عربی لغت میں قیاس کے لغوی معانی کسی چیز کو کسی مثال پر اندازہ کرنے کے ہیں-[1] امام بدر الدين محمد الزركشیؒ (المتوفى:794ھ)اس کے بارے میں رقمطرازہیں:
’’قیاس، ذوات الیاء اور ذوات الواؤ ’’قَاس یَقِیْسُ قَیْساً وَقِیَاساً، قَاسَ یَقُوْسُ قَوْساً وَقِیَاساً‘‘ دونوں سے ماخوذ ہے؛ جن کے معانی ’’تقدیر‘‘ یعنی ایک شے کااندازہ دوسری شے کے ذریعہ کرنے یا ’’تسویہ‘‘ یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے برابر کرنے کے ہیں ‘‘-[2]
شیخ احمد بن ابو سعید المعروف ملاجیون ؒ (المتوفی: 1130 ھ) اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’قیاس کے لغوی معانی ہیں اندازہ کرنا اور شرعاً فرع کا اصل کے ساتھ حکم و علت میں اندازہ کرنا ہے ‘‘- [3]
آسان الفاظ میں ہم قیاس کی تعریف یوں کرسکتے ہیں:
’’قیاس سے مراد یہ ہے کہ اشتراک علت کی بناء پرحکم منصوص(جن کا صریح حل قرآن وسنت میں موجود ہے) کو غیر منصوص(جن کا صریح حل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے) میں جاری کرنا- یاقرآن وسنت میں صراحت سے بیان کیے ہوئے حکم کوایسی چیز میں جاری کرنا جس کاحکم صراحتاً مذکور نہیں- اس بناء پر کہ قرآن وسنت میں بیان کیے ہوئے حکم کی علت اس چیز میں بھی پائی جاتی ہے‘‘-
اس کی مزید وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوجاتی ہے:
’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo‘‘[4]
’’اے ایمان والو! بے شک شراب اور جوأ اور (عبادت کے لیے) نصب کیے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لیے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں-سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ‘‘-
اس آیت مبارک میں مذکورہ تعریف کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی رو سے شراب حرام ہے- اس کی حرمت کی علت نشہ پیدا کرناہے-لہٰذایہ علت جس میں بھی پائی جائے گی اس پرشراب کاحکم نافذ ہوگا اور وہ حرام ہے-مذکورہ آیت مبارک میں خمر کی حرمت کی علت (وجہ و سبب) خمر کا نشہ آور ہونا ہے - شراب کے بارے میں تو قرآن پاک میں حکم مبارک مذکور ہے لیکن دیگر منشیات کے بارے میں حکم مذکور نہیں-
اب آیا ان دیگر منشیات کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟
مجتہد نے غورکیا تو معلوم ہواکہ دیگر منشیات میں بھی نشہ آور ہونے کی وہی علت (وجہ و سبب) پائی گئی ہے تو دیگر منشیات (چرس،افیون،بھنگ وغیرہ )اسی علت (نشہ) کی وجہ سے حرام قرار دے دی گئیں یعنی خمر (شراب) کے حرام ہونے کا حکم دیگر منشیات کی طرف متعدی ہوگیا (یہاں خمر ’’اصل‘‘ ہے، دیگر منشیات ’’فرع‘‘ اور حکم حرمت، جو اصل سے فرع کی طرف منتقل کرنے کا قیاس کیا گیا)
کیاقیاس اور اجتہاد ایک ہی چیز ہیں یا مختلف؟
اس کے بارے میں اختلاف ہے- حضرت ابوعلی بن ابوہریرہ (رضی اللہ عنہما)(متوفی: 345 ھ) فرماتے ہیں کہ:
’’إنَّهُمَا مُتَّحِدَان‘‘ ’’دونوں متحد ہیں‘‘-
امام شافعیؒ (متوفی: 204 ھ) ’’الرِّسَالَةِ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’إنَّ الْقِيَاسَ الِاجْتِهَادُ‘‘
’’بے شک قیاس اجتہاد ہی ہے ‘‘-
امام بدر الدین الزرکشیؒ کے مطابق جمہور فقہاء کرام کی رائے ہےکہ:
’’أَنَّ الِاجْتِهَادَ غَيْرُ الْقِيَاسِ، وَهُوَ أَعَمُّ مِنْهُ؛ لِأَنَّ الْقِيَاسَ يَفْتَقِرُ إلَى الِاجْتِهَادِ وَهُوَ مِنْ مُقَدِّمَاتِهِ وَلَيْسَ الِاجْتِهَادُ يَفْتَقِرُ إلَى الْقِيَاسِ‘‘[5]
’’اجتہاد قیاس کے علاوہ ہے اور اجتہاد قیاس سے اعم ہے کیونکہ قیاس،اجتہاد کا محتاج ہے اوریہ اس کے مقدمات میں سے ہے اوراجتہاد کو قیاس کی محتاجی نہیں ہے‘‘-
اب ذیل میں منکرین قیاس کے دلائل اور قرآن و حدیث کی روشنی میں قیاس کی حجیت کوبیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
منکرین قیاس کے دلائل :
اگرچہ منکرین قیاس(ابن حزم (456ھ) وغیرہ) کے پاس کوئی مستند دلائل نہیں جس کو بنیاد بناکر وہ شرعی احکام کے اہم ترین ماخذ (قیاس) کا انکار کر سکیں- زیادہ تر وہ درج ذیل نصوص کو بنیاد بناکرقیاس کاانکارکرتے ہیں :
اللہ عزوجل کے فرامین مبارکہ ہیں :
1-’’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ‘‘[6]
’’اے ایمان والو! اللہ اور رسول (ﷺ)سے تم سبقت مت کیا کرو ‘‘-
2-’’وَلَاتَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ‘‘[7]
’’اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں‘‘-
3-’’مَافَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ‘‘[8]
’’ہم نے اس کتاب میں کچھ اٹھا نہ رکھا‘‘-
اسی طرح حضور رسالت مآب (ﷺ) کے اس فرمان مبارک کوانکارِ قیاس کی بنیاد بناتے ہیں :
4-’’ذَرُونِيْ مَا تَرَكْتُكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَ إِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوهُ‘‘[9]
’’جن چیزوں کا بیان میں چھوڑدیاکروں تم ان کا سوال مت کیا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ وہ انبیاء کرام (رضی اللہ عنھم) سے بکثرت سوال کیا کرتے تھے- لہٰذا جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو بقدرِ استطاعت عمل کیا کرو اور جب میں کسی چیزسے روک دوں تو اس کو چھوڑ دیا کرو‘‘-
مذکورہ بالا روایات کا بنظر ِ عمیق مطالعہ کرنے سے یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ ان میں کہیں بھی قیاس کا انکار نہیں بلکہ یہ حکم مبارک ہے قرآن و سنت سے تجاوز نہ کرو؛قیاس کیابھی اس لیے جاتاہے تاکہ کوئی بھی حکم قرآن پاک اورسنتِ رسول (ﷺ) کے متصادم نہ ہو-فی زمانہ افیون و بھنگ کی طرح دیگرنشہ آور اشیاء (آئس وغیرہ) کا حرام ہونا،اسی طرح جوار، چاول اور حدیث مبارک میں مذکورہ اجناس کے علاوہ دیگر اجناس میں سود کا ثبوت، اسی طرح ایک تحقیق کے مطابق بھینس کا حلال اوراس میں زکوٰۃ کا ثبوت، کاذریعہ قیاس ہی ہے-مزید درج ذیل روایات سے بھی قیاس کی اہمیت وحجیت ان شاء اللہ مزید واضح ہو جائے گی -
قرآن پاک کی روشنی میں حجیتِ قیاس:
1-’’وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ‘‘[10]
’’اور اگر اس میں رسول مکرم (ﷺ) اور اپنے ذی اختیار لوگوں کی طرف رجوع لاتے تو ضرور ان سے اُس کی حقیقت جان لیتے یہ جو بات میں کاوش کرتے ہیں‘‘-
اس آیت مبارک کے تحت محققِ عصر علامہ غلام رسول سعیدیؒ لکھتے ہیں کہ :
’’اس آیت میں استنباط کا لفظ ہے،استنباط کا معانی ہے کسی چیز سے کسی چیزکو نکالنا اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ عالم اپنی عقل اورعلم سے کسی خبر میں غور و فکر کرکے اس سے صحیح نتیجہ نکالے، قرآن وحدیث میں غور و فکر کر کے ان سے احکام شرعیہ اخذکرنے کوبھی استنباط کہتے ہیں‘‘-
مزید فرماتے ہیں کہ:
’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ شریعت میں قیاس بھی حجت اور دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ واجب کیاہے کہ خبر کے ظاہر پہ عمل نہ کیا جائے بلکہ غور و فکر کر کے اس خبر سے صحیح نتیجہ اخذ کیا جائے-اس سے معلوم ہوا کہ بعض احکام ظاہر نص سے معلوم نہیں ہوتے بلکہ ظاہر نص سے جوحکم مستنبط کیا جائے اس پہ عمل کرنا واجب ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو نئے نئے مسائل پیش آتے ہیں ان میں عوام پر واجب ہے کہ وہ علماء کی تقلید کریں اوریہ بھی معلوم ہواکہ حضور نبی کریم (ﷺ)مسائل شرعیہ میں استنباط کرتے ہیں، اللہ کے رسول (ﷺ) کے بعد پیش آمدہ واقعات اور مسائل حاضرہ میں اصحابِ علم کو قرآن و احادیث سے استنباط اور اجتہاد کرنا چاہئے ‘‘-[11]
2-’’فَاعْتَبِرُوْا یٰاُولِی الْاَبْصَارِ‘‘[12]
’’تو عبرت لو اے نگاہ والو‘‘-
مذکورہ بالا آیت مبارک کے تحت ہی مفتیء بغداد علامہ محمود آلوسیؒ(متوفی: 1270 ھ) فرماتے ہیں :
’’واشتهر الاستدلال بهذه الجملة على مشروعية العمل بالقياس الشرعي، قالوا: لأنه تعالى أمر فيها بالاعتبار، وهو العبور والانتقال من الشيء إلى غيره، وذلك متحقق في القياس، إذ فيه نقل الحكم من الأصل إلى الفرع...‘‘[13]
’’اس آیت سے قیاس شرعی پر عمل کرنے کا استدلال مشہور ہو گیا ہے علماء نے کہاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر اعتبار کا حکم دیاہے اور وہ ایک چیز کے منتقل ہونے کا نام ہے اوریہی قیاس شریعت میں معتبر ہے اس لیے کہ اس کے اندر بھی حکم اصل سے فرع کی طرف منتقل ہوتا ہے ‘‘-
امام شہاب الدین الخِفاجیؒ (متوفی: 1069ھ) فرماتے ہیں:
’’فإنا أمرنا بالاعتبار، والاعتبار ردّ الشيء إلى نظيره بأن يحكم عليه بحكمه‘‘[14]
’’کیونکہ ہمیں ’اعتبار‘ کا حکم دیا گیا ہے اور اعتبار ہوتا ہے کسی شئے کو اس کی نظیر کی طرف لوٹانا تاکہ ا س پرا س کے حکم جیسا حکم لگایا جاسکے ‘‘-
3-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ...‘‘[15]
’’پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اُسے اللہ و رسول (ﷺ)کے حضور رجوع کرو---‘‘-
اس آیت مبارک کی تفسیر میں علامہ غلام رسول سعیدیؒ رقمطراز ہیں کہ:
’’اس سے مراد قیاس ہے یعنی جس مسئلہ کی کتاب اورسنت میں صاف تصریح نہ ہو اس کی اصل کتاب اللہ اور سنت رسول (ﷺ) سے نکال کر اس کو کتاب اور سنت کی طرف لوٹا دو اور اس پر وہی حکم جاری کرو‘‘-[16]
4- فَسْـئَـلُوْا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ [17]
’’تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ‘‘-
مفسر قرآن علامہ مفتی احمد یار خان نعیمیؒ مذکورہ بالا آیت مبارک کے تحت منکرینِ قیاس کے ردّ میں فرماتے ہیں کہ :
’’قیاس مسائل شرعیہ پر کیا جاتا ہے نیز منکرینِ قیاس کس دلیل سے اس کو ناجائز قراردیتے ہیں جبکہ فقہ کے مسائل جیسا کہ طلاق معلق جیسے مسئلے پر کوئی آیت قرآنی یاحدیث مبارک ثبوت کے طور پہ نہیں ہے-نیز فرماتے ہیں کہ صاحب ِ تفسیر کبیر نے ’’منکرینِ قیاس کے رد میں‘‘ جواب دیا ہے کہ ’’منکرینِ قیاس کی پیش کردہ دلیل ‘‘ان کا وہم ہے قیاس تو اجماعِ صحابہ (رضی اللہ عنھم) سے ثابت ہے نیز حضورنبی کریم (ﷺ) نے قیاس کرنے کاحکم ارشاد فرمایا ہے‘‘- [18]
5-’’اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَط خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ‘‘[19]
’’عیسیٰ کی کہاوت اللہ عزوجل کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے‘‘-
’’اس آیت مبارک میں سیدناعیسی ٰ (علیہ السلام) کی خلق و پیدائش کو حضرت آدم (علیہ السلام) کے وجود و نشاۃ پر قیاس کیا گیا ہے دونوں کے مابین علت جامعہ کمال ِ قدرت کے علاوہ دونوں پیغمبروں کا بغیر باپ کے ہوناہے ‘‘-[20]
سنتِ نبوی (ﷺ) کی روشنی میں حجیتِ قیاس :
1-نورِ مجسم،شفیعِ معظم سیدنا رسول اللہ (ﷺ)نے جب حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) کو یمن میں امیر بناکر بھیجا تو آپ (ﷺ) نے حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) کو اپنی زبان گوہر فشاں سے ارشاد فرمایا:
’’جب تم کو کوئی فیصلہ درپیش ہو توتم کیسے فیصلہ کرو گے؟ آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی (سب سے پہلے) کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اگرتم کو کتاب اللہ سے نہ ملے؟عرض کی،تو سنت رسول اللہ(ﷺ) سے-حضور نبی رحمت (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اگر سنتِ رسول (ﷺ)میں نہ ملے اور نہ کتاب اللہ میں ملے (تو کیسے فیصلہ کرو گے)؟ آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی، پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑوں گا-(یہ سن کر) آپ (ﷺ)نے آپ کے سینہ پہ دستِ اقدس رکھا اور ارشاد فرمایا:
’’الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ، رَسُولِ اللهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللهِ ‘‘
’’اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے قاصدکو اس بات کی توفیق عطافرمائی جوبات رسول اللہ (ﷺ) کو خوش کرتی ہے‘‘-[21]
یہ حدیث مبارک بالکل واضح انداز میں قیاس کی حجیت پہ دلالت کرتی ہے- کئی ائمہ دین نے اس حدیث مبارک سے قیاس کی حجیت پہ استدلال کیاہے-
2-حضور نبی رحمت (ﷺ) نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوموسیٰ اشعری(رضی اللہ عنھم)کو یمن کی طرف (الگ الگ علاقوں کا قاضی و گورنر بناکر) روانہ کیا تو ارشاد فرمایا:تم دونوں (وہاں پیش آمدہ مسائل) کے فیصلے کیسے کرو گے؟ انہوں نے عرض کی (یارسول اللہ(ﷺ) :
’’جب ہم سنت مبارک میں حکم نہیں پائیں گے تو ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کریں گے اور جو فیصلہ حق سے زیادہ قریب ہوگا، اسی پر عمل کریں گے-یہ سن کرحضور نبی رحمت (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’أَصَبْتُمَا‘‘ ’’تم دونوں کی رائے درست ہے‘‘-[22]
3:حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’التَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْحِنْطَةُ بِالْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَمَنْ زَادَ، أَوِ اسْتَزَادَ، فَقَدْ أَرْبَى، إِلَّا مَا اخْتَلَفَتْ أَلْوَانُهُ‘‘[23]
’’کھجورکے بدلے میں کھجور، گندم کے بدلے میں گندم، جو کے بدلے میں جو اور نمک کے بدلے میں نمک برابر اور نقد بہ نقد (فروخت کرو) جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سودی کاروبارکیا الّایہ کہ اقسام بدل جائیں‘‘-
اس حدیث مبارک اور اس جیسا مفہوم رکھنے والی کئی احادیث مبارکہ کے ضمن میں اگر چہ طویل مباحث درج ہیں اور اکثر علماء کرام نے انہی احادیث مبارکہ کی بناء پہ انہی اشیاء (کھجور، گندم،جو،نمک وغیرہ )پہ قیاس کرتے ہوئے کرنسی ، جوار ، باجرہ ، چاول اوردیگر کئی اجناس کے سود کے احکام کا استنباط کیاہے -
4-اسی طرح حضور نبی کریم (ﷺ) کے دیگرکئی اقوال و افعال مبارکہ سے ہمیں قیاس کی طرف رہنمائی ملتی ہے جیسا کہ سورِ ہرہ (بلی کے جُوٹھے) کے بارے میں آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ، إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ‘‘[24]
’’بے شک بلی کاجوٹھا ناپاک نہیں کیونکہ وہ ان طواف کرنے والے جانوروں میں سے ہے جوتمہارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں ‘‘-
ہمارےعلماءِ احناف نےطواف کی علت کی وجہ سے گھرمیں رہنے والے جانوروں چوہے، سانپ کو بلی پہ قیاس کیا(اوران کے جوٹھے پانی کو نجس قرار نہیں دیا)- [25]
5-حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) میں عرض کی:
’’یا رسول اللہ (ﷺ)! میرا والد وفات پا گیا اور اس نے حج ادا نہیں کیا-کیامیں اس کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے والد پہ قرض ہوتا تو تم ادا کرتے؟ اس نے عرض کی: ہاں! آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ‘‘[26]
’’اللہ عزوجل کا قرض اس بات کا زیادہ حق دار ہے (کہ اس کو ادا کیا جائے)‘‘-
اسی حدیث مبارک کی بنیاد پر نظام الدین شاشیؒ نے قیاس پہ استدلال کیا ہے، فرماتے ہیں:
’’اَلْحَقَ رَسُوْلُ اللهَ عَلَيْهِ الصَّلوٰۃُوَ السَّلَامُ اَلْحَج فِي حق الشَّيْخ الفاني بالحقوق الْمَالِيَّة وَأَشَارَ الى عِلّة مُؤثرَة فِي الْجَوَاز وَهِي (الْقَضَاء) وَهَذَا هُوَ الْقيَاس ‘‘[27]
’’رسول اللہ (ﷺ) نے شیخ فانی کے حق میں حج کو حقوق مالیہ کے ساتھ ملایا ہے اور جواز میں ایک علت مؤثرہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور وہ اس کی قضاء ہے اور یہی وہ قیاس ہے ‘‘-
6- حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهٗ‘‘
’’جو شخص خوراک خریدے اور وہ اس کواس وقت تک نہ بیچے، جب تک کہ وصول نہ کرلے‘‘-
حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
’’وَأَحْسِبُ كُلَّ شَيْءٍ مِثْلَهُ‘‘[28]
’’ میری رائے میں ہرچیز کا حکم طعام کی طرح ہے‘‘-
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ خوراک (غلہ وغیرہ) خرید کر قبضہ سے پہلے اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے- اس کی علت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ خریدے ہوئے غلے پر قبضہ نہیں ہے؛تو اب اس پہ قیاس کرتے ہوئے اگر غلہ کے علاوہ کوئی اور چیز خریدی گئی تو خریدنے کے بعد جب تک ان کو وصول نہ کیا جائے، آگے بیچنا جائز نہیں ہے- جیسا کہ سیدنا عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کا فرمان مبارک اسی چیز کی طرف ہماری رہنمائی فرماتاہے -
7- حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ ایک شخص بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی:
’’یارسول اللہ (ﷺ)میرے ہاں سیاہ رنگ کے بچے نے جنم لیاہے (حالانکہ ہماری رنگت سیاہ نہیں ہے) تو حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشادفرمایا : کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کی : جی ہاں! آپ (ﷺ) نےارشادفرمایا: ان کے رنگ کون کون سے ہیں؟ عرض کی: سرخ- آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا: ان اونٹوں میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے عرض کی : جی ہاں! آپ( ﷺ) نے ارشاد فرمایا : (اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے) وہ کہاں سے آ گیا؟اس نے جواب دیا کہ ممکن ہے وہ کسی رگ کے فساد کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہو- پھر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’فَلَعَلَّ ابْنَكَ هَذَا نَزَعَهٗ‘‘[29]
’’ وہی رگ کافساد یہاں بھی پایاجاسکتاہے‘‘-
اس روایت میں سید ی رسول اللہ (ﷺ) نے نوزائیدہ بچے کے سیاہ رنگ کو اونٹ کے خاکستری ہونے پرقیاس فرمایا اور یوں اپنے غلام کو سمجھادیا کہ وہ اپنی بیوی پر بدگمانی مت کرے-
مندرجہ بالا روایات اس بات کی طرف واضح طورپر نشاندہی کررہی ہیں کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) نے اپنی حیات مبارک میں خود قیاس فرماکر امت کے مجتہدین کے لیے قیاس سے کام لینے کی راہنمائی عطافرمائی ہے-
اقوال ِصحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی روشنی میں حجیت ِقیاس:
1:حضرت عبداللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سےایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس نے ایک عورت سے شادی کی اوراس کا مہر مقر رنہیں کیااورخلوت سے پہلے اس کا شوہر فوت ہوگیا (توکیااس پر پورا مہرآئے گا یاآدھا)؟آپ (رضی اللہ عنہ) نے ایک ماہ تک توقف فرمایا اور پھر فرمایا:
’’أجتهد فِيهِ برأيي فان كَانَ صَوَابا فَمن الله وَإِن كَانَ خطأ فَمن ابْن أم عبد فَقَالَ أرى لَهَا مهر مثل نسائها لَا وكس فِيهَا وَلَا شطط‘‘
’’میں اس میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اگر درست ہو تو من جانب اللہ ہے اور اگر خطاء ہوئی تو ابن ام عبد کی طرف سے یہ کَہ کرارشادفرمایا :اس کو مہر مثل ملے گا اس میں کمی اور نقصان نہیں ہوگا‘‘-
2-حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہ) کی طرف مشہور حکمنامہ تحریری طور پہ بھیجا کہ:
’’اعْرف الْأَمْثَال والأشباه وَقس الْأُمُور عِنْد ذَلِك‘‘[30]
’’اشباہ و نظائر کو پہچانئے اور امور میں اپنی رائے کے ساتھ قیاس کیجیے‘‘-
حضرت شعبی (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے کلالہ ’’جس کے نہ والدین ہوں نہ اولاد‘‘ کے بارے میں سوال کیاگیا تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا:
’’إِنِّي سَأَقُولُ فِيهَا بِرَأْيِي، فَإِنْ كَانَ صَوَابًا فَمِنَ اللهِ، وَإِنْ كَانَ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنَ الشَّيْطَانِ: أُرَاهُ مَا خَلَا الْوَالِدَ وَالْوَلَدَ فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُمَرُ، قَالَ: «إِنِّي لَأَسْتَحْيِي اللهَ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا قَالَهُ أَبُو بَكْرٍ‘‘[31]
’’عنقریب میں اپنی رائے (قیاس) سے اس کے بارے میں بتاتا ہوں اگر وہ صحیح ہے تووہ اللہ کی طرف سے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے سمجھوکہ کلالہ سے اولاد، باپ کے علاوہ (رشتہ دار مراد) ہیں-پس جب پھر حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) مسند خلافت پہ فائز ہوئے تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا:بے شک میں اللہ تعالیٰ سے حیا کرتا ہوں کہ میں اس چیز کو بدلوں جس کو حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا ہو‘‘-
3- امام مالکؒ حضرت ثَوْرِ بْنِ زَيْد الدِّيَلِيِّ (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) اپنے دور خلافت میں شراب پینے کی سزا کے بارے میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے مشورہ فرمایا تو حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا:
’’نَرَى أَنْ تَجْلِدَهُ ثَمَانِينَ فَإِنَّهُ إِذَا شَرِبَ سَكِرَ. وَإِذَا سَكِرَ هَذَى، وَإِذَا هَذَى، افْتَرَى. أَوْ كَمَا قَالَ: فَجَلَدَ عُمَرُ فِي الْخَمْرِ ثَمَانِينَ‘‘[32]
’’ہماری رائے یہ ہے کہ شرابی کو اسی کوڑے مارے جائیں کیونکہ جب وہ شراب پیتا ہے تو بدمست ہو جاتا ہے اور جب بدمست ہوجاتاہے تو وہ ہذیان بکتا ہے اور جب ہذیان بکتا ہےتو بہتان لگاتا ہے- چنانچہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے حکم جاری کیا کہ شراب پینے والے کو اسی کوڑے مارے جائیں ‘‘-
غور فرمائیں! حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) نے اپنی رائے مبارک میں قیاس فرمایا کہ شراب پینے والے کی عقل ماؤ ف ہو جاتی ہے اور وہ نشہ کی حالت میں خواہ مخواہ کسی پر الزام لگاتا پھرتا ہے اور زیادہ تر شرابی اپنے نشے کی حالت میں اول فول بکتے ہیں اور دوسروں پر الزام لگاتے ہیں اور چونکہ حکم کا انحصار اَغلب پر ہوتا ہے- اس لئے ہر شرابی کے لئے یہ ایک ہی سزا مقرر ہوگئی خواہ نشہ کی حالت میں اول فول بکے یا نہ بکے اور کسی پر الزام لگائے یا نہ لگائے بہرحال حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے حضر ت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کی اس رائے کو تسلیم فرمایا اور شراب پینے کی سزا 80 کوڑے متعیّن فرمائی جس پر تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے اس قیاس پہ اجماع واتفاق کیا-
4-جب حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کی بات چلی تو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے قیاس کے طریق پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’رَضِيَهُ ﷺ لِدِينِنَا أَفَلَا نَرْضَاهُ لِدُنْيَانَا‘‘؟[33]
’’جس شخصیت کا انتخاب رسول اللہ (ﷺ) نے ہمارے دین (نماز) کیلیے فرمایا ہے تو کیا ہم اس پہ اپنی دنیا (خلافت)کے لیے راضی نہیں ہو گے؟‘‘
ارکانِ قیا س اورصحتِ قیاس کیلیے شرائط:
علماء کرام نے قیاس کے چار ارکان کا تعین کیا ہے:
- ’’مقیس‘‘:جس کو کسی دوسرے پر قیاس کیا جا رہا ہو یعنی وہ مسئلہ جس کا حکم معلوم کرنا ہو اور یہ فرع بھی کہلاتا ہے-
- ’’مقیس علیہ‘‘: یعنی وہ مسئلہ جس پر فرع کو قیاس کیا جا رہا ہو، اس کو اصل بھی کہتے ہیں-
- ’’علت‘‘ وہ وجہ اور سبب جو اصل اور فرع یعنی مقیس اور مقیس علیہ میں مشترک ہے-
- وہ حکم جوا صل یعنی مقیس علیہ کے لیے ثابت ہو-
جہاں تک اس کی شرئط کا تعلق ہے توعلامہ نظام الدین شاشیؒ نے اس کی پانچ شرائط بیان فرمائی ہیں:
- قیاس نص کے مقابلے میں نہ ہو
- قیاس احکامِ نص میں سے کسی حکم کے متغیر کرنے کو متضمن نہ ہو
- متعدی (اصل سے فرع کی طرف )ہونے والا حکم ایسانہ ہوکہ جس کے معانی معقول نہ ہوں
- تعلیل (علت کا استخراج)حکمِ شرعی کیلیے ہو نہ کہ امر لغوی کیلیے
- فرع منصوص علیہ نہ ہو- [34]
حرف آخر :
قیاس شرعی احکام کا چوتھا ماخذہے جس کواپنائے بغیر کئی معاشرتی مسائل کا حل بظاہر ناممکن نظر آتا ہے-اس لیے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے دورمبارک اورتقریباً ہردورمیں جید علماء کرام نے پیش آنے والے کئی مسائل کا قیاس سے استنباط کیا-اس دور میں مستعمل جدید ہتھیار کے استعمال کو حضور رسالت مآب (ﷺ) کے دور مبارک میں مستعمل ہتھیاروں پہ قیاس کرکے جواز پیدا کیا گیا ہے اسی طرح دیگر احکام کی طرح بھینس کے حلال ہونے اور اس کی زکوٰۃ کو گائے پہ قیا س کرکے اس پہ اجماع مرتب کیا گیا ہے-
قیاس انسان کی ایک فطرت ہے- کوئی فطرت سلیمہ رکھنے والا عقلمند شخص قیاس کا انکار نہیں کر سکتا ہے- روزمرہ کے بے شمار واقعات ہیں، ہرانسان ایک واقعہ کو دیکھ کر اس سے ملتے جلتے واقعات کاحکم سیکھتا ہے- حتی کہ بچے تک قیاس سے واقف ہیں- مثلاً کلاس میں استاد صاحب ایک بچے کو کسی غلطی پر ڈانٹتے ہیں تو اس کو دیکھ کر دوسرے بچے بھی سنبھل جاتے ہیں کہ یہی غلطی ہم سے ہوئی تو ہمیں بھی ڈانٹ پڑےگی- یہ قیاس نہیں تو اور کیا ہے؟
مزید اس کے حق میں عقلی دلیل یہ ہے کہ زمان و مکان کی تبدیلی سے نئے مسائل ظہور پذیر ہوتے ہیں اگر ان کے احکام معلوم کرنے کے لیے کتاب و سنت کی نصوص پر قیاس نہ کریں تو وہ بغیر حکم شرعی کے باقی رہ جائیں گے اور یہ باطل ہے کیونکہ شریعت مقدسہ عام ہے اور تمام پیش آمدہ مسائل کو شامل ہے ہر واقعہ کے لیے شریعت میں حکم موجود ہے- مجتہدین پر لازم ہے کہ وہ استنباط کے قواعد معروفہ کے موافق استنباط کریں اور اجتہاد کرنے والے کے لیے حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی زبان گوہرفشاں سے اجر کا اعلان فرمایا ہے- جیساکہ روایت میں ہے کہ حضرت عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
’’إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَ إِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ‘‘[35]
’’حاکم جب اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دہرا اجر ملتا ہے اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو ایک اجر ملتا ہے‘‘-
اس سے معلوم ہواکہ قیاس ایک فطری چیزہے- زندگی میں پیش آنے والے بے شمار مسائل ایسے ہیں جن کا حکم فقہائے امت نے قیاس کے ذریعے معلوم کیا ہے اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں- اگرقیاس کو بطور دلیل شرعی تسلیم نہ کیا جائے تو ان مسائل میں عمل کرنے کی کوئی صورت نہیں- کیونکہ ان مسائل کاحکم قرآن وسنت میں صراحتاً مذکور نہیں ہے-اس کا مطلب یہ ہواکہ قیاس کاانکار کرنے سےدین میں تعطل پیدا ہوتا ہے- یہ مسلمہ بات ہے کہ دین ایک کامل ضابطہ حیات ہے؛اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ تمام مسائل کا حکم صراحتاً قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے- اب یہ بات کہ ’’دین کامل ضابطۂ حیات ہے‘‘ اسی وقت درست ہوسکتی ہے جبکہ قیاس سے مسائل کاحکم معلوم کرنے کو تسلیم کر لیا جائے- ورنہ جن مسائل کاحکم قرآن وسنت میں صراحتاً مذکور نہیں اور قیاس کے ذریعے ان کا حکم معلوم کرنا بھی درست نہ ہو تو ان مسائل کے سلسلے میں دین کی کوئی رہنمائی نہ رہے گی اور پھر اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات کیونکر رہ سکےگا-
اب جب کہ زیست کا لحظہ لحظہ دگرگوں ہے اوردنیا میں آئےروز نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں اور تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والے مسائل کا ادراک کیا جائے اورعوام الناس کے سامنے قرآن وسنت کی روشنی میں ان کے جواز یا عدم جواز کا حکم رکھاجائے تاکہ ہرمسلمان چاہے دنیا کے کسی گوشہ یا افلاک کی بلندیوں اورتحت الثرٰی کی پستیوں میں ہو اس کی نگاہ کتاب اللہ اور اس کے محبوب کریم (ﷺ) کے فرامین کی طرف ہو -
٭٭٭
[1](المنجد، ص:858، دارالاشاعت کراچی، پاکستان)
[2](البحر المحيط فی اصول الفقہ للزرکشیؒ،کتاب القیاس)
[3](اصول الشاشی،فصل فی القیاس)
[4](المائدہ:90)
[5](البحر المحيط فی اصول الفقہ للزرکشیؒ،کتاب القیاس)
[6](الحجرات:1)
[7](الاسراء:36)
[8](الانعام:38)
[9]( صحیح مسلم،کتاب الحج)
[10](النساء:83)
[11](تبیان القرآن، زیر آیت، النساء:83)
[12](الحشر:2)
[13]( تفیسر روح المعانی،ج:15، ص:59)
[14](حَاشِيةُ الشِّهَابِ عَلَى تفْسيرِ البَيضَاوِي)
[15](النساء:59)
[16](تبیان القرآن، زیر آیت، النساء:59)
[17](النحل:43)
[18](تفسیر نعیمی، زیر آیت، النحل:43)
[19](آلِ عمران:59)
[20](مقدمہ اعلام لسنن، ج:2، ص:79)
[21]( سنن ابی داؤد،كِتَاب الْأَقْضِيَةِ)
[22](الحصول للرازی،کتاب: الكلام فی القياس)
[23](صحیح مسلم،بابُ الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا)
[24](سنن النسائی، باب: سُؤْرُ الْهِرَّةِ)
[25](اصول الشاشی ،فصل الْقيَاس الشَّرْعِيّ)
[26](سنن النسائی،باب: تَشْبِيهُ قَضَاءِ الْحَجِّ بِقَضَاءِ الدَّيْنِ)
[27](اصول الشاشی ،الْبَحْث الرَّابِع فصل فِي الْقيَاس)
[28](سنن الترمذی، أَبْوَابُ الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللہِ (ﷺ)
[29](صحیح بخاری ،کتاب الطلاق)
[30]( أصول السرخسی)
[31](سنن الدارمی،باب الکلالہ)
[32]( مؤطاامام مالک،كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ)
[33](مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، کتاب الصلاۃ)
[34](اصول الشاشی،فصل شُرُوط صِحَة الْقيَاس خَمْسَة)
[35](صحیح مسلم،کتاب الحدود)