احکامِ غسل

احکامِ غسل

’’غَسَلَ، یَغْسِل غَسْلًا،غُسْلًا‘‘پانی سے پاک کرنا اور میل کچیل دور کرنا ،’’الِغسْلُ وَالْغُسْلُ جمع اَغْسَالٌ‘‘ دھونے کی چیز جیسے صابن وغیرہ‘‘- [1]فقہاء کی اصطلاح میں اس سے مراد(پورے) بدن کو دھونا ہے‘‘- [2]

فضیلت و اہمیت غسل:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا‘‘[3]

’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو خوب ستھرے ہو لو‘‘-

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نےارشاد فرمایا:

”ہفتہ میں ایک روز غسل کرنا ہر مسلمان پر حق (لازم) ہے، جس میں وہ اپنا سر اور جسم (اچھی طرح) دھوئے‘‘-[4]

حضرت سمرہ بن جندب (رضی اللہ عنہ)بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نےارشاد فرمایا:

”جس شخص نے جمعہ کےدن وضو کیا تو اس نے اچھا کیا، اور جس نے غسل کیا تو غسل کرنا افضل ہے‘‘- [5]

حضرت ابو ہریرہ(رضی اللہ عنہ)سے مروی ہےفرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایمان والے ہونے کی نشانی ہے:

  1. ’’سردی کی رات میں کسی کو احتلام ہو اور وہ غسل کے لیے کھڑا ہو جائے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہ دیکھے-
  2. گرمی کے دن میں روزہ رکھنا-
  3. کسی شخص کا بیابان جگہ میں نماز پڑھنا جہاں اس کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہ دیکھے‘‘-[6]

حضرت ابوسعید خُدری (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے  ارشادفرمایا:

’’ ہر بالغ پر جمعہ کا غسل لازم ہے‘‘-[7]

اقسامِ غسل:

غسل کی چار اقسام بیان کی جاتیں ہیں:غسلِ فرض، غسلِ واجب ، غسلِ سنت اورغسلِ مستحب [8]

غسلِ فرض:تین چیزوں سے غسل فرض ہوجاتا ہے

  1. جنابت سے غسل کرنا (یعنی جماع کرنے سے یا احتلام ہو جانے کی صورت میں)
  2. عورت کےایامِ حیض کے ختم ہونے کے بعد غسل کرنا-
  3. نفاس کی مدت گزرنے کے بعدغسل کرنا -

غسلِ واجب:میت کو غسل دینا واجب ہے -

غسلِ سنت:چار کاموں کے لئے غسل کرنا سنت ہے-

  1. جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا-
  2. عیدین کی نماز کے لئے غسل کرنا-
  3. حج یا عمرہ کا احرام کے لئے غسل کرنا-
  4. (حج کرنے والوں کے لئے )میدانِ عرفات میں (زوال کے بعد )غسل کرنا-

غسلِ مستحب:

درج ذیل کاموں کے لئےغسل کرنا مستحب ہے-

  • جو آدمی پاکیزگی کی حالت میں مسلمان ہوا ہو-
  • مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت -
  • قربانی کی صبح مزدلفہ میں ٹھہرنے کے لیے-
  • مدینہ طیبہ میں داخل ہونے کے لیے-
  • جو شخص جنون(یا بیہوشی ) سے صحت یاب ہوا ہو-
  • جو بچہ عمر کے اعتبار سے بالغ ہوا ہو-
  • میت کو غسل دینے کے بعد -
  • حجامہ (پچھنے لگانے)کروانے کے بعد-
  • لیلۃ القدر میں، جب اسے دیکھے-
  • گناہوں سے توبہ کرنے والے کے لیے-
  • اس شخص کی لئے جو سفر سے واپس آئے -
  • مستحاضہ والی عورت ،جب اس کا خون رکے-
  • مقام جمرہ پر کنکریاں مارنے کے لیے تینوں دن-
  • وہ  شخص  جو لوگوں کے اجتماع میں شرکت کرنا چاہے-
  • شب براءۃ میں-
  •  سورج اور چاند گرہن کی نماز کیلیے
  • نماز استسقاء کے لیے-
  • خوف یا گھبراہٹ کے وقت -
  • دن میں سخت اندھیرے کے وقت-
  • تیز آندھی کے وقت-
  • جو شخص نئے کپڑے پہنے -[9]

فرائضِ غسل:

غسل کے تین فرض ہیں :

  1. کلی کرنا(غراغرہ کرنا)
  2. ناک میں پانی ڈالنا(نرم ہڈی تک)
  3. سارے بدن پر پانی بہانا تاکہ کوئی جگہ خشک نہ رہے-[10]

غسل کی سنتیں:

  • بسم اللہ کے ساتھ ابتداء کرنا
  • (نیت کرنا)اپنے دل میں نیت کرنا اور زبان سے کہنا کہ میری یہ نیت ہے کہ یہ غسل جنابت کے دور ہونے کے لیے کرتا ہوں یایہ غسل جنابت کے لیے کرتا ہوں
  • دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھونا
  • اگر نجاست ہو تو اسے الگ طور پر صاف کرنا
  • شرمگاہ کو دھونا (استنجاءکرنا )
  • پھر وضو کرنا جیسے نماز کیلئے کیا جاتا ہے تین تین بار (اعضاء کو)دھونا اور سر کا مسح کرنا۔
  •  غسل کے بعد پاؤں کو  دھونا اگر ایسی جگہ کھڑا ہو جہاں پانی ٹھہرتا ہے ۔
  • پھر تین تین بار جسم پر پانی بہانا اگر جاری پانی میں یا اس کے اس میں جو اس (جاری پانی )کے حکم میں ہے غوطہ لگانا۔
  • پانی بہانے میں سر سے ابتداء کرنا
  • اس کے بعد دائیں کندھے کو دھونا
  • پھر بائیں کندھے کو دھونا
  • جسم کو ملنا
  • پے در پے غسل کے ارکان ادا کرنا[11]

آدابِ غسل:

غسل کے آداب وہی ہیں جو وضو میں ہیں سوائے اس کے کہ قبلہ کی طرف منہ نہ کرے اگر سترِ عورت کو ڈھانپے بغیر غسل کر رہا ہو اور اگر ڈھانپا ہوا ہو تو حرج نہیں-[12]

غسل کے دوران ساتھ والے شخص سے کلام نہ کرنا مستحب ہے-[13]

 ایسی جگہ پر غسل کرے جہاں اسے کوئی نہ دیکھے -[14]

غسل میں پانی کی مقدار:

غسل میں پانی کی مقدار ایک صاع جبکہ وضو میں ایک مُد ہے-وضو اور غسل میں پانی کی اتنی مقدار مقرر کرنا اس حیثیت سے لازم نہیں ہے کہ اس سے کم یا زیادہ جائز نہ ہو بلکہ یہ پانی کی کم از کم مقدار بیان کی گئی ہے جو عادتاً کافی ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر کسی نے وضو یا غسل کیا اس سے کم مقدار پانی کے ساتھ تو اس کے لیے جائز ہے اور اگر اتنی مقدار کافی نہ ہو تو اس پر زیادتی کر سکتا ہے کیونکہ لوگوں کی طبیعتیں اور احوال مختلف ہوتے ہیں- [15]

وہ چیزیں جو جنابت کی حالت میں منع ہیں:

  • مسجد میں داخل ہونا -
  • طواف کعبہ کرنا-
  • قرآن پاک کی قرائت کرنا( جب اس کی قراءت کا قصد کرے -)
  • قرآن پاک کو چھونامگر غلاف کے ساتھ چھو سکتا ہے- [16]
  • ایسے درہم کو چھونا جس پر آیت لکھی ہوئی ہو (اور اسی طرح ایسی چیزکو چھونا جس میں قرآن مجید کی ایک پوری آیت لکھی ہوئی ہو)-
  • قرآنِ مجید کی کتابت کرنا- [17]

غسل کے مکروہات:

  • پانی میں اسراف (فضول خرچی )کرنا-
  • نجس جگہ پر غسل کرنا-
  • دیوا ر وغیرہ کے پردے کے علاوہ غسل کرنا-
  • کھڑے ہوئے پانی میں غسل کرنا- [18]

غسل کا مسنون اور مستحب طریقہ:

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا)بیان کرتی ہیں کہ:

’’حضور نبی اکرم(ﷺ) جب غسل جنابت فرماتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر استنجاء کرتے، اس کے بعد مکمل وضو کرتے، پھر پانی لے کر سر پر ڈالتے اور انگلیوں کی مدد سے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچاتے- پھر جب دیکھتے کہ سر صاف ہو گیا ہے تو تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے، پھر تمام بدن پر پانی ڈالتے اور پھر پاؤں دھو لیتے‘‘- [19]

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں غسل کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے:

نیت کرے،بسم اللہ سے ابتداء کرے،دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھوئے،اگر بدن پر نجاست لگی ہو تو اسے دھوئے،استنجاء کرے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو،پھر وضو کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے، اگر ایسی جگہ کھڑا ہے جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو پاؤں آخر میں غسل کے بعد دھوئے،تین بار سارے جسم پر پانی بہائے،پانی بہانے کی ابتداء سر سے کرے،اس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے،پھر بائیں کندھے کی طرف پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین بار پانی ڈالے،وضو کرتے وقت اگر پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھو لے-تالاب یا نہر میں غسل کرنا ہوتو پہلے کلی کریں پھر ناک میں پانی ڈال کر خوب صاف کریں اور تھوڑی دیر اس میں ٹھہرنے سے غسل کی سب سنتیں ادا ہو جائیں گی-  اگر تالاب اور حوض یعنی ٹھہرے ہوئے پانی میں نہائیں تو بدن کو تین بار حرکت دینے یا جگہ بدلنے سے غسل ہو جائے گا-

مسائلِ غسل:

آخر روزمرہ پیش آمدہ مسائل میں سے کچھ مسائل کو لکھنے کی سعی کرتے ہیں :

ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں کہ:

’’ حضور نبی رحمت(ﷺ) غسل کے بعد وضو کا اعادہ نہ فرماتے ‘‘-[20]

  • زبان کی جڑ اور حلق کے کنارے تک اگر پانی نہ پہنچے تو غسل نہ ہو گا بلکہ فرض ہے کہ داڑھوں کے پیچھے، گالوں کی تہہ میں، دانتوں کی جڑ اور کھڑکیوں میں، زبان کی ہر کروٹ میں، حَلْق کے کنارے تک پانی بہے وگرنہ غسل نہ ہو گا -[21]
  • اگر کوئی سخت چیز جو دانتوں کی جڑ یا کھڑکیوں وغیرہ میں حائل ہو کہ جسم تک پانی کے بہنے کو روکے تو اس کو جدا کرنا لازم ہو گا-ہاں اگر اس کے جدا کرنے میں ضرر و اذیت ہو تو جب تک اذیت و ضرر رہے تو معافی ہو گی -[22]
  • جب کھانا دانتوں کے اندر رہ جائے تو یہ غسل کے مکمل ہونے میں رکاوٹ نہیں لیکن اسے چاہیئے کہ اس جگہ سے کھانے کو نکال کر وہاں پانی کو جاری کرے- [23]
  •  علماء فرماتے ہیں کہ اگر ناک کے اندر کثافت جمی ہے تو لازم ہے کہ پہلے اسے صاف کر لے،ورنہ اس کے نیچے پانی نہیں پہنچے گا تو غسل نہ ہو گا -[24]
  • عورت کے بال اگر گندھے ہوئے ہوں تو ان کو کھولنا ضروری نہیں اگر بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے بخلاف مرد کے کہ اس کے لئے کھولنا ضروری ہو گا-اور اگر عورت کے بال گندھے ہوئے نہ ہوں تو سارے بالوں کو دھونا واجب ہو گا -[25]
  • اس بات پر اتفاق ہے کہ(جسم کی ) میل غسل اور وضو کی تکمیل میں رکاوٹ نہیں ہے- [26]
  • اگر جنبی شخص کے غسل کرتے ہوئے غسل کے پانی کے چھینٹے پانی کے برتن میں گر جائیں تو پانی ناپاک نہ ہو گا-لیکن اگر پانی بہہ کر برتن میں گرا تو اس پانی سے غسل جائز نہ ہو گا -[27]
  • جس پر غسل فرض ہو اگر اس نے قرآن مجید کی کسی آیت یا اس کا کچھ حصہ تلاوت کی نیت سے نہ پڑھا تو کوئی حرج نہیں جیسے اگر کسی نے شکر کے طور پر ’’الحمد للہ‘‘ کہا یا کسی نے ’’بسم الله الرحمٰن الرحيم“کی تلاوت کی اور اس سے افتتاحِ کلام کا ارادہ کیا- [28]
  • جس پر غسل فرض ہو اس کے لئےہجوں کے ساتھ قرآن پڑھنا مکروہ نہیں ہے -[29]
  • مذی، ودی اور اگراحتلام ہوا لیکن تری نہ دیکھی گئی تو غسل فرض نہ ہو گا- [30]
  • اگر کوئی شخص جاری پانی میں وضو اور غسل کی مقدار ٹھہرا تو اس نے اپنی ساری سنتوں کو مکمل کر لیا- [31]
  • جنبی کے لئے قنوت پڑھنا مکروہ نہیں ہے اور ہاتھ منہ دھونے کے بعد کھانا پینا بھی مکروہ نہیں ہے- [32]
  • غسل مجنوں پر واجب (فرض) ہےجس کو افاقہ ہو (اگر اس نے رطوبت دیکھی ہو)- [33]
  • زندہ مسلمان لوگوں پر با لاجماع فرضِ کفایہ ہے کہ وہ مسلمان میت کو غسل دیں سوائے خنثیٰ مشکل کہ اسے تیمم کرایا جائے گا- [34]
  • جنبی کے لئے مناسب ہے کہ غسل کے وقت اپنی انگلی ناف میں داخل کرے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ انگلی داخل کئے بغیر پانی ناف تک پہنچ جائے گا تو کافی ہے- [35]
  • اگر جنبی غسل میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا تو کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا اعادہ کر لے -[36]
  • اگر کوئی شخص جاری پانی میں وضو اور غسل کی مقدار ٹھہرا تو اس نے ساری سنتوں کو مکمل کر لیاوگرنہ نہیں-[37]
  • تیل وغیرہ کی چکناہٹ طہارت سے مانع نہیں ہے -[38]
  • طہارت سے مانع نہیں ہے خشک مٹی اور گیلی مٹی اگرچہ وہ ناخن میں مطلقا لگی ہوئی ہو خواہ وہ شخص دیہاتی ہو یا شہری -نہ کہ گوندھا ہوا آٹا(اگرلگا ہوا ہو تویہ طہارت سے مانع ہے) -[39]
  • اگررنگ ، رنگ ساز کے ناخنوں پر لگا ہوا ہوتوطہارت سے مانع نہیں ہے اگر چہ ناخنوں کے درمیان میں بھی لگا ہوا ہو- [40]
  • جلد سے جڑے ہوئے مصنوعی بالوں کے بارے میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر یہ بال جلد کے ساتھ جڑ گئے ہیں یعنی انہیں ظاہرا اُگی ہوئی شکل یا مستقل پیوستگی کی شکل میں کر دیا گیا ہے تو وہ اصل بالوں ہی کے حکم میں ہوں گے بشرط کہ وہ بال کسی ناپاک اور حرام چیز سے نہ بنائے گئے ہوں یا کسی حرام جانور کے نہ ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ جن مواقع پر اصل بالوں کے لیے مسح کافی ہے وہاں ان پر بھی مسح کافی ہوگا اور جہاں اصلی بالوں کو دھونا اور ان کی جڑوں تک پانی کا پہنچانا ضروری ہے وہاں ان کی جڑ تک بھی پانی پہنچانا ضروری ہوگا- مگر ایسے بال جو جلد سے جدا ہو جاتے ہوں تو ان کو ہٹا کر سر دھونا ضروری ہوگا-
  • غسل کرتے وقت احتیاط برتنی چاہیے کہ کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے، خاص طور پر ان مقامات پر جہاں پانی پہنچنے میں دشواری ہو جیسے کہ جسم کے تہہ دار حصے، کانوں کے اندرونی حصے، ناف اور انگلیوں کے درمیان کی جگہیں- [41]
  •  جس پانی سے وُضو جائز ہے اس سے غُسل بھی جائز اور جس سے وُضو ناجائز غُسل بھی ناجائز- [42]
  • اگر کسی نے پچھنا لگوایا  اس کا کوئی عضو ٹوٹ گیا تو اس نے اس پر کپڑے کا ٹکڑا یا دو لکڑیاں رکھ کر پٹی باندھی اور اس عضو کو دھونہیں سکتا اور نہ ہی اس پر مسح کر سکتا ہے تو اس پر لازم  ہے کہ جس چیز کے ساتھ اس نے عضو کو باندھا ہے وہ اس کے اکثر حصے پر مسح کرے-[43]

یعنی اگر پٹی پر پانی بہانا نقصان  دہ ہو تو ہاتھ کے جتنے حصے پر پٹی  ہے اتنے حصے پر کوئی پلاسٹک باندھ لے اور دوسرے ہاتھ سے پانی بہا کر  غسل کرلے تو اس طرح  غسل ہوجائے گا اور پٹی والا ہاتھ گیلا بھی نہیں ہوگا، غسل سے فارغ ہوکر پٹی والے ہاتھ سے پلاسٹک اتار کر پٹی پر مسح کرلے تو اس آدمی کا واجب غسل ادا ہو جائے گا-اسی طرح وضو میں بھی پٹی والا ہاتھ دھونے کے بجائے پٹی پر مسح کرلے تو وضو ہوجائے گا اور پٹی پر پانی بہانا نقصان نہ کرتا ہو (مثلاً:پلستر چڑھا ہو) تو پلاسٹک چڑھائے بغیر ہی پٹی کے اوپر پانی بہانے یا گیلا ہاتھ پھیر دینے سے وضو اور غسل ادا ہوجائے گا-

  • اگر نیل پالش کے اجزائے ترکیبی  میں کوئی حرام اور ناپاک چیز شامل نہیں ہے تو اس کا استعمال جائز ہے-اگر کوئی خاتون باوضو ہے اور اس نے وضو کی حالت میں ایسی نیل پالش استعمال کی ہے، جس میں کوئی ناپاک اور حرام چیز شامل نہیں ہے، تو جب تک وہ پہلا وضو قائم ہے، وہ نماز پڑھ سکتی ہے- ہماری معلومات کے مطابق نیل پالش سے ناخن پر کیمیکل کی ایک سطح جم جاتی ہے جو چکناہٹ کی وجہ سے واٹر پروف ہوتی ہے یعنی وضو کا پانی اس میں سرایت کر کے ناخن کی اصل سطح تک نہیں پہنچ  پاتا-ایسی صورت میں جب تک نیل پالش کو کُھرچ کر صاف نہ کر دیا جائے ، وضو نہیں ہوگا اور اگر کوئی ایسی نیل پالش مارکیٹ میں دستیاب ہے جس میں کوئی ناپاک اور حرام چیز شامل نہیں ہے اور اس کے لگانے کے بعد پانی اس میں سے سرایت کر کے ناخن کی اصل سطح تک پہنچ جاتا ہے تو اس کےاستعمال سے وضو ہو جائے گا‘‘-[44]
  •  پکانے والے کے ناخن میں آٹا ،لکھنے والے کے ناخن وغیرہ  پر سیاہی کا جِرم ،عام لوگوں  کے لیے مکھی  مچھر کی بیٹ اگر لگی ہوتو غسل ہوجائے گا، ہاں اگر بعد میں معلوم ہو اس جگہ  کو دھونا ضروری ہے پہلے جو نماز پڑھی  ہے وہ ہو جائے گئی-[45]
  • اگر سفر کے دوران غسل واجب ہونے کی صورت میں   پانی  میسّر نہ ہونے کی وجہ سے غسل کرنا ممکن نہ ہو تو پھر تیمم کر کے نماز پڑھنا  جائز  ہےاور پانی کا انتظام ہوتے ہی غسل کرلینا چاہیے- اسی طرح پانی کے استعمال کی وجہ سے بیمار ہوجانے یا بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو   تو پھر غسل کی بجائے محض تیمم کرکے نماز ادا کرلی جائے (البتہ ظاہری نجاست دور کرلے اور کپڑے بھی تبدیل کرلے )[46]

خلاصہ کلام:

اسلام اللہ تعالیٰ کا واحد مذہب ہے کہ جس پر عمل کرنے کا فائدہ تو انسان کو ہوتا  ہے اور راضی اللہ تعالیٰ ہوتا ہے- آپ صرف غسل کو دیکھ لیں کہ غسل کرنے سے جسمانی اور ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں-اس سے انسان بہت سی جسمانی بیماریوں سے بچ سکتا ہے-جیسا کہ غسل جسم کی جلد کوپاک و صاف رکھتا ہے- پسینہ اور دیگر آلودگیوں کی میل کچیل کو ہٹاتا ہے، جس سے جلد کی صحت بہتر ہوتی ہے اور جلد کے مسائل اور انفیکشنز کا خطرہ کم ہوتا ہے-دینِ اسلام میں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کو بہت زیادہ پسند کیا گیاہے جیسا کہ سیّدنا رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایاہے کہ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ -[47]

صفائی سےنہ صرف جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ دینی فوائد بھی حاصل ہوتےہیں بشرطیکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں غسل کیا جائے-عبادات میں بھی طہارت ایک لازمی جزو ہے-لہٰذا غسل کے فرائض اور سنتوں کا خیال رکھتے ہوئے اس کا اہتمام کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے تا کہ عبادت کی قبولیت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو-سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھو (رضی اللہ عنہ)ارشادفرماتے ہیں:

’’مذکرطالب ِمولیٰ وہ ہے جو دنیا سے وضو اور آخرت سے غسل کر لیتا ہے اور اپنا مال و اسباب، اولاد و گھر بار اور جان و دل اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتا- پس ذاکر ِقلب وہ ہے جو اپنے دل میں غیر ما سویٰ اللہ کی طلب نہیں رکھتا ورنہ وہ کلب(کتا)ہے‘‘-[48]

آخر میں شہنشاہ بغدادمحبوب سُبحانی ،شہبازِ لامکانی سیدنا حضورالشیخ عبدالقادر الجیلانی الحسنی والحسینی ؒ کے اس فرمان مبارک کے ساتھ اپنی معروضات کو سمیٹتے ہیں:

’’طہارت دوقسم کی ہے: (1)طہارتِ ظاہر جس کا تعلق شریعت سے ہے اور وہ پانی سے حاصل ہوتی ہے-

(2) طہارت باطن جو توبہ،تلقین، تصفیۂ قلب اور سلوک طریقت سے حاصل ہوتی ہے‘‘-[49]

٭٭٭


[1]المنجد،(دارالاشاعت،کراچی،گیارھواں ایڈیشن،1994ء)

[2]ابن عابدين ،محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز،رد المحتار على الدر المختار،ایڈیشن دوم،(الناشر: دار الفكر-بيروت،1412هـ)۔ ج:1،ص:151

[3]المائدہ : 6

[4]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ)،بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ؟،ج:2،ص:5،رقم الحدیث:897

[5]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی (المتوفى: 279هـ) ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر (1395ھ)، بَابٌ فِي الْوُضُوءِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،ج:2،ص:369،رقم الحدیث:497

[6]البیھقی،أحمد بن الحسين، شعب الایمان، ایڈیشن اول،(الریاض:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع، 1423ھ)،ج: 4،ص:270،رقم الحدیث:2502

[7]صحیح البخاری،کتاب الاذان،رقم الحدیث:858

[8]الكاسانی، أبو بكر بن مسعود بن أحمد (المتوفى: 587هـ)، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، الطبعة: الثانية (دار الكتب العلمية، 1406ھ)، فَصْلٌ الْغُسْلُ ،ج: 1،ص:35

[9]رد المحتار ،ج: 1،ص:169

[10]ابن نجيم،زين الدين بن إبراهيم بن محمد (المتوفى: 970ھ)۔البحرالرائق شرح کنزالدقائق(الناشر: دار الكتاب الإسلامي)،ج:1،ص:48

[11]الشرنبلالي حسن بن عمار بن علي (المتوفى: 1069هـ)نور الإيضاح ونجاة الأرواح الناشر: المكتبة العصرية،  ج:1، ص:29

[12]حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح،ج:1، ص:105

[13]الطحطاوی، أحمد بن محمد بن إسماعيل(متوفي 1231 هـ) حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح الناشر: دار الكتب العلمية بيروت الناشر: دار الكتب العلمية بيروت – لبنان،  ج:1 ، ص:106

[14]مراقي الفلاح ،ج:1،ص:47

[15]بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ،ج:1،ص:35

[16]أبو الحسن،علي بن أبي بكر(المتوفى: 593هـ)، الهداية، الناشر: دار احياء التراث العربي - بيروت – لبنان،ج:1،ص:33

[17]ظہیر الدین عبد الرشید بن ابی حنیفۃ(المتوفی:540ھ)،فتاوی الولوالجیۃ،دار الکتب العلمیۃ بیروت،ج:1،ص:51

[18]السدلان صالح بن غانم بن عبد الله بن سليمان بن علي رسالة في الفقه الميسرالناشر: وزارة الشؤون الإسلامية، ج:1، ص:24

[19]القشیری،مسلم بن الحجاج(المتوفى: 261هـ)، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربي )، بَابُ صِفةِ غُسْلِ الْجَنَابَةِج:1،ص:253

[20]سُنن الترمذن،ابواب الطھارۃ،ج: 1،ص:179

[21]احمد رضا خان (1921ء)، فتاویٰ رضویہ، ( لاہور، رضا فاؤنڈیشن  جامعہ نظامیہ رضویہ )،ج:1،ص:593

[22]ایضاً

[23]قاضی خان ،الامام فخرالدین ابی المحاسن بن منصور الاوذجندی الفرغانی ،فتاوٰی قاضی خان ، مکتہ اعلیٰ حضرت  ، ج: 1 ،ص:144

[24]فتاویٰ رضویہ،ج:1،ص:596

[25]عثمان بن علي(المتوفى: 743 هـ)، تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ، الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية – القاهرة(ایڈیشن اولیٰ:1313ھ)،ج:1،ص:14-15

[26]ایضاً

[27]سرخسی،محمد بن أحمد، المبسوط (بیروت:دارالمعرفۃ،1414ھ)،ص:151

[28]محمود بن أحمد (المتوفى: 616هـ)، المحيط البرهاني ،الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت، ج:1،ص:89

[29]ایضاً

[30]حافظ الدین النسفی ،الامام ابی البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود ،(المتوفی :710ھ) البحر الرائق مکتبہ رشید یہ، ج: 1، ص:144

[31]فخر الدين الزيلعي (المتوفى: 743 هـ) , تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق لناشر: المطبعة الكبرى الأميرية ،- بولاق،  ج:1،  ص:14

[32]ابن عابدین شامی،محمد امین بن عمربن عبدالعزیز(المتوفی1252ھ)،فتاویٰ شامی،ناشر: ضیاءالقرآن پبلی کیشنز،ج:1،ص:405

[33]فتاویٰ شامی ،ج:1،ص:389

[34]ایضاً،ص:387

[35]فتاوٰی قاضی خان ،  ج:1،ص:164

[36]جمال الدين ابومحمد علی بن ابی یحیٰ زکریا(المتوفى: 686هـ) اللباب في الجمع بین السنۃ و الکتاب،الناشر: دار القلم – بیروت ،ایڈیشن دوم (1414ھ)،ج:1، ص:129

[37]البحر الرائق شرح كنز الدقائق،ج:1،ص:54

[38]مراقی الفلاح

[39]فتاویٰ شامی،ج:1،ص:358

[40]حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح،ج:1،ص:102

[41]تفہیم المسائل

[42]بہار شریعت، ج:1، ص:104، ممتاز اکیڈمی، لاہور،  پاکستان

[43] نورالایضاح،باب المسح علی الخفین۔

[44] تفہیم المسائل،ج: 1،ص:49۔

[45] بہارشریعت،ج: 1،ص:319،

[46]الدرالمختار۔باب التیمم ۔ج: 1،ص:233

[47]صحیح مسلم،باب فضل الوضوء،ج:1،ص:203،رقم الحدیث:223

[48] عین الفقر

[49]سر الاسرار فی ما یحتاج الیہ الابرار

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر