وُضُو وَضَاءَۃ سے مشتق ہے جس کا مطلب لغت میں پاکیزہ ہونااور خوبصورت ہونا ہے- اصطلاح میں نماز کے لیے شریعت مطہرہ کے مطابق ہاتھ،منہ، پاؤں وغیرہ دھونے کا نام ہے -لفظ وُضو واؤ مضموم کے ساتھ مصدر ہے یعنی طہارت حاصل کرنا -واؤ مفتوح کے ساتھ وَضُو اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ طہارت حاصل کی جائے مثلاً پانی اور وِضُو واو کے کسرہ کے ساتھ آلہ طہارت یعنی لوٹاوغیرہ -
وضاحت: سیّدی رسول اللہ ( ﷺ)نے ارشاد فرمایا ہے کہ جنت کی کنجی نماز ہے اور نماز کی کنجی طہارت ہے- نماز کے لئے وضو ایسی ضروری چیز ہے کہ اس کے بنا نماز ہوتی ہی نہیں بلکہ جان بوجھ کر بغیر وضو نماز ادا کرنے کو علماء کفر لکھتے ہیں:یہ اس لئے کہ اس بےوضو یا بےغسل نماز پڑھنے والے نے عبادت کی بےادبی اور توہین کی-
اب ہم ذیل میں وضو کے فرائض، سنن، مستحبات، مکروہات،اعضاء کو دھوتے وقت مسنون دعائیں اور اہمیت و فضیلت کے بارے میں بعون اللہ تعالیٰ معروضات لکھنے کی سعی سعید کرتے ہیں:
’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوا بِرُءُ وْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ‘‘[1]
’’اے ایمان والو جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اپنے منہ اور کُہنیوں تک ہاتھوں کو دھوؤ اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھوؤ‘‘-
اس آیت مبارک میں وضو کے چارفرائض کا ذکر کیا گیا ہے :
- مکمل چہرہ دھونا (کانوں کی دونوں لوؤں اورپیشانی کی ابتدائی سطح سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک، اور اگر گھنی داڑھی ہوتو خلال کرنا )[2]
- کہنیوں سمیت ہاتھ دھونا
- سر کا مسح کرنا (’’وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِکُمْ‘‘ پہ جو ’’ب‘‘داخل ہے یہ بعضیت کے لیے ہے اس لیے احناف کے نزدیک چوتھائی سر کا مسح فرض ہے )
- ٹخنوں سمیت پاؤں دھونا-
نوٹ: واضح رہے کہ فقہاءِ کرام نے وضو کےاحکام میں واجب کی تفصیل ذكر نہیں کی ہے- بلکہ ’’واجبات‘‘کو ”فرض‘‘کےعنوان سےبیان کیا ہے اور یہ کہا کہ وضو میں کوئی واجب ہی نہیں ہے؛اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وضو میں واجب اور فرض دونوں عمل میں برابر ہیں، جیسے فرض چھوٹنے سے وضو نہیں ہوتا ویسے ہی واجب چھوٹنے سے بھی وضو نہیں-
وضو کی سنتیں :
علامہ حسن بن عمار شرنبلالی (رح)نے وضو کی 18 سنتیں تحریر فرمائی ہیں :
- وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا
- دونوں ہاتھوں کو کلائیوں سمیت دھونا-
- شروع میں مسواک کرنااگرچہ انگلی کے ساتھ ہو جب مسواک نہ ہو-
- تین بار کلی کرنااگرچہ ایک چلو (پانی) کے ساتھ ہو-
- تین چلوؤں کے ساتھ ناک میں پانی چڑھانا-
- غیر روزے دار کا اچھی طرح کلی کرنااورناک میں پانی چڑھانا-
- ایک چلو کے ساتھ گھنی داڑھی کے نیچے کی طرف خلال کرنا-
- انگلیوں کا خلال کرنا-
- (ہرعضو کو) تین بار دھونا-
10. ایک بار سارے سر کا مسح کرنا
11. کانوں کا مسح کرنا اگرچہ سر(والے مسح)کے پانی کے ساتھ ہو-
12. (اعضاء کو) مَلنا (یعنی اچھی طرح دھونا)[3]
13. پے در پے (یعنی لگاتار) دھونا
14. نیت کرنا
15. قرآن پاک کی نص کے مطابق ترتیب کے مطابق وضو کرنا -[4]
16. دائیں طرف سے اور انگلیوں کے سروں سے شروع کرنا-
17. سر کے اگلے حصے سے شروع کرنا-
18. گردن کا مسح کرنا نہ کہ گلے کا-[5]
وضوکے مستحبات:
بعض علماء کرام نے اس کی تعداد 50سے زائد تک لکھی ہے جن کا فقہ کی کتب میں مطالعہ کیا جاسکتا ہے-اختصار کی خاطر یہاں مراقی الفلاح کی روشنی میں اس کو لکھنے کی سعادت کرتے ہیں جوکہ 14 ہیں:
- اونچی جگہ بیٹھنا-
- قبلہ کی طرف منہ کر کے وضوکرنا-
- دوسرے آدمی سے مدد نہ لینا
- دنیوی گفتگو نہ کرنا-
- دل کی نیت اورزبان کے فعل کو جمع کرنا -[6]
- سُنت سے ثابت شدہ دعا مانگنا(اس کی تفصیل ان شاء اللہ عزوجل آگے مذکو ر ہے )
- ہر عضوکو دھوتے وقت بسم اللہ پڑھنا-
- اپنے دونوں کانوں کے سوراخ میں چھوٹی انگلی داخل کرنا-
- کشادہ انگوٹھی کو حرکت دینا-[7]
10. دائیں ہاتھ سے کلی کرنااور ناک میں پانی ڈالنا-
11. بائیں ہاتھ سے ناک جھاڑنا-
12. معذور [8]نہ ہو تو وقت کے داخل ہونے سے پہلے وُضوکرنا-
13. وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا
14. وُضوکا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کرپینااور یہ دعا مانگنا:
اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ المُتَطَهِّرِينَ ‘‘
’’یا اللہ عزوجل!تو مجھے توبہ کرنے والوں اورپاک لوگوں میں کردے‘‘-
مسواک کی فضیلت واہمیت:
حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ:
|
’’اگر مجھے اپنی امت پہ مشقت(تکلیف ) کا خوف نہ ہوتا تو میں انہیں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم ارشاد فرماتا‘‘-[9]
اُم المؤمینن حضرت عائشہ صدیقہ(رض) سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نماز سے پہلے مسواک کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’جس نماز کے وضو میں مسواک کی گئی ہو سیّدی رسول اللہ( ﷺ)اُسے اُس نماز پر ستر درجہ زیادہ فضیلت دیتے، جس کے وضو میں مسواک نہیں کی گئی-‘‘ [10](یعنی مسواک والی نماز کی،بغیر مسواک والی نماز پر ستر درجہ زیادہ فضیلت ہے )
اسی حدیث مبارک کے آگے امام ابو یعلیٰ موصلی (رح) ایک ایمان افروز حدیث مبارک لکھتے ہیں کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) روایت بیان فرماتی ہیں کہ:
’’سیّد ی رسول اللہ (ﷺ) ذکر خفی، جس کو کراماً کاتبین بھی نہیں سُنتے (ذکر جہر پر) ستر گنا زیادہ ترجیح و فضیلت دیتے اور آپ (ﷺ) ارشاد فرماتے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ عزوجل تمام مخلوق کو حساب کے لیے جمع فرمائے گا اور کراماً کاتبین تمام محفوظ کیا ہوا اور لکھا ہوا (اللہ ربّ العزت کی بارگاہ مبارک میں ) لے کر آئیں گے تو اللہ عزوجل انہیں ارشادفرمائے گا :غورکرو کیاکوئی چیز باقی تو نہیں رہ گئی تو وہ عرض کریں گے :اے ہمارے رب!جوکچھ ہمارے علم میں تھا اور جوکچھ ہمیں یاد تھا،تما م کو ہم نے جمع کرلیا ہے اور اس کو لکھ لیا ہے اس میں سے ہم نے کوئی چیز نہیں چھوڑی، تو اللہ رب العزت ارشاد فرمائیں گے: (اےبندے)بے شک میرے پاس تیرے لیے ایک پوشید ہ چیز ہے اور میں تم کو اس کی جز ادوں گا اور ذکر خفی ہے ‘‘-[11]
وُضو میں مکروہات:
مکروہ چیزیں وہ ہوتی ہیں جو شریعت میں ناپسند ہیں جن سے ثواب میں کمی آ جاتی ہے اور کچھ جگہوں پر تو عبادت اس کی وجہ سے ناقص یا ادھوری رہ جاتی ہے اور ان کا کرنے والا گناہگار ہو جاتا ہے ان کا بہت دھیان رکھنا چاہیے- ہر سنت کا چھوڑنا مکروہ ہے ایسے ہی ہر مکروہ کا چھوڑنا سنت ہے- وضو کے مکروہات کے بارے میں علامہ ابن عابدین شامی (رح)لکھتے ہیں :
- عورت کے غسل یا وُضو کے بچے ہوئے پانی سے وُضو کرنا-
- وُضو کے لیے نجس جگہ بیٹھنا-
- نجس جگہ وُضو کا پانی گرانا-
- مسجد کے اندر وُضو کرنا-
- اعضائے وُضو سے لوٹے وغیرہ میں قطرہ ٹپکانا-
- پانی میں رینٹھ یا کھنکار ڈالنا-
- قبلہ کی طرف تھوک یا کھنکار ڈالنا یا کُلّی کرنا-
- بے ضرورت دنیا کی بات کرنا-
- زیادہ پانی خرچ کرنا-
10. اتنا کم خرچ کرنا کہ سنت ادا نہ ہو-
11. منہ پر پانی مارنا -
12. منہ پر پانی ڈالتے وقت پھونکنا-
13. ایک ہاتھ سے منہ دھونا کہ رِفاض و ہنود کا شعار ہے-
14. گلے کا مسح کرنا-
15. بائیں ہاتھ سے کُلّی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا-
16. داہنے ہاتھ سے ناک صاف کرنا-
17. اپنے لیے کوئی لوٹا وغیرہ خاص کر لینا-
18. تین جدید پانیوں سے تین بار سر کا مسح کرنا-
19. جس کپڑے سے استنجے کا پانی خشک کیا ہو اس سے اعضائے وُضو پونچھنا-
- دھوپ کے گرم پانی سے وُضو کرنا- [12]
21. ہونٹ یا آنکھیں زور سے بند کرنا اور اگر کچھ سوکھا رہ جائے تو وُضو ہی نہ ہو گا- [13]
وضو کے اعضاء کو دھوتے وقت کی مسنون دعائیں:
یہ دعائیں جامع الاحادیث، کنزالعمال، روح البیان اور اس کے علاوہ کئی محدثین (رح) نے نقل فرمائی ہیں-اختصار کے خاطر ان کا خلاصہ عرض کردیتے ہیں :
کلی کرتے وقت کی دعا
’’اَللّٰهُمَّ اَعِنِّيْ عَلٰی تِلَاوَةِ الْقُرْاٰنِ وَ ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘
’’یا اﷲ پاک! تلاوتِ قرآن، اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت پر میری مدد فرما‘‘-
ناک میں پانی ڈالتے وقت کی دعا:
’’اَللّٰهُمَّ اَرِحْنِيْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَلَا تُرِحْنِيْ رَائِحَةَ النَّار‘‘
’’یا اﷲ! مجھے جنت کی خوشبو عطا کر اور جہنم کی بدبو سے محفوظ کر‘‘-
چہرہ دھوتے وقت کی دعا
’’اَللّٰهُمَّ بَيِّضْ وَجْهِيْ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ‘‘
’’یا اﷲ! اس دن میرا چہرہ سفید رکھنا جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اوربعض چہرے سیاہ ہوں گے‘‘-
دایاں بازو دھوتے وقت کی دعا:
’’اَللّٰهُمَّ اَعْطِنِيْ کِتَابِيْ بِيَمِيْنِيْ وَ حَاسِبْنِيْ حِسَابًا يَسِيْرًا‘‘
’’ یا اﷲ! میرا نامۂ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دینا اور میرا حساب آسان کرنا‘‘-
بایاں بازو دھوتے وقت کی دعا:
’’اَللّٰهُمَّ لَا تُعْطِنِيْ کِتَابِيْ بِشِمَالِيْ وَلَا مِنْ وَّرَآءِ ظَهْرِيْ‘‘
’’ یا اﷲ پاک ! میرا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں نہ دینا اور نہ ہی پسِ پشت سے‘‘-
سر کا مسح کرتے وقت کی دعا:
’’اَللّٰهُمَّ اَظِلَّنِيْ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِکَ يَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّ عَرْشِکَ‘‘
’’یا اﷲ پاک !اس دن مجھے اپنے عرش کے سائے میں رکھنا جس دن تیرے عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا‘‘-
کانوں کا مسح کرتے وقت کی دعا:
’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنَ الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهُ‘‘
’’ یا اﷲ پاک ! مجھے ان لوگوں میں سے کر دے جو تیری بات غور سے سنتے ہیں اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں‘‘-
گردن کا مسح کرتے وقت کی دعا:
’’اَللّٰهُمَّ اَعْتِقْ رَقَبَتِيْ مِنَ النَّار‘‘
’’ یا اﷲ! میری گردن کو جہنم کی آگ سے آزاد رکھنا‘‘-
دایاں پاؤں دھوتے وقت کی دعا:
’’اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْ قَدَمِيْ عَلَی الصِّرَاطِ يَوْمَ تَزِلُّ الْاَقْدَامُ‘‘
’’ یا اﷲ پاک ! اس دن پل صراط پر مجھے ثابت قدم رکھنا جب (کچھ لوگوں کے) قدم پھسلیں گے‘‘-
بایاں پاؤں دھوتے وقت کی دعا:
|
’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ ذَنْبِيْ مَغْفُوْرًا وَّ سَعْيِيْ مَشْکُوْرًا وَّتِجَارَتِيْ لَنْ تَبُوْر‘‘
’’یا اﷲ پاک! میرے گناہ بخش دے، میری کوشش قبول فرما اور میری تجارت میں نقصان نہ ہو‘‘-
وضو کی اہمیت و فضائل کے بارے میں تقریباً تمام محدثین اور مفسرین نے اپنی اپنی کتب میں روایات رقم فرمائی ہیں-ان میں سےصرف چند روایات لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :
پانی کے ہر قطرے کے بدلے فرشتے کی پیدائش:
سُلطان العارفین، حضرت سخی سُلطان باھو (رح) ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ :
’’حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے: ’’جو آدمی وضو کرتے وقت’’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘پڑھتا رہے گا تو وضو سے گرنے والے پانی کے ہر قطرے سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرے گا جو قیامت تک اِس کلمہ کو پڑھتا رہے گااور اُس کا ثواب کلمہ پڑھنے والے کو ملتا رہے گا‘‘-[14]
وضو کے بعد کلمہ شہادت:
حضرت عمر بن خطاب (رض)سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’جو شخص اچھی طرح وضو کرنے کے بعد کہے:
أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد(ﷺ)اللہ کے (خاص مقرب) بندے اور اس کے رسول ہیں ‘‘-
اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جس دروازے سے چاہے، جنت میں داخل ہو جائے‘‘-[15]
وضوکرنے کے بعد دورکعت نمازپڑھنا یعنی تحیۃ الوضو ء ادا کرنا:
سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نےارشاد فرمایا:
’’جس نے میرےاس وضو کے مطابق وضو کیا پھر دو رکعت نماز (دل کی پوری توجہ کے ساتھ ) ایسی پڑھی جو حدیث نفس سے خالی رہی (یعنی دل میں ادھر ادھر کی باتیں نہیں سوچیں) تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘-[16]
ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ(رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت بلال (رض) سے نمازِفجر کے وقت ارشاد فرمایا کہ:
’’اے بلال! تم مجھے امید کا کام بتاؤ جو تم نے حالت اسلام میں کیا ہوکیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی ہے حضرت بلال (رض)نے عرض کی: اسلام میں جو عمل بھی میں نے کئے ہیں اُن میں سب سے زیادہ جس عمل سے مجھے نفع کی توقع ہے وہ یہ کہ جب بھی میں نے دن یا رات میں پوری پاکی حاصل کی تواس طہارت کے ساتھ جتنے نوافل میرے لئے مقدر تھے وہ میں نے ادا کیے (یعنی وضو کر کے نوافل و نماز (تحیۃالوضوء)اداکی‘‘-[17]
مسلم کی روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :
’’جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے اور ظاہر و باطن کے ساتھ متوجہ ہوکر (دل لگا کر) دو رکعت پڑھے اس کےلیے جنت واجب ہوجاتی ہے‘‘-[18]
نوٹ:ان احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ نماز مردوعورت دونوں کے لئے یکساں ہے- تحیۃ المسجد پڑھ لینے سے یہ نماز بھی ادا ہوجائے گی- فجر کی نماز کے علاوہ دیگر اوقات میں یہ نفل ادا کرسکتے ہیں- تاہم جب مسجد پہنچے اور اذان ہوگئی ہو توسنت مؤکدہ کی ادائیگی کے ساتھ تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضوء کی نیت کرلینے سے تینوں کے لئے کفایت کرجائے گی- یہ نماز وضو کے فورًا بعد پڑھی جائے جیسا کہ حدیث سے ظاہرہوتا ہے، تاخیر کی صورت میں نمازسنت الوضوء کا وقت فوت ہوجائے گا-
وضو کے وقت انگلیوں مبارکہ سے پانی کے چشمے جاری ہونا:
حضرت انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے کچھ صحابہ کرام(رض) سے پانی طلب فرمایا -سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:
’’کیاتم میں سے کسی کے پاس پانی ہے؟ (کچھ پانی پیش کیا گیا تو) سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے اپنا دست اقدس پانی میں رکھا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل کا نام لے کر وضو کرو ،پس میں نے دیکھا کہ پانی آپ (ﷺ) کی انگلیوں مبارکہ سے نکل رہاتھا-حتیٰ کہ آخری صحابیٔ رسول (ﷺ) نے وضو کر لیا-حضرت ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ تمہاری تعداد کتنی تھی؟ تو آپ (رض) نے فرمایا کہ تقریباً 70 تھی‘‘-[19]
روزِ محشر اعضاء کا چمکنا:
’’حضرت ابو ہریرہ(رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کو ارشادفرماتے ہوئے سُنا:
’’قیامت کے روز میرے اُمتی اعضائے وضو کی چمک کے باعث سفید چہرے اور سفید ٹانگوں والے (پنج کلیان) کہہ کر بلائے جائیں گے- جو تم میں سے اپنی چمک کو بڑھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے بڑھانی چاہیے ‘‘-[20]
رزق میں وسعت وکشادگی:
حضرت خالد بن ولید (رض) سے مروی ہے کہ:
|
’’ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) میں عرض کی (یارسول اللہ( ﷺ)!میں چاہتا ہوں کہ مجھ پر رزق وسیع ہو جائے تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: طہارت پہ ہمیشگی اختیار کر (یعنی ہمیشہ باوضو رہے) تجھ پر رزق وسیع کردیاجائے گا‘‘-[21]
گنا ہوں کی معافی :
’’حضرت عمرو بن عبسہ سلمی (رض) (ایک طویل روایت میں) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا نبی اللہ! مجھے وضو کے متعلق بتلائیے! آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’تم میں سے جو شخص بھی ثواب کی نیت سے وضو کرتا ہے، کُلی کرتا ہے، ناک میں پانی ڈالتا ہے، ناک صاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے، منہ اور نتھنوں کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چہرہ دھوتا ہے تو داڑھی کے اطراف سے اس کے چہرہ کے گناہ پانی کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ کہنیوں تک ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں کے پوروں سے پانی کے ساتھ اس کے ہاتھوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ سر کا مسح کرتا ہے تو بالوں کے سِروں سے اس کے سر کے گناہ پانی کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں اور جب وہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھوتا ہے تو پوروں سے لے کر ٹانگوں تک اس کے گناہ پانی سے جھڑ جاتے ہیں، پھر اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے جس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد و ثناء اور تعظیم کرے جو اس کی شان کے لائق ہے اور دل کو ماسوی اللہ سے پاک کرکے اللہ تعالیٰ (کی عبادت) کی طرف متوجہ ہوا تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا جیسا کہ اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہو‘‘ -[22]
حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص نماز کے ارادے سے وضو کرنا شروع کرتا ہے اور اپنی ہتھیلیوں کو دھوتا ہے، پہلے قطرے کے ساتھ ہی اس کی ہتھیلیوں کے تمام گناہ ساقط ہوجاتے ہیں اور جب کلی کرتا ہے، ناک میں پانی ڈالتا ہے اور ناک جھاڑتا ہے تو اس کی زبان اور ہونٹوں کے تمام گناہ پہلے قطرے کے ساتھ ہی دُھل جاتے ہیں اور جب اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو اس کے کان اور آنکھ کے تمام گناہ پہلے قطرے کے ساتھ ہی سےختم ہوجاتےہیں اور جب اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھوتا ہے تو وہ اپنے ہر گناہ سے محفوظ ہو چکا ہوتا ہے اور وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو چکا ہوتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو جنا تھا ،حضور نبی کریم ( ﷺ) نے ارشاد فرمایا:’’اگر وہ نماز کے لئے کھڑا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے اور اگر بیٹھ جائے تو گناہوں سے پاک صاف ہوتا ہے‘‘- [23]
ایک دوسری روایت میں حضرت ابو امامہ(رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’جس شخص نے مکمل وضو کیا، اپنے ہاتھوں اور چہرے کو دھویا، سر اور کانوں کا مسح کیا پھر فرض نماز ادا کی- اس کے اُس دن کے وہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں جو اس کے پاؤں نے چل کر، ہاتھوں نے پکڑ کر، کانوں نے سن کر یا آنکھوں نے دیکھ کر کیے اور اس کے دل نے برے ارادے کیے- راوی کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! میں نے حضور نبی کریم ( ﷺ) سے اتنا کچھ سنا ہے کہ اسے شمار نہیں کرسکتا‘‘-[24]
حضرت عثمان ذوالنورین (رض) کی حضور نبی کریم (ﷺ) کی اداؤں سے عشق ومحبت:
|
’’امیر المؤمنین حضرت عثمانِ غنی(رض) ایک بار وُضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے! لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: میں نے ایک مرتبہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو اسی جگہ پر وُضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا‘‘-[25]
اسی طرح اَمیرُالمؤمنین حضرت عثمانِ غنی(رض)نے ایک ٹھنڈی رات میں جب نماز کا ارادہ فرمایا: تو اپنے غلام حضرت حُمران (رض) سے وضو کیلئے پانی مانگا- غلام نے پانی پیش کیا تو آپ (رض) اُ س سے ہاتھ اور منہ دھونے لگے- (وُضو شروع فرمایا تو) غلام نےعرض کی:اللہ پاک آپ کو محفوظ فرمائے-آپ وُضو فرما رہے ہیں جبکہ رات تو بہت ٹھنڈی ہے، آپ (رض) نے جوابًا ارشاد فرمایا: میں نے حضور نبی کریم( ﷺ)کو ارشادفرماتے سُنا ہے کہ جو بندہ کامل وضو کرتا ہے، اللہ پاک اس کےاگلےپچھلےگناہ بخش دیتا ہے-[26]
ہر معاملے میں اپنی امت کا خیال و دھیان رکھنا:
حضرت سُلیمان بن بُریدہ (رض) اپنے والد محترم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ
’’حضور نبی کریم (ﷺ)(زیادہ تر ) ہر نماز کے لیے وضو فرماتے پس جب فتح مکہ کے دن تھا تو آپ (ﷺ)نے وضو فرمایااور اپنے موزوں پر مسح فرمایا اور ایک وضو کے ساتھ پانچ نمازیں ادا فرمائیں تو حضرت عمرفاروق (رض) نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) آپ (ﷺ) نے ایساعمل فرمایا ہے جو آپ (ﷺ) (پہلے) نہیں کیا کرتے تھے؟ توآپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا کہ اے عمر! یہ میں جان بوجھ کرکیا ہے ‘‘-[27]
علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہ عمل آپ (ﷺ) اپنی امت کے جواز کی خاطر کیا تاکہ اگر کوئی عمل کرنا چاہیے تو اس کیلئے سُنت موجود ہو- جیسا کہ علامہ اسماعیل حقی (رح)اس روایت کو لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
’’حضورنبی کریم (ﷺ) کا یہ عمل مبارک محض جواز کے بیان کے لیے تھا ورنہ ہر فرض نماز کے لئے تازہ وضو کرنا مستحب ہے ‘‘- [28]
سلف صالحین کی وضو سے محبت:
بعض اصفیاء کا طریقہ تھا کہ وہ غیبت ،کذب اور غصے کے بعد تجدید وضو فرماتے-اس لیے کہ ایسے افعال سے نفس کا غلبہ اور شیطان کی شرارت ظاہر ہوتی ہے اور وضو ایک ایسا نور ہے جس کی برکت سے نفس اور شیطان کی تاریکیاں مٹ جاتی ہیں-بعض بزرگوں کے بارے میں مشہور ہے ان کے چہرے پر زخم تھے اور12 سال تک وضو کرنے کی وجہ سے اچھے نہ ہو سکے لیکن انہوں نے کبھی وضو نہ چھوڑا- (اسی طرح کا واقعہ ہے کہ) ایک بزرگ کی آنکھ میں کالا موتیا اتر آیا- ڈاکٹر نے علاج کے لئے وضو کا چھوڑنا لازم قرار دیا -اس مرد خدا نے فرمایا کہ آنکھ جاتی ہے تو جائے لیکن میں وضو نہیں چھوڑ سکتا-آخر کار وہ نابینا ہوگئے -انہوں نے آنکھ کے جانے کو تو پسند کیا لیکن وضوء تر ک نہیں کیا- [29]
بیان کردہ روایت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہمیں بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا ہمیں بھی اچھے طریقے سے وضو کرنا آتا ہے؟اگر نہیں آتا تو ہم سیکھیں، کیا ہم بھی فرائض وسُنن کے پابند ہیں اور ان پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں؟وضو پر وضو خود ایک مستحب عمل ہے اور اس سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے جیسا کہ علامہ اسماعیل حقی (رح) لکھتے ہیں کہ:
’’تجدید وضو سے باطن میں نورانی کیفیت پیدا ہوتی ہے‘‘-[30]
|
اللہ عزوجل فرائض و واجبات اور سُنن و مستحبات کی بجا آوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمِیْن ثم آمین-
٭٭٭
[1](المائدہ:6)
[2]گھنی داڑھی کا مطلب یہ ہے کہ جس کے نیچے ٹھوڑی نظر نہ آئے-
[3]پانی کے ساتھ یا پانی ڈالنے کے بعد عضو پر ہاتھ پھیرنا-
[4]کیونکہ ایک ساتھ اعضا دھونے سے جسے نہر میں غوطہ وغیرہ لگانے سے وضو تو ہوجاتا ہے لیکن سُنت یہ ہے کہ ترتیب کے ساتھ یعنی پہلے ہاتھ پھر کلی پھر ناک-اس طرح آخر تک اعضاء کو دھویا جائے-
[5]نورالایضاح،حسن بن عمار بن علی الشرنبلالیؒ،المتوفیٰ1069ھ،(مکتبۃ المدینہ،کراتشی)،کتاب الطھارۃ،فصل فی سُنن الوضوء-
[6]یعنی دل میں وضو کی نیت ہو اور زبان سے اس نیت کودہرائے-
[7]کیونکہ اگر انگوٹھی تنگ ہوتو پانی پہچانافرض ہے-
[8]معذور وہ شخص ہے جس کاوضو برقرار نہ رہتا ہو-
[9]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة-1422ھ)،کتاب الصوم،ج :03،ص:31
[10]الموصلی،أحمد بن علي، مسند أبي يعلى،(دمشق، دار المأمون للتراث،1404ھ)، مُسْنَدُ عَائِشَةَرضی اللہ تعالیٰ عنھا،رقم الحدیث: 4738، ج:08،ص:182
[11]الموصلی،أحمد بن علي، مسند أبي يعلى،(دمشق، دار المأمون للتراث،1404ھ)، مُسْنَدُ عَائِشَةَرضی اللہ تعالیٰ عنھا،رقم الحدیث: 4738، ج:08،ص:182
[12]جو پانی دھوپ سے گرم ہوگیا اس سے وُضو کرنا مطلقاً مکروہ نہیں بلکہ اس میں چند قیود ہیں-
[13]بہار شریعت،مفتی محمدامجد علی (ؒ)،(ممتاز اکیڈمی اردو بازار لاہور)کتاب الطھارۃ،ج:01،ص:84-
[14]محک الفقر(کلاں)
[15]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابِ الطَّهَارَةِ،بَابُ الذِّكْرِ الْمُسْتَحَبِّ عَقِبَ الْوُضُوءِ، ج:01، ص:209
[16]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة-1422ھ)،كِتَابُ الوُضُوءِ ،ج 01،ص:43-رقم الحدیث:159
[17]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة-1422ھ)،کِتَابُ الجُمُعَةِ،ج 02،ص:53-رقم الحدیث:1149-
[18]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابِ الطَّهَارَةِ،بَابُ الذِّكْرِ الْمُسْتَحَبِّ عَقِبَ الْوُضُوءِ، ج:01، ص:209
[19]النسائی، أحمد بن شعيب بن علي(ؒ)،سنن النسائی،ایڈیشن دوم(حلب،مكتب المطبوعات الإسلامية،1406ھ)، كِتَابُ الطَّهَارَةِ، بَابُ التَّسْمِيَةِ عِنْدَ الْوُضُوء،ج:01،ص:41-رقم الحدیث:78-
[20]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة-1422ھ)،كِتَابُ الوُضُوءِ ،ج 01،ص:39-رقم الحدیث:136
[21]السیوطی، عبد الرحمن بن أبي بكر(ؒ)،(المتوفى: 911هـ)، جامع الأحاديث،( ضبط نصوصه وخرج أحاديثه: فريق من الباحثين بإشراف على جمعة (مفتي الديار المصرية)طبع على نفقة: د حسن عباس زكى)، مسند خالد بن الوليد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ج:34،ص:422-
[22]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا، بَابُ إِسْلَامِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، ج:01،ص:569
[23]احمد بن محمد بن حنبل(ؒ)، مسند الإمام أحمد بن حنبل(ؒ)،(بیروت، مؤسسة الرسالة،1421ھ)، تتمة مسند الأَنصار رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ،رقم الحدیث: 22267،ج:36،ص: 600-601
[24]احمد بن محمد بن حنبلؒ، مسند الإمام أحمد بن حنبلؒ،(بیروت، مؤسسة الرسالة،1421ھ)، تتمة مسند الأَنصار رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ،رقم الحدیث: 22267،ج:36،ص: 600-601-
[25]مسند احمد،مسندعثمانِ بن عفان (ؓ)
[26]مسندالبزار،مسند عثمانِ بن عفان (ؓ)-
[27]ابن کثیرؒ، إسماعيل بن عمر بن كثيرؒ، تفسير القرآن العظيم،( الناشر: دار طيبة للنشر والتوزيع،1420ھ)،ج:03،زیرآیت المائدہ:06
[28]حقیؒ،إسماعيل بن مصطفےٰؒ(المتوفى:1127هـ)،روح البیان،(بيروت:دار الفكر)،ج:02،المائدہ،زیرِآیت:06
[29]حقی،إسماعيل بن مصطفےٰ (ؒ)(المتوفى:1127هـ)،روح البیان،(بيروت: دارالفكر)،ج:02،المائدہ،زیرِآیت:06
[30]ایضاً