قرآن حکیم پہ اقبال ؒ کےمنتخب اشعار

قرآن حکیم پہ اقبال ؒ کےمنتخب اشعار

قرآن حکیم پہ اقبال ؒ کےمنتخب اشعار

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز مارچ 2021

1-    رموزِ بنخودی

سفتہ گوش سطوتِ شاہاں نیم
قطع کن از روے قرآں دعویم

’’میں بادشاہوں کی عظمت اور دبدے کا غلام نہیں -میری گزارش یہ ہے کہ جو دعویٰ پیش کررہا ہوں، اس کا فیصلہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق کیا جائے‘‘-

پیش قرآن بندہ و مولا یکے است
بوریا و مسندِ دیبا یکی است

’’حق یہ ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک آقا اور غلام کی حیثیت ایک ہے-چٹائی پر بیٹھنے والے درویش اور اطلس کی گدی کو زینت دینے والے بادشاہ میں کوئی فرق نہیں-

چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت

’’جب خلافت نے قرآن مجید سے تعلق توڑ لیا، حریت (آزادی) کے حلق میں زہر ڈال دیا گیا-

رمزِ قرآں از حسین ؓ آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم

’’ہم نے قرآن مجید کی رمز امام حسین ؓ سے سیکھی ہے اور انہیں کی روشن کی ہوئی آگ سے شعلے جمع کرتے رہے ہیں –

آں کہ در قرآں خدا او را ستود
آں کہ حفظِ جانِ او موعود بود

’’رسول اللہ (ﷺ) کی تعریف تو خود قرآن میں آئی ہے-خدا نے آپ(ﷺ)سے حفاظت جان کا وعدہ کر لیا تھا‘‘-

تو ہمی دانی کہ آئین تو چیست؟
 زیر گردوں سر تمکین تو چیست؟
آں کتاب ِ زندہ ،قرآن حکیم
حکمت ِاو لایزال است و قدیم
نسخہ اسرار ِ تکوینِ حیات
 بے ثبات از قوتش گیرد ثبات

’’ (اے مسلم) کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرا آئین کیا ہے؟ اور اس آسمان (دنیا) کے نیچے تیرا قیام اور تیری قدر اور عزت کا راز کیا ہے؟ ہا ں تیرا دستور وہ زندہ کتاب ہے جو قرآن حکیم کے نام سے معروف ہے، اس کی حکمتیں ابتدائے آفرینش سے مسلّم چلی آرہی ہیں اور انہیں کبھی زوال نہ آئے گا- قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو زندگی کے وجود پذیر ہونے کے راز بتاتی ہے، اس کی قوت سے ناپائیدار/ فانی بھی پائیداری/بقاحاصل کرلیتی ہے‘‘-

تا دلش از گرمی قرآں تپید
موج بیتابش چو گوہر آرمید
خواند ز آیاتِ مبینِ او سبق
بندہ آمد، خواجہ رفت از پیشِ حق

’’جب قرآن مجید کی حرارت سے عرب کے دل میں تڑپ پیدا ہوتی تو اس کی بے قرار موج میں اسی طرح آسودگی پیدا ہوگئی جس طرح موتی میں آب و تاب کی موج آسودہ ہوتی ہے- اس نے قرآن مجید کی روشن آیتوں کا سبق لیا-وہ خدا کے سامنے غلام آیا تھا آقا بن کر رخصت ہوا‘‘-

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن

’’اگر تم مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہوتو یاد رکھو ایسی زندگی قرآن کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی‘‘-

از تلاوت بر تو حق دارد کتاب
تو از و کامے کہ می خواہی بیاب

’’اے مسلمان! قرآن مجید کا تجھ پر حق ہے کہ تو اس کی تلاوت کرے اور تو جو مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اسی سے حاصل کر(یعنی تیری ہر ضرورت قرآن مجید سے پوری ہوسکتی ہے)

اے کہ میداری کتابش در بغل
 تیز تر نہ پا بہ میدان عمل

’’اے ملت! اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن مجید تیرے بغل میں یعنی پاس ہے-اس کے نور سے فائدہ اٹھا اور عمل کے میدان میں چلنا شروع کر دے‘‘-

خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمیں افتندہ
در بغل داری کتابِ زندہ

’’جانتا ہے کہ تو کیوں ذلیل ہوا؟ تیری ذلت کا اصل سبب یہ ہے کہ تونے قرآن کو چھوڑ دیا اور زمانے کی گردش کے شکوے کرنے لگا-اے شبنم کی طرح زمین پر گرنے والے! تیرے پاس ایک زندہ کتاب قرآن مجید کی شکل میں موجود ہے تو اس سے زندگی کا سبق لے‘‘-

مردہ بود از آب حیواں گفتمش
سرّے از اسرارِ قرآں گفتمش

’’یہ مرچکے تھے ،میں نے انہیں آب حیات کی باتیں سنائیں اور قرآن کے بھیدوں میں سے ایک بھید انہیں بتایا کہ شاید یہ پھر زندگی سے بہرہ ور ہو جائیں‘‘-

گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحرفم غیرِ قرآں مضمر است
اے فروغت صبح اعصار و دہور
 چشم تو بینندہ ما فی الصدور
 پردہ ناموسِ فکرم چاک کن
 این خیاباں را ز خارم پاک کن

’’اگر میرے دل کا آئینہ جوہروں سے خالی ہے،اگر میری باتوں میں قرآن مجید کے سوا بھی کچھ ہے تو حضور  والا!آپ(ﷺ)کی روشنی تمام زمانوں کیلئے صبح کا سر و سامان ہے اور آپ کی آنکھ سینے کے اندر کی سب چیزیں دیکھ رہی ہے-آپ میری فکر کی عزت و حرمت کا پردہ چاک کردیجئے اور ایسا انتظام فرمائیے کہ میرے کانٹے سے پھولوں کی یہ کیاری پاک ہو جائے‘‘-

گر درِ اسرارِ قرآں سفتہ ام
با مسلماناں اگر حق گفتہ ام
اے کہ از احسان تو ناکس کس است
یک دعایت مزد گفتارم بس است

’’اگر میں نے صرف قرآنی اسرار کے موتی پروئے ہیں اور مسلمانوں کے سامنے سچی باتیں کہی ہیں تو حضور (ﷺ) والا! آپ کا احسان ہر بے حیثیت کو صاحب حیثیت بنا دیتا ہے- میں نے جو کچھ کہا،اس کے بدلے میں صرف آپ کی دعا کافی ہے‘‘-

قلبِ مومن را کتابش قوت است
حکمتش حبل الورید ملت است

’’رسول اللہ (ﷺ) جو کتاب لائے یعنی قرآن مجید وہ بندہ مومن کے دل کیلئے قوت و استحکام کا سامان ہے اور جو حکیمانہ ارشادات حضور (ﷺ) کی زبان مبارک پر جاری ہوئے انہیں ملت کی زندگی میں شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے‘‘-

2-جاوید نامہ

ز ورقِ ما خاکیاں بے ناخدا ست
کس نداند عالم قرآں کجا ست

’’ہم خاکیوں یعنی انسانوں کی کشتی ملاح کے بغیر ہے-کوئی نہیں جانتا کہ قرآن کریم کا جہان کہاں ہے‘‘-

اے بہ تقلیدش اسیر آزاد شو
دامنِ قرآں بگیر آزاد شو!

’’اے (وہ شخص) تو جو افرنگی کی بے جا قسم کی پیروی کا غلام بنا ہوا ہے اس سے آزاد ہوجا-قرآن کریم کا دامن تھام اور صحیح معنوں میں آزاد ہوجا ‘‘-

کشتنِ ابلیس کارے مشکل است
زانکہ او گم اندر اعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی
کشتہ شمشیرِ قرآنش کنی

’’شیطان کو مارنا مشکل کام ہے کیونکہ وہ دل کی گہرائیوں میں گم ہے- بہتر یہی ہے کہ تو اسے مسلمان کرلے اور قرآن کریم کی تلوار سے قتل کر دے‘‘-

حفظ ِ قرآں عظیم آئینِ تست
حرفِ حق را فاش گفتن دین تست

’’قرآن کریم کی حفاظت تیرا آئین (دستور) ہے اور حق بات کو واضح طور پر بیان کرنا تیرا دین ہے‘‘-

منزل و مقصودِ قرآں دیگر است
رسم و آئین مسلمان دیگر است
در دلِ او آتش سوزندہ نیست
مصطفی در سینہ او زندہ نیست
بندہ مؤمن ز قرآ ں بر نخورد
در ایاغ او نہ مے دیدم، نہ درد!

’’قرآن کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے -مسلمان کے رسم و آئین اور ہیں -(آج کا مسلمان قرآن اور اس کی تعلیمات سے دور ہوتا جا رہا ہے)-اس کے دل میں جلا دینے والی آگ نہیں ہے- (جو باطل کو جلا دے) اور حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) اس کے سینے میں زندہ نہیں ہیں-اس کے دل میں حضور اکرم (ﷺ) کی محبت نہیں رہی- بندہ مومن نے قرآن سے فائدہ نہیں اٹھایا-میں نے اس کے پیالے میں نہ تو شراب ہی دیکھی ہے اور نہ تلچھٹ ہی دیکھی ہے‘‘-

جز بقرآں ضیغمی روباہی است
فقر قرآں اصل شاہنشاہی است
فقر قرآں اختلاطِ ذکر و فکر
فکر را کامل ندیدم جز بہ ذکر

’’قرآن کے بغیر شیری بھی لومڑی پن ہے اور قرآن کا فقر اصل شہنشاہی ہے-قرآن کا فقر ذکر اور فکر کا اختلاط ہے ،میں نے ذکر کے بغیر فکر کو کامل (مکمل) نہیں دیکھا‘‘-

چیست قرآں؟ خواجہ را پیغام مرگ
دستگیر بندہ بے ساز و برگ!

’’قرآن کیا ہے؟ قرآن قابض وڈیرہ کیلئے موت کا پیغام ہے اور بے ساز وسامان یا مفلس غلام کا مددگا ر ہے‘‘-

نقش قرآں تا دریں عالم نشست
نقشہاے کاہن و پایا شکست
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
این کتابے نیست چیزے دیگر است!

’’جب قرآن کا نقش اس جہاں پر ثبت ہوا تو برہمنوں اور پادریوں کے نقش مٹ گئے-میرے دل میں جو کچھ پوشیدہ ہے میں واضح طور پر بیان کرتا ہوں ،اور وہ یہ ہے کہ یہ(قرآن ) کوئی کتاب نہیں ہے،کچھ اور ہی چیز ہے‘‘-

محفل ما بے مے و بے ساقی است
ساز قرآں را نواہا باقی است

’’ہماری محفل شرب اور ساقی کے بغیر ہے ،مگر قرآن کے ساز کے نغمے اپنی جگہ برقرار ہیں‘‘-

حق اگر از پیش ما بردار دش
پیش قومے دیگرے بگذار دش

’’اگر اللہ تعالیٰ اسے (قرآن کریم کو) ہمارے سامنے سے اٹھالے تو وہ اسے کسی اور قوم کے سامنے رکھ دے گا‘‘-

ترسم از روزے کہ محرومش کنند
آتش خود بر دلِ دیگر زنند!

’’میں اس دن سے ڈرتا ہوں کہ مسلمانوں کو قرآن سے محروم نہ کردیا جائے اور مولا کریم اپنے عشق کی آگ کسی اور کے دل پر نہ ڈال دے‘‘-

’’(آج کے) مسلمانوں کے سینے قرآن کی حرارت سے خالی ہو  گئے، ایسے لوگوں سے بہتری یا بھلائی کی کیا امید کی جا سکتی ہے‘‘-

صاحب قرآن و بے ذوقِ طلب
العجب ثم العجب ثم العجب

’’(عجیب بات ہے کہ) مسلمان صاحب قرآن ہوتے ہوئے (قرآن مجید کا حامل) بھی طلب کے ذوق سے محروم ہے، یہ تو بڑی عجیب بات ہے (تعجب ہے،دوبارہ تعجب ہے اور سربارہ تعجب ہے)‘‘-

مردِ مومن را عزیز اے نکتہ رس
چیست جز قرآن و شمشیر و فرس؟

’’اے نکتہ کو پا جانے والے عزیز ! مرد مومن کے لیے قر آن، تلوار اور گھوڑے کے سوا ہوتا بھی کیا ہے ‘‘-

چوں سرمہ رازی را از دیدہ فروشستم
تقدیر امم دیدم پنہاں بکتاب اندر

’’جب میں نے اپنی آنکھوں سے رازی (کی تفسیر) کا سرمہ دھو ڈالا تو میں نے قوموں کی تقدیر (راز) کتاب (قرآن) کے اندر چھپی دیکھی‘‘-

دین حق از کافری رسوا تر است
زانکہ ملا مومن کافر گر است

’’آج دین حق کافری سے بھی زیادہ رسوا ہو چکا ہے کیونکہ ہمارا ملُاّ کافر گر مومن ہے ‘‘-

از شکر فیہائے آں قرآں فروش
دیدہ ام روح الامیں را در خروش

’’اس قرآن فروش (فسادی ملاں) کی عجیب و غریب باتوں سے میں نے روح الامین جبرئیل کو واویلا کرتے دیکھا ہے ‘‘-

زانسوے گردوں دلش بیگانہ ئی
نزد او ام الکتاب افسانہ ئی

’’آج کے ملُا کا دل آسمان سے دوسری طرف کی دنیا سے بیگانہ (ناآشنا) ہے-اس کے نزدیک قرآن پاک محض ایک افسانہ ہے‘‘-

مکتب و ملا و اسرار کتاب
کور مادر زاد و نور آفتاب

’’مدرسہ اور ملا اور قرآن کے اسرار کچھ اس طرح ہیں جیسے کوئی مادر زاد اندھا اور سورج کی روشنی ہو‘‘-

دل بآیات مبیں دیگر بہ بند
تا بگیری عصر نو را در کمند

’’تو قرآن کریم کی روشن آیات سے دوبارہ دل لگا تاکہ تو عصرِ حاضر کو کمند میں گرفتار کر سکے ‘‘-

کس نمی داند ز اسرار کتاب
شرقیاں ہم غریباں در پیچ و تاب

’’کوئی بھی کتاب (قرآن کریم) کے رازوں سے آگاہ نہیں ہے - اسی لیے کیا اہل مشرق اور کیا اہل مغرب سبھی الجھاوَ میں پڑے ہوئے ہیں ، گمراہ ہیں‘‘-

چوں مسلماناں اگر داری جگر
در ضمیر خویش و در قرآں نگر

’’اگر تو مسلمانوں کا سا حوصلہ رکھتا ہے تو پھر ذرا اپنے ضمیر میں جھانک اور قرآن پر نگاہ ڈال ‘‘-

صد جہان تازہ در آیات اوست
عصر ہا پیچیدہ در آنات اوست

’’اس کی آیات میں سینکڑوں نئے جہان موجود ہیں - اس مرد مومن کے زمان میں بہت سے ادوار مضمر ہیں‘‘-

یک جہانش عصر حاضر را بس است
گیر اگر در سینہ دل معنی رس است

’’قرآنِ کریم کی آیات میں موجود جہانوں میں سے دورِ حاضر کے لیے ایک ہی جہان کافی ہے- اگر تیرے سینے میں معنی رس دل ہے تو وہ جہان لے لے‘‘-

چوں کہن گردد جہانے در برش
می دہد قرآں جہانے دیگرش

’’جب کوئی جہان اس کے پہلو میں پرانا ہو جاتا ہے تو قرآن کریم اسے ایک اور نیا جہان عطا کر دیتا ہے ‘‘-

3-پیامِ مشرق

سید کل، صاحب ام الکتاب
پردگیہا بر ضمیرش بی حجاب

’’آپ کُل (موجودات)  کے سردار اور صاحب ام الکتاب ہیں جن کے قلب (دل) پر چھپی ہوئی چیزیں آشکار ہیں ، پوشیدہ باتیں ظاہر ہیں ‘‘-

4-پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق

برگ و سازِ او ز قرآنِ عظیم
مرد درویشے نگنجد در گلیم

’’فقر کا سامان قرآن عظیم ہے-مرد درویش گودڑی میں نہیں سماتا‘‘-

فقر قرآں احتسابِ ہست و بود
نے رباب و مستی و رقص و سرود

’’قرآن کا فقر کائنات کا احتساب ہے،کوئی ساز و آواز،  بدمستی اور رقص و سرود کا نام نہیں ہے‘‘-

اے کہ می نازی بہ قرآن عظیم
تا کجا در حجرہ باشی مقیم

’’تو جو قرآن کریم پر فخر کرتا ہے،کب تک حجرے کو اپنا ٹھکانا بنائے رکھے گا‘‘-

در نفس سوزِ جگر باقی نماند
لطف قرآں سحر باقی نماند

’’میرے سانس میں جگر کا سوز باقی نہیں رہا-صبح کے وقت تلاوت قرآن کا لطف بھی جاتا رہا‘‘-

اندکے گم شو بقرآن و خبر
باز اے ناداں بخویش اندر نگر

’’کچھ دیر کیلئے قرآن کریم اور حدیث کے اندر گم ہو جا پھر اے نادان اپنی ذات کے اندر بغور جھانک‘‘-

غیر قرآں غمگسارِ من نبود
قوتش ہر باب را بر من کشود

’’سوائے قرآن کریم کے کوئی اور میرا غمگسار نہ تھا –اس کی طاقت نے مجھ پر (کامیابی کے) تمام دروازے کھول دئیے‘‘-

صد جہاں باقی است در قرآں ہنوز
اندر آیاتش یکے خود را بسوز

’’قرآن کریم میں ابھی سینکڑوں جہان باقی ہیں-تو ذرا اس (قرآن) کی آیات کے سوز سے گرمی حاصل کر (خود کو جلا تو سہی)‘‘-

برگ و سازِ ما کتاب و حکمت است
ایں دو قوت اعتبارِ ملت است

’’ہمارا اثاثہ حیات قرآن کریم اور حکمت ہے –انہی دو قوتوں سے ملتِ اسلامیہ کا وقار اور بھرم ہے‘‘-

بر خور از قرآں اگر خواہی ثبات
در ضمیر ش دیدہ ام آب حیات

’’اگر تو حیاتِ ابدی کی خواہش رکھتا ہے تو قرآن کریم سے استفادہ کر میں نے اس میں آب حیات دیکھا ہے‘‘-

گوہر دریائے قرآں سفتہ ام
شرح رمز صبغۃ اللہ گفتہ ام

’’میں نے قرآن پاک کے سمندر سے موتی نکال کر اپنے کلام میں پرویا ہے -میں نے اللہ تعالیٰ کے رنگ کے راز کی تفسیر بیان کی ہے‘‘-

5-ارمغانِ حجاز

ز رازی حکمت قرآں بیاموز
چراغے از چراغ او بر افروز

’’(اے مسلمان) رازی سے قرآن کی حکمت سیکھ، اس کے ( علم کے) چراغ سے (اپنا ) چراغ روشن کر‘‘-

نیام او تہی چوں کیسہ او
بطاق خانہ ویراں کتابش

’’اس (آج کا مسلمان) کی نیام اس کی جیب کی طرح خالی ہے- یعنی نہ اس کی جیب میں پیسہ ہے اورنہ اس کی نیام میں تلوار ہے - اور اس کی کتاب (قرآن) ویران گھر کے طاق میں رکھی ہوئی ہے‘‘-

بہ بند صوفی و ملا اسیری
حیات از حکمت قرآں نگیری

’’اے مسلمان تو صوفی و ملا کی زنجیروں میں قید ہے - قرآن کی حکمت سے زندگی حاصل نہیں کرتا ‘‘-

بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست
کہ از یٰسین او آسان بمیری

’’تجھے اس کی آیتوں سے اس کے سوا کوئی سروکار نہیں کہ اس کی سورہ یٰسین سے تو بآسانی مر سکے‘‘-

6-اسرارِ خودی

اے امین حکمتِ ام الکتاب
وحدت گمگشتہ ی خود بازیاب

’’ اے مسلمان! تو قرآن کریم کی حکمت کا امانت دار ہے تو اپنی گم گشتہ وحدت کو پھر سے پا لے/ حاصل کر لے ‘‘-

7-بانگِ درا

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے

 

حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

8-بالِ جبریل

تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا
کہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحب کشاف

9-ضربِ کلیم

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قرآنی

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب

خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمد
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر