بزمِ آخر کا شمع فروزاں ہوا |
جمالِ محمدی (ﷺ) کی تخلیق سے لے کر تخلیقِ کائنات کی کُن تلک، محبوب کی شان میں ’’لَوْلاكَ لَما خَلَقْتُ الْأَفْلاكَ‘‘ سے ’’لَولَاکَ لَمااَظہَرۃ الربوبیۃ‘‘ کے نعتیہ قصیدے تلک اور آدم ؑ کی دعا کے وسیلے سے لے کر نویدِ مسیحاؑ تلک فقط اور فقط نبی آخرالزماں (ﷺ) ہی کا چرچہ اور بول بالا رہا اور حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کے خاتم النبیین ہونے کی منادیاں دی گئیں کہ جس کی خاطر اس کائنات کو مسخر کیا گیا وہ ہستی کامل اکمل مکمل کو خلقت سے قبل تخلیق کیا اور سرچشمہ ہائےہدایات کا امام اور خاتم بنا کر مبعوث فرمایا-
قرآن مجید فرقان حمید کے اعلان ’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘[1] اور خود جنابِ رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان ’’وإنہ سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کُلھم یزعم أنہ نبي و أنا خاتم النبیین لا نبي بعدي‘‘[2]سے واضح ہوجاتا ہے کہ بلا شک و شبہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سلسلہ نبوت ختم ہوگیا ہے اور اب آپ(ﷺ) کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتااور اس میں کسی قسم کی بھی تاویل یا تخصیص کی گنجائش نہیں ہے-اگر کوئی دعوٰی کرے تو وہ قرآن مجید اور حدیث پاک کی رو سے سراسر کذاب ہے-نبوت کے ان جھوٹے دعویداروں نے ہر دور میں سر اٹھایا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں سے ہر ہر دور میں ان کذابوں کو منہ کے بل روندا ہے اور انشاءاللہ قیامت تلک محافظانِ عقیدۂ ختم نبوت ان کاذبوں کافروں کا قلع قمع کرتے رہیں گے- برصغیر پاک و ہند میں جب قادیانی فتنے نےجنم لیا اور عقیدہ ختم نبوت کے انکاری ٹھہرے تو سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت اور آپ کے خاندان نے بھرپور انداز میں مرزا قادیانی کی مخالفت کرتے ہوئے اسے کافر و منافق ٹھہرایا اور منکرینِ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کے رد میں سینکڑوں فتاویٰ پیش فرمائے، جبکہ کئی معتبر و مصدقہ رسائل بھی اسی باطل کی ردّ و ابطال میں تحریر فرمائے- عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں قلمی رسائل کا سلسلہ سن 1315ھ میں شروع ہوا جب امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے صاحبزادے مولانا مفتی حامد رضا خانؒ نے ردِ قادیانیت پر سب سے پہلا رسالہ ’’الصارم الربانی علی اسراف القادیانی‘‘ کے نام سے تصنیف فرمایا جس میں حضرت عیسٰی ؑ کی حیات پر تفصیل سے بات کی گئی ہے اور کذاب غلام قادیانی کے مثلِ مسیح ہونے کا بھرپور رَدّ کیا گیا-
1317ھ میں امام اہلسنت اعلی ٰحضرت ؒ نے رسالہ ’’جزاء اللہ عدوہ بآباہ ختم النبوۃ‘‘ تصنیف فرمایاجس میں عقیدۂ ختم نبوت پر 120 احادیث او ر منکرین عقیدۂ ختم نبوت کی نفی میں جیّد ائمہ کرام کی تیس تصریحات شامل کی گئیں- اسلاف کی کتب میں واضح طور پر حضور (ﷺ) کے خاتم النبیین ہونے پر دلائل موجود ہیں-امام راغب اصفہانی،امام اسمٰعیل بن حماد الجوہری، علامہ ابن منظور اور علامہ الزبیدی جیسے تمام آئمہ لغت نے خاتم النبیین سے مراد نبی اور انبیاء کے آخری فرد کے ہی لئے ہیں-امام راغب اصفہانی نے ’’المفردات‘‘ میں اسی متعلق فرمایا :
’’و خاتم النبیین لا نہ ختم النبوہ ای تممھا بمجیہ‘‘
یعنی حضور (ﷺ) کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے نبوت کو ختم فرما دیا-بعین اس طرح ائمہ تفاسیر نے بھی خاتم النبیین سے مراد یہی لیا ہے-حضرت عبد اللہ ابن عباس، علامہ ابن جریر طبری،علامہ ابن جوزی،امام فخر الدین رازی، علامہ بیضاوی، علامہ ابن کثیر، امام جلال الدین سیوطی، علامہ اسماعیل حقی و دیگرؒ نے خاتم النبیین کا معنی آخری نبی اور ’’سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے‘‘ کے لئے ہیں-
1320ھ میں امام اہلسنت امام احمد رضا خانؒ نے ’’السوء والعقاب علی المسیح الکذاب‘‘ کے عنوان سے دوسرا رسالہ تحریر فرمایا جس میں نصوص ِاحادیث اور شرعی دلائل سے مسلمان شوہر کے مرزائی مرتد کافر ہو جانے کے بعد میاں بیوی کا نکاح باطل ہوجانا ثابت کیا گیا ہے-اس کے بعد 1323ھ میں رسالہ ’’قہر الدیان علی فرقۃ بقادیان‘‘ تحریر فرمایا جس میں مرزا قادیانی کے شیطنت الہامات اور اس کی کتب کے کفریہ اقوال کو واضح کیا گیا-امام اہلسنت نے ختم نبوت کے متعلق فتویٰ دیتے ہوئے فرمایا کہ ”حضور پرنور خاتم النبیین سید المرسلین (ﷺ) اجمعین کا خاتم یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیاء و مرسلین بلا تاویل و بلا تخصیص ہونا ضروریات دین سے ہے-جو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنیٰ سے شک و شبہ کو بھی راہ دے کافر مرتد ملعون ہے-[3]
امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نےخاتم النبیین میں لفظ النبیین کے الف لام کے مستغرق ہونے کے اعتراض پر سن 1326ھ میں ’’رسالہ المبین ختم النبیین‘‘ تحریر فرمایا اور اس میں کثیر دلائل کے ساتھ اس اعتراض کا جواب دیا ہے- کیونکہ قادیانیوں نے خاتم النبیین کی عجیب اور من گھڑت تفسیر کر لی تھی کہ حضور نبی مکرم (ﷺ) نبیوں کی مہر ہیں کہ اب جو بھی نبی آئے گا اس پرآپ علیہ الصلوۃ التسلیم کی مہر تصدیق ثبت ہوگی-یہی نہیں بلکہ قادیانی فتنہ نے دھڑلے سے اعلان کیا کہ کوئی ایک نبی نہیں بلکہ قیامت تلک کئی ہزارنبی آسکتے ہیں جو کہ در حقیقت دینِ اسلام کے 1400 برس کی تاریخ اورفرامینِ قرآن و سنن و احادیث و اقوال و اجماع کے سراسر خلاف تھا-تحفظِ عقیدۂ ختم نبوت پر اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے دل و جان سے تحریک ِ جد و جہد چلائی یہاں تلک کہ اپنے وصال سے ایک ماہ قبل بھی 3 محرم الحرام 1340ھ میں رسالہ ’’الجزار الدیان علی المرتد القادیان‘‘ تحریر فرمایا-
المختصر یہ کہ امام صاحب علیہ الرحمہ منکرین ختم نبوت اور ردِ قادیانیت کے مقابل مردِ مجاہد کی حیثیت سے میدانِ عمل میں اترے اور اس فتنے کا سراپنے قلم سے قمع کیا-آپ علیہ الرحمہ کی بھرپور کاوشوں اور جہد مسلسل کو ہر موافق و مخالف تسلیم کرتا ہے اور بلا شائبہ تحفظِ عقیدۂ ختم نبوت میں امام صاحب علیہ الرحمہ کا اسم گرامی اولین میں شمار ہوتا ہے-
٭٭٭