اجماع کا لغوی معانی (پختہ ارادہ) اتفاق کرناہے جیسے کہا جاتا ہے: ’’اَجْمَعَ الْقَوْمُ عَلٰی کَذَا‘‘[1]
اصطلاح میں:
’’اِتِّفَاقُ مُجْتَهِدِينَ صَالِحِیْنَ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ (ﷺ) فِي عَصْرٍوَّاحِدٍ عَلَى أَمْرٍقَوْلِیٍّ اَوْفِعْلِیٍّ‘‘[2]
’’امت محمدیہ (ﷺ)کے صالح مجتہدین (اہلِ اجتہاد) کا کسی ایک وقت میں کسی ایک قول یا فعل پر اتفاق کر لینا‘‘-
اس تعریف میں بنظرِ عمیق غور کرنے سے ہمیں اجماع کے صحیح ہونے کی قیود و شروط کا بھی بخوبی علم ہو جاتا ہے جیسا کہ ’’أُمَّةِ مُحَمَّدٍ(ﷺ)‘‘کی شرط سے دوسری امتوں کا اجماع خارج ہو گیا- ’’مُجْتَهِدِينَ صَالِحِیْنَ‘‘ کی شرط سے عام لوگ نکل گئے کیونکہ اجماع و اجتہاد ہرشخص کیلیے جائز نہیں بلکہ مجتہد وہ ہے جو صالح ہو اس میں نہ تو خواہشات کاغلبہ ہو اور نہ ہی وہ فاسق ہو اور قرآن وسنت سے احکام کے استنباط کی صلاحیت بھی رکھتا ہو- جیسا کہ نظام الدین شاشیؒ فرماتے ہیں:
’’مجتہد کے لیے لازم ہے کہ جو واقعہ پیش آئے اس کے بارے میں پہلے کتاب اللہ سے حکم طلب کرے پھر سنتِ رسول اللہ(ﷺ)سے تلاش کرے خواہ وہ عبارۃ النص سے ثابت ہو یا دلالۃ النص، اشارۃ النص یا اقتضاء النص سے ثابت ہوکیونکہ جب تک نص پہ عمل کرناممکن ہو تو رائے پہ عمل کرنادرست نہیں‘‘- [3]
سلطان العارفین حضرت سلطان باھو صاحبؒ مجتہد و اجتہاد کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں:
’’روایت کے علم میں چار اِجتہادی مذاہب کے مجتہد اِماموں کے مرتبۂ اِجتہاد پر سوائے اِن چار اِماموں کے اور کوئی نہیں پہنچ سکتا اور یہ کہ وہ چاروں اِجتہادی مذاہب برحق ہیں‘‘- مَیں اِمامِ اعظم حضرت نعمان کوفی ؒ کے مذہب پر قائم ہوں‘‘-[4]
’’فِي عَصْرٍوَّاحِدٍ‘‘ کی قید سے حضور نبی کریم(ﷺ) کے دورمبارک کے بعد کسی بھی زمانے کااجماع قابل قبول ہوگا، چاہے وہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کا زمانہ مبارک ہو یا ان کے بعد کوئی زمانہ –’’عَلَى أَمْرٍقَوْلِیٍّ اَوْفِعْلِیٍّ‘‘کوئی بھی ’’امرقولی یا فعلی ‘‘ کی شرط سے دینی امر کے ساتھ ساتھ عقلی یا دنیوی علوم و فنون کے ماہرین کا اجماع اس میں شامل ہوگا-اس لیے مسائلِ فقہ میں فقہاء کا اجماع، مسائلِ نحو میں نحویوں کا اجماع، مسائلِ اصول میں اصولیین کا اجماع اور مسائلِ کلام میں متکلمین کا اجماع معتبر ہوگا-
اسی طرح ایک تعریف میں اجماع کے صحیح ہونے کے لئے سیدی حضورسالت مآب (ﷺ) کےظاہری وصال مبارک کے بعد کی قید لگائی گئی ہے اس لئے وہ اجماع صحیح ہوگا جو آپ (ﷺ) کے دور مبارک کے بعد ہو-کیونکہ آپ (ﷺ) کے ظاہری تشریف فرما ہونے کی وجہ سے کسی بھی اجماع کی نہ ضرورت تھی اورنہ گنجائش -
خلافت راشدہ کے ادوار مبارکہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) مسائل کے استنباط میں کتاب اللہ اورسنتِ رسول اللہ (ﷺ) کو ترجیح دیتے تھے- جب قرآن و سنت میں کوئی صریح وواضح حکم نہ ملتا تو آپس میں مشاورت کرتے تھے-جب وہ کسی حکم کے متعلق جماعت سے مشورہ لیتے اور متفقہ رائے سے جماعت کامشورہ قابل قبول ہوتاپس اسی طریقہ کانام اجماع تھا-اب ہم ذیل میں اجماع کے جواز کو قرآن وسنت اور دیگر آئمہ دین کے اقوال کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں -
اجماع کا جواز ’’قرآنی تعلیمات‘‘ کی روشنی میں :
1: وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ط‘‘ [5]
’’اور جو شخص رسول اللہ (ﷺ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے‘‘-
اس آیت مبارک میں غورکرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں رسول اللہ (ﷺ) کی اطاعت کرنے اور مؤمنین کے طریق پہ چلنے کا حکم مبارک ہے جوکہ بذاتِ خود اجماع کی واضح دلیل ہے-اجماع کی مخالفت کرنے والے کے لئے اللہ عزوجل کی طرف سے دو سزائیں ہیں ’’نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى‘‘دنیا میں گمراہی اور’’نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ‘‘آخرت میں جہنم کی سزا-
اس لیے قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں:
’’وَهٰذِهِ الْآيَةُ دَلِيْلٌ عَلَى حُرْمَةِ مُخَالَفَةِ الْإِجْمَاعِ‘‘[6]
’’یہ آیت مبارک اجماع کی مخالفت کے حرام ہونے پہ دلیل ہے ‘‘-
2: ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا‘‘[7]
’’اور اللہ کی رسّی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں بٹ نہ جانا)‘‘-
اس آیت مبارک کی تفسیر میں علامہ ابن جریر طبریؒ حضرت عبد الله بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے مروی ایک روایت بیان کرتے ہیں:
’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالطَّاعَةِ وَالْجَمَاعَةِ فَإِنَّهُمَا حَبْلُ اللهِ الَّذِي أَمَرَ بِهٖ، وَإِنَّ مَا تَكْرَهُونَ فِي الْجَمَاعَةِ وَالطَّاعَةِ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا تَسْتَحِبُّونَ فِي الْفُرْقَةِ‘‘[8]
’’اے لوگو!تم پر اطاعت (اللہ عزوجل اور اس کے رسول کریم (ﷺ) اور جماعت (کے ساتھ وابستگی) لازم ہے پس بے شک اللہ عزوجل کی رسی اطاعت و جماعت کی رسی ہے جس کے بارے میں حکم فرمایا گیاہے اور بے شک جس کو تم جماعت اور اطاعت میں ناپسند کرتے ہو وہ اس سے بہتر ہے جس کو تم تفرقہ بازی میں پسندکرتے ہو‘‘-
3:’’وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَّسَطًا لِتَكُونُوْا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا‘‘[9]
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (ﷺ) تم پر گواہ ہو‘‘-
اس آیت مبارک کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں:
’’اُسْتُدِلَّ بِهٖ عَلَى حُجِيَّةِالْإِجْمَاعِ لِاَنَّ بُطْلَانَ مَا اَجْمَعُوْا عَلَيْهِ يُنَافِىْ عَدَالَتَهُمْ‘‘[10]
’’اس آیت مبارک سے اجماع کی حجیت پہ استدلال کیا گیا ہے کیونکہ جس چیز پر انہوں نے اجماع کیا اس کا باطل ہونا ان کی عدالت کے منافی ہے‘‘-
4:’’كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ‘‘[11]
’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘-
امام ابوبکر جصاصؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کئی وجوہ سے حجیتِ اجماع پر دلالت کررہی ہے:
’’ پہلی وجہ یہ ہے کہ ’’كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ‘‘ فرما کر اس امت کی تعریف کی گئی ہے یہ اللہ عزوجل کی طرف سے تعریف کی مستحق اس وقت ہوسکتی ہے جب امتی حقوق اللہ کو قائم کرنے والے ہوں اور گمراہ نہ ہوں‘‘-
دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں فرمایاگیا ہے کہ یہ معروف کا حکم دیں گے اوروہ(معروف) اللہ تعالیٰ کا امر ہوگا کیونکہ معروف اللہ عزوجل کا امرہی ہوتاہے-
تیسری وجہ یہ کہ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ برائی سے روکیں گے اور منکَر وہ ہے جس سے اللہ عزوجل نے منع فرمایا ہے اور یہ اس صفت کے مستحق اس وقت ہو سکتے ہیں جب کہ یہ اللہ کے ہر حکم پر راضی ہوں-پس اس سے ثابت ہوا کہ امت جس چیز سے روکے گی وہ منَکر ہوگی اور جس چیز کا حکم دے گی وہ معروف ہوگی اور وہ اللہ عزوجل کا حکم ہوگا- اس سے معلوم ہوا کہ کسی گمراہی پر امت کا اجماع نہیں ہوسکے گا اور جس پر اجماع ہوگا وہ اللہ کا حکم ہوگا‘‘-[12]
اجماع کی اہمیت احادیث مبارکہ کی روشنی میں :
1: حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں:
’’فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اللهِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللهِ سَيِّئٌ‘‘[13]
’’پس جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ عزوجل کے ہاں بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُراسمجھیں وہ اللہ عزوجل کے نزدیک بھی بُری ہے ‘‘-
2: حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’إِنَّ اللهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي، أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ (ﷺ) عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللهِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ‘‘ [14]
’’بے شک اللہ عزوجل میری امت، یا ارشاد فرمایا ’’امتِ محمد(ﷺ) (راوی کوشک ہے)کوضلالت و گمراہی پہ جمع نہیں فرمائے گا اور اللہ کا ہاتھ مبارک جماعت پر ہے اور جو (جماعت سے) کٹا وہ آگ میں پڑا‘‘-
3: حضرت محمد بن حنفیہ (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان کی ہے، فرماتے ہیں کہ:
مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) !اگر ہمیں ایسے معاملے کا سامنا ہو جس کے متعلق (قرآن و سنت میں) بیان یعنی امر اورنہی موجودنہ ہوتوآپ (ﷺ) ہمیں کیا حکم ارشاد فرمائیں گے؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’تُشَاوِرُونَ الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِينَ، وَلَا تُمْضُوْا فِيْهِ رَأْيَ خَاصَّةٍ‘‘[15]
’’فقہاء و عابدین سے مشورہ کرنا اور ایک خاص (فرد واحد) کی رائے کو نافذ نہ کرنا‘‘-
4: حضرت مغیرہ بن شعبہ (رضی اللہ عنہ)روایت بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی کریم (ﷺ)نےارشاد فرمایا:
’’لَا يَزَالُ طَائِفَةٌ مِّنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ ‘‘[16]
’’میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ غالب رہے گی یہاں تک کہ ان پر اللہ عزوجل کا امر(قیامت) آجائے گی اور وہ(اس حال میں بھی) غالب ہوں گے‘‘-
’’صحیح مسلم‘‘ میں یہ حدیث مبارک ان الفاظ مبارک کے ساتھ مذکورہے-حضرت ثوبان (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نےارشادفرمایا:
’’لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِّنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِكَ‘‘[17]
’’میر ی امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پہ قائم رہے گا- جو شخص ان کو رسوا کرنا چاہے گا وہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا وہ اسی حال پہ رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے گی ‘‘-
اس حدیث مبارک کی شرح میں علامہ نوویؒ رقمطراز ہیں :
’’وَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مُعْجِزَةٌ ظَاهِرَةٌ فَإِنَّ هَذَا الْوَصْفَ مَا زَالَ بِحَمْدِ اللهِ تَعَالَى مِنْ زَمَنِ النَّبِيِّ (ﷺ) إِلَى الْآنَ وَلَا يَزَالُ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ الْمَذْكُورُ فِي الْحَدِيثِ وَ فِيهِ دَلِيلُ لِكَوْنِ الْإِجْمَاعِ حُجَّةً ‘‘[18]
’’اس حدیث مبارک میں حضور نبی کریم (ﷺ)کے ایک واضح معجزے کا اظہار ہے کیونکہ یہ وصف بحمداللہ تعالیٰ سید ی رسول اللہ (ﷺ) کے دور مبارک سے لے کر آج تک قائم ہے اوراسی طرح (ان شاء اللہ) ہوتا رہے گا یہاں تک کہ حدیث مبارک میں مذکور اللہ پاک کا امر (قیامت)آجائے اور اس میں اجماع کے حجت ہونے پر دلیل ہے‘‘-
4: حضرت ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) حضور نبی کریم (ﷺ) سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اِثْنَانِ خَيْرٌ مِّنْ وَّاحِدٍ، وَثَلَاثَةٌ خَيْرٌ مِّنَ اثْنَيْنِ، وَ أَرْبَعَةٌ خَيْرٌ مِّنْ ثَلَاثَةٍ، فَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ اللهَ لَنْ يَّجْمَعَ أُمَّتِي إِلَّا عَلَى هُدًى‘‘[19]
’’دو ایک سے بہتر ہیں اورتین دوسے بہتر ہیں اور چار تین سے بہتر ہیں -پس تم پر جماعت کی رفاقت لازم ہے پس بے شک اللہ عزوجل میری امت کو ہدایت پر ہی جمع فرمائے گا‘‘-
5: حضرت ابوبصرہ غفاری (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :
’’میں نے اپنے رب سے چارچیزوں کا سوال کیا تو اللہ عزوجل نے مجھے تین چیزیں عطا فرمائیں اور ایک سے منع فرما دیا-(ان مقبول دعاؤں میں ایک یہ تھی کہ )میں نے سوال کیا کہ :
’’ أَنْ لَّايَجْمَعَ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ،‘‘[20]
’’اللہ پاک میری امت کو گمراہی پہ جمع نہیں فرمائے گا‘‘-
اب منکرین اجماع اور جماعت کے بارے میں جو وعید فرمائیں گئی ہیں ان میں کچھ درج ذیل ہیں :
1:حضرت ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے:
’’مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهٖ‘‘[21]
’’جو شخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی‘‘-
ایک اور روایت مبارک میں ہے :
2:حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً‘‘[22]
’’جو جماعت سے ایک بالشت بھی دور رہا اور وہ مرگیاتو تحقیق وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘-
3:حضرت عَرْفَجَةَ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم (ﷺ)کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَّاحِدٍ، يُرِيدُ أَنْ يَّشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ، فَاقْتُلُوهُ‘‘[23]
’’جب تم ایک شخص کی امامت پہ متفق ہو پھرکوئی شخص تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے کی کوشش کرے یا تمہاری جماعت میں تفریق کی کوشش کرے تو اس کو قتل کردو‘‘-
دورِ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)اور بعد میں اجماع کی چند مثالیں :
صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کے دورمبارک میں اجماع ثبوت اور شواہدکے ساتھ بالاتفاق موجودہے جیساکہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ ابو القاسم بغوی میمون بن مہران سے روایت بیان کرتے ہیں کہ:
’’جب کو ئی معاملہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو پیش ہوتا توآپ (رضی اللہ عنہ) اس کا حکم قرآن مجید میں تلاش کرتے- اگر مل جاتاتو آپ (رضی اللہ عنہ) اس کے مطابق فیصلہ فرماتے اگر نہ ملتا تو حضور نبی رحمت (ﷺ) کی حدیث مبارک یادہوتی تو اس کے موافق فیصلہ فرماتے- اگر کوئی حدیث مبارک بھی معلوم نہ ہوتی تو اُٹھ کرمسلمانوں سے دریافت فرماتے کہ میرے سامنے ایسامعاملہ پیش ہواہے تمہیں معلوم ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے اس معاملے کے بارے میں کوئی فیصلہ فرمایا ہو؟ تو بعض اوقات کئی لوگ کہتے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اس معاملہ میں اس طرح فیصلہ مبارک فرمایا تھا اور اس پر آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے کہ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ اس نے ہم میں ایسے اشخاص بھی پیدا فرمائے ہیں جواپنے نبی پاک (ﷺ) کی باتوں کو یادرکھتے ہیں-اگر کوئی حدیث مبارک بھی نہ ملتی تو آپ (رضی اللہ عنہ) جلیل القدر اورمعززین صحابہ کرام (رضی اللہ عنھنم) کو جمع فرما کر مشورہ کرتے اور جس بات پر ان کا اتفاق ہوتا اسی کے موافق فیصلہ فرماتے -
اسی طرح حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) کا بھی یہی معمول تھا کہ قرآن و حدیث سے کسی مسئلہ کا حل نہ ملتا تو دیکھتے کہ اس معاملہ میں حضرت سیدناصدیق اکبر(رضی اللہ عنہ) نے اجتہاد کیا ہے یا نہیں؟اگر معلوم ہوتا تو آپ (رضی اللہ عنہ)اس کے موافق فیصلہ فرماتے اگر فیصلہ نہ ملتا تو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی کثرتِ رائے سے فیصلہ فرماتے ‘‘-[24]
حتیٰ کے حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) نے خلیفہ مقرر فرمانے کیلیے مشورہ فرمایا- علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ امام اورخلیفہ کو مقرر کرنا کس قدر اہم مسئلہ تھا لیکن حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ)نے اس کے انتخاب کا معاملہ اربابِ حل وعقد کے باہمی مشورہ اوراتفاق پہ چھوڑدیا-
امام بخاریؒ نقل فرماتے ہیں کہ:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) کے بعد آئمہ دین مباح کاموں میں امین لوگوں سے مشورہ کیا کرتے تھے‘‘-
حضرت سفیان ثوری(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ:
’’متقی اور امانت دارشخص سے مشورہ کرنا چاہیے‘‘-
حضرت حسن بصری (رضی اللہ عنہ) ارشاد فرماتے ہیں:
’’اللہ کی قسم!جولوگ مشورہ کرتے ہیں اللہ عزوجل ان کی صحیح حل کی طرف رہنمائی فرماتا ہے‘‘-[25]
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کو ہردور میں اجتہاد و اجماع کی ضرورت رہی ہے-اس وقت رائج احکام میں کئی احکامات ایسے ہیں جن کا ماخذ محض اجماع ہے-یہاں محض چند امور (جن کا ثبوت محض اجماع سے ہے)کوزیب قرطاس کی سعی سعید کرتے ہیں جس سے اجماع کی اہمیت مزید اظہر من الشمس ہوجاتی ہے -
- سیدناابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی خلافت اور آپ (رضی اللہ عنہ) کا مانعینِ زکاۃ سے قتال کرنے پر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا اجماع ہوا تھا-
- سیدنا عمرفاروق(رضی اللہ عنہ)کے دورِ خلافت میں شراب پینے والے کی حد اسی (80) کوڑے بالاجماع مقرر کی گئی تھی-
- سیدنارسول اللہ(ﷺ) نے صرف دو رات تراویح باجماعت ادافرمائیں-بخاری شریف کی روایت مبارک کے مفہوم کے مطابق اس کے بعد آپ (ﷺ)نے یہ فرماکریہ معمول ترک فرمادیاکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تمہارے اوپر فرض نہ کردی جائے- پھرحضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)کے زمانہ مبارک میں پورے رمضان میں مواظبت کے ساتھ بیس رکعات باجماعت تراویح پر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا اجماع منعقد ہوگیا-
- ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک طلاق واقع ہو یا تین ہی واقع ہوں، اس مسئلہ پہ بھی صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم)میں کے درمیان بحث ہوتی رہی پھر حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) کے دور ِ حکومت میں اس پر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا اجماع ہوگیا کہ ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں مغلظہ یعنی تین ہی شمار ہوں گی-
- رسول اللہ(ﷺ) سے نمازِ جنازہ کی تکبیرات پانچ بھی منقول ہیں اور سات، نو اور چار بھی؛ پھرحضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنھم)کے دور ِ حکومت میں غور وخوص کرکے چار تکبیرات پر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا اجماع منعقد ہوگیا-
- بالاجماع صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث کو دوسری کتابوں کی احادیث پر ترجیح حاصل ہے-
- قرآن پاک کا غیر مخلوق ہونا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص قرآن مجید کو مخلوق کہے وہ شخص کافر ہے- [26]
- قرآن پاک کا ایک کتاب کی شکل میں جمع ہونا،تیس پاروں کا ہونا، مصحف عثمانی کے رسم الخط، اس کے اعراب پر الحمدللہ اجماع ہے-
- قادیانیوں کا اسلام سے خروج (یعنی ان کے غیر مسلم ہونے پہ امت مسلمہ کا اجماع ہے )
ا س کےعلاوہ کئی مسائل (لاؤڈ سپیکر پہ اذان وغیرہ) ہیں جن کے ثبوت کا ذریعہ صرف اورصرف اجماع ہے -
اجماع کی اقسام و درجہ بندی :
اجماع کی دوصورتیں ہیں ’’اجماعِ صریحی‘‘ اور ’’اجماعِ سکوتی‘‘ اجماعِ صریحی یہ ہے کہ سب کے سب مجتہدین اپنی رائے کا صراحۃً اظہار کرکے اتفاق کریں اور اجماع سکوتی یہ ہے کہ ایک مجتہد اپنی رائے کا اظہار کرے اور بقیہ حضرات انکار نہ کریں؛بلکہ خاموش رہیں-پہلا اجماع تو بالاتفاق حجت ہے جبکہ دوسرے کے بارے میں آئمہ دین کا اختلاف ہے-زیادہ اس جواز کے قائل ہیں کہ ان کے نزدیک ان کی خاموشی کو رضا پہ محمول کیا جائے گا-اسی طرح اجماع کی تقویت کے لحاظ سے درجہ بندی کرتے ہوئےشیخ احمد بن ابو سعید بن عبد اللہ المعروف ملاجیونؒ رقمطراز ہیں:
سب سے قوی اجماع وہ ہوگا جوکہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا اجماع ہو-مثلاً اس طرح فرمائیں کہ ’’ہم نے اجماع کیاہے اس امرپر‘‘ تو یہ (اجماع فائدہ دینے میں من حیث القوۃ) آیت کے مانند ہے اورخبر متواتر کے مثل ہے چنانچہ اس کا منکر کافر ہو جائے گا-اس میں سے ایک مثال اس اجماع کی حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی خلافت پر صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا اجماع کرناہے -
اس کے بعد دوسرا درجہ اس اجماع کا ہے کہ بعض صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے صراحتاً ارشاد فرمایا اور بعض نے سکوت فرما لیا-اس کو اجماع سکوتی سے موسوم کیاگیاہے اس اجماع کا منکر کافر نہیں اگرچہ اس نوع کا اجماع دلائل قطعیہ میں داخل ہے-
تیسری نوع:اجماعِ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے بعد ہردور کے اہل ِ اجماع کا کسی مسئلہ پر اجماع کرناہے جبکہ اس مسئلہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا اختلاف ظاہر نہ ہوا ہو-اس نوع کادرجہ خبر مشہور کے مثل ہے جو کہ طمانیت کافائدہ دیتاہے یقین قطعی کا نہیں-
قسم چہارم:حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کے اختلاف کے باوجود اس اہل ِ اجماع کا اجماع کرلینا یعنی اولاً تو دوقول تھے اس کے بعد ایک قول پر اجماع کرلیا-اس نوع کا درجہ سب سے کم ہے -پس وہ خبرواحد کے درجے میں ہے (اس کا حکم یہ ہے وہ عمل کو ثابت کرتاہے علم یقینی اورقطعی کونہیں اور اس کو قیاس سے اسی طرح مقدم رکھاجائے گاجس طرح خبرواحد (قیاس سے مقدم ہوتی ہے )-[27]
قرآن و سنت اور دیگر دلائل اس چیز پہ دلالت کرتے ہیں یہ امت اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے قطعاً ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور جب معاملہ ایسا ہے تو اجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے-
حرف آخر وپیغام آخر:
الحمدللہ! یہ اللہ تعالیٰ کے محبوب مکرم (ﷺ)کا معجزہ اور غیب کی خبر ہے جو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پہ قائم رہے گا جو من و عن سچ ثابت ہوا-ورنہ اگر قرونِ اولیٰ کی تاریخ پہ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ باقی تمام انبیاء کرام (علیھم السلام)کی شریعتوں کی مدت محدود تھی- مزید یہ کہ ان کے ماننے والوں نے ان مقدس ہستیوں پہ نازل ہونے کے احکام کو کچھ عرصہ بعد نہ صرف خواہشات نفسانیہ کی بھینٹ چڑھا دیا بلکہ ان میں تحریف بھی کر دی گئی اس وقت توریت اور انجیل کی مثال ہمارے سامنے ہے- لیکن ہمارے آقا کریم (ﷺ) پہ نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید، فرقان حمید کی حفاظت کاذمہ اللہ پاک نے خود اپنے ذمہ کرم پہ لیا-اسی طرح آپ (ﷺ) کی سنن مبارکہ کو اللہ پاک نے اپنے کرم اور اس امت کے صلحاء،فقہاء،محدثین اور مجتہدین کی مساعی جمیلہ کی برکت سے قیامت تک محفوظ فرما دیا-
٭٭٭
[1](المنجد،ص:166،دارالاشاعت کراچی)
[2](نورالانوار،باب الاجماع)
[3](اصول الشاشی، البحث الثالث فی الاجماع)
[4](کلید التوحید کلاں)
[5](النساء:115)
[6](تفسير مظہری ،زیرآیت النساء:115)
[7](آل عمران:103)
[8](تفسیر طبری ،زیرِآیت آل عمران:103)
[9](البقرۃ:143)
[10](تفسير مظہری، زیرآیت البقرۃ: 143)
[11](آل عمران:110)
[12](أحكام القرآن،زیرِ آیت،آل عمران :110)
[13](فضائل الصحابة لاحمدبن حنبلؒ، باب:وَمِنْ فَضَائِلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِؓ)
[14]( سنن الترمذی، بَابُ مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الجَمَاعَةِ)
[15](المعجم الأوسط للطبرانیؒ،باب الالف من اسمہ احمد)
[16](صحیح البخاری، كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ)
[17](صحیح مسلم، کتاب الامارہ)
[18](شرح النووی علی صحيح مسلم،کتاب الامارہ)
[19]( مسند احمد بن حنبلؒ، حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّؓ)
[20]( المعجم الکبیر للطبرانی،باب الجیم)
[21](سنن أبی داود، بَابٌ فِي قَتْلِ الْخَوَارِجِ)
[22]( صحیح البخاری، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ (ﷺ)’’سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا‘‘)
[23]( صحیح مسلم ،کتاب الامارہ)
[24](تاریخ الخلفاء، فصل:17، علم سیدنا صدیق اکبرؓ)
[25](الجامع الاحکام للقرطبی ،ج:4، ص:251)
[26](یہ قرون اولی میں یہ ایک اختلافی مسئلہ رہا- معتزلہ کی طرف سے اس بڑی کو شدومد کے ساتھ اورقرآن پاک کے مخلوق تسلیم کروانے میں انہوں نے ایڑی چوٹی کازور لگایا لیکن امام احمد بن حنبل (رضی اللہ عنہ) کی بے مثال جدوجہد وقربانی کی وجہ سے نہ صرف یہ مسئلہ دب گیا بلکہ قرآن پاک کے غیر مخلوق ہونے پہ امت مسلمہ کا اجماع ہوگیا)
[27]( نورالانوار،باب الاجماع)