عقیدہ ختم نبوت ہر مومن کے ایمان کا جزو لازم ہے-مسلمانوں کے لہو میں دوڑتے اس پاکیزہ عقیدے کے حوالے سے امت مسلمہ کا ہر فرد عقلی و جذباتی ہر دو سطح پر تیقن کے اس پختہ مرحلے میں ہے کہ بظاہر اسے کسی دلیل و برہان کی ضرورت نہیں-تاہم عقیدہ ختم نبوت کے منکرین کے لیے ہمارے علما٫ و صلحا٫ نے دلائل و براہین کا ایک قابل رشک ذخیرہ فراہم کر رکھا ہے-
دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی نعتیہ شاعری کا ایک قابل رشک ذخیرہ موجود ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے-اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اردو میں یہ ذخیرہ اپنے معیار اور رفتار کے اعتبار سے دیگر زبانوں کی نسبت زیادہ وقیع ہے- اردو نعت کے موضوعات میں آقا کریم (ﷺ) کے شمائل، خصائل اور فضائل کے ساتھ ساتھ سیرت پاک کے متعدد پاکیزہ پہلو شعری صورتوں میں سامنے آتے ہیں-اس کے علاوہ اردو نعت میں روحِ عصر کی ترجمانی بھی ملتی ہے-روح عصر کی یہ ترجمانی عمومی طور پر دو سطح کی ہے-ایک یہ کہ نعت کے پیرائے میں عصری مسائل اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا تذکار ملتا ہے اور دوسرے یہ کہ بعض اوقات شاعر اُمت کی موجودہ زبوں حالی کو حضور نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں استغاثے کی صورت میں پیش کرتا ہے-مذکورہ تمام پہلووں سے جائزہ لیا جائے تو اردو نعت میں عمدہ شعری نمونے موجود ہیں-
اردو کے نعتیہ شعری سرمائے میں موضوعاتی تنوع کے اس جلو میں مختلف عقائد کا رنگ بھی نمایاں ہے- عقائد کے ان رنگوں میں ایک اہم رنگ عقیدۂ ختم نبوت کا رنگ ہے-عوامی سطح پر بھی عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت چونکہ ملت اسلامیہ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لہٰذا اسی عوامی رو، ملی رجحان اور خود شاعروں کی اپنی ایمانی و جذباتی وابستگی کے تحت اردو نعت گو شعرا٫ نے اس بنیادی عقیدے کو اپنی نعت کے نمایاں موضوع کے طور پر برتا ہے-
اردو شاعری میں ختمِ نبوت کا عقیدہ بطور مضمون کے اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ اردو شاعری کی اپنی تاریخ پرانی ہے - اردو کے ہر عہد اور ہر دور میں شعرا ء ختمِ نبوت کے مضمون پہ لکھتے رہے ہیں - زیرِ نظر مقالہ کی ابتدا کرونو لوجیکل آرڈر میں کرتے ہیں اور صرف بطور نمونہ چند ایک شعرا کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں - پھر گفتگو کو سمیٹتے ہوئے معاصر شعراء کا نمونہ ہائے کلام بھی شامل کریں گے -
مُلا غواصی دکنی(متوفی: 1650ء) :
تو اوّل تو آخر تو ہی ہے امیر |
ملا نصرتی (متوفی: 1674) :
رہے نامور سید المرسلیں |
عبد الغفور نسّاخ عظیم آبادی (متوفی: 1674) :
اب رقم کرتا ہوں نعتِ مصطفےٰ |
نوازش علی شیدا (متوفی: 1772ء) :
ہے وہ انبیا میں الف کے مثال |
نظیر اکبر آبادی(متوفی1830):
ہے تمہاری پشت پر مُہرِ نبوت کا نشاں |
آفتاب الدولہ قلق لکھنوی (متوفی 1864 ء) :
ہوا روشن ہمیں شانِ نزولِ ذاتِ اقدس سے |
میر محبوب علی لائق:
صاحبِ معراج اور ختم الرسل |
حضرت امیر مینائی(متوفی 1900ء) :
ظہور آخر ہے اوّل انبیا سے نور احمد کا |
کرونولوجیکل آرڈر (بہ ترتیبِ ماہ و سال) میں اردو کے نمونہ ہائے کلام یہ واضح کرتے ہیں کہ اس خطۂ پاک و ہند کے مسلمان روزِ اول سے ہی ختمِ نبوت کے محافظ تھے - ترتیبِ ماہ و سال کے علاوہ اب کچھ شعرائے اردو کے نمونہ ہائے اشعار ملاحظہ ہوں -
جوش ملیح آبادی:
نُورِ حق فاران کی چوٹی پہ لہرانے لگا |
نیاز فتح پوری :
نبی تھے اور اگر تارے تو یہ بدرِ درخشاں تھا |
تاج الدین تاج عرفانی:
آپ کو حق نے رسولوں میں کیا ختمِ رُسُل |
امجد حیدر آبادی:
نبی بن کے، پیغامِ حق لے کر آیا |
م - حسن لطیفی:
السلام اے صاحبِ لولاک، ختم المرسلیں |
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اگرچہ نعت کو باقاعدہ صنف شعر کے طور پر نہیں برتا لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات والا صفات سے ان کے والہانہ عشق کے ثمرات کے طور پر ان کی نظموں غزلوں میں جابہ جانعتیہ اشعار ملتے ہیں- ان کی مشہور نظم ’’ذوق و شوق‘‘ میں موجود ’’لوح بھی تو ،قلم بھی تو،تیرا وجود الکتاب‘‘والا بندنعتیہ شاعری کا لاجواب نمونہ ہے-اسی طرح ’’بال جبریل‘‘ کے حصہ دوم کے آغاز میں حکیم سنائی کی یاد میں لکھی گئی تین غزلوں میں شامل یہ دو اشعار بھی زبان زد خاص و عام ہیں جن میں آقا کریم (ﷺ) کو ختم الرسل کے لقب سے یاد کیا گیا ہے:
وہ دانائے سبل،ختم الرسل، مولائے کل جس نے |
حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی تمام عمر عشق رسول میں ڈوب کر مدحت کے ترانے لکھتے رہے- ان کا تحریر کردہ سلام ’’مصطفٰی جان رحمت پہ لاکھو ں سلام‘‘ اس قدر مقبول ہوا کہ اب بھی میلاد کی ہر محفل میں ذوق وشوق سے پڑھا جاتا ہے-
فتح ِ باب ِ نبوت پہ بے حد درود |
مطلعِ ہر سعادت پہ اسعد درود |
مزیدیہ کہ آپ علیہ الرحمہ نے مدحتِ رسولِ ہاشمی (ﷺ) میں بھی پُر زور انداز میں عقیدہ ختم نبوت کو واضح فرمایا- اعلیٰحضرت بریلویؒ نے ختمِ نبوت کے مضمون کو نہایت باریکی سے دیکھا ہے اور فصاحت و بلاغت کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے نہایت حسین اور دلکش پیرائے میں ایک نعت کہی:
سب سے اوّل سب سے آخر |
یہاں ان کی ایک رباعی نقل کی جاتی ہے جس میں انہوں نے دین اسلام اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت کی اکملیت اور خاتمیت کا تذکرہ کیا ہے:
آتے رہے انبیا٫ کما قیل لھم |
حفیظ جالندھری نے’’شاہنامہ اسلام‘‘ کے نام سے تاریخ اسلام کو منظوم صورت میں چار جلدوں میں پیش کیا- اس طویل نظم کی نوعیت تاریخی ہے لیکن موضوع کے عین فطری تقاضے کے مطابق نعت کے مروجہ مضامین بھی جا بہ جا نظم ہوئے ہیں- یہ مضامین و موضوعات عقیدت کے مختلف رنگوں سے مزین ہیں-انہی رنگوں میں کہیں کہیں عقیدہ ختم نبوت کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے-
مبارک ہو کہ ختم المرسلیں تشریف لے آئے |
ماہرالقادری اردو نعت کی شعری روایت کا ایک اہم نام ہے- انہوں نے نہ صرف خود نعت لکھی بلکہ اپنے ادبی رسالے ’’فاران‘‘ کے توسط سے اردو ادب کی ترویج کے ساتھ ساتھ نعتیہ ادب کے فروغ کے سلسلے میں بھی قابل ذکر خدمات سر انجام دیں-ان کی نعت میں دیگر موضوعات کے باوصف ختم نبوت کا مضمون بھی نہایت خوبی سے ادا ہوا ہے:
مبارک ہو نبی آخری تشریف لے آئے |
مولانا ظفر علی خان روزنامہ زمیندار کے مدیر تھے اور تحریکِ پاکستان میں بھی سر گرم کردار ادا کیا - اپنی شاعری میں ختمِ نبوت کے مضمون کو یوں بیان کرتے ہیں :
ہوئی ختم اُس کی حُجّت اس زمیں پہ بسنے والوں پر |
ہو گئی اس پر ختم رسالت دیتے گئے ہیں جس کی شہادت موسیٰ، عمراں، عیسیٰ، مریم ؑ
تحریک تحفظ ختمِ نبوت کے دوران اہلِ ایمان کا لہو گرمانے کا ایک پر اثر ذریعہ شاعری بھی رہی ،لہٰذا اردو شاعری کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایسے مواقع پر ’’ہم ختم نبوت پر جان اپنی لٹائیں گے‘‘ جیسے عوامی ترانے زبان زد خاص و عام رہے ہیں- یوں تحفظ ختم نبوت کی اس تحریک میں اردو شعرا٫ نے بھی مقدور بھر حصہ ڈالا- شورش کاشمیری نے اس سلسلے میں متعدد نظمیں کہی ہیں جو ان کے کلیات میں شامل ہیں-اپنی ایک نظم ’’مدینہ کی عظمت‘‘ میں عقیدہ ختم نبوت سے وہ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اسی رعایت انسب سے نیک نام ہوں میں |
سید امین گیلانی حضور نبی کریم (ﷺ) کے آخری نبی ہونے اور قرآن کے آخری کلام الٰہی ہونے پر کہتے ہیں:
خدا نے کر دیا منسوخ سب پہلے صحیفوں کو |
حفیظ تائب کا شمار اردو اور پنجابی کے ان شعرا٫ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تمام تر شعری صلاحیتیں محض مدحت رسول کیلیے وقف کر دیں- ان کے متعدد نعتیہ مجموعے منظر عام پر آئے اور اہل ذوق کی داد و تحسین کے مستحق ٹھہرے- ان کی نعت میں عشق رسول کے والہانہ اظہار کے ساتھ ساتھ روح عصر کی ترجمانی بھی ملتی ہے-حفیظ تائب کے ذیل کے نعتیہ اشعار میں حضور پاک (ﷺ) کے ختم الرسل ہونے کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:
ہوئی تکمیل جن کی ذات پر ہر خیر و برکت کی |
ابوالامتیاز ع س مسلم بھی ایسے شعرا میں سے ہیں جن کے کلام کا اکثر حصہ حمد و نعت پر مشتمل ہے-’’زبور نعت‘‘ میں جا بہ جا ختم نبوت کے موضوع پر اشعار موجود ہیں- ان میں سے چند شعری نمونے یہاں پیش کیے جاتے ہیں جن میں نہ صرف ختم نبوت کے عقیدے کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کے وجہ تخلیق کائنات اور اول الموجودات ہونے کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے-
اول و آخر بھی تو ہے، ظاہر و باطن بھی تو |
ڈاکٹر ریاض مجید کا شمار اردو کی دنیائے نعت سے وابستہ ایسی چند شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے بیک وقت تخلیقی، تحقیقی و تنقیدی اور اشاعتی حوالے سے نعت جیسی پاکیزہ صنف شاعری کی خدمت کی- ان کا ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ بھی اردو نعت کی روایت سے متعلق ہے-اس کے علاوہ انہوں نے نعت کی تعبیر وتفہیم کے سلسلے میں درجنوں تحقیقی و تنقیدی مضامین سپرد قلم کیےجو مختلف علمی و ادبی جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں- ان کے ہاں عقیدہ ختم نبوت مختلف صورتوں میں اظہار پذیر ہوا ہے:
ماقبل وقت بھی وہی، مابعد وقت بھِی |
نیاز سواتی کا معروف حوالہ طنزیہ و مزاحیہ شاعری ہے -تاہم بعد از وفات ان کا نعتیہ کلام بھی ’’مدحت پیغمبر‘‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے- ان کے نعتیہ کلام پر موضوعاتی اعتبار سے ’’مسدس حالی‘‘ کے بہت واضح اثرات دیکھے جا سکتے ہیں- ’’مسدس حالی‘‘ کی واقعاتی و موضوعاتی ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے نیاز سواتی کی بعض طویل نعتیہ نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو ان پر ’’ مختصر مسدس حالی‘‘ کا گمان ہوتا ہے- ان کے ہاں نعت کے دیگر عمومی موضوعات کے ساتھ ساتھ عقیدہ ختم نبوت کا موضوع تسلسل اور کثرت سے بیان ہوا ہے-یہاں چند شعری نمونے پیش کیے جا رہے ہیں:
محمدؐ ہیں سب انبیا٫ کے امام تاج ختم نبوت ملا آپ کو، |
ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان کا شمار بھی ایسے لکھنے والوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نعتیہ ادب میں بیک وقت تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی سطح پر کام کیا- عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے ان کی نعت سے چند شعری امثال:
کہہ رہی ہے امرھم شوریٰ کی نص |
محبوب الٰہی عطا نے رباعی جیسی مشکل صنف سخن کو مسلسل اپنے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا-ان کی رباعی کے غالب موضوعات تصوف اور عشق حقیقی کے مختلف زاویوں کا احاطہ کرتے ہیں-تاہم انہوں نے حمد و نعت کو بھی اپنی رباعیات کا مستقل موضوع بنایا ہے- یہاں ان کی نعت سے چند ایسے شعری نمونے پیش کیے جاتے ہیں جن میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت کوہر زمانے کیلیے باعث رحمت قرار دیا گیا ہے:
آپ کی موجودگی سے ہر زماں ہے برقرار |
راقم کو اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ مضمون کی طوالت کے خوف سے اور بہت سے شعرا٫ تک نارسائی کے احساس کے باعث زیر بحث موضوع کا کما حقہ احاطہ ممکن نہیں-تاہم یہ اطمینان بہرصورت ہے کہ کسی نہ کسی حد تک متعلق موضوع پر روشنی ڈالنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے-اب اس بحث کے آخری مرحلے میں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ چند متفرق نعت گو شعرا٫ کے ہاں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے کچھ اشعار تبرک کے طور پر پیش کر دیے جائیں-
آپ نے جو کہا، اس میں کچھ شک نہیں اے رسول امیں |
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت ایسا موضوع ہے جو اردو کی نعتیہ روایت کے ہر دور میں تسلسل کے ساتھ برتا گیا ہے-اس کی دو وجوہ بہت واضح ہیں-ایک تو یہ کہ یہ عقیدہ ہر نعت گو شاعر کے ایمان کا جزو لازم ہے اور اس کو اپنے شعری اظہار کا حصہ بنانا اس کے ایمان کی تازگی کا سبب بنتا ہے-دوسرے یہ کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں منکرین ختم نبوت اہل ایمان کیلئے آزمائش کا باعث بھی بنتے رہے ہیں-ایسے ہر دور میں اہل علم و دانش اور مجموعی طور پر پوری امت مسلمہ اس فتنے کے سد باب کے لیے بھرپور مزاحمت کرتی رہی ہے-ظاہر ہے اردو شعرا اور بالخصوص نعت گو شعرا٫ بھی اس مزاحمتی تحریک سے الگ تھلگ کیسے رہ سکتے تھے سو انہوں نے بھی اپنی شاعری میں ختم نبوت کے مختلف موضوعاتی زاویوں کو ابھارا اور یوں اپنی ایمانی قوت کا بھر پور اظہار کیا-
٭٭٭
[1](کلیات اقبال[اردو]،فضلی سنز، کراچی،2003 ٫، ص:447)
[2]( احمد رضا خاں بریلوی،حدائق بخشش، اکبر بک سیلرز لاہور، 2004ء، ص:144)
[3](حفیظ جالندھری،شاہنامہ اسلام، حصہ اول، الحمد پبلی کیشنز، لاہو، 2006ء، ص:90)
[4](ماہر القادری، ذکر جمیل، بزم فاران، لاہور، 1989ء، ص:68)
[5](کلیات شورش کاشمیری، طبع دوم، مطبوعات چٹان، لاہور، 2003ء، ص:1710)
[6](سید امین گیلانی، میں ہوں غلام ان کا، ادارہ السادات، شیخوپورہ، 1997ء،ص:32)
[7](کلیات حفیظ تائب، القمر انٹرپرائزز، لاہور، 2005ء، ص:153)
[8]( ع س مسلم،زبور نعت ص:109)
[9]( ایضاً،ص:160)
[10](ایضاً، ص:201)
[11]( ریاض مجید،اللھم صل علیٰ محمد،کلیات نعت، نعت اکیڈمی، فیصل آباد،2020ء، ص:83)
[12](نیاز سواتی، مدحت پیغمبر، مثال پبلشرز، فیصل آباد، 2014ء، ص:93)
[13](ایضاً،ص:145)
[14](ایضاً، ص:180)
[15](ارشاد شاکر اعوان،نعت دریچہ، مثال پبلشرز، فیصل آباد،2014ء، ص:94)
[16]( ایضاً، ص:98)
[17]( ایضاً، ص:115)
[18](محبوب الٰہی عطا،لی مع اللہ، مثال پبلشرز، فیصل آباد، 2013ء، ص:104)
[19]( ایضاً،ص:176)
[20](اکرم ناصر، نعت مشمولہ ماہنامہ بیاض، لاہور، نومبر 2020ء، ص:18)
[21]( عماد احمد،نظم ’’شافع محشر‘‘ مشمولہ قلب و آگہی،س ن، ص:42)
[22](سید آل اظہر، اشک سحر گاہی، فانوس پبلی کیشنز، راولپنڈی،2006ء، ص:19)
[23]( رفیق احمد نقش، نعت مشمولہ مدحت نامہ مرتبہ صبیح رحمانی، نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،2017ء ص:89)
[24](طاہر قیوم طاہر، اظہار الفت، کتابستان بک گیلری، لاہور،2014ء، ص:5)