عقیدۂ ختمِ نبوت اسلام کا کلیدی عقیدہ رہا ہے اس کا عارضی اور لمحاتی تعطل بھی دین کی روح کو سبوتاژ کردیتاہے- یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے نہ صرف اس عقیدے کو تمام تر ابہامات و اشکالات سے پاک کر دیا ہے بلکہ اس تناظر میں ممکنہ تاویلات اور تحریفات کی جڑیں بھی کاٹ ڈالی ہیں کیونکہ اس کے ساتھ انسانی معاشرے اور معاشرت کی نسبتیں براہِ راست استوار رہی ہیں-ختم نبوت کے عقیدے میں احتمالات کا رہ جانا اس آفاقی معاشرت اور عالمی معاشرے کے خدو خال بگاڑ سکتا تھا جس کی بنیاد رسولِ خدا حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) نے مدینہ منورہ میں خود ڈالی تھی-چنانچہ قرآن کریم کی حفاظت کے وعدہ کے ساتھ لامحالہ اس عقیدے کی بھی حفاظت ہوگئی جسے دینِ اسلام کی استواری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل رہی ہے-
عقیدہ ختمِ نبوت کے ساتھ چونکہ معاشرتی استحکام اور سماجی رویوں کی تطہیر کا عمل براہِ راست وابستہ ہے اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی محافظت کیلئے حسبِ ذیل تکمیلی اور تدریجی انتظامات فرمائے :
- نصوصِ قرآنی کے ذریعے اس کی قطعیت کا اعلان
- حدیث و سنت کے وسیلے سے اس کے استحکام کا بندو بست
- صحابہ کرام ،خلفاء و امراء اور علمائے اُمت کے اعمال متواتر سے اسے تقویت دینا
نصوصِ قرآنی کے تناظر میں
پیغمبر بنا کر بھیجا ہے (یا انسان عرب ہوں یا عجم،موجود ہوں یا آئندہ ہونے والے ہوں سب کیلئے) خوشخبری سنانے والا (ایمان لانے پر اُن کو ہماری رضا و ثواب کی ) اور ڈرانے والا (ایمان نہ لانے پر ان کو ہمارے غضب اور عذاب سے) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (یعنی جہالت یا عناد کی وجہ سے انکار و تکذیب میں لگ جاتے ہیں)-
پروفیسر انعام اللہ قیس اس تناظر میں لکھتے ہیں:
”كَافَّةً لِّلنَّاسِ“فرمایا گیا ہے كَافَّةً کا لفظ عربی محاورہ میں کسی چیز کے سب عام کو شامل ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں کوئی مستثنیٰ نہ ہو-عموم بعثت بیان کا اہتمام واضح کرنے کیلئے لفظ كَافَّةً کو لِّلنَّاس سے مقدم کردیا ہے کیو نکہ رسول اللہ (ﷺ) سے پہلے جتنے انبیاء مبعوث ہوئے ہیں ان کی رسالت و نبوت کسی خاص قوم اور خاص خطہ زمین کیلئے تھی لیکن حضور انور (ﷺ) کی خصوصی فضیلت یہ ہے کہ آپ کی نبوت ساری دنیا کیلئے تا قیامت عام ہے اور صرف انسانوں کیلئے نہیں بلکہ جنات کیلئے بھی ہے کیونکہ آپ(ﷺ) خاتم النبیین ہیں“ -[1]
صاف ظاہر ہے ”كَافَّةً لِّلنَّاسِ “میں ایک جانب آفاق گیر نبوت کی تکمیل کا اعلان ہے تو دوسری جانب اس کےاندر حق وہدایت کے اصولو ں پر تشکیل ہونے والے معاشرے کی نوید بھی موجود ہے جس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سابقہ انبیاء کو صحیفہ یا کتاب دے دی جاتی لیکن حضور اکرم(ﷺ) کی نبوت کی تکمیل معاشرے کے حالات و اقعات کے تناظر میں ہوتی رہی - معاشرے کے بطن سے جنم لینے والے پیچیدہ مسائل کے مطابق وحی کانزول ہوتا رہا ،الجھنیں سلجھتی جاتی اور معاشرت کا نقش ابھرتا رہتا-قرآنی احکامات کے مطابق رسول اللہ (ﷺ) ہمیشہ کیلئے غلط رسومات اور باطل نظریات کا عملی طور پر قلع قمع کرتے رہے اور ارتقاء و ارتفاع سے ہم کنار اور صالح معاشرے اور ہمہ گیر معاشرت کے خال و خط ابھرتے رہے- اس خاص منظر نامے میں ختم نبوت اور معاشرتی نظام کے ارتقاء میں ایک آفاقی اور حیاتیاتی تناسب اور مناسبت موجود نظرآتی ہے- یہ مسلّم ہے کہ الہامی احکامات اور وحی کا نظام محض معاشرے کے اعمال کی مشق کا نتیجہ نہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ایک وسیع تر معاشرے کی تشکیل اور معقول و مقبول معاشرت کے فروغ کے سلسلے انہیں حوالوں کی گونج محسوس ہوتی رہی ہے کیونکہ ختم نبوت کا فطری تقاضا ہی معاشرتی حیات کو امکانی صداقتوں کے ساتھ مکمل کرکے پیش کرنا تھا-قرآن کریم نے قیامت تک پیش آنےوالے حالات کو ممکنہ حل کا قرینہ دے کہ انہیں یقینیات کی سطح پر ابھارا، لیکن حضور اقدس (ﷺ) کو ایک بنا بنایا معاشرہ وراثت میں نہیں ملا تھا-آلودگیوں اور کثافتوں میں محصور جاہلانہ روایات اور اپاہج معاشرت نے پہلے ہی پڑاؤ پر اُن کا گھیراؤ کیا لیکن حُضور (ﷺ) نے بگڑےفرسودہ معاشرے اور آلودہ معاشرت سے کنارہ کشی کا راستہ اختیار نہیں فرمایا بلکہ اسی معاشرہ میں رہ کر احکاماتِ الٰہی کے مطابق مرحلہ در مرحلہ ماحول کو سنوارا اور معاشرت کو اپنے اعمالِ صالحہ اور اخلاقِ کاملہ سے آراستہ کیا، یہ سارا عمل سب کے سامنے تھا- ایک معاشرہ اپنی بے ہنگم تفصیلات اور قبیح اندازِ معاشرت کےساتھ بتدریج غروب ہوتا رہا اور دوسرا معاشرہ صالح انسانی اعمال اور اصلاحی پہلوؤں کے ساتھ الہامات کی گود میں پروان چڑھتا رہا-حضور نبی کریم (ﷺ) کوئی ایسا نظام ساتھ نہیں لائے تھے جو عقل یا فطرت سے متضاد و متصادم ہو بلکہ عقل کو سلیم بنانے، فطرت کے کامل تقاضوں کو وحی الٰہی کے مطابق بنانے کا عملی بندوبست فرماتے رہے- اس لئے حضرت عائشہ صدیقہؓ نے انہیں عملی قرآن قرار دیا-حضور (ﷺ) نےیہ کَہ کر اپنی معاشرتی ذمہ داری کو اور بھی واضح فرمایا:
’’بعثت لأتمم مكارم الأخلاق‘‘
’’مجھے تمام اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے‘‘-
چونکہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ایک عالمگیر معاشرت کی بنیاد ڈالنی تھی جسے قیامت تک برقرار رہنا تھا اسی لیے اس کے ساتھ ختمِ نبوت کی شرط کو بھی لازمی قرار دے دیاگیا تاکہ کوئی فتنہ پرداز آکر یہ نہ کہے کہ فطرت کی توسیع کا عمل نئے نظام اور طرزِ معاشرت کا تقاضا کر رہا ہے-اس لئے ایک جانب دینِ اسلام (جومکمل ضابطہ حیات ومعاشرت ہے) کے اتمام و اکمال کا اعلان کیا گیا تواس کے ساتھ نبوت کی تکمیل اور اختتام کے احکامات بھی نازل فرمائے گئے-فرمایا گیاہے:
’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَط وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا‘‘[2]
’’محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں،لیکن اللہ تعالیٰ کا رسول ہے اور سب نبیوں پر مہر ہے اور اللہ سب چیزوں کا جاننے ولا ہے‘‘-
ختمِ نبوت کا ثمرہ یہ بھی ہے کہ قیامت تک کے لئے انسانی رشتوں کا تعین کردیا گیا اور ہررشتے کی تفصیلات کوبیان کیا گیا-ادعائی رشتوں کی قلعی کھول کر رکھ دی گئی اور ہررشتے کا میراث میں حق مقرر کردیا گیا،نکاح و طلاق کے مسائل اور حدودات کی نشاندہی کی گئی-اس طرح والدین اور اولاد اور بیوی و خاوند کے حقوق و فرائض کے سلسلے میں احکامات نازل کر دئیے گئے-طرزِ معاشرت کے بدلتے ادوار، ان حوالوں کے اندر حسبِ رعایت پھیلاؤ اور اختصار ضروری لاسکتے ہیں لیکن معلوم دائرے کو توڑ کر نہیں-ہر تقدیر پر اسلام کے وضع کردہ معاشرت کےدائرے میں قیامِ قیامت تک امکانی ذائقے اور تمدنی نفاست سمودی گئی-بقول شاعر:
داستانِ عشق جب پھیلی تو لا محدود تھی |
جس طرح ختم نبوت کا عقیدہ تکمیل دین پر فطر ی اور منطقی دلالت کرتا ہے اس طرح رسول اللہ(ﷺ)کی 23 سالہ حیات آفاقی معاشرت کا تعارف وتفصیل ہے-دشمنوں کےساتھ برتاؤ،دوستوں کے ساتھ سلوک،بچوں کے ساتھ شفقت،غیرمسلموں سے حسنِ سلوک حتیٰ کہ حیوانات چرند پرند اور اشجار کے حوالے سے مشفقانہ تدبّر معاشرت کے خال وخط ابھارتا رہا-اسی لئےفرمایا گیاہے:
’’لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ‘‘[3]
’’بےشک آپ کیلیے رسول اللہ (ﷺ)کی زندگی میں اخلاق کے بہترین نمونے موجود ہیں‘‘-
ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے:
’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ ‘‘[4]
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں) ‘‘-
حدیث وسنت کے تناظر میں
قرآن کریم نے اتباعِ رسول(ﷺ) کو لازم قرار دیا ہے- اس طرح اطاعت رسول(ﷺ) کا حکم بھی دیا گیا ہے اور یہ کَہ کر تو معاملہ صاف کردیا ہے کہ ’’وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى‘‘ کہ وہ اپنی خواہشات سے کچھ نہیں کہتے-چنانچہ قرآن حجیتِ حدیث کا پہلا بنیادی حوالہ ٹھہرتا ہے- چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مرفوعاً یہ حدیث منقول ہے جسے ابن کثیر نے حاشیہ فتح البیان میں نقل کیاہے:
’’أنا أول الأنبياء في الخلق وآخرهم في البعث‘‘
’’میں پیدائش میں تمام انبیاء ؑ سے پہلے تھا اور بعثت میں سب سے آخر ہوں‘‘-
ختم نبوت کے موضوع پر رسول اللہ (ﷺ) کی 350 سے زیادہ احادیث ہیں جن کا ذکر کئی علمائے کرام نے اپنی کُتب میں تفصیلاً کیا ہے لیکن اس مضمون کی تنگ دامانی ان تمام کی راہ میں مانع ہے-اس لئےہر تقدیر عقیدۂ ختم نبوت کو ہر طرح نمایاں کرکے آقا کریم (ﷺ)نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’بعثت لأتمم مكارم الأخلاق‘‘
’’مجھے تمام اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہے‘‘-
اخلاق کی تکمیل دراصل معاشرت کی تکمیل کا بھی بنیادی حوالہ ہے-اخلاق کے نظام کو عملی طور پر برتنے کے بعد معاشرت کی نشو ونمااور تکمیل کی ابتداء ہوتی ہے-
ہمسائیوں کے حقوق،بیمار پرسی، قبائلِ عرب کے مابین حضورنبی کریم (ﷺ) کے مدبّرانہ فیصلے، تجارت کے اصول، معاہدوں کی پاسداری،جنگی حکمتِ عملی،ہمہ گیر ترحم،خواتین و غلاموں کے حقوق کا خصوصی خیال، یتیموں، بیواؤں، مسافروں اور سائلین کے ساتھ برتاؤ-بیرونی سفارت کاروں کے ساتھ رویہ،غیر مسلموں کی توقیر اور امورِ مملکت چلانے کے آداب سب کے سب عملی طور پر آقا کریم (ﷺ)نے معاشرے کو سکھلائے اور ثابت کیا کہ معاشرہ خود رو پودوں کی طرح جنم نہیں لیتابلکہ اس کی معاشرتی حیثیت کو دوام بخشنے کے لئے ابدی الہامات کی مشق لازمی ہوتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے جومعاشرت اور معاشرہ تیار کیا آج کا متمدن عہد بھی اس کی نظیر پیش کرنے سے معذور ہے-معاشرے اور معاشرت کی تکمیل کا عمل بھی درحقیقت ختم نبوت کے لازوال عقیدے کے ثمرات میں سے ہے-نبوت کا ختم ہونا ہدایت کا معطل ہونا یا اختتام نہیں بلکہ تکمیل اور اتمام ہےجس کے بعد دوسرے نبی کی ضرورت کسی بھی طور باقی نہیں رہتی-چونکہ کمالِ نبوت دوامِ نبوت ہے جو اپنی موجودگی میں دوسرے ایسے امکان کو باطل قرار دیتا ہے-
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:
’’وقد أخبر اللّٰہ تبارک وتعالیٰ في کتابہ ورسولہ (ﷺ) في السنۃ المتواترۃ أنہ لا نبي بعدہ، لیعلموا أن کل من ادعی ہٰذا المقام بعدہ، فہو کذاب وأفاک دجال ضال مضل‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اس کے رسول (ﷺ) نے احادیثِ متواترہ میں ختمِ نبوت کا اعلان اس لئے فرمایا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ جو شخص اس منصب کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا افترا پرداز،دجال اور پرلے درجے کا گمراہ ہوگا‘‘-
صحابہ،خلفاء اورصلحاء کے اعمال کے تناظر میں
رسول اللہ(ﷺ) نے جس معاشرے کی بنیاد رکھی اور جس تمدّن کی بنیاد ڈالی وہ جامد معاشرہ اورغیر متحرک معاشرت نہیں تھی-صحابہ کرامؓ کی جمعیت نے اپنی پوری زندگی کو اس کے مطابق ڈھالا اور ہر جہت سے اسے تکمیل کا اوّل و آخر معیار قرار دیا- حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت سےلے کر عہد خلفائے راشدین کے آخری ادوار تک اس عقیدے کے زیرِ اثر معاشرت کو فروغ ملتا رہا-صحابہ کرامؓ کے بعد خلفاء و امراء نے انہیں خطوط پر معاشرہ کو چلانے کی کوششیں کیں اور علماء و صلحا و اولیاء نے اسی نہج پر اپنی اپنی زندگی ڈالی -یہ سلسلہ غیر معطل اور متواتر رہا-تاریخی صداقتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ نبی کے اصولِ معاشرت کو اپنانے سے طرزِ معاشرت کی کجی دور ہوتی گئی-اقبالؒ نے کہاتھا:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید |
کائنات نا تمام ہے اور نبوت مکمل ،چنانچہ نبوت کا کمالی پہلو اسی ناتمامی کو ہر دورمیں دفع کرتا رہے گا-گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ختم نبوت کا عقیدہ ہدایت کی تکمیل ہے اور دین کا اتمام معاشرت کی تکمیل اور یہ حقیقت ہے کہ ہدایت یافتہ معاشرت ہی انسان کی نجات دہندہ ہے -
٭٭٭
[1](پروفیسر محمد انعام اللہ قیس، ختم نبوت اور اُمت پہ شفقت، ص:34، اعراف پرنٹرز اینڈ پبلشرز محلہ جنگی پشاور،جون 2021ء)
[2](الاحزاب: 40)
[3](الاحزاب:21)
[4](القلم:4)