اَذان اور مؤذّن کی فضیلت،اہمیت اورمختصر مسائل

اَذان اور مؤذّن  کی فضیلت،اہمیت اورمختصر مسائل

اَذان اور مؤذّن کی فضیلت،اہمیت اورمختصر مسائل

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی جنوری 2024

سیّدنا حضرت ابو بکر صدیق(رض)نے ارشاد فرمایا:

’’اَلْأَذَانُ شِعَارُ الْإِيمَان‘‘[1]

’’ اذان ایمان کے شعائر میں سے ہے‘‘-

اسلام کے بنیادی ارکان میں نمازعبادت وبندگی،تسلیم و رضاء،فرمانبرداری اور وحدت و اجتماعیت کا حسین وجمیل پیکر ہے اور اذان نمازباجماعت کا اعلان و بلاوا ہے-پوری آبادی کے لئے امن و امان کا سبب ہے ،نیک بندوں کے لئے رحمت کا باعث اور شیطان کیلئے زحمت کاذریعہ ہے،اذان دینِ اسلام کا عظیم شعار اور اسلامی معاشرہ کی پہچان ہے،اس وجہ سے اسلام میں اذان کی فضیلت،اہمیت اور عظمت مُسَلَّم ہے- مؤذن کا بھی بہت اونچا مقام ہے-قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اذان اور مؤذن کی فضیلت بیان کی گئی ہے-برکت کے لئے چند روایتیں ملاحظہ ہوں:

قرآن پاک کی روشنی میں: 

’’وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًاطذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ‘‘[2]

’’اور جب تم نماز کے لیے اذان دو تو اسے ہنسی کھیل بناتے ہیں یہ اس لیے کہ وہ نرے بے عقل لوگ ہیں ‘‘-

اس آیت مبارک کے تحت علامہ ابن جریر طبری (﷫) ایک روایت نقل فرماتے ہیں:

’’مدینہ طیبہ میں ایک (بدبخت)کافر تھا جب وہ سیدی رسول للہ (ﷺ) کے مؤذن کو سنتاکہ وہ (اپنی زبان مبارک سے )پکار رہا ہے ’’أشهد أن محمدًا رسول الله‘‘ تو وہ ملعون کہتا:’’حُرِّق الكاذب‘‘(معاذاللہ)- ایک رات اس کی خادمہ آگ لائی تو وہ اور اس کے گھر والے سوئے ہوئے تھے- آگ سے ایک شرارہ اُڑا توتمام گھر جل گیا اور وہ کافر اور اس کے گھر کے لوگ بھی جل گئے‘‘-[3]

اس روایت مبارک سے مسلمانوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اللہ کے دین کی علامت کی اہانت کا ارتکاب اگر ایک غیر مسلم نے بھی کیا تو اللہ عزوجل نے اس کو ذلت و رسوائی سے دو چار فرما دیا- آج مادیت کے دور میں کئی مسلمان شعائر اسلام کو اہمیت نہیں دیتے اور معاذ اللہ کبھی کبھی اہانت کا ارتکاب کرتے ہوئے مؤذن کو بانگا وغیرہ کے الفاظ سے پکار بیٹھتے ہیں- اُنہیں اللہ عزوجل کا یہ فرمان مبارک پیش ِ نظر رکھنا چاہیے:

’’یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا‘‘[4]

’’اے ایمان والو! جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے ان کو دوست نہ بناؤ‘‘-

صاحب تفسیرین شارحِ صحیحین علامہ غلام رسول سعیدیؒ اس آیت مبارک کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’جب مسلمان سجدہ کرتے تو یہود اورمشرکین ان کا مذاق اڑاتے تھے اورجب مسلمان اذان دیتے تو وہ کہتے یہ اس طرح چلا رہے ہیں جیسے قافلے والے چلاتے ہیں‘‘-[5]

احادیث  مبارکہ کی روشنی میں :

اذان کے لیے قرعہ اندازی اور باہم مقابلہ: 

 

 

حضرت ابو ہریرہ (﷜) سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ(ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’اگر لوگ جانتے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کیا (فضیلت) ہے اور پھر قرعہ اندازی کے بغیر (یہ سعادت)  حاصل نہ کر سکتے تو قرعہ اندازی کرتے‘‘-[6]

 ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد  فرمایا :

’’اگر لوگوں کو اذان کے ثواب کا علم ہو جائے تووہ اس کی خاطر تلواروں کے ساتھ باہم بر سر پیکار ہو جائیں‘‘-[7]

سیّدنا حضرت عمر فاروق (﷜) کے زمانہ مبارک میں حضرت سعد(﷜)کی امارت میں ملک عراق میں قادسیہ کا معرکہ پیش آیا،مؤذن کا انتقال ہوگیا،تو اس منصب و ذمہ داری کو حاصل کرنے کیلئے اختلاف کی نوبت پیش آئی، تو حضرت سعد(﷜)نے اس اختلاف ونزاع کو ختم کرنے کے لئے قرعہ اندازی کے ذریعہ فیصلہ فرمایا-[8]

مؤذن کے لیے مخلوق کی گواہی: 

حضرت عبد الرحمٰن بن ابو صعصعہ انصاری مازنی کے والد ماجد سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری (﷜) نے اُن سے فرمایا:

’’میں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور جنگل کو پسند کرتے ہو- جب تم اپنی بکریوں یا جنگل میں ہوا کرو تو نماز کے لیے اذان کہو اور خوب بلند آواز سے کہو کیونکہ مؤذن کی اذان کو جو بھی جن یا انسان یا دوسری مخلوق سنے گی وہ قیامت کے روز اس کے لیے گواہی دے گی-حضرت ابو سعید (﷜) نے فرمایا: میں نے یہ بات سیّدی رسول اللہ (ﷺ)سے سنی‘‘-[9]

حضرت ابو ہریرہ (﷜) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے اس کو بخش دیا جاتا ہے اور اذان دینے والے کیلئے ہر تر اور خشک چیز (اس کے حق میں) گواہی دیتی ہے‘‘-[10]

حضرت طلحہ بن یحییٰ (﷜) اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےفرمایا کہ میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان (﷜)کے پاس تھا کہ مؤذن نے آپ (﷜)کو نماز کے لیے بلایا- حضرت معاویہ(﷜) نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’قیامت کے دن مؤذنوں کی گردنیں سب سے بلند ہوں گی‘‘- [11]

فائدہ : لمبی گردن کے کئی معانی ہیں، کسی نے لمبی گردن کا مفہوم لیتے ہوئے کہااللہ کی رحمت کی طرف دیکھنے والا یعنی زیادہ اجر کا باعث- کسی نے اس کا حقیقی معنی مراد لیا ہے جب قیامت میں لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے تو ان کی گردن لمبی کردی جائے گی- قاضی عیاضؒ نے اعناق میں الف کو زیر کے ساتھ کہا ہے جس کا معنی جنت کی طرف جلدی جانے والا-

اذان واقامت کے درمیان دعا کی قبولت:

حضرت انس بن مالک(﷜) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اذان اور تکبیر کے درمیان جو دعا بھی مانگی جائے وہ رد نہیں ہوتی(یعنی ہر صورت قبول ہوتی ہے)‘‘-[12]

مؤذن کے  حق میں دعاء مغفرت اور دعاء رحمت:

 حضرت ابو ہریرہ (﷜) سے روایت ہے  کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)  نے ارشادفرمایا:

’’جہاں تک مؤذن کی اذان کی آواز پہنچتی ہے، وہاں تک کی وہ تمام چیزیں جو اس کی اذان سنتی ہیں سب اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتی ہیں‘‘-[13]

 ایک اور روایت میں رسول اللہ (ﷺ)نے امام اور مؤذن کو دعاؤں سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’امام ضامن اور ذمہ دار ہے اور مؤذن امین اور قابل اعتماد ہے - اے اللہ ! اماموں کو ( صحیح علم و عمل ) کی توفیق دے اور مؤذنوں کو بخش دے ‘‘-[14]

اذان کے بدلے نیکیاں اور جہنم سے خلاصی:

حضرت ابن عمر(﷠) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ جو شخص 12 سال تک اذان دے اس کے لئے بہشت واجب ہو جاتی ہے اور اس کے لئے ہر روز ہر اذان پر 60 نیکیاں اور ہر تکبیر پر 30نیکیاں لکھی جاتی ہیں‘‘-[15]

ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس (﷠) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص ثواب کی امید رکھتے ہوئے 7 سال تک اذان دے تو اس کیلئے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے‘‘-[16]

مؤذن کے سر  پہ  دستِ رحمت :

حضرت انس (﷜) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ )نے ارشاد فرمایا:

’’مؤذن کے سر پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے اور اسے اس کی آواز کی پہنچ تک، جہاں تک بھی پہنچ جائے، معاف کر دیا جاتا ہے‘‘-[17]

یوم ِ حشر بھی اذان کی سعادت:

 حضرت جابر(﷜) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نےارشاد فرمایا:

’’اذان کہنے والے اور تلبیہ (لَبَّيْکَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْبَکَ) کہنے والے جب اپنی قبروں سے نکلیں گے تو مؤذن اذان اور ملبی(تلبیہ کہنے والے) تلبیہ کہہ رہے ہوں گے‘‘[18]

اذان کی وجہ سے چوبیس گھنٹے حفاظت:

حضرت معقل بن یسار (﷜) سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’جب لوگوں کی (کسی بستی) میں صبح کی اذان کہی جائے تو وہ شام تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتی ہے اور جب شام کی اذان کہی جائے تووہ صبح تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتی ہے‘‘-[19]

حشر میں امتیازی مقام:

 

 

حضرت عبد اللہ بن عمر(﷠) سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، جنہیں دیکھ کر تمام اولین وا ٓخرین رشک کریں گے، ایک ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقا کے حقوق ادا کرتا ہو، دوسرے وہ امام جس سے اس کے مقتدی راضی ہوں، تیسرے وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو‘‘-[20]

سیدنا آدم (﷤) کی  آمد کے بعد  کرۂ ارض   میں پہلی اذان اور اسم محمد () کی گونج :

حضرت ابوہریرہ (﷜)سےروایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’حضرت آدم (﷤)(سب سے پہلے )ہند میں اترئے تو آپ (﷤)نے وحشت محسوس کی تو حضرت جبریل (﷤) تشریف لائے، اور اذان دی: ’’الله أكبر أشهد أَن لَا إِلَه إِلَّا الله‘‘، ’’أشهد أَن مُحَمَّد رَسُول الله‘‘ دو مرتبہ کہا: توحضرت آدم (﷤) نے کہا: (سیدنا) محمد (ﷺ)کون ہیں؟ توحضرت جبرائیل (﷤) نے کہا: یہ تیری اولاد میں سے جوانبیاء (﷩)(تشریف لائیں گے ان میں سے سب سے آخر میں)تشریف لانے والے ہیں‘‘-[21]

(نوٹ: اس روایت کوامام طبرانی ،ابونُعَیْم الاصبہانی اور امام ابن عساکرنےمختلف الفاظ کے ساتھ رقم فرمایا ہے )

حضرت عمرفاروق (﷜) کی  چاہت مبارک:

اسی طرح حضرت قیس بن حازم(﷫) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر (﷜)ارشادفرمایا کرتے تھے:

’’اگر مجھ پر خلافت کا بو جھ اور مسلمانوں کی ذمہ داری میرے کندھوں پر نہ ہوتی ،تو میں اذان دیاکرتا ‘‘-[22]

حضرت علی المرتضیٰ (﷜) کی چاہت مبارک: 

سیّدنا علی المرتضیٰ شیرِ خدا (﷜) ارشادفرماتے ہیں:

’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے (سیّدنا) حسن وحسین (﷠) کے لئے مؤذن بنانے کی درخواست نہیں کی‘‘-[23]

اذان کا جواب اوربعداز اذان درور پاک  کاثبوت:

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ  حضرت عبد اللہ بن عمرو العاص (﷜) نے آقا کریم (ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

’’جب تم موذن کو سنو تو وہی کہو جو وہ کہتا ہے- پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو، جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت بھیجتا ہے- پھر میرے لیے وسیلہ کی دعا کرو-یہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں جس نے میرے لیے وسیلہ مانگا اس کیلئے میری شفاعت واجب ہو گئی‘‘-[24]

خاتم الانبیاء ،تاجدارِ کائنات () کے اسم مبارک سُن کرانگوٹھے چومنے  کاثبوت:

امام عجلونی(﷫) امام دیلمی (﷫) کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق (﷜) سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ:

’’جب آپ (﷜) نے مؤذن کو کہتے سنا’’ أشهد أن محمد رَسُولُ الله ‘‘ آپ (﷜)نے بھی اسی طرح کہا، اپنے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کے ناخنوں کو چوما اور اپنی آنکھوں پہ لگایا تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَنْ فَعَلَ فِعْلَ خَلِيلِي فَقَدْ حَلَّتْ لَہٗ شَفَاعَتِي‘‘

’’جس نے اس طرح کیا جس طرح میرے دوست نے کیا تو اس پہ میری شفاعت واجب ہوگئی ‘‘-[25]

 اگر سوال پیدا ہو کہ یہ روایت معاذ اللہ صحیح نہیں تواس کا جواب دیتے ہوئے ملاعلی قاری (﷫)نے فرمایا:

’’جب اس حدیث کا رفع حضرت ابو بکر صدیق (﷜) تک صحیح ہو گیا، تو فرمان رسول مقبول (ﷺ):

’’علیکم بسنتي و سنة الخلفاء الراشدین من بعدي‘‘

’’تم پہ میری سنت اور میرے بعد میرے خلفاء راشدین کی پیروی لازم ہے ‘‘

کی وجہ سے اتنا عمل کے لیے کافی ہے-[26]

مزید علامہ اسماعیل الحقی (﷫) فرماتے ہیں کہ:

’’علماء سے عملیات میں ضعیف حدیث پرعمل کرنا ثابت ہے ،یہ حدیث مبارک غیر مرفوع ہے اس سے کب لازم آتاہے کہ اس سے عمل ترک کیاجائے ‘‘-[27]

اسی طرح امام سخاوی (﷫) روایت نقل فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا امام حَسَن(﷜) نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص مؤذن سے ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ‘‘ سُن کر کہے: مَرْحَبًا بِحَبِیْبِیْ وَقُرَّۃِ عَیْنِیْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہ (ﷺ)‘‘ پھر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے، وہ کبھی اندھا نہ ہوگا اور نہ ہی اُس کی آنکھیں دُکھیں گی‘‘-[28]

صاحب روح البیان ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ عزوجل نے تاجدارِ کائنات،احمد مجتبیٰ (ﷺ) کے جمال جہاں آراء کو حضرت آدم (﷤) کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں رکھاتو وہ شیشے کی طرح چمکنے لگا، اس پر حضرت آدم (﷤)نے اپنے انگوٹھے چوم کر اپنی آنکھوں پہ ملے-اسی طرح اسی روزسے آپ (﷤) کی اولاد کیلئے انگوٹھے چومنا سنت ہوا- یہی واقعہ جب حضرت جبریل(﷤) نے رسول اللہ (ﷺ) کو سنایا تو سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے میرا نام اذان میں سنا، پھر اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو چوما اور اپنی آنکھوں پر پھیرا، وہ کبھی اندھا نہیں ہو گا‘‘-[29]

 امام ابن عابدین (﷫)اس کے بارے میں فرماتے ہیں :

 

 

’’ (اذان میں )پہلی شہادت کے سننے کے وقت ’’صَلَّى اللهُ عَلَيْك يَا رَسُولَ اللهِ‘‘ اور دوسری شہادت کے سننے کے وقت’’قَرَّتْ عینِيْ بِکَ یا رَسُوْلَ اللہ‘ ‘(اے اللہ کے رسول! آپ(ﷺ)کے سبب میری آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوئی ) کہنامستحب ہے، پھر اس کے بعد دونوں انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھ کر یہ دعا کرے: ’’اللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ‘‘ (اے اللہ! مجھے قوت ِ سماعت اور بینائی کی دولت نواز دے) اس لیے کہ آپ (ﷺ) ایسا کرنے والے کو جنت کی طرف لے جائیں گے‘‘-[30]

(کنز العباد اور قہستانی اور اسی طرح ”فتاویٰ صوفیہ “میں ہے- مزید اس روایت کو علامہ اسماعیل حقی(﷫) اور امام طحاوی ( ﷫)نے بھی اما م قہستانی کے حوالے سے نقل کیاہے )-

مزید فرماتے ہیں:

’’جس شخص نے اذان میں ”أَشھدُ أَنَّ محمدًا رّسولُ اللّٰہ“ سنتے وقت اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو چوما ، میں اس کا قائد ہوں گا اور اسے لے کر جنت کی صفوں میں داخل کروں گا‘‘-[31]

قبر  میں اذان:

حضرت لالکائی حضرت یحیٰ بن معین (﷜) سے سنت میں اپنی سند کےساتھ روایت کرتے ہیں کہ مجھے گورکن نے کہاکہ:

’’میں اس قبرستان میں سب سے تعجب والی چیز جو دیکھی ہے وہ یہ کہ میں نے ایک قبرسے اس طرح کراہنے کی آواز سنی جس طرح مریض کراہتاہے اور ایک قبرسے میں نے سناکہ مؤذن اذان دے رہاہوتا ہے اوروہ اس کو قبر سے جواب دیتا ہے ‘‘-[32]

اذان کی آواز سُن کر جواب نہ دینے والے پر وعید:

حضرت حسن (﷜)روایت بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک(﷜) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ(ﷺ) نے تین آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے:

’’ایک وہ شخص جس کو لوگ (کسی معتبر وجہ سے) ناپسند کرتے ہوں اور وہ ان کی امامت کرائے-(دوسرا) وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو-(تیسرا) وہ آدمی جو ’’ حَيَّ عَلَى الفَلَاحِ ‘‘ کی آواز سنے اور جواب نہ دے‘‘- [33]

مختصروضاحت: امام سے متعلق مذکورہ حدیث کا حکم اس وقت ہے جب لوگ کسی دینی وجہ سے مثلاً: اس کی جہالت یا فسق کی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں لیکن اگر ان کی ناپسندیدگی کسی دنیوی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے ہو تو یہ حکم نہیں-اذان کا جواب دو طرح کا ہوتا ہے: ایک تو یہ کہ اذان کی آواز سن کر مسجد کی طرف چل دیاجائے، اسے اجابت بالقدم کہتے ہیں اور یہ واجب ہے- دوسرے یہ کہ زبان سے مؤذن کی طرح الفاظ کہے جائیں، اسے اجابت باللسان کہتے ہیں مذکورہ حدیث کاتعلق اجابت بالقدم سے ہے -

اذان کی آواز سُن کر شیطان ملعون کا بھاگنا:

حضرت ابوہریرہ (﷜) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جب نماز کے ندا دی جائے (یعنی جب مؤذن اذان دیتا ہے) تو شیطان اپنی دُبر سے ریح خارج کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے تاکہ اذا ن کی آواز نہ سُنے جب مؤذن اذان مکمل کرلیتا ہے تو واپس آ تا ہے اور نمازیوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے‘‘-[34]

حافظ ابن حجر(﷫)فرماتے ہیں:

’’ اذان کی آواز سے شیطان کاریح خارج کرتے ہوئے بھاگنا ممکن ہے کہ بطوراستخفاف و استہزاءکے ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ اذان کی آواز پر شدتِ خوف کی وجہ سے بے قابوہوکر ریح خارج کرتاہوابھاگنے لگے ‘‘-

علامہ نووی(﷫) فرماتے ہیں :

’’شیطان اذان کی آواز نہ سننے کے ارادہ سے بھاگتاہے تاکہ قیامت کے دن اذان اس کے خلاف حجت نہ ہو جائے،ایک قول یہ ہے کہ چونکہ اذان وحدانیت،شعائر اسلام اور اعلان پر مشتمل ہے، اس لئے غضبناک ہوکر راہ فرار اختیارکرتاہے ‘‘-

حرفِ آخر:

بہت سے نمازی اذان دینے سے کتراتے ہیں،اس میں اپنی کسرِ شان سمجھتے ہیں ،بعض اوقات اذان دینے والوں کے بارے میں نازیبا الفاظ کہہ دیتے ہیں -ہمیں مذکورہ بالا روایات میں غور کر کے کوشش کرنی چاہیے کہ زندگی میں چند بار ضرور اذان دیں تاکہ اللہ عزوجل شاید اپنے فضل وکرم سے ہمیں قیامت کے دن مؤذنین کی صف میں شامل فرما دے -اللہ عزوجل ہم سب کو احکامِ اسلام کی مکمل پاسداری نصیب فرمائے-آمین!

٭٭٭



[1]السیوطی، عبد الرحمن بن أبي بكرؒ،(المتوفى: 911هـ)، جامع الأحاديث،مُسند أبى بكر الصديق ؓ، رقم الحدیث: 27869، ج:25، ص:207۔

[2]المائدہ:58

[3]الطبري، محمد بن جرير(المتوفى: 310هـ)۔ جامع البيان في تأويل القرآنزیرآیت:المائدہ :58،ج:8،ص:536۔

[4]المائدہ:57

[5] تبیان القرآن زیر آیت، النساء:140

[6]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ)،كِتَابُ الأَذَانِ، رقم الحدیث:615،ج: 1،ص:126۔

[7]احمد بن محمد بن حنبلؒ ، مسند ، مُسْنَدُ الْمُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُم،رقم الحدیث: 11241،ج:17،ص:341۔

[8]ابن رجب ؒ، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسنؒ(المتوفٰی:795ھ)، فتح الباري شرح صحيح البخاری،(الناشر: مكتبة الغرباء الأثرية - المدينة النبوية(ﷺ)،باب الاستهام في الاذان،ج: 5،ص:276۔

[9]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ)،كِتَابُ الأَذَانِ، رقم الحدیث:609،ج: 1،ص:125۔

[10]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،(بیروت:المكتبة العصرية، صيدا) بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْأَذَانِ ،ج:1،ص:142،رقم الحدیث:515۔

[11]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم ، كِتَابُ الصلٰوۃ، بَابُ فَضْلِ الْأَذَانِ وَهَرَبِ الشَّيْطَانِ عِنْدَ سَمَاعِهِ، ج:1،ص:290۔

[12]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،بَابُ مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ ،ج:1،ص:144،رقم الحدیث:521۔

[13]ابن ماجة،محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ،(الحلب: دار إحياء الكتب العربية) ، كِتَابُ الْأَذَانِ، وَالسُّنَّةُ فِيهِ،ج: 1،ص:240،رقم الحدیث: 724۔

[14]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،بَابُ مَا يَجِبُ عَلَى الْمُؤَذِّنِ مِنْ تَعَاهُدِ الْوَقْتِ ،ج:1،ص:143،رقم الحدیث:517۔

[15]ابن ماجة،محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ،(الحلب: دار إحياء الكتب العربية) ، كِتَابُ الْأَذَانِ، وَالسُّنَّةُ فِيهِ،ج:1،ص:241،رقم الحدیث: 728۔

[16]ایضاً،ص:240،رقم الحدیث: 727۔

[17]الطبرانی، سليمان بن أحمد، المعجم الأوسط،(دارالقاھرۃ،دارالحرمین)،باب:مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ،رقم الحدیث:1987،ج: 2،ص:281۔

[18]ایضاً،رقم الحدیث:1558،ج:04،ص:40۔

[19]الطبرانی، سليمان بن أحمدؒ، المعجم الکبیر،باب: معاوية بن قرة، عن معقل بن يسار ؓ، ج:20،ص:215۔

[20]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم، أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللهِ (ﷺ)،ج:4،ص:355۔ رقم الحدیث:1986۔

[21]جامع الأحاديث لجلال الدین سیبوطی،باب:حرف النون

[22]ابن ابی شیبہؒ، أبو بكر بن أبي شيبة عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمانؒ(المتوفیٰ:235ھ)، الكتاب المصنف في الأحاديث و الآثار، الطبعۃ الاولی(الناشر: مكتبة الرشد – الرياض)، كِتَابُ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ،رقم الحدیث:2345،ج: 1،ص:204۔

[23]الطبرانی، سليمان بن أحمد، المعجم الأوسط،(دارالقاھرۃ،دارالحرمین)،باب:مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ،رقم الحدیث:7567،ج:7،ص:305۔

[24]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي )، كِتَابُ الصَّلَاةِ،ج: 1،ص:288

[25]العجلونی،إسماعيل بن محمد بن عبد الهادی،(الناشر: المكتبة العصرية،1420هـ)،باب:حرف المیم،ج:2،ص:243

[26]ایضاً

[27]حقی، إسماعيل بن مصطفےٰ۔ روح البیان،(بيروت: دار الفكر) زیرآیت الاحزاب:56،ج:7، ص:229

[28]السخاوی، محمد بن عبد الرحمن بن محمد،ایڈیشن اولیٰ(دار الكتاب العربي – بيروت،1405 ه)ج:1،ص:606۔

[29]حقی، إسماعيل بن مصطفےٰ۔ روح البیان،(بيروت: دار الفكر) زیرآیت الاحزاب:56،ج: 7، ص:229

[30]ابن عابدين ،محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز،رد المحتار على الدر المختار ۔ ج:1،ص:398۔

[31]ایضاً

[32]السیوطی، عبد الرحمن بن أبي بكرؒ،(المتوفى: 911هـ)، شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، فصل فِيهِ فَوَائِد،ج:1،ص:144۔

[33]سُنن الترمذی،أَبْوَابُ الصَّلَاةِ عَنْ رَسُولِ اللهِ (ﷺ)،ج:2،ص:191،رقم الحدیث:358۔

[34]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،كِتَابُ الأَذَانِ، رقم الحدیث:608 ،ج: 1،ص:125۔

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر