احکامِ شرع کاماخذ"سنت" کی شرعی حیثیت

احکامِ شرع کاماخذ

احکامِ شرع کاماخذ"سنت" کی شرعی حیثیت

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی نومبر 2020

سنت کا لغوی معانی ’خصلت، طریقہ، طبیعت، شریعت‘ [1]ہے؛ اور اصطلاح میں سنت کا لفظ رسول اللہ (ﷺ) کے اقوال، افعال اور آپ (ﷺ) کی تقریر نیز صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے اقوال و افعال پہ بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے-خاص طورپر حدیث کا اطلاق آپ (ﷺ) کے اقوال پہ ہوتا ہے - [2]

اس لیے آئمہ کرام فرماتے ہیں کہ حدیث، سنت کا حصہ ہوتی ہے لیکن سنت صرف حدیث نہیں ہوتی بلکہ اس کے علاوہ بھی ہو سکتی ہے- جیسا کہ نکاح کرنا، قربانی کرنا، مسواک کرنا سنن تو ہیں لیکن احادیث نہیں-یعنی سنت اور حدیث کے درمیان عموم خصوص مطلق کی نسبت ہوئی-

قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

’’لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ‘‘[3]

’’بےشک تمہیں رسول اللہ (ﷺ)کی پیروی بہتر ہے‘‘-

تاجدارِ انبیاء سرورِ کائنات سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی حیات طیبہ تمام انسانوں کیلیے بہترین نمونہ ہے ،رسول پاک (ﷺ) کے اقوال و افعال مبارکہ اور شب و روز کے معاملات ہدایت کا سرچشمہ ہیں- درحقیقت قرآن و سنت ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں قرآن پا ک کو سمجھنا سنت کے بغیر نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے- مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کے اجمالی احکام تو قرآن مجید میں مذکور ہیں، ان کی تفصیل و وضاحت کیلیے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی سنن اور احادیث مبارکہ سے رہنمائی لینا ایک لازمی امر ہے-جس کے بغیر کوئی چارہ کارنہیں؛ اور اسلام میں کئی احکام ہیں جن کا ثبو ت ہمیں صرف سیدی رسول اللہ (ﷺ)کی سنت مبارکہ سے ملتاہے جیسا کہ نمازِ جنازہ ،اذان ،نماز عیدین وغیرھم-اب ہم ذیل قرآن وحدیث اورائمہ دین کے اقوال کی روشنی میں سنت کی حجیت واہمیت کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں-

حجیت سنت تعلیمات قرآن کی روشنی میں :

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں حضور نبی رحمت (ﷺ) کی اطاعت واتباع کرنے کا حکم مبارک کئی مقامات پہ ارشادفرمایا جیساکہ فرامینِ باری تعالیٰ ہیں :

1’’یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْا اَعْمَالَكُمْ‘‘ [4]

’’اے ایمان والو اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور اپنے عمل باطل نہ کرو‘‘-

2-’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ‘‘[5]

’’جس نے رسول (ﷺ)کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا‘‘-

3-’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘[6]

’’(اے حبیب!) آپ (ﷺ) فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘-

ان مذکورہ آیات مبارکہ میں اطاعت واتباع کا حکم ہے اور اطاعت و اتباع کا نام ہی اقوال و افعال کی پیروی کرنا ہے -عربی زبان میں اطاعت کا مطلب ہی کسی کے اقوال و افعال کی پیروی کرناہے-جیساکہ قاضی عیاض مالکیؒ اطاعت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’طَاعَةُ الرَّسُولِ فِي الْتِزَامِ سُنَّتِهِ، وَالتَّسْلِيمِ لِمَا جَاءَ بِهِ‘‘[7]

’’رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی سنت کو لازم پکڑا جائے اور جو کچھ آپ (ﷺ) احکام لائے ہیں اس کیلیے سر تسلیم خم کیا جائے‘‘-

یہاں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ قرآن پہ عمل پیرا ہونا اللہ کے حبیب مکرم (ﷺ) کی اطاعت و اتباع کے زمرے میں ہی آتا ہے- اس لیے قرآن ہی کافی ہے ؟

لیکن لفظ اتباع اوراطاعت کی لغوی و اصطلاحی بحث سے اس سوال کاجواب مل جاتاہے جیساکہ ابن منظور افریقی نے اپنی لغت کی شہرہ آفاق کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں امام فراء کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

’’الاتِّبَاعُ أَن يَسِير الرَّجُلُ وأَنت تَسِيرُ و راءَه، فإِذا قُلْتَ أَتْبَعْتُه فكَاَنَّكَ قَفَوْتَه‘‘[8]

’’کوئی شخص آگے چل رہاہواورتو ا س کے پیچھے پیچھے چلے اور اگر کہے کہ میں نے اس کی اتباع کی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تو اس کے پیچھے پیچھے اور اس کے نقش ِ قدم پہ چلا‘‘-

ا س کا اصطلاحی معانی امام ابوالحسن الآمدی نے یوں بیان کیاہے کہ:

’’أَمَّا الْمُتَابَعَةُ، فَقَدْ تَكُونُ فِي الْقَوْلِ وَقَدْ تَكُونُ فِي الْفِعْلِ وَالتَّرْكِ، فَاتِّبَاعُ الْقَوْلِ هُوَ امْتِثَالُهُ عَلَى الْوَجْهِ الَّذِي اقْتَضَاهُ الْقَوْلُ.وَالِاتِّبَاعُ فِي الْفِعْلِ هُوَ التَّأَسِّي بِعَيْنِهِ‘‘ [9]

’’متابعت کبھی کسی کے قول کی ہوتی ہے اورکبھی کسی کے فعل وترک کی ،کسی کے قول کے اتباع کامعنی تو یہ ہے کہ اپنے متبوع (یعنی جس کی اتباع کی جا رہی ہے) کی اس طرح فرمانبرداری کی جائے جس طرح ا س کے قول کا تقاضا ہو اور کسی کے فعل کے اتباع کامعانی یہ ہے کہ اس کے اس فعل کو اس طرح کیا جائے جس طرح وہ کرتاہے‘‘-

 اتباع کے بعد اطاعت کے اصطلاحی معانی کو بیان کیا جاتا ہے- اما م ابوالحسن الآمدی فرماتے ہیں:

’’وَمَنْ أَتَى بِمِثْلِ فِعْلِ الْغَيْرِ عَلَى قَصْدِ إِعْظَامِهِ، فَهُوَ مُطِيعٌ لَهٗ‘‘[10]

’’جب کوئی شخص کسی دوسرے کی عزت و احترام کے باعث بعینہ ٖاس کے فعل کی طرح کوئی فعل کرے تو کہتے ہیں کہ یہ شخص فلاں شخص کا مطیع (یعنی اطاعت کرنے والا ) ہے‘‘-

قاضی عیاضی مالکیؒ رقمطرارہیں :

’’وَقَالَ الزَّجَّاجُ مَعْنَاهُ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ الله أَنْ تَقْصِدُوا طَاعَتَهُ فَافْعَلُوا مَا أَمَرَكُمْ بِهِ إِذْ مَحَبَّةُ الْعَبْدِ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ طَاعَتُهُ لَهُمَا وَرِضَاهُ بِمَا أَمَرَا--- كَمَا قَالَ الْقَائِلُ :

لَوْ كَانَ حُبُّكَ صَادِقًا لَأَطَعْتَهُ
إِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيعُ‘‘[11]

’’زجاج فرماتے ہیں کہ ’’إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ‘‘ کا معانی یہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا دم بھرتے ہو تو جو حکم وہ دیتاہے اس کو کرو-اس لیے کہ بندے کا اللہ عزوجل اور اس کے رسول (ﷺ) کی محبت کا دعوٰی کرنا یہی ہے کہ وہ دونوں کی فرمانبرداری اور پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اسی میں ہے کہ جووہ حکم دے اس پر عمل کیاجائے---جیساکہ شاعر نے کہا: اگر تیری محبت سچی ہوتی تَو تُواس کی ضرور اطاعت کرتا-بیشک محب جس سے محبت کرتا ہے اس کا فرمانبردار ہوتا ہے ‘‘-

4-’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘‘[12]

’’پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول (ﷺ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو‘‘-

5-’’وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج وَاتَّقُواللہَ ط اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘[13]

’’اور جو کچھ رسول(ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول (ﷺ)  کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے‘‘-

6-’’فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘[14]

’’پس (اے حبیب!) آپ (ﷺ)کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں‘‘-

7-’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo‘‘[15]

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے-اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘-

اہمیتِ سنت احادیث مبارکہ کی روشنی میں :

1-ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)سے مروی ہے:

’’صَنَعَ النَّبِيُّ (ﷺ) شَيْئًا تَرَخَّصَ فِيهِ، وَ تَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ (ﷺ)، فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ فَوَاللهِ إِنِّي أَعْلَمُهُمْ بِاللهِ وَ أَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً‘‘[16]

’’رسول اللہ (ﷺ) نے ایک عمل فرمایا جس میں رخصت تھی تو اس سے باز رہنے کی بابت (یعنی نہ کرنے کے متعلق) ایک قوم نے پوچھاجب یہ حضور پاک (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں پہنچی تو آپ (ﷺ) نےاللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو کیاہے کہ جس کام کو میں نے کیاہے اس سے باز رہے ہیں -اللہ عزوجل کی قسم !مجھے ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی زیادہ معرفت ہے اور مجھے ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کا خوف بھی زیادہ ہے ‘‘-

2- حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے:

’’دَعُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَاأَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ ‘‘[17]

’’جن کا موں کو میں نے تر ک کردیا ہے ان کاموں کو چھوڑ دو- کیونکہ تم سے پہلی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ وہ اپنے انبیاء کرام (رضی اللہ عنھم)پر بہت زیاد ہ سوالات کرتی تھیں اور ان سے اختلاف کرتی تھیں پس جب میں تمہیں کسی کام سے منع کروں تو تم اس سے اجتناب کرو اورجب میں تمہیں کسی کام کا حکم کروں تو اس کا م کو اپنی قوت اورطاقت کے مطابق بجالاؤ‘‘-

3- ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّ بني إسرائيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَ تَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ  أَصْحَابِي‘‘[18]

’’بے شک بنی اسرائیل بہتّر جماعتوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنمی ہوں گے ایک کے سوا،عرض کیا گیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! وہ ایک فرقہ کون ہوگا؟ فرمایا:جس طریقے پر آج میں اور میرے صحابہ چل رہے ہیں (وہ اسی پر گامزن ہوگا)‘‘-

4-حضرت عبد اللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) سے مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں :

’’کُنْتُ اَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ اَسْمَعُہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُرِیْدُ حِفْظَہ فَنَھَتْنِیْ قُرَیْشٌ وَقَالُوْا اَتَکْتُبُ کُلَّ شَیْئٍ تَسْمَعُہُ وَ رَسُوْلُ اللّٰہِ بَشَرٌ یَتَکَلَّمُ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا فَاَمْسَکْتُ عَنِ الْکِتَابِ فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ فَأَوْمَأَ بِاِصْبَعِہ ِ اِلٰی فِیْہِ فَقَالَ: اُکْتُبْ فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ مَا یَخْرُجُ مِنْہُ اِلَّا حَقٌّ‘‘[19]

”میں اللہ کے رسول( ﷺ )سے سنی ہوئی ہر بات لکھا کرتا تھا جس کو یاد رکھنے کا میرا رادہ ہوتا تھاتو قریش کے بعض افراد نے مجھے ہر بات لکھنے سے منع کیا اور کہا: کیا جو بھی تم اللہ کے رسول (ﷺ) سے سنتے ہو، اسے لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ اللہ کے رسول (ﷺ) ایک بشر ہیں، بعض اوقات آپ (ﷺ) ناراضگی میں کلام فرماتے ہیں اور بعض اوقات رضا مندی کی حالت میں-(حضرت عبد اللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی یہ بات سن کر)میں کتاب (لکھنے سے )رک گیا-لیکن میں نے اللہ کے رسول(ﷺ)سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ( ﷺ)نے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”لکھو!اللہ کی قسم اِس زبان سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا‘‘-

5-اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر (8ھ) حضور اکرم (ﷺ) نے خطبہ ارشاد فرمایا تو وہا ں موجودایک یمنی شخص نے جس کا نام ’’ابو شاہ‘‘ تھا اس نے حضور نبی کریم (ﷺ )کی بارگاہِ اقدس میں درخواست کی کہ یہ خطبہ اسے تحریری صورت میں مہیا کیا جائے جس پر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’اکْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ‘‘، ’’ابو شاہ کے لیے تحریر کرو‘‘-[20]

ان دونوں روایات سے کتابتِ حدیث کا ثبوت ملتاہے اور اس میں ان لوگوں کا جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) کے دورمبارک میں تو مطلق احادیث مبارکہ نہ لکھی گئیں اورنہ ہی لکھنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا-

6: حضرت عرباض بن ساریہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ‘‘[21]

’’تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت جو ہدایت یافتہ ہیں ان (یعنی میری اور ان کی سنت) کو اپنی داڑھوں سے مضبوط پکڑنا‘‘-

7-سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’اَلْمُتَمَسِّكُ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي لَهُ أَجْرُ   مِائَةِ شَهِيدٍ ‘‘[22]

’’فساد امت کے وقت میری سنت مضبوطی سے تھامنے والے کو سو شہیدوں کا ثواب ملے‘‘-

8-حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الجَنَّةِ‘‘[23]

’’جس نے میری سنت سے محبت کی بیشک اسے مجھ سے محبت ہے اور جسے مجھ سے محبت ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا‘‘-

9-حضرت عمرو بن عوف (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :

’’مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي، فَعَمِلَ بِهَا النَّاسُ، كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، لَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا،وَ مَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً، فَعُمِلَ بِهَا، كَانَ عَلَيْهِ أَوْزَارُ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِ مَنْ عَمِلَ بِهَا شَيْئًا‘‘[24]

’’جس نے میری کسی سنت کو زندہ کیا پھر لوگ اس پر عمل پیرا ہوئے تو تمام عمل کرنے والوں کے برابر اس کو ثواب ملے گا اور ان لوگوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی؛ اور جس نے خلاف سنت نا پسندیدہ راستہ ایجاد کیا تو جتنے لوگ اس پر عمل کر کے گنہگارہوں گے سب کے گناہ اس پر اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی‘‘-

10-حضرت مجاہد (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :

’’فَمَنِ اقْتَدَى بِي فَهُوَ مِنِّي، وَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ‘‘[25]

’’پس جس نے میری اقتداء کی، وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیاوہ مجھ سے نہیں‘‘-

11-حضور نبی رحمت (ﷺ) نے اپنے غلام حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ)کو یمن کا قاضی بناکر بھیجنےکا ارادہ فرمایا تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’جب تمہیں کوئی فیصلہ درپیش ہوا تو تم فیصلہ کیسے کرو گے؟آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی (یا رسول اللہ (ﷺ) میں کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کروں گا تو حضور رسالت (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ اگر تجھے کتاب اللہ میں سے (اس کا)جواب نہ ملے؟ تو عرض کی (یا رسول اللہ (ﷺ):

’’فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ (ﷺ)‘‘[26]

’’میں اللہ کے رسول (ﷺ) کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا‘‘-

آخر میں اپنی معروضات کو سمیٹتے ہوئے اس چیز کی وضاحت ضروری سمجھتاہوں کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کئی ایسے افعال مبارکہ سر انجام دیتے جو انہوں نے محض رسول اللہ (ﷺ) کو کرتے ہوئے دیکھا یہاں اختصار کی خاطر محض ایک روایت پہ اکتفاء کرتاہوں حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) نے ایک مرتبہ حجراسود کو بوسہ دیا اور ارشاد فرمایا:

’’وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ (ﷺ) يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ‘‘[27]

’’اگر میں رسول اللہ (ﷺ) کوتجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتاتو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا‘‘-

مذکورہ بالا روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول (ﷺ) نے جو کلام بھی شرع بیان کرنے کے لیے کیا ہے وہ حق ہے، حجت ہے، وحی ہے اور قابل اتباع ہے-

اختتام :

اللہ رب العزّت نے ناچیز کو نہایت اختصار کے ساتھ چند روایات زیبِ قرطاس کرنے کا شرف عطا فرمایا ہے ورنہ اگر اس کابالاستیعاب احاطہ کیاجائے تو کئی کتب درکارہیں پھر بھی کمی کا امکان یقینی ہے - قرآن و حدیث کی ان تصریحات کی بناء پہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)تابعین، محدثین، فقہائے مجتہدین اور تمام آئمہ اہل السنہ نے سنتِ رسول (ﷺ) کی تشریعی حیثیت اور اس کی حقانیت و حجیت پر پہرا دیا ہے اور اس کی اہمیت کے پیشِ نظر تقریباً تمام محدثین کرام نےاپنی کتب میں سنت کے موضوع پر الگ ابواب رقم کیے ہیں-

سنت و حدیث کو جھٹلانے کا رحجان ناعاقبت اندیش جدیدیت پرستوں کی جانب سے بیسویں صدی کے اوائل میں بھی سامنے آیا-ان کی خام سوچ ہے کہ معاذ اللہ قرآن و سنت الگ الگ چیزیں ہے، مسلمانوں کی نجات کے لیے قرآن ہی کافی ہے- انہیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے غیبی اشارہ فرمایا :

’’لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ لَا نَدْرِي مَا وَ جَدْنَا فِي كِتَابِ اللهِ اتَّبَعْنَاهُ‘‘[28]

’’خبردار تم میں سے کسی کو وہ شخص فتنہ میں نہ ڈالے جو بستر پر ٹیک لگائے ہوئے ہے (کیونکہ وہ اپاہج ہوگا)کہ اس کے پاس میراحکم آئے جس کا میں نے حکم دیاہو یا اس سے باز رہنے کا حکم کیا ہو اس پر وہ کہے کہ میں نہیں جانتاہم نے کتاب اللہ میں نہیں پایا کہ ہم اس کی اتباع کریں‘‘-

(حضورنبی رحمت (ﷺ) کا یہ غیبی معجزہ ہے جوہوبہوثابت ہواکہ بیسویں صدی ہی میں منکر حجیت حدیث ایک معروف شخص پیدا ہوا جو کہ اپاہج تھا اور تکیہ لگائے بیٹھارہتاتھا لوگ سنتِ رسول (ﷺ) کی بات کرتے تو وہ کہتا میرے لئے قرآن کافی ہے )

ایک اورروایت میں ہے :

’’أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ، وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلَا يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ، وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ‘‘[29]

’’بغور سنو! مجھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے قرآن دیا گیا ہے اور قرآن کے ساتھ قرآن ہی جیسی (یعنی حدیث وسنت بھی) دی گئی ہے، خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آسودہ حال شخص اپنی آراستہ سیج پر بیٹھا کہے گا، اسی قرآن کو لازم پکڑو پس جو چیز اس میں از قبیل حلال پاؤ اسے حلال جانو اور جو اس میں از قبیل حرام پاؤ اسے حرام جانو، خبردار تمہارے لئے گھریلو گدھا حلال نہیں ہے اور نہ ہی شکاری درندہ‘‘- (حالانکہ صراحت سے ان جانوروں کے حرام ہونے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے)

اس حدیث سے درج ذیل امور معلوم ہوئے:

قرآن ہی کی طرح احادیث مبارکہ بھی منجانب اللہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کو عطا کی گئی اورقرآن کی طرح احادیث بھی احکام میں حجت ہیں مزید یہ کہ قرآن ہی کی طرح ان کی اتباع اور ان پر عمل پیرا ہونا لازم ہے-

اصول الشاشی میں مرقوم ہے:

’’خَبْرُ رَسُولِ اللهِ (ﷺ) بِمَنْزِلَة الْكتاب فِي حَقِّ لُزُوم الْعِلْمِ وَالْعَمَل بِهٖ‘‘[30]

’’رسول پاک (ﷺ)کی حدیث پاک لزوم ِ علم اور اس پرعمل کرنے کے اعتبار سے کتاب اللہ کے قائم مقام ہے ‘‘-

اس اہمیت کے پیشِ نظر امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ سنت رسول اللہ (ﷺ)پہ عمل کیا جائے ‘‘-[31]

پیغام آخر:

اس دور میں جب مادیت اپنے پنجے معاشرے میں مضبوطی سے گاڑ چکی تھی اور امت مسلمہ اس کی لپیٹ میں آچکی تھی ظاہری سنن مبارکہ پر بھی رسم و رواج کی حد تک عمل کیا جانے لگا (الا ماشاء اللہ )- بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سخی سلطان محمد اصغرعلی صاحبؒ نے اصلاحی جماعت کی بنیاد قائم فرما کر نہ صرف ظاہری سنن کا احیاء فرمایا بلکہ باطنی سنن (ترک، توکل، عجز، انکساری،قلبی ذکر اللہ، مہاجرۃ الی اللہ وغیرہ) کو ازسرنو زندہ کیا- آج بھی جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس آپؒ کی تعلیمات اور اس پیغام ابدی کو مزید دنیا کے کونے کونے تک پہنچا رہے ہیں-آپ مدظلہ الاقدس نے مدارس،سکولز اور مختلف شعبہ جات کا قیام عمل میں لاکر عوام الناس کے لیے دین ِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی فہم کے راستوں کو مزید آسان فرما دیا ہے- اللہ رب العزت ہم سب کو اس پاکیزہ مشن کی فہم اور اس سے مستفیض ہونے کی توفیق خاص مرحمت فرمائے -

٭٭٭


[1](المنجد،ص:494،دارالاشاعت،کراچی)

[2]( نور الانوار،ص:187،مکتبۃ الحسن،لاہور)

[3]( الاحزاب:21)

[4]( سورہ محمد:33)

[5](النساء:80)

[6](آل عمران:31)

[7]( الشفا بتعريف حقوق المصطفےٰ(ﷺ)، ج:2، ص:11)

[8](لسان العرب، ج:8، ص:27)

[9]( الإحكام في أصول الأحكام لآمدی، ج:1، ص:172)

[10](ایضاً،  ص:176)

[11]( الشفا بتعريف حقوق المصطفےٰ(ﷺ)، ج:2، ص:15)

[12]( النساء:59)

[13]( الحشر:7)

[14]( النساء:65)

[15]( النجم:3-4)

[16](صحیح بخاری، كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ)

[17](ایضاً)

[18]( سنن الترمذی ،ابواب الایمان)

[19]( سنن ابی داؤد،کتاب العلم)

[20](ایضاً)

[21](سنن أبی داود، کتابُ السنۃ، بَابٌ فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)

[22](الإبانۃ الكبرى لابن بطہ، بَابُ مَا أُمِرَ بِهِ مِنَ التَّمَسُّكِ بِالسُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ  وَالْأَخْذِ بِهَا، وَفَضْلِ مَنْ لَزِمَهَا)

[23](سنن الترمذی، بَابُ مَا جَاءَ فِي الأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ البِدَعِ)

[24]( سنن ابن ماجہ ، بَابُ مَنْ أَحْيَا سُنَّةً قَدْ أُمِيتَتْ)

[25]( مسند الإمام أحمد بن حنبلؒ، أَحَادِيثُ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ (ﷺ)

[26]( سنن ابی داؤد، كِتَاب الْأَقْضِيَةِ)

[27]( صحیح البخاری، كِتَابُ الحَجِّ)

[28]( سنن ابی داؤد،باب لزوم السنۃ)

[29](سنن أبي داود، کتابُ السنۃ، بَابٌ فِي لُزُومِ السُّنَّةِ)

[30]( اصول الشاشی ،البحث الثآنی فی سنۃ رسول اللہ (ﷺ)

[31]( شفاء شریف ،باب اول، فصل :3)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر