بلاشبہ علامہ غلام رسول سعیدیؒ کا شمار عصرِ حاضر کے ان مشہور مفسرین قرآن کریم میں ہوتاہے جن کی جلالت علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کا اعتراف ہر ذی علم کرتا ہے-آپ کی مشہور زمانہ تفسیر تبیان القرآن ہےجسے الله رب العالمین نے اس کرہ ٔارض پررہنے والے اردو دانوں میں وہ قبولِ عام عطا فرمایا جس کی نظیر نہیں ملتی، دنیا میں جہاں کہیں اردو جاننے والے مسلمان رہتے ہیں وہاں پر یہ تفسیر ِقرآن موجود ہے- شاذ و نادر ہی کوئی ملک ہوگا جہاں اردو جاننے والے ہوں اور یہ تفسیر نہ ہو- بلاشبہ ہر زمانےمیں الله عزوجل انپے ایسے نیک بندوں کو چن لیتا ہےجو بغیر کسی غرض کے خالصتاً اس کی رضا کیلئے دینِ متین کی خدمت میں شب و روز مصروفِ عمل رہتے ہیں، انہیں حق گوئی سے کوئی نہیں روک سکتا، وہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلیے تیار نظر آتے ہیں اور اپنی زندگی میں امت کے لئے ایسا سرمایہ چھوڑ جاتے ہیں جو ان کے بعد آنے والے لوگوں کیلیے مشعلِ راہ ہوتاہے-
ویسے تو عرصہ دراز سے قرآن کریم کے اردو تراجم تفاسیر دستیاب ہیں لیکن ان تمام تراجم وتفاسیر میں تفسیرِتبیان القرآن کو نمایاں حیثیت حاصل ہےجس کی چند وجوہات اور خصوصیات درج ذیل ہیں :
v عصرِ حاضر میں مستعمل ادبی عبارات اور مروجہ محاوروں کا استعمال-
v ایسا عام فہم اندازِ بیان اور سلاست و روانی جسے ایک عام شخص بھی سمجھ لے-
v کسی مقام پرکوئی ایسی عبارت تحریر میں نہ آنے پائےجس سے اللہ عزوجل، اس کے انبیاء و رُسُل ؑ ، اولیاءِ کاملین اور دینی مقدسات کی شان میں بے ادبی کا شائبہ بھی ہو-
v تفسیر قرآن بیان کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا کہ تاویلاتِ بعیدہ سےاجتناب کیاجائے-
v ہر حوالہ اصل مصادر ومراجع کے ساتھ بڑی باریک بینی سے ذکر کیاجائے-
v مختلف فقہاءِ متقدمین کےاقوال کو ذکر کرنے کے بعد علمی دلائل کی روشنی میں ان سے اختلافِ رائےرکھنا-
v عصرِ حاضر کے جدید رونما ہونے والے مسائل کو زیرِ بحث لاکر تحقیقی دلائل کی روشنی میں ان کا شرعی حل پیش کرنا اور اپنے موقف پر استدلال کی وضاحت کرنا-
v متقدمین مفسرین اورمعاصرین کی تفاسیر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کے موقف کو علمی دیانت کے ساتھ ذکر کرتے دلائل کی روشنی میں ان سے اختلاف رائےرکھنا-
v مشکل الفاظ کے معنی کی وضاحت،ان کی ترکیبِ نحوی اور نص قرآن پر نحوی قواعد کے اعتبار سے ہونے والے شبہات اور اعتراضات کا رد کرنا-
اس قدر پائے کی شخصیت ہونے کے باوجود آپ انتہائی متواضع شخصیت کے حامل تھے، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ خانوادۂ سادات سے تعلق رکھتے تھے لیکن کبھی اپنی سیادت (یعنی سید ہونے کو) ظاہر نہ کرتے تھے-آپ کی انکساری کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے اپنی تفسیرکے آغاز میں یہ دعا تحریر کی ہے:’’اے اللہ!مجھ پر حق کی حقانیت واضح کر اور مجھے اس کی اتباع عطا فرما‘‘- ’’اے اللہ!مجھ پر باطل کا بطلان واضح کر اور مجھے اس سے اجتناب عطا فرما- بلاشبہ اہل حق کا یہی شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنی ہستی کو مٹا کر اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں اور جہاں کہیں انہیں اپنی کوتاہی نظر آتی ہے فوراً حق بات کو تسلیم کر لیتے ہیں- آپ کی تفسیر کے مطالعے کے دوران بعض سورتوں کی تفسیر کے آخر میں یہ دعا ملتی ہے کہ اے اللہ تو مجھے اس تفسیر قرآن کریم کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے گویا آپ اللہ کی مبارک کتاب کی تفسیر کی تکمیل کی سعادت حاصل کرنے کے انتہائی حریص تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سانس کی یہ مالا منزلِ مقصودتک پہنچنےسےپہلے ٹوٹ جائے،آپ کی زندگی کا مقصد ہی کتاب اللہ کی خدمت تھا-
اس تفسیر کے مقدمہ کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے کسی بھی کتاب کا مقدمہ اس کتاب کا مغز تصور کیا جاتا ہے-علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی تفسیر کا آغاز ایک شاندار مقدمے سے کیا ہے جس کی ابتداء آپ نے ’’حدیث دل‘‘ کےعنوان سے کی ہے اور اس میں بڑے ادبی اسلوب سے اپنے دل کی باتوں کو تحریر میں ذکر کیا ہے-اس میں آپ نے اپنی تفسیر کا منہج بیان کیا ہے -اب میں ’’حدیث دل‘‘سے ایک اقتباس آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس سے آپ کی تفسیر کا منہج اور اسے تحریر کرنے کی غرض واضح ہو جاتی ہے مگراس کے ساتھ ساتھ قارئین آپ کے اسلوبِ نگارش اور فصاحت و بلاغت میں غور کریں کہ کتنے حسین و جمیل انداز میں آپ نے اپنے مقصد کو سلاست کے ساتھ بیان فرمایا ہے:
’’اللہ تعالیٰ کا بہت کرم اور بے حد احسان ہے کہ ’’شرح صحیح مسلم‘‘کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’تبیان القرآن‘‘ لکھنے کی سعادت عطا فرمائی اور کلامِ رسول کی تشریح کے بعد کلام اللہ کی تفسیر کی توفیق عطا فرمائی-ہمارے علماءِ متقدمین نے تفسیر کے موضوع پر اس قدر زیادہ اور عظیم کام کیا ہوا ہے کہ اس پر کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوسکتا، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ علماءِ اسلام کی زیادہ تر کاوشیں عربی زبان میں ہیں جن تک عام اردو دان طبقہ کی رسائی نہیں ہے تو اس بات کی بیشک ضرورت تھی کے وہ علوم اور معارف کے ان جواہر پاروں کو سہل اور عام فہم انداز میں جدید اسلوب نگارش کے مطابق اردو زبان میں منتقل کر دیا جائے ---تفسیر میں، مَیں نے اسلام کے مسلمہ عقائد کو دلائل سے مزین کیا ہے اور قرآن مجید کی جن آیات میں احکام اور مسائل کا ذکر ہے وہاں میں نے تمام فقہی مذاہب کا دلائل کے ساتھ ذکر کیا ہے- ہمارے متقدمین مفسرین نے قرآن کریم کی تفسیر میں جو نکات بیان کیے ہیں ان میں سےمیں نے استفادہ کیا ہے لیکن جو بہت بعید نکات ہیں یا دُور ازکار تاویلات ہیں ان کو ترک کر دیا ہے -میں نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر میں زیادہ سے زیادہ احادیث اور آثار کو پیش کروں، میں نے کافی محنت اور جانفشانی کر کے تبیان القران میں درج ہر حدیث کی تخریج کی ہے اور اس کا مکمل حوالہ بیان کیا ہے-[1]
جیسا کہ یہ پہلے ہی ذکر کیاجا چکا ہے کہ آپ نے عصر حاضر کے جدید مسائل میں غور و فکر کر کے شرعی دلائل کی روشنی میں اپنا موقف ذکر کیا ہے-اس حوالے سے آپ نے بہت پیاری بات ارشاد فرمائی اوروہ یہ ہے:
’’نئے اور تازہ مسائل میں غور و فکر اور اجتہادکی کافی وسعت اور گنجائش ہے اور ظاہر ہے اس میں علما کی آراء مختلف ہوتی ہیں اور جو عالم بھی کسی تازہ اور نئے مسئلہ میں غور و فکر سے اجتہادکرتا ہے وہ پوری دیانت داری اور خدا خوفی سے اس کے حکم کو دلائلِ شرعیہ سے اخذ کرتا ہے‘‘-[2]
ہر زمانے کے وہ اہل علم جنہوں نے جدید مسائل کے حل کیلیے غور و فکر اور اجتہاد سے کام لیا اور اُن مسائل پر قلم اٹھایا وہ مخالفین کی تنقید كا نشانہ بنے لیکن ان اہلِ حق کا شیوہ یہ رہا کہ وہ اپنے موقف کو علمی دلائل کے ساتھ بیان کر کے آگے بڑھ گئے اور مخالفین سے ذاتی عناد نہ رکھا اور نہ ہی ان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا - حقیقت یہ ہےکہ غلام رسول سعیدیؒ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ،اسی لیے آپ نے بڑے احسن انداز میں ایسے طبقے کو نصیحت فرمائی جو اپنے مخالفین سے بد اخلاقی کرتے ہوئے ان کی عزتوں پر کیچڑ اچھالنے اور ان پر بے جا فتوے لگانے سے باز نہیں آتے جیسا کہ آپ نے ’’حدیث دل‘‘ میں اپنے اس دردِ دل کو کچھ یوں بیان فرمایا: اگر کسی عالم کو اس سے اختلاف ہو تواس کو دلائل کے ساتھ اپنا نظریہ تو بیان کرناچاہئے لیکن فریقِ مخالف پر کیچڑ نہیں اچھالنی چاہیےاور طعن و تشنیع سے کام نہیں لینا چاہیے، بد قسمتی سے ہمارے ہاں لوگوں کا یہ مزاج نہیں ہے اور لوگوں کا جس شخص سے کسی علمی مسئلہ میں اختلاف ہو وہ اس کو جاہل، خائن اور اس نوع کے دیگر القابات سے نوازتے ہیں بلکہ اس کو دین اور ملت سے خارج کرنے سے بھی نہیں چوکتے-ان تازہ مسائل میں سے بعض میں ہمارا دوسرے علماء سے اختلاف ہے لیکن ہم نے اپنا مؤقف دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے اور ان علماء کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں رکھا اور ان کے اعزاز، اکرام اور احترام کو پوری طرح قائم رکھا ہے -[3]
آپ نے اپنے اس مقدمہ میں حدیثِ دل کے بعد اصولِ تفسیر کے بنیادی اصولوں اور اس سےمتعلقہ ابحاث کو ذکر کیا ہے جن میں سے چند یہ ہیں:
- وحی کے معنی، ضرورتِ وحی، ثبوت وحی اور اس کی اقسام
- قرآن کریم کی تعریف،اس کے اسماء، فضائل اور تلاوت کے آداب
- تحریف نہ ہو سکنے اورپیشگوئیوں کے لحاظ سے قرآن کریم کا اعجازِ علمی اور فصاحت و بلاغت
- نسخ کی تحقیق، معنی، مذاہب ، حکمتیں اور اس کے منکرین کا رد
- اسباب نزول ، اس کے فوائد ، متعدد اسبابِ نزول، قرآن کریم کے مکمل یکبارگی نازل نہ ہونے کی حکمتیں ، سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت و سورت ، سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت وسورت اور مکی و مدنی سورتوں کی معرفت
- جمع و تدوینِ قرآن کے مراحل، قرآن مجید کی سورتوں، آیتوں اور حرفوں کی تعداد، مستششرقین کے اعتراضات کے جوابات، قرآن کریم پر نقطے اور اعراب لگانے کی تاریخ و تحقیق، قرآن مجید پر رموزِ اوقاف لگانے کی تاریخ و تحقیق اور مضامین قرآن کا خاکہ ایک نظر میں
- تفسیر و تاویل کے معنی، ان کے مابین فرق ، تفسیر قرآن کی فضیلت، اس عمل کے کرنے پر اعتراضات کے جوابات، طبقاتِ مفسرین ، تفسیر قرآن کے اصل مآخذ اور تفسیر قرآن کرنے کیلیے ضروری علوم کی معرفت-
انتہائی اختصار کے ساتھ علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی تفسیر ’’تبیان القرآن‘‘ کے آغاز میں مذکور ’’حدیث دل‘‘ اور’’مقدمہ‘‘ پر اظہار خیال اور لب کشائی کی کوشش کی ہے - اس مختصر سے مقالے میں اس کے تمام پہلو ذکر کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اس میں ہم سب کے لئے یہ پیغام ہے کہ ہمیں ایسی مخلص ذی علم شخصیات کے علم سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس مبارک تفسیر کو پڑھ کر اس پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ تحصیل علم کی تکمیل اس پر عمل کے ساتھ ہی ہوتی ہے -
آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت علامہ غلام رسول سعیدی کی مرقد ِانور پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے فیض سے ہمیں فیض یاب فرمائے - بلاشبہ ہر انسان کو اس دار فانی سے کوچ کرنا ہے لیکن اس کی تحریر و تالیف اسے زندہ رکھتی ہے اور اس کیلئے صدقہ جاریہ بن جاتی ہے-
٭٭٭
[1](تبیان القران : علامہ غلام رسول سعیدی، ج 1 ص 37، اشاعتِ تاسع سن 2009، فرید بک اسٹال، اردو بازار، لاہور)
[2]( (ایضا، ج:1، ص:38)
[3](ایضاً)