ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ وَ مَنْ یَّلْعَنِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ نَصِیْرًا‘‘[1]
’’ اور جسے خدا لعنت کرے تو ہر گز اس کا کوئی یار نہ پائے گا‘‘-
لعنت کرنا،شرمندہ کرنا،گالی دینا، نیکی سے دورکرنااور دھتکارنے‘‘[2] کے معانی میں آتا ہے –
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ لعنت کی اصل یہ ہے:
’’اَلطَّرْدُ وَالْإِبْعَادُ‘‘[3]
’’(اللہ تعالیٰ کی رحمت سے) دور ہونا اور دھتکارنا ہے‘‘-
البتہ یہ واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں جس لعنت کا ذکر ہے وہ مسلمان اور کافر کے حق میں یکساں نہیں، بلکہ دونوں میں فرق ہے-
مسلمان کے حق میں لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اُس رحمت سے محروم ہوگا جو رحمت اللہ تعالیٰ کے نیک اور فرمانبردار بندوں کے ساتھ خاص ہے-نیز جنت میں فی الفور دخول سے محروم ہوگا اگرچہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ایمان کی وجہ سے کسی نہ کسی وقت جنت میں داخل ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں آجائے گا-
جبکہ کافر کے حق میں لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جنت سے ہمیشہ کے لئے دور اور محروم ہو جائے گا-
بہرحا ل لعنت کا مستحق جو بھی ٹھہر ے وہ کوئی نیک نامی کا باعث نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایسی چیز ہے جس کو نظر انداز کیا جائے- قرآن کریم و احادیث مبارکہ میں اللہ عزوجل اور سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ایسے اعمال کی نشاندہی فرمائی ہے جو نہ صرف ناپسندیدہ ہیں بلکہ اللہ عزوجل اور سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ان پر اظہارِ ناراضگی اور لعنت فرمائی ہے-اسی کے متعلق یہاں روایات مبارکہ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں تاکہ ایسے کاموں سے بچنے کا خاص طور پر اہتمام کیاجائے-
قرآن مجید میں لعنت
کئے گئے افراد کا تذکرہ :
انبیا کرام کو ناحق قتل کرنے والوں پر لعنت:
’’اور (انبیا کو ناحق قتل کرنے والے گروہ کے لوگ) بولے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں بلکہ اللہ عزوجل نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو ان میں تھوڑے ایمان لاتے ہیں‘‘-[4]
آقا کریم (ﷺ) کی پہچان نہ کرنے والوں پہ لعنت:
’’اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے- اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا، اس سے منکر ہو بیٹھے ،تو اللہ کی لعنت منکروں پر‘‘[5]
حقیقت کو چھپانے والوں پر لعنت:
’’بےشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے لیے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے، ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی‘‘-[6]
کفار پر لعنت:
’’بےشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پر لعنت ہے اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی‘‘-[7]
جھوٹوں پر لعنت:
’’پھر اے محبوب مکرم (ﷺ) جو تم سے عیسٰی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرمادو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مُباہَلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں‘‘-[8]
حق کی پہچان کے بعدمنکرین و مرتدین پر لعنت:
’’کیونکہ اللہ عزوجل ایسی قوم کی ہدایت چاہے جو ایمان لا کر کافر ہوگئے اور گواہی دے چکے تھے کہ رسول سچا ہے اور انہیں کھلی نشانیاں آچکی تھیں اور اللہ عزوجل ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا- ان کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر لعنت ہے اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں کی سب کی‘‘-[9]
حضور نبی رحمت (ﷺ) کی بات کو ترجیح نہ دینے والوں اور بے ادبی کے مرتکب افراد پہ لعنت:
’’کچھ یہودی کلاموں(ارشاداتِ خداوندی) کو ان کی جگہ سے پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور نہ مانا اور سنئے آپ سنائے نہ جائیں اور راعنا کہتے ہیں زبانیں پھیر کر اوردین میں طعنہ کے لیے اور اگر وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا اور حضور(ﷺ) ہماری بات سنیں اور حضور ہم پر نظر فرمائیں تو ان کے لیے بھلائی اور راستی میں زیادہ ہوتا لیکن اُن پر تو اللہ عزوجل نے لعنت فرمائی اُن کے کفر کے سبب تو یقین نہیں رکھتے مگر تھوڑا ‘‘-[10]
قتل ناحق پر لعنت:
’’اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب‘‘-[11]
اللہ عزوجل سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے والوں پہ لعنت:
’’تو اُن کی کیسی بدعہدیوں پر ہم نے انہیں لعنت کی اور اُن کے دل سخت کردئیے اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں اور بھلا بیٹھے بڑا حصہ اُن نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں اور تم ہمیشہ ان کی ایک نہ ایک دغا پر مطلع ہوتے رہو گے سوا تھوڑوں کے تو انہیں معاف کردو اور اُن سے درگزر و بے شک احسان والے اللہ کو محبوب ہیں‘‘-[12]
اللہ عزوجل کی شانِ اقدس میں نازیبا کلمات کہنے والوں پہ لعنت:
’’اور یہودی بولے اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے اِنہیں کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان پر اس کہنے سے لعنت ہے بلکہ اس کے ہاتھ کشادہ ہیں عطا فرماتا ہے جیسے چاہے‘‘-[13]
منافقین پر لعنت:
’’اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں کو جہنم کی آگ کا وعدہ دیا ہے جس میں ہمیشہ رہیں گے وہ انہیں بس(کافی) ہے اور اللہ کی ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے‘‘-[14]
ظالموں پہ اللہ عزوجل کی لعنت:
’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے یہ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا ارے ظالموں پر خدا کی لعنت‘‘-[15]
کسی سرکش اور ہٹ دھرم کی پیروی کرنے والے پر لعنت:
’’اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے- اور ان کے پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن‘‘- [16]
فسادیوں پر اللہ عزوجل کی لعنت:
’’اور وہ جو اللہ عزوجل کا عہد اس کے پکے ہونے کے بعد توڑتے اور جس کے جوڑنے کو اللہ نے فرمایا اسے قطع کرتے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کا حصہ لعنت ہی ہے اور ان کا نصیبہ برا گھر‘‘- [17]
عورتوں پہ تہمت لگانے والوں پر اللہ عزوجل کی لعنت:
’’یاد رکھو! جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی مسلمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار پڑ چکی ہے، اور ان کواس دن زبردست عذاب ہو گا‘‘-[18]
اللہ عزوجل اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کو ایذاء دینے والوں پر لعنت:
’’بےشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ عزوجل نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘- [19]
قطع رحمی کرنے والوں پہ اللہ عزوجل کی لعنت:
’’تو کیا تمہارے یہ لچھن(انداز) نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے کاٹ دو-یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور اُنہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں‘‘-[20]
نوٹ:علماء کرام نے آخری دومذکورہ آیات مبارکہ سے یزید پر لعنت کے وجوب کو ثابت کیا ہے کیونکہ اس نے خانوادۂ رسول (ﷺ) کی بے حرمتی کرکے نہ صرف سیدی رسول اللہ (ﷺ) کو ایذاء دی بلکہ زمین میں فتنہ وفساد بھی پھیلایا-
احادیث مبارکہ کی روشنی میں
لعنت کئے گئے افراد کا تذکرہ :
سود کھانے اور کھلانے والے پہ لعنت:
’’حضرت جابر(رض) سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے سود کھانے والے، سود دینے والے اور سودی تحریر یا حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ وہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں‘‘ -[21]
شراب پینے، پلانے اور خریدوفروخت کرنے والے پہ لعنت:
’’حضرت عبداللہ ابن عمر(رض) فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور اس کے پلانے والے پر اور اس کے بیچنے والے پر اور اس کے خریدنے والے پر اور شراب بنانے والے اور بنوانے والے پر اور جو شراب کو کسی کے پاس لے جائے اس پر اور جس کے پاس لے جائے ان سب پر لعنت فرمائی ہے‘‘ -[22]
مرد وعورت کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے پر لعنت:
’’حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں‘‘-[23]
صحابہ کرام (رض) کو بُرا بھلا کہنے والوں پر اللہ عزوجل کی لعنت:
’’حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ(ﷺ)نے ارشاد فرمایا:جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو تم کہو کہ تمہارے شر اور برائی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو‘‘-[24]
رشوت لینے، دینے اور رشوت کے لین دین کا واسطہ بننے والے پہ لعنت:
’’حضرت ثوبان (رض) روایت بیان فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے رشوت دینے اور لینے والے پر اور ان کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے‘‘-[25]
مومن کو تکلیف پہنچانے یا دھوکہ دینے والے پر لعنت:
’’حضرت ابوبکر صدیق (رض)فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نےارشاد فرمایا کہ اس آدمی پر لعنت ہے جو کسی مؤمن کو تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے‘‘-[26]
والدین کو گالی دینے ،غیراللہ کے نام پہ ذبح کرنے، زمین کی حدود تبدیل کرنے ،نابینا کو راستہ سے بھٹکانے،جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے اور مردوں کے ساتھ بدفعلی (لواطت) کرنے والوں پہ اللہ عزوجل کی پھٹکار اورلعنت :
’’حضرت عبد اللہ بن عباس (رض)سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایاکہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنے باپ کو بُرا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو اپنی ماں کو گالی دے ، وہ شخص ملعون ہے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے، وہ شخص ملعون ہے جو زمین کی حدود بدل دے، وہ شخص ملعون ہے جو اندھے کو راستے سے بھٹکادے، وہ شخص ملعون ہے جو جانور کے ساتھ جماع کرے، وہ شخص ملعون ہے جو قومِ لوط والا عمل کرے، قوم لوط والی بات کوسیدی رسول اللہ (ﷺ) نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا‘‘-[27]
ایک اور روایت حضرت عبد اللہ بن عباس(رض)سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قومِ لوط والا عمل کرے‘‘-[28]
بیوی کےپچھلے مقام میں ہمبستری کرنے والے پر لعنت :
’’حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:اس شخص پر لعنت ہے جو بیوی سے پائخانہ کے مقام میں ہمبستری کرے‘‘-[29]
بلاعذر شوہر کو صحبت سے انکار کرنے والی پر لعنت:
’’حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:جب مرد اپنی بیوی کو ہم بستری کی طرف بلائے اور بیوی (بلاکسی عذر کے) انکار کرے، جس کی وجہ سے شوہر غصہ ہو کر رات گزارے تو ایسی عورت پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے ہیں‘‘-[30]
حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف (ولدیت کی) نسبت کرنے والے پر لعنت:
’’حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنے حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا یا جس غلام اور باندی نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کی، اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘-[31]
لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود امام بننے ،بیوی کا خاوند کو ناراض کرنے اوراذان کی آواز سن کر جواب نہ دینے والے پر لعنت:
’’حضرت حسن (رض)روایت بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک(رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سیدی رسول اللہ(ﷺ) نے تین آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے:ایک وہ شخص جس کو لوگ (کسی معتبر وجہ سے) ناپسند کرتے ہوں اور وہ ان کی امامت کرائے-(دوسرا )وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو-(تیسرا) وہ آدمی جو ’’ حَيَّ عَلَى الفَلَاحِ ‘‘ کی آواز سنے اور جواب نہ دے‘‘-[32]
مختصروضاحت: امام سے متعلق مذکورہ حدیث کا حکم اس وقت ہے جب لوگ کسی دینی وجہ سے مثلاً: اس کی جہالت یا فسق کی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں لیکن اگر ان کی ناپسندیدگی کسی دنیوی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے ہو تو یہ حکم نہیں-اذان کا جواب دو طرح کا ہوتا ہے: ایک تو یہ کہ اذان کی آواز سن کر مسجد کی طرف چل دیاجائے، اسے اجابت بالقدم کہتے ہیں اور یہ واجب ہے- دوسرے یہ کہ زبان سے مؤذن کی طرح الفاظ کہے جائیں، اسے اجابت باللسان کہتے ہیں مذکورہ حدیث کاتعلق اجابت بالقدم سے ہے -
بدنظری کرنے اور کروانے والے پر لعنت:
’’حضرت عمرو (رض) سے روایت ہے کہ سید ی رسول اللہ (ﷺ) نے (غیر محرم کی طرف) دیکھنے والے اور جس کی طرف دیکھا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے (یعنی خواہ مخواہ بدنظری کا سبب بنے)‘‘-[33]
نوحہ کرنے اور سُننے والی پر لعنت:
’’حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے‘‘-[34]
گریبان چاک کرنے اور واویلا کرتے ہوئے موت مانگنے والی عورت پر لعنت:
’’حضرت ابوامامہ(رض) سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے چہرہ نوچنے والی، اپنا گریبان چاک کرنے والی، واویلا اور موت مانگنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے‘‘-[35]
مختصر وضاحت:یہ یادرہے مطلق رونے اور آنسو بہانے میں کوئی حرج نہیں -جیساکہ ایک حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ اپنے لخت جگر وشہزادے سیدنا ابراہیم(علیہ السلام) کی وفات پرجب سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی چشمان مبارک سے موتیوں کی صورت میں آنسو رواں ہوئے تو صحابہ کرام (رض) کے استفسار پر آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’یہ وہ رحمت ہے جو اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے دل میں رکھ دی ہے ‘‘-
یعنی محض آنسو بہانے میں کوئی حرج نہیں- گناہ تب ہے جب انسا ن صبروشکر کا دامن چھوڑکر معاذاللہ شکوہ وشکایت پر اترآئے اس سے تقدیر کا لکھاتو واپس نہیں آتا بلکہ انسان اجر سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ عزوجل کی لعنت کا بھی مستحق ٹھہرتا ہے -
راستہ یا سایہ دار جگہ میں پیشاب وپا خانہ پھیلانے والے پر لعنت:
’’حضرت ابوہریرہ (رض)سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا: لعنت کرنے والوں سے بچو! صحابہ کرام(رض)نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ)! لعنت کرنے والے کون ہیں؟ آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا: جوشخص لوگوں کے راستے یاان کے سائے کی جگہ قضائے حاجت کرئے(یعنی یہ فعل لعنت کا سبب بنتے ہیں)-[36]
’’اسی طرح حضرت ابوہریرہ (رض)سے روایت ہے کہ جس نے مسلمانوں کے راستوں میں سے کسی راستے پر پاخانہ پھیلایا اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو‘‘-[37]
بغیر علم کے فتوٰی دینے والوں پر لعنت:
’’حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا (رض) سے مروی ہے کہ سيد ی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا جس نے بغیر علم کے فتوٰی دیا، اس پر آسمان وزمین کے فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ‘‘-[38]
باہم ایک دوسرے یا کسی اور مخلوق کو لعن طعن کرنا:
سید ی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:’’مؤمن لعنت کرنے والا،فحش گو اور بے حیا نہیں ہوتا‘‘-[39]
سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی ذات مبارک میں ایسے اعمال کا شائبہ تک نہ تھا جیساکہ سیدنا انس بن مالک (رض)کا بیان ہے کہ :
’’سیدی رسول اللہ (ﷺ) فحش گوئی، لعنت اور گالی گلوچ کرنے والے نہ تھے اور جب کبھی ناراض ہوتے تو صرف اس قدر فرماتے کہ اس کو کیا ہوگیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہو‘‘-[40]
معزز ومکرم قارئین! آج ہمارے معاشرے میں اللہ عزوجل کی کسی بھی مخلوق پہ لعن طعن ایک معمول بن چکا ہے- لوگ بلا جھجھک ایک دوسرے پر لعنت کرتے رہتے ہیں- بدقسمتی سے بعض اوقات ا س کو عیب تصور نہیں کیا جاتا اور انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر قبیح (بُرے) فعل کا اِرْتِکاب کر رہے ہیں- حالانکہ لعنت کر نا بہت سخت چیز ہے چاہے وہ کسی چیز مثلاً:ہوا ،سواری کے جانور وغیرہ پریا کسی معین شخص پر ہو- سوائے ان کفار کے جن کا کفر پر مرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہو، جیسے ابو لہب،ابو جہل وغیرہ-تاہم غیر معین کفار اور گنہگار وں پر لعنت کی جا سکتی ہے - جیسے اس طرح کہنا کہ کافروں پر لعنت، جھوٹوں پر لعنت-جیساکہ روایات مبارکہ میں ہے :
حضرت ابوقِلابۃ (رض)سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’جس نے کسی مؤمن کو لعنت کی تو گویا اس نے اس کو قتل کیا(یعنی اس کو اس کے قتل کرنے جتنا گناہ ملے گا)‘‘-[41]
حضرت سَمُرَہ بن جندب (رض)سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’اللہ عزوجل کی لعنت کے ساتھ لعنت نہ کرواور نہ اللہ عزوجل کی غضب اورنہ دوزخ سے اور نہ آگ سے‘‘-[42]
یعنی یہ نہ کہے کہ تم پر اللہ کی لعنت ہو،تجھ پر اللہ عزوجل کا غضب ہویعنی کسی کے لیے دوزخ کی دعا نہ کرو-
یہ بھی یادرہے کہ اگر کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے اس حال میں وہ چیز یا شخص لعنت کا مستحق نہیں ہوتاتو وہ لعنت اس لعنت کرنے والے پر لوٹ آتی ہے- جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) سے مروی ایک روایت ہے کہ:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) کے دورمبارک میں ایک شخص کی چادر ہوا نے اڑادی اس نے ہوا پر لعنت کی تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ہوا کو بُرا بھلا نہ کہو کیونکہ یہ تو (اللہ پاک کے)حکم کی پابند ہے، جس نے کسی ایسی چیز پر لعنت کی جس کی وہ اہل نہ تھی تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آئے گی‘‘-[43]
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابودرداء (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سُنا:
’’جب کوئی بندہ کسی شئے پر لعنت کرتا ہے تو وہ آسمان کی طرف چلی جاتی ہے آسمان کے دروازے اس کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں-پھروہ زمین کی طرف لوٹ آتی ہے، زمین کے دروازے بھی بند کردیے جاتے ہیں،پھروہ دائیں بائیں گردش کرتی ہے-جب کوئی گنجائش نہیں پاتی تو وہ اس کی طرف لوٹتی ہے جس پر وہ کی گئی تھی-اگر وہ مستحق تھا تو درست ورنہ لوٹ کرکہنے والے کی طرف آجاتی ہے ‘‘-[44]
جن لوگوں کی عادت میں شامل ہے کہ وہ گھر میں لعن طعن کرتے ہیں بلکہ ان کی اولادیں ،رشتہ دار اور دیگر جانور وغیر ہ بھی اس کی شر سے محفوظ نہیں رہتے ،انہیں اس حدیث مبارک سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ:
’’(دورانِ سفر) ایک شخص نے سواری کے جانور (اونٹ) پر لعنت کی تو سیدی رسول اﷲ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’اس سے اتر جاؤ، ہمارے ساتھ میں ملعون چیز کو لے کر نہ چلو،(پھرآپ (ﷺ) نے نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا )تم اپنے آپ کو بددعا نہ دو،نہ اپنی اولاد کو بددعا دواورنہ اپنے اموال کو بددعادو،تم اللہ عزوجل سے ایسی ساعت میں موافقت نہ کرو کہ جس میں اس سے عطا کا سوال کیا جاتا ہے اور تمہارے لیے وہ اسے قبول فرما لیتاہے (یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بددعا اس ساعت میں ہو جس میں جو دعا خدا سے کی جائے ، قبول ہوتی ہو)‘‘ -[45]
خلاصہ کلام :
اس مکمل تحریر کے صرف دو ہی مقاصد ہیں ایک یہ کہ اپنی زندگی کا بنظر عمیق جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ خدانخواستہ ہماری زندگی میں دانستہ یانادانستہ (بھول کر یا جان بوجھ کر)ایسے اعمال تو داخل نہیں جس کی وجہ سے ہم رحمت الٰہی سے دور ہو رہے ہیں- کیونکہ اللہ عزوجل اور اس کے حبیب ِ مکرم (ﷺ) کی لعنت کاایک مطلب اللہ عزوجل کی رحمت سے دُوری ہے اور بندہ مؤمن کیلیے دونوں جہان میں اللہ عزوجل کی رحمت کا ہی سہارا ہے ،جس کے چھن جانے کے بعد کیا رہ جاتا ہے؟؟؟
دوسرا مقصد یہ ہے اکثر اوقات محافل بالخصو ص گھروں میں ایک دوسرے پر لعن طعن روز مرہ کے معمول کے طور پر کی جاتی ہے،جس کو بُرا ہی نہیں سمجھاجاتا،ہمیں چاہیے ہم ایسے طور اطوار کو اپنے گھروں اور اپنے گردونواح میں پروان چڑھنے نہ دیں کیونکہ آج کی بے سُکون زندگی میں ہماری بداعمالیوں کا بڑا دَخْل ہے- جیساکہ کہ مذکورہ جرائم کا مُرْتَکِب ہونا رحمتِ الٰہی سے دور ہونے کا ایک سبب ہے یا دوسروں پر لَعْن طَعْن کرکے لڑائی جھگڑے کے ذریعےنفرتوں کے بیج بونا باہمی امن کے تباہ ہونےکی ایک بڑی وجہ ہے- لہٰذا غضبِ الٰہی سے بچنے، رَحمتِ خداوندی پانے، گھریلواور معاشرتی امن و امان حاصل کرنے کے لئے ہمیں دینِ اسلام میں بیان کئے گئے لعنت کا مستحق بنانے والے اعمال سے بچنا ہوگا-
اللہ عزوجل ہم سب مسلمانوں کو لعنت والے کاموں، لعنت کے اسباب اور باہم لعن طعن کرنے سے اجتناب کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین!
٭٭٭
[1]النساء:52
[2]المنجد
[3]الشافعیؒ، محمد بن إدريسؒ، (المتوفى: 204هـ)، تفسير الإمام الشافعي، الطبعة الأولى: 1427،،ج،03،ص:1134
[4]البقرۃ:88
[5]البقرۃ:89
[6]البقرۃ:159
[7]البقرۃ:161
[8]آل عمران:61
[9]آل عمران:86-87
[10]النساء:46
[11]النساء:93
[12]المائدہ:13
[13]المائدۃ:64
[14]التوبۃ:68
[15]ھود:18
[16]ھود:59۔60
[17]الرعد:25
[18]النور:23
[19]الاحزاب:57
[20]محمدؐ:22-23
[21]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابُ الطَّلَاقِ، بَابُ لَعْنِ آكِلِ الرِّبَا وَمُؤْكِلِهِ ج،03،ص:1219۔
[22]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،(بیروت:المكتبة العصرية، صيدا) كِتَاب الْأَشْرِبَةِ ، بَابُ الْعِنَبِ يُعْصَرُ لِلْخَمْرِ ،ج،03،ص:326،رقم الحدیث:3674۔
[23]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ) كِتَابُ اللِّبَاسِ ، بَابٌ: المُتَشَبِّهُونَ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتُ بِالرِّجَالِ ،ج 07،ص:159،رقم الحدیث:5885
[24]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ه) ، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلہٖ وَسَلَّم،ج،05،ص:697۔ رقم الحدیث:3866۔
[25]احمد بن محمد بن حنبل ، مسند الإمام أحمد بن حنبل ،(بیروت، مؤسسة الرسالة،1421ھ)، تتمة مسند الأَنصار رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُم،باب: وَمِنْ حَدِيثِ ثَوْبَانَ،رقم الحدیث: 22399،ج:37،ص:85
[26]الترمذی ،محمد بن عيسىؒ، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ه) ، بَابُ مَا جَاءَ فِي الخِيَانَةِ وَالغِشِّ،ج،04،ص:332۔ رقم الحدیث:1941
[27]احمد بن محمد بن حنبل ، مسند الإمام أحمد بن حنبل ،(بیروت، مؤسسة الرسالة،1421ھ)، وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُم،باب: مُسْنَدُ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلہٖ وَسَلَّمَ،رقم الحدیث: 2914،ج:05،ص:83۔
[28]النسائی،احمد بن شعیبؒ (المتوفى: 303هـ)، السنن الكبرى،( بیروت: مؤسسة الرسالة ، الطبعة: الأولى، 1421 ه)، كِتَابُ الرَّجْمِ،باب، مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ،ج،06،ص:485،رقم الحدیث:7297۔
[29]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،(بیروت:المكتبة العصرية، صيدا) كِتَاب النِّكَاحِ، بَابٌ فِي جَامِعِ النِّكَاحِ ،ج،02،ص:249،رقم الحدیث:2162۔
[30]صحیح البخاری،ج 04،ص:116،رقم الحدیث:3237
[31]سنن ابی داؤد، كِتَاب الْأَدَبِ ،ج،04،ص:330،رقم الحدیث:5115
[32]سُنن الترمذی،أَبْوَابُ الصَّلَاةِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلہٖ وَسَلَّمَ،ج،2،ص:191،رقم الحدیث:358۔
[33]ابوداؤد،سليمان بن الأشعثؒ (المتوفى: 275هـ)،المراسیل، (بیروت: مؤسسة الرسالة، الطبعة: الأولى، 1421ھ)، كِتَابُ الطَّهَارَةِ، ج:01، ص:329،رقم الحدیث:473
[34]سنن ابی داؤد، كِتَاب الْأَدَبِ ،ج،03،ص:193،رقم الحدیث:3128
[35]ابن ماجة ،محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ،(الحلب: دار إحياء الكتب العربية) ، كِتَابُ الْجَنَائِزِ،ج:01،ص:505۔رقم الحدیث:1585
[36]صحیح مسلم ،كِتَابِ الطَّهَارَةِ،ج،01،ص:226
[37]حاکم،محمد بن عبداللہؒ، المستدرك على الصحيحين(بيروت ،دار الكتب العلمية 1411ھ)،باب، وَأَمَّا حَدِيثُ عَائِشَةَ رضی اللہ تعالیٰ عنھا، ج:01،ص:296،رقم الحدیث:665
[38]المناوی، محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن عليؒ، فيض القدير شرح الجامع الصغير،( المكتبة التجارية الكبرى – مصر،الطبعة: الأولى، 1356)،باب،حرف المیم ،ج،06،ص:77،رقم الحدیث:8491
[39]الترمذی، بَابُ مَا جَاءَ فِي اللَّعْنَةِ،ج، 04،ص:350،رقم الحدیث:1977
[40]صحیح البخاری،کتاب الادب،ج،08،ص:15،رقم الحدہث:6046
[41]صحیح البخاری ،ج 08،ص:15،رقم الحدیث:6047
[42]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،(بیروت:المكتبة العصرية، صيدا) بَابٌ فِي اللَّعْنِ،ج،4،ص:277،رقم الحدیث:4906۔
[43] سُنن أبي داود،ج،4،ص:277،رقم الحدیث:4908۔
[44] سُنن أبي داود،ج،4،ص:277،رقم الحدیث:4905۔
[45]صحیح مسلم، بَابُ حَدِيثِ جَابِرٍ الطَّوِيلِ وَقِصَّةِ أَبِي الْيَسَر،ج،04،ص:2304