ابتدائیہ:
1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جب برصغیر میں مسلمانانِ ہند کے شاندار اور عظیم الشان دور کا اختتام ہوا تو ہر طرف نا امیدی اور یاس و قنوطیت کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے- اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر انگریزوں کی سازشوں کے نتیجے میں مسلمانانِ عالم کی آخری امید کی کرن ’’خلافت عثمانیہ‘‘کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے- نہ صرف برصغیر بلکہ افریقہ، یورپ، مشرق وسطٰی، فار ایسٹ اور وسطٰی ایشیاء کے مسلمانوں کو سامراج کے توسیع پسندانہ اور کالونئل عزائم کی وجہ سے غلامی میں مبتلا کر دیا گیا تھا-
یقیناً ظلم اور ناانصافی کی سیاہ رات کے بادل چھٹنے کے بعد امید اور یقین کا سویرا ضرور طلوع ہوتا ہے اور محکوم اقوام اپنے حق کے لئے اپنا علم ضرور بلند کرتی ہے-
انگریز اور ہندو بنیا کی غلامی اور ظلم و ستم سے تنگ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی دوراندیش اور ولولہ انگیز قیادت میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا علم بلند کیا- طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب مکرم(ﷺ) کی بارگاہ مبارک سے مسلمانانِ ہند کو ایک عظیم الشان تحفہ ایک اسلامی ریاست پاکستان کی صورت میں عنایت ہوا- اسی طرح بالآخر 14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک کی شب کلمہ طیبہ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر اسلامی ریاست پاکستان کا قیام عمل میں آیا-
قیام پاکستان سے قبل مسلمانانِ ہند دنیا کے کسی بھی خطے سے بلند ہونے والی تحریک اور آواز کا ساتھ دیتے تھے جس کا تعلق انسانی خصوصاً مسلمانوں کے حقوق سے وابستہ ہوتی تھی-
تاریخی طور پر اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ بانیان پاکستان نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ فلسطین، انڈونیشیا اور دنیا کے ہر کونے میں سامراج کی غلامی میں پسے ہوئے مظلوم طبقات کے لئے اپنی آواز بلند کی-[1]
حتیٰ کہ جب مشکل حالات میں نئی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تو بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پسے ہوئے طبقات کا خصوصاً ذکر فرمایا- پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا کہ:
“Pakistan will never be found lacking in extending its material and moral support to the oppressed and suppressed peoples of the world.[2]
’’پاکستان دنیا کے مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کو اپنی مادی اور اخلاقی مدد فراہم کرنے میں کبھی بھی کمی محسوس نہیں کرے گا‘‘-
جہاں ایک طرف نا امیدی اور بے یقینی کے دور میں مسلمان عالم کو غلامی میں جکڑا جا چکا تھا وہاں دوسری طرف دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی ریاست کا قیام یقیناً مسلمانانِ ہند پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور ایک معجزہ تھا- پاکستان کا قیام نہ صرف اسلامی دنیا کے محکوم و مظلوم طبقات بلکہ دنیا کے ہر سامراج کی غلامی میں جکڑے طبقے کے لئے ایک امید کی کرن تھی-
14 اگست 1947ء کو پاکستان دنیا کے نقشے پر عالم اسلام کی سب سے بڑی اور دنیا کی پانچویں بڑی ریاست و سلطنت کی حیثیت سے نمودار ہوئی- اسی روز بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے منصب پر براجمان ہوئے-
اسلامی ریاست کے قیام سے نہ صرف بین الاقوامی برادری کی طرف سے بلکہ اسلامی دنیا سے سربراہان مملکت اور رعایا کی طرف سے بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور پاکستان کی عوام کے نام پیغامات تہنیت کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوا- جس میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو خراج عقیدت پیش کیا- اسلامی دنیا کی طرف سے بانی پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب جنہوں نے ہدیہ تبریک پیش کیا ان میں شاہ ایران،شاہ یمن، ترکی کی اعلیٰ قیادت اور عوام، شاہ شرق اردن، لبنان کے پہلے صدر، تنزانیہ کی قیادت، انڈونیشیا کے وزیر اعظم، لیبیا کی قیادت اور عوام، تیونس کی دستور تیونیشیا پارٹی کے صدر حبیب بورقیبہ ، مفتی اعظم فلسطین محمد امین الحسینی، سعودی عرب کے شہزادہ فیصل و شاہ عبد العزیز اور اخوان المسلمین کے شیخ حسن البناء وغیرہ نمایاں شامل ہیں-
زیر نظر مضمون میں ہم قیام پاکستان پر اسلامی دنیا کے ردعمل کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح مسلمانانِ عالم نے دنیا کے نقشے پر برصغیر پاک و ہند میں ایک نئی اسلامی ریاست کے قیام کا خیر مقدم کیا-
قیام پاکستان سے قبل ریاست سعودی عربیہ کا قیام عمل میں آچکا تھا- مسلمانانِ ہند کی ہمیشہ سے حرم پاک اور روضہ رسول (ﷺ)کی نسبت سے اس خطے اور اس کے باشندوں سے والہانہ عقیدت اور محبت رہی ہے- اس لئے قیام پاکستان سے قبل ہی سرکاری اور عوامی سطح پر محبت اور احترام کے رشتے کی بنیادیں رکھی جا چکی تھیں-
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سعود بن عبد العزیز قیام پاکستان سے قبل 1940ء میں (جب قیام پاکستان کا مطالبہ عروج پہ تھا) کراچی تشریف لائے اور پاکستان سعودی تعلقات کی بنیاد رکھی جن کی میزبانی پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے کی تھی-[3]
1947ء میں سعودی عرب، آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں شامل تھا-
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل قیام پاکستان کے موقع پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے نام اپنے پیغام تہنیت کو اس طرح رقمطراز کرتے ہیں:
’’پاکستان کی آزادی کے موقع پر میں سعودی عرب کی حکومت اور اپنی جانب سے فضیلت مآب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں- ہماری حکومت آپ کی آزادی کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتی ہے اور اس نئی مملکت کی خوشحالی اور ترقی کی آرزو مند ہے- ہم اس نو خیز مملکت اور اپنی حکومت کے درمیان قریبی اور دوستانہ تعلقات کے قیام کے لئے تمام ممکن اقدامات کریں گے‘‘-[4]
سفراء کے تبادلے پر سعودی عرب کے شاہ عبد العزیز بانی پاکستان کے نام اپنے پیغام تہنیت لکھتے ہیں :
’’اس موقع پر جبکہ میرے ملک اور ہمارے عزیز ملک پاکستان کے درمیان سفارتی نمائندگی کا تبادلہ ہو رہا ہے مجھے انتہائی مسرت ہے‘‘-
جواباً بانیٔ پاکستان فرماتے ہیں:
’’آپ کا پرتپاک اور مشفقانہ خط وصول کر کے مجھے بہت مسرت ہوئی ہے-میرے لئے ایسے موزوں الفاظ ڈھونڈنا مشکل ہو رہا ہے جن سے میں آپ کا خاطر خواہ شکریہ ادا کر سکوں‘‘-[5]
اس گفتگو سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کی اعلیٰ سطح کی قیادت گہرے رشتوں میں ایک دوسرے سے منسلک تھی اور سعودی قیادت کی قیام پاکستان پر اظہار مسرت بھی عیاں ہوتا ہے-
20، 21 اور 22 فروری 1948ء کو قیام پاکستان کے فوراً بعد موتمر اسلامی کی کانفرنس کا انعقاد کراچی میں ہوا- اس کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے وزیر مملکت سعودیہ عربیہ سید عبد الحمید نے ایک خط تحریر فرمایا- یہ مطبوعہ خط ’’الخطاب البلیغ‘‘ کے نام سے مطبع ’’عرب‘‘ میں شائع ہوا تھا- وزیر مملکت سید عبد الحمید نے آغاز خطبہ میں فرمایا تھا کہ
’’یا حضرات ایساتہ لقد کان سرور نابنیل الباکستان استقلالہا لا یقل عنہ سرورا خواننا الباکستان بہ ‘‘[6]
’’اے حضرات سردارانِ قوم ہمیں پاکستان کے عالم وجود میں آنے کی خوشی پاکستانی بھائیوں سے کسی درجے میں کم نہیں ہے جس قدر کہ ان کو ہوئی ‘‘-[7]
اخبار زمیندار لاہور نے 21 فروری 1948ء کو اس کانفرنس کی رپورٹ شائع کی- اس کانفرنس میں 16 اسلامی ممالک مصر، سعودی عرب، افغانستان، شام، انڈونیشیا، فلسطین، ایران ، لیبیا، یمن، عراق اور شرق اردن وغیرہ کے نمائندہ افراد نے شرکت کی-
22 فروری 1948ء کو سعودی مندوب نے حکومت سعودی عرب کی طرف سے موتمر اسلامیہ کے مندوبین کو سعودی سفارتخانہ میں مدعو کیا- اس موقع پر سعودی سفارت خانے کو پاکستانی اور سعودی پرچموں سے سجایا گیا تھا جس سے قیام پاکستان پر سعودی خوشی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے بلکہ آزادی کے بعد پاکستان کو فوراً بطور آزاد اور خودمختار ریاست کے سب سے پہلے تسلیم کیا-آزادی کے فوراً بعد ہی ایران نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے-ایران کے پہلے سفیر مہدی فروبار نے بانیٔ پاکستان کے نام پیغام میں ’’پاکستان کے وجود کو آسمان سیاست میں ایک‘‘درخشندہ ستارہ (Bright Star) سے تعبیر کیا-آگے آپ لکھتے ہیں کہ:
’’جیسا کہ پوری دنیا کی عوام کے سامنے ایک آزاد ریاست پاکستان کا قیام ہوچکا ہے تو اس موقع پر دلی اور پر خلوص مبارک باد پیش کرتا ہوں‘‘-[8]
جب 30 ستمبر 1947ء کو پاکستان کو اقوام متحدہ کی رکنیت ملی تو برادر اسلامی ملک ایران کی بھرپور حمایت شامل تھی- اسی طرح ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی پہلےسربراہ مملکت تھے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا-[9] اس دورے نے دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات کی بنیاد رکھی- اس دورے کے دوران شاہ ایران نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی بھرپور حمایت کی-
مسلمانانِ ہند اور ترکی کی عوام پاکستان کے قیام سے قبل خلافت عثمانیہ کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ایک خاص لگاؤ رکھتے تھے- اس لئے اس خطے کی عوام اور ترکی صدیوں پرانے تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور سیاسی رشتوں سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک تھے-
تحریک پاکستان کے دوران ترکی کے اخبارات میں مسلمانانِ ہند کی حوصلہ افزائی اور جدوجہد نمایاں کر کے دکھایا جاتا تھا- جولائی سے لے کر دسمبر 1947ء تک ترکش اخبارات میں قیام پاکستان کے وقت ہونے حالات و واقعات مثلاً ہندوؤں اور سکھوں کے مسلمانوں پر حملے و مہاجرین کے مسائل پر خبریں شائع ہوتی رہی ہیں- [10]
ترکی کے چئیرمن ڈیفنس کمیٹی فارنائیل اسماعیل صدقی اوغلی اپنے پیغام تہنیت میں لکھتے ہیں:
’’اخباروں میں آزاد اور خودمختار مملکتِ پاکستان کے قیام کی اطلاع پڑھ کر ہمیں انتہائی خوشی ہوئی ہے اور ہمارے دل اور آنکھیں مسرت سے لبریز ہو گئی ہیں-یہاں ہم ترکوں کو آپ کی آزادی پر بڑا فخر ہے- ہم اپنے ہندوستانی بھائیوں کے لئے ہر قسم کی خوشحالی کے آرزو مند ہیں- ضرورت پڑنے پر مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے میں کبھی ہم کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے‘‘-[11]
27 اگست 1947ء کو ٹکہورا (Tokhara) سٹیشن پر سکھوں نے مسلمانوں کی ٹرین پر حملہ کرتے ہوئے مسلمانوں کا قتل عام کیا- اسی روز ترکی کی اخبارات میں وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کا ایک پیغام شائع ہوا - انہوں نے ترکی کی حکومت اور عوام کا مسلمانانِ ہند کی جدوجہد آزادی کی بھرپور حمایت پر شکریہ ادا کیا‘‘-[12]
قیام پاکستان کے وقت ترکی کے سربراہ نے اپنے ’’پیغام تہنیت‘‘ میں برصغیر پاک و ہند میں ایک نئی ریاست کے قیام پر بے حد خوشی کا اظہار اور پاکستان کو برادر اسلامی ملک کے طور پر ایک قابل اعتماد دوست بنا لیا-
اسی طرح قیام پاکستان کے فوراً بعد ترکی ہی وہ واحد ملک تھا جہاں بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ملک فیروز خان نون کو اپنے نمائندے کے طور پر سرکاری دورے پر بھیجا اور وہ 29 اکتوبر 1947 ءکو استنبول پہنچے-[13]
انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترکی قیادت کا پاکستان کے ساتھ دوستی کے ترک جذبات کا شکریہ ادا کیا- ’’پاکستان کے قیام کو دو ماہ ہونے والے ہیں- مستقبل میں دونوں ممالک مضبوط سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کی مضبوط بنیادیں رکھنے جا رہے ہیں‘‘-[14]
بشار خليل الخوری(Bechara El Khoury) ریپبلک آف لبنان کے پہلے صدر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام قیام پاکستان پر اظہار مسرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں اور لبنان کی عوام عظیم اور آزاد قوم پاکستان کی خوشحالی کے لئے دعا گو ہیں‘‘-[15]
قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک فیروز خان نون نے حکومت پاکستان کے نمائندے کے طور پر تقریباً ایک ماہ کے عرصے میں ترکی، شام، شرق اردن، سعودی عرب، لبنان بحرین کا دورہ کیا تھا-
لیبیا کے بانی رہنما بشير السعداوی (Bashir Saadawi) بانی پاکستان کو ’’نیشنل کونسل فار لبریشن آف لیبیا‘‘ اور لیبیا کی عوام کی جانب سے اسلامی ریاست پاکستان کے قیام کی مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ آپ کی قیادت میں اس نئے ملک کی خوشحالی اور ترقی کی دعا کرتے ہیں‘‘- [16]
شاہ شرق اردن عبداللہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو قیام پاکستان اور عید الفطر کے موقع پر مبارکباد کا پیغام تہنیت ارسال کرتے ہیں- [17]
پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات قیام پاکستان سے بھی قبل سے ہیں-قائدِ اعظم محمد علی جناح کوانڈونیشیا سے ایک لگاؤ تھا اوراس کی آزادی کے حوالے سے بہت فکرمند رہتے تھے-آپ نے بارہا انڈونیشیا کی آزادی کے لیے آواز بلند کی بلکہ عملی اقدامات بھی اٹھائے-
1945ءمیں قائدِ اعظم نے برٹش آرمی میں موجود مسلمانوں کو انڈونیشیا کے فریڈم فائٹرز کے ساتھ مل کر لڑنے کو کہا-600 سے زائد مسلمانوں نے انڈونیشیا کی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا-جن میں آزادی کی خاطر 500 شہید ہوئے- انہی خدمات کی بدولت قائداعظم محمد علی جناح کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے انڈونیشیا نے اپنے سب سے بڑے سِول ایوارڈ سے نوازا-[18]
اسی طرح انڈونیشین مسلمانوں نے مسلمانانِ ہند کی آزادی کی تحریک کی بھرپور حمایت کی-
قیام پاکستان کے بعد انڈونیشیائی وزیر اعظم کے نمائندے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام پیغام تہنیت بھیجا اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا-[19]
شاہ افغانستان شاہ ظاہر شاہ نے 6 نومبر 1947ء کو پیغام تہنیت ارسال کیا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا-[20]
افغانستان کے نمائندے نجیب اللہ خان گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنی اسناد سفارت پیش کرتے ہوئے اپنی گزارشات میں بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں فضیلت مآب کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس ملک کے مسلمانوں کی آزادی افغانستان کی ہمیشہ سے پر خلوص خواہش رہی ہے اور اس کی تحصیل سے ہماری عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے‘‘-
ان گزارشات کا بانیٔ پاکستان یوں خیر مقدم فرماتے ہیں:
’’فضیلت مآب آپ کا خیر مقدم کرتے اور ہزمیجسٹی شاہ افغانستان کی جانب سے نیک خواہشات کا پر خلوص پیغام وصول کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے- مسلم سلطنت افغانستان کے لئے پاکستان کی حکومت اور اس کی عوام کے جذبات پرتپاک دوستی کے علاوہ کچھ نہیں ہیں-میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ سے ہم-ہر طرح کی اعانت ، تعاون اور خیر سگالی کا برتاؤ کریں گے‘‘-[21]
مسلمانانِ ہند اور مصری عوام بھی گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے تھے-
قیام پاکستان سے قبل جب بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒانگلستان سے واپسی پر مصری دارالحکومت قاہرہ میں رکے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کا قیام دنیائے اسلام کی تقویت اور استحکام کے لیے ضروری ہے-
اس دوران وہاں آپ کی ملاقات مفتی اعظم محمد امین الحسینی سے ہوئی- انہوں نے دوران ملاقات مصری مسلمانوں کی قیام پاکستان کے لئے مکمل مدد کا یقین دلایا اور آپ ہمیشہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے-پاکستان کی پہلی یوم آزادی کے موقع پر مصر کے ناظم الامور الحسینی الخطیب نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ :
’’ہماری انتہائی خواہش ہے کہ سارے مسلم ممالک متحد ہوں اور ان قدرتی روابط کو مضبوط کریں جو ایک خاندان کے ارکان کی حیثیت سے انہیں ایک دوسرے سے منسلک کرتے ہیں- پاکستان کے قیام کے بعد مسلم دنیا بہت طاقتور ہو گئی ہے اور اب یہ دنیا مسلمانوں کے لئے امیدوں سے بھر پور ہے‘‘-[22]
آزادی کے بعد حکومت پاکستان کی دعوت پر نومبر 1947ء کو مصری اخبار نویسوں کا ایک وفد پاکستان تشریف لایا جن کے ساتھ اخوان المسلمین کا نائب صدر اور جریدہ اخوان المسلمین کا ایڈیٹر صالح الشماوی بھی شامل تھا- صالح الشماوی وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کے نام خط میں اخوان المسلمین کے سربراہ حسن البنا کا تحریری پیغام بھی ساتھ لایا تھا- اس خط میں اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ :
’’پاکستانی مسلم برادران آپ کو تنہا نہ سمجھیں- سارا عالم اسلام اور بالخصوص عرب اقوام ان کی پشت پر ہیں اور وہ اخوان المسلمین کی حمایت پر بھروسہ کر سکتے ہیں- اگر ہم اللہ کے احکامات پر عمل کریں اور قرآن پاک کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں تو ہم سارے مسلم ممالک میں اتحاد پیدا کر دیں گے‘‘-[23]
اس سے آگے ایک نئی اسلامی ریاست سے اپنی امیدیں وابستہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
’’ہمیں امید ہے اسلامی مملکت پاکستان اسلامی تہذیب کا احیاء کرے گی- اس مملکت کا کاروبار اسلامی اصولوں پر چلے گا اور اس طرح یہ دنیا کے مسلمانوں کیلئے ایک زندہ مثال قائم کرے گی‘‘-[24]
اخوان المسلمین کے سربراہ شیخ حسن البناء 14 نومبر 1947ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی طرف لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’ہمارے مسلمان بھائیوں کو پاکستان کی شکل میں آزاد ملک حاصل ہو گیا- اس شاندار کامیابی پر میں جناب والا کو بار بار مبارکباد پیش کرتا ہوں‘‘-
آگے لکھتے ہیں کہ:
’’جناب والا کی دانشمندانہ رہنمائی سے پاکستان اسلامی طریقے پر گامزن ہوگا اور اس طرح یہ ملک مضبوط ترین بنیادوں پر قائم ہوگا اور دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں اور دوسروں کے لئے ایک عملی نمونہ ثابت ہو گا‘‘- [25]
شاہ یمن امام یحییٰ نے بھی بانی پاکستان کے نام ایک پُر خلوص پیغام تہنیت کے ذریعے اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا-
بانی پاکستان نے آپ کے پیغام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپسی تار میں ارشاد فرمایا:
’’فلسطین کے معاملے میں اقوام متحدہ کے ناروا فیصلے اور ان کی کوتاہی پر اعلیٰ حضرت استعجاب اور صدمے میں برابر کا شریک ہوں- میں ایک بار پھر آپ کو اور اپنے عرب بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا اور اقوام متحدہ کے ناروا اور شرمناک فیصلے کی مخالفت میں ان کی ہر ممکنہ مدد اور حمایت کرے گا‘‘-[26]
تنزانیہ کے سابق وزیر اعظم و صدر حبیب بورقیبہ (Habib Bourguiba) بطور صدر Destour Tunisian Party کے بانی پاکستان کو اپنا پیغام ارسال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آج کے یادگار دن کے موقع پر جو تمام لوگوں کے لئے ایک امید لاتا ہے پر تنزانیہ کی عوام طرف سے سلام اور مبارک باد پیش کرتا ہوں- نئی ریاست کی ترقی و خوشحالی کے لئے دعا گو ہوں‘‘-[27]
بانی پاکستان اور آل انڈیا مسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کے مسلمانوں کے حقوق کے لئے فکر مند رہتے تھے- مسلم لیگ نے مسئلہ فلسطین پر درجن سے زائد قراردادیں پاس کیں- قیام پاکستان پر فلسطینیوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا-
مفتی اعظم فلسطین محمد امین الحسینی آپ نے پیغام تہنیت رقمطراز کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’پوری عرب دنیا کے مسلمان نہ صرف خوش ہیں بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ سب سے طاقتور نئی مسلم مملکت پاکستان قائم ہو گئی ہے- لہٰذا ہم آپ کو، پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کے عظیم مقصد کے حصول پر مبارکباد پیش کرتے ہیں‘‘-[28]
اسی طرح نہ صرف انڈیا میں رہ جانے والے مسلمانوں نے بلکہ پوری دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں نے ایک اسلامی پاکستان کے قیام،طویل جدو جہد اور بے مثال قربانیوں پہ بانیانِ پاکستان اور عوام کو شاندار خراجِ تحسین پیش کیا- بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت پہ عرب و عجم و افریقہ حتیٰ کہ ساری دُنیائے اسلام سے جس اعتماد اور بلند ترین جذبات کا اظہار کیا گیا وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہری اور روشن باب ہے -
اختتامیہ:
اختصار کے پیشِ نظر بہت سے حوالہ جات اور حقائق پیش نہیں کئے جا سکے، یہ بھی صرف ریاستی سطح پہ ہونے والے اظہارِ جذبات تھے اس میں قیامِ پاکستان پہ دنیائے اسلام سے جو شاندار عوامی جوش و جذبہ اور بے پناہ خوشی دیکھنے میں آئی وہ ایک الگ داستانِ محبت ہے-گویا پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا صرف اسلامیانِ ہند کے روشن مستقبل کی نوید ہی نہیں تھا بلکہ یہ تو عالمِ اسلام کی تابندہ اُمّید بن کے آیا -
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے |
٭٭٭
[1]Evolution of Muslim political thought 1936-1942 by A.M.Zaidi V-5 page 114
[2]Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, the Founder of Pakistan and its first Governor General, in a broadcast talk to the people of the USA in February 1948
http://mofa.gov.pk/foreign-policy-2/
[3]Kaifee, Sib: Saudi-Pak Ties: “One of the closest relationships in the world”
https://www.arabnews.pk/node/1453546/pakistan
[4]( جناح پیپرز جلد نمبر پنجم دستاویز نمبر 185)
[5](جناح پیپرز جلد ہفتم دستاویز نمبر 447, 465)
[6]( الخطاب البلیغ ص 2)
[7]پروفیسر محمد انوار الحسن نے’’ خطابات عثمانی‘‘ میں تفصیلا اس اجلاس کا ذکر ذکر کیا ہے-
[8]( جناح پیپرز جلد پنجم دستاویز نمبر 12)
[9]Maqbool Ahmed Awan: Pakistan- Iran Geopolitical environment and the discourse of Relation (1947-2017): A Reappraisal
[10]IIber Ortayli: The emergence of Pakistan and The Turkish public opinion 1947
[11](جناح پیپرز جلد نمبر پنجم دستاویز نمبر 186)
[12]IIber Ortayli: The emergence of Pakistan and The Turkish public opinion 1947
[13]IIber Ortayli: The emergence of Pakistan and The Turkish public opinion 1947
[14]ibid
[15](جناح پیپرز جلد ششم نمبر دستاویز نمبر۔129)
[16](جناح پیپرز جلد پنجم دستاویز نمبر 66)
[17](جناح پیپرز جلد پنجم دستاویز نمبر 38)
[18]Ahmed Al Qadri: Foundations of Pakistan-Indonesia Friendship
https://www.muslim-institute.org/PublicationDetail?publication=65/Foundations-of-Pakistan-Indonesia-Friendship
https://dailytimes.com.pk/192198/history-pakistan-indonesia-relations/
[19](جناح پیپرز جلد پنجم دستاویز نمبر 189)
[20](جناح پیپرز جلد ششم دستاویز نمبر169)
[21]ایضاً
(نجیب اللہ نے اسناد سفارت بانی پاکستان کو 3 دسمبر 1947 کو پیش کیں)
[22]Dawn August 14 1948
[23]The Pakistan times, November 21, 1947.
[24]ایضاً
[25](جناح پیپرز جلد ششم ، دستاویز نمبر 200)
[26]جناح پیپرز جلد نمبر ششم دستاویز نمبر 340
پاکستان ٹائمز مورخہ 25 دسمبر 1947
[27](جناح پیپرز جلد پنجم دستاویز نمبر 15)
[28](جناح پیپرز جلد پنجم دستاویز نمبر 253)