زبان کی اہمیت و ضرورت ہر دور میں اتنی ہی اہم رہی ہے جتنی انسان کو بولنے اور اپنا پیغام بیان کرنے کی- زبان کی حقیقت کیا ہے؟اور زبان حقیقت میں کیا ہے؟ وغیرہ جیسےیہ وہ فلسفیانہ سوالات ہیں کہ جن پرمختلف ادوار میں طویل مباحث کئے گئے لیکن الفاظ و زبان سے متعلقہ سوالات گزرتے دن کےساتھ نئے زاویہ سے پیدا ہوئے-[1] ان نظریات نے زبان کی حقیقت کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ ایسے دلائل دیئے ہیں کہ عام فہم ذہن اس جھانسے میں آکر موجودہ اسلامی روایت کا انکار[2] کر دے اور اس کی نظر میں موجود ہدایت و براہین کا سرچشمہ قرآن مجید و حدیث اور دیگر علوم اسلامیہ کا لٹریچر بےمعنی رہ جائے، زبان اور ہدایت کا ساتھ لازم و ملزوم ہے جیسا کہ حضرت موسٰی ؑ نے دعا مانگی کہ اے اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ تیرے عطا کئے ہوئے حق کے پیغام پہنچانے میں آسانی ہو -
خالق عالم نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے سلسلہ نبوت و رسالت کا آغاز فرمایا تاکہ بھٹکوں کو راہ نجات میسر ہو سکے، مختلف ادوار میں علاقوں اور قوموں کی جانب اپنے پیغمبر بھیجے، اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہ بندے اپنے علاقوں اور قوموں کو اللہ پاک کی توحید و واحدانیت کا درس دیتے رہے، زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھلاتے رہے، وحی الٰہی حالات اور تقاضوں کے مطابق ہدایت کا سبب بنتی رہی، انبیاء اور رسول کلامِ الٰہی کو اپنی امتوں تک پہنچاتے رہے، کلامِ الٰہی کتابوں اور صحیفوں کی صورت میں امتوں کے پاس محفوظ رہے، نیک اور پاک باز افراد ان ہدایات اور سنت انبیاء پر من و عن عمل کرتے رہے، لیکن بد باطن اور بد نیت لوگ راہ ہدایت سے بھٹکنے لگے اور بجائے خود تبدیل ہونے کے کلام الٰہی کے متن میں تحریف و تبدل کے جرم میں مبتلا ہوگئے- یوں دنیا جہل و گمراہی کےاندھیرےمیں ڈوب گئی- لیکن مالک کائنات نے درِ رحمت کشادہ فرمایا اور ہادی عالم (ﷺ) کو مبعوث فرما کر مخلوقاتِ کل پر احسان عظیم فرمایا ، پہلے انبیاء و رسل کی طرح آپ(ﷺ) کو بھی معجزات عطا فرمائے گئے تاکہ ان کو دیکھ کر لوگ حق کی راہ پر گامزن ہو سکیں- آپ (ﷺ) کو کئی معجزات سے نوازا گیا لیکن آپ (ﷺ)کا زندہ و جاوید معجزہ یعنی ’’قرآن پاک‘‘ رہتی دنیا کےلئے معجزہ ہے - قران پاک تئیس (23)سال کےعرصےمیں بتدریج ’’عربی زبان‘‘[3] میں نازل کیا گیا-
عربی زبان کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہ قرآن پاک کی زبان ہے، عربی زبان کے بارے میں یہاں فقط اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ یہ قبل از نزول قرآن سےاب تک ایک لینگوافرانکا [4](زبان مشترک) کا کردار ادا کر رہی ہے- عربوں نے حالات اور ضروریات کے باعث دوسری اقوام سے اپنا رابطہ جوڑا، جس کے باعث عربی زبان میں دوسری زبانوں جیسے کہ رومی، فارسی ، حبشی کے الفاظ ، محاورے، تراکیب و اسالیب کو عربوں نے اپنی زبان کے قواعد و ضوابط میں ڈھال کر اپنی زبان میں شامل کیا جس کے باعث عربی ادب پُرمغز اور وسیع ہو گیا، یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ عرب قبائل میں بٹے ہوئے تھے ان کے پاس ایک مشترک سیاسی اور معاشی نظام نہیں تھا، لیکن ذہنیت، ادب اور زبان کے اعتبار سے ان میں اقدار ضرور مشترک تھیں بلکہ ان کی زبان ہی ان کی اجتماعیت کی علامت تھی اور ہر شے کے اظہار کے واسطے انہوں نے بہت سے الفاظ وضع کر رکھے تھے، یہ اتنی عام اور سادہ بات نہیں بلکہ اسے سمجھنے کے لئے فقط یہ کَہ دینا کافی ہے کہ اہل عرب، غیر عربوں کو عجمی یعنی گونگے قرار دیتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک غیر عرب اظہار کرنے پر قادر نہ تھے اور ان کو یہ فخر اپنی زبان کی وسعت اور فصاحت پر بلا وجہ نہ تھا- اس وسعت اور فصاحت کو سمجھنے کے لئے یہ جان لینا کافی ہو گا کہ ایک لفظ کے کئی کئی ’’مترادفات‘‘ تھے- ایک ہی شے کی مختلف کیفیات یا حالات کے لئے الگ الگ ’’الفاظ‘‘- مہینہ کے تیس راتوں میں چاند کی کیفیت کے اعتبار سے نام بھی تیس ہی تھے، اب اگر مترادفات کا ذکر کریں تو علماء لغت نے سال کے لئے 24 نام، روشنی کے لئے 21، تاریکی کے لئے 52، کنویں کے لئے 88، پانی کے لئے 170، شیر کے لئے 350اور اونٹنی کے لئے 255 نام بتائے ہیں (یعنی کیفیت کے بدلنے کے ساتھ نام میں تبدیلی)، درازی قد کے لئے91، چھوٹے قد کیلئے 120 الفاظ آئے - [5]ایسی وسیع زبان شاید ہی پوری دنیا میں کوئی اور ہو-
زبان کے وجود میں آنے یا اس کی افزائش، پھلنے پھولنے میں کئی عناصر کا عمل دخل کار فرما ہوتا ہے تو اردو زبان کی بات کی جائے تو اردو زبان کا آغاز کب ہوا حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا، کیونکہ کوئی بھی بولی بہت سے ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی زبان کے درجے پر پہنچتی ہے بعین ہی اردو کے خد و خال گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں بننا شروع ہوئے-[6] اردو ادب کا آغاز اور عروج جس وقت میں ہوا وہ سیاسی اور فکری طور پر اتنا قابل رشک نہیں، بلکہ سیاسی انحطاط، معاشی پریشانی اور معاشرتی بدحالی کا دور ہے- مغل فرمانروا ، اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد برصغیر پاک و ہند سنبھل نہ سکا اور سیاسی انتشار کا شکار ہو گیا، عالمی استعمار کی نظریں اس پر پہلے سے ہی تھیں پرتگالی، ولندیزی، فرانسیسی اور انگریز پنجے جھاڑ کر برصغیر پر ٹوٹ پڑے- انگریزوں نے برصغیر کو اپنی نوآبادی بنا لیا اس تاریخ سے ہر کوئی واقف ہے لیکن اہل برصغیر اور اہل اردو اتنے سخت جان تھے کہ اس پریشانی اور ابتلاء کے دور میں بھی ایک اعلیٰ او ارفع ادب تخلیق کرتے رہے- جس میں علماء و صوفیاء نے بھی حق قلم ادا کیا اور خصوصاً مسلمانوں کو اس ابتری اور پریشانی سے نکالنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اوراپنارخ منبع ہدایت قرآن پاک کی طرف کر لیا اور قرآن پاک کےتراجم، تفاسیر اور دیگرزبانوں میں موجودتفاسیر کوترجمہ کیا- یہ حروف لکھنےتک یہ کام جاری و ساری ہےاورانشاءاللہ جاری وساری رہےگا-
زیر نظر تحریر میں ہم اردو زبان میں اب تک قرآن مجید کی ہونے والی خدمات،[7] قرآن مجید کے تراجم،[8] اردو کے ذخیرہ میں تفاسیری ادب، منظوم تراجم کی موجود طویل فہرست سے خوشہ چینی، اردو میں علوم قرآن اور اس کے علاوہ غیر مسلم اہل قلم کی جانب سے قرآن پاک کے اردو تراجم پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں گے-
اردو زبان میں قرآن مجید کے اولین تراجم میں پہلا ترجمہ جسے خالص اردو تو نہیں کہا جا سکتا لیکن عربی و فارسی کے میل سے پیدا ہونے والی زبان میں عہدِ اورنگ زیب کے عالم قاضی محمد معظم سنبھلی کی طرف سے 1719ء میں ہوا- جس کے بعد اسی طرح کا ایک اور ترجمہ جس کے مترجم نامعلوم ہیں 1737ء میں ہوا- بدقسمتی سے یہ دونوں تراجمے زیور طباعت سے آراستہ نہ ہو سکےالبتہ ان کے خطی نسخے ضرور موجود ہیں- اسی طرح ایک ترجمہ اور تفسیر المعروف تفسیر مرتضوی، غلام مرتضیٰ فیض آبادی کی ہے اس تفسیر کے خطی نسخے مختلف کتب خانوں میں محفوظ ہیں- اسی طرح اہل تشیع کی قدیم تفاسیر میں سید علی بن دلدارعلی نقوی کی تفسیر توضیح المجید فی تنقیح کلام اللہ المجید ہے- قرآن کے مختلف طرز پر تراجم کر کے مترجمین نے قرآن مجیدکی خدمت کی- یہاں بس یہ بتانا مقصود تھا کہ 1719ء سےآج تک اردو زبان میں تراجم و تفاسیر کا سلسلہ شروع ہے جس کی ایک بہت ہی طویل فہرست ہے اتنے زیادہ تراجم اور مترجمین کے نام کو ایک آرٹیکل میں سیمٹنا ممکن نہیں بس کہنا یہ مقصود تھا کہ جب سے اردو زبان کے خدوخال ابھرنا شروع ہوئے قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا-
قرآن پاک کا یہ خاصہ کسی اور دوسری کتاب کو میسر نہیں کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والے، شائع ہونے والی اور سب سے زیادہ ترجمہ ہونے والی کتاب ہےاور یہی صورتحال تفاسیر قرآن میں بھی برقرار ہے- بلا شبہ عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ تفاسیراردو زبان میں موجود ہیں یہ یا تو عربی میں موجود تفاسیر کا ترجمہ ہیں یا پھر خود علماءِ کرام نے کی ہیں- قرآن پاک کی سب سے زیادہ تفاسیرعربی زبان میں کی گئیں، یہ سلسہ آقا پاک (ﷺ)کی ظاہری زندگی مبارک میں ہی شروع ہو گیا سب سے پہلےمفسرِقرآن خود آقا پاک (ﷺ)ہیں کہ آپ (ﷺ)نے بنفس نفیس اصحاب پاک ؓ کو قرآن پاک سمجھایا پھرتاریخ میں حضرت ابن عباسؓ اور پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا اسم مبارک ملتا ہے- حضرت ابن عباس ؓ کی تفسیر کا اردو ترجمہ موجودہے-
تفاسیر کایہ سلسلہ لامتناہی ہےاور ان تفاسیر کی تعداد اب اتنی زیادہ ہےکہ شاید ان کے نام و مصنفین کےصرف نام کو شمار کرنے کے لیے بھی آرٹیکل سے زیادہ کتاب کی ضرورت ہو- انہیں آرٹیکل میں سمونا مشکل ہے- اگر اردو ادب کے اس سلسلہ کوسترھویں صدی کے بعد سے ہر صدی میں شمار کیا جائے تو اٹھارویں صدی میں انگریز مکمل طورپر برصغیر پر قبضہ کر چکے تھےجن کےنظریات سے عوام الناس کو بچانا محال تھا ان کےنظریات سے متاثر ہوکر بہت سے دانشوروں نے اسلام کی تعبیر و تشریح ان نظریات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے کی اور اسی رنگ میں تفاسیر لکھیں، بجائے کہ ان نظریات کی اسلام سے غیر مطابقت پر کام کیا جاتا- ان تفاسیر میں سرفہرست سرسید احمد خان کی تفسیر ہے- جس کو علماءکرام نے تفسیر بالرائے مذموم شمار کیا ہے- تفسیر بالرائے مذموم تفسیر کی وہ قسم ہوتی ہے جو تفسیر بالرائے محمود کے مدمقابل ہو، اس میں اسلام کی مجموعی تعلیمات اور بنیادی نظریات کے خلاف رائے ہواور وہ رائے ایسی ہو کہ اسلام کی تعلیمات سے تطبیق کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو- تفسیربالرائےکی ابتداء اس وقت ہوئی جب عقلی تحریکوں نے جنم لیا اور اسلامی سلطنت کے تعلقات بیرونی دنیا کے ساتھ بنے جبکہ اس سے پہلے ہونے والی تفاسیرمیں تفسیر بالماثور کا اثر غالب نظر آتا ہے- موجودہ دور میں مجموعہ تفسیر بالماثور و رائے کا رجحان روزانہ کی بنیاد پر جنم لیتے مسائل اورنئے علوم کی وجہ سے بڑھتاجارہا ہے-
بیسویں صدی کو اردو کے تفسیری ادب کےعروج کادور کہا جائے تو بجا ہوگا- ان تفاسیر میں کچھ ایسی ہیں جو معروف ہیں تو کچھ غیر معروف ہیں، کچھ جزوی تفاسیرہیں، کچھ عربی تفاسیر کے شروحات و حواشی ہیں جبکہ ایک تعداد نایاب تفاسیر کی ہے- ان میں سے کچھ دروس قرآن پرمشتمل تفاسیر ہیں، چند ایک تعداد مسلکی تفاسیر کی ہے، گرچہ اردو تفاسیر میں جدید طرز پر لکھی جانے والی بھی کچھ تفاسیر ہیں- کچھ متجددانہ تفاسیر ہیں جن کا کام نمایاں تو نہیں کیونکہ یہ روایت سے ہٹ کر بلکہ روایت کا انحراف کرکے دین کی نئے ڈگر پر تعبیر و تشریح کا کام ہے- تفاسیرلکھنے کا یہ لامتناہی سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے اور اس میں لکھی جانےوالی تفاسیر میں مقبول و معروف اور اسلام کے حقیقی پیغام پر مشتمل علامہ غلام رسول سعیدی اور ڈاکٹر طاہر القادری کی تفاسیر ہیں جو اردو ادب میں انتہائی اہم اور غیر معمولی اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ معیار پر بھی ہر طرح سے پوری آتی ہیں- اردو زبان و ادب اور معانیٔ قرآن کے قریب تر ہونے کے لحاظ سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ کا ترجمہ اور مفتی احمد یار خان نعیمیؒ کی شرح کا بھی مقابل کوئی نہیں -
اردو ادب نے جو زیبائش نظم و غزل میں دکھائی ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اہل زبان نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے شعراء کے پاس قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کرنے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ان میں سے اہم ترین وجہ شعراء کرام کا قرآن حکیم کے ساتھ قلبی لگاؤاور محبت ہے- اردو زبان کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو مختلف ادوار میں شعراء کرام نے قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کیلیے قرآن کے پیغام کو شعری پیکر عطا کیا- منظوم تراجم کی تعداد بھی ترجمہ وتفاسیرکی طرح کم نہیں ہے- ان میں قرآن حکیم کے مکمل منظوم تراجم بھی ہیں اور جزوی بھی،
مطبوعہ منظوم تراجم بھی ہیں اور غیر مطبوعہ بھی، نیز ایسے منظوم تراجم بھی ہیں جن کے مترجمین نامعلوم ہیں- قرآن حکیم کے منظو م تراجم و تفاسیر کے آغاز کے حوالے سے دیکھا جائے تو اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر اور انیسویں صدی عیسوی کی ابتداء میں ان کے اولین نقوش نظر آتے ہیں- اب تک کے دستیاب شواہد کے مطابق منظوم تفاسیرِقرآن میں شاہ غلام مرتضیٰ جنون الٰہ آبادی کی تفسیر مرتضوی کو اولیت حاصل ہے- یہ تیسویں پارے کی منظوم تفسیر ہے جس کی تکمیل 1780ء عہدِ مغلیہ میں ہوئی- موجودمنظوم تراجم میں سے کچھ میں مسدس، قطعہ اور رباعی کی ہیئتیں استعمال کی گئی ہیں تو کہیں کچھ شعراء کی اختیار کردہ تراکیب و ہیئت میں ’’آزاد نظم‘‘ رہی ہے-
قرآن مجید کے مکمل منظوم تراجم کے حوالے سے دیکھا جائے تو مولوی عبدالسلام بدایونی کےترجمے ’’زاد الآخرت‘‘ کو پہلا ترجمہ قرار دیا جاتا ہے-یہ منظوم ترجمہ1828ءمیں لکھنؤ سے طبع ہوا جو چار جلدوں پر مشتمل ہے- اس کے بعدآنے والے ادوار میں بہت سے شعراء نے قرآن حکیم کے منظوم تراجم کیے جن میں مکمل قرآن کےمنظوم تراجم بھی تھے اور مختلف سورتوں اور پاروں کے تراجم بھی- ان منظوم ترجمہ نگاروں کی فہرست خاصی طویل ہے-اہم ترجمہ نگاروں میں محمد شمس الدین شائق ایزدی، آغا شاعر قزلباش دہلوی،مطیع الرحمان خادم، سیماب اکبر آبادی، مجید الدین اثر زبیری لکھنوی، محمد ادریس کیف بھوپالی ، قاری محمد ابراہیم،مرزا خادم ہوشیار پوری، سید شمیم رجز، علامہ کبیر کوثر، محبوب ککے زئی، عبد العزیز خالد، نیساں اکبر آبادی، ڈاکٹر نور احمد شیخ، انجم عرفانی، محمد امین میاں، علامہ چوہدری اصغر علی کوثر وڑائچ، قاضی عطاء اللہ، ڈاکٹر احمد حسین احمد قریشی قلعہ داری، حکیم محمد نعمان ساجد، احمد عقیل روبی، مخدوم علی ممتاز اور دلاور فگار شامل ہیں-[9] قرآن کے پیغام کو شعری پیکر میں ڈھالنے کا جو ملکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے علامہ محمد اقبال کو عطا کیا وہ بے نظیر ہے گو کہ ان کے کلام کو ہم تفسیری ادب یا ترجمہ میں تو شمار نہیں کر سکتے لیکن قرآن کے ساتھ ان کے لگاؤ اور ان کے کلام کے بارے میں خلیفہ عبد الحکیمؒ کا فرمان کہ اقبال شاعروں کا قرآن ہے ایسی بات ہے کہ اس سے صرف نظر بھی نہیں کیا جاسکتا-
اردو ادب میں اہل حق و مسلمانوں کی طرف سے جہاں قرآن مجیدکی خدمت کی گئی ہے وہیں غیر مسلم نے بھی کام کیا ہے (ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے مذہبی نقطہ نظر سے ترجمہ کیا ہے جس سے اہلِ اسلام کا اتفاق ضروری نہیں، لیکن اردو تراجم ہونے کے اعتبار سے اہلِ قلم انہیں فہرست میں شامل رکھتے ہیں)-مسیحی اہل قلم میں پادری عماد الدین، ترجمہ قرآن بہ اردو زبان، جسے نیشن پریس کلب امرتسر نے شائع کیا، پادری احمد شاہ ترجمہ القرآن1915ءمیں شائع ہوا، پادری جے علی بخش نے تفسیر قرآن کے عنوان سے ترجمہ کیا جو لاہور سے 1935ء میں شائع ہوا- پادری سلطان محمدپال نے سلطان التفسیر کے عنوان سے سورۃ الفاتحہ اور سورۃالبقرہ کے چھٹے رکوع تک ترجمہ و تفسیرکی- مذکورہ تفسیرمیں استشراقی رنگ جھلکتاہے، اس کا جواب مولانا ثناء اللہ امرتسری نے ’’برہان التفاسیر‘‘کےنام سےلکھاہے - اس کےعلاوہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر بھی ہے اس پر مفسر کا نام درج نہیں، کرسچن لٹریچر سوسائٹی نے اس کو 1900ء میں شائع کیا- [10]
ہندو اہل قلم نے بھی قرآن پاک کا مکمل یا کچھ حصہ کا ترجمہ کیا ہے ان کے تراجم اردو کے علاوہ ہندی اور بنگالی میں بھی ہیں اور دیوناگری رسم الخط میں بھی قرآن پاک کا ترجمہ کیا گیا، عیسائیوں اور ہندوں کے علاوہ غیر مسلموں میں قادیانی، احمدی لاہوری گروپ کی جانب سے بھی قرآن کا ترجمہ کیا گیا اور تشریح لکھی گئی جس میں انہوں نے اپنے عقائد کی ترویج کی کوشش کی ہے -
علوم قرآن پربھی اردو میں متعدد کتب لکھی گئیں یا علوم قرآن پر موجود کتب کا اردو ترجمہ کیا گیا- علوم قرآن پر مشہور کتب میں ’’التبیان فی علوم القرآن‘‘ بقلم محمد علی الصابونی، عِلمُ القرآن از مفتی احمد یار خاں نعیمی، الفوز العظیم اردو شرح ’’الفوز الکبیر‘‘ از مولانا خورشید انورقاسمی فیض آبادی، تفہیم مَباحِث فی علوم القرآن از محمد جمیل شیدا رحمانی، آسان علوم القرآن از پروفیسر مولانا محمد رفیق چوہدری، محاضرات قرآنی اور قرآن مجید: ایک تعارف از ڈاکٹر محمود احمد غازی، حکام القرآن از شیخ احمد دیدات زیادہ مشہور و معروف ہیں- اس کے علاوہ ہر مذہبی تنظیم اور ادارے نے قرآن پاک سے اپنے لگاؤ اورحصول کی رہنمائی کے لئے علوم قرآن پر کتب شائع کیں ہیں جن کی کثیر تعداد موجودہے-
جب علماء حق نے قرآن پاک کا ترجمہ کیا تو اس کی ایک ترتیب بامحاورہ رکھی اور ایک ترتیب بالمعنی- ان تمام الفاظ کے معنی انفرادی سطح پر کئے جو آیات قرآنی میں درج تھے، اس طرح لاکھوں الفاظ کا اردو میں ترجمہ ہوگیا، یہ ایک الگ اور اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے جو اردوزبان و ادب میں وسعت کا باعث بنا اور قرآن حکیم کے بھی ہر ہر لفظ کے معنی ہو گئے جس سےطلباء و اساتذہ فائدہ اٹھاتے ہیں- آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تفصیلی قرآنی لغات ترتیب دی جائیں- قرآن مجید کے الفاظ کوحروف تہجی اور دیگر تراکیب کے حساب سے ترتیب دیا جائے اور اردو قرآنی لغات تیار کی جائیں-
قرآن پاک پر ہوئے کام جیساکہ اردو میں ترجمہ، تفسیر، منظوم تراجم، علوم قرآن پر لکھی کتب پرجامعات اور مدارس کے طلباء اپناتحقیقی کام کرتے ہیں، جن میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کی ایک طویل فہرست ہے جو جامعات میں اسلامیات، علوم اسلامیہ اور علوم قرآن کے شعبہ جات کے محققین اور سکالرز حضرات نے کی ہے - اردو زبان میں یہ کام بذات خوداپنی نوعیت کا ایک الگ اور منفرد کام ہے جس سے مستقبل میں آنے والےفائدہ اٹھائیں گے-
قرآن علم کا بحرھمم ہے جس کا کنارہ کوئی دریافت نہیں کر سکے گا، رہتی دنیا تک اس پر کام جاری رہے گا اور ایک تشنگی قائم رہے گی- لیکن اردو زبان کی قرآن پاک کے لئے خدمات نا قابل فراموش ہیں اور مسلمانوں کی زبان ہونے کے ناطے اردو زبان کی یہ سعادت ہے کہ اسے قرآن پاک کی ترویج میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کا موقع اور توفیق میسر ہوئی-
٭٭٭
[1]چاہے وہ مسئلہ خلق قرآن کا ہو کہ جس نے علم الکلام کی بنیاد رکھی اور یہ علم بعد میں اسی نام سے مشہور ومقبول ہوگیا، یا پھر جدیدیت و مابعد جدیدیت کے مرگ مصنف، Polysamy یا پھر رولاں بارت کےدیگر نظریات ہوں یا اس کے بعض کے دانشوروں کےنظریات ہوں-
[2]جس طرح سے قاری کو مکمل آزادی دینا کہ وہ متن کا معنی معین کرنے میں آزاد ہے تاکہ وہ مصنف کے ذاتی عقائد و نظریات سے الگ رہ کر متن کی تشریح کرسکے اور پھر رد تشکیل(Deconstruction) کا سارا ڈسکورس بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے-
[3]اللہ تعالیٰ نےسورۃ الزخرف کی آیت:3 میں ارشادفرمایا :’’ہم نے اسےعربی قرآن اتاراکہ تم سمجھو‘‘- اسی طرح سورہ یوسف کی ابتدامیں فرمایا :’’ یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں بیشک ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو‘‘،مزید سورۃالشعراء: 195 میں ارشادہوا :’’ روشن عربی زبان میں (نازل کیاگیا)‘‘-
[4]لینگو افرانکا ایک ایسی زبان ہے جو مختلف مقامی زبانیں بولنے والوں کے درمیان قدر مشترک ہو اور جس میں مافی الضمیر کو بیان کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت ان مقامی زبانیں بولنے والوں کے درمیان پائی جاتی ہوں اوریہ زبان دونوں کی مقامی یا مادری زبان نہ ہو-عربی زبان کو عموعاً دو اقسام میں تقسیم کیا جاتاہےایک فصیح اور ایک عامی ، فصیح قرآن کی زبان ہے اور عامی عرب ممالک کی شہریوں کے مابین بولی جانے والی عام زبان- یہ عام زبان عرب ممالک میں بولی جاتی ہے اور اس کے لہجے ایک دوسرے سے مختلف ہیں- اس وقت پچیس عرب ممالک ہیں جو کہ ایشیاء اور افریقہ میں موجود ہیں ان تمام ممالک میں مختلف عربی لہجے ہیں- لیکن قرآن کی فصیح زبان نے ان تمام کو ایک مرکز کے گرد جمع کر رکھا ہے- قرآن پاک عربی زبان کے قریشی لہجہ میں آیا ہے جسے کہ عربیٔ مبین کہا جاتا ہے ۔ قریشی لہجہ کی برتری و فضیلت عربوں میں تسلیم شدہ ہے - لینگوافرانکازبان کا کردار بین الاقوامی بھی ہو سکتا ہے-
[5]تاریخ عربی ادب ، ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی ؛ لاہور، پرنٹ لائن پبلشرز ، 1999 ص: 75
[6]کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک جدید زبان ہے ، مختلف ادوار میں یہ ہندی ، ہندوی ، ہندوستانی ، ریختہ ، اردوئے معلے کہلائی اور اب صرف اردو کہلاتی ہے - اس کو سمجھنے اور بولنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے شمالی ہند میں پنپنے والی یہ زبان پورے برصغیر یعنی پاکستان ، بھارت میں سمجھی بولی جاتی ہے ،لیکن بنگلہ دیش اور نیپال کے لوگ بھی اس زبان کو سمجھ لیتے ہیں اور کسی حد تک بول بھی لیتے ہیں- اردو میں بہت سی مقامی زبانوں کے الفاط اور آوازیں شامل ہیں جیسے محمد حسین آزاد کا خیال ہے کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے، سید سلیمان ندوی کے مطابق مسلمان پہلے سندھ میں وارد ہوئے اور اردو کا بنیادی ڈھانچہ یہاں تیار ہوا پیر نصیر الدین ہاشمی کے مطابق اردو کی قدیم مذہبی اور ادبی تحریریں دکنی میں ملتی ہیں- اس لئے ان کے خیال کے مطابق اردو دکنی زبان سے نکلی اور دکنی زبان اردو کی ابتدائی شکل ہے ، حافظ محمود شیرانی کے مطابق پنجاب اردو کی جائے پیدائش ہے کیونکہ اردو میں واحد سے جمع بنانے کا طریقہ کار، نون اور نون غنہ اور اس کی صوت میں کافی مشابہت ہے، جمیل جالبی اور شوکت سبزواری کے مطابق اردو پالی زبان سے نکلی ہے- مسعود حسین خان کے مطابق اردو کھڑی بولی سے نکلی ہے جو کہ ، ایسے ہی عربی زبان کی مکمل حروف تہجی اردو میں شامل ہے اس کے علاوہ فارسی زبان کی مکمل حروف تہجی اس میں موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ ’’ٹ‘‘ جیسے حرف اس زبان میں شامل ہیں -عربی، فارسی، سندھی ،ترکی کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں کے سات اردو کا تال میل بہت گہرا ہے ، اس کے ساتھ مذہبی اور صوفیانہ روایات کا اثر اردو پر بہت گہرا ہے اور یہ مسلسل ارتقا کی منازل طے کرتی رہی اپنی وسعت، مٹھاس اور چاشنی کے اعتبار سے اسے درباری سرپرستی بھی حاصل ہوگئی جس کے باعث اس کے فروغ کی راہیں ہموار ہوئیں -نظم و نثر کا ایک عظیم خزانہ اردو زبان میں منصٔہ شہود پر آ چکا ہے جس میں ترجمہ شدہ علوم کا ایک اپنا نخلستان ہے -
[7]جس نے اردو ادب کی شان کو بڑھایا اور اس میں سب سے زیادہ اہم قرآن و حدیث پرموجوداردو ادب ہے- جس کے باعث نہ صرف اردو زبان کی شان میں اضافہ ہوا ہے اس کی ترقی میں اضافہ ہوا ہے- اردو میں بلکہ ایک ایسا نایاب اور گوہر بار خزانہ شامل ہو گیا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی- بہت سے ایسے الفاظ و تصورات ہیں جو خالصتاً عربی اور اسلامی ادب میں موجود تھے- اردو میں ان علوم پرکام کی وجہ سے اردو ادب کو ایسے تصورات سے آشنائی ملی اور اردو لغت میں اضافی ہوا- اس پر باقاعدہ تحقیق کی جاسکتی ہے کہ اردو لغت میں موجود الفاظ کتنے ہیں جو قرآن مجیدسے مستعار لئے گئے ہیں-
[8]قرآن مجیدکے مختلف طرزپرتراجم ہوئے ہیں جن میں لفظی ترجمہ، صرفی و نحوی ترکیب پر مبنی ترجمہ، معنوی ترجمہ اور بامحاورہ ترجمہ شامل ہے، اس کے ساتھ اردو کے ذخیرہ ادب میں بہت سا تفسیری ادب بھی شامل ہے جس میں مختلف زبانوں میں موجود تفاسیرکا اردو ترجمہ جبکہ ان ترجمہ شدہ تفاسیر میں کافی تعدادعربی سے اردو ترجمہ کی ہے جبکہ کثیر تعدادمیں اردو تفاسیر بھی لکھی گئی ہیں-
[9]قرآن مجیدکے پانچ منظوم اردو تراجم کا تعارف و تجزیہ از حافظ محمد سجادو اسد قیوم-’’مجلہ علوم اسلامیہ و دینیہ ‘‘3 شمارہ- 1 (2018)
[10] برصغیر میں غیر مسلم اہل قلم کے بزبان اردو تراجم و تفاسیر قرآنی از ساجد اسداللہ- مجلہ إیقان1، شمارہ- 1 (2018)