی تربیت کرنا ہوائی قلعے تعمیر کرنے کے عین مترادف ہے،جس طرح دیگر علوم مثلاً بائیو، فزکس، کیمسٹری وغیرہ جو سائنسی علوم کی طر ف توجہ مبذول کروائیں،اس کوبالاتفاق سائنسی علوم شمار کرنے میں کوئی دو رائے نہیں ،اسی طرح جو علوم یا طُرق (طریقہ کی جمع ) روح ،روحانیت یا روحانی جسم کی طرف متوجہ کریں ان کوشرعی اصطلاح میں علم باطن یا علم تصوف سے موسوم کیا جاتا ہے -

 اس علمِ باطن کی تعلیم دینا فرائضِ نبوت میں سے ایک اہم مقصد ہے اور سید ی رسول اللہ (ﷺ) کےزمانہ مبارک میں اس کی باقاعدہ تعلیم و تربیت دی جاتی تھی-اگرچہ حضور رسالت مآب (ﷺ) کی ظاہر ی حیات مبارک کے زمانہ میں صحابہ کرامؓ کے ہاں دیگر علوم کے ہوتے ہوئے ان علوم کی اصطلاحات (سائنس،علم فلکیات وغیرہ) مشہور نہیں تھیں اسی طرح علم تصوف کا باقاعدہ نام معروف نہ ہونے کے باوجود روحانی مشاہدات و واقعات کا ہونا مستقل حیثیت میں موجود تھا-بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ صحابہ کرامؓ ظاہر کی نسبت باطنی کیفیات اور مشاہدات کو زیادہ ترجیح دیتے تھے،اس کو متاعِ بے بہا سمجھ کر دنیاکی ہرچیزپہ اس کو فوقیت دیتے اورنہ صرف ان کی حفاظت کرتے بلکہ ہرلمحہ ان میں اضافے کے خواہش مندرہتے -یہاں صر ف ایک روایت پہ اکتفا کرتے ہیں :

’’ایک دن حضرت حنظلہؓ ایک خاص احتسابی کیفیت میں سوچتے سوچتے رونے لگے اور اسی حالت میں)  سیدنا حضرت ابوبکر ؓ کے پاس سے گزرے تو رو رہے تھےتوحضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: اے حنظلہ تمہیں کیا ہوا؟ حضرت حنظلہؓ نے عرض کیا : ’’اے ابوبکر!حنظلہ منافق ہوگیا ہے ‘‘-

حضرت حنظلہ ؓ بیان فرماتے ہیں ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کی مجلس مبارک میں ہوتے ہیں اور آپ (ﷺ)  ہم سے دوزخ و جنت کا ذکر فرماتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پھر جب ہم اپنے حرم اور مال و اسباب کی طرف لوٹتے ہیں تو اکثر باتیں بھول جاتے ہیں-حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے یہ ساری بات سن کر فرمایا ! اللہ کی قسم! میرا بھی یہی حال ہے-(آؤ) میرے ساتھ حضورنبی کریم (ﷺ) کے پاس چلو‘‘-

حضرت حنظلہؓ فرماتے ہیں پس ہم دونوں حضور رسالت مآب (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں چلے گئے پس جب رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے غلام کو دیکھا تو ارشاد فرمایا: ’’اے (میرے ) حنظلہ تجھے کیا ہوا؟

حضرت حنظلہ ؓ نے عرض کی ’’یارسول اللہ (ﷺ)! حنظلہ منافق ہوگیا‘‘-

(اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے عرض کرتے ہیں )

’’یا رسول اللہ (ﷺ)! جب ہم آپ(ﷺ) کے پاس ہوتے ہیں اور آپ (ﷺ) ہمیں وعظ و نصیحت میں جنت ودوزخ کا ذکر فرماتے ہیں‘‘-

’’(ایسا معلوم ہوتا ہے)گویا کہ ان دونوں کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب ہم واپس لوٹتے ہیں اور بیویوں اور مال و اسباب میں مصروفیت کی وجہ سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں (تو وہ کیفیت باقی نہیں رہتی)‘‘-

حضرت حنظلہ ؓ فرماتے ہیں کہ آقاکریم (ﷺ) نے میری پوری بات تفصیل سے سنی اور پھر ارشاد فرمایا:

’’لَوْ تَدُوْمُوْنَ عَلَى الْحَالِ الَّذِىْ تَقُوْمُوْنَ بِهَا مِنْ عِنْدِىْ لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلاَئِكَةُ فِىْ مَجَالِسِكُمْ وَفِىْ طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً ‘‘[43]

’’اگر تم اسی حال پر باقی رہو جس حال میں میرے پاس ہوتے ہو تو فرشتے تمہاری مجلسوں، بستروں اور راستوں میں تم سے ہاتھ ملائیں لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے‘‘-

ذیل میں علم تصوف (علم باطن ) کےبارے میں چند روایات مبارکہ اور اقوال لکھنے کی سعی سعید کرتے ہیں :

حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں:

’’حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ (ﷺ) وِعَاءَيْنِ: فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا البُلْعُومُ‘‘[44]

’’مَیں نے سید ی رسول اللہ ( ﷺ) کی بارگاہ اقدس سے دو اقسام کے علم سیکھے ہیں، ایک کو تو میں نے بیان کردیا اور دوسرے کو اگر میں بیان کرتا تو میرا یہ حلقوم کاٹ دیا جاتا‘‘-

علامہ بدرالدین عینیَؒ اسی حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صوفیاء کرام فرماتے ہیں:

’’اَلْمُرَادُبِالْاَوَّلِ: عِلْمُ الْأَحْکَامِ وَالْأَخْلَاقِ، وَ بِالثَّانِیْ: عِلْمُ الْأَسْرَارِ، اَلْمَصْئُوْنُ عَنِ الْأَغْیَارِ، اَلْمُخْتَصُّ بِالْعُلَمَاءِ بِاللّٰہِ مِنْ أَہْلِ الْعِرْفَانِ‘‘[45]

’’پہلے ظرف سے مراد احکام اور اخلاق کاعلم ہے اور دوسرے (ظرف) سے مراد  اسرار و رموز کا علم ہے جو اغیار سے محفوظ ہے اور اہل عرفان میں سے علماء باللہ کے ساتھ خاص ہے ‘‘-

ان ہی دونوں علوم کی مزیدتائید حضورنبی کریم (ﷺ) کے اس ارشاد گرامی سے بھی ہوتی ہے :

حضرت امام حسن بصری ؓ  سے مرسلًا روایت ہے،فرماتے ہیں :

’’الْعِلْمُ عِلْمَانِ : فَعِلْمٌ فِى الْقَلْبِ فَذَلِكَ الْعِلْمُ النَّافِعُ ، وَعِلْمٌ عَلَى اللِّسَانِ فَذَلِكَ حُجَّةُ اللهِ عَلَى ابْنِ آدَمَ‘‘[46]

’’علم دو قسم کا ہے پس ایک قلب کا علم ہے پس یہی علم نافع ہے اور دوسرا زبان کا علم ہے پس یہ بنی آدم پر حجت ہے‘‘-

حدیث کی شرح میں ملا علی قاری الہرویؒ لکھتے ہیں:

’’پہلے علم کو علمِ باطن پر محمول کیا گیا ہے اور دوسرے کو علمِ ظاہر پر لیکن ظاہر کی اصلاح کے بغیر علمِ باطن میں سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی جیسا کہ علمِ ظاہر باطن کی اصلاح کے بغیر مکمل نہیں ہوتا-اسی لیے امام مالکؒ نے فرمایا کہ جس نے فقہ کا علم حاصل کیا لیکن تصوف نہ سیکھا تو اس نے فسق کیا اور جس نے تصوف کا علم سیکھا لیکن فقہ کا علم حاصل نہ کیا تو وہ زندیق ہوا اور جس نے فقہ اور تصوف دونوں کو جمع کرلیا تو وہ حق تک پہنچ گیا - ابو طالب مکیؒ نے فرمایا کہ دونوں علم ہی اصل ہیں ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے مستغنی نہیں ہوتا جیسے اسلام اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں، جیسے جسم اور قلب میں سے کوئی بھی انسان سے جدا نہیں‘‘-[47]

شہنشاہ بغدادمحبوب سبحانی قطب ربانی شہبازِ لامکانی سیدی الشیخ عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرّہٗ) ارشاد فرماتے ہیں:

’’علم دو قسم کا ہے،ایک کا تعلق زبان سے ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہے اپنے بندوں پر - دوسرے کا تعلق دل سے ہے اور یہی علم حصولِ مقصد کے لئے کار گر ہے-انسان کیلئے سب سے پہلے علمِ شریعت ضروری ہے تاکہ وہ اِس کے ذریعے عالمِ صفات میں اللہ تعالیٰ کی معرفت ِصفات حاصل کر سکے جس کے بے شمار درجے ہیں- اِس کے بعد ضرورت ہے علمِ باطن کی تاکہ اُس کے ذریعے روح عالمِ معرفت میں معرفت ِذات حاصل کر سکے جو خلافِ شریعت و طریقت رسومات ترک کیے بغیر ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی - اِس کا حصول اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ محض رضائے الٰہی کی خاطر نمائش و ریا سے پاک ریاضتیں اختیار نہ کی جائیں‘‘-[48]

اسی طرح سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھوؒ علم ظاہر کے ساتھ ساتھ علم باطن کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :

علمِ باطن ہم چو مسکہ علمِ ظاہر ہم چو شِیر
کی بود بی شِیر مسکہ کی بود بی پیر پیر

’’ علمِ باطن مکھن ہے اور علمِ ظاہر دودھ- بھلا دودھ کے بغیر مکھن کہاں سے آئے گا اور پیر کے بغیر بزرگی کہاں سے آئے گی‘‘؟

مزید ارشادفرمایا :

’’علم وہ ہے جو معلوم (ذاتِ حق تعالیٰ )تک پہنچا کر باخبر کر دے ورنہ حضور نبی کریم(ﷺ) کے فرمان مبارک کے مطابق ’’ علم ہی سب سے بڑا حجاب ہے‘‘-[49]

مزید ارشادفرمایا:

’’جان لے کہ آدمی اپنے ظاہر کو اور اپنی زبان کو علمِ فضیلت سے آراستہ رکھتاہے لیکن اپنے باطن کو تصدیق ِ دل اور علمِ مشاہدہ سے بے خبر رکھتاہے، لیکن جسے علمِ باطن حاصل نہیں وہ مطلق حیوان ہے- وہ شیطان کا قیدی اور مردہ دل ہے، اگرچہ ظاہر میں اُس کی زبان پر علمِ نص و حدیث جاری رہتاہے لیکن باطن میں وہ جاہل دیو ہوتاہے، اُس کا نفس خبیث ابلیس کی طرح منافق ہوتاہے‘‘-[50]

علم ظاہر وعلم باطن کے فرق کو واضح کرتے ہوئے مولانا رومیؒ  فرماتے ہیں:

علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود

’’علم کی غرض و غایت اگر صرف ظاہر سنورانا ہےتو یہ تیرے لئے سانپ ہے اور اگر تو اس سے اپنا من سنوارے گا تو یہ تیرا دوست ہے‘‘-

اسی چیز کو علامہ محمد اقبالؒ اپنے کلام میں یوں بیان فرماتے ہیں :

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو

اہلِ علم پہ حسد کرنابھی جائز (حالانکہ یہ عام حالات میں قابل ِ مذمت ہے )

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’حسد(رشک )صرف دوآدمیوں میں کیا جائے، ایک وہ شخص جس کو اللہ عزوجل نے مال دیا اوروہ ا س کو مصارف حق میں خرچ کرے،دوسراوہ شخص جس کو اللہ عزوجل نے حکمت عطافرمائی ہو اور وہ اس حکمت (علم ) کے مطابق فیصلہ کرے اور لوگوں کو تعلیم دے‘‘-

اس حدیث رسول (ﷺ) کی شرح میں علامہ ابن بطالؒ فرماتے ہیں:

’’هذا الحسد الذى أباحه (ﷺ) ليس من جنس الحسد المذموم‘‘

’’یہ حسد جس کوآقا کریم (ﷺ) نے مباح فرمایا یہ  حسد کی اس قسم میں سے نہیں جس کی مذمت کی گئی ہے‘‘-[51]

علم کے آداب:

1:حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ فرمایا کرتے تھے:

’’آدمی اس وقت تک اہل علم میں شمار نہیں ہوتا جب تک وہ (علم میں) اپنے سے فوقیت رکھنے والوں پر حسد کرنا، اپنے سے کم درجہ افراد کو حقیر جاننا اور علم کے ذریعے کسی مال کا طلب کرنا ترک نہیں کرتا‘‘-[52]

سیّدنا امام شافعیؒ  فرماتے ہیں:

’’طالبانِ علم پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لیے غایت درجہ محنت کریں اور اس کی طلب میں آنے والی ہر رکاوٹ پر صبر کریں اور اپنے علم کو نصاً اور استنباطاً حاصل کرنے میں نیت کو اﷲ تعالیٰ کے لئے خالص رکھیں اور اس کام میں مدد حاصل کرنے کے لیے اﷲ تعاليٰ کی طرف رغبت رکھیں‘‘-[53]

امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’جس نے عزتِ نفس (انا) کے ساتھ علم حاصل کرنا چاہا،  کامیاب نہ ہوا اور جس نے اسے نفس کی ذلت اور علماء کی خدمت کے ذریعے حاصل کرنا چاہا وہ مقصد پا گیا‘‘-[54]

امام ابراہیم آجریؒ بیان کرتے ہیں:

’’مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ بِالْفَاقَةِ وَرِثَ الْفَهْمَ‘‘[55]

’’جس نے فقر و فاقہ کے ساتھ علم طلب کیا وہ فہم کا وارث بنا‘‘-

حضرت یحیيٰ بن ابی کثیرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :

’’لَا يُسْتَطَاعُ الْعِلْمُ بِرَاحَةِ الْجِسْمِ‘‘[56]

’’علم جسم کی راحت (آرام طلبی) سے حاصل نہیں ہوتا‘‘-

حضرت یحیيٰ بن ابی کثیرؓ بیان کرتے ہیں:

’’وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ تَتَعَلَّمُونَ مِنْهُ‘‘[57]

’’اور عاجزی سے پیش آؤ جن سے علم حاصل کرتے ہو‘‘-

ایک اورمقام پہ روایت مبارک نقل فرماتے ہیں کہ حضرت مالک بن انس ؓنے اپنی والدہ ماجدہ سے عرض کی کہ میں علم کے حصول کے لیے جانا چاہتاہوں تومیری والدہ ماجدہ نے ارشادفرمایا:

’’ادھر آؤ اور عالمانہ لباس پہنو، پھر جاؤ اور لکھو، پس آپؓ نے مجھے پکڑا، مجھے خوبصورت لباس پہنایا، میرے سر پہ لمبی ٹوپی رکھی،اس کے اوپر عمامہ باندھا، پھر ارشادفرمایا :اب جاؤاور لکھو‘‘-[58]

قاضی عیاض مالکیؒ فرماتے ہیں پھر امام مالکؒ خود ارشادفرماتے ہیں:

’’كتبت بيدي مائة ألف حديث‘‘[59]

’’میں نے اپنے ہاتھ(مبارک) سے ایک لاکھ احادیث مبارکہ لکھیں‘‘-

امام مالکؒ سے مروی ہے،فرماتے ہیں:

’’ لَا يَبْلُغُ أَحَدٌ مَا يُرِيدُ مِنْ هَذَا الْعِلْمِ حَتَّى يَضُرَّ بِهِ الْفَقْرُ وَيُؤْثِرَهُ عَلَى كُلِّ حَاجَةٍ‘‘[60]

’’کوئی شخص اُس علم میں سے جو کچھ چاہتا ہے اسے حاصل نہیں کر سکتا، جب تک کہ فقر اُسے متاثر نہ کرے اور جب تک وہ اپنی ہر ضرورت پر اس علم کو ترجیح نہ دے‘‘-

امام ابو الحسن شاذلیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’چار چیزوں کے ہوتے ہوئے علم نفع نہیں دیتا: دنیا کی محبت، آخرت کی فراموشی، تنگ دستی کا خوف اور (ملامت کرنے والے) لوگوں کا ڈر‘‘-[61]

امام شقیق بلخیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’إِذَا کَانَ الْعَالِمُ طَامِعاً، وَلِلْمَالِ جَامِعاً فَبِمَنْ يَقْتَدِي الْجَاهِلُ؟‘‘[62]

’’جب عالم دین طمع کرنے والا اور مال جمع کرنے والا ہو تو جاہل کس کی پیروی کرے؟‘‘

شیخ امام احمدابو العباس مُرسیؒ نے فرمایا:

’’اَلْعِلْمُ هُوَ الَّذِي يَنْطَبِعُ فِي الْقَلْبِ کَالْبَيَاضِ فِي الْأَبْيَضِ، وَالسَّوَادِ فِي الْأَسْوَدِ‘‘[63]

’’علم تو وہ ہے جو کہ دل میں یوں سرایت کر جائے جیسے سفید چیز میں سفیدی اور سیاہ چیز میں سیاہی‘‘-

امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’لَا شَيْئَ أَزْيَنُ بِالْعُلَمَاءِ مِنَ الْفَقْرِ وَالْقَنَاعَةِ وَالرِّضَا بِهِمَا‘‘[64]

’’علماء کو فقر و قناعت اختیار کرنے اور ان دونوں پر خوش رہنے سے زیادہ کوئی چیز زیب نہیں دیتی‘‘-

کسی بھی دینی شعار (داڑھی، عمامہ شریف وغیرہ) بالخصوص فرامینِ مصطفٰے ()کا مذاق نہ اڑایاجائے-

علم دین میں کسی چیز کا با لخصوص سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے فرامین مبارکہ کا مذاق نہیں اڑاناچاہیے کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ تباہی کے علاوہ کچھ نہیں- جیسا کہ ابویحییٰ زکریا بن یحییٰ ؓ فرماتے ہیں:

’’ ہم مدینہ کی گلیوں میں (حصول علم کیلئے) ایک محدث کے دروازے کی طرف جارہے تھے ،ہم نے چلنے میں جلدی کی ،ہمارے ساتھ ایک دین کامذاق اڑانے والا تھا، اس نے مذاق اڑانے والے کے انداز میں کہا فرشتوں کے پروں سے اپنے پاؤں کو اٹھالو تاکہ ٹوٹ نہ جائیں:

’’فَمَا زَالَ مِنْ مَوْضِعِهِ حَتَّى جَفَّتْ رِجْلَاهُ وَسَقَطَ‘‘[65]

’’وہ اسی جگہ موجود تھا کہ اس کے پاؤں خشک ہوگئے اور وہ گر گیا‘‘-

علم میں جھوٹ سے اجتناب لازم ہے:

یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، آئے روز حضور رسالت مآب (ﷺ)،صحابہ کرام ؓ اور اولو العزم ہستیوں سے منسوب ایسی باتیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں جن کا حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا- اس لیے نہات ضروری ہے کہ بغیر تحقیق کے کوئی بات شئیر نہ کی جائے، کیونکہ یہ بھی جھوٹ کی ایک شکل بن جاتی ہے اور جھوٹ کے بارے میں سید ی رسول اللہ (ﷺ) کا یہ فرمان ذیشان ہمیشہ پیش نظر رہے کہ:

’’ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ‘‘[66]

’’کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے‘‘-

بالخصوص آقا پرنور ،شافع یوم النشور سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی طرف بات منسوب کرنے میں انتہاء درجہ کی احتیاط لازم ہے کیونکہ حضرت علی المرتضی ٰ شیرِ خدا ؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ آقا دوجہاں (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَلِجِ النَّارَ‘‘[67]

’’مجھ پہ جھوٹ نہ باندھو کیونکہ جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا (یعنی میری طرف جھوٹی بات منسوب کی) اسے دوزخ میں داخل ہوناچاہیے‘‘-

خلاصہ کلام :

علم کے ذریعے آدمی ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتا ہے، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے- انسان کو جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و آگاہی کی روشنی میں لاتا ہے اور بنی آدم کو شعور و فہم بخشتا ہے اور انسان کو جب یہ تمیز ہو جاتی ہے تو دیوانہ وار کامیابیوں کی طرف لپکتا ہے-مزید یہ کہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا دار و مدار تعلیم پر ہی ہوتا ہے جس ملک و قوم میں تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے وہ ہمیشہ زندگی میں لوگوں پر اور ان کے دلوں پہ راج کیا کرتے ہیں- جیساکہ شہنشاہ بغدادمحبوب سبحانی قطب ربانی شہبازِ لامکانی سیدی الشیخ عبدالقادر جیلانیؓ اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :

’’جب میں 10 برس کا تھا اپنے گھر سے مدرسہ جایا کرتا تھا‘‘-[68]

اس کے بعد آپؒ نے اپنے آپ کو حصول علم کے لیے وقف  کرنے کا  ارادہ فرمایا ،اس واقعہ   کو علامہ ابن حجر عسقلانیؒ یوں بیا ن فرماتے ہیں :

بچپن میں ،مَیں (پیران پیر ،محی الدین   الشیخ عبدالقادر جیلانیؓ اپنے شہر میں تھا ،ایک مرتبہ عرفہ  کے کھیتوں کی طرف گیااورایک ہل چلاتے ہونے بیل کے پیچھے چل پڑا،ایک گائے  میری طر ف متوجہ  ہوئی اور کہا:اے عبدالقادر! تجھے اس کام کے لیے پیدا نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے‘‘- (آپ) ارشاد فرماتے  ہیں  میں اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت اقدس میں حاضرہوا اور آپؓ سے عرض کی: مجھے اللہ عزوجل کی راہ میں وقف کردیں کیونکہ میں نے بغداد کی طرف  جانے والاقافلہ دیکھا ہے-اب میں حصول علم میں مشغول ہوجاؤں گا اور صالحین کی زیارت کروں گا،آپؒ کی والدہ ماجدہ اُم الخیر،ام الجبار سیدہ فاطمہ نے اسی دینار کپڑے میں سے دئیے اور سچ بولنے کی تلقین فرمائی[69] -اپنی والدہ ماجدہ سے پند و نصائح حاصل کرنے کے بعد جب آپؒ بغدادپہنچے توامام ابن حجر عسقلانی حصول ِ  علم کا دورانیہ  اپنے الفاظ سے یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

’’ 488ھ میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ) بغداد پہنچے ، علمائے زمان سے قرآن و حدیث، فقہ، ادب اور لغت وغیرہ علوم کی تحصیل میں مشغول ہوگئے حتی کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) اپنے ہم عصروں سے فائق ہوگئے‘‘- [70]

ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد جب آپؒ باطن کی طرف متوجہ ہوئے تو اپنی کیفیت کو ان الفاظ مبارکہ کے ساتھ بیان فرماتے ہیں :

’’45 برس تک مَیں بالکل تنہا رہ کر عراق کے بیابانوں اور ویران مقامات میں سیاحت کرتا رہا اور40 برس تک مَیں عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتا رہا-مَیں عشاء کے بعد ایک پاؤں پر کھڑا ہوکر قرآن مجید شروع کرتا اور نیند کے خوف سے اپنا ایک ہاتھ کھونٹی سے باندھ دیتا اورا خیررات تک قرآن مجید کو ختم کر دیتا اور ایک روز مَیں شب کو ایک ویران عمارت کی سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا کہ اس وقت میرے جی میں آیا کہ اگر مَیں تھوڑی دیر کہیں سو رہتا تو اچھا تھا جس سیڑھی پر مجھے یہ خیال گزرا تھا اسی سیڑھی پر مَیں ایک پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور مَیں نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا اور تا اختتام قرآن مجید اسی طرح کھڑا رہا اور 11برس تک مَیں اس برج میں رہا جو کہ اب برجِ عجمی کے نام سےمشہور ہے‘‘- [71]

ان تمام حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں جہان کی کامیابی (فلاحِ دارین) کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ اپنے ظاہر و باطن کو علم سے مزین کیا جائے-لیکن آج ہماری بدقسمتی ہے کہ جہاں ہم ظاہری علوم میں باقی اقوام ِ عالم سے پیچھے ہیں وہیں علم باطن کے لیے بھی تگ و دو من حیث القوم نہ ہونے کے برابر ہے -آج ضروت اس امر کی ہے کہ شاہِ لولاک،خاتم الانبیاء، سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے فرامین مبارکہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں جہان کی کامیابی کے لئے اپنے ظاہر و باطن کو علم سے مزین کیا جائے-اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو-آمین!

٭٭٭


[1]المجادلہ:11

[2] آل عمران:79

[3] البقرۃ:151

[4] طہٰ:114

[5]البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ، رقم الحدیث:3116

[6]ابن أبي شيبة،أبو بكر،الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار باب:مَا ذُكِرَ فِي ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُما، رقم الحدیث: 32223

[7]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ، (بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الفِقْهِ عَلَى العِبَادَةِ، رقم الحدیث:2685

[8]ابن ماجة، محمد بن يزيد، سنن ابن ماجہ، بَابُ فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ، رقم الحدیث:222

[9]صحیح البخاری ،ج:9،ص:35،رقم الحدیث: 7006

[10]ابن ماجة ، ج:ا، ص:81،رقم الحدیث:222

[11]الترمذی، محمد بن عيسى، سنن الترمذی، أَبْوَابُ العلم رقم الحدیث:2647

[12]يوسف بن عبد الله بن محمدؒ( المتوفى: 463هـ)، جامع بيان العلم وفضله، ج:ا،  ص:150

[13]صحیح البخاری ،ج:1،ص:25

[14]المناوی،محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين،فيض القدير شرح الجامع الصغير، ،ج: 4،ص:269

[15]فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج:04،ص:269

[16]الطبرانی، سليمان بن أحمد، المُعْجَمُ الكَبِير ،(المتوفٰی:360)، باب: مجاهد، عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما، رقم الحدیث: 11158

[17]أحمد بن علي بن ثابتؒ (المتوفى: 463هـ)، الفقيه و المتفقه،،ج:1،ص:98

[18]النووی،يحيى بن شرفؒ(المتوفى: 676هـ) ،المجموع شرح المهذب،ج:ا،ص:21

[19]أحمد بن علي بن ثابتؒ (المتوفى: 463هـ)، الفقيه و المتفقه،ج:1،ص:105

[20]الغزالی، محمد بن محمدؒ(المتوفى: 505هـ)، إحياء علوم الدين،(بیروت،دارالمعرفۃ)،باب: فَضِيلَةُ التَّعْلِيمِ، ج:1،ص:9

[21]ابن بطہ، عبيد الله بن محمدؒ(المتوفى: 387هـ)، الإبانة الكبری،( دار الراية للنشر والتوزيع، الرياض)،ج:1،ص:200

[22] ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود بَابٌ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ لِغَيْرِ اللهِ تَعَالیٰ، رقم الحدیث:3664

[23] حاکم،محمد بن عبد اللہؒ، المستدرك على الصحيحين، کتاب العلم، رقم الحدیث: 290

[24]عبد الله بن المباركؒ(المتوفى:181هـ)، الزهد والرقائق لابن المبارك،، بَابُ الْإِخْلَاصِ وَالنِّيَّةِ، ج:1،ص:63

[25]الزهد والرقائق لابن المبارك، بَابُ الْإِخْلَاصِ وَالنِّيَّةِ،ج-1،ص:64

[26]ابن ماجة ، ج:ا،ص:81، رقم الحدیث:222

[27]صحیح البخاری،ج:ا،ص:26

[28]صحیح البخاری،رقم الحدیث:89

[29]سعیدی ،غلام رسولؒ،سید،نعمۃ الباری ، ج: 1،ص:373

[30]أحمد بن علي بن ثابتؒ (المتوفى: 463هـ)، الرحلة في طلب الحديث،ج:ا،ص:86

[31]الرحلة في طلب الحديث،ج:ا،ص:90

[32]الرحلة في طلب الحديث،ج:ا،ص:95

[33]الرحلة في طلب الحديث،ج:ا،ص:109

[34]الرحلة في طلب الحديث،ج:ا،ص:128

[35]الشَّعْراني،عبد الوهاب بن أحمد بن علي،(المتوفى: 973هـ)،الطبقات الكبرى،،باب: ومنهم الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنھما،ج:1،ص:23

[36]الغزالی، محمد بن محمدؒ(المتوفى: 505هـ)، إحياء علوم الدين،،باب: فَضِيلَةُ التَّعْلِيمِ،ج،:،ص:9

[37]إحياء علوم الدين، ج:1،ص:9

[38]إحياء علوم الدين، ج:1،ص:9

[39]سورۃص:72

[40]انعام:120

[41]لقمان:20

[42]الحديد:03

[43]سنن الترمذی ،ابواب صفۃ القیامۃ

[44]صحیح البخآری ،رقم الحدیث:120

[45]بدر الدين العينى، محمود بن أحمد بن موسىؒ (المتوفى: 855هـ)، عمدة القاری شرح صحيح البخاری،باب:حفظ العلم،ج:2،ص:185

[46]التبریزی، محمد بن عبد الله ،مشكاة المصابيح ،ایڈیشن سوم، كتاب العلم ،ج:1،ص:554

[47]ملا علي القاری، علي بن (سلطان) محمد ؒ (المتوفى: 1014هـ)، مرقاة المفاتيح  كِتَابُ الْعِلْمِ، ج:1، ص:334-335

[48]سرالاسرار:29

[49]عین الفقر

[50]نورالھدٰی

[51]ابن بطال، علي بن خلف بن عبد الملكؒ(المتوفى:449هـ)، شرح صحيح البخارى لابن بطال،  کتاب العلم،ج:1، ص:158

[52]ابن أبي شيبة، أبو بكر ،الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار  باب: كَلَامُ ابْنِ عُمَرَرَضِيَ اللهُ عَنْھُمَا، رقم الحدیث: 34629

[53]البیہقی،أحمد بن الحسين بن علیؒ(المتوفى: 458هـ)، أحكام القرآن للشافعيؒ ج:1،ص:21

[54]الشعراني،الطبقات الکبری،ج:1،ص:43

[55]أحمد بن علي بن ثابتؒ (المتوفى: 463هـ)، الفقيه و المتفقه،ج:2، ص:186

[56]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي )،ج:1، ص:428

[57]ابو محمد، الحسن بن عبد الرحمن(المتوفى: 360هـ)،المحدث الفاصل بين الراوي والواعي باب: أَوْصَافُ الطَّالِبِ وَآدَابُهُ،ج:1،ص:205

[58]امام مالک، مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي،موطأ الإمام مالك ،باب، مالك و كتابته للعلم،ج:1 ،ص:29

[59]موطأ الإمام مالك، باب:مالك وكتابته للعلم،ج:1 ،ص:29

[60]اصبھانی، أحمد بن عبد الله، حلية الأولياء وطبقات الأصفياءباب، مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ (ؓ)، ج: 6، ص:331

[61]الشعراني، الطبقات الکبری،ج:2،ص:9

[62]الشعراني، الطبقات الکبری،ج:1،ص:65

[63]الشعراني، الطبقات الکبری،ج:2،ص:14

[64]الشعراني، الطبقات الکبری،ج:1،ص:65

[65]أحمد بن علي بن ثابتؒ (المتوفى: 463هـ)، الرحلة في طلب الحديث،ج:1،ص:65

[66]صحیح مسلم ،باب: بَابُ النَّهْيِ عَنِ الْحَدِيثِ بِكُلِّ مَا سَمِعَ،ج:1،ص:10

[67]صحیح البخاری ،رقم الحدیث:106

[68]زبدۃ الاسرار ، از شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ

[69]غبطۃ الناظر فی ترجمۃ الشیخ عبدالقادرؓ

[70] نزہۃ الخاطر الفاطر فی مناقب سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی ؓ

[71]قلائد الجواہر فی مناقب شیخ عبد القادر جیلانیؓ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر