یَا آلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللہِ حُبُّکُمْ |
|
فَرضٌ مِّنَ اللہِ فِی الْقُرْآنِ اَنْزَلَہٗ |
’’اے اہل بیت رسول اللہ (ﷺ) آپ کی محبت اللہ کی طرف سے فرض ہے جس کا حکم اس نے قرآن میں نازل فرمایاہے-آپ کی عظمت و شان کے لئے یہی کافی ہے کہ جس نے آپ پر درود نہ پڑھا اس کی نماز نہ ہوئی‘‘-
گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی آستانہ عالیہ شہبازعارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزصاحبؒ دربارِ عالیہ حضرت سخی سلطان باھُوؒ پہ 9 اور 10 محرم الحرام کی درمیانی شب کو نواسۂ رسول (ﷺ)، جگر گوشۂ بتولؓ سید الشہداء حضرت امام حسینؓ اور شہیدانِ کربلاءؓ کے عرس مبارک کا انعقاد( کورونا ایس و پیز کو مدنظر رکھتے ہوئے) ایک عظیم الشان اجتماع کی صورت میں کیا گیا-جس کی صدارت اِصلاحی جماعت کے سرپرست اعلیٰ جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) نے فرمائی جبکہ خصوصی خطاب اصلاحی جماعت کے سیکریٹری جنرل اور ریاست جونا گڑھ کے دیوان صاحبزادہ سلطان احمدعلی صاحب نے فرمایا-خطاب ِ عالی کا مرکزی نکتہ قرآن و حدیث کے مستند حوالہ جات کے ساتھ ’’فلفسۂ شہادت امام حسینؓ ‘‘ رہا جس میں صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ واقعہ کربلا ایک زندہ تاریخ ہے جو ہمارے لئے اپنے اندر بے شمار اسرار و رموز پنہاں رکھتا ہے - اگر ہم پورے واقعہ کربلاکا خلاصہ اور شہیدانِ کربلا کے مقصود کو سمجھانے کے لئے ایک جملے میں بیان کرنا چاہیں تو وہ جملہ یہ ہوگا کہ:’’امام عالی مقام اپنے کنبے سمیت دین کی سربلندی اور اعلائے کلمۃ الحق کیلئے قربان ہوگئے‘‘اور یہ تاریخ کی سب سے بڑی قربانی ہے-یعنی واقعۂ کربلا سے ہمیں دین کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ دین کتنا اہم و عظیم ہے-یہ دینِ حق حضور نبی کریم (ﷺ)سے پوری اُمت تک دو واسطوں کے ذریعے سے پہنچا ہے : صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہارؓ ۔ یعنی حضور نبی کریم (ﷺ) اور امت کے درمیان دین کے حصول کا ذریعہ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہارؓ ہیں-
صاحبزادہ صاحب نے صحابہ کرامؓ کی حقانیت و شانِ عظمت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ فرمانِ رب تعالیٰ ہے:
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ لا رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا اَبَدًا ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ[1] |
|
اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجۂ احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے- |
محدثین و مفسرین حضرت جابرؓ سے ایک صحیح حدیث نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ اخْتَارَ أَصْحَابِيْ عَلَى الْعَالَمِيْنَ سِوَى النَّبِيِّيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَ اخْتَارَ لِيْ مِنْ أَصْحَابِيْ أَرْبَعَةً يَعْنِيْ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيًّا |
|
’’بیشک اﷲ تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں کےعلاوہ ساری دنیا سے میرے اصحاب کو چُن لیا ہےاور میرے اصحاب میں سے میرے لئے چار کو چُنا ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی شیر خداؓ ‘‘- |
اسی طرح حقانیت و شانِ اہل بیت اطہارؓ کے متعلق فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا[2] |
|
بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول(ﷺ)کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے- |
پرورده رسول حضرت عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم (ﷺ) پر یہ آیت کر یمہ نازل ہوئی : ’’ إِنَّمَا يُرِيْدُ اللّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا‘‘تو مَیں اُس وقت حضرت اُم سلمہ کے خانہ اقدس میں تھا ، حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت فاطمہ، امام حسن اور امام حسینؓ کو بلاکر چادر اوڑھا دی پھر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا :
’’اَللَّهُمَّ هٰؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِيْ فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيْرًا‘‘[3] |
|
’’اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے نجاست دور رکھ اور انہیں خوب پاک کر دے‘‘- |
دین اپنی حقانیت کے ساتھ انہی نفوسِ قدسیہ کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے اس لئے ہستیوں میں شک کرنا دین میں شک کرنے کے مترادف ہے - اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں واسطوں کی حقانیت کو قرآن کریم میں الگ الگ بیان فرمایا ہے تاکہ کوئی شک میں نہ رہے -
صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے آخر میں اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ارشادفرمایا کہ آج بدترین فرقہ واریت پھیلائی جارہی ہے، لیکن یادرکھیں! جس پاک قرآن کی تلاوت سیدالشہداء سیدنا امام حسینؓ نے نیزے کی نوک پہ فرمائی وہ پاک قرآن ہمیں محبت مصطفٰے(ﷺ) ،محبتِ آل مصطفےٰ و محبتِ اصحابِ مصطفےٰ اور ادب ازواجِ مصطفٰے (ﷺ) کادرس دیتاہے- اس لئے ہماری کیا مجال کہ ہم ان اولوالعزم ہستیوں کے بارے میں جھگڑیں، بلکہ ہماری تو کامیابی ہی ان ذواتِ مقدسہ کی خاکِ پا کو آنکھوں کا سرمہ بنالینا ہے- کیونکہ آقا کریم (ﷺ) کا فرمانِ ذیشان ہے:
’’اَثْبَتُکُمْ عَلَی الصِّرَاطِ اَشَدُّکُمْ حُبًّا لِاَھْلِ بَیْتِیْ وَ لِاَصْحَابِیْ‘‘[4] |
|
’’ پل صراط پر تم میں سے زیادہ ثابت قدم وہ شخص رہے گا جو میرے اہلِ بیت اور میرے صحابہ سے زیادہ شدت سے محبت کرنے والا ہوگا‘‘- |
شہداءِ کربلا کے ختم شریف کے بعد حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب (دامت برکاتہم العالیہ) نے ملک وقوم کے لیے دعائے خیر فرماتے ہوئے اس حسین و بابرکت پروگرام کااختتام فرمایا -
٭٭٭
[1](التوبہ:100)
[2](الاحزاب:33)
[3](سنن ترمذی، بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ)
[4](جامع الاحادیث/ کنز العمال/ حلیۃ الاولیاء)