قومی ترانہ کسی قوم کی جد و جہد اور اس کے عزم کا ترجمان ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کی قومی علامتوں میں”قومی ترانہ“ کو امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے جو اس کی شناخت اور اس کے مقاصد کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے-قومی ترانہ جہاں قوم کے لوگوں کی روایات اور اقدار، عقائد و نظریات بیان کرتا ہے وہیں یہ ملک و قوم کے عظیم ورثہ، تاریخ اورقوم کی آن، بان، شان کی بھی وضاحت کررہا ہوتا ہے جبکہ اس کی شاعری اور دُھن لوگوں کو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار کرنے کیلئے معقول اور مؤجب ٹھہرتی ہے-قومی ترانے میں جتنی اہمیت شاعری کو حاصل ہوتی ہے اتنی ہی اس کی دھن کو بھی حاصل ہوتی ہے اور بسا اوقات قومی ترانے کے الفاظ کی بجائے صرف دھن بھی بجائی جاتی ہے اور اس کا احترام بھی بعین اسی طرح کیا جاتا ہے جتنا کہ شاعری کے لفظوں کا-قومی ترانہ کے وقار کو بلند کرنے کیلئے ہمیشہ اسے کھڑے ہو کر اور مؤدب انداز میں سنا اور پڑھا جاتا ہے-
بیسویں صدی کے وسط میں ملکِ خداداد پاک سر زمین کا قیام عمل میں آیا جس کی جد و جہد میں جہاں سالوں کی محنت، مشقت اور لگن درکار رہی وہیں سینکڑوں ہزاروں محبّان کے لہو سے اس دیس کی مٹی نے آبیاری پائی-اس کی پہچان سبز ہلالی پرچم بنا اور اس کی اساس اسلام کے رہنما اصول قرار پائے- پاکستان کی قومی علامتوں کا تعین کیا گیا -اسی ضمن میں اس کے نظریہ حیات کی ترجمانی، اس کے مقصد کی یاد دہانی اور اس کے لوگوں کی روایت، حب الوطنی اور عقائد کی نمائندگی کیلئےاُس وقت کے مایہ ناز شعراء نے ترانے تحریر کئے جن میں سے ابو الاثر حفیظ جالندھری کی پُرمغز نظم”پاک سرزمین“ کو ”قومی ترانہ“ کی حیثیت ملی- ترانہ کے ترنم کیلئے احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن کو منتخب کیا گیا تھا اور اس کی نوک پلک کو مدنظر رکھ کر ہی پاک سر زمین لکھا گیا-الغرض یہ کہ شاعری اور موسیقی کا ایک ایسا امتزاج وجود میں آیا جس نے دلوں کے تار کچھ یوں چھیڑے کہ سرودِ محبتِ وطن، محبانِ وطن کی رگ رگ میں محلول ہوگیا - اس مقالے کا مقصد پاکستان کے قومی ترانے کی شناسائی مہیا کرنا ہے جو کہ اس کے مطالب و مفاہیم سے آگہی کے بغیر خارج از امکان ہے-
پاکستان کا قومی ترانہ جہاں اس کے عزم و استقلال کو بیان کرتا ہے وہیں یہ پاکستانی قوم کیلئے داستانِ عہد و پیمان ہے-اس پاک اور طیب سرزمین اور حسین ترین کشور سے محبت کا ایک ایسا عظیم پیغام اس ترانہ میں پنہاں ہے جو محب وطن میں جوش و ولولہ بیدار کر دیتا ہے اور اسے ایک سمت عطا کرتا ہے-نغمہ میں لطافت اور نظافت کی غرض سے اسے فارسی زبان کی چاشنی عطا کی گئی نیزاردو زبان سے لفظ” کا“لیا گیا جو کہ شاعر کی اعلیٰ فنی صلاحیت کا ثبوت ہے - شاعری میں اعلیٰ پایہ کا ربط، وزن اور اوجِ کمال کا بحر ملحوظِ خاطر رکھا گیا-اس ترانے کو تحریر کرنے میں تین ماہ، دن رات کی محنت لگی- 14اگست 1954ء کو پہلی بار ریڈیو پاکستان پر قومی ترانہ سنایا گیا- ایک منٹ اور بیس سیکنڈ کے دورانیہ پر مشتمل پاکستان کا قومی ترانہ دنیا کے بہترین قومی ترانوں کی فہرست میں شامل ہے-
پس منظر:
نواب زادہ لیاقت علی خان نے 1949ء میں قومی ترانہ تیار کرنے کیلئے ایک کمیٹی بنائی-اس کمیٹی میں دو ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، ایک کا کام ترانے کے بول اور دوسری کا کام ترانے کی دُھن کو چننا تھا-کمیٹی کا پہلا اجلاس اسی سال کراچی میں یکم مارچ کو سردار عبدالرب نشتر کے گھر پر منعقد ہوا-بعد ازیں اخبارات میں ترانے لکھنے کیلئے اعلانات کئے گئے اور جب کمیٹی کا دوسرا اجلاس 4جولائی کو بلایا گیا تو ارسال ہوئے سینکڑوں ترانوں کا جائزہ لیا گیا مگر کوئی ایک ترانہ بھی قومی ترانے کے معیار پر پورا نہ اترا- کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں معروف موسیقار اے جی چھاگلہ کی بنائی ہوئی دھن کو قومی ترانے کے لئے منتخب کرلیا گیا-اس دھن کو بجانے میں 21 آلاتِ موسیقی اور 38ساز کا استعمال کیا گیا تھا- اس دھن کو پہلی مرتبہ پیانو پر ریڈیو پاکستان کے بہرام سہراب رستم جی نے بجایا تھا-[1] یکم مارچ 1950ءکو شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی جب پاکستان آمد ہوئی تو پاک بحریہ کے بینڈ نے وارنٹ آفیسر عبدالغفور کی قیادت میں کراچی ایئرپورٹ پر یہی دھن بجاکر انہیں سلامی دی- [2]
ترانے کی دُھن کو ہر رات ریڈیو پاکستان پر چلایا جاتا- ملک بھر کے نامور شعراء اس دھن کی مطابقت میں ترانہ تحریر کرنے میں مصروف تھے-نتیجتاً نیشنل سانگ سلیکشن کمیٹی کو 723 ترانے موصول ہوئے جن میں سے حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور سید ذوالفقار علی بخاری کے ترانے منتخب کئے گئے-ترانے اور دھن کی مطابقت جانچنے کیلئے انہیں بی بی سی [3]کے ادارے کو بھجوایا گیا اور وہاں سے حفیظ جالندھری کے ترانے کو دھن کے مطابق عین معیاری قرار دیا گیا- نیز 4 اگست 1954ء کو مرکزی کابینہ نے حفیظ جالندھری کے ترانہ کو بطور قومی ترانے کے منظور کرلیا-[4] یومِ آزادی سے ایک دن قبل ریڈیو پاکستان پر 11 گلوکاروں نے قومی ترانہ گایا اور 16اگست1954ء کومنسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ نے بھی باقاعدہ طور پر اسے قومی ترانہ کی حیثیت دے دی-
اعتراضات اور ان کا ازالہ:
مشرقی پاکستان کی عوام کا مطالبہ تھا کہ قومی ترانہ بنگالی زبان میں ہو، اگر نہیں تو ترانے میں بنگالی زبان کے الفاظ شامل کئے جائیں جبکہ مغربی پاکستان میں اردو میں ترانے کا بول بالا تھا لیکن جب حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانہ کو بطور قومی ترانے کے منظور کر لیا گیا تو اس پر وقتاً فوقتاًیہ اعتراضات اٹھائے گئے کہ اس میں اُردو کا فقط ایک لفظ شامل کیا گیا اور قومی زبان کی بجائے اسے فارسی زبان میں تحریر کیا گیا-ان تمام معترضین کو برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا عمیق جائزے سے مطالعہ کرنا چاہیے کہ اس سرزمین کیلئے فارسی زبان کی کیا کیا خدمات ہیں اور اس زبان نے مسلمانوں کے اقدار کی کس طرح حفاظت کی ہے-البتہ اس ملک خداداد کا نام خود فارسی کے دو حروف پاک اور استان سے مل کر بنا ہے- پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کی شاعری کا زیادہ تر حصہ اسی فارسی زبان پر مشتمل ہے اور اگر اقبال جیسے شعراء کی شاعری میں سے فارسی کو بےدخل کردیں تو پیچھے رہ کیا جائے گا؟ مزیدیہ کہ قومی ترانے میں گرچہ فارسی الفاظ کا استعمال کثیر ہے لیکن یہ وہ الفاظ ہیں جو کہ لشکری زبان(جوکہ خود اپنے اندر فارسی کا کثیر ذخیرہ الفاظ رکھتی ہے) اردو میں عام مستعمل ہیں- یوں تو” کا“ کی بجائے” را “آجانے سے یہ ترانہ مکمل فارسی میں ہو جاتا لیکن اسے شاعر کافنی کمال گرداننا چاہیے کہ کمال کی خوش اسلوبی سے انہوں نے ایک لفظ سے اسے دو زبانوں کا امتزاج بخش دیا-
قائداعظم محمد علی جناح کو زبردستی کا سیکولر گرداننے والے اور ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے اکثر و بیشتر یہ اعتراض اٹھایا گیا جسے کئی پاکستانی مصنفین، مؤرخین اور صحافیوں نے بھی من و عن قبول کرلیا کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ قائداعظم کی فرمائش پر جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا جسے آزادی کی رات ریڈیو پاکستان سے نشر بھی کیا گیا-لیکن بعد میں اس ترانے کو فقط اس نکتہ پر رد کر دیا گیا کہ یہ ایک ہندو نے لکھا ہے اور پاکستان ایک مسلم ریاست ہے-عقیل عباس جعفری نے اپنی کتاب ”قومی ترانہ ، کیا ہے حقیقت؟کیا ہے فسانہ؟ “ میں اس اعتراض پر مدلل انداز میں گفتگو کی ہےاور اس بات کی صریح نفی کی ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا -[5]انہوں نے لکھا کہ نہ تو پاکستان کے کسی پیپر میں اس بات کا ثبوت ہے، نہ ہی ریڈیو پاکستان لاہور اور پشاور میں ایسا کوئی ریکارڈ موجود ہے اور نہ ہی قائداعظم اور جگن ناتھ کی کسی ملاقات کی کوئی یادگار کسی کے ذہن اور ورق میں پائی جاتی ہے- البتہ وہ شخص (جگن ناتھ آزاد) جس نے پاکستان کیلئے قومی ترانہ لکھ ڈالا، اس کی پاکستان سے محبت کا عالم یہ تھا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر ہندوستان ہجرت کرگیا تھااور وہیں اپنی پوری زندگی گزاردی -
قومی ترانہ کی سلیس تفہیم:
کسی تحریر کے پڑھنے، سننے یا دہرانے کا لطف اس وقت دوبالا ہوتا ہے جب قاری یا سامع اس تحریر کے ہر لفظ کے معنی سے آشنا ہواوریوں وہ اُس تحریر کی غرض و غائیت کو سمجھنے سے قاصر نہیں رہتا-بچپن سے طلبہ کوتعلیمی اداروں کی اسمبلیوں میں قومی ترانہ پڑھایا جاتا ہے اور بحیثیت پاکستانی عوام ہم سب کو پاک سرزمین شادباد حفظ ہے، جبکہ ہر قومی و ملی تقریبات میں ہم اسے پوری عقیدت کے ساتھ پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن اگر ہم سے اس کا مطلب پوچھا جائے تو 100میں سے 90 فیصد لوگ اس سے نابلد ہونگے جوکہ عدم دلچسپی کے باعث ہے-اسی ضمن میں ذیل میں قومی ترانے کی مختصر تفہیم و تفسیر کی ادنیٰ سی کاوش کی گئی ہے-
پاک سر زمین شاد باد کشور حسین شادباد
اے سرزمینِ پاک تُو خوشحال رہے-اے حسین وطن! تُو شاد آباد رہے
پاک سر زمین اپنے آپ میں ایک راز رکھے ہوئے ہے جو کہ اس کے نظریہ کی عکاسی بھی کرتا ہے- پاکستان فارسی کے دو لفظ پاک اورستان سے مل کر بنا ہے-جس کا عربی ترجمہ پاک مدینہ بنتا ہے-یہ ملک اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا اور قومی ترانہ کا آغاز لفظ پاک سے ہوتا ہے-جسے ادا کرتے ہی ذہن میں اس ملک کا نظریہ اور مقصد جاگزیں ہوجاتا ہے-
پاکستان قدرت کا ایک عظیم اور حسین شاہکار ہے-یہاں قراقرم کے اونچے پہاڑوں سے لے کر کراچی کا ساحل ہے- نیلم ، کنہار ، راوی، جہلم، سندھ، چناب اور ستلج کے دریا ہیں-پنجاب کی ذرخیز زمین ہے اور بلوچستان میں نایاب پتھر اور قیمتی دھاتوں کے پہاڑ ہیں، سکردو کےٹھنڈے صحرا سے لے کر تھر کا گرم ریگستان ہے، چٹانوں اور پتھروں سے گھرے راستے ہیں اور شور مچاتی خوبصورت آبشاریں ہیں،الغرض یہ کہ ہر موسم اور ہر منظر سے قدرت نے اس ملک کو نوازا ہے- جب ہم کشورِ حسین کی بات کرتے ہیں تو نگاہوں میں پاکستان کا یہ قدرتی حسن عیاں ہوجاتا ہے- اللہ اس پاک سرزمین کو اور اس کی خوبصورتی کو ہمیشہ خوشحال، ہرا بھرا اور آباد رکھے-آمین!
تو نشانِ عزمِ عالی شان ارضِ پاکستان
اے پاکستان کی زمین! تو عالی شان عزم کا نشان ہے
برصغیر میں 712ء میں محمد بن قاسم نے آکرسندھ فتح کیا اور یہاں کے لوگوں کو راجہ داہر کے ظلم و جبر سے آزاد کروایا-اس کے بعد سلطان محمود غزنوی نے سومناتھ کا مندر فتح کیا اور وہاں کے غریب عوام کی دادرسی کی-المختصر! یہ کہ مغلیہ سلطنت کا دور شروع ہوا- مسلمانوں نے خوب ترقیاں کیں لیکن پھر دین کو چھوڑ کر دنیا کی خاطر جب جاہ و منصب رہ گیا تو دورِ زوال کا آغاز ہوا اور 1857ء میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نظر بند کرلیا گیا-مسلمان انگریزی سامراج کے پیروں تلے دبے، لچے، مرے، مٹے- پھر ڈھارس بندھی، تعلیمی میدان میں آگے آنے لگے، حتیٰ کہ 1906ء میں مسلمانوں نے اپنی ایک الگ سیاسی جماعت بنا لی اور 7 سال بعد مردِ قلندر قائداعظم محمد علی جناح نے اس جماعت کا بیڑہ اٹھایا، حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری کی طاقت سے اس قوم کو خوابِ گراں سے بیدار کیا اور ان تھک محنت، بے حساب قربانیوں اورعصمت دریوں کے بعد بالآخر خدائے ذوالجلال کے نام پر پاکستان معرضِ وجود میں آگیا- اس چمنِ پاکستان کی مٹی کو ذرخیزی اور اس میں کھکھلاتے کروڑوں پھولوں کو خوشبو اس ملک کی خاطر قربانیاں دینے والوں کے خون کی بدولت نصیب ہوئی ہیں- تبھی ابو الاثر حفیظ جالندھری نے اس ارضِ وطن کو ایک بلند اور شاندار داستان (عزمِ عالی شان) کی نشانی (علامت) قرار دیا ہے- قومی ترانہ کے اس مصرعے میں اس خطے کامکمل قصہ(عزم) پنہاں ہے-قاری جب یہ مصرعہ پڑھتا ہے تو اس کے ذہن کو اسلاف اور ماؤں بہنوں کی وہ قربانیاں لرزا دیتی ہیں-
مرکزِ یقین شادباد
اے ہمارے یقین کے مرکز ! تو شادآباد رہے
پاکستان کے قیام کی جد و جہد کےدوران جو نعرہ سب سے زیادہ عوام اور اس کی لیڈر شپ میں مقبول تھا وہ”پاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الا اللہ“ کا نعرہ تھا-قراردادِ پاکستان نے بھی دو قومی نظریہ کو واضح کردیا تھااور قائداعظم محمد علی جناح کی تقاریر کا ایک بڑا حصہ اس یقین کی وضاحت کرتا ہے جس میں انہوں نےواضح کیا ہے کہ اسلام نے آزادی، مساوات اور اخوت کا حکم دیا ہے (اگست 1947ء)، پاکستان اسلام کا قلعہ (گہوارہ) ہے،اگر ہم قرآن کے راہنما اصولوں پر چلیں گے تو کامیابی ہماری ہوگی (اکتوبر 1947ء)، ہماری جمہوریت کی بنیاد حقیقی اسلامی نظریات اور اصولوں پر ہے (اگست1948ء) - [6]ان جیسے درجنوں فرامین ہیں جو پاکستان کے نظریہ اور اس کے لوگوں کے عقیدے کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ وطن اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے اوریہی وجہ ہے کہ یہ ہمارے اعتقاد اور یقین کا مرکز ہے جسے خدائے ذوالجلال سدا شاد و آباد رکھے-آمین!
پاک سر زمین کا نظام قوتِ اخوتِ عوام
اس پاک سرزمین کا نظام عوام کی بھائی چارگی کی قوت سےہے-
جب ہجرتِ مدینہ ہوئی تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے انصار و مہاجرین کو بھائی بھائی بنا دیا اور قرآن نے بھی واضح اعلان کر دیا کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں-اس اخوت اور بھائی چارے کو استوار کرنے کی وجہ دلوں میں محبت کا قیام تھا جس کے طفیل معاشرے میں امن کا قیام ممکن ہے-اسی رہنما اصول کو اس پاک سرزمین کے آئین، نظم و ضبط اور دستور کا بنیادی جزو بنایا گیا ہے تاکہ محبت اور امن کی فضا برقرار رہے اور معاشرے کو نفاق و تفریق کی آلودگی سے پاک رکھا جائے-
قوم ملک سلطنت پائندہ تابندہ باد
اے قوم ملک سلطنت تو ہمیشہ قائم رہے ، روشن رہے
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے متعلق فرمایا تھا کہ کوئی بھی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی کیونکہ ان کا اس چیز پر پختہ اعتقاد تھا کہ یہ ملکِ خداداد ہے اور اس کی بنیاد کلمہ طیب پر رکھی گئی ہے لہٰذا اگر کوئی پاکستان کو ختم کرنا چاہے تو وہ خود ہی نیست و نابود ہو جائے گا اور اس کا معرضِ وجود میں آنا اٹل ہے، اس بات کی تصدیق ڈاکٹر ایلن قیصر نے کی ہےکہ 1934ء میں قائد اعظم جب مایوس ہو کر لندن روانہ ہوگئے تھے تو وہاں آپ کو حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی زیارت نصیب ہوئی اور آقا کریم (ﷺ) نے آپ کو واپس جانے کا حکم دیا اور آپ کو پاکستان کی بشارت بھی عطا فرمائی -[7]
شاد باد منزلِ مراد
ہماری منزلِ مراد تو شاد رہے آباد رہے / اس منزلِ مراد کے پانے والوں تم خوش اور آباد رہو-
پاکستان کےنوجوانوں کا بڑا طبقہ آج اپنے ملک میں سرد آہ بھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ان کے ذہنوں پر بیرونِ ملک جانے کی دھن سوار رہتی ہے- اس بےرغبتی کاباعث بلاشبہ تاریخ سے نابلد ہونا ہے-اسلاف کی قربانیوں اور جد و جہد سے ناآشنائی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج اکثر پاکستانیوں اپنے عظیم ملک کی قدر نہیں ہے-”منزلِ مراد“ جیسا عظیم مرکب پڑھ کر جیسے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ منزل جس کی چاہ میں خدا جانے کتنے لوگوں نے اپنی جان گنوا دی، کتنی ماؤں اور بہنوں نے اپنی عزت لٹا دی، کتنی ہی اولادوں کے سر سے ماں باپ کا سایہ ہٹ گیا، کتنے ہی لوگوں نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی لٹا دی، کتنوں ہی نے اپنا گھر بار اور رشتہ دار اس منزلِ مراد کو پانے کیلئے چھوڑ دئیے-ٹرینوں کی ٹرینیں بھارت سے پاکستان پہنچیں لیکن ان میں آزاد مملکت کیلئے خوشی منانے والا کوئی انسان زندہ نہ بچ سکا تھا- یہ منزلِ مراد یوں ہی برطانوی سامراج کے چلے جانے اور کسی کمرے میں بیٹھ کر فیصلے کرنے سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس منزلِ مُراد کیلئے جہدِ مسلسل کی گئی تھی- اس منزل ِ مراد کو پالینے پر اللہ تعالیٰ کا کروڑہا شکر ادا کرنا چاہیےاور اس کی سالمیت کیلئے ہمیشہ سرگرداں رہنا چاہیے-
پرچمِ ستارہ و ہلال رہبرِ ترقی و کمال
اس ملک کے پرچم پر جو ستارہ ہے اور ہلال(نیا چاند) اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کا رہبر ہے-
پرچم (جھنڈا)کسی بھی قوم کی عزت و وقار کی علامت ہوتا ہے جبکہ یہ واحدامتیازی نشان ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی بھی ملک کی شناخت کی جاتی ہے- ڈیزائنر امیر الدین قدوائی نے اس پرچم کے ڈیزائن کو قائداعظم محمد علی جناح کے احکامات پر تیار کیا تھا، اس میں تین حصے گہرے سبز رنگ کے ہیں جو کہ مسلم اکثریت کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس کا ایک حصہ سفید رنگ پر مبنی ہے جو ملک میں بسنے والی اقلیتوں کی نشاندہی کرتا ہے- پرچم پر قمری ماہ کا ماہِ نو(نیا چاند) بنایا گیا ہے جسے ہلال کہتے ہیں اور یہ ترقی کی علامت ہے-جبکہ پانچ کونوں والا ستارہ روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے- اس ستارہ سے باکمال روشنائی اور اس ہلال سےترقی کے راستے وضع کئے جاتے ہیں - اس پرچم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کو جو رنگ نصیب ہوئے اور جو کثیر سبز اور قلیل سفید رنگوں کا حصہ ملا وہ گنبدِ خضریٰ کے رنگوں کی طرح ہے جو پاکستان کا مدینہ طیبہ سے محبت کی علامت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے-
ترجمانِ ماضی
یہ پرچم ہمارے ماضی کا ترجمان ہے
اس پرچم پر موجود ہلال کوئی عام علامت نہیں ہے-اس ہلال کو اکثر ہم مسلم ممالک کے جھنڈوں اور مسجد کے میناروں پر بنا دیکھتے ہیں- یہ ایک طرح سے مسلمانوں کی علامت سمجھا جاتا ہے-دراصل ہلال چاند کا وہ فیز(مرحلہ) ہوتا ہے جہاں سے اس نے تکمیل کو پہنچنا ہوتا ہے اور روشن ہوکر اپنی چاندنی کو پھلوں اور زمینوں پر برسانا ہوتا ہے-یہ ہلال ہمارے اسلاف کی جہدِ مسلسل کا ترجمان ہے-قومی ترانہ کے اس فقرے کو پڑھ کر ذہن میں مسلمانوں کا روشن دور یاد آجاتا ہے-سیدنا عمر فاروقؓ سے لے کرخالد بن ولیدؓ تک، ان سے سلطان صلاح الدین ایوبی تک، ان سے سلطان محمود غزنوی اور پھر محمد بن قاسم سے اورنگ زیب عالمگیر کے ادوار کی ترقی اور کمال یاد آجاتے ہیں-
شانِ حال
ہمارے حال کی شان ہے
پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور اسلام ہی کے نام پر اسے بقا ہے- اگر ہم نے اس سے روگردانی کی تو روزِ محشر ہم سے خصوصی سوال کیا جائے گا-یہ پرچم ہمیں اپنی اعلیٰ تاریخی روایات کا درس دیتا ہے اور انہی کی پیروی کرکے ہمارے حال کی شان برقرار ہے- پاکستان کی شان اسی میں ہے کہ ہم اپنی تاریخ یاد رکھیں،علم کی شمع سے اپنے قلوب و اذہان کے اندھیرے سائے مٹائیں اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہو کر اس ملک کو باقیوں کیلئے رہبر بنائیں-
جانِ استقبال
اور ہمارے مستقبل کی جان بھی یہی ہے
حفیظ جالندھری نے جب ترانہ میں یہ فقرہ لکھا تو انہیں اسے ہٹانے یا تبدیل کرنے کے لئے کہا گیا لیکن انہوں نے ایسا بالکل بھی نہیں کیا- ہمارا پرچم ہمارے مستقبل کی جان ہے- اس رہبر نے ترقیاں کرنی ہیں اور اس کی حدوں کا تعین پوری دنیا کے خطے پر ہونا ہے-میرِ عرب کو ٹھنڈی ہوائیں یہاں سے آتی تھیں، اللہ کے ولیوں کی پیش گوئیاں اس ملک کے لئے ہیں-خواہ کوئی اسے قیاس آرائیاں جانے یا قصے کہانیاں لیکن اس ملک نے ماضی میں بھی اسلام کی بقا کے لئے اپنا عَلم بلند کئے رکھا اور مستقبل میں بھی اس کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوگا-
سایۂ خدائے ذوالجلال
اس پرچم پر ہمیشہ خدائے ذوالجلال کا کرم بنا رہے
یہ عالی شان پرچم پر خدائے ذوالجلال کا خاص کرم ہے-کیونکہ اس پرچم کی ریاست اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے نفاذ کے لئے قائم کی گئی اور اسی لئے اس ریاست کو مدینہ ثانی کہہ کر پکارا جاتا ہے-
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنا کرم اس ملک پر بنائے رکھے اور اس دیس کے باسیوں کو یہ توفیق بخشے کہ وہ اس کی آن، بان ، شان پہ کبھی کوئی حرف نہ آنے دیں-آمین!
٭٭٭
[1]https://www.nawaiwaqt.com.pk/14-Aug-2015/407663
[2]https://www.express.pk/story/1781943/464/
[3]https://www.dawnnews.tv/news/1025177
[4]https://jang.com.pk/news/538190
[5]https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2011/08/110813_pakistan_antham_sen
[6]https://www.tni.org/my/node/9014
[7]https://dailyausaf.com/ausaf-special/news-201909-38463.html