حدائق ’’حدیقۃ‘‘کی جمع ہے، حدیقہ عربی میں باغ کو کہتے ہیں اور بخشش فارسی زبان کا لفظ ہے جو انعام، عطیہ، معافی، عفو درگزر وغیرہ کے معنی دیتا ہے- حدائق ِبخشش اعلیٰ حضرت، امام احمدرضا خان قادریؒ کاسرورِ کون و مکاں، مؤنس انس و جاں سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کے عشق ومحبت میں ڈوب کر لکھا ہوا شاہکارنعتیہ کلام کا مجموعہ ہے اور ایک ایسی متاع بے بہا ہے جس پر اردو کی نعتیہ شاعری کو ہمیشہ فخر رہے گا- حدائق بخشش میں جہاں تقوٰی و عشقِ مصطفٰے (ﷺ) کے رنگ کی بھرپور آمیزش ہے، وہیں استعارہ سازی، تشبیہات، اقتباسات، تجانیس، تلمیحات، تلمیعات، مراعاۃ النظیر، اشتقاق، فصاحت و بلاغت، حسنِ تعلیل و حسنِ تشبیب، حسنِ طلب و حسنِ تضاد، لف و نشر مرتب وغیرہ صنعتیں بھی اپنا جلوہ بکھیر رہی ہیں- عبدالستار ہمدانی صاحب نے اپنی کتاب فنِ شاعری ’حسان الہند‘ میں ’حدائق بخشش‘ کی دوسری بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس میں استعمال کی ہوئی تقریبا 31 صنعاتِ شعر کا ذکر کیا ہے- ان میں ایسی بہت سی صنعتیں بھی ہیں جن کی مثال اردو کے استاد شعراء حتی کہ مرزا غالب کی شاعری میں بھی نہیں ملتی-اس دیوان میں نعت کے ضروری لوازمات کے استعمال سے مدحِ سرورِ کائنات (ﷺ) کی انتہائی کامیاب ترین کوششیں ہیں جس کو سن کر صرف عام سامع ہی نہیں بلکہ داغ دہلوی جیسا استادِ سخن بھی بے اختیار پکار اٹھتاہے:
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم |
حدائقِ بخشش میں مذکورہ تلمیحات:
تلمیح عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مادہ ل- م-ح ہے اور یہ اسم تفعیل کا صیغہ ہے - ’’لَمَّحَ یُلَمِّحُ تَلْمِیْحًا‘‘ کے معنی نظر کرنا، واضح کرنا اور اشارہ کرنا-[1] یہ بلاغت کی اقسام میں سے علم بدیع کی ایک قسم ہے اس کا شمار صنائعِ شعری میں ہوتا ہے-
اصطلاح میں تلمیح سے مرادہے:
’’ھو ان یشیر المتکلم فی کلامہ لآیۃ او حدیث او شعر مشھور او مثل سائر قصتہٖ‘‘[2]
’’متکلم اپنے کلام میں کسی آیت یا مشہور شعر یا معروف کہاوت یاکسی قصے کی طرف اشارہ کرے‘‘-
گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شعر یا نثر یا گفتگو میں کسی مشہور واقعے، قصے، آیت، حدیث، تاریخی یا فرضی کردار، مثل (کہاوت)، محاورے، ترکیب، کسی علم یا فن کی اصطلاح یا داستان، اساطیری، مذہبی، ادبی امور سے متعلق مشہور بات کی طرف اشارہ کرنا تلمیح ہے- مثلاً غزوہ بدر،کشتی نوح،آب حیات،جامِ جمشید،چاہِ بابل،طورِ سینا وغیرہ تلمیحات ہیں -
تلمیح کو تلمیح کیوں کہتے ہیں؟ اس کو تلمیح اس لیے کہتے ہیں کہ یہ الفاظ ایک طرح سے اشارہ بن جاتے ہیں- ان کے زبان پر آتے ہی خاص حالات و واقعات آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے ہیں-مثال کے طور پر ’’جوئے شیر‘‘ کی تلمیح سے شیریں فرہاد کا پورا قصہ ذہن میں گھوم جاتا ہے-
فن شاعری میں کچھ صنعات(صنعت استعارہ،صنعتِ مراعات النظیر،صنعتِ لف و نشر،صنعتِ تضاد، صنعت تلمیح وغیرہ) متعین کی گئی ہیں- اس مضمون میں اعلیٰ حضرتؒ کےنعتیہ کلام مبارک میں جو قرآنی تلمیحات مذکور ہیں ان میں سے چند تلمیحات کو بعونِ اللہ تعالیٰ زیبِ قرطاس کرنے کی سعی سعید کرتے ہیں -
وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کا ہے سایہ تجھ پر |
اس میں تلمیح ’’وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ‘‘[3] ہے، یہ آیت مبارک دراصل تاجدارِ کائنات، صاحب لولاک حضور احمد مجتبیٰ (ﷺ) کی شان مبارک میں نازل ہوئی اور اس کا مطلب ہے کہ (اے محبوب مکرم (ﷺ) ہم نے آپ (ﷺ) کا ذکر تمہاری خاطر بلندکیا-
لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ تھا وعدہ ازلی |
اس میں تلمیح ’’لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ‘‘ اور یہ آیت قرآنیہ متعدد مقامات پہ مذکورہے -اس شعر کا مطلب یہ ہے منکرین اور گستاخانِ مصطفٰے (ﷺ) کا سرور انبیاء حضور احمد مجتبیٰ (ﷺ) کے فضائل و کمالات کا انکار کرنا اس لیے ہے کیونکہ اللہ عزوجل کا یہ ازلی حکم مبارک ہے کہ :
’’لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘‘[4]
’’بےشک ضرور جہنم بھر دوں گا جنوں اور آدمیوں کو ملا کر) اس لیے یہ بدعقیدہ جہنم کے ایندھن کے کام آئیں گے ‘‘-
انْتَ فِیْهِمْ نے عدو کو بھی دامن میں |
اس میں تلمیح ’’اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘ جوآیت مبارک’’وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ‘‘،[5] ’’اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب(ﷺ) تم ان میں تشریف فرما ہو ‘‘سے اخذ کی گئی ہے -اس شعر کا مطلب کچھ یوں بنتاہےکہ :
دوستاں را کجا کنی محروم |
اے مظہرذات کبریا،تاجدار لولاک لما(ﷺ) تیری نظرشفقت تو دشمنوں کو اپنے دامن مبارک میں لیے ہوئے ہے (یعنی وہ بھی آپ (ﷺ) کے قدم مبارک رنجہ فرما ہونے کی وجہ سے مامون ہیں ) توآپ (ﷺ) اپنے غلاموں کو کب اپنی نظرِ التفات سے محروم فرمائیں گے؛ یہ ہو ہی نہیں سکتا-
ہے کلام ِ الٰہی میں شمس و ضُحٰے ترے چہرہ نور فزا کی قسم |
اس شعر میں تلمیح ’’شمس و ضحٰے‘‘ ہے،اس کا مآخذسورۃ اللیل کی آیت مبارک ’’وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا‘‘[6] ہے اس کا لفظی ترجمہ اگرچہ ’’ سورج اور اس کی روشنی کی قسم‘‘ ہے لیکن کئی مفسرین (روح البیان وغیرہ )نے ’’الشمس اور الضحیٰ‘‘سے مراد حضور نبی رحمت (ﷺ) کا نورانی چہرہ مبارک مراد لیا ہے یعنی اللہ عزوجل نے آپ (ﷺ) کے پرنور چہرہ مبارک کی قسم یادفرمائی ہے- اس کی تائید ترمذی شریف کی روایت مبارک سے بھی ملتی ہے جیساکہ سیدنا ابوہریر ہ ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں:
’’ مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَّسُولِ اللهِ (ﷺ) كَاَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِي فِي وَجْهِهٖ---‘‘[7]
’’میں نے رسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس سے زیادہ حَسین کسی کو نہیں دیکھا، معلوم ہوتا تھا گویا کہ آپ (ﷺ) کے چہرہ مبارک سے مَیں چل رہا ہو‘‘- وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کودیا نہ کسی کوملے نہ کسی کو ملا |
اس شعر کےدوسرے مصرعہ میں الفاظ مبارکہ ’’شہر و کلام و بقا‘‘تلمیحات ہیں یعنی اللہ پاک نےاپنے کلام پاک میں اپنے محبوب کریم (ﷺ) سے منسوب شہر، گفتگو اور عمر مبارک کی قسم کھائی ہے اوریہ تلمیحات کلام اللہ کی تین آیات مبارکہ سے لی گئی ہیں جیساکہ قرآن پاک میں ہے :
’’لَا اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ لاوَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ‘‘[8]
’’مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب(ﷺ) تم اس شہر میں تشریف فرما ہو ‘‘-
’’وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ‘‘ [9]
’’مجھے رسول (ﷺ)کے اس کہنے کی قسم ! کہ اے میرے رب یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘-
’’لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ‘‘[10]
’’اے محبوب(ﷺ) تمہاری جان کی قسم ! بےشک وہ اپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں‘‘-
نہ عرش ایمن نہ اِنِّیْ ذَاهِبٌ میں میہمانی |
اس شعرمیں تین تلمیحات ’’ایمن،اِنِّیْ ذَاهِبٌ اور لَنْ تَرٰىنِیْ‘‘ ہیں -
پہلے مصرعہ میں ’’نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ‘‘[11] (ندا کی گئی میدان کے دہنے کنارے سے) کی طرف اشارہ ہے بقیہ دو تلمیحات کامآخذ کچھ یوں ہے قرآن مجید میں مذکور ہے -سیدنا موسیٰ ؑ نے ارشادفرمایا:
’’وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ‘‘[12]
’’اور کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں اب وہ مجھے راہ دے گا‘‘-
آپ ؑ نے اللہ عزوجل کی آرزوِ دیدار کی تو اللہ پاک نے جواباًارشادفرمایا:
’’لَنْ تَرٰىنِی‘‘[13]
’’تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا‘‘-
اما م احمدرضاخاںؒ اس شعر میں حضور نبی مکرم (ﷺ) کی شانِ اقدس میں رقمطراز ہیں کہ موسٰیؑ کو صرف نداء فرمائی گئی جبکہ اللہ پاک نے اپنے محبوب پاک (ﷺ) کو عرش بریں پہ بلاکرخاص مہمانی سے نوازا-اس لیے کہاں نداء اورکہاں مہمانیِ ربِ ذوالجلال-اسی طرح کوہ طور حضرت موسیٰؑ کے تقاضا دیدار کے باوجود اللہ پاک ’’لَنْ تَرٰىنِی‘‘کے ساتھ جواب عطافرماتے ہیں جبکہ اپنے محبوب مکرم (ﷺ) کو خود معراج پہ بُلا کر شرفِ دیدار سے نوازا گیاہے -مختصر یہ کہ واقعہ طور اور واقعہ معراج میں بہت بڑا فرق ہے -
والضحیٰ حجرات الم نشرح سے پھر |
مذکورہ شعر میں ’’والضحیٰ ،حجرات اور الم نشرح‘‘ تلمیحات ہیں جن سے مراد پوری سورتیں ہیں اور ان سورتوں سے مراد وہ مضامین ہیں جو حضور نبی کریم (ﷺ) کے کمالات وصفات اور تعظیم و آداب پہ مشتمل ہیں-آپؒ عشاقانِ مصطفٰے (ﷺ) کو نصیحت کرتے ہیں کہ مذکورہ تینوں سورتوں سے حضور نبی کریم (ﷺ) کے کمالات وفضائل پڑھ کر سنائیں تاکہ ان پر اتمام حجت ہو جائےتاکہ روزِقیامت نہ کوئی عذر پیش کرسکیں اور نہ کوئی عذر ان کے کام آسکے -
مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوْكَ ہے گواہ |
اس شعر میں تلمیح ’’جَآءُوْكَ ‘‘کی طرف اشارہ ہے:
’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘[14]
’’اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب (ﷺ) تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول(ﷺ) ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں‘‘-
آپؒ ارشادفرمارہے ہیں کہ جب اللہ پاک خود گناہ گاروں کو اپنے محبوب مکرم (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس کی طرف رہنمائی فرمارہے ہیں تواب اگر گناہ گار اللہ پاک کے حکم مبارک کی تعمیل میں بارگاہ ِ خیرالانام(ﷺ) میں بصد عجز و نیاز حاضر ہوں گےتو کریموں کی یہ شان نہیں کہ اپنے در اقدس پہ بلا کر رد کر دیں- یعنی ان شاء اللہ ضرور رب عزوجل سے بخشش کا پروانہ عطا ہوگا-
ان پہ کتاب اتری بَیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ |
اس میں تلمیحات ’’بَیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ‘‘اور’’ماعبر و ماغبر‘‘ ہیں- پہلی تلمیح میں اللہ پاک کے اس فرمان مبارک کی طرف اشارہ ہے:
’’وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ‘‘[15]
’’ اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو‘‘-
دوسری تلمیح میں اشارہ ہے:
’’ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ‘‘[16]
’’ اور نہ کوئی تر اور نہ خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو‘‘-
یعنی اللہ پاک نے اپنے محبوب مکرم (ﷺ) پہ وہ ذیشان کتاب کا نزول فرمایا جس میں ماضی ومستقبل کی تمام خبریں ہیں-
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام |
اس میں تلمیح ’’اَكْمَلْتُ لَكُمْ‘‘ ہے جس کا اشارہ اللہ پاک کے اس فرمان مبارک کی طرف ہے:
’’اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘[17]
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا‘‘-
اس شعر کامفہوم یہ ہے کہ اے محبوب مکرم (ﷺ)! اللہ پاک نے آپ (ﷺ) پہ قرآن پاک کا نزول مکمل فرما کر اس پہ ’’ اَكْمَلْتُ لَكُمْ ‘‘کی مہر ثبت فرمادی ہے-
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ یہ ملا ہے تجھ کو منصب |
ان دونوں اشعارمیں مذکورہ تلمیحات سورہ الم نشرح کی آیات مبارکہ (7-8)سے ماخوذہیں- امام احمد رضا خان بریلویؒ اللہ عزوجل کا اپنے محبوب مکرم (ﷺ) کویہ حکم مبارک ’’فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ، وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ‘‘ [18](تو جب تم نماز سے فارغ ہو تو دعا میں محنت کرواور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو) بیان کرکے مفہوم یہ اخذ فرماتے ہیں کہ اے محبوب مکرم (ﷺ) اللہ عزوجل نے آپ(ﷺ) کو خود ہی اپنی بارگاہِ اقدس میں دعا مانگنے، اپنی بارگاہ مبارک میں رغبت رکھنےاور ہمیں آپ (ﷺ) کی چوکھٹ کا سوالی بنا کر بھیک مانگنے کا حکم ارشادفرما کر ارشاد فرمایا:
’’وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَر‘‘[19] ’’اور منگتا کو نہ جھڑکو ‘‘
پندہا دادیم و حاصل شد فراغ |
یہ تلمیح اس آیتِ قرآنی کی جانب اشارہ کرتی ہے:
’’وَ مَا عَلَیْنَاۤ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ‘‘ [20]
’’اور ہمارے ذمہ نہیں مگر صاف پہنچادینا ‘‘-
حضور رسالت مآب (ﷺ) کا یہ معمول مبارک تھا کہ آپ (ﷺ) کسی کودعوت الی اللہ ارشادفرماتے تو باوجود معجزات و براہین کے جب مخالف حقائق کو تسلیم نہ کرتاتوآپ (ﷺ) ’’وَ مَا عَلَیْنَاۤ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ‘‘ارشاد فرماتے-یہی وجہ ہے کہ مصنف نے بھی پند و نصائح سے فارغ ہو کر تو آقا کریم (ﷺ) کی سنت مبارک کو ادا کرتے ہوئے ’’وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ‘‘ فرمایا-
چوں ببینندآں سحاب ایناں زدُور |
ان دونوں اشعار مبارکہ میں چار تلمیحات ’’عَارِضٌ مُّمْطِرٌ، اِسْتَعْجَلُوْا، رِیْحٌ اور عَذَاب اَلِیْم‘‘ہیں، دراصل ان تمام تلمیحات کا مشارّ الیہ ’’قوم عاد‘‘ہے کہ انہوں نے اللہ عزوجل کے مبعوث فرمائے گئے پیغمبر(ﷺ) کی بے ادبی و گستاخی کی تو اللہ پاک نے ان پر عذاب کی شکل میں سیاہ بادل بھیجا- اس سےعبرت پکڑنے کی بجائے انہوں نے جو ردّعمل ظاہر کیا اس کو اللہ پاک نے یوں بیان فرمایا:
’’فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِهِمْ، قَالُوْا هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَاطبَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهٖط رِیْحٌ فِیْهَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘[21]
’’پھر جب انہوں نے عذاب کو دیکھا بادل کی طرح آسمان کے کنارے میں پھیلا ہوا اُن کی وادیوں کی طرف آتا بولے یہ بادل ہے کہ ہم پر برسے گا بلکہ یہ تو وہ ہے جس کی تم جلدی مچاتے تھے ایک آندھی ہے جس میں درد ناک عذاب‘‘-
نیست فضلش بہرِ قوم بے ادب |
بے ادب و گستاخ قوم حضور تاجدارِ انبیاء(ﷺ)کے فیض وفضل سے محروم ہے بلکہ اللہ عزوجل کے غضب وجلال کی آگ ان کو اچک لے گی -
اس شعر میں تلمیح ’’ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ‘‘ہے جو اُس آیت مبارک کی جانب اشارہ کرتی ہے جس میں اللہ پاک نے منافقین کی حالت یوں بیان فرمائی:
’’یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْط كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِۗ لا وَ اِذَاق اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاطوَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْطاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘[22]
’’بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اُچک لے جائے گی جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگےاور جب اندھیرا ہوا کھڑے رہ گئے اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں لے جاتا بیشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے‘‘-
قل كزرع اخرج شطـا الی |
اس تلمیح کا ماخذ سورہ فتح کی یہ آیت مبارک ہے:
’’كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــئَہٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ‘‘[23]
’’جیسےایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اُسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ اُن سے کافروں کے دل جلیں‘‘-
ان اشعار میں دراصل رسول کریم (ﷺ) کے غلاموں کی شان اقدس کا ذکر مبارک ہے کہ روز بروز جہاں ان کی تعداد میں اللہ پاک اضافہ فرما رہا ہے وہاں ان کا اپنے آقا و مولا (ﷺ) سے عشق وغلامی کاتعلق بھی عروج پہ ہے- جیساکہ روایت میں ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے مالک بن نومیرہ کو صرف اسی بناء پہ واصل جہنم کیا تھا کیونکہ اس نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کوتمہارے صاحب کہ کر پکارا-[24] حالانکہ یہ اندازگفتگو کلام ِ عرب میں رائج تھا لیکن اس کا انداز چونکہ سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کی (معاذ اللہ) بے ادبی کو ظاہر کر رہا تھا اس لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کوبرداشت نہ ہوا-ان اشعارکا سلیس ترجمہ کچھ یوں ہے-آپ (ﷺ) فرما دیں کہ جیسے وہ کھیتی جس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اُسے طاقت دی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بہتے چشمے کی طرح بھلی لگتی ہے تاکہ ظالم کافروں کے دل جلیں-
حرفِ آخر:
اردو زبان کی اٹھان میں شامل زبانوں میں عربی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، اس لئے اردو زبان کے محسنین عربی زبان و ادب سے بھی بخوبی واقف تھے -عربی سے واقفیت بغیر قرآن مجید کے بھلا کیسے ممکن تھی، اس لئے اعلی ٰحضرت امام احمد رضا خان قادری جو اپنے عصر کے امامِ اہلسنت و امام ِ احناف تھے، آپ نے دیگر ملی و دینی محاذوں کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کے شعبہ میں بھی گراں قد خدمات سر انجام دیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اردو زبان کے محسن اور اُردو نعت گوئی کے البوصیری ؒو جامی ؒ ہیں-آپ کے نعتیہ کلام کے مجموعہ ’’حدائقِ بخشش‘‘ سے یہ چند ایک تلمیحات پیش کی گئی ہیں، وگرنہ پورا کلام نہیں صرف سلامِ رضا (مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام)میں شامل تلمیحات کو تشریح سے بیان کیا جائے تو وہ ایک الگ کتاب کا متقاضی ہے-
٭٭٭
[1](المنجد،ص:932)
[2]( دروس البلاغۃ،ص:167)
[3]( الم نشرح :4)
[4]( ھود:119)
[5]( الانفال:33)
[6]( اللیل:01)
[7]( سنن الترمذی، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ)
[8]( البلد :1-2)
[9]( الزخرف:88)
[10]( الحجر:72)
[11]( القصص:30)
[12]( الصفات:99)
[13]( الاعراف:143)
[14]( النساء:64)
[15](النحل:89)
[16]( الانعام:59)
[17]( المائدہ:03)
[18]( الشرح:7-8)
[19]( الضحیٰ:10)
[20](یٰسین:17)
[21]( الاحقاف:24)
[22]( البقرۃ:20)
[23]( الفتح:29)
[24]( شفاء شریف، ج:2،ص:608)