خطہ پاکستان کی قدیم تہذیبیں اور بین الاقوامی مورخین کے حقائق

خطہ پاکستان کی قدیم تہذیبیں اور بین الاقوامی مورخین کے حقائق

خطہ پاکستان کی قدیم تہذیبیں اور بین الاقوامی مورخین کے حقائق

مصنف: بابرجان خوازی خیل اگست 2021

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن ---!کہ جہاں تاریخی اور نظریاتی حقائق مسخ کرنے کی ریت تو چل ہی رہی تھی اس پہ مستزاد یہ کہ اب تہذیبی شناخت اور بنیاد کو بھی مہندم کرنے کی روش پڑ چکی ہے -

حقیقت کے برعکس سوچ اور ایک اصلاح طلب فقرے کو مذموم عزائم کے ذریعے نسل نو کے اذہان اور قلوب پرنقش کیا جا رہا ہے کہ:پاکستانی اور ہندوستانی ایک ہی قوم تھے جو تقسیم ہند کے وقت جدا ہو گئے-

اس زہر آلودہ تفکر کی داغ بیل ڈالنے میں ہمارے چند سیاسی اکابرین اور کچھ تجزیہ نگار شعوری یا لا شعوری طور پر معاون ومدد گار ثابت ہو رہے ہیں -

تحریک پاکستان کے اکابرین نے تو اس تصور کی نفی کر کے بڑے جامع انداز میں اس کا اینٹی تھیسس دو قومی نظریہ کی صورت میں پیش کیا کہ ہندو اور مسلمان ایک نہیں بلکہ دو الگ الگ قومیں ہیں؛جن کا رہن سہن، تہذیب و تمدن، تاریخ و ثقافت،طرزِ زندگی حتٰی کہ مکمل ضابطہ حیات ایک دوسرے سے مختلف ہے -

قائد اعظم ؒکے فرمان کے مطابق:

We maintain and hold that Muslims and Hindus are two major nations by any definition or test of a nation”[1]

’’ہمارا یہ یقین قائم ہے کہ ہندو اور مسلمان قومیت کی ہر پرکھ اور تعریف کے لحاظ سے دو بڑی قومیں ہیں‘‘-

We are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, Art and architecture, value and proportion, legal law and moral codes, custom and calendar, history and tradition, aptitude and ambition; in short we have our own distinctive outlook of life and on life. By all cannons of international law, we are a nation”.[2]

’’ہم ایک قوم ہیں ،جس کی اپنی منفردتہذیب و ثقافت، زبان و ادب، آرٹ و فنِ تعمیر، اقدار و نسبت، اخلاقیات و قانون، رواج و کلینڈر، تاریخ و روایات، اہلیت و امنگیں الغرض! ہمارا اپنا ایک منفرد ضابطہ حیات ہے اورہم زندگی کے بارےمیں اپنا ایک منفرد نقطہ نظر رکھتے ہیں- بین الاقوامی قوانین کے تمام بنیادی اصولوں کے تحت، ہم ایک قوم ہیں‘‘-

اسی تناظر میں علامہ محمد اقبال بھی اپنے مخصوص انداز میں فرماتے ہیں:

India is continent of human groups belonging to different races, speaking different languages, and professing different religions [----]”[3]

’’ہندو ستان ایک ایسا خطہ ہےجہاں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانی گرو ہ رہتے ہیں‘‘-

زیر ِ نظر مضمون قطعی طور پر اسلام کے تصور ِ قومیت کی ترجمانی و تشریح کے لیے، یاِ اِسےتقویت فراہم کرنے کی غرض سے نہیں شائع کیا جارہا کیونکہ اسلام میں تصورِقومیت کی بنیاد دینِ اسلام ہے جو کسی ارضی و ریاستی یا نسلی و تمدنی وابستگی پر منحصر نہیں ہے-

البتہ یہ ہندوؤں کے مشترک ہندوستانی قومیت کے بیانیہ کا ایک تنقیدی جائزہ ہے اور اس تصور (مشترک ہندوستانی قومیت) کی نفی میں پیش کیے گئے تاریخ و تہذیبی حقائق پر مشتمل دلائل ہیں-

برصغیر میں طلوعِ اسلام کے بعد تو ویسے بھی ہندوستانی قومیت کا تصور بدل گیا اورمذہبی و روحانی بنیاد پر دو مختلف بلکہ متصادم نظریات کی حامل ہندوؤں اور مسلمان قوم کا وجود عمل میں آیا-تا ہم اس سے قبل بھی بر صغیر میں ارضی و ریاستی یا نسلی و تمدنی وابستگی کی بنیاد پرلوگ یک جہت اور ایک قوم نہیں رہے-

ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف اسلامی تاریخ کے پس منظر میں بلکہ ماضی بعید میں بھی، یعنی کم و بیش چار، ساڑھے چار ہزار سال قبل خطہ پاکستان میں بسنے والی قدما کی تہذبیں بھی کبھی ہند وستان میں بسنے والی تہذیبوں کا حصہ نہیں رہیں - ان دوخطوں کے لوگ نہ کبھی ایک قوم رہے اور نہ ہی خطہ پاکستان میں بسنے والی قومیں تہذیبی اعتبار سے ہندوستانی تہذیبوں کے زیر اثر رہیں-

ماضی میں اس خطے کی قدیم تہذبیں یعنی وادی سندھ کی تہذیب (ہڑپہ اور موہنجوداڑوں) اور گندھارا دونوں ہندوستان میں بسنے والی گنگا جمنا اور دیو مالائی تہذیبوں سے جداگانہ اور الگ تشخص رکھتی تھیں-خطہ پاکستان میں بسنے والی قوم تہذیبی اعتبار سے دنیا میں نہ صرف ایک الگ تشخص کی حامل تھی بلکہ اپنی انفرادیت اور جدت کے توسط سے اس خطے کی نومولود تہذیبوں کی تشکیل کے مراحل پر اثر انداز بھی ہوئیں- الغرض! برصغیر میں ہمیشہ سے مختلف قومیں آباد رہیں جو نا صرف تہذیبی بلکہ ریاستی اور نسلی اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف تھیں-

جدید جینیات میں پیشتر تحقیق نگاروں کی رائے کے مطابق جسمانی طور پر جدید انسان 73000 سے 55000 ہزار سال قبل برصغیر میں افریقہ سے ہجرت کر کے آئے-[4]

تاہم جنوبی ایشیاء میں قدیم انسانی باقیات کی تاریخ آج سے 30000ہزار سال قبل بتائی جاتی ہے -

باضابطہ انسانی رہن سہن کے آثار 7000 ہزار سال قبل مسیح ہیں جس کے آثاربلوچستان کے علاقے مہر گڑھ سے ملتے ہیں-[5]

جنوبی ایشیاء کی سب سے قدیم تہذیب وادی سندھ (ہڑپہ اور موہنجوداڑوں )کی تہذیب ہے جو 4500 ق -م سے ارتقاء پذیر ہوتے ہوئے 2500 سے 1900 قبل مسیح میں جدت اور ترقی کے اعتبار سے اپنے انتہائی عروج پر پہنچی- [6]

یہ تہذیب اس دور کی مصری اور میسو پوٹیمیا تہذیب کی ہم عصر سمجھی جاتی تھی جبکہ انڈو آریائی قبیلےکم و بیش 1500سے 500قبل مسیح میں وسط ایشیاء سے پنجاب میں منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے ،یہ کم وبیش 600سے 500 سال قبل مسیح کا دورانیہ تھا جب ان کی مذہبی کتاب وید مقدس منظر عام پر آئی جس کے تحت ذات پات کے نظام کو رائج کیا گیا-اسی کتاب کی تعلیمات کے زیر اثر ایک نیا ویدک برہمن کلچر وجود میں آیا جس کےبعد ہی ہندو ازم نے جنم لیا اور برصغیر میں ہندوں کی پہلی باضابطہ ریاست کا قیام321ق -م عمل میں لایا گیاجس کا بانی چندرگپت موریہ تھا:

“The expansion of two kingdoms in the northeast laid the groundwork for the emergence of India’s first empire, ruled by Mauryan dynasty (321 to 185 B.C).[7]

’’شمال مشرق میں دو راجوں کے پھیلاؤ نے ہندوستان کی پہلی سلطنت کے آغاز کے لیے بنیاد فراہم کی جو (321 قبل مسیح سے 185 قبل مسیح) تک موریہ خاندان کے زیرِ حکمرانی رہی‘‘-

 درج بالا صورت حال کے متضاد وادی سندھ کی تہذیب نا صرف اپنا وجود رکھتی تھی بلکہ 2500 سے 1900 قبل مسیح میں اپنے کمال عروج پر پہنچ چکی تھی-اس لیےیہ تصور غلط ہے کہ ہندو جنوبی ایشیاءکے سب سے قدیم باشندے ہیں- اصل میں یہ مہاجر قبیلے (ہندو) بذات خود وادی سندھ کی تہذیب کے زیر اثر پروان چڑھے-اس لیے یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہندو ازم یا ہندو کلچر جس انڈک ثقافت(انڈو آریائی) سے وجود میں آیا وہ دراصل وادی سندھ کی تہذیب ہی کے زیر اثر تشکیل ہوتا رہا-

قدیم ابتدائی معاشرے، تہذیبیں، بڑھتے مذہبی رجحانات (معاشرتی ترتیب میں )[8]

1.  قدیم ابتدائی معاشرے

2.   ابتدائی تہذیبیں( پہلے درجے کی )

(تمام ابتدائی تہذیبیں قدیم معاشروں سے اخذ شدہ ہے )

مصری، اینڈین(Andean)، مائن، سمیری، وادئ سندھ کی تہذیب ، مائنون ، شنگ کلچر

3.   ثا نوی تہذیبیں ( دوسرے درجے کی )

(پہلے درجے کی ابتدائی تہذیبوں سے دوسرے درجے میں ثانوی تہذیبیں وجود میں آئیں ہے -)

v     مائن سے یو کیٹک

v     سُمیری سےبیبی لونک

v     مائن سے میکسک

v     سمیری سےشامی اور ہیٹائٹ

v     وادئ سندھ کی تہذب سے انڈک

v     مائنون  سے شامی اور ہیلینک

v     شنگ  سے سینک

4.   مذہبی رجحانات

(یہاں نئے مذاہب وجود میں آئے ، یا اپنائے گئے اور یا ثانوی تہذیبوں کے عام لوگوں نے نئے مذاہب اپنائے)

نوٹ: یہاں قا رئین کی آسانی کے لیےتحقیق شدہ متن میں سے صرف وادئ سندھ اور ہندو کلچر سے متعلق یا منسلک معلو مات پیش کی جائیں گی-

بدھ مت - زر تشتی

بے بی لو نک تہذیب کے عام لوگوں میں یہ مذہب وجود میں آیا-

ہندو ازم

انڈک تہذیب کے عام لوگوں میں یہ مذہب وجود میں آیا-

5.   تیسرے درجے کی تہذیبیں

(دوسرے درجے کی ثانوی تہذیبوں کے مذہبی رجحانات / فکر کے نتیجے میں پیدا ہوئی)

ہندو کلچر

یہ انڈک کلچر سے ہندو ازم کے فلسفے کے تحت وجود میں آیا-

6.   ثانوی مذہبی رجحانات

کبر ازم، سکھ ازم،براہمو سماج (یہ مذہبی رجحانات تیسرے درجے کے ہندو کلچر کے عام لوگوں میں پیدا ہوئے)

 مذکورہ بالا تحقیق کی رو سے ڈاکٹر آرنلڈ ٹائن بی کے مطابق  قدیم معاشروں سے ابتدائی طور پر سات بنیادی تہذیبیں وجود میں آئیں، جن میں عراقی (میسوپوٹیمیا)، اینڈین (Andean)،  مائن، سمیری، وادی سندھ کی تہذیب، مائنون اور شنگھ شامل ہیں-ان تہذیبوں سے ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ثانوی تہذیبوں نے یعنی دوسرے درجے کی نئی تہذیبوں نےجنم لیا- ڈاکٹر موصوف نے وادی سندھ کو پہلے درجے کی بنیادی تہذیب قرار دیا جبکہ انڈک کلچر (انڈو آریائی)کو ثانوی قرار دیا اور انڈک کلچر سے ہندو ازم کا نظریہ سامنے آیا- اس نظریے (ہندو ازم) سے تیسرے درجے میں ہندو کلچر کی بنیاد پڑی -ان سب کا ماخذ وادی سندھ کی تہذیب ہی تھی-لہٰذا یہ ثابت ہوتا ہےکہ اس خطے کی قدیم تہذیب وادی سندھ کی تہذیب ہے جو ہڑپہ (پنجاب، پاکستان) اور موہنجوداڑو (سندھ، پاکستان) پر مشتمل تھی-اس کی تصدیق درج ذیل حوالے سے بھی ہوتی ہے:

There can be no doubt that the Indus Valley Civilization contributed much to the development of the Aryan Civilization”[9]

’’اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوسکتی کہ وادئ سندھ کی تہذیب نے آریائی تہذیب کی تشکیل و ترقی میں کردار ادا کیا‘‘-

 اگر زبان کی بات کی جائے جو تہذیب کی بنیادی جزو ہوتی ہے تو اس تہذیب (وادی سندھ)کی زبان بھی انڈو آریائی تہذیب کی سنسکرت کی بجائے اس سے بھی قدیم تھی- اس کے رسم الخط اور آغازکے متعلق محققین ابھی تک کوئی واضح نتائج اخذ نہیں کر سکے-لیکن یہاں پر اس نتیجہ کی ضرور وضاحت ہو جاتی ہے کہ ہندو ہندوستان کے قدیم ترین باشندے نہیں ہیں اور نہ ہی سنسکرت قدیم ترین زبان ہے اور نہ ہی سنسکرت کی ابتدا کو ہندوؤں سے منسوب کیا جا سکتا ہے-پروفیسر میکس ملر جن کی لسانیات کے حوالے سے تحقیق مسلمہ حیثیت کی حامل ہے وہ بھی درج بالا مقدمہ کی تائید میں اپنی کتاب ’’Biography of words page: 93 ‘‘ میں لکھتے ہیں:

There may have been a time when scholars were so much impressed with the primitiveness of Sanskrit that they would have preferred India as the cradle of the Aryas, and Sanskrit as the mother of Greek, Latin and other Aryan dialects. But that time, if it ever existed, is long past. We know that the Aryas were originally strangers in India”.

’’ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں اہل ِ علم سنسکرت زبان کی قدیمیت سے بڑے متاثر رہے ہوں اور اِن کی ترجیح کے مطابق آریائیو ں نے انڈیا ہی کی کو کھ سے جنم لیا ہو  اور یونانی ، لاطینی اور باقی آریائی زبانیں سنسکرت سے ہی وجود میں آئی ہوں- لیکن ایسا وقت، اگر کبھی تھا بھی، تو کافی پہلے گزر گیا ہے ہم آج جانتے ہیں کہ آریائی ہندوستان میں اجنبی تھے‘‘-

اسی طرح ڈاکٹر آرنلڈ ٹائن بی کی تحقیق کے مطابق موہنجوداڑو تہذیب کے آثار کے مطالعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس پر عراق میں بسنے والی سمیری تہذیب کے بڑے گہرے اثرات پائے جاتےہیں - ان کی تحقیق سے پتا چلا کہ ان دونوں تہذیبوں میں (موہنجوداڑو-وادی سندھ کی تہذیب-پاکستان اور سمیری تہذیب – عراق/ میسوپوٹیمیا) بڑے گہرے تہذیبی، سماجی اور کاروباری روابط موجود تھے- اس کے بر عکس وادی سندھ کی تہذیب کے ہندوستانی تہذیبوں، گنگا جمنا یا دیو ملائی تہذیبوں کے ساتھ کسی قسم کے ثقافتی، معاشی یا معاشرتی تعلق کے کوئی آثار اب تک کی تحقیق سے ثابت نہیں ہوتے-اسی حوالے سے ڈاکٹر آرنلڈ ٹائن بی کا مزیداقتباس یوں ہے:

On the analogy of what we know about the genesis of the Egyptiac civilization, one obvious hypothesis for explaining the genesis of the Indus culture is that it, too, was brought to a head by the influence of the Sumeric civilization on some people

’’جس قیاس کی بنیاد پر ہم مصری تہذیب کے ابتداء کے بارے میں جانتے ہیں، اُ سی کے تحت وادئ سندھ کی تہذیب کی ابتدا ء کی تفصیل بیان کرنے کے لیے ایک واضح مفروضہ یہ ہے کہ یہ بھی مصری تہذیب کی طرح سمیری تہذیب کے زیر ِ اثر پروان چڑھا‘‘-

وہ مزید لکھتے ہیں :

After the establishment of Indus Culture in the Indus Basin about half way to the third millennium B.C, (2500 B.C) there was commercial contact between it and the Sumeric world. Seal inscribed in the Indus script have been found in Iraq on Sumeric sites”[10]

’’2500 سال قبل مسیح میں دریائے سندھ کے میدانوں میں وادئ سندھ کی تہذیب کے قیام کے بعد اس کے سمیری تہذیب کے ساتھ تجارتی روابط تھے-کیو نکہ قدیم سندھی رسم الخط میں جو مہریں چھپی ہوئیں تھی وہ عراق میں آثار ِ قدیمہ کے مقامات پر ملی ہیں‘‘-

گند ھارا تہذیب

خطہ پاکستان میں دوسری بڑی تہذیب گند ھارا کی ابتدا کو محققین 1500سال قبل مسیح تسلیم کرتے ہیں جبکہ بعض اس کو وادی سندھ کی تہذیب کا ہی تسلسل تصور کرتے ہیں-یہ بھی اپنے عہدکی ایک عظیم تہذیب کے طور پر پہچانی جاتی تھی جس کی حدیں مشرق کی طرف پاکستان میں پشاور ویلی، دریائے سوات، خطہ پوٹھار، پنجاب میں ٹیکسلا تک پھیلی ہوئیں تھیں- مغرب کی جانب افغانستان میں کابل اور بامیان ویلی تک جبکہ شمال میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے تک پھیلی ہوئی تھیں- [11]

گندھارا تہذیب اس عہد میں بھی اپنے آرٹ اور ارکیٹیکچر کی وجہ سے انفرادیت کی حامل تھی- اس پر یونانی اور ہیلنسٹک طرز کا بڑا گہرا ثر پایا جاتا ہے -جس وقت ہندو قبائل برصغیر میں منتقل ہوئے اور اپنے معاشرے کو تشکیل دے رہے تھے اس وقت گندھارا تہذیب ایک ریاستی اور تہذیبی شناخت کا مقام حاصل کر چکا تھا -اس تہذیب کے آثار کم و بیش 1500 قبل مسیح سے ملتے ہیں اوراختتام 1100 عیسوی میں غزنوی سلطنت کے قیام کے ساتھ ہوتا ہے-

 گندھارا تہذیب جو ریاستی اعتبار سےایک کنگ ڈم کی حیثیت رکھتی تھی،  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایرانی سلطنت کا بھی حصہ رہی - KPK کا موجودہ ضلع چارہ سدہ اس کا دار الخلافہ تھا جس کا پرانہ نام پوش کلاوتی تھا - بعد میں موجودہ پشاور ، جس کا پرانہ نام پروشا پورا تھا ، دارالخلافہ بنا اور ٹیکسلا (ٹکشاسلا) ایک علمی مرکز کی حیثیت سے نمایاں تھا- گندھارا تہذیب میں زیادہ تر لوگ مذہبی اعتبار سے زرتشتی اور بدھ مت کے پیروکار تھے اور بعد میں وسطی ایشیاء سے آئے انڈو آریائی قبیلوں کے زیر اثر ہندوازم کے پروان چڑھنے کے وقت کچھ لوگ ہندو مذہب کے پیروکار بھی بنے - اس خطے کی زبان سنسکرت کی بجائے اپنی زبان تھی جس کا رسم الخط خروشطی تھا جو کے پشتو زبان کا قدیم رسم الخط ہے- سلطان محمود غزنوی کے دور میں باضاطہ طور پر خروشطی رسم الخط کو ختم کر کے سیف اللہ نامی شخص نے پشتو زبان کیلیے عربی رسم الخط ترتیب دیا تھا-

یہاں ہم گندھارا تہذیب کےآغازسے اختتام تک رائج حکمرانوں کے عہد کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں-

وادئ سندھ کی تہذیب (2300 سے 1400 قبل مسیح )

گندھارا قبرستان یا سوات کلچر(1400 سے 800 قبل مسیح)

ابتدائی تحقیق کے مطابق سوات کلچر کا علاقہ دیر، کنڑ، چترال اور پشاور تک پھیلا ہوا تھا-[12]

گندھارا راج (800 سے 518 قبل مسیح)

خطہ پاکستان میں گندھارا کنگ ڈم کے متوازی خطہ ہندوستان میں دہلی، ہریانہ، پنجاب اور اترپردیش کے علاقوں پر مشتمل انڈو آریائی ’’کرو ‘‘حکومت قائم تھی-’’کرو‘‘ بنیادی طور پر ایک ویدک انڈو آریائی قبائلی اتحاد تھا جو ترقی کرتا ہوا 1200سے 900 قبل مسیح ایک ریاستی لیول کی سوسائٹی کی شکل اختیار کر گیا -’’گندھارا کنگ ڈم‘‘ اور’’کرو‘‘ کے درمیان باقاعدہ جنگیں ہوتی رہی جس میں سب سے مشہور کروک شیترا  ہے جس کا تذکرہ مہابھارت میں بھی واضح طور پر ملتا ہے- [13]

مختصر یہ کہ اس دوان بھی خطہ پاکستان اور افغانستان میں گندھارا کنگ ڈم قائم تھی اور ہندوستان کے مذکورہ علاقوں پر مشتمل انڈو آرین قبائلی اتحاد کے زیر اثر ریاستی قسم کی سوسائٹی ’’کرو‘‘کی شکل میں حکمرانی کر رہے تھے-

v     سلطنتِ فارس ( قدیم ایرانی فرمارواؤں کا خاندان) براہ ِ راست فارس کی حکمرانی میں (518سے326 قبل مسیح)

v     الیگزینڈر دی گریٹ ( یونانی الا صل)(326 سے 305 قبل مسیح)

v     موریہ سلطنت ( ہند ی الا صل) (305 سے 185 قبل مسیح)

v     یونانی ہیلینسٹک (یونانی الا صل) سیتھیان، تورانی، (ایران، کاکیشیائی، کوہ قافی )(185 سے 97 قبل مسیح)

v     سکا ( سیتھیان دور ِ حکو مت ) (97 قبل مسیح سے 7ء)

v     پار تھیا راج ، مغر بِ ایشیا ء کی ایک قدیم سلطنت (ایرانی الاصل)  (7سے75ء)

v     کشا ن سلطنت ( تو چاریان ، وسط ایشیائی ، چینی الا صل) (75 سے 230ء)

“Kushans were most probably nomadic people of possible Tocharian origin’’

’’کشان غالبا تو چاریان الا صل خانہ بدوش باشندے تھے‘‘-[14]

v     کشانشاس ( کشان بادشاہ کا لقب) ایران کے ساسانی خاندان کے زیر ِ حکومت) (230سے 440ء)

v     سفید ہنس، ہیفٹا لائٹس (وسط ایشائی الاصل) (450 سے  565ء)

v     نیزک راج ( ہُنا ، کاپیسا- افغانستان کا صو بہ) (565سے 644ء)

v     کابل شا ہی ( ترک الا صل ) (644سے 870ء)

v     ہندو شاہی ( ہندی الا صل ) (870سے1021ء)

v     غزنوی سلطنت (1021سے ء1100)

گندھارا تہذیب جس کا آغاز 1500 قبل مسیح سے ہوا اور اختتام 1100 عیسوی غزنوی سلطنت کے عہد سے ہوا -ان 2600 سالہ دورمیں صرف 271 سال ہندووں کا برائے راست اقتدار قائم رہا -اب یہ بات فہم سے بالا تر ہے کہ ’’ پاکستانی اور ہندوستانی ایک ہی قوم تھے جو تقسیم ہند کے وقت جدا ہو گئے‘‘- کئی ہزار سال کی انسانی تاریخ میں ہمارے؛ نہ حکمران ایک، نہ سلطنت ایک،  نہ تہذیب ایک،  نہ جغرافیہ ایک ، نہ زبان اور رسم الخط ایک ، نہ نسل اور خون ایک ، نہ راہ و رسمِ تجارت ایک ، نہ کھانے پینے کے ذائقے ایک، نہ لباس اور بود و باش کے باقی تقاضے ایک ، نہ طرزِ تعمیر ایک- تو جناب فرمائیے کہ کون سی متحدہ  ہندی قومیت کا راگ الاپتے ہیں آپ؟ ہزاروں برس پہ پھیلی ہوئی تاریخ چیخ چیخ کے بتاتی ہے کہ یہ خطے تو کبھی ایک تھے ہی نہیں نہ یہاں اور وہاں کے لوگ ایک تھے-اگر صرف 271برس کا اقتدار ’’ایک قوم‘‘ کی دلیل ہے تو ساڑھے تئیس سو برس کی دوریاں کس بات کی دلیل ہیں ؟ اگر صرف 271 برس کے اقتدار سے ہم ایک قوم ثابت ہوتے ہیں تو پھر انگریز کو بھی ہندوستانی قوم مان لیجئے کیونکہ وہ بھی یہاں دو سو سال سے زائد ہی رہ کے گیا ہے-

اس مختصر تاریخی وتحقیقی جائز ے سے علم حاصل ہوتا ہے کہ ریاستی اعتبار سے اس خطہ کا ہندوستان سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ ہی یہ خطہ ہندوستان کا لازم و ملز وم حصہ رہا ہے -اس کے برعکس یہ خطہ ایرانی اور وسط ایشیائی ریاستوں کا حصہ رہا ہے-  اس لئے متحدہ ہندوستانی قومیت کا دعویٰ اور نعرہ سوائے کذب، دجل ، مکر اور فراڈ کے کچھ نہیں-

 تاریخی مطالعے اور بین الااقومی آثار قدیمہ کے ماہرین اور مؤرخین کے تحقیقی جائزے کے بعد کسی قسم کے شکوک و شبہات کی گنجائش باقی نہیں رہتی -

خلاصۂ گفتگو  کے طور پردرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں :

  1. خطہ پاکستان کی قدیم تہذیبیں اپنی جداگانہ اور منفرد تہذیبی شناخت رکھتی تھیں اور ان کا تہذیبی، ریاستی اور نسلی تعلق ہندوستان کی تہذیبوں کے بجائے عراقی اور وسط ایشیائی تہذیبوں کے ساتھ منسلک تھا -
  2. ہندو اس خطہ کی قدیم ترین قوم نہیں ہے بلکہ وادی سندھ کی تہذیب اس خطہ کی قدیم ترین تہذیب ہے جس کے آثار ہندو تہذیب سے قبل پائے جاتے ہیں-
  3. انڈک کلچر دراصل وادئ سندھ کی تہذیب کے زیر اثر سے وجود میں آیا جس سے بعد میں بالترتیب ہندو کلچر اور ہندو ازم نے جنم لیا-
  4. انڈو آریائی قبائل جو بعد میں ہندو سوسائٹی کی شکل اختیار کر گئے دراصل برصغیر میں اجنبی تھے جو اس خطہ کے اصل باشندے نہ تھے-
  5. خطۂ پاکستان اپنے تہذیبی عناصر میں کبھی بھی جنوبی ایشیا کا قریبی نہیں رہا بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کا حصہ رہا ہے- اس لئے ہمارا مستقبل مشرق میں پھیلے ہندوستان میں نہیں بلکہ کاشغر ، کابل ، سمر قند ،  بخارا  اور باقی سنٹرل ایشائی ریاستوں کی طرف ہے -
  6. دو قومی نظریہ صرف دو مذاہب کی بنیاد پہ نہیں بلکہ تہذیبی طور پہ بھی مسلمہ حقیقت ہے-
  7. کانگریس اور اُس کے دُم چھلے سیاستدانوں دانشوروں کا ’’متحدہ ہندی قومیت‘‘ کا نعرہ علمی بد دیانتی، سیاسی منافقت، نظریاتی مکاری اور برہمن ذات کی بالا دستی کے تحفظ کے سوا کچھ بھی نہیں -

٭٭٭


[1]Statement of Muhammad Ali Jinnah, 1944

[2]23rd march 1940 Quaid e Azam said on the occasion of Lahore Resolution

[3]On 29 Dec 1930 Alahbad, 25th annual session of Muslim League, Allama Iqbal

[4] (Michael D. Petraglia; Bridget Allchin (2007). The evolution and History of Human Population in South Asia. P.6(.

[5](Wright, Rita P.(2009), The Ancient Indus: Urbanism, Economy, and Society. Cambridge University Press, pp. 44, 51.)

[6](Wright, Rita P.(2009), The Ancient Indus: Urbanism, Economy, and Society. Cambridge University Press, pp. 115-125.)

[7]Mauryan Empire (323 to 185 B.C)”: Timeline of Art History. New York: The Metropolitan  Museum of Art, 2000.

[8]The Study of History: (By DR Arnold Toyn Bee)   Vol = VII; Table IV A

[9]A Country Study: Pakistan, US Library of  Congress; 1994

[10]GENISIS OF INDUS CULTURE: VOL = XII PAGE 348

[11]Neelis, Early Buddhist Transmission and Tread Networks 2010, p. 232

Eggermont, Alexander’s Campaigns in Sind and Blochistan 1975, pp. 175-177    

[12]Connigham, Robin, and Mark Manuel, (2008). ‘ ‘ Kashmir and the North West Frontier’’, Asia, South, in Encyclopedia of Archaeology 2008, p. 740.

[13]Pletcher, 2010, p .63

[14]Narain 1990, pp 152-155

Beckwith 2009, p.380

Mablory 1997, pp, 591-593

Loewe& Shaughnessy 1999 pp 87-88

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر