علامہ اقبال کی ضربِ کلیم اور تحفظ ختمِ نبوت

علامہ اقبال کی ضربِ کلیم اور تحفظ ختمِ نبوت

علامہ اقبال کی ضربِ کلیم اور تحفظ ختمِ نبوت

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی اکتوبر 2021

حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اپنی کتاب ’’ضربِ کلیم‘‘ کی مختلف نظموں میں جا بجا فتنہ قادیانیت پہ کڑی تنقید کی ہے - ان سب نظموں کو اور ان کے تفصیلی پسِ منظر کو تو شاید اس مختصر مضمون میں بیان نہ کیا جا سکے، لیکن، ان میں سے چیدہ چیدہ کا سرسری مطالعہ کریں گے -ان مختلف نظموں کے بیان سے قبل تاریخی طور پہ بتانا چاہوں گا کہ علامہ اقبالؒ  پاک و ہند کے فلاسفہ، سیاستدانوں اور اہل علم و دانش میں وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ قادیانی جماعت کو سرکاری سطح پر غیرمسلم کمیونٹی (کافر) گرداننا چاہیے-جیسا کہ حکیم الامت فرماتے ہیں:

The best course for the rulers of India is in my opinion to declare the Qadianies a separate community. This will be perfectly consistent with the policy of the Qadianies themselves and the Indian Muslims will tolerate them just as they tolerate the other religions.

’’میری رائے میں ہند کے حکمران (برطانوی راج) کیلئے بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ وہ قادیانیت کو (مسلمانوں سے الگ) ایک علیحدہ مذہبی کمیونٹی (غیر مسلم یعنی کافر) ڈکلیئر کریں-یہ قادیانیوں کی اپنی حکمتِ عملی سے بھی مطابقت رکھے گا اور پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان بھی انہیں اسی طرح برداشت کر لیں گے جیسے وہ دوسرے مذاہب (ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور دوسرے غیر مسلموں )کو برداشت کر لیتے ہیں‘‘-

قادیانیت پر اقبال کی رائے:

اقبال کے نقطۂ نظر میں قادیانیوں کو علی الاعلان غیر مسلم قرار دیئے جانے سے ہندوستان میں موجود فسادات ختم ہو جائیں گے-مزید علامہ اقبالؒ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’میرے نزدیک بہائی کمیونٹی (قادیانیوں سے) زیادہ دیانتدار ہے کیونکہ اس نے خود کو بروقت غیر مسلم واضح کر دیا تھا-یہی وجہ ہے کہ وہ ایران اور دنیا کے کئی حصوں میں قیام پذیر ہیں اور مسلمان بھی ان کو برداشت کررہے ہیں‘‘-چونکہ ’’peaceful co-existence‘‘ کی مسلمانوں کی 1400 برس پہ محیط تاریخ ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ بہت اچھا رویہ اختیارکرتے ہیں-اس لئے کوئی بھی غیر مسلم کمیونٹی(ہندو، پارسی، عیسائی، لامذہبی) ہمارے اردگرد یا پڑوس میں آباد ہو،وہ امن سے قیام پذیر ہے-اس لئے حکیم الامت علامہ اقبال کا یہ مطالبہ تھا کہ قادیانی چونکہ غیر مسلم ہیں اور اگر یہ کم از کم سرکاری سطح پہ خود کو غیر مسلم واضح کر دیتے ہیں تو پاک و ہند میں برپافساد ختم ہوجائے گا-

ختمِ نبوت پر اقبال کی رائے:

First, that Islam is essentially a religious community with perféëtly defined boundaries belief in the Unity of God, belief in all the Prophets and belief in the finality of Muhammad’s Prophethood. The last mentioned belief is really the factor which accurately draws the line of demarcation between Muslims and non-Muslims and enables one to decide whether a certain individual or group is a part of community or not. 

’’اول،اسلام نا گزیرطور پر ایک مذہبی کمیونٹی ہے جس کی حدود متعین ہیں-توحیدِ الٰہی پر ایمان،تمام انبیا کرام پر ایمان اور محمد (ﷺ) کی ختم نبوت پر ایمان-ایمان کا آخر الذکر حصہ (یعنی آقا پاک (ﷺ) کا خاتم النبیّین ہونا) در اصل وہ عنصر ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان حد فاصل کا تعین کرتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کی استعداد بخشتا ہے کہ کوئی شخص یا گروہ اسلام کا حصہ ہےیا نہیں‘‘-

مطالعہ ضربِ کلیم:

ضربِ کلیم میں سے سات نظموں کا زیرِ نظر مضمون میں مطالعہ کیلئے انتخاب کیا گیا ہے، اُن میں سے قادیانیت اور خود مرزا قادیانی ملعون کے متعلق اقبال کی فکر کے مختلف گوشے عیاں ہوتے ہیں- مثلاً : قادیانیوں کا مرزا ملعون کے جھوٹے الہامات کو تشریعی ماننے پہ زور اور انکار کرنے والوں جملہ اسلامیانِ عالَم کو کافر کہنا - مرزا کے ترکِ جہاد کے تصور پہ تنقید اور ترکِ جہاد کا فتویٰ دینے کی وجہ مرزا کا ’’شیخِ کلیسا نواز‘‘ ہونا- قادیانیت کا ایک بد ترین فتنہ ہونا - قادیانی الہامات کا الحاد و بے دینی سے بھی بد تر ہونا - قادیانی جھوٹے الہامات کا فتنۂ چنگیز کی طرح قوم کیلئے انتہائی بھیانک و تباہ کن ہونا- قادیانیت برگِ حشیش ہے-

  1. 1.      ہندی مسلمان

علامہ اقبال اپنی اِس نظم میں ایک ہندوستانی مسلمان کا نوحہ لکھتے ہیں کہ ہندی مسلمان سے کن کن لوگوں کے کیا کیا اختلافات ہیں-مثلاً برہمن ہندی مسلمان کو غدار کہتا ہے، انگریز ہندی مسلمان کو گداگر کہتا ہے اور اب پنجاب سےایک نئی شریعت (قادنیت)اٹھی ہے جو اپنے گروہ کے علاوہ پاک و ہند میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو کافر کہتی ہے-بزبانِ حکیم الامت:

غدّارِ وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن
انگریز سمجھتا ہے مسلماں کو گداگر
پنجاب کے اربابِ نبوّت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومنِ پارینہ ہے کافر

یہ بات شاید عام لوگوں کو بھی کم معلوم ہے کہ قادیانی اپنے فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ باقی تمام مسالک و فرقوں کے مسلمانوں کو علی الاعلان کافر کہتے، سمجھتے اور لکھتے ہیں- مثال کے طور پہ تین مختصر اقتباسات ملاحظہ ہوں :

  1. جو شخص مرزا قادیانی کو نہیں مانتا، وہ مسلمان نہیں، بلکہ کافر ہے، خواہ اس نے مرزا قادیانی کا نام بھی نہ سنا ہو‘‘-[1]
  2. مسلمانوں کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا، یہاں تک کہ اگر کسی مسلمان کا معصوم بچہ مر گیا، اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا‘‘- [2]
  3. مرزا قادیانی اپنی کتاب تذکرہ (مجموعہ الہامات،کشوف و رؤیا ، ص : 280) پہ لکھتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا: ’’جو شخص تیر ی پیروی نہیں کرے گا اورتیری بیعت میں داخل نہیں ہوگااورتیرامخالف رہےگا وہ خداوررسول کی نافرمانی کرنے والاجہنمی ہے ‘‘-

نظم ’’ہندی مسلمان‘‘ میں پنجاب کے اربابِ نبوت والا شعر اس قادیانی عقیدہ کی طرف اشارہ ہے - اگر اس شعر کی ترکیب ’’اربابِ نبوت کی شریعت‘‘ پہ غور کیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کے نزدیک قادیانی ملعون نے حتماً، دعوائے نبوت کیا ہے اور اپنی الگ شریعت اختراع کی ہے اور اپنے فاسد و جھوٹے الہامات کی تشریعی حیثیت پہ زور دیتا ہے تبھی ان کا انکار کرنے والوں کو کافر اور جہنمی کہتا ہے -

  1. 2.      جہاد

چونکہ مرزا قادیانی نے جہاد کے حرام ہونے پر فتوٰی دیا تھا کہ فی زمانہ جہاد حرام ہو چکا ہے تو اس کے جواب میں علامہ اقبال نے ’’ضربِ کلیم‘‘ میں ایک نظم لکھی جس کاعنوان ہی ’’جہاد‘‘ ہے-پہلے شعر میں ’’شیخ‘‘ کا لفظ طنزاً مرزا ملعون کیلئے استعمال کیا گیا ہے-نظم جب اپنے اختتام کی طرف بڑھتی ہے تو یہ طنز مزید واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال واشگاف الفاظ میں مرزا ملعون کو’شیخِ کلیسا نواز‘ لکھتے ہیں یعنی انگریز کا زر خرید غلام- اقبال فرماتے ہیں:

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سُود و بے اثر
تیغ و تُفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذّت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لَرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اُسے کہ مسلماں کی موت مر
تعلیم اُس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دُنیا کو جس کے پنجۂ خُونیں سے ہو خطر
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زِرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پُوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!

علامہ اقبال صاحب قادیانی فتنہ پہ تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمیں نہ بتلائیں کہ جہاد کو ترک کرو بلکہ ’’تعلیم اُس کو چاہیے ترکِ جہاد کی‘‘ جن انگریزی آقاؤں کے ٹکڑوں پہ قادیانی پلتے ہیں ان کو بھی یہ درس دیا کریں کہ جنگی جنون اور عالمی قتل و غارت گری کو ترک کریں - جاوید نامہ کے آخری حصہ ’’خطاب بہ جاوید‘‘ میں اقبال نے ایران کے بہا اللہ کے بہائی مذہب اور ہندوستان کے مرزا ملعون کے قادیانی مذہب پہ موازناتی تبصرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں نے کس طرح الگ الگ زمانوں میں اسلام کو شدید نقصان پہچانے کی کوشش کی ہے :

آں ز ایراں بود و ایں ہندی نژاد
آں ز حج بیگانہ و ایں از جہاد!

’’ایک نام نہاد پیغمبر ایران سے تھا (بہاءاللہ) اور دوسرا ہندی نسل سے تھا (مرزا قادیانی) - پہلے نے حج منسوخ کردیا اور دوسرے نے جہاد‘‘-

تا جہاد و حج نماند از واجبات
رفت جاں از پیکرِ صوم و صلوٰت

’’جب جہاد اور حج (مسلمانوں کےلئے) واجب نہ رہے تو روزوں اور نمازوں کی روح بھی ختم ہوگئی‘‘-

روح چوں رفت از صلوٰت و از صیام
فرد ناہموار و ملت بے نظام!

’’جب نماز اور روزے سے روح جاتی رہی توفردبےلگام ہوگیااور ملت میں کوئی تنظیم نہ رہی(انتشار ہوگئی)‘‘-

  1. 3.      امامت

حکیم الامت علامہ اقبال کی نظم ’’امامت‘‘ کی ابتدا ایک نامعلوم سائل کے سوال سے ہے جس نے حقیقتِ امامت پہ سوال پوچھا ، اس کے بعد کے مصرعہ میں سائل کیلئے دُعا ہے، اگلے تین اشعار میں اقبال نے اسلامی تصورِ امامت کی وضاحت کی ہے جبکہ آخری شعر میں قادیانیوں کے پھیلائے ہوئے امامت کے جھوٹے تصور پہ تنقید ہے جس میں اقبال قادیانیت کو سخت ترین و بد ترین فتنہ قرار دیتے ہیں- چونکہ مرزا قادیانی مغرب کی بے جا پرستاری کرتا تھا اور مسلمانوں کو بھی مغربی پرستاری کی نصیحت کرتا تھا اس لئے اقبال کے نزدیک ایسا شخص یا گروہ سوائے فتنے کے کچھ نہیں -

تُو نے پُوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئیِنے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہُو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملّتِ بیضا ہے امامت اُس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے!

  1. 4.      وحی 

اس نظم میں بھی اقبال کے پہلے شعر میں قادیانی تصورِ امامت و وحی پہ تنقید کی گئی ہے :

عقلِ بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں، تو زبوں کارِ حیات
فکر بے نُور تِرا، جذبِ عمل بے بُنیاد
سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِ حیات

  1. 5.      ہندی اسلام

اسی طرح ضربِ کلیم کی ایک نظم’’ہندی اسلام‘‘ میں قادیانیوں کے دعوٰیٔ الہام پہ تنقید کرتے ہوئے اسے الحاد کے مماثل قرار دیتے ہیں - اس شعر میں موجود فکر کے مطابق ملت کی بقا کا انحصار وحدتِ افکار میں ہے، یہاں وحدتِ افکار سے مراد مسلمانوں میں ایسے مسلّمات و مشترکات ہیں جن پہ ہر ایک اسلامی فرقہ کا غیر متزلزل یقین ہے جیسا کہ توحیدِ باری تعالیٰ، ختمِ نبوت، قرآن مجید- اقبال کے نزدیک قادیانی الہام، الحاد یعنی بے دینی سے بھی بدتر ہے کیونکہ اس سے وحدتِ ملّت پارہ پارہ ہوتی ہے :

ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

  1. 6.      الہام اور آزادی

اس نظم میں الہام کے خیر افروغ ہونے یا شرانگیز ہونے کی بحث ہے جس میں پہلے چار اشعار میں الہامِ خیر افروغ پہ بات کی گئی ہے جس میں الہام کے خیر ہونے پہ یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ جسے الہام ہو رہا ہے اس کا ’’بندۂ آزاد‘‘ ہونا لازم ہے- بندۂ آزاد کا الہام قوم کی تقدیر بدل کے رکھ دیتا ہے جس کیلئے اقبال نے بلبل کے تنِ نازک میں شاہیں کی اداؤں کا ظہور،  گداؤں میں جمشید و پرویز کی شان و شوکت ظاہر ہونا جیسی اعلیٰ تشبیہات سے بیان کیا ہے- لیکن آخری ایک شعر میں الہامِ شر انگیز بیان ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جسے الہام ہوا وہ بندۂ آزاد نہیں بلکہ ’’بندۂ محکوم‘‘ تھا - اقبال محکوم کے الہام سے پناہ مانگتے ہیں کیونکہ وہ اقوام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے - اس کے بھیانک پَن کو اقبال نے چنگیز کی غارت گری سے تشبیہ دی ہے- اقبال چونکہ مرزا ملعون کو ’’شیخِ کلیسا نواز‘‘ سمجھتے تھے تو ان کی نظر میں وہ بندۂ محکوم تھا (اور یقیناً تھا ) اس لئے آخری شعر قادیانی شیطانی الہامات کے ردّ پہ ہے - نظم ملاحظہ ہو :

ہو بندۂ آزاد اگر صاحبِ اِلہام
ہے اس کی نِگہ فکر و عمل کے لیے مہمیز
اس کے نفَسِ گرم کی تاثیر ہے ایسی
ہو جاتی ہے خاکِ چَمنِستاں شرر آمیز
شاہِیں کی ادا ہوتی ہے بُلبل میں نمودار
کس درجہ بدل جاتے ہیں مُرغانِ سحَر خیز!
اُس مردِ خود آگاہ و خدا مست کی صحبت
دیتی ہے گداؤں کو شکوہِ جم و پرویز
محکوم کے اِلہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صُورتِ چنگیز

  1. 7.      نبوت

اسی طرح علامہ اقبال کی نظم ’’نبوت‘‘ قادیانی تصورِ نبوت پر یوں کڑی تنقید کرتی ہے کہ:

مَیں نہ عارِف، نہ مُجدِّد، نہ محدث،نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوّت کا مقام
ہاں، مگر عالمِ اسلام پہ رکھتا ہوں نظر
فاش ہے مجھ پہ ضمیرِ فَلکِ نیلی فام
عصرِ حاضر کی شبِ تار میں دیکھی مَیں نے
یہ حقیقت کہ ہے روشن صفَتِ ماہِ تمام
’’وہ نبوّت ہے مسلماں کے لیے برگِ حِشیش
جس نبوّت میں نہیں قُوّت و شوکت کا پیام‘‘

اقبال فرماتے ہیں کہ وہ نبوت جو مسلمانوں کو ترکِ جہاد اور غلامی سکھارہی ہے یہ برگِ حشیش تو ہوسکتا ہے لیکن یہ مسلمانوں کے لئے قابل خیر ثابت نہیں ہو سکتا-  جاوید نامہ کی اختتامی طویل نظم ’’ خطاب بہ جاوید‘‘ میں بھی اقبال نے جہاں فتنہ بہائیت و فتنہ قادیانیت پہ تنقید کی ہے وہاں بھی یہی مضمون لائے ہیں کہ ایسے الہام سے بچ کے رہو جو ’’عقاب کے بچے میں بطخ کی صفات پیدا کرے‘‘ - ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ‘‘میں اقبال کی نظم ’’حرفے چند با ملتِ عربیہ‘‘ کا آغاز بھی اسلام کی قوت و شوکت کی روایت سے ہوا ہے ، اقبال کے استعارات، تشبیہات اور تلمیحات میں اگر جھانکا جائے تو جن انبیائے کرام ؑ اور ان کے جن اوصاف، واقعات و متعلقات کو اقبال نے برتا ہے وہ از خود واضح ہے کہ دلگیری، شکست خوردگی اور محکومانہ روِش انبیائے کرام کی تعلیمات کے منافی ہے - مثلاً: نارِ نمرود سے سیدنا خلیل اللہ ؑ کی بے خوفی، عصائے موسیٰ ؑ اور ’’شمشیرِ محمد(ﷺ)‘‘ کی ترکیب - یہ سب اشارے دین کی اس قوت کی طرف متوجہ کرتے ہیں جو مومن کو کفر و باطل کے مد مقابل کھڑے ہونے، مزاحمت کرنے اور بالآخر فتحیاب ہونے پہ رغبت دلاتے ہیں - اس کے بر عکس قادیانیت کا ’’ترکِ جہاد‘‘ کا عَلَم ایک برگِ حشیش ہے جس میں زندگی کی ہر رمق و رونق ماند پڑ جاتی ہے -

٭٭٭


[1](آئینۂ صداقت از قادیانی خلیفہ میاں محمود)

[2](میاں محمود خلیفہ قادیانی، اخبار الفضل، قادیان )

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر