تحریکِ پاکستان اور اس سے منسوب یادگاروں کا فنِ تعمیر

تحریکِ پاکستان اور اس سے منسوب یادگاروں کا فنِ تعمیر

تحریکِ پاکستان اور اس سے منسوب یادگاروں کا فنِ تعمیر

مصنف: حسن رضا (آرکیٹیکٹ) اگست 2021

زندہ قومیں اپنی تہذ یب و تمدن، ثقافت و معاشرت، اپنی اقدار اور اپنے اجداد کی روایات کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں اور اپنی زندگی کے راہنما اصولوں کو بھی انہیں سے اخذ کرتی ہیں-غیور قوموں پرجب خوشحالی آتی ہے تو وہ نیند کی چادر اوڑھنے کی بجائے جدوجہد اور محنت کو ترجیح دیتی ہیں- اور جب کٹھن وقت آ پہنچے تو وہ اپنے وجود کو زندہ رکھنے اور اپنے نظریے کے تحفظ کے لیے، اپنی تاریخ، ثقافت، رہن سہن اور اپنے آباو اجداد سے ملے ہوئے ورثے کی حفاظت کے لئے اپنا تن من دھن قربان کرنے سے گریز نہیں کرتیں-یہی مثال ہمیں قیام پاکستان کے عظیم مقصد کی خاطر مسلمانانِ برصغیر میں نظر آتی ہے کہ جب کٹھن وقت آیا تو نہ صرف اپنی شناخت کو زندہ رکھا بلکہ سو سال سے کم عرصے میں ایک جداگانہ اور خودمختار ریاست ’’پاکستان‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا- تحریک ِ پاکستان کے سرگرم کارکنوں نے اپنی لازوال قربانیوں کے عوض اپنی آنے والی نسلوں کو ایک آزاد ریاست ’’پاکستان‘‘ تحفے میں عنایت کی-اس ملکِ خداداد ’’پاکستان‘‘ کے قیام کا خواب بلاشبہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ نے دیکھا مگر اس عظیم مقصد کو عملی جامہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے پہنایا- جن قوموں کے راہنما اپنی تحریک کی کشتی کو کامیابی سے پار لگا دیں تو پھر قومیں بھی اپنے راہنماؤں کی پیروی کرتی ہیں اور وہ قومیں ساری زندگی اپنے محسنین کی احسان مند رہتی ہیں- ان احسانات کا بدلہ وہ خراجِ تحسین کی صورت میں پیش کرتی ہیں اور ان کے احسانات کو اپنے فن و ہنر سے اجاگر کرتی ہیں-

اِسی فن و ہنر میں ایک فنِ تعمیر بھی ہے جو کہ کسی بھی قوم کی ثقافت کی پہچان اور تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہوتا ہے- اس فن کی ایک جھلک مزار ِ قائد، مزار ِ اقبال،  مینار ِ پاکستان اور پاکستان مونومنٹ اسلام آباد کی یادگاروں میں نظر آتی ہے، جن کو بابائے قوم اور حکیم الامت کے افکار اور تحریک ِآزادیِ پاکستان میں لازوال قربانیوں کی داستانوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ہے،جن کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:

مزارِ قائد

آرکیٹیکٹ/مصور :

قائد اعظمؒ کے مقبرہ کا ڈیزائن معروف آرکیٹیکٹ یحیٰ مرچنٹ نے ڈیزائن کیا تھا- یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بابائے قوم کی آخری آرام گاہ کے لیے چار نقشے تیار کیے گئے تھے - ایک نقشہ ترک آرکیٹیکٹ اے واصفی ایگلی، دوسرا آرکیٹیکٹ نواب زین یار جنگ اور تیسرا برطانوی آرکیٹیکٹ راگلن اسکوائر نے بنایا تھا- تاہم یہ تینوں نقشے رد کر دیے گئے تھے- تین نقشے رد کیے جانے کے بعد دسمبر 1959ء میں قائد اعظم ؒ کی ہمشیرہ اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒکی خواہش پر نقشے کی تیاری کا کام آرکیٹیکٹ یحییٰ مرچنٹ کے سپرد کیا گیا- یحییٰ مرچنٹ نے مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28 جنوری 1960ء  کو مکمل کیا- وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے قائد اعظم کے شان و مرتبے اور قیامِ پاکستان میں ان کے لازوال کردار کو مدِنظر رکھتے ہوئے مقبرہ ڈیزائن کیا [1]

عرصہِ تعمیر:

 تعمیرات کا آغاز 8 فروری 1960ء کو ہوا- 31 جولائی 1960ء کو اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے مزار کا سنگ بنیاد رکھا- 31 مئی 1966ء کو مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کر لیا گیا-

رقبہ:

 مزار کا کل رقبہ 116ایکڑہے (مرکزی رقبہ 61 ایکڑ اطراف کے 55ایکڑ پر مشتمل ہے)-

ڈیزائن کا تصور اور تعمیر کے مراحل:

تصویر بھی ہو-ایک ایسی عمارت تعمیر ہو جو اسلامی فنِ تعمیر کی عکاسی بھی کرتی ہو اور جدید دور سے مطابقت بھی رکھتی ہو- مزارِ قائد کو ازبکستان کے شہر بخارا میں سامانی حکمران ’’اسماعیل‘‘کا مقبرہ (جو کہ 892 تا 943ء کے درمیان تعمیر ہوا) سے مماثلت دی گئی-قائد اعظمؒ کامزار اس طرح تعمیر تیار کیا گیا ہے کہ اس میں ایک تووسطی ایشیائی ممالک کی جھلک بھی نظر آتی ہے تو دوسری طرف مسجدِ قرطبہ کی محرابوں کے ڈیزائن کو بھی اس مزار کا حصہ بنایا گیا ہے- [2]

عمارت کے ڈھانچے کو پائیلنگ (جس میں عمارت کے وزن کو زیرِ زمین کنکریٹ کے ستونوں پر استوار کیا جاتا ہے) پر تعمیر کیا گیا ہے جو کہ ہر قسم کے موسموں کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتی ہےاورعمارت کو زلزلہ پروف بھی بنایا گیاہے- [3]

مزار کی مرکزی عمارت بنیاد سے مربعہ شکل میں ہے جو کہ اندرونی طرف سے مثمن کی شکل میں بنائی گئی ہے- مثمن (ہشت پہلو) سے بنے ہوئے ڈیزائن کو اسلامی فنِ تعمیر میں کثرت سے استعمال کیا گیا ہے جس سے جیومیٹری کے بیش بہا اور نہ ختم ہونے والے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں- مزار کے چاروں اطراف داخلی دروازے ہیں جو کہ بیضوی شکل کی محرابوں سےبنائے گئے ہیں جن کی چوڑائی 22 فٹ اور اونچائی 36 فٹ تک ہے-جہاں پر عام عوام جاکر حاضری دیتے ہیں وہ قبر کا تعویز(علامتی قبر) ہے اصل قبر تہہ خانے میں موجود ہے جہاں مخصوص لوگ ہی جا سکتے ہیں- مزارِ قائد کے کونوں میں اوپر بالکونی اور تہہ خانے میں جانے کے لئے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں-مثمن شکل کی دیواروں کو چھت پر پہنچتے ہی دائروی شکل میں تبدیل کردیا جاتا ہے جو کہ اونچائی میں 14 فٹ تک ہے اس دیوار پر 70 فٹ قطر (ڈایا میٹر) کا گنبد بنایا گیا ہے جو کہ مکمل طور پر کنکریٹ سے تیار کیا گیا ہے- گنبد کے اندرونی طرف مسلم ایسوسی ایشن آف دی پیپل ریپبلک آف چائنہ کی طرف سے 80 فٹ کا فانوس تحفہ میں دیا گیا تھاجس میں 48 شیڈز کی روشنیاں 4 درجوں میں لگائی گئی ہیں- [4]

مزار کے مشرقی حصے میں ایک کمرے کے اندر پانچ قبریں ہیں یہ قبریں معمولی افراد کی نہیں ہیں بلکہ ان کے سیاسی سفر میں شریک رفقائے کار کی ہیں- ان میں سب سے پرانی قبر لیاقت علی خان کی ہے، دوسری قبر سردار عبد الرب نشتر کی ہے، تیسری قبر محترمہ فاطمہ جناح کی ہے، چوتھی قبر محمد نور الامین کی ہے اور پانچویں قبر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی ہے-مزار کے ارد گرد چہارباغ کے تصور کے مطابق لان بنائے گئے ہیں-[5]

اسی عمارت میں ایک جگہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے زیرِ استعمال رہنے والے نوادرات نمائش کے لئے رکھے گئے  ہیں،ان نوادرات کو ایک کمیشن آف انکوائری نے جمع کیا تھا-اس کمیشن کو حکومتِ پاکستان نے 1969ء میں تشکیل دیاتھا-[6]

سرکاری اور فوجی تقاریب یہاں خصوصی مواقع پر ہوتی ہیں ، جیسے 23 مارچ (یوم پاکستان) ، 14 اگست (یوم آزادی)، 11 ستمبر (جناح کی وفات کی برسی) اور 25 دسمبر (جناح کی سالگرہ)- سرکاری دوروں کے دوران بیرون ممالک کے معززین اور عہدیدار بھی آپؒ کے مزار پر حاضری کیلئے تشریف لاتے ہیں-

مزارِ اقبالؒ

آرکیٹیکٹ/مصور :

 مزارِ اقبال کا نقشہ حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے چیف آرکیٹیکٹ صاحبزادہ نواب زین یار جنگ بہادر نے ڈیزائن کیا- [7]

تاریخیِ پسِ منظر:

حضرت علامہ اقبال ؒ کی وفات کے فورًا بعد ہی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام ایک عالی شان مقبرہ تعمیر کروانا تھا-ایک عرصہ تک حضرت علامہ کا مدفن صرف مٹی کے چبوترے کی شکل میں حضوری باغ میں زیارت گاہِ خاص و عام رہا- کمیٹی کی اپنی پوری کوشش کے باوجودکوئی 8 سال تک مزار کی تعمیر شروع نہ ہوسکی-اس کی وجہ سرکاری عہدوں پر انگریز، ہندو اور سکھ افسران کا ہونا تھا جن کو حقیقتاً حضرت علامہ کی علمی و مفکری خدمات کا خاطر خواہ علم نہ تھا -بالآخر 1946ء میں مزار کی تعمیر کا اجازت نامہ بمع چند شرائط ملا اور باقائدہ تعمیر کا آغاز ہوا-اُن شرائط میں مسجد کی سیڑھیوں سے مناسب فاصلہ رکھنا،مزار کی چھت کی اونچائی شاہی مسجد کے حجرے کی پہلی کارنس سے اوپر نہ ہونا اور سب سے ضروری مزار کا نقشہ شاہی مسجد اور شاہی قلعہ سے مطابقت رکھتا ہو- [8]

عرصہِ تعمیر:

مزارِ اقبال کی تعمیر 1946ء میں شروع ہوئی اور اس کی تکمیل1950ء میں ہوئی- [9]

مزار کا نقشہ/ڈیزائن/تصور اور تعمیر کے مراحل:

آخر کار ریاستِ حیدر آباد کے چیف آرکیٹیکٹ نواب زین یار جنگ بہادر کی خدمات لی گئی-اِن سے مزار کا نقشہ منگوایا گیا مگر وہ بھی کمیٹی کے نقطہِ نظر سے مطابقت نہیں رکھتا تھا جس پر چوہدری محمد حسین نے تبصرہ کیا کہ ’’یہ تو کسی بُلبُل کا پنجرا لگتا ہے‘‘ آخر کار چوہدری محمد حسین نے نواب زین یار جنگ کو حیدر آباد سے لاہور بلوایا اور انہوں نے چشم بخود محل وقوع کا جائزہ لیا-

خواجہ عبد الرحیم کا کہنا ہے کہ :

’’مجھے خوب یاد ہے نواب زین یار جنگ بہادر شاہی مسجد میں تھے اور چوہدری محمد حسین مرحوم انہیں یہ سمجھا رہے تھے کہ گرد و نواح کی عمارت میں مزار کی کیا حیثیت اور کیا اہمیت ہے اس وقت ان کے ہمراہ راجہ حسن اختر، میاں امین الدین مرحوم سر سکندر حیات خاں اور راقم الحروف بھی تھے-چوہدری صاحب مرحوم کی آنکھوں میں خاص قسم کی چمک تھی اور ان کی زبان پر یہ فقرے تھے کہ مزار کے مغرب میں شاہی مسجد ہے جس سےاسلام کی روحانی طاقت کی آئینہ داری ہوتا ہے اور اس کے با لمقابل مشرق میں شاہی قلعہ ہے جو اسلام کی دنیاوی عظمت کا مظہر ہے-تیسری سمت رنجیت سنگھ کی مڑھی ہے جو اسلام سے بغاوت کی یادگار ہے چوتھی جانب حکیم الامت ؒ کا مزار ہے جنہیں مجددِ ملت کہا جاسکتا ہے ،مزارِ اقبال کا نقشہ ایسا ہونا چاہیئے سنگ و خِشت کی خاموش زبانیں حقیقت کی ترجمانی کریں اور ان کی ترتیب و تعمیر سے حقیقت کا انکشاف ہوکہ اقبالؒ کا کلام اور اس کا پیام فقر و سلطنت اور درویشی و شاہی کا ایک حسین امتزاج تھا‘‘-[10]

اردگرد سے مطابقت رکھنے کیلئے ضروری تھا کہ سرخ پتھر کو ہی استعمال کیا جائے کیونکہ یہی پتھر شاہی مسجد میں بھی استعمال ہوا تھا لیکن دشواری تھی کہ یہ پتھر قرب و جوار سے دستیاب نہ تھا-اس کام کو چوہدری فتح محمد (جو کہ اس کام کے ٹھیکیدار تھے) نے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور یہ پتھر برولی (باری) ریاست دھولپور (موجودہ بھارت) سے مہیا کیا-دہلی، آگرہ اور مکرانہ کے کاریگروں نے اس پتھر کو تراشا-مزار میں استعمال ہونے والا سنگِ مر مرمکرانہ ریاست جے پور (موجودہ بھارت) سے لایا گیا- [11]

ماہرین کے خیال کے مطابق مجموعی طور پر اس عمارت کا فنِ تعمیر کسی خاص علاقے کا نہیں ہے-نہ تو یہ مورش (شمالی افریقہ کا طرزِ تعمیر)ہے نہ ہی مغلیہ نہ شامی نہ ترکی نہ ہندی نہ ہی ایرانی-طرزِ تعمیر کی جو چیز جس جگہ سے اچھی لگی اس کو مزار کی عمارت کا حصہ بنا لیا گیا- یوں کہنا چاہیئے کہ نواب زین یار جنگ نے مزار کے محلہ وقوع کے اعتبارسے محکمانہ پابندیوں کے باوجود اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لا کر ڈیزائن پیش کیا جو کہ اپنی مثال آپ بن گیا- نہ تو اس عمارت پر کوئی گنبد بنا نہ ہی بلند و بالا مینار نہ کاشی کاری نہ ہی نوکیلی محرابیں بنائی گئیں-[12]

1975ء میں حکومتِ پاکستان نے مزار کی توسیع کا منصوبہ منظور کیا گیا- جس میں سرخ پتھر کا بیرونی چبوترا بنوایا گیا- سرخ پتھرکے توسیعی چبوترے کے چاروں کونوں پر 4 سنتریوں کے لئے 4 برجیاں اسی سرخ پتھر سے تعمیر کروائی گئیں- نو تعمیر شدہ چبوترے کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی سنگی برجیوں کو پیتل کی زنجیروں سے آراستہ کر کے باڑ کی صورت میں نصب کیا گیا -[13]

مزار کا مجموعی احاطہ شمال سے جنوب "5-'180 اور مشرق سے مغرب مشرق سے مغرب "6-'101 ہے اور مزار کی عمارت شمال سے جنوب "1-'30 اور مشرق سے مغرب "1-'20 ہے-چبوترے کی اونچائی "10-'1 رکھی گئی تھی-عمارت کی مجموعی اونچائی "1-'15 ہے تا کہ مسجد کا منظر کسی صورت خراب نہ ہو-مزار میں دو اطراف مشرق اور جنوب میں دروازے بنائے گئے جنکی پیمائش '4 چوڑے اور "6-'6 اونچے بنائے گئے-دروازے کی لکڑی اڑھائی انچ موٹائی ہے اور اس کیلئے ساگوان کی لکڑی استعمال کی گئی- [14]

مزار کا بیرونی طرزِ تعمیر

دونوں دروازوں کی بیرونی طرف محرابیں بنائی گئی ہیں جن کی مشابہت اندلس کے فنِ تعمیر سے ہے ان نیم دائرہ محرابوں کو چھتے دار سرخ پتھر کی قلموں سے آراستہ کیا گیا ہے اور یہ انداز مسلمانوں کےفنِ تعمیر میں اکثر ملتا ہے- عمارت کے بیرونی حصے میں فرش سے کچھ اوپر چاروں اطراف دیوار پر  2 جھریاں ہیں جن کےدرمیان سرخ پتھر کا مخروطی ابھار افقا سطح فرش کے متوازی عمارت کا احاطہ کئے ہوئے ہے-یہ تصور جنوبی ہند کی بعض عمارتوں سے ماخوز ہے-چونکہ نواب صاحب اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے تو ان کے نہاں خانہ ذہن میں یہ نمونہ بھی تھا- عمارت مستطیل شکل میں ہے مگر اوپر اٹھتے ہوئے ہلکا سا مخروطی انداز آجاتا ہے جو کہ عہدِ سلاطین کی بعض عمارتوں سے مشابہت رکھتا ہے اس قسم کی عمدہ مثال ملتان میں شاہ رکنِ عالم اور شاہ بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے مقبروں کی عمارتوں میں ملتی ہے جو کہ نچلی منزل پر واضح طور پر ڈھلوان ہوگئے ہیں - مزار کی چھت کے قریب چاروں جانب کم و بیش اڑھائی فٹ چوڑا چھجہ ہے-جہاں تک عمارت کی ساخت کا تعلق ہے یہ عمارت کم اور سنگ تراشی زیادہ ہے-[15]

مقبرہ کا اندرونی طرزِ تعمیر

عمارت کا اندرون سنگِ مرمر سے سجایا گیا ہے دیواریں بھی سنگِ مرمر سے مزین کی گئی ہیں،دیواروں پر لگی سنگِ مرمر کی تختیاں با لکل سادہ ہیں اور ان پر نہ کوئی رنگ ہے نہ ہی کوئی شدید تاثر نہ پیچیدگی-سقف(سیلنگ) سے کچھ نیچے دیواروں پر ایک پوری آیت اور تین آیات کے بعض حصے بڑی نفاست سے کندہ کئے گئے ہیں-یہ آیات ملک کے نامور خطاط حافظ محمد یوسف سدیدی کے قلم کا سر چشمہ ہے-سقف کے حاشیائی حصے میں چاروں طرف علامہ اقبالؒ کی کتاب ’’زبورِعجم‘‘ کے چھ اشعار بڑے نامور خطاط محمد اقبال ابنِ پروین نے لکھے ہیں ، اشعار کا انتخاب سردار عبد الرب نشتر نے کیا تھا -سقف گلکاری کے فن سے مزین ہے جس کے وسط میں ایک بیضوی حلقہ بنایا گیا ہے جس میں بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں-حلقے کے مرکز میں ایک ہشت پہلو ستارہ ہے جہاں پر پیتل کا ایک فانوس آویزاں ہے -اس مرکزی حصے میں خطِ ثلث ہی میں اسم ’’محمد (ﷺ)‘‘ مرمریں کندہ کاری کا عمدہ نمونہ ہے -اسمِ ’’محمد (ﷺ)‘‘کے چاروں اطراف ابھرواں مرمریں حروف میں چار مرتبہ اقبال لکھا گیا ہے -ہر لفظِ ’’اقبال‘‘ کے حرف ’’ل‘‘ کا میلان اسمِ ’’محمد (ﷺ)‘‘کی طرف رکھا گیا ہے- اس کا مطلب ہے کہ علامہ اقبالؒ فیضانِ محمدی(ﷺ) ہی سے فیضیاب ہیں-اِسی مرکز سے فانوس نیچے تعویز کی طرف لٹکایا گیا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ سرورِ کائنات(ﷺ)کی ذاتِ گرامی سرچشمہِ نور ہیں، فانوس اُسی نور کا پیکر ہےنیچے مرقد میں صاحبِ قبر اسی نور محمدی (ﷺ)  کے ضیاباریوں سے مستفید ہو رہے ہیں-[16]

مزار کا تعویز:

پتھر کی سلوں سے بنایا گیا ہے اور تعویز چبوترے سے "1-'2 بلند ہے،عین بالائی حصہ مستطیل شکل میں ہے جو کہ بالکل صاف و شفاف ہے-زیریں حصے کا طول اراگونائیٹ مزار کا چبوترا خوبصورت"7-'6 ہے ،اس حصے میں بیل بوٹے کندہ کئے گئے ہیں-لوحِ مزار سمیت چبوترے اور تعویز کا مرمریں پتھر (سنگِ لاجورد) سارے کا سارا حکومتِ افغانستان کا عطیہ ہے جو کہ چوہدری فتح محمد نے خود نصب کروایا جن کے چھوٹے چھوٹے حصوں کےساتھ باقائدہ نقشے بھی موجود تھے جس کے مطابق ترشے ترشائے ٹکڑوں کو بڑی خوبی سے جوڑا گیا-دہلی،آگرہ اور مکرانہ کے کاریگروں نے یہ کام سرانجام دیا- [17]

مینارِ پاکستان

تعارف:

 مینارِ پاکستان ایک قومی یادگار ہے اور یہ عین اسی جگہ واقع ہے جہاں 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قرار دادِ پاکستان منظورکی تھی جس میں واضح طور پر مسلمانانِ برِصغیر کے لئے ایک الگ اور آزاد و خودمختار ریاست کے قیام کی بات کی گئی- آخر کار مسلمانوں نے 14 اگست 1947ء کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی صورت میں حاصل کرلی-

آرکیٹیکٹ/مصور:

مینارِ پاکستان کو ڈیزائن کرنے والے مصور ایک روسی نژاد پاکستانی نصیر الدین مرات خان تھے،جنہوں نے کمال مہارت سے اس یادگار(مینارِ پاکستان) کے کام کو سر انجام دیا-

عرصہِ تعمیر:

 مینارِ پاکستان کا سنگِ بنیاد 23 مارچ 1960ء کو رکھا گیا اور یہ تقریبا 8 سال کے عرصہ میں 21 اکتوبر 1968ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا-

رقبہ:

مینارِ پاکستان اور اس سے ملحقہ پارک کا کل رقبہ تقریبا ً 328.9 ایکڑ ہے-

ڈیزائن کا تصور اور اسٹرکچر :

پھر یہ کام 25 مئی 1959ء کو نصیر الدین مرات خان کے سپرد کیا گیا (جو کہ آرکیٹیکٹ،سول انجینیئر اور ٹاون پلانر بھی تھے)- کہا جاتا ہے کہ جب مرات خان صدر ایوب خان کو ملے تو صدر ایوب خان نے قلم کو میز پر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس یادگار کا ایسا ڈھانچہ تیار کیا جائے کہ ایسا لگے کہ یہ قلم میز کے اوپر (بغیر کسی سہارے) سیدھا کھڑا ہے‘‘-[18]

نصیرالدین مرات خان نے اس یادگار کے تین ماڈل تیار کیے جن میں سے تیسرا ماڈل پسند کیا گیا جو کہ آج گریٹر اقبال پارک،لاہور میں موجود ہے-

مرات خان نے اس مینارِ پاکستان کے تکمیل کے مراحل کے دوران ایک شاندار بات کہی کہ:

’’یہ یادگار اُس طاقت کی علامت ہے جس نے اِس پاکستان کی تشکیل کی تھی‘‘-[19]

دوسری بات جو مینارِپاکستان کے بارے کہی اُس کا متن کچھ یوں ہے کہ :

A memorial rostrum and the high soaring-tower like structure behind it to form “one divisible whole”.

مرات خان نے مینارِ پاکستان کی بنیاد پر چند چبوترے ڈیزائن کئے جن میں دو ہلال دکھائے گئے یہ دو ہلال دِکھنے میں ایسے لگتے ہیں جیسے یہ ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں اور دونوں ہلالوں کے درمیان قومی پرچم والا ستارہ بھی ایک چبوترے کی شکل میں واضح دکھائی دے رہا ہے جو کہ پاکستان کی عظمت کی علامت ہے، حقیقت میں یہ خیال مشرقی اور مغربی پاکستان کی عکاسی کرتاہے کہ کس طرح پاکستان مشرقی اور مغربی پاکستان اکٹھے ہیں -آرکیٹیکٹ اپنے ڈیزائن میں یہ بتانا چاہتا ہے کہ دونوں ہلالوں سے نکلتی ہوئی سیڑھیوں کے زینے لینڈنگ پوائنٹ (جہاں سیڑھی اپنے آخری زینے کے بعدچھت پر پہنچتی ہے) پر اکٹھے ہوجاتے ہیں حقیقت میں وہ یہ کام مشرقی اور مغربی پاکستان کےمساوی روحانی شراکت کی علامت کے طور پر دکھانا چاہتے تھے جس کی امید قائد اعظمؒ نے لگائی تھی،یہ تمام تصور آگے تصویر میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے-

مرات خان کی مینارِ پاکستان کی ڈیزائننگ کے دوران یہ سوچ تھی کہ یہ یادگار کوئی گنبد یا مسجد کی طرح نہ ہو،وہ اس یادگار کے حوالے سے روائتی طرزِ تعمیر سے متفق نہیں تھے بلکہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ’’پاکستان عالمِ اسلام میں ایک جرأت مندانہ اور نیا تجربہ ہے‘‘ اسی لئے پاکستان کے قیام سے متعلق یادگار کا ڈیزائن بھی اسی انداز سے منفرد اور نیا ہونا چاہئے- ابتداء میں مینار پاکستان کے  بلند ترین مقام پر کسی قسم کا گنبد نہیں تھا بلکہ مرات خان کا خیال تھا کہ پاکستان کے مقاصد کی طرح اس مینار کو بھی لامحدود دکھنا چاہیئے- بعد ازاں اس مقصد کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے اس مینارِ پاکستان میں کسی اسلامی فنِ تعمیر کے جزو کی جھلک دکھانے کے لئے مینار کی چوٹی پر ایک دھاتی گنبد تیار کروا دیا جو کہ اب موجود ہے-

مینار کی بنیادی چبوترے کی بلندی 8 میٹر ہے اور اس چبوترے سے اس بنیاد کے اوپر 62 میٹر تک بلند ہے جو کہ مجموعی طور پر 70 میٹر ( 230 فٹ) بلند ہے- [20]

مینارِ پاکستان کے بنیادی حصہ جو کہ دیکھنے میں کھلتے ہوئے پھول کی پتیوں کی طرح نظر آتا ہے اس کی اونچائی 9 میٹر ہے-[21]

مینار کا قُطر تقریباً 9.75 میٹر (32 فٹ) اور مینار کے مرکزی دروازے کا رخ بادشاہی مسجد کی طرف ہے- مینار کی بنیاد پر 4 چبوترے بنائے گئے ہیں جن کی تفصیل انتہائی غور طلب ہے-[22]

پہلا چبوترا جدو جہدِ آزادی کے عاجزانہ آغاز کی علامت کے طور پر ٹیکسلا کے بے دریغ پتھروں سے تیار کیا گیا ہے-[23]

دوسرا چبوترا ہتھوڑے سے تراشے گئے پتھروں سے تیار کیا گیا ہے-[24]

تیسرا چبوترا چھینی(اوزار) سے تراشے ہوئے پتھروں سے بنایا گیا ہے -[25]

چوتھا اور آخری چبوترا پالش شدہ سنگِ مر مر سے تیار کیا گیا ہے جو کہ تحریکِ پاکستان کی عظیم کامیابی کی عکاسی کرتا ہے-[26]

مینارِ پاکستان کے داخلی دروازے کی ساتھ بیرونی دیوار پر قراردادِ پاکستان کو اردو،بنگالی،انگریزی زبان میں تحریر کیا گیا ہے-اُن پتھروں کے کَتبوں پرقرآنی آیات،اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی ناموں کو عربی خوشخطی میں لکھا گیا ہے -انہیں کَتبوں پر قومی ترانے کو اردو اور بنگالی زبان میں بھی تحریر کیاگیا ہے-مزید بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کے اقتباسات کو اردو، بنگالی اور انگریزی میں کندہ بھی کیا گیا ہے پتھروں سے مزین دیوار شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے اشعار کو بھی واضح تحریر کیا گیا ہے-

یہ مینار دکھنے میں جتنا سادہ ہے ڈیزائن اور تعمیر کے مراحل میں رموز سے اتنا ہی بھرپور ہے- یہ یادگار اسلامی اور قومی ثقافت کا مجموعہ ہے اس کی بنیاد کھلتے ہوئے پھول کی آئینہ دار ہے جو کہ پارکس کی صورت میں پھولوں سے گھرا ہوا ہے- اب یہ جگہ سیاسی مذہبی تقریبات کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے اسکو ’’ٹاور آف لیبرٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے-

پاکستان مونومنٹ

تعارف:

 پاکستان مونومنٹ یا یادگارِ پاکستان ایک قومی یادگار ہے جو کہ اسلام آباد میں شکرپڑیوں کی پہاڑیوں پر موجود ہے-یہ یاد گار پاکستانی عوام کی اتحاد کی علامت اور پاکستان کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے ڈیزائن کی گئی ہے-

آرکیٹیکٹ/مصور:

 اس یادگار کو آرکیٹیکٹ عارف مسعود نے ڈیزائن کیا-

عرصہِ تعمیر:

 پاکستان مونومنٹ کی تعمیر 25 مئی 2004ء کو شروع ہوئی اور اس کی تکمیل 23 مارچ 2007 ءمیں مکمل ہوئی-

رقبہ:

 اس یادگار کا کل رقبہ 6.9 ایکڑ ہے- [27]

ڈیزائن کا تصور اور اسٹرکچر:

اس یادگار کا ڈیزائن براہِ راست مغلیہ فنِ تعمیر سے جڑا ہوا ہے، اس یادگار کو اگر ہوا سے دیکھا جائے تو ایسے معلوم ہوگا کہ کوئی کھلتا ہوا پھول ہے جس میں 4 بڑی پتیاں (پنکھڑیاں)ہیں اور 3 چھوٹی پتیاں ہیں، اس پتیوں کو مغلیہ فنِ تعمیر میں استعمال کی گئی محراب کے اندر مقرنسوں کے ڈیزائن سے لیا گیا ہے لیکن جدید دور کے مطابق ایک نیا ڈیزائن بنایا گیا ہے-

جیسا کہ اسی مراجیکٹ کے معمار کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں تاریخ سے سیکھنا چاہیئے لیکن اس میں باقی رہنا نہیں چاہیئے‘‘- اسی لئے انہوں نے مقرنسوں کی شکل کو نئی صورت دینے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا-

مونومنٹ میں 4 بڑی پتیوں سے مراد پاکستان کے 4 صوبے ہیں اور 3 چھوٹی پتیوں سے مراد پاکستان سے جڑی ہوئی 3 وفاقی اکائیاں  آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اور فاٹا ہیں-[28]

ان پتیوں کو اس انداز سے بنایا گیا ہے کہ ہر دو بڑی پتیوں کے درمیان میں ایک چھوٹی پتی ہے اور پتیوں کے اندرونی سمت میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی متاثر کن تحریروں کے ساتھ زنگ نہ لگنے والی دھات سے ہلال تیار کیا گیا ہے  اور اس کے درمیاں ایک سیاہ رنگ کے گرینائیٹ سے بنا سنہری ستاروں سے سجا ستارہ ہے جو کہ ان لوگوں کی نمائندگی کر رہا ہے جنہوں نے تحریک آزادیِ پاکستان اور ملکِ پاکستان کی حفاظت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا- مجموعی طور پر دیکھیں توایسا محسوس ہوگا کہ یہ سب صوبے اور ریاستیں یکجا ہیں اور ایک ساتھ کھڑے ہوکر وہ ہلال اور ستارے ملکِ خداداد پاکستان کی حفاظت کر رہے ہیں-

ان بڑی پتیوں کو گرینائیٹ سے بنایا گیا ہے جو کہ برازیل سے درآمد کیا گیا ہے اور ماربل سپین سے درآمد کیا گیا ہے- بڑی پتیوں کے اندرونی دیواروں پر انتہائی عمدہ، خوبصورت اور متاثرکن آرٹ ورک کیا گیا ہے-[29]

پہلی پتی پرمینارِ پاکستان، خیبر پاس، بادشاہی مسجد، تحریکِ  آزادی پاکستان کی داستان کو تصویری کہانی کی صورت میں بنایا گیا ہے وہیں فیصل مسجد، شاہجہان مسجد ٹھٹھہ،مکلی قبرستان،گوادر پورٹ روہتاس قلعہ کی عکس بندی کی گئی ہے- دوسری پتی پرمادرِ ملت فاطمہ جناحؒ اور قائد اعظمؒ کی ایک جمِ غفیر کے تصویر کے دیوار پر آرٹ ورک کی صورت میں دکھایا گیا ہے اور تیسری پتی پر شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کی تصویر، مسجد محبت خان،دربار شاہ رکنِ عالم،شاہی قلعہ لاہور اور قدیم سندھی تہذیب کی عکس بندی کی گئی ہے اور آخری پتی پر شیش محل ،مقبرہ اوچ شریف، اسلامیہ کالج پشاور، زیارت ریزیڈنسی اور دیگر کچھ جگہوں کو بہت عمدہ انداز میں دیوار پر دکھایا گیا ہے- اس نفاست کے کام پر تقریباً 119000 گھنٹے صرف کئے گئے ہیں-[30]

مونومنٹ کے عقب میں ایک وسیع کھلا صحن نما احاطہ بنایا گیا ہے جس کے اطراف میں مغلیہ دور کی خوبصورت محرابوں کو تعمیر کیا گیا ہےجہاں سے پورے اسلام آباد کا خوبصورت نظارہ کیا جاسکتا ہے- یادگار کے چبوترے سے جیسے ہی نیچے آئیں تو وہاں 4 بڑے ستون نظر آتے ہیں جن پر پاکستان کا قومی منشور ’’ایمان،اتحاد اور تنظیم‘‘ کو نہایت خوبصورت انداز میں ٹائل ورک کے ساتھ سر انجام دیا گیا ہے- انہیں 4 ستونوں کے پاس ہی اسی یادگار کو تعمیر کرنے والوں کے ہاتھوں کے نشانوں کو دیوار پرنصب کیاگیا ہے-

مونومنٹ کا دوسرا حصہ پاکستان میوزیم کی عمارت ہے جس میں مجسموں اور ماڈلز کی صورت میں پوری تحریک آزادیِ پاکستان کی جدوجہد کو تصویری صورت میں پیش کیا گیا ہے-اسی میوزیم میں ایک کتب خانہ،کانفرنس ہال اور تقریباً 62 نشستوں کا آڈیٹوریم بھی ڈیزائن تعمیر کیا گیا ہےتا کہ سیاحوں کے میوزیم کے دورے کے دوران فلمی صورت میں بھی تحریکِ آزادی کی بیش بہا قربانیوں کی عکس بندی کو پیش کیا جا سکے-

اختتامیہ:

اس سب عمارتوں کی تعمیر  کے مطالعے کے بعد ہم ایک بات بہت یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی قوم بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ، تحریکِ  آزادیِ پاکستان کے سرگرم کارکنوں اور شہدائےِ پاکستان  (جنہوں نے اس سرزمینِ پاکستان کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے) کو بھولی نہیں ہے بلکہ انہیں کے نقشِ قدم پر چل کر اس ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کو ترقی کی ان بلندیوں پر لے جائیں گے جس کا خواب حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒ نے دیکھا تھا-

٭٭٭


[1] مزار قائد،  (4 جولائی2021).،‏‏ ویکیپیڈیا: https://ur.wikipedia.org/wiki/

[2] Mazar-e-Quaid. (2021, July 4). Retrieved from Wikipedia: https://en.wikipedia.org/wiki/Mazar-e-Quaid

[3] Mazar-e-Quaid. (2021, July 4). Retrieved from Wikipedia: https://en.wikipedia.org/wiki/Mazar-e-Quaid

[4] Hasan, S. K. (2001). The Islamic Architectural Heritage of Pakistan. Karachi: Royal Book Company .

[5] Hasan, S. K. (2001). The Islamic Architectural Heritage of Pakistan. Karachi: Royal Book Company .

[6] Ali, S. (2021, july 4). Mausoleum of quaid e-azam(monument).

[7] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[8] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[9] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[10] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[11] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[12] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[13] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[14] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات

[15] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[16] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[17] عدیم, غ. ر. (1982). مزارِ اقبالؒ. لاہور: حاجی محمد عالم برائے الآثار مطبوعات.

[18] Pakistan, T. C. (2021, July 4). Nasreddin Murat-Khan (1904-1970).

[19] Pakistan, T. C. (2021, July 4). Nasreddin Murat-Khan (1904-1970).

[20] Amna, Jamal. 2002. "The Pakistan Day Memorial." Dawn.

[21] Amna, Jamal. 2002. "The Pakistan Day Memorial." Dawn.

[22] Amna, Jamal. 2002. "The Pakistan Day Memorial." Dawn.

[23] Amna, Jamal. 2002. "The Pakistan Day Memorial." Dawn.

[24] Amna, Jamal. 2002. "The Pakistan Day Memorial." Dawn.

[25] Amna, Jamal. 2002. "The Pakistan Day Memorial." Dawn.

[26] Amna, Jamal. 2002. "The Pakistan Day Memorial." Dawn.

[27] Tribune, The Express. 2013. National Monument: Structure reflects history of Pakistan. August 29. https://tribune.com.pk/story/596791/national-monument-structure-reflects-history-of-pakistan.

[28] Nation, The. 2014. Pakistan Monument: a source of attraction for visitors. November 3. https://nation.com.pk/03-Nov-2014/pakistan-monument-a-source-of-attraction-for-visitors.

[29]Dawn, Pakistan National Monument: Reliving history, 2011

[30]Dawn, Pakistan National Monument: Reliving history, 2011

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر