ہر انسان فطرتِ اسلام پہ پیدا ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرتِ اسلام پہ پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں‘‘-[1]
گویا کہ پیدائش کے بعد آدمی کے دین و مذہب کا سارا انحصار اس کی تربیت پر ہوتا ہے-جس تربیت اور آئیڈیالوجی میں وہ پروان چڑھتا ہے تاحیات اسی نظریہ کے اثرات کے زیرِ اثر رہتا ہے-
تربیت و اصلاح کا آغاز ہمیشہ فرد سے شروع ہوتا ہے، افراد تک پہنچتا ہے پھر افراد سے معاشرے تک پہنچتا ہے- معاشرے کو زندہ رکھنے کیلئے لوگوں کا آپس میں متحد رہنا لازم ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب لوگوں کو ذہنی اور فکری ہم آہنگی اور برابری کے تصور کے سانچے میں پروان چڑھایا جائے-اسلام نے معاشرے کی اصلاح اور تربیت کے لئے مسجد کا تصور پیش کیا ہے -یہاں پہ معاشرے کی ہر سطح پہ اور ہر جہت پہ تربیت ممکن ہوتی ہے- اب ہم اسلامی معاشرے میں مسجد کے تصور اور اس کے تاریخی پس منظر کو پیشں کریں گے-
مسجد کا لغوی اور اصطلاحی معنی:
’’سَجَدَ یَسْجُدُ سُجُوْدًا‘‘،باب ’’نَصَرَ یَنْصُرُ ‘‘سے ہے جس کا لغوی معانی ’’عاجزی و انکساری سے جھکنا، عبادت میں پیشانی و ناک زمین پر رکھنا‘‘ ہے- اسی سے ’’اَلْمَسْجِدُ و اَلْمَسْجَدُ‘‘ اسم ظرف ہے جس کے معانی ’’سجدہ کرنے کی جگہ یا عبادت کی جگہ ہے‘‘-[2] اصطلاح میں مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں-
مسجد کی تاریخی حیثیت :
حضرت ابو ذر غفاری (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے:
’’میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ(ﷺ) اس روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ (ﷺ) نے جواب ارشاد فرمایا: مسجد حرام، میں نے پھر عرض کیااس کے بعد کونسی مسجد تعمیر کی گئی؟ تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ، میں نے عرض کیا: ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے تو آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا: چالیس برس‘‘-[3]
ان دونوں مساجد کی فضیلت کا اندازہ آپ فرامینِ رسول کریم (ﷺ) سے لگا سکتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
’’مسجد ِحرام میں ایک نماز دوسری مساجد کی ایک لاکھ نمازوں سے بہتر ہے‘‘-[4]
مسجد اقصٰی کے بارے میں حضرت ابو ذر غفاری (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’عنقریب وہ زمانہ آنے والاہے جب لوگوں کے پاس اپنے گھوڑے کی رسی جتنی بھی زمین نہیں ہوگی کہ وہاں سے وہ بیت المقدس کی زیارت ہی کر سکیں اور اتنی جگہ مل جانا بھی(جہاں سے وہ بیت المقدس کی زیارت کر سکیں) ان کے لئے دنیا یا دنیا و ما فیہا سے بہتر ہوگا‘‘-[5]
رسول اللہ (ﷺ) کی مسجد پاک کی فضیلت کا اندازہ اس ارشاد پاک سے لگائیں کہ :
’’مسجد نبوی (ﷺ) میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کے برابر ہے‘‘- [6]
مساجد بنانے کی ترغیب اور فضیلت :
مسجد بنوانے اور مسجد کے ساتھ تعاون کرنے والوں کے لئے بشارات دی گئی ہیں :
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :
’’جس نے اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے حصول کے لیے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا‘‘-[7]
حضرت عمرو بن عبسہ (رضی اللہ عنہ) روایت بیان کرتے ہیں :
’’جس شخص نے اس لئے مسجد بنائی تاکہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے،اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا‘‘-[8]
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ سیّدی رسول اﷲ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہروں کی پسندیدہ ترین جگہ مساجد ہیں اور ناپسندیدہ ترین جگہ بازار ہیں‘‘-[9]
مسجد کو صاف و ستھرا رکھنا :
اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت ابراہیم(علیہ السلام)کو حکم فرمایا کہ :
’’وَّ طَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْقَآىٕمِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ‘‘ [10]
’’اور میرا گھر ستھرا رکھ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کیلئے‘‘-
اس آیت مبارک کی تفسیر میں صاحب نور العرفان فرماتے ہیں کہ:
’’اس سے معلوم ہو اکہ مسجدوں میں جھاڑو دینا، انہیں صاف سُتھرا رکھنا،وہاں کی زینت کرنا سُنت ِابراہیمی اور اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے ‘‘- [11]
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ:
’’سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے محلوں میں مساجد بنانے، مساجد کی صفائی کرنے اور انہیں خوشبودار و معطر کرنے کا حکم مبارک ارشادفرمایا ہے‘‘- [12]
حضرت ابوسعیدخدری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ سیّدی رسول اللہ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جو آدمی مسجد سے کسی تکلیف دہ چیز (گندگی، کوڑا کرکٹ وغیرہ) کو دورکرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھربنادیتا ہے ‘‘-[13]
حضرت عبد اللہ بن عمر () سے مروی ہے کہ :
’’حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) ہرجمعہ مسجد نبوی (ﷺ) میں دھونی دیا کرتے تھے‘‘- [14]
حضور نبی کریم (ﷺ) نے مسجد کی صفائی کرنے کی فضیلت کے حوالے سے یہاں تک ارشاد مبارک فرما دیا کہ:
’’ جب میری امت کے (اعمال کے) اجر و ثواب کو میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو اس میں(ایک عمل) کوڑا کرکٹ جس کو کوئی آدمی مسجدسے باہر پھینکتا ہےاُس کا اجر بھی موجود ہوتا ہے ‘‘-[15]
مساجد کو آباد کرنا:
مساجد کو آباد کرنے سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ‘‘[16]
’’اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے توقریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں‘‘-
اس آیت مبارک کی تفسیر میں شہباز لامکانی سیّدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کی مسجدیں جو خالص عبادت کیلیے تیار کی جاتی ہیں اور حق کی طرف توجہ کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ مناجات کیلیے بنائی جاتی ہیں،ان کی تعمیر وہ شخص کرتا ہے جواللہ عزوجل پر ایمان لایا اوراللہ کی توحید میں یقینی علم کے مرتبہ پر متحقق ہواا ور آخری دن پر ایمان لایا اور جس کی طرف سب نے جانا ہے اور اس نے نماز قائم کی یعنی دائمی طور پر اپنامیلان و رجوع حق کی طرف رکھا اورزکوٰۃ اداکی تاکہ نفس کو ان رکاوٹوں سے پاک کردے جوحقیقی توجہ کے دوران آتی ہیں یاکم ازکم ان (رکاوٹوں) میں تخفیف کردے اوراللہ عزوجل کے سوا کسی اور سے نہ ڈرے یعنی اس کے دل میں کسی چیز کے فوت ہوجانے کا خوف نہ ہواگر ہوتو صرف اس کا کہ اللہ تعالیٰ کہیں اس کے اعمال کو رد نہ فرما دے اور کہیں اس کی رضا سے محرومی نہ ہوجائے- پس قریب ہے کہ یہ نیک بخت طریقہ توحید میں کوشش کرنے والے،فنا ء کی فضا ء کے مشتاق حضرات ہدایت یافتہ ہوں، مقام تسلیم و رضا میں پختہ ہوں اگرچہ اخلاص کی توفیق بھی انہیں اللہ عزوجل کی طرف سے ملتی ہے‘‘- [17]
حضرت ابو سعید (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اﷲ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جب کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد میں آنے جانے کا عادی ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اللہ کی مساجد کو صرف وہی شخص آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا‘‘[18]
مسجد میں جانے کی ترغیب دینا :
حضرت ابو امامہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سیّدی رسول اﷲ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص صبح کے وقت مسجد میں کوئی نیکی کی بات سیکھنے یا معلوم کرنے کے لئے گیا تو اسے ایک کامل عمرہ کرنے والے کا ثواب عطا ہو گا اور جو شخص شام کے وقت مسجد میں کوئی نیکی کی بات سیکھنے یا معلوم کرنے کے لئے گیا تو اللہ ربّ العزت اسے کامل حج کرنے والے کا ثواب عطا فرمائے گا‘‘- [19]
حضرت ابو درداء (رضی اللہ عنہ) نے اپنے صاحبزادے سے ارشاد فرمایا :
’’اے میرے بیٹے مسجد تیرا گھر ہوناچاہیے پس بے شک میں نے سیّدی رسول اللہ(ﷺ) کوارشاد فرماتے ہوئے سنا : مسجد متقیوں کے گھر ہیں اور مسجد جس شخص کا گھر ہے اﷲ تعالیٰ اس کیلئے راحت، رحمت اور پل صراط سے (سلامتی کے ساتھ) گزرنے کا ضامن ہے ‘‘-[20]
مسجد کے ساتھ دلی محبت کرنا :
حضرت جابر بن سمرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے مصلیٰ پر تشریف فرما رہتے یہاں تک کہ سورج اچھی طرح نکل آتا‘‘-[21]
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جب تک بندہ مساجد میں نماز اور اﷲ کے ذکر کے لیے ٹھہرا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے خوشی و مسرت کا اظہار فرماتا رہتا ہے جس طرح کسی گمشدہ کے گھر والے اس کے گھر واپس لوٹ آنے سے خوش ہوتے ہیں‘‘-[22]
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نےارشاد فرمایا :
’’سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا، جس روز اُس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا:اُن میں سے ایک وہ آدمی ہے جس کا دل مسجد میں لٹکا رہتا ہے‘‘- [23]
مسجد کی طرف پیدل چل کر جانے کی ترغیب دینا :
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’کیا میں تمہیں ایسے عمل نہ بتاؤں جن سے اللہ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ! کیوں نہیں، آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ناگواری کے باوجود مکمل وضو کرنا اور مسجدوں کی طرف زیادہ چل کر جانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا، سو یہی رباط (شیطان کے خلاف جنگ کی چھاؤنی ) ہے‘‘-[24]
آدابِ مسجد:
مسجد کے آداب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے کوڑا کرکٹ کو بھی ہر جگہ پر نہیں پھینک سکتے-جیسا کہ علامہ حصکفیؒ درمختار میں لکھتے ہیں کہ :
’’مسجد کی گھاس اور کوڑا کرکٹ ایسی جگہ نہ ڈالا جائے جہاں اس کی بے حرمتی ہوتی ہو- (اور اس کی تعظیم میں فرق آتا ہو )[25]
مساجدکو تکلیف دہ چیز سے محفوظ رکھنا:
حضرت جابر(رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے اس بدبودار درخت لہسن اور پیاز میں سے کچھ کھایا ہو وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے، کیونکہ جس چیز سے انسانوں کو ایذاء پہنچتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی ایذاء پہنچتی ہے‘‘-[26]
امام احمد رضاخان قادریؒ فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں :
’’امام عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، علامہ شامی رد المحتار میں فرماتے ہیں کہ حدیث کے مطابق ہر اس شئے کا یہی حکم ہے جس کی بو اچھی نہ ہو خواہ وہ شئے کھائی جاتی ہو یا نہ‘‘- [27]
وضاحت :
اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مساجد میں بدبو دار چیز کو لے جانے سے اس لیے منع فرمایا گیا ہے کہ اس سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے-اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوا کہ ہر وہ شئے جس سے نمازیوں کو جسمانی تکلیف کا خطرہ ہو، مالی، اعتقادی یا مسجد کے سامان کے نقصان اور مسجد کا ماحول خراب ہونے کا خدشہ ہو تو ایسی ایذا دینے والی ہر چیز کا تدارک کیا جائےگا-
مساجدکو گالم گلوچ اور فحش گفتگو سے محفوظ رکھنا :
مساجد اللہ تعالیٰ کے ذکر کیلئے بنائی جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کا آئینہ دار ہوتی ہیں- اس لئے لازم ہے کہ انہیں ہرقسم کی غیر اخلاقی گفت و شنید اور حرکات و سکنات سے پاک رکھا جائے -جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’اپنے بچوں کو اپنے پاگل لوگوں کو اور اپنے بُرے لوگوں کو اور اپنی خرید و فروخت کو اور اپنے لڑائی جھگڑوں کو اور اپنی آوازوں کو اور اپنی تلوار سونتنے کو اور اپنی حدود قائم کرنے کو اپنی مسجدوں سے دور رکھو ‘‘-[28]
مساجد کو ویرانی سے بچانا :
’’وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا‘‘[29]
’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں کو روکے ان میں نامِ خدا لئے جانے سے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے ‘‘-
الکشاف میں ہے :
’’حضرت عطا سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)کے ہاتھ پر بہت سے شہر فتح فرمائے تو آپؓ نے مسلمانوں کو مسجدیں بنانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ایک شہر میں دو مسجدیں نہ بنانا تاکہ ایک سے دوسری کو ضرر نہ پہنچے‘‘- [30]
ضرر پہنچنے سے مراد پہلی مسجد کی ویرانی ہے اگر دوسری مسجد پہلی مسجد کی ویرانی کا سبب بن رہی ہے تو دوسری مسجد کو ختم کیا جائے گا -اس سے بہت سارے مسائل کا استنباط کیا جا سکتا ہے -
مسجد میں اجتماعی صورت میں جہراً ذکر کرنا
سیدنا حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:
’’عہدِ نبوی(ﷺ) میں فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلند آواز سے ذکر ( یعنی ذکر بالجہر) کرنا رائج تھا- حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ میں لوگوں کے (نماز سے) فارغ ہونے کو اسی سے جان لیتا جب میں اس (بلند آواز سے ذکر کرنے) کو سنتا- یہ حدیث متفق علیہ ہے-[31]
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں کہ علامہ حموی نے امام شعرانی سے نقل کیا کہ :
’’تمام اگلے اور پچھلے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مساجد وغیرہ میں جماعت کے ساتھ ذکر بالجہر مستحب ہے ماسوا اس کے جب ان کےجہر سے سونے والے یا نماز پڑھنے والے یا قرآن پڑھنے والے کو تشویش اور خلل ہو‘‘-[32]
خفی طریقے سے ذکر کرنا
ذکرِ خفی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ‘‘[33]
’’ اور اپنے رب کو اپنے دل میں خوف اور عاجزی کے ساتھ یاد کرو اور زبان سے آواز بلند کیے بغیر صبح اور شام کو یاد کرو اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ‘‘-
حدیث پاک میں ہے کہ سب سے بہتر ذکر خفی ہے-
حرام کمائی سے مسجد بنانا :
امام احمد رضا خان قادریؒ فتاوی رضویہ میں تفسیر نسفی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
’’کہا گیا ہے کہ جو مسجد بھی تفاخر، ریاکاری، مشہوری یا طلب رضائے الٰہی کے علاوہ کسی غرض کیلئے بنائی جائے یا ناپاک مال سے بنائی جائے تو وہ مسجد ضرار سے ملحق ہو گی‘‘- [34]
فقہ حنفی کی مشہور اور مستند کتاب تنویرالابصار میں ہے کہ:
’’ ایسا چراغ مسجد میں جلانا جائز نہیں ہے ، جس میں نجس تیل ڈالا گیا ہو‘‘- [35]
حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا:
”اگر کوئی شخص حرام مال کماتا ہے اور پھر اس سے صدقہ کرتا ہے تو وہ اس کی طرف سے قبول نہیں ہوتا اور وہ اس میں سے جو خرچ کرتا ہے تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اگر وہ اسے ترکہ میں چھوڑ جاتا ہے تو وہ اس کے لیے آگ میں اضافے کا باعث بنتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ برائی کے ذریعے برائی ختم نہیں کرتا بلکہ وہ نیکی کے ذریعے برائی ختم کرتا ہے اور خبیث، خبیث کو ختم نہیں کرتا- ( بلکہ نیکی کے ذریعے خبیث کوختم کرتا ہے)“-[36]
قبضہ کی زمین پر مسجد بنانا :
مسجد کا خالص لوجہ اللہ ہونا ضروری ہے جیسا کہ محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام ؒ فتح القدیر میں لکھتے ہیں:
’’المسجد خالص للہ سبحانہ لیس لاحد فیہ حق ‘‘
’’مسجد خالص اللہ تعالی کے لئے ہے ، اس میں کسی کا حق نہیں‘‘- [37]
اس لئے مسجد کے لئے زمین کو وقف کرنا شرط قرار دیا گیا ہے اور یہ اُسی صورت میں ہی ممکن ہے- علامہ شامی فرماتے ہیں کہ :
’’واقف کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقف کے وقت اُس چیز کا مالک ہو( تاکہ وقف کامل ہو -) ‘‘
علامہ ابن عابدین شامی فتاوی شامی میں لکھتے ہیں کہ:
’’ اگر غاصب نے مغصوبہ شے کو وقف کیا تو وہ صحیح نہیں‘‘-
واقعات میں ہے جس شخص نے شہر کی فصیل پر مسجد بنائی مناسب نہیں ہے اس کے لیے کہ وہ اس میں نماز پڑھے کیونکہ یہ عام لوگوں کا حق ہے- کیونکہ یہ خالص اللہ تعالی کیلئے نہیں ہے یہ مغصوبہ زمین پر عمارت بنانے کی طرح ہے- مزید یہ کہ مسجد کیلئے زمین کا خالص اللہ کیلئے ہونا ضروری ہے - اس لئے ضروری ہے کہ پرائیویٹ یاسرکاری زمین پر بغیر وقف کامل کے مسجد نہیں بنانی چاہئے تاکہ بعد میں پیدا ہونے والے فتنہ و فساد سے بچا جا سکے -
تحیۃ المسجداورتحیۃ الوضوءکے نفل ادا کرنا:
حضرت ابو قتادہ سلمی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سیّدی رسول اللہ(ﷺ)نےارشادفرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لیا کرے‘‘-[38]
نوٹ: مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھنا ،اس نماز کو ’’تحیۃ المسجد ‘‘ کی نماز کہتے ہیں، یہ نماز مردوعورت دونوں کے لئے یکساں ہے-اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے کوئی بھی فرض یا سنت یا نفل نماز پڑھ لے تو وہ نماز تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہوجاتی ہے-اس کو تحیۃ المسجد کی نماز کا ثواب بھی مل جائے گا-
مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کے آداب ودعا:
سیّدی رسول اﷲ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :
’’جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھے:
’’اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ‘‘
’’اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے‘‘-
اور جب مسجد سے باہر آئے تو کہے:
’’اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ‘‘
’’اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں‘‘-[39]
خلاصۂ کلام:
’’مَسٰجِدَ اللہِ‘‘ اللہ تعالیٰ نے مساجد کی نسبت کو اپنی طرف کر کے مساجد کی عظمت، شان و شوکت، طہارت و پاکیزگی اور رفعت و بلندی پر مہر ثبت فرما دی ہے-اس لئے ہر مسلمان پر مساجد کا احترام اس کے تقدس کا خیال رکھنا اور اس کے آداب کو بجا لانا لازم ہے- احادیث مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ ہر وہ شئے جس سے نمازیوں کو جسمانی تکلیف کا خطرہ ہو، مالی یا اعتقادی خطرہ ہو، یا مسجد کے سامان کے نقصان کا خدشہ ہو تو ایسی ایذاء دینے والی ہر شئے کو مسجد میں جانے سے روکا جائے گا- مسجد و منبرِ رسول (ﷺ) کا تقدس امت مسلمہ پہ یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ مسجد کو نفرت انگیز مواد، تفرقہ ورانہ اسلوب و انداز، گالم گلوچ، لغو گفتگو اور فحش لطیفہ گوئی سے پاک و صاف رکھیں اور ایسے علماء اور واعظین جن کا گالم گلوچ، لغو گفتگو اور فحش لطیفہ گوئی وطیرہ بن چکا ہے ان کو روکیں-
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک مقام پر دو مساجد کا اکٹھے ذکر کیا ہے-ایک خیر اور دوسری شر کی بنیاد پر قائم کی گئی- جو شر کی بنیاد پہ قائم کی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس مسجد میں آپ (ﷺ) کو جانے سے منع فرمایا-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا ‘‘
’’ اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا ‘‘
اور جو مسجد خیر کی بنیاد پہ قائم کی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ (ﷺ) کو تشریف لے جانے کا ارشاد فرمایا- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ‘‘
’’ وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو‘‘-
ان دونوں مساجد کے ذکر میں دراصل ہمارے لئےیہ سبق ہے کہ جس طرح مسجد ضرار کا ظاہر درست تھا لیکن باطن درست نہ تھا یعنی بد نیتی اور شر کی بنیاد پہ قائم کی گئی تھی اس کو گراد یا گیا اور اس میں آقا کریم (ﷺ) کو تشریف لےجانے سے روک دیا گیا-تو ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ انسان کے ظاہر کے درست ہونے کے ساتھ جب تک انسان کا باطن اور اس کی نیت اللہ تعالیٰ کے لئے خالص نہیں ہوگی اس وقت تک اس کے ظاہر کے درستگی اس کو فائدہ نہیں دے گی اور نہ وہ وجود اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (ﷺ) کے نور کی جلوہ گاہ بن سکتا ہے-
آج ہمارے وجود، علم اور عمل سے برکت کا خاتمہ اس لئے ہو گیا ہے کہ ہم خدا نہ رہے-مسجد کا فلسفہ ہم پر یہ واضح کرتا ہےکہ زمین کا ٹکڑا اس وقت تک مسجد نہیں بن سکتا جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے لئے وقف نہ کیا جائے-جیسے ہی وہ ٹکرا وقفِ کامل ہوتا ہے اس میں برکت آجاتی ہے، اس ٹکڑے کو اللہ تعالیٰ کی نسبت حاصل ہوجا تی ہے-اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب تک ہم خود کو، اپنے علم و عمل کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف نہیں کریں اس وقت تک وجود ، علم اور عمل میں برکت نہیں آسکتی- اس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے ظاہر کےساتھ ساتھ اپنے باطن کی بھی اصلاح کرے- آئیے! حضرت صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب کے قافلے کا سنگ بنیے! اور تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب اور تجلیٔ روح حاصل کر کے خود کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کرنے کے قابل بنیے!
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو!
٭٭٭
[1]صحیح بخاری
[2]المنجد،(دارالاشاعت،کراچی،گیارھواں ایڈیشن،1994ء)،باب:س-ج-د ، ص:457
[3]النسائی، أحمد بن شعيب بن عليؒ، سنن النسائی،ایڈیشن دوم(حلب،مكتب المطبوعات الإسلامية،1406ھ)، باب: ذِكْرُ أَيُّ مَسْجِدٍ وُضعَ أَوَّلًا،رقم الحدیث:690،ج: 2،ص:32
[4]سنن ابن ماجه ، كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِيهَا
[5]المستدرک للحاکم ، كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ/ معجم الاوسط، ج:7، ص:103
[6]مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة
[7]الترمذی، محمد بن عيسى، سنن الترمذی (المتوفى: 279هـ)، ایڈیشن دوم، (الناشر: شركة مكتبة و مطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر (1395ھ) ، بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ بُنْيَانِ المَسْجِدِ،ج:2،ص:135، رقم الحدیث:319
[8]سنن ترمذی ، رقم الحدیث :1635
[9]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ، ج:1،ص:464
[10]الحج:26
[11]حکیم الامت،احمد یار خآن نعیمی بدایونی(ؒ)،نورالعرفان،(پاکستان:نعیمی کتب خانہ گجرات،اگست،2013ء)، زیر آیت الحج:26
[12]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ھ) ، بَابُ مَا جَاءَ فِي النَّظَافَةِ،ج:2،ص:489، رقم الحدیث:594
[13]ابن ماجة ،محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ،(الحلب: دار إحياء الكتب العربية) ، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ،ج:ا،ص:250-رقم الحدیث:757-
[14]الموصلی،أحمد بن علي، مسند أبي يعلى،(دمشق، دار المأمون للتراث،1404ھ)، مُسْنَدُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ،ج: 1، ص:170، رقم الحدیث: 190
[15]ابوداؤد،سليمان بن الأشعثؒ (المتوفى:275هـ)، المراسیل، (بیروت: مؤسسة الرسالة، الطبعة: الأولى، 1421ھ)، كِتَابُ اللباس، ج:1، ص:126،رقم الحدیث:126
[16]التوبۃ:18
[17]الجیلانیؓ،عبدالقادر، الفواتح الالھیۃ و المفاتح الغیبیۃ الموضحۃ للکلم القرآنیۃ و الحکم الفرقانیۃ، المسمیٰ تفسیر غوث جیلانی (الناشر،اکبربُک سیلرز ،لاہور ،پاکستان،جنوری 2019ء)،زیرآیت:التوبہ :18
[18]الترمذی، محمد بن عيسى، سنن الترمذی (المتوفى: 279هـ)، ایڈیشن دوم، (الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر (1395ھ)، بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ،ج:5،ص:277، رقم الحدیث:3093
[19]حاکم،محمد بن عبداللہؒ(المتوفى: 405هـ)، المستدرك على الصحيحين(بيروت ،دار الكتب العلمية 1411ھ)،بابٌ:فَأَمَّا حَدِيثُ عَبْدِ اللَّه بْنِ نُمَيْرٍؓ ،ج: 1، ص:169،رقم الحدیث:311
[20]ابن أبي شيبة،أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان،الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار (الناشر: مكتبة الرشد، الرياض) مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْمَسَاجِدِ، ج: 7،ص:114.رقم الحدیث: 34610
[21]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ، ج: 1،ص:464
[22]ابن ماجة ،محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ،(الحلب: دار إحياء الكتب العربية) ، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ،ج: 1،ص:262،رقم الحدیث:800
[23]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة-1422ھ)، كِتَابُ الأَذَانِ،ج :1،ص:133،رقم الحدیث:660
[24]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي ) كِتَابُ الطَّهَارَةِ، بَابُ فَضْلِ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، ج: 1، ص: 219
[25]در مختار، کتاب الطہارۃ، مطبع مجتبائی دہلی، ج:1، ص:34
[26]صحیح بخاری و مسلم
[27]رد المحتار باب ما یفسد الصلوۃ و ما یکرہ فیھا، مصطفےٰ البابی مصر
[28]سنن ابن ماجہ/ معجم الکبیر/ مجمع الزوائد
[29]البقرہ : 114
[30]فتاوی رضویہ ج 16 ،ص 328، رضا ء فونڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ ،لاہور ،پاکستان
[31]البخاري ، کتاب : الصلاۃ، باب: الذکر بعد الصلوۃ، مسلم ، کتاب : المساجد ومواضع الصلاۃ، باب : الذکر بعد الصلاۃ،
[32]در المختار، ج:1، ص:444، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1407ھ
[33]الاعراف:205
[34]فتاوی رضویہ ج 16 ،ص 328، رضا ء فونڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ ،لاہور ،پاکستان
[35]فتاوی رضویہ ج 16 ،ص347، رضا ء فونڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ ،لاہور ،پاکستان
[36]مسند احمد / شرح السنہ
[37]فتح القدیر ، کتاب الوقف ، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ،پاکستان
[38]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة-1422ھ)، كِتَابُ الصَّلاَةِ،ج: 1،ص:96،رقم الحدیث:444
[39]القشیری،مسلم بن الحجاج(المتوفى: 261هـ)، صحیح مسلم (بیروت، دار إحياء التراث العربي) كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَ مَوَاضِعِ الصَّلَاةَ، ج:1، ص:494