سبق ملا ہے یہ معراج ِ مصطفٰےؐ سے مجھے |
معجزہ ’’عَجِزَ،يَعْجِزُ ،عَجْزاً‘‘[1](کسی امرسے عاجز آجانا ) کے معنیٰ میں ہے اور اصطلاح میں (وہ خارقِ عادت بات جس کواللہ عزوجل کسی نبی(علیہ السلام) کے ہاتھ پہ ظاہرفرمائے اور دوسرے وہ کام نہ کرسکیں)[2]-
لفظِ مِعراج ’’عروج‘‘ سے نکلا ہے اور معراج کے لغوی معنی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان بلندی پر چڑھتا ہے اور اس حوالے سے سیڑھی کو ’’معراج‘‘ بھی کہتے ہیں-اصطلاح میں اس سے مراد حضور نبی کریم( ﷺ) کا وہ سفر ہے جو بحکم تعالیٰ آپ(ﷺ) نے مکہ سے مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کی اور وہاں تک پہنچے جہاں تک اللہ نے چاہا اس کے علاوہ جنت و دوزخ کا مشاہدہ بھی شامل ہے-
معراجِ مصطفٰے (ﷺ) سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ ہے- جمہور اقوال کے مطابق رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ عزوجل نے اپنے محبوب کریم (ﷺ) کو معراج کا شرف عطا فرمایا -اگرچہ اس واقعہ کے حتمی تعیّن کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن علامہ غلام رسول سعیدیؒ اپنی تحقیق مُلا علی قاریؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’بہ کثرت علماء و مُحدثین نے یہ کہا ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل پیش آیا‘‘-[3]
اس عظیم واقعہ کا ذکر اللہ عزوجل نے اپنے پاک کلام میں یوں فرمایا :
’’سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰـتِنَاط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘-[4]
سمجھنے کے لیے اس مبارک سفر کو بنیادی طور پر تین حصوں میں منقسم کرکے اس کے مطالعہ کی کوشش کرتے ہیں-
حصہ اول
مسجد حرام سے مسجد اقصی ٰ تک کا سفر
اس مبارک سفر کا آغاز کہاں سے ہوا ؟
اس کے بارے میں بھی کئی روایات منقول ہیں اگر ان کو اکٹھا کرکے اس کا نتیجہ نکالا جائے تو وہ سب درست معلوم ہوتی ہیں-یہاں اختصار کی خاطر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ:
حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! ہمیں واقعہ معراج کے متعلق آگاہ فرمائیے، تو آپ (ﷺ)نے ا س آیت ’’سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهٖ ---‘‘ کی تلاوت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس دوران مَیں رات کے وقت مسجدحرام میں سو رہا تھا کہ ایک آنے والا میرے پاس آیا اور اس نے مجھے بیدار کیا ‘‘-[5]
مستند روایات کی روشنی میں؛ اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) بُراق لے کر حضور نبی آخرالزماں (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! آپ (ﷺ) کا رب آپ(ﷺ) سے ملاقات چاہتا ہے-چنانچہ سوئے عرش کے سفر کی تیاریاں ہونے لگیں- معراج کے مبارک سفر کیلئے آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں براق حاضر کیا گیا -آپ(ﷺ) مکہ سے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے اور وہاں تمام انبیاء کرام (علیھم السلام) آپ (ﷺ) کے استقبال کیلئے پہلے سے تشریف فرما تھے-آپ (ﷺ) نے اُن کو شرفِ امامت بخشاَ،اس مبارک سفر کے احوال کو حضور نبی کریم(ﷺ) نے اپنی زبان گوہرفشاں سے یوں بیان فرمایا جیسا کہ سنن نسائی میں حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے:
’’رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: میرے پاس ایک جانور لایا گیا ،جو گدھے سے بڑا اورخچر سے چھوٹاتھا ،جہاں تک نگاہ پڑتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا-مَیں اس پر سوار ہوا اور میرے ہمراہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے ،چنانچہ میں رات کے وقت چلا، جبرائیل(علیہ السلام) نے عرض کی: (یا رسول اللہ (ﷺ) اتریں اورنماز ادافرمائیں ،مَیں نے ایساہی کیا،جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی، کیا آپ (ﷺ) جانتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے نماز کس جگہ ادا فرمائی ہے؟آپ (ﷺ) نے مدینہ طیبہ میں نماز ادا فرمائی ہے اور یہ آپ (ﷺ) کی ہجرت گاہ ہے-پھرعرض کی، (یارسول اللہ ﷺ) اتریں اور نماز ادا فرمائیں، چنانچہ میں نے نماز پڑھی،جبرائیل(علیہ السلام)نے عرض کی:کیا آپ (ﷺ) جانتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے نماز کس جگہ ادا فرمائی ہے؟آپ (ﷺ) نے طورِ سینا ءپر نماز پڑھی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسی ٰ (علیہ السلام)سے کلام فرمایا،جبرائیل (علیہ السلام) نےپھر عرض کی، (یارسول اللہ (ﷺ) اتریں اور نماز ادا فرمائیں-پس مَیں نے نماز ادا کی، جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی، کیا آپ (ﷺ) جانتے ہیں،کہ آپ (ﷺ) نے نماز کس جگہ ادا فرمائی ہے ؟آپ (ﷺ) نے بیت لحم میں نماز ادا کی ہے- جہاں سیدنا عیسٰی (علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، وہاں تمام انبیاء(علیہ السلام) اکٹھے کیے گئے، جبرائیل (علیہ السلام)نے مجھے آگے جانے کی درخواست کی حتّٰی کے میں نے تمام انبیاء (علیھم السلام) کی امامت کروائی (یعنی تمام انبیاء (علیہ السلام)کا امام بنا)،پھر مجھے پہلے آسمان پر لے جایا گیا‘‘- [6]
مزیدصحیح مسلم شریف میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’مَرَرْتُ عَلٰى مُوْسٰى لَيْلَةَ أُسْرِىَ بِىْ عِنْدَ الْكَثِيْبِ الأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّى فِى قَبْرِهٖ‘‘
’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی میرا حضرت موسٰی (علیہ السلام) پر کثیب احمر کے پاس گزر ہوا اس وقت وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ‘‘-[7]
دعوتِ فکر:
ان مذکورہ روایات مبارکہ میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جس جگہ پر اللہ کا بندہ پیدا ہو، یا چند گھڑیاں بیٹھ جائے، ان مقامات ِ مقدسہ پہ عبادات ونوافل کی ادائیگی اللہ عزوجل کی رضا کا ذریعہ اور سرورِ کائنات (ﷺ) کی سُنت مبارک ہے- اِن جگہوں پر نمازِنفل کا ادا کیا جانا اِ ن مقامات کی بزرگی اور شرف پر دلالت کرتا ہے - یہی وجہ ہے کہ اہل ِ ایمان نے پوری دنیا میں ایسی جگہوں کو محفوظ کر رکھا ہے -
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنے محبوب کریم (ﷺ)کو وہ نگاہ مبارک عطافرمائی ہے جس کے آگے در و دیوار رکاوٹ نہیں بن سکتے، قبور کے احوال ان سے پوشیدہ نہیں کہ اللہ عزوجل کے مقربین اپنی قبور میں اپنے اجسام مبارکہ کے ساتھ سلامتی سے امور سرانجام دیتے رہتے ہیں-جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’ اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِيْ قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ‘‘[8]
’’انبیاء کرام (علیھم السلام) اپنی قبور میں حیات ہیں اور نماز پڑھتے ہیں‘‘-
مزید یہ کہ اللہ عزوجل کے مقربین زمان ومکان کی قیدسے ماورٰی ہوتے ہیں ،جیساکہ سیدنا موسٰیؑ اپنی قبرِ انور میں نماز پڑھ رہے تھے- بیت المقدس میں تشریف لے جاتے ہوئے اور سفرِ معراج کے وقت چھٹے آسمان پر اور سفر سے واپسی پہ سیدی رسول ا للہ (ﷺ)کے استقبال کی خاطر موجودتھے -
حصہ دوم :مکاں سے لامکاں کے مکیں ہوئے
انبیا کرامؑ حضور نبی رحمت(ﷺ) کی اقتداء میں نماز ادا کر کے ادب و احترامِ مصطفےٰ (ﷺ) سے مشرف ہو چکے تو آسمانی سفر کا آغاز ہوا،جس کو جلیل القدر مفسرین ومحدثین نے نقل فرمایا ہے-یہاں امام جلال الدین سیوطیؒ کے حوالے سے روایت نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں،لکھتے ہیں کہ:
’’سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: مَیں اور جبرائیل (علیہ السلام) اوپر چڑھے، میں نے ایک فرشتہ دیکھا، جس کو اسماعیل کہاجاتا ہے ،وہ آسمانِ دنیا کا نگران تھا،اس کے سامنے ستر ہزار فرشتے تھے اور ہر فرشتے کے ساتھ ایک لاکھ کا لشکر تھا‘‘-[9]
اس کے بعد کے سفرِ معراج کو امام بخاریؒ حضرت مالک بن صَعْصَعَة ؓ کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :مجھے بُراق پہ سوارکیاگیا،پس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) مجھے لے گئے حتی کہ آسمان ِ دنیا پہ آئے ،پس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کا دروازہ کھلوایا،تو پوچھا گیا،یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہے- پوچھا گیا: اور تمہارے ساتھ کون ہیں؟انہوں نے کہا:(سیّدنا) محمد(ﷺ)-پوچھاگیا:کیاانہیں بُلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا:ہاں! کہاگیا:ان کو مرحبا (ان کا تشریف لانا مبارک )ہو! وہ کیاخوب آنے والے ہیں-پس دروازہ کھول دیا گیا-پس جب مَیں اندر گیا تو وہاں پر حضرت آدم (علیہ السلام) تھے، تو حضرت جبرائیل(علیہ السلام) نے کہا:یہ آپ (ﷺ) کے والد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں -آپ (ﷺ) ان کو سلام کیجئے، پس مَیں نے ان کو سلام کیا ،تو انہوں نے سلام کا جواب دیا-پھر کہا:نیک بیٹے اور نیک نبی کوخوش آمدیدہو!پھر حضرت جبرائیل مجھے اُوپر لے کر گئے یہاں تک دوسرے آسمان پر آگئے-دروازہ کھلوایا،تو پوچھا گیا،یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا:جبرائیل ہے، پوچھا گیا: اور تمہارے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: (سیّدنا) محمد(ﷺ)-پوچھاگیا،کیاانہیں بُلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا:ہاں! کہاگیا: ان کو مرحبا (ان کا تشریف لانا مبارک) ہو! وہ کیاخوب آنے والے ہیں-پس دروازہ کھول دیا گیا-پس جب میں اندر گیاتو وہاں پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) تھے-حضرت جبرائیل نے کہا: یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں، پس آپ (ﷺ) ان دونوں کو سلام فرمائیں-پس میں نے ان دونوں کو سلام کیا،تو انہوں نے سلام کا جواب دیا-پھراِ ن دونوں (حضرت یحییٰ اور حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام)نے کہا: نیک بھائی اور نیک نبی کو خوش آمدیدہو، پھر حضرت جبرائیل مجھے لے کر تیسرے آسمان پر پہنچے-پس حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا،یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہے، پوچھا گیا: اور تمہارے ساتھ کون ہیں؟انہوں نے کہا: (سیّدنا) محمد (ﷺ)-پوچھا گیا: کیا انہیں بُلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا:ہاں! کہا گیا :ان کو مرحبا (ان کا تشریف لانا مبارک )ہو! وہ کیاخوب آنے والے ہیں-پس دروازہ کھول دیا گیا،پس جب میں اندر گیاتو وہاں پر حضرت یوسف (علیہ السلام) تھے-حضرت جبرائیل نے کہا:یہ یوسف (علیہ السلام)ہیں، آپ (ﷺ) ان کو سلام کیجئے، پس میں نے ان کو سلام کیا،تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھرآپ (علیہ السلام) نے کہا :نیک بھائی اور نیک نبی کو خوش آمدید ہو- پھر حضرت جبرائیل مجھے لے کرچوتھے آسمان پر پہنچے، پس حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا،یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا:جبرائیل ہے ،پوچھا گیا:اور تمہارے ساتھ کون ہیں؟انہوں نے کہا: (سیّدنا) محمد (ﷺ)- پوچھا گیا، کیا انہیں بُلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! کہا گیا: ان کو مرحبا (ان کا تشریف لانا مبارک) ہو! وہ کیاخوب آنے والے ہیں-پس دروازہ کھول دیاگیا،پس جب میں اندر گیاتو وہاں حضرت ادریس (علیہ السلام) تھے- حضرت جبرائیل نے کہا، یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں ،آپ (ﷺ) ان کو سلام کیجئے ، پس میں نے ان کو سلام کیا،تو انہوں نے سلام کا جواب دیا-پھرآپ (علیہ السلام) نے کہا:نیک بھائی اور نیک نبی کوخوش آمدیدہو-پھر حضرت جبرائیل مجھے لے کر پانچویں آسمان پر پہنچے-پس حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا، کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہے، پوچھا گیا: اور تمہارے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا (سیّدنا) محمد (ﷺ)-پوچھا گیا: کیا انہیں بُلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! کہا گیا: ان کو مرحبا (ان کا تشریف لانا مبارک) ہو! وہ کیا عمدہ تشریف لانے والے ہیں-پس دروازہ کھول دیاگیا، جب میں اندر گیا تو وہاں حضرت ہارون (علیہ السلام) تھے، حضرت جبرائیل نے کہا، یہ حضرت ہارون (علیہ السلام)ہیں آپ (ﷺ) ان کو سلام کیجئے - پس میں نے ان کو سلام کیا،تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر آپ (علیہ السلام) نے کہا: نیک بھائی اور نیک نبی کو خوش آمدید ہو- پھر حضرت جبرائیل مجھے لے کرچھٹے آسمان پر پہنچے ،پس حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا- تو پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہے،پوچھا گیا:اور تمہارے ساتھ کون ہیں؟انہوں نے کہا:(سیّدنا) محمد (ﷺ)، پوچھا گیا، کیاانہیں بُلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا:ہاں! کہا گیا:ان کو مرحبا (ان کا تشریف لانا مبارک) ہو! وہ کیا عمدہ تشریف لانے والے ہیں ،پس دروازہ کھول دیا گیا-پس جب میں اندر گیا تو وہاں حضرت موسٰی (علیہ السلام) تھے، حضرت جبرائیل نے کہا،یہ حضرت موسٰی (علیہ السلام) ہیں آپ (ﷺ) ان کو سلام کیجئے، پس میں نے ان کو سلام کیا،تو انہوں نے سلام کا جواب دیا- پھرآپ (علیہ السلام) نے کہا: نیک بھائی اور نیک نبی کو خوش آمدید ہو-پس جب آپ (ﷺ) وہاں سے آگے تشریف لے گئے تو حضرت موسٰی (علیہ السلام) رونے لگے -آپ (علیہ السلام) سے عرض کی گئی، آپ کو کیاچیز رُلاتی ہے؟حضرت موسٰی (علیہ السلام)نے فرمایا کہ میں اِس لیے روتا ہوں کہ ایک نوجوان میرے بعد مبعوث کیا گیا،ان کی امت سے جولوگ جنت میں داخل ہوں گے ،وہ میری اُمت سے زیادہ ہوں گے-پھرحضرت جبرائیل میرے ساتھ ساتویں آسمان پہ پہنچے، پس حضرت جبرائیل نے دروازہ کھلوایا، تو پوچھا گیا، یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہے پوچھا گیا:اور تمہارے ساتھ کون ہیں؟انہوں نے کہا: (سیّدنا) محمد(ﷺ)-پوچھاگیا:کیا انہیں بُلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں!کہاگیا :ان کو مرحبا(ان کا تشریف لانا مبارک )ہو! وہ کیا عمدہ تشریف لانے والے ہیں-پس دروازہ کھول دیاگیا،پس جب میں اندر گیا تو وہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے -حضرت جبرائیل نے کہا، یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام)ہیں-یہ آپ (ﷺ) کے والد(محتَرم ) ہیں- آپ (ﷺ) ان کو سلام کیجئے- پس میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا-پھرآپ (علیہ السلام) نے کہا:نیک بیٹے اور نیک نبی کو خوش آمدید ہو،پھروہاں سے سے مجھے سدرۃ المنتھٰی کے مقام کی طرف لایاگیا‘‘- [10]
گویا آسمانوں کے دروازے ،آقاء دوجہان سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا اسمِ گرامی لیے بغیر نہیں کھلتے -
سدرۃ المنتھیٰ کا مقام :
سدرہ بیری کے درخت کو کہتے ہیں اور اس کو منتھیٰ اس لیے کہتے ہیں کہ تمام ملائکہ سدرہ پہ جا کر ٹھہر جاتے ہیں اور اللہ عزوجل کی جانب سے نازل ہونے والے احکام بھی یہیں (سدرہ) سے وصول کیے جاتے ہیں-آقا کریم (ﷺ) کے علاوہ کسی کو اس مقام (سدرۃ المنتھٰی)کو عبور کرنے کا شرف حاصل نہیں ہوا-جیساکہ علامہ نظام الدين النيسابوریؒ فرماتے ہیں:
’’پسں سِدرۃُ المنتہی وہ مقام ہے جس سے آگے فرشتے نہیں جا سکتے اور نہ کسی کو یہ علم ہے کہ سدرۃ المنتہی کے ماوراء کیا ہے ؟ اور شہداء کرامؓ کی ارواح بھی یہاں تک جاتی ہیں‘‘-[11]
حضور سُلطان العارفین، برھان الواصلین حضرت سخی سُلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’شب ِمعراج جب حضور نبی رحمت(ﷺ) براق پر سوار ہوئے تو جبرائیل (علیہ السلام)نے 18 ہزار عالم کی جملہ موجودات کو آراستہ و پیراستہ کر کے عرش و کرسی سے بالا تر سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر دست بستہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں پیش کیا- جب حضور نبی رحمت (ﷺ) ’’مَحْمُوْدًا نَّصِیْرًا قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی‘‘ کے اعلیٰ مقام پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا: ’’اے محمد (ﷺ) مَیں نے اٹھارہ ہزار عالم کو آپ کے تابع کیا، آپ کو اُس کا معائنہ کرایا اور جملہ موجودات کو آپ کے سپرد کیا، آپ بتائیں کہ آپ کو کون سی چیز پسند آئی اور آپ کیا چیز لینا پسند فرمائیں گے؟ آپ (ﷺ) نے عرض کی: ’’خداوندا ! مجھے اسم اَللّٰہُ اور تیری محبت پسند آئی اور مَیں تجھ سے تجھی کو مانگتا ہوں ‘‘-[12]
سدرۃ المنتھیٰ کے بارے میں امام رازیؒ لکھتے ہیں:
’’حضرت جبرائیل (علیہ السلام)نے سیدنا محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی سواری کی لگام تھامی-یہاں تک کہ معراج کی رات حضور نبی کریم (ﷺ)کو براق پرسوار کیا اور یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت محمد مصطفے ٰ (ﷺ) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے افضل ہیں اور جب حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) بعض مخصوص مقامات پر تشریف لے گئے تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ (ﷺ) سے پیچھے رہ گئے اور کہا کہ:
’’ لَوْ دَنَوْتُ أُنْمُلَةً لَاحْتَرَقْتُ‘‘[13]
’’اگرمیں( اُنگلی) کے ایک پور کے برابر بھی قریب ہواتو جل جاؤں گا‘‘-
ابو الفضل القاضی عياض بن موسٰى المالکیؓ لکھتے ہیں کہ:
’’حضرت ابن ِعباسؓ فرماتے ہیں کہ معراج کی رات سیدنا محمّد(ﷺ) کی بارگاہ میں رفرف پیش کی گئی-پس آپ (ﷺ) اس پر تشریف فرما ہوئے-پھرآپ (ﷺ)بلند ہوئے اور اللہ عزوجل کے قریب ہوئے،تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا: حضرت جبرائیل مجھ سے جد اہوگئے اور مجھ سے مختلف آوازیں ختم ہو گئیں ،اور میں نے اپنے رب عزوجل کا کلام سنا ‘‘-[14]
مسئلہ نورانیت کا استنباط:
یہاں پر اس مسئلہ کو صرف اتنا ذہن میں رکھ لیں کہ جو فرشتوں کا سردار ہے وہ یہاں آکر رک گیا اور میرے آقا کریم (ﷺ) اسی بشری وجود مبارک کے ساتھ تشریف لے گئے فیصلہ خود کر لیں- پس معلوم ہوا کہ بشریت اور نورانیت آپ (ﷺ) کے اوصاف ہیں ،جن کا منکر یا برابری کا دعوٰی بھی مردود ہ-
تمنائے جبرائیل امین:
حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آگے ساتھ سفر کرنے سے عجز اور بے بسی کا اظہار کیا تو خاتم الانبیاء (ﷺ) کی لجپالی کو صاحب روح البیان نے یوں بیان فرمایا:
اے جبرائیل! تیری اللہ عزوجل کے ہاں کوئی حاجت ہے (تو میں محمد (ﷺ) پوری کروا دوں گا-تو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے بڑا ایمان افروز جواب عرض کیا جو ہر صاحبِ ایمان کو جھومنے پہ مجبور کردیتا ہے)عرض کی، یارسول اللہ (ﷺ)!(میر ے دل میں ایک ہی آرزو ہے کہ کل بروز محشر اللہ عزوجل مجھے یہ شرف بخشے )کہ میں آپ (ﷺ) کی امت کے لیے پُل صراط پر اپنے پر بچھا سکوں تاکہ (وہ پروں پہ اپنے پاؤں رکھ کر) پل صراط سے گزر سکے ‘‘-[15]
لمحۂ فکریہ:
حضور رسالت مآب (ﷺ) کی رفعت و شان دیکھ کر جبرائیل امین (علیہ السلام) کوآپ (ﷺ) کی امت کے قدموں کے نیچے پر بچھانے میں اللہ عزوجل کی رضا نظر آنے لگی-لیکن اس اُمت کو اپنے رؤف و رحیم آقا (ﷺ) کی نسبت کا کتنا پاس اور لحاظ ہے ؟ یہ سوال ہم میں سے ہر ایک کو خود سے کرناچاہیے!!!
حصہ سوم:سِدرۃ المنتہی سے عالم ِ لاھوت کا سفر
اللہ پاک نے سدرۃ المنتھیٰ سے آگے کے سفر اور اپنے محبوب کریم (ﷺ) کے قرب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىoفَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىo فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِهٖ مَا اَوْحٰىo مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰىo اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰىo‘‘[16]
’’پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا پھر خوب اُتر آیا،تو اس جلوے اور اس محبوب(ﷺ) میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم- اب وحی فرمائی، اپنے بندے کو جو وحی فرمائی، دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا تو کیا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو ‘‘-
امام بخاریؒ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت نقل کرتے ہیں:
’’یہاں تک کہ سیدی ر سول اللہ (ﷺ) سدرۃ المنتہیٰ پہ تشریف لے گئے ،تو اللہ رب العزت(اپنی شان کے لائق ) بہت ہی قریب ہوا ،یہاں تک دوکمانوں کے برابر یااس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا-پھر اللہ رب العزت نے آپ (ﷺ) کی طرف وحی فرمائی‘‘-[17]
آقا کریم (ﷺ) جب سدر ۃ المنتھٰی کے آگے تشریف لے گئے تو آ پ (ﷺ) خود اس کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
جب میں آگے بڑھا تو:
’’فَنُوْدِىَ بِصَوْتِ اَبِىْ بَكْرٍ قِفْ يَا مُحَمَّدُ(ﷺ) اِنَّ رَبَّكَ يُصَلِّىْ‘‘[18]
’’پس حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آواز میں ندا آئی ٹھہرئیے یا محمد(ﷺ) بے شک تیرا رب درود پڑھ رہا ہے‘‘-
علامہ قاضی عیاض مالکیؒ قربتِ مصطفٰے (ﷺ) کو بیان کرتے ہوئے حضرت حسن بصریؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:
’’اللہ پاک اپنے عبدِ خاص سیدنا محمد (ﷺ) کے قریب ہوئے (تاکہ) آپ (ﷺ) کا عظیم مرتبہ، بلند درجہ اور آپ (ﷺ) کی معرفت کے انوار اور اللہ تعالیٰ کے غیب اور اس کی قدرت کے اسرار کے مشاہد ہ کوظاہر کیاجائے‘‘- [19]
اللہ پا ک نے یہاں ’’فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰى‘‘ کے الفاظ مبارک استعمال فرمائے- امام فخر الدین رازیؒ اس کی توجیہہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’یہ آیت محاورہ عرب کے موافق ہے پس جب دو سردار ایک دوسرے سے معاہد ہ کرلیتے ہیں تو وہ دونوں اپنی کمانیں نکالتے اور ایک کمان کو دوسرے ساتھی کی کما ن سےملاتے ہیں‘‘-[20](یعنی اہل ِ عرب اس معاہدہ سے یہ ظاہر کرتے کہ ہمارے دوست دشمن برابر ہوں گے اور ایک دوسرے کے نفع ونقصان میں برابر کے شریک ہوں گے یعنی ہمارا مرنا جینا ایک ساتھ ہوگا)
نوٹ:اس آیت مبارک میں یہ واضح پیغام ہے کہ اللہ عزوجل و رسول اللہ (ﷺ) کا معاملہ واحد ہے- اللہ تعالیٰ کی رضا اور رسول اللہ (ﷺ) کی رضا ایک ہے جو اللہ عزوجل اور اس کے محبوب مکرم (ﷺ) کی رضا میں فرق کرے گا ،دائمی بدبختی اور خسارہ اس کا مقدر ٹھہرے گا -
مُفتی بغداد علامہ السید محمود آلوسیؒ اس قرب کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ عزوجل نے حضور نبی کریم (ﷺ) کا مقام اپنے نزدیک بلند کیا اور’’تدلی‘‘ کا معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بالکلیہ جا نب قدس میں جذب کرلیا اوراسی کو اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہونا کہتے ہیں‘‘-[21]
سفرِمعراج روحانی تھا یاجسمانی:
جمہور علماءکرام کا یہ مؤقف ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا سفرِمعراج جسمانی تھا یعنی عالم ِ خواب میں نہیں تھا-جسمانی معراج کی بہت ساری روایتیں ہیں یہاں ان روایات سے اخذکر کے چنددلائل سپردِ قلم کرتے ہیں- قرآن پاک میں جہاں معراج کا ذکر خیر ہے وہاں ’’عبد‘‘ کا لفظ مبارک مذکور ہے اورعبد ’’روح اور جسم‘‘کے مجموعہ کا نام ہے-جیسا کہ اسی آیت مبارک میں اللہ پاک نے’’اسرٰی‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا اور ’’اسرٰی‘‘کا اطلاق خواب کی سیر پہ نہیں ہوتا-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى‘‘[22]
’’آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی‘‘-
لفظ’’بصر‘‘ جسمانی نگاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے –
بُراق سواری کا پیش کیا جانا بھی سفرِمعراج کے جسمانی ہونے پہ دلالت کرتاہے-
معراج شریف ایک بہت بڑا معجزہ ہے جس کا کفار نے خوب انکار کیا-اگریہ خواب کا واقعہ ہوتا لوگ سُن کر مُرتد نہ ہوتے -
معراج کے مشاہدات
حضرت عمرؓ کا محل:
’’حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ( ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے سونے کا ایک محل دیکھا-میں نے پوچھا:یہ محل کس کا ہے؟ توانہوں نے کہا: قُریش کے ایک نوجوان کا ، میں نے کہا :کس کا(یعنی اس کا نام کیا ہے؟) تو انہوں نے کہا: یہ عمر بن خطابؓ کاہے -سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: (اے عمر!) اگر مجھےتمہاری غیرت کا علم نہ ہوتا تو مَیں اس میں داخل ہوتا-توحضرت عمرؓ نے (روتے ہوئے) عرض کی: کیامیں آپ (ﷺ) پر غیرت کروں گا؟ (کیونکہ یہ محلات اور عظمتیں آپ (ﷺ) کے نعلین پاک کے تلوؤں کی خیرات ہیں)‘‘-[23]
زبانیں اور ہونٹ کاٹنے والے بے عمل علماء:
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ( ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’میں نے معراج کی رات کچھ مردوں کو دیکھا،جن کے ہونٹوں کو آگ کی کینچیوں سے کاٹا جارہا تھا، میں نے پُوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟تو انہوں نے عرض کی یہ آپ (ﷺ) کی اُمّت کے مقررین ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے تھے اور اپنے آپ کو بھلا دیتے تھے حالانکہ وہ کتاب پڑھتے تھے کیا اُن کو عقل نہیں‘‘-[24]
حلال کو چھوڑ کرحرام کھانے والوں کا انجام:
سید ی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:
’’معراج کی رات میں نے چند دسترخوان دیکھے، ان پر نفیس بھنا ہوا گوشت رکھاہوا ہے لیکن کوئی ان کے قریب بھی نہیں آتا تھا- چند دوسرے دستر خوان دیکھے،جن پر نہایت بدبو دار گوشت اورسڑا ہوا گوشت رکھا ہوا ہے، اس کے پا س کچھ لوگ تھے جو (عمدہ گوشت چھوڑ کر) بدبودار گوشت کھا رہے تھے-مَیں نے کہا:اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ تو جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی:یہ آپ (ﷺ) کی اُمت کے وہ لوگ ہیں جو حلال کو چھوڑدیتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں‘‘-[25]
ناحق یتیموں کا مال کھانے والوں کا انجام :
رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:
’’میں نے کچھ ایسے لوگ دیکھے جن کے ہونٹ، اونٹوں کے ہونٹوں جیسے تھے،آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ ان کے منہ پھاڑے جاتے تھے اور یہ گوشت انہیں نگلناپڑتا،پھر یہی گوشت ان کے نیچے سے نکل جاتاتھا، پس میں نے ان کی آواز کو سُنا اس حال میں کہ وہ اللہ عزوجل کی بارگاہ ِ اقدس میں آہ و فغاں کررہے تھے، میں نے کہا:اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ تو جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی: یہ آپ (ﷺ) کی اُمت کے وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا ناحق مال کھایا کرتے تھے، پس وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھررہے ہیں اور وہ عنقر یب بھڑکتی آگ میں جھونکے جائیں گے ‘‘-[26]
زانی مرد اور زانیہ عورتوں کا حشر:
’’سیدی رسول اللہ (ﷺ) شبِ معراج ایک ایسی قوم کے پاس سے تشریف لائے ، جن کے سامنے دیگچیوں میں پاکیزہ گوشت پکا ہوا رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا بدبودار گوشت تھا، وہ لوگ سڑا ہوا خبیث گو شت کھا رہے تھے اور پاکیزہ گوشت چھوڑ رہے تھے،آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی :یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب بیوی تھی اور وہ ا س کو چھوڑکر رات بھر بدکار عورت کے ساتھ رہتے تھے- [27]اسی طرح آپ (ﷺ) نے ایسی عورتیں دیکھیں جو اپنے پستانوں سے لٹکی ہوئی تھیں،پس میں نے ان کو اللہ عزوجل کے حضور آہ وزاری کرتے ہوئے سُناتو میں نے کہا:اے جبرائیل! یہ عورتیں کون ہیں؟ تو جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی:یہ آپ (ﷺ) کی اُمت کی زناکار عورتیں ہیں ‘‘-
عیب جُو، غیبت اور نکتہ چینی کرنے والوں کاانجام :
سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:
’’میں پھر تھوڑی دیرچلا،تو ایسے لوگ دکھائی دئیے،جن کے پہلوؤں سے گوشت کاٹ کاٹ کر انہیں کھلایا جارہا تھااور اِ ن میں سے ہرایک کو کہاجاتا کہ کھاؤ،جس طرح تم اپنے بھائی کا گوشت کھایاکرتے تھے ، میں نے کہا:اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی: یہ آپ (ﷺ) کی اُمت کے عیب جُو،غیبت کرنے والے اور نکتہ چینی کرنے والے ہیں ‘‘-[28]
سود خوروں کا اَنجام:
سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’شبِ معراج میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا، ان کے پیٹ کوٹھڑیوں کی طرح ہیں-جب اِن میں سے کوئی اٹھنے کی کوشش کرتا ہے،تو گرپڑتا ہے اور کہتا ہے:یا اللہ عزوجل! قیامت قائم نہ فرما-وہ آل ِ فرعون کے رستہ پہ ہیں فرعونی جماعت آتی ہے اور اُن کو روندتی چلی جاتی ہے،پس میں نے ان کو اللہ عزوجل کی جناب میں آہ و زاری کرتے ہوئے سُنا، میں نے کہا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے عرض کی: یہ آپ (ﷺ) کی امت کے سود خور ہیں :
’’اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ‘‘(البقرۃ:275)
’’ وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو‘‘-[29]
بے نمازی اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کا انجام:
’’شبِ معراج حضور نبی رحمت (ﷺ) ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جن کے سروں کو پتھروں سے کچلا جا رہا تھا اور جب سر کچل دیا جاتا تو وہ پھر درست ہو جاتا اور ان کو مہلت نہ ملتی (کہ سر پھر کچل دیا جاتا)، میں نے کہا:اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے عرض کی :یہ وہ لوگ ہیں،جن کے سر (فرض) نماز کے وقت بھاری ہوجاتے ہیں -پھر آپ (ﷺ) ایک ایسی قوم کے پاس تشریف لے گئے، جن کے آگے اور پیچھے کپڑے کی دھجیاں تھیں اور وہ جہنم کے کانٹے دار درخت زقوم کو جانوروں کی طرح چرچُگ (کھا) رہے تھے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے تھے-میں نے کہا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جواپنے مالوں سے زکوٰۃ ادا نہیں کرتے‘‘-
سفر ِ معراج سے واپسی اور سیدنا حضرت موسٰی (علیہ السلام) سے ملاقات اور تحفہ ٔمعراج:
اللہ پاک نے اپنی لاریب کتاب میں ارشادفرمایا:
’’وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى‘‘[30]
’’اس پیارے چمکتے تارے محمد(ﷺ) کی قسم جب یہ معراج سے اُترے ‘‘
نوٹ:یہاں ’’النجم‘‘ سے مراد کئی مفسرین نے ’’سیدنا محمدرسول اللہ (ﷺ)‘‘ کی ذات ِ اقدس مراد لی ہے-یہاں صرف ایک حوالہ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :
امام قرطبی ؒ نے سیدنا جعفَر بن مُحمد بن علی بن حسینؓ کے حوالے سے لکھا ہے:
’’(وَ النَّجْمِ) يَعْنِي مُحَمَّدًا (ﷺ) (إِذا هَوى) إِذَا نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ‘‘
’’وَ النَّجْم‘‘سے مراد ’’سیدنا محمدرسول اللہ (ﷺ)‘‘ کی ذات ِ اقدس ہے ’’إِذا هَوى‘‘ سے مراد جب آپ (ﷺ) معراج کی شب آسمان سے اُترے‘‘- [31]
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’پس اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایک دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض فرمائیں،جب میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس پہنچا تو انہوں نے عرض کی، آپ (ﷺ) کے رب نے آپ (ﷺ) کی اُمت پر کیا فرض فرمایا ہے؟ میں نے کہا ہر دن اور رات میں پچاس نمازیں، تو موسیٰ ؑ نے عرض کی، اپنے رب کے پاس جا کر تخفیف کا سوال کیجیےکیونکہ آپ (ﷺ) کی امت پچاس نمازیں نہ پڑھ سکے گی-میں آزمائش میں پڑکر بنی اسرائیل کا تجربہ کر چکا ہوں تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: مَیں اپنے رب کے پاس لوٹا اور عرض کی اے میرے رب! میری امت پر کچھ تخفیف فرما- اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کردیں،پس میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس واپس آیا اور کہا اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں ہیں،حضرت موسیٰ ؑ نے عرض کی، آپ (ﷺ) کی امت اتنی نمازیں نہ پڑھ سکے گی، جائیے جا کر اپنے رب سےتخفیف کا سوال کیجئے؟ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: پس مَیں اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ ؑ کے درمیان بار بار آتا رہا، حتی کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
’’ يَا مُحَمَّدُ، إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ‘‘
’’اے محمد!(ﷺ)دن اور رات کی یہ پانچ نمازیں ہیں‘‘-
ہر نماز کا دس گنا اجر ہوگا پس یہ پچاس نمازیں ہو جائیں گی اور جو شخص نیک کام کا قصد کرے اور پھر وہ نیک کام نہ کرے، اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگروہ اس نیکی کو کرے ،تو دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور جو شخص برے کام کا قصد کرے اور براکام نہ کرے ،تواس کے نامہ اعمال میں کچھ نہ لکھا جائے گاا وراگر براکام کرے گا تو اس کی ایک برائی لکھی جائے گی -
رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: پھر میں موسیٰ ؑ کے پاس پہنچا اور ان کو ان احکام کی خبر دی، انہوں نے پھر کہا، اپنے رب کے پاس جا کر مزید تخفیف کا سوال کیجئے، رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: پس میں نے کہا:
’’قَدْ رَجَعْتُ إِلَى رَبِّي حَتَّى اِسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ‘‘
’’میں نے باربار اپنے رب کے پاس درخواست کی اور اب مجھےرب سے حیا آتی ہے ‘‘-[32]
معراج ِ مصطفےٰ(ﷺ)طئی مکانی اور طئی زمانی کا مظہرِ اتم :
کروڑوں میل کی مسافت ایک قلیل وقت میں طے کرنے کو طئی مکانی اور کئی سالوں پہ محیط وقت کو چندلمحوں میں سمٹنے کو طئی زمانی کہتے ہیں-ان دونوں (طئی مکانی اور طئی زمانی) کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں-جیسا کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام)کے ایک برگزیدہ اُمتی کا 900 میل کی مسافت سے تخت بلقیس کو پلک جھپکنے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قدموں میں لانا طئی مکانی کی مثال ہے اور اصحاب کہف اور حضرت عزیر(علیہ السلام) کے واقعات طئی زمانی کی شاندار مثالیں ہیں -اسی تناظر میں جب ہم واقعہ معراج کو دیکھتے ہیں تو یہ واقعہ اس کائناتِ رنگ وبُو میں طئی زمانی وطئی مکانی کی سب سے بڑی مثال ہے -
کفار کا رد عمل اور یارِ غار سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا بغیر دلیل کے تصدیق فرمانا:
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
’’جب رسول اللہ (ﷺ) کو مسجد اقصٰی تک معراج کرائی گئی (اور آپ (ﷺ) نےواپسی ٔ معراج پہ لوگوں کو سفر ِ معراج کے متعلق بتایا تو)وہ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے اورکچھ لوگ مُرتد ہو گئے اور جو اہل ِ ایمان تھے انہوں نے اس کی تصدیق کی-کچھ لوگ یہ خبر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس لے کر گئے اور بولے :کیا آپ کو اپنے صاحب(حضور نبی کریم (ﷺ) کی اس بات کا یقین ہے؟ آپ (ﷺ) یہ سمجھتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کو راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرائی گئی ہے-آپؓ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ بات رسول اللہ( ﷺ) نے فرمائی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں- حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: اگر سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے یہ ارشاد فرمایا ہے تویہ بالکل سچ ہے-انہوں نے کہا: کیاتم آپ (ﷺ)کی (اس بات کی) تصدیق کرو گے کہ آپ (ﷺ) راتوں رات بیت المقدس تک گئے ہیں اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا :ہاں! مَیں تو اس سے بڑی بات (اللہ عزوجل کو آپ (ﷺ) کے فرمانے پر) کو بھی تسلیم کرتا ہوں-پس اسی وجہ سے (آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس سے)آپؓ کا نام ابوبکر صدیق رکھا گیا‘‘-[33]
نوٹ:اگر آج ناقص العقل اِنسان کیلئے مادی اسباب کی بنیاد پر خلاؤں کا سینہ چیرتے ہوئے چاند پہ قدم جمانا، خلا کو تسخیر کرنا ممکن ہے تو خالق لم یزل کی عطاکردہ روحانی قوت کی بناء پر تاجدارِ کائنات (ﷺ) کا سدرۃ المنتہٰی اور قاب قوسین اؤ ادنی تک رسائی کیونکر نہ ممکن ہے - یہ بات بھی ہر ذی شعور جانتا ہے کہ عقل کی پرواز حواسِ خمسہ کے ساتھ ہے جہاں حواسِ خمسہ ساتھ چھوڑ جائیں گے عقل وہاں بیکار ہو جائے گی،جیسے نابینا انسان کے لیے رنگوں کا ادراک ممکن نہیں وغیرہ وغیرہ-
دوسری بات کہ خود سائنس آج ایسے کارنامے سر انجام دے چکی ہے جن تک رسائی حواسِ خمسہ اور محض عقل ِ انسانی کی بنیاد پہ ممکن نہیں-جیساکہ پست موجی سراغ رساں اور خوردبین و دوربین نے انسان کو اس قابل بنادیا ہے کہ وہ حواس خمسہ اور عقل ِ انسانی کی پہنچ سے باہر سینکڑوں چیزوں کا مشاہدہ کر سکے-اس لیے مفکر ملت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ :
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور |
سفرِ معراج اور تعلیمات حضرت سُلطان باھوؒ:
سُلطان العارفین ،برھان الواصلین حضرت سخی سُلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات مبارکہ میں مختلف مقامات پہ معراج ِ مصطفٰے (ﷺ) کا ذکر فرمایا- ان میں سے چند مقامات کو یہاں بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں-آپؒ ارشادفرماتے ہیں:
’’جان لے کہ مندرجہ ذیل(خاص الخاص چھ) مراتب تک کوئی نہیں پہنچ سکتا، اگر کوئی اُن مراتب تک پہنچنے کا دعویٰ کرتاہے تو وہ کاذب و ساحر و کافر و صاحب ِ اِستدراج مرتد ہے-اُن خاص الخاص چھ مراتب (میں سے ایک یہ ہے کہ ) حضور نبی رحمت (ﷺ) کے سوا کوئی اور شخص مراتب ِ قابَ قوسین پر پہنچ کر ظاہری آنکھوں سے معراج نہیں کرسکتا‘‘-[34]
مزید ارشادفرمایا: حضور نبی کریم (ﷺ) معراج کی رات براق پر سوار ہوئے اور جبرائیل (علیہ السلام) آپ (ﷺ) کے ساتھ پیدل چلے- آگے جا کر جبرائیل (علیہ السلام) بالائے عرش جانے سے معذور ہو گئے مگر آپ (ﷺ) آگے چلے گئے اور قابَ قوسینِ ا ؤ ادنیٰ کے مقام پر جا پہنچے اور وہاں جو دیکھنا تھا وہ دیکھا اور جو سننا تھا وہ سنا-
بیت : ’’ حضور نبی رحمت(ﷺ) نے وہاں جو کچھ دیکھا کسی اور آنکھ سے نہیں بلکہ سرّ کی آنکھ سے دیکھا ‘‘ -[35]
معراج کے وقت ایک اور ایمان افروز واقعہ کو بیان کرتے ہوئے آپؒ نے ارشادفرمایا:
’’جان لے کہ جب حضرت محمد رسول اللہ(ﷺ) معراج کی رات کو قربِ الٰہی کی طر ف بڑھے تو حضرت پیر دستگیر قدس سرہ العزیز نے اپنی گردن آپ (ﷺ) کے قدموں میں رکھ دی جس پر پیغمبر صاحب (ﷺ) نے فرمایا کہ اب آپ کا قدم جملہ اولیائے اللہ کی گردن پر ہوگا-ہر طریقہ خرقہ پوش ہے لیکن قادری طریقہ محبت و معرفت ِ توحید ِ الٰہی کا دریا نوش ہے، ہر طریقہ میں سجادگی ہے لیکن قادری طریقہ میں غرق فنا فی اللہ ہو کر نفس سے آزادگی ہے، ہر طریقہ میں قائم مقام ہے لیکن قادری طریقہ میں ہدایت ِمعرفت و فقر تمام ہے،ہر طریقہ میں جبہ و دستار ہے لیکن قادری طریقہ میں مشاہدہِ جمالِ حضور اور شرفِ دیدار ہے، ہر طریقہ میں ورد و تسبیح ہے لیکن قادری طریقہ میں غرقِ وحدت و نفس ِذبیح ہے، ہر طریقہ میں تقلیدی طور پر حجام کی طرح قینچی سے طالب مریدکے بال کاٹے جاتے ہیں لیکن قادری طریقہ میں توجہ دے کر بعین توحید کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے-
قطعہ: ’’ہرطریقہ مفلس و در در کا سوالی ہے مگر قادری غنی و با وصال ہے ، مَیں قادری فقیر ہوں، ہر وقت بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں اور طالبوں کو مجلس ِمصطفٰے(ﷺ) میں پہنچاتا ہوں-[36]
’’فقیر نے جو کچھ کہا ہے حسد سے نہیں بلکہ حساب سے کہا ہے‘‘-
بندہ مؤمن کس طرح معراج حاصل کرتا ہے؟
آپؒ فرماتے ہیں:
’’عارف اپنے جسم کو اسمِ اللہ ذات میں گم کر کے معرفت ِ نور ِ وحدت کی معراج پا لیتے ہیں‘‘-[37]
مزید ارشادفرمایا :
’’دل معراج پر لے جانے والی دُلدل و بُراق ہے، جس نے دل کو پا لیا وہ صاحب ِنظر ہو گیا‘‘-[38]
اللہ عزوجل جس خوش قسمت بندہ مؤمن کو شرفِ معراج عطا فرماتا ہے اس کی علامت اور نشانی بیان کرتے ہوئے آپؒ نے ارشادفرمایا :
’’معراجِ خدا وندی کی نشانی یہ ہے کہ صاحب ِ معراج کے وجود میں چوں رہتی ہے نہ چرا - یہ مرتبہ مرشد ِکامل کی عطا سے حاصل ہوتا ہے‘‘-[39]
خلاصہ کلام:
ہر کوئی اپنی استطاعت اور آنے والے کی شخصیت کے اعتبار سے استقبال کرتا ہے اور بعض اوقات بُلانے والے کے بلند مقام و مرتبے کی وجہ سے بلائے جانے والے کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے- اسی طرح کسی کو مدعو کرنے کے کئی انداز ہوتے ہیں-بعض اوقات دوست یا چاہنے والا فقط فون یا پیغام بھیج دیتا ہے اور جانے والا اپنی سواری کا بندوبست خود کرتا ہے-جہاں تعلق زیادہ ہووہاں صر ف پیغام پہ اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ ساتھ گاڑی بھی روانہ کی جاتی ہے اورچاہت کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ بُلانے والا نہ صرف سواری کا بندوبست کرتا ہے بلکہ ساتھ اپنا خصوصی نمائندہ بھی روانہ کرتا ہے-
جب ہم سفرِ معراج کودیکھتے ہیں تو ہمیں یہ سفر اپنی مثال آپ نظر آتا ہے-غورفرماتے جائیں:
نمائندہ کیلئے اپنا مقرب فرشتہ (نوریوں کے سردار فرشتے ) کو روانہ فرمایا ،سواری کے لیے کہیں بُراق اور کہیں رفرف کا انتظام فرمایا، استقبال کیلئے کہیں انبیاء کرام ؑ قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑے رہے اور کہیں ہر آسمان پہ جگہ جگہ اللہ عزوجل نے استقبال کا بندوبست فرمایا ہے-اسی طرح سدرۃ المنتھٰی کے مقام پہ لاکھوں فرشتے خاتم الانبیاء (ﷺ) کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بیتاب تھے اور میزبانی کا شرفِ بخشنے کیلئے خود رب ذوالجلال اپنی شان کے مطابق جلوہ فرما تھا جس کی عکاسی کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضابریلویؒ فرماتے ہیں:
وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر |
الغرض! اس سفر کو کسی بھی حوالے سے دیکھیں تو آپ صرف سوچ سکتے ہیں نہ اس کی مثال پہلے موجود ہے نہ ان شاء اللہ قیامت تک ہوگی -
رب کریم ہمیں اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کی کامل محبت و اتباع نصیب فرمائے-آمین!
٭٭٭
[1]ابن منظور،محمد بن مكرم بن على،لسان العرب،(الناشر:دارصادر بيروت1414ھ)،ج:5، ص:369
[2]المنجد
[3]سعیدی ،غلام رسولؒ،سید، شرح صحیح مسلم ،(لاہور:فریدبک سٹال،1424ھ،الطبع العاشر)، کتاب الایمان،ج01،ص:714
[4]بنی اسرائیل:01
[5]ابن کثیر، إسماعيل بن عمر بن كثير، تفسير القرآن العظيم،زیرآیت: بنی اسرائیل:1 ،ج:05،ص:21-22
[6]النسائی، أحمد بن شعيب بن علي ؒ، سنن النسائی، ایڈیشن دوم، كِتَابُ الصَّلَاةِ، ج: 1، ص:217،رقم الحدیث:450
[7]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم ، كتاب الْفَضَائِلِ، ج،04،ص:1845
[8]البزار، أحمد بن عمرو بن عبد الخالق(المتوفى: 292هـ) , مسند البزارج:13،ص:62۔
[9]السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر ، الدر المنثور ۔ (بیروت : دارالفکر)ج:05،ص:195،زیرِ آیت:بنی اسرائیل:1
[10]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ)،بَابُ المِعْرَاجِ،ج 05،ص:52-رقم الحدیث:3887
[11]النيسابوري، حسن بن محمد بن حسينؒ (المتوفى: 850هـ)،غرائب القرآن ورغائب الفرقان، ،ج:06،ص:203
[12]عین الفقر
[13]الرازي،محمد بن عمرؒ،مفاتيح الغيب،ایڈیشن:سوم( بيروت:دار إحياء التراث العربي، 1420هـ) زیرِ آیت:البقرۃ:34،ج: 2،ص:445
[14]عياض بن موسىؒ(المتوفى: 544هـ)،الشفا بتعريف حقوق المصطفےٰ(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم)، ،ج:1،ص:390
[15]حقیؒ، إسماعيل بن مصطفےٰؒ( المتوفى: 1127هـ) ، روح البیان،ج،05،ص،121،زیرِآیت:بنی اسرائیل:01
[16]النجم:8-12
[17]صحیح البخاری،کتاب التوحید
[18]حقیؒ، إسماعيل بن مصطفےٰؒ( المتوفى: 1127هـ) ، روح البیان،ج،05،ص،121،زیرِآیت:بنی اسرائیل:01
[19]عياض بن موسىؒ(المتوفى: 544هـ)،الشفا بتعريف حقوق المصطفےٰ(ﷺ)، الْفَصْلُ السَّابِعُ الدُّنُوُّ وَالْقُرْبُ وج،01،ص،394
[20]الرازي،محمد بن عمرؒ،مفاتيح الغيب،ایڈیشن:سوم ، زیرِ آیت:البقرۃ:34،ج:28،ص:239
[21]آلوسی،محمود بن عبد الله ؒ روح المعاني ( المتوفى: 1270هـ)، ،ج،14،ص،52
[22] النجم:17
[23]احمد بن محمد بن حنبل ، مسند الإمام أحمد بن حنبل ، ج،19،ص:103،رقم الحدیث: 12046
[24]احمد بن محمد بن حنبل ، مسند الإمام أحمد بن حنبل ،مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ؓ ،رقم الحدیث: 13515،ج:21،ص:158۔159
[25]محمد بن يوسف الصالحيؒ(المتوفى: 942هـ)، سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد۔۔۔،ج،3،ص،86
[26]ابن كثير، إسماعيل بن عمرؒ، تفسير القرآن العظيم،( بيروت: دار الكتب العلمية)، زیرِآیت:بنی اسرائیل :01،ج:05،ص:23۔
[27]تبیان القرآن
[28]البیہقی،أحمد بن الحسين بن علیؒ، دلائل النبوة،(المتوفى : 458هـ)، بَابُ الدَّفلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ ﷺعُرِجَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ،ج،2،ص:393
[29]السیوطی، عبد الرحمن بن أبي بكر، الخصائص الکُبرٰی،،(المتوفى: 911هـ)، ج:01،ص:278
[30]النجم:1
[31]القرطبی ؒ، محمد بن أحمدؒ، الجامع لأحكام القرآ ن،ایڈیشن دوم، زیرِ آیت: النجم، 1، ج:17، ص:83
[32]صحیح مسلم، کتاب الایمان ، بَابُ الْإِسْرَاءِ
[33] حاکم،محمد بن عبداللہؒ، المستدرك على الصحيحينباب: أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي قُحَافَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَ،ج:03،ص:65،رقم الحدیث:4407۔
[34]کلیدالتوحید(کلاں)
[35]محک الفقر (کلاں)
[36]نورالھدٰی
[37]امیرالکونین
[38]عقلِ بیدار
[39]محک الفقر(کلاں)