پانی کے بارے میں شرعی احکام (حصہ اول)

پانی کے بارے میں شرعی احکام (حصہ اول)

پانی کے بارے میں شرعی احکام (حصہ اول)

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی جنوری 2023

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ‘‘

’’اور وہ تم پر آسمان سے پانی نازل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کرے‘‘-

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًا‘‘

’’اورآسمان سے ہم نے پاک کرنے والا پانی اُتارا‘‘-

سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:

’’فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُور‘‘

’’پس بے شک پانی پاک ہے‘‘-

لفظ’’مياه‘‘مآء(پانی)کی جمع ہے اس کے جنس ہونے کے باوجود اسے اختلاف انواع مثلاً کنوئیں کا پانی، سمندر کا پانی، چشمے کا پانی وغیرہ پر دلالت کے لیے جمع لایا گیا ہے-عام طور پر پانی کو بنیادی طور پر دواقسام میں منقسم کرتے ہیں :ماء مطلق ،ماءمقید

 ماء مطلق(مطلق پانی): 

 اس کی وضاحت میں علامہ کاسانی (رح) لکھتے ہیں:

’’ماء مطلق اس پانی کو کہتےہیں کہ جب لفظ پانی بولا جائے تو لوگوں کا ذہن فورًا اس طرف منتقل ہوجاتا ہے، جیسے نہروں کا پانی، چشموں کا پانی، کنووں، بارش، تالاب، حوض اور سمندر کا پانی، اس طرح کے تمام پانیوں سے وضو جائز ہے چاہے وہ اپنی جگہوں پر ہوں یا برتنوں میں ہوں، اس لئے کہ پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے سبب پانی ہی رہتا ہے- نیز پانی چاہے میٹھا ہو یا کھارا (سمندرکاپانی )اس سے وضو جائز ہے اس لئے کہ کھارے پانی پر بھی پانی کا اطلاق ہوتا ہے‘‘-

ایسے پانی کو علامہ حسن بن عمار شرنبلالی (رح) نے سات اقسام میں تقسیم فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آسمان (بارش) کا پانی، دریا کا پانی، نہر کا پانی،کنوئیں کا پانی، برف سے پگھلا ہوا پانی، اولوں سے پگھلنے والا پانی، چشمے کا پانی ‘‘-

الماء المقید(مقید پانی): 

اس پانی کی وضاحت میں علامہ کاسانی (رح) لکھتے ہیں:

’’یہ اس پانی کو کہتے ہیں کہ جب لفظ پانی کہا جائے تو لوگوں کا ذہن فورًا اس طرف منتقل نہیں ہوتااور یہ وہ پانی ہے جو مختلف اشیاء سے کسی عمل کے ذریعے سے حاصل کیا جاتا ہے، جیسے درختوں اور پھلوں کا پانی اور عرقِ گلاب وغیرہ-اس قسم کے پانی سے وضو جائز نہیں ہے-اسی طرح اگر ماء مطلق میں کوئی پاک مائع شے جیسے دودھ، سِرکہ، خشک انگور کا رس وغیرہ اس طرح مل جائے کہ وہ پانی کہلانا ختم ہوجائے، اس طور پر کہ پانی کی مقدار مغلوب (کم)رہ جائےتو وہ بھی ماء مقید کے مفہوم میں شامل ہے-پھر دیکھا جائے گا کہ پانی میں ملنے والی شے، پانی کی رنگت سے مختلف رنگ رکھتی ہے جیسے دودھ، عصفر (زردی مائل رنگ) یا زعفران کا پانی وغیرہ تو رنگ کے غالب ہونے کا اعتبار ہوگا-اگر ملنے والی شے رنگت میں تو پانی کی طرح ہے مگر ذائقہ میں مختلف ہے جیسے سفید انگوروں کا رس یا اس کا سرکہ تو ذائقہ کے غالب ہونے کا اعتبار کیا جائے گااور اگر ملنے والی شے رنگت اور ذائقہ میں بھی پانی سے مختلف نہیں ہے تو پھر اس کے اجزاء کے غالب ہونے کا اعتبار کیا جائے گا-اور رنگ، ذائقہ، اجزاء سب پانی کی طرح ہوں کوئی بھی غالب نہ ہو تو--؟ اس حوالے سے ظاہر الروایۃ (امام محمد(رح) کی کتابیں جن میں لکھے ہوئے مسائل کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے)میں کچھ ذکر نہیں ملتا- لہٰذا فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ ایسے پانی کا حکم ماء مغلوب کا ہوگا احتیاطی طور پر یعنی ایسے پانی سے وضو کا حکم نہیں دیا جائے گا‘‘-

طہارت کے اعتبار سے پانی کی اقسا م :

علامہ حسن بن عمار شرنبلالی (رح) نور الایضاح (المتن و الشرح کلاھما) ’’ کتاب الطہارۃ‘‘ میں طہارت کے اعتبار سے پانی کو پانچ اقسام میں منقسم فرما کراس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:

01: ’’طَاہِرٌمُطَہِّرٌغَیْرُ مَکْرُوْہٍ‘‘ یعنی خود پاک ہے ، پاک کرنے والا ہے اور اس کا استعمال مکروہ نہیں اور یہ ماء مطلق ہے جس طرح بارش کا پانی، سمندر، برف اور کنویں وغیرہ کا پانی -

حکم : یہ ماء مطلق ہے اور یہ حدث اور نجاست دونوں کو دور کر دیتا ہے -

02:’’طَاہِرٌ مُطَہِّرٌ مَکْرُوْہٌ‘‘ یعنی خود پاک ہے ، پاک کرنے والا ہے اور اس کا استعمال مکروہ ہے - یہ وہ پانی ہے جس سے بلی اور اس کے مثل جانور جیسے چوہے یا پھرنے والی مرغی وغیرہ نے پیا ہو اور ہمیں ان کے منہ کی پاکیزگی کا علم نہ ہو - اگر یہ معلوم ہوجائے کہ منہ ناپاک ہے اور اس حالت میں پانی میں منہ ڈال دیا تو پانی ناپاک ہوجائے گا-

حکم : یہ پانی حدث اور نجاست کو دور کر دیتا ہے مگر جس صورت میں اِس پانی کے علاوہ مطلق پانی ہو تو اس سے وضو وغسل کرنا مکروہ ہوگا اور جب اِس پانی کے علاوہ ماء مطلق موجود نہ ہو تو پھر اِس کا استعمال مکروہ نہ ہوگا-

03:’’طَاہِرٌغَیْرُ مُطَہِّرٍ‘‘ یعنی خود پاک ہے لیکن پاک کرنے والا نہیں  اور یہ وہ پانی ہے جسے حدث کو دور کرنے کیلئے یا نیکی کے حصول کیلئے استعمال کیا گیا ہو جیسے وضو کی نیت سے وضو پر وضو کرنا-

حکم : یہ پانی نجاستِ حسیہ (ظاھرہ) کو زائل کرتا ہے مگر حدث کو دور نہیں کرتا -

 

 

04:’’مَاءٌ نَجَسٌ‘‘ یعنی یہ وہ پانی ہے جس میں نجاست گر جائے اور وہ ٹھہرا ہوا قلیل ہو، اگرچہ نجاست ظاہر نہ ہو، واضح رہے کہ قلیل وہ پانی ہوتا ہے جو دَہ دردہ (یعنی،سو ہاتھ/پچیس گز یا دو سو پچیس فُٹ) سے کم ہو، مثلاً پانی سے بھری ہوئی بالٹی یا لوٹے وغیرہ میں موجود پانی اور جب پانی قلیل نہ ہو بلکہ کثیر ہو، تو پھر اُس میں نجاست پڑنے کی وجہ سے وہ ناپاک نہ ہوگا- ہاں اگر اُس میں نجاست کا اثر ظاہر ہو جائے، تو وہ پانی ناپاک ہوجائے گا اور ناپاکی کا اثر رنگ یا بُو یا ذائقہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ جاری پانی بھی کثیر کے حکم میں ہوتا ہے-

حکم : یہ حدث اور نجاست دونوں کو دور نہیں کرتا-

05:’’مَاءٌ مَشْکُوْکٌ فِیْ طُھُوْرِیَّتِہٖ‘‘ یعنی وہ پانی جس کے پاک کرنے میں شک ہو، یہ وہ پانی ہے جس سے گدھے یا خچر نے پیا ہو -

حکم : اگر کوئی شخص اس پانی کے علاوہ اچھا پانی نہ پائے تو اُسی سے وضو کرے اور تیمم بھی کرے اور بہتر یہ ہے کہ پہلے اُس پانی سے وضو کرے اور اگر عکس کیا یعنی پہلے تیمم کیا پھر وضو جب بھی حرج نہیں-[1]

ماء مستعمل (استعمال شدہ پانی) کی تعریف وتوضیح :

1-پانی دوطریقوں سےمستعمل ہوتا ہے-استعمال شدہ وہ قلیل پانی ہے جس نے نجاستِ حکمیہ کے لیے کسی واجب کو ساقط کیا ہو-یعنی انسا ن کے جسم کے کسی حصے کو مَس کیا ،جس کی طہارت وضو یا غسل سے بالفعل لازم تھی -

2-ظاہری جسم پر اس پانی کا استعمال ثواب کیلئے تھا استعمال کرنے والے نے اپنے جسم پر ثواب کی نیت سے استعمال کیا تو پانی مستعمل ہوگیا-اگرچہ وہ پانی جسم پرٹھہرا رہے یارواں ہوگیا(یعنی پانی جسم سے جدا ہوتے ہی مستعمل ہوگیا)‘‘-[2]

ماءِمستعمل کی مزیدوضاحت درج ذیل ہے:

1:جس عضوکا جہاں تک پانی میں ڈالنا ضرورت کی وجہ سے ہو اتنا معاف ہے- اس عمل سے پانی استعمال شدہ نہیں ہوگا-مثلاًپانی برتن یاچھوٹے حوض میں ہے (جس کی لمبائی، چوڑائی سو(100)ہاتھ نہ ہو)،پانی نکالنے کے لیے کوئی برتن نہ ہو تو ضرورت کیلئے چلو کے ساتھ پانی لینے سے پانی مستعمل نہیں ہوگا،ضرورت سے زائد لینا پانی کو مستعمل کردے گا-[3]

2:عورت حائضہ یانفاس والی ہے اور اس حالت میں اگر اس کا ہاتھ یاجسم کاعضو پانی میں پڑجائے تو پانی مستعمل نہیں ہوگا-[4]

نوٹ: حیض یا نِفاس والی کا جب تک حیض یا نِفاس باقی ہے ٹھہرے پانی میں بے دْھلا ہاتھ یا بدن کا کوئی حصّہ ڈالے گی پانی مْستَعمَل نہیں ہوگا- ہاں اگر یہ بھی ثواب کی نیّت سے ڈالے گی تو مْستَعمَل ہو جائے گا- مَثلاً اِس کے لئے مْستَحَب ہے کہ پانچوں نَمازوں کے اوقات میں اور اگر اشراق،چاشت و تہجّْد کی عادت رکھتی ہو تو ان وقتوں میں باوْضْو کچھ دیر ذکرو دْرْود کر لیا کرے تا کہ عبادت کی عادت باقی رہے تو اب ان کیلئے بہ نیّتِ وْضوبے دْھلا ہاتھ ٹھہرے پانی میں ڈالے گی تو پانی مْستَعمَل ہو جائے گا-

3:نابالغ کا ہاتھ ڈوبنے سے پانی مستعمل نہیں ہوتا غنیہ میں ہے اگربچے نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور یہ معلوم ہے کہ بچے کے ہاتھ پر نجاست نہیں تھی تواس پانی سے وضو جائز ہے اگر اس کی طہارت میں شک ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس پانی سے وضو نہ کیاجائے اور اگر وضو کیا تو جائز ہے-[5]

4: استعمال شد ہ پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا نہیں ہے اس کا پینا یا اس سے آٹا گوندھنا مکروہِ تنزیہی ہے(البتہ مْستَعمَل پانی پاک ہوتا ہے اگر اِس سے ناپاک بدن یا کپڑے وغیرہ دھوئیں گے تو پاک ہو جائیں گے)-[6]

5:اگر جُنبی شخص کے جسم سے غسل کے وقت کچھ چھینٹے برتن میں گرئے تو پانی ناپاک نہیں ہوگا اگرباقاعدہ بہہ کر پانی برتن میں گرا تو پانی ناپاک ہو جائے گا-[7]

6:بڑے حوض(جس کی لمبائی چوڑائی سو(100) گز ہو) کا پانی جس میں بدبو آتی ہو جبکہ اس کی نجاست کی وجہ معلوم نہ ہوتو اس سے وضو جائز ہے کیونکہ پانی کے ٹھہرے رہنے سے کبھی کبھی بدبو پید اہوجاتی ہے -[8]

7 : جس پانی سے وُضو جائز ہے اس سے غُسل بھی جائز اور جس سے وُضو ناجائز غُسل بھی ناجائز-[9]

8: مینھ، ندی، نالے، چشمے، سمندر، دریا، کوئیں اور برف، اولے کے پانی سے وُضو جائز ہے-[10]

9: جس پانی میں کوئی چیز مل گئی کہ بول چال میں اسے پانی نہ کہیں بلکہ اس کا کوئی اَور نام ہو گیا جیسے شربت، یا پانی میں کوئی ایسی چیز ڈال کر پکائیں جس سے مقصود میل کا ختم کرنا نہ ہو جیسے شوربا، چائے، گلاب یااور عرق، اس سے وُضو و غُسل جائز نہیں-[11]

10: اگر ایسی چیز ملائیں یا ملا کر پکائیں جس سے مقصود میل ختم کرناہو جیسے صابون یا بیری کے پتے تو وُضو جائزہے جب تک اس کی رقت زائل نہ کر دے اور اگر ستُّو کی مثل گاڑھا ہو گیا تو وُضو جائز نہیں-[12]

11 : اگر کوئی پاک چیز ملی جس سے رنگ یا بویاذائقے میں فرق آگیا مگر اس کا پتلا پَن نہ گیا جیسے ریتا، چونا یا تھوڑی زعفران تو وُضو جائز ہے اور جو زعفران کا رنگ اتنا آجائے کہ کپڑا رنگنے کے قابل ہو جائے تو وُضو جائز نہیں- یوہیں پڑیا کا رنگ اور اگر اتنا دودھ مل گیا کہ دودھ کا رنگ غالب نہ ہوا تو وُضو جائز ہے ورنہ نہیں- غالب مغلوب کی پہچان یہ ہے کہ جب تک یہ کہیں کہ پانی ہے جس میں کچھ دودھ مل گیا تو وُضو جائز ہے اور جب اسے لسّی کہیں تو وُضو جائز نہیں اور اگر پتے گرنے یا پُرانے ہونے کے سبب بدلے تو کچھ حَرَج نہیں مگر جب کہ پتے اسے گاڑھا کر دیں-[13]

12 :بہتا پانی کہ اس میں تنکا ڈال دیں تو بہالے جائے پاک اور پاک کرنے والا ہے، نَجاست پڑنے سے ناپاک نہ ہو گا جب تک وہ نجس اس کے رنگ یا بو یا ذائقے کو نہ بدل دے، اگر نجس چیز سے رنگ یا بو یا مزہ بدل گیا تو ناپاک ہو گیا-[14]

13: اگر بَضَرورت ٹھہرے پانی میں ہاتھ ڈالا تو پانی مْستعمَل نہ ہوا مَثَلاً دیگ یا بڑے مٹکے یا بڑے ڈرم وغیرہ میں پانی ہے اِسے جْھکا کر نہیں نکال سکتے نہ ہی کوئی چھوٹا برتن ہے کہ اِس سے نکال لیں تو ایسی مجبوری کی صورت میں بقدرِ ضرورت بے دھلا ہاتھ پانی میں ڈال کر اس سے پانی نکال سکتے ہیں -

نوٹ:غسلِ میّت کاپانی مْستَعمَل ہے جبکہ اْس میں کوئی نَجاست نہ ہو-

ماء مستعمل کو قابل ِ استعمال اور قابل وضو وغسل بنانے کے طریقے :

استعمال شدہ پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے دو طریقے ہیں:ایک تو یہ کہ مقدار سے زائد پانی طاہر، مطہر(استعمال شدہ پانی )میں ملایا جائے تما م پانی قابل وضو ہو جائے گا-

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس میں پاک اورپاک کرنے والاپانی ڈالتے رہیں یہاں تک برتن بھر کراُبلے اور پانی بہنا شروع ہوجائے تو تما م پانی طاہر مطہر ہوجائے گا-[15]

٭٭٭



[1](الشرنبلالی، حسن بن عمار بن علی (المتوفى: 1069ھ) ، نور الايضاح مع مراقی الفلاح( کتبۃ المدینہ ،کراچی ،پاکستان)، 1246)،کتاب الطہارۃ،ص:13)

[2]( احمد رضا خان ، فتاویٰ رضویہ، ) لاہور، رضا فاؤنڈیشن  جامعہ نظامیہ رضویہ ،ج:02، ص:43)

[3](ایضاً،ص:117-118)

[4](ایضاً،ص:117)

[5](ایضاً،ص:71)

[6](ایضاً،ص:122)

[7](ایضاً،ص:37)

[8](ایضاً،ص:476)

[9](بہار شریعت، ج:1، ص:104، ممتاز اکیڈمی، لاہور،  پاکستان)

[10](ابن عابدين ،محمد امين بن عمر بن عبد العزيز،رد المحتار على الدر المختار،(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،پاکستان)، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، ج:1، ص:358)

[11](ایضاً،ص:361)

[12](ایضاً،ص:385)

[13](ایضاً،ص:369-370)

[14](ایضاً، ص:370)

[15](احمد رضا خان ، فتاویٰ رضویہ ( لاہور، رضا فاؤنڈیشن  جامعہ نظامیہ رضویہ )ج:02، ص:117-118)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر