حضور نبی کریم (ﷺ) سے ہمارے تعلق کی بنیادیں

حضور نبی کریم (ﷺ) سے ہمارے تعلق کی بنیادیں

حضور نبی کریم (ﷺ) سے ہمارے تعلق کی بنیادیں

مصنف: شہلانور جنوری 2023

کسی بھی درخت یا عمارت کے قائم رہنے میں سب سے اہم کردار اس کی بنیادوں کا ہوتا ہے- اگر بنیاد مضبوط نہ ہو  یا کمزور ہوجائے تو ان کا قدرتی و موسمی اثرات و آفات سے متاثر ہونے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں اور  کسی بھی لمحے تناور درخت اور شان دار  عمارت زمین بوس ہو سکتے ہیں-اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف تعلقات میں پرویا ہے- والدین و اولاد  کا تعلق،  رشتہ داروں سے تعلق، زوجین کا تعلق،  استاد و شاگرد کا تعلق وغیرہ  ، ان میں سب سے اوپر اللہ پاک اور اس کے رسول سے تعلق ہے-  اگر غور کیا جائے تو ان تمام تعلقات میں سب سے الگ تعلق  رسول اللہ (ﷺ) سے ہمارا تعلق ہے- کیونکہ یہ وہ ہستی ہے جو بیک وقت انسانوں اور رب پاک سے تعلق رکھتی ہے- دراصل یہی وہ بابرکت شخصیت ہے جو بندوں کو ان کے رب سے ملاتی ہے- اگر اس ہستی سے اپنا تعلق مضبوط کر لیا جائے تو امید واثق ہے کہ دنیا و آخرت کی عزت و سرخروئی مقدر ہو-  ایک مسلمان کے لیے اس کا ایمان کس قدر قیمتی ہے؟ اس سے کوئی لاعلم نہیں تو جانِ ایمان  یہی ذات والا ہے- چنانچہ حضور نبی کریم (ﷺ) سے تعلق اگر مضبوط نہ ہو تو انسان اسی درخت کی مانند ہے جس کی جڑ کمزور ہے جس طرح درخت کبھی بھی آندھی، طوفان سے گر سکتا ہے اسی طرح آج کے دور میں انسان لادینیت کی آندھی اور آزادئ رائے کے طوفان سے متاثر ہو کر اپنے ایمان سے ہاتھ دھوسکتاہے- نہایت ضروری ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ) سے اپنے تعلق کو مستحکم  کیا جائے کہ:

محمدٔ کی محبت خون کے رشتوں سے بالا ہے
یہ رشتہ دنیوی قانون کے رشتوں سے بالا ہے
محمد ہے متاع عالم ایجاد سے پیارا
پدر، مادر، برادر، مال، جاں اولاد سے پیارا

ہم میں سے کئی ذہنوں میں ہوگا کہ ہمارا تو حضور نبی کریم (ﷺ) سے بڑا گہرا تعلق ہے، سیرت پہ کانفرنسز کا انعقاد کرنا ہمارا وطیرہ ہے، دھڑا دھڑ اشاعتِ کتب کا اہتمام کرنا ہمارا طریقہ ہے ، وال چاکنگ، احتجاجی جلوس، جوشیلی تقریروں کے ذریعے اپنے ملک میں بیٹھ کر عالمِ کفر کو للکاریں گے، دعوے کریں گے کہ جناب رسول اللہ (ﷺ)کے بارے میں کوئی ہلکی بات ہم برداشت نہیں کر سکتے، ہم تو بہت بڑے عاشق رسول (ﷺ) ہیں- لیکن جب ہم سے سیرت رسول (ﷺ)  پر عمل کے حوالے سے سوال یا بات ہوگی تو جواب نہیں بن پائے گا، تو ان سب چیزوں  کو ہم آپ (ﷺ)سے محبت کا اظہار کہہ سکتے ہیں لیکن تعلق کی بنیاد نہیں کہہ سکتے- اچھا! تو پھر تعلق کی بنیادیں کیا ہیں جنہیں ہم مضبوط کرسکیں - آیئے دیکھتے ہیں:

حضور نبی کریم () پر ایمان: 

حضور نبی کریم (ﷺ) سے تعلق کی سب سے پہلی بنیاد آپ (ﷺ) پر ایمان لانا ہے-

اللہ رب العزت کا فرمان ہے :

’’وَمَآ  اَرْسَلْنٰکَ  اِلَّا کَآفَّۃً  لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ‘‘[1]

’’اور اے محبوب(ﷺ) ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا  لیکن بہت لوگ نہیں جانتے ‘‘-

آپ (ﷺ) کو آخری نبی ماننا  بھی  ایمان کا حصہ ہے- لہٰذا ایسے تمام عناصر جو اس حصہ ایمان میں رنگ برنگی تاویلیں کریں ان سے اپنے ایمان کو محفوظ رکھنا اور  ان کو بے نقاب کرنا  ضروری ہے- دامے درمے سخنے قلمے اس میں اپنا حصہ ملائیں-  حضور نبی کریم (ﷺ) کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی معنیٰ میں نبی ہونے کا دعویٰ کرے اس کے دعوے کو رد کیا جائے، قادیانی احمدی، لاہوری گروپ وغیرہ جو مسلمانوں کا ایمان چھین لینے کے درپے ہیں ان کا سدباب انتہائی ضروری ہے- آئین پاکستان کی رو سے بھی الحمدللہ یہ  غیر مسلم قرار دئیے جاچکے ہیں، لیکن پس پردہ اب بھی یہ اسلام کا نام لے کر مصروف عمل ہیں ، ان سے ہوشیار رہنا از حد ضروری ہے- اللہ رب العزت کا ہم پر یہ احسان عظیم ہے کہ ہمیں مسلمان پیدا کیا اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی امت میں سے بنایاہے- لہٰذا اس احسان عظیم کی محافظت انتہائی ضروری ہے - کیونکہ:

اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ

حضور نبی کریم () کی تعظیم و توقیر:

آپ (ﷺ) کی تعظیم و توقیر کرنا آپ (ﷺ)  سے تعلق کی اہم بنیاد ہے-  آپ (ﷺ) کی عزت  کو اپنی عزت پر مقدم جاننا ضروری ہے، آپ (ﷺ)کی تعظیم و ادب کا قرآن مجید میں بارہا حکم ہواہے - ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ  وَ تُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ ط وَ تُسَبِّحُوْہُ  بُکْرَۃً  وَّ اَصِیْلًا [2]

’’تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ‘‘-

آپ (ﷺ)کے ادب و تعظیم کے اَحکام پر مشتمل قرآنِ مجید کی چند آیات ملاحظہ ہوں  جن میں  اللہ تعالیٰ نے متعدد اَحکام دئیے ہیں :

(1)حضور نبی کریم (ﷺ)جب بھی بلائیں  فورا ً ان کی بارگاہ میں  حاضر ہو جاؤ-چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلہِ وَ لِلرَّسُوْلِ  اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ‘‘[3]

’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں  حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں  اس چیز کے لئے بلائیں  جو تمہیں  زندگی دیتی ہے‘‘-

(2)بارگاہِ رسالت میں  کوئی بات عرض کرنے سے پہلے صدقہ دے لو-چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰٓاَیُّہَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  اِذَا  نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ  فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىکُمْ صَدَقَۃً ط ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ اَطْہَرُ ط فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللہَ  غَفُوْرٌ  رَّحِیْمٌ ‘‘[4]

’’اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لئے  بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘-

  بعد میں  وجوب کا حکم منسوخ ہوگیا تھا-

(3)ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح حضور نبی کریم (ﷺ)کو نہ پکارو-چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا‘‘[5]

’’رسول(ﷺ) کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ‘‘-

(4)حضورنبی کریم (ﷺ) سے بات کرتے وقت ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کی بارگاہ میں  زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کرو- چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’ یٰٓاَیُّہَا  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ  فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا  لَہٗ  بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘ [6]

’’اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبیؐ) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ‘‘-

(5)جس کلمہ میں ادب ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے ،جیسا کہ لفظِ ’’ رَاعِنَا ‘‘ کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے ،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ط وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘ [7]

’’اے ایمان والو ’’رَاعِنَا‘‘ نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ‘‘-

(6)کسی قول اور فعل میں  ان سے آگے نہ بڑھو-چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا  تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ  اللہِ  وَ رَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ ط اِنَّ اللہَ  سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ‘‘[8]

’’اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھواور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سنتا جانتا ہے‘‘-

(7)رسولِ اکرم (ﷺ)کے گھر میں  اجازت کے بغیر نہ جاؤ اور وہاں  زیادہ دیر نہ بیٹھو،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ  اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ  اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ  اِنٰہُ لا وَلٰکِنْ  اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍط اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ ز وَاللہُ  لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ‘‘ [9]

’’اے ایمان والو نبی کے گھروں میں  نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لئے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ  بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا‘‘-

ان آیات میں  دئیے گئے اَحکام سے صاف واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  اس کے حبیب (ﷺ) کا ادب و تعظیم انتہائی مطلوب ہے اور ان کا ادب و تعظیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی سخت ناپسندیدہ ہے حتّٰی کہ اس پر سخت وعیدیں  بھی ارشاد فرمائی ہیں- اسی سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین (ﷺ)   کا ادب وتعظیم کرنا شرک ہر گز نہیں  ہے جو لوگ ایمان لانے کے بعدآپ  (ﷺ)  کی تعظیم کرتے ہیں  ان کے کامیاب اور بامُراد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ  وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘[10]

’’تو وہ جو اس پر  ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے‘‘-

صحابہ کرام (رض) کے ادب و تعظیم کا یہ حال تھا کہ حضرت اُسامہ (رض)فرماتے ہیں  کہ :

’’میں  بارگاہِ رسالت (ﷺ) میں  حاضر ہو ا تو دیکھا کہ صحابہ ٔکرام (رض)آپ (ﷺ)کے گرد اس طرح (ساکِن)بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں  پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں -[11]

امام احمد رضا خان حنفی قادری   علیہ الرحمہ فرماتے ہیں  :

’’معلوم ہوا کہ دین و ایمان،  محمد رسول اللہ (ﷺ) کی تعظیم کا نام ہے،جو ان کی تعظیم میں  کلام کرے اصلِ رسالت کو باطل و بیکار کیا چاہتا ہے‘‘-[12]

نیز سرکارِدو عالم (ﷺ) کی ہروہ تعظیم جوخلاف ِشرع نہ ہو،کی جائے گی کیونکہ یہاں  تعظیم و توقیر کے لئے کسی قسم کی کوئی قید بیان نہیں  کی گئی، اب وہ چاہے کھڑے ہوکرصلوٰۃ و سلام پڑھناہویاکوئی دوسرا طریقہ-

حضور نبی کریم () سے محبت:

ایمان و تعظیم کے ساتھ آپ (ﷺ) سے  محبت  نبی کریم (ﷺ) سے تعلق کی مضبوطی کے لیے انتہائی ضروری ہے بلکہ یہی ایمان کی تکمیل کے لیے شرط ہے  اور یہی منشائے خداوند ی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے  رسول (ﷺ)سے محبت ہر چیز سے بڑھ کر ہو -ارشاد خداوندی ہے :

’’قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُۨ  اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ  اَحَبَّ  اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ  وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللہُ  لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ ‘‘

’’تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے  اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا‘‘-

بلاشبہ آپ (ﷺ) ان تمام اوصاف کے جامع ہیں جو محبت کی وجوہات بنتے ہیں، حسن و جمال کی بات کی جائے تو حسان بن ثابت (رض) یوں محبوب(ﷺ) کے حسین ہونے کی گواہی دیتے ہیں :

وَ أَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِيْ
وَ أَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءٗ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ كُلِّ عَيْبٍ
كَاَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءٗ

’’آپ (ﷺ) سے زیادہ حسین میری آنکھ نے ہرگز نہیں دیکھااور آپ (ﷺ) سے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں-آپ (ﷺ) ہر عیب سے پاک و صاف پیدا کئے گئے-گویا کہ آپ (ﷺ) اس طرح پیدا کئے گئے جیسا کہ آپ (ﷺ) نے چاہا-

آپ (ﷺ) کے اخلاق کی بات کی جائے توقرآن مجید  ’’آپ اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں‘‘[13]کے پھول  نچھاور کرتا نظر آتا ہے - آپ (ﷺ) کے جود و سخا  کا تذکرہ ہو تو تیز  ہوا  سے تشبیہ دی جاتی ہے - غرض کوئی بھی وصف ہو آپ (ﷺ) اس میں اتم نظر آتے ہیں- آپ (ﷺ)پر ایمان لانے میں  یہ بھی  شامل ہے کہ آپ (ﷺ) کو ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھا جائے- کیونکہ  تکمیل ایمان ہی اس سے ہے- آپ (ﷺ) نے فرمایا:

’’لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين ‘‘

’’تم میں  سے کوئی اس وقت تک ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نا ہو جاؤں‘‘-(بخاری)

امام نووی علیہ الرحمہ ابن بطال علیہ الرحمہ کا قول نقل فرماتے ہیں:

’’و معنى الحديث أن من استكمل الايمان علم ان حق النبى (ﷺ) آكد عليه من حق أبيه وابنه والناس أجمعين لان به (ﷺ) استنقذنا من النار وهدينا من الضلال‘‘

’’حدیث کامفہوم یہ ہے کہ جس کا ایمان کامل ہو گا اس پر یہ واضح ہو گا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا حق مجھ پر حق اب، حق ابن اور تمام لوگوں کے حق سے زیادہ ہے کیونکہ آپ کی وجہ سے ہم نے دوزخ سے نجات اور گمراہی سے ہدایت پائی‘‘-

اسی طرح نقل فرماتے ہیں :

’’قال بن بطال والقاضى عياض وغيرهما رحمة الله عليهم المحبة ثلاثة أقسام محبة اجلال و اعظام كمحبة الوالد ومحبة شفقة و رحمة كمحبة الولد ومحبة مشاكلة و استحسان كمحبة سائر الناس فجمع  (ﷺ) أصناف المحبة في محبته ‘‘

’’امام ابن بطال اور قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ محبت کی تین اقسام ہیں ،محبت اجلال و اعظام جیسے والد کی محبت، محبت شفقت و رحمت جیسے ولد کی محبت، محبت مشاكلہ جیسے بقیہ لوگوں کی محبت، حضور اکرم (ﷺ) نے اپنی محبت میں ان تمام کو جمع فرمایا‘‘-[14]

محمد (ﷺ) کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
محمد (ﷺ) کی محبت آن ملت، شان ملت ہے
محمد (ﷺ) کی محبت روح ملت، جان ملت ہے

حضور نبی کریم () کی اطاعت و اتباع:

حضور نبی کریم(ﷺ) پر ایمان، تعظیم و محبت کے بعد آپ (ﷺ) کی اتباع اور اطاعت دنیا و آخرت کی کامیابی اور رضائے خداوندی کے حصول کے لیے لازمی ہے- ہم جب بھی کوئی بات سنتے ہیں اگر وہ اچھی لگے تو اسے مان لیتے ہیں اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں، پس بات ماننا اطاعت ہے اور اس پر عمل کرنا اتباع ہے یعنی پہلے اطاعت کی جاتی ہے پھر اتباع کی جاتی ہے کیونکہ جب تک آپ کہنے والے کی بات سے متفق نہیں ہوتے اس کی بات پر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- آپ (ﷺ) کی اطاعت کا حکم بھی واضح الفاظ میں دیا گیا ہے - ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’قُلْ اَطِیْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ  لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ‘‘ [15]

’’تم فرمادو کہ حکم مانو اللہ اور رسول کا پھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو خوش نہیں آتے کافر ‘‘-

آیت کریمہ  میں رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ رسول(ﷺ) کی اطاعت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے-

حضرت ابو ہریرہ (رض)  سے روایت ہے، حضور پر نور (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ تعالیٰ کی  نافرمانی کی‘‘-[16]

اسی طرح اتباع رسول لازم ہے کہ اللہ رب العزت نے تو اپنی محبت  کے  دعویٰ داروں سے ان کے دعویٰ کے تصدیق  اور اپنی محبت کے لیے اتباع رسول کو طلب کیا ہے- ارشاد فرمایا:

’’قُلْ  اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘[17]

’’اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘-

آیت  کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ جب ہی سچا ہوسکتا ہے جب آدمی سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی اتباع کرنے والا ہو اور حضور نبی کریم (ﷺ)کی اطاعت و تعظیم اختیار کرے- حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے  مروی ہے کہ قبیلہ قریش سے کچھ لوگ سرکارِ مدینہ (ﷺ) کے پاس تشریف لائے جنہوں نے خانہ کعبہ میں بت نصب کئے تھے اور انہیں سجا سجا کر ان کو سجدہ کررہے تھے- تاجدارِ رسالت (ﷺ  )نے فرمایا:

’’ اے گروہِ قریش !خدا عزوجل کی قسم ،تم اپنے آباء و اجداد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل کے دین سے ہٹ گئے ہو- قریش نے کہا: ہم ان بتوں کو اللہ تعالیٰ  کی محبت میں پوجتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے قریب کریں-اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی‘‘- [18]

محبت ِالٰہی کا دعویٰ حضورسید ِکائنات (ﷺ) کی اتباع اور فرماں برداری کے بغیر قابلِ قبول نہیں- جو اس دعوے کا ثبوت دینا چاہتا ہے وہ حضور پرنور(ﷺ)کی غلامی اختیار کرے اور چونکہ  حضور نبی کریم (ﷺ) نے بت پرستی سے منع فرمایا ہے تو بت پرستی کرنے والا سرکارِ رسالت (ﷺ) کا نافرمان اور محبتِ الٰہی کے دعوے میں جھوٹا ہے-

دوسرا قول یہ ہے کہ مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم کو حضور (ﷺ)کی اتبا ع کرنے کی ضرورت نہیں- ہم تواللہ تعالیٰ کے  بیٹے اور اس کے پیارے ہیں- تب یہ آیت اتری-[19]

صحابہ کرام (رض) اطاعت و اتباعِ رسول پر نہایت حریص تھے اور اپنے بعد والوں کے لیے راہِ ہدایت کو واضح کرنے والے- چنانچہ حضرت عمر فاروق (رض) حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا:

’’خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان- اگر میں نے حضور نبی  کریم (ﷺ) کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا‘‘-[20]

خلاصہ کلا م یہ کہ ایک شخص  جب کلمہ  طیبہ پڑھتا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ لاالہ الا اللہ اسی صورت میں تسلیم ہے جب محمد رسول اللہ (ﷺ) پر ایمان ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) پر ایمان لانے کا لازمی مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ پاک کے وحدہ لاشریک ہونے پر ایمان لایا ہے-  بہت سے مذاہب  اللہ پاک کو خدا جانتے ہیں لیکن وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے رسول اللہ ہونے کاایمان نہیں رکھتے-  چنانچہ آپ (ﷺ) سے تعلق قائم کرنے کی سب سے پہلی بنیاد آپ (ﷺ) پر ایمان لانا ہے آپ (ﷺ) کے خاتم النبیین ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے ، ایمان لانے کے بعد پہلا تقاضا ہے کہ آپ (ﷺ) کی تعظیم و توقیر کی جائے  کیونکہ:

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

آپ (ﷺ) کی بے ادبی کسی صورت شریعت کو گوارا نہیں بلکہ آپ (ﷺ) کی بارگاہ کی بھی عزت اور ادب کا خیال نا رکھنے والوں کو اعمال اکارت ہوجانے کا عندیہ دیا گیا ہے- اللہ پاک نے قرآن مجید میں بذات خود حضور نبی کریم (ﷺ)کی  ذات گرامی اور بارگاہ ِ نبوی (ﷺ) کے آداب سکھائے ہیں- چنانچہ ہر مسلمان کو آپ (ﷺ) کی تعظیم و توقیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب لازمی ہے جن میں بےادبی و گستاخی کا اندیشہ بھی ہو-  آپ (ﷺ) پر ایمان لانے کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ آپ (ﷺ) سے ہر چیز، ہر رشتے، ہر تعلق سے بڑھ کر محبت کی جائے - بلکہ آپ (ﷺ) سے تعلق رکھنے والی ہر چیز سے محبت و تعظیم کی جائے  کیونکہ آپ (ﷺ) سے نسبت رکھنے والی ہر چیز  بھی اس بات پر نازاں ہوتی ہے کہ اس کا آپ (ﷺ) سےتعلق ہے -بزبانِ محمد قمر شہزاد آسی:

بالیقیں مائی ناز کرتی ہے، آپ  کی دائی ناز کرتی ہے
دیکھ آیا ہے جو مدینے کو، اس کی بینائی ناز کرتی ہے
آپ کے قدموں کے تلے آقا، جو جگہ آئی ناز کرتی ہے
ان کو یکتا کیا ہے خالق نے، ان پہ یکتائی ناز کرتی ہے
جس میں ہوتا ہے ذکر صلی علیٰ، ایسی تنہائی ناز کرتی ہے
نعت ہوتی ہے جب عطا آسیؔ، سخن آرائی ناز کرتی ہے

٭٭٭



[1](سبا:27)

[2](الفتح:9)

[3](الانفال:24)

[4](المجادلہ:12)

[5](النور:63)

[6](الحجرات:2)

[7](البقرۃ:104)

[8](الحجرات:1)

[9](الاحزاب:53)

[10](الاعراف:157)

[11](شفاء، القسم الثانی، الباب الثالث، فصل فی عادۃ الصحابۃ فی تعظیمہ... الخ، ص:38، الجزء الثانی)

[12](فتاوی رضویہ،ج:15، ص:168)

[13](القلم:4)

[14](المنہاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج:2، ص:15)

[15](آلِ عمران:32)

[16](بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی بہ،ج:2، ص:297، رقم الحدیث:2957)

[17](آلِ عمران:31)

[18](تفسیر خازن، زیر آیت اٰل عمران:31)

[19](ایضاً)

[20](مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف،رقم الحدیث:251)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر