عطائے خداوندی سے قیامت تلک والقلم کی حرمت سے والضحی کے جلوؤں کو عشاقانِ محبوبِ خدا بیان کرتے رہیں گے- حضور رسالت مآب (ﷺ) کی شانِ اقدس بیان کرنے کیلئے اگر ساتوں سمندر کے پانی کو سیاہی بنا دیا جائے اور اس زمین پر موجود ہر شجر کاغذ بن جائیں تب بھی شانِ مصطفےٰ (ﷺ) بیان کرنے کا حق ادا نہ ہوسکے گا- اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور رسالت مآب (ﷺ) کو تخلیق کے لحاظ سے اول بنایا اور بعثت کے لحاظ سے آخر بنایا ہے- آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دنیا میں جلوہ فرما کر عمارتِ نبوی کو اکملیت عطا فرمادی اور اب تاقیامت کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا- قرآن مجید فرقان حمید نے واضح طور پر حضور نبی کریم (ﷺ) کیلئے ختم الرسل اور خاتم النبیین کے خطابات کا اعلان کرکے ابد تک کیلئے مہر تصدیق ثبت فرما دی ہےاور جو بزمِ آخر کے شمع فروزاں کا منکر ہےوہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور دینِ اسلام میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں-
اہلِ حق ہر دور میں عملاً، قولاً، فعلاً منکرینِ ختمِ نبوت کے باطل استبداد کا قلع قمع کرتے آئے ہیں- صوفیائے کاملین، علماء و عارفین کی سوانح حیات اٹھا کر دیکھ لیں ، عقیدۂ ختم نبوت پر کسی قسم کی مصالحت و مفاہمت نہیں کی گئی ہے- عارفوں کے سلطان حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ) وہ صوفی بزرگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے محبوب مکرم خاتم النبیین (ﷺ) کے اذن سے تصوف پر 140 سے زائد تصانیف تحریر فرمائی ہیں اور تقریباً ہر صفحہ پر ہی مختلف اسلوب سے ثنائے مصطفےٰ علیہ تحیۃ الثناء بیان فرمائی ہے- تعلیماتِ سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ) کے قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ آپ (قدس اللہ سرہٗ) نے تقریباً اپنی ہر تصنیف میں عقیدۂ ختم نبوت کے متعلق تسوید و تحریر فرمائی ہے- زیرِ نظر مقالہ میں آپ (قدس اللہ سرہٗ) کی تصنیفات میں موجود ختمِ نبوت اور خاتم النبیین کے متعلق اقتباسات کو یکجا کیا گیا ہے-
عقیدہ ختم نبوت کا منکر کافر ہے
عقیدہ ختمِ نبوت:
سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصانیف میں متعدد مقامات پر عقیدہ ختم نبوت کو واضح فرمایا ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) کے بعد کسی بھی مدعی نبوت کو برملا کافر لکھا ہے- جیسا کہ آپ فرماتے ہیں :
’’پانچ مراتب ایسے ہیں جن پر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور اگر کوئی ان پر پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ دینِ محمدی (ﷺ) سے برگشتہ و کافر ہے میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘-
قرآن مجید حضور (ﷺ) کے بعد کسی پر نازل نہیں ہو سکتا-
مراتبِ معراج پر حضور پاک (ﷺ) کے علاوہ اور کوئی نہیں پہنچ سکتا-
مراتبِ نبوت پر انبیاء کے علاوہ اور کوئی نہیں پہنچ سکتا-
سوائے پیغمبروں کے اور کسی پر وحی نازل نہیں ہوسکتی-
اصحاب کبار اور دیگر صحابہ کرام ؓ کے مراتب تک اور کوئی نہیں پہنچ سکتا‘‘- [1]
اہل سنّت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کے بعد کوئی بھی رسالت و نبوت کے مرتبے پر فائز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی امّت محمدیہ کے کسی بھی صاحب فضیلت شخص کا مرتبہ انبیاء کے برابر یا اس سےبڑھ سکتا ہے -جیسا کہ حضور سلطان العارفین لکھتے ہیں :
”انبیاء ؑ کے بعد علماء ہیں لیکن نبوت کے بعد کچھ نہیں“- [2]
مہر نبوت کا ذکر:
ختم نبوت کی سب سے بڑی دلیل حضور نبی کریم (ﷺ) کی مہر نبوت ہے جس کا نقش آپ (قدس اللہ سرہٗ)نے اپنی تصانیف ’’محک الفقر کلاں‘‘ اور ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں درج فرمایا ہے-آپؒ مہر نبوت کا ذکر اپنے دلنشین انداز میں یوں فرماتے ہیں:
ہر کہ بیند مہر را بر پشت ماہ |
’’ہر کسی کو خال چاند پر نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ خوبصورت نقش حضور نبی کریم (ﷺ) کی پشت مبارک پر مہر نبوت کا ہے‘‘- [3]
لفظ خاتم النبیین:
سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کی تصانیف خواہ اس کا تعلق نثر سے ہو یا نظم سے عشقِ رسول (ﷺ) میں ڈوبی نظر آتی ہیں-
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصانیف میں آقا کریم (ﷺ) کا ذکرِ خیر فرماتے ہوئے کثرت کے ساتھ خاتم النبیین کے لقب کو درج فرمایا ہے- جہاں آپ حضور نبی کریم (ﷺ) کی نعت بیان کرتے ہوئےمختلف القاب کو بیان کرتے ہیں لیکن جس کلمہ کو آپ نے بطور لقب سب سے زیادہ بیان فرمایا ہے وہ”خاتم النبیین“ ہے جس کا مقصود جہاں حضور نبی کریم (ﷺ) کی نعت ہے وہیں آپؒ اپنے قاری کے عقیدہ کو بھی پُختہ فرما رہے ہوتے ہیں- چند ایک اقتباسات درج ذیل ہیں :
’’فرمانِ حق تعالیٰ ہے:محبوب! آپ نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا، جن کی صفات متبرکات ہیں فنافی ذات ھو اوروہ ہیں خاتم الانبیا رسول رب العالمين صلى الله عليه و اله و أصحبه و أهل بيته اجمعين [4]
الله تعالیٰ کے حکم،حضرت محمد رسول الله (ﷺ) کی اجازت اور”خاتم النبیین“ حضرت محمد رسول الله (ﷺ) کی مجلس کی حضوری کی بدولت فقیر کو ایک زبردست قوت حاصل ہوتی ہے جس کی بنا پر مشرق سے مغرب تک تمام عالم اُس کے قبضہ و تصرف میں ہوتا ہے- [5]
’’فرمانِ حق تعالیٰ ہے:محبوب! آپ نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا، جن کی صفات متبرکات ہیں فنافی ذات ھو اور وہ ہیں خاتم الانبیاء رسول رب العالمين صلى الله عليه و اله و أصحبه و أهل بيته اجمعين‘‘- [6]
’’اگر کوئی شخص آدم ؑ سے لے کر ”خاتم النبیین“ حضرت محمد رسول الله (ﷺ) تک اور اُن سے لے کر روزِ قیامت تک جملہ انبیاء و اوْلیاء الله صاحبِ مراتب مومن مسلمانوں کی ارواح سے ملاقات و مجلس و مصافحہ کرے اور تمام ارواح کے نام جانے اور ہر ایک کو پہچانے تو اِس سے بہتر اور کیا چیز ہے؟ ‘‘[7]
’’بے حد و بےحساب درود پاک ہو سید السادات حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر جو محمود ہیں سلطاناً نصیِرا کے خطاب سے جن کا مقام ہے قاب قوسین او ادنی، جو جامع ہیں اسرار المنتہیٰ کے جن کی نعت میں فرمان حق تعالیٰ ہے: محبوب آپ نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا- جن کی صفات متبرکات ہیں- فنا فی ذاتِ ھو اور وہ ہے خاتم الانبیاء رسول رب العالمین ’’صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحبہ و اہل بیتہ اجمعین‘‘[8]
’’اسے بھی سروری قادری کہتے ہیں جسے خاتم النبیین رسول رب العالمین سرور دو عالم (ﷺ) اپنی مہربانی سے نواز کر باطن میں حضرت محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سر ہ العز یز کے سپرد کر د یں اور حضرت پیر دستگیرؒ بھی اسے اس طرح نواز یں کہ اسے خود سے جدا نہ ہونے دیں- [9]
بعض کو حاضرات کلمہ طیبات لَا اِلہَ آِلَّا اللّٰہ محمد رسول اللہ کے تصرف و تفکر سے باطنی توفیق حاصل ہوتی ہے جس سے ان کا باطن ان کے ظاہر کے مطابق ہو جاتا ہے بعض کو خاتم النبیین حضرت محمد (ﷺ) بمعہ اصحاب کبار،جملہِ انبیاء و رسول و جملہِ اولیاء و اصفیاء و مجتہدین اور جملہ غوثِ قطب کی مجالس کی حضوری سے باطنی توفیق حاصل ہوتی ہے- [10]
حضرت آدم ؑ نے دیکھ کر کلمہ طیبہ پڑھا ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘پس آدم ؑ تعجب ہوئے اور پوچھا اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ محمد رسول اللہ کس کا نام ہے؟ اللہ تعالیٰ سے حکم ہوا کہ اے آدم! تمہارے فرزندوں میں سے ایک رسول آخر الزمان ہو گا جس پر نبوت ختم ہو جائے گی محمد رسول اللہ اس کا نام ہے-[11]
جس طرح خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں اسی طرح خاتم وحدانیت راز الٰہی فضل اللہ ہے اور خاتم ذکر اللہ کلمہ طیب ’’لا إله إلا الله محمد رسول اللہ‘‘ کاذکر ہے- [12]
حضرت آدم ؑ سے حضرت خاتم النبیین (ﷺ) تک اور خاتم النبیین (ﷺ) سے قیامت تک سات دور ہیں - [13]
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہے: ”ترک دنیا تمام عبادات کی جڑ ہے اور حب دنیا تمام برائیوں کی جڑ ہے - یہ بات حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) تک لگ بھگ ایک لاکھ چوبیس ہزار تمام پیغمبروں نے کہی ہے اور تمام انبیاء نے ترک دنیا کا حکم دیا ہے، پھر تو ان سب کے خلاف چلنے کی خطا کیوں کرتا ہے“؟ [14]
جب حق سبحانہ وتعالی نے حضرت آدم ؑ کو پیدا فرمایا اور روح اعظم اللہ تعالیٰ کے حکم سے آدم ؑ کے وجود میں داخل ہوئی اور حضرت آدم ؑ کو ”علم آدم الاسماء ‘‘ کاعلم عطا کر دیا گیا تو ان کی نظر عرش پر پڑی وہاں انہوں نے کلمہ طیب لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا، جب آپ نے یہ کلمہ پڑھا تو تعجب سے بولے کہ یہ کیا؟ اللہ کے نام کے ساتھ یہ دوسرانام” محمد “ کس کا ہے؟ بارگاہ حق تعالیٰ سے حکم ہوا کہ اے آدم ! یہ تیرے بیٹے محمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں جو خاتم النبیین ہیں اور قیامت کے دن آپ کی شفاعت فرمائیں گے - [15]
حضرت آدم ؑ اور حضرت نوح ؑ کے درمیان 2022 سال کا زمانہ ہے، حضرت نوح ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ کے درمیان 1100 سال کا زمانہ ہے، حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت داؤد ؑ کے درمیان 570 سال کا زمانہ ہے، حضرت داؤد ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے درمیان 500 سال کا زمانہ ہے، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے درمیان 1187 سال کا زمانہ ہے اور حضرت عیسیٰ ؑ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان 600 سال کا زمانہ ہے- اِس طرح آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی ولادتِ باسعادت تک 5979 سال کا عرصہ ہے- [16]
طالبِ مولیٰ کے کیا معنی ہیں؟ طواف کنندۂ دل، اہلِ ہدایت کہ جس کے دل میں صدق ہو جیسے کہ صاحبِ صدق حضرت ابو بکر صدیقؓ جیسے کہ صاحبِ عدل حضرت عمر بن خطابؓ ، جیسے کہ صاحبِ حیا حضرت عثمانؓ ، جیسے کہ صاحب رضا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، جیسے کہ سرتاجِ انبیاء و اصفیاء خاتم النبیین امین رسولِ ربِّ العالمین صاحب الشّریعت و السّر حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کہ یہ تمام طالبانِ مولیٰ مذکر ہیں- [17]
حمدو نعت
الله تبارک وتعالیٰ اپنے ناموں سے تقّدس اور اپنی کبریائی سے برترو اعلیٰ ہے اور”خاتم النبیین“ حضرت محمد (ﷺ) کی نعت میں خود الله تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:”اور سلامتی ہو اس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی“اور اس کی آل،اصحاب اور اہل بیت سب پر سلامتی ہو-
اے تلمیذ الرحمٰن! جان لے کہ الله تعالیٰ نے سلک سلوک کی برکات کے فیض تصوّف کے نکات تصوّر و تصرّف سے آپ(ﷺ) کو عین توحید ذات برزخ بنا کر خاتم النبّیین سیّد المرسلین کا خطاب عطا کیا- [18]
(اے طالب حقیقی!) جان لے کہ علم کے تین حروف ہیں:ع،ل،م-پس حرف ع سے: انسان کو وہ کچھ سکھایا، جو اسے معلوم نہ تھا اور حرف ل سے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ،پس اس کو وکیل پکڑو اور حرف م سے محمد (ﷺ) تم میں سے کسی کے والدنہیں، بلکہ وہ رسول خدا اور خاتم النبیین ہیں اور الله تعالیٰ کو ہر شے کا علم ہے،مراد ہے اور اس علم پر مضبوط رہ- [19]
دونوں جہاں کے پروردگار کا شُکر ہے اور خاتم النّبیین حضرت محمّد مصطفےٰ(ﷺ)،آپ کی آل و اصحاب اور اہل بیت ؓ سب پر دردوسلام ہو- [20]
جب کوئی علم مراقبہ کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے جس سے سات مجالس کی حضوری کھلتی ہے اور وہ حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد (ﷺ) تک تمام انبیائے کرام کی ارواح کی زیارت کرتا ہے- [21]
عالم باللہ اسے کہتے ہیں، جسے تمام علم قرآن و حدیث ازبر ہو اور ان کی تفاسیر سے بھی آگاہی ہو اور جو اپنے باطن کو حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین (ﷺ) تک کے تمام پیغمبروں کی ارواح مجلس سے ملاقات کرائے -[22]
اے باھو ؒ ! میرے مُرشد ورہبر تو حضور محمّد مصطفےٰ خاتم النبیین (ﷺ) ہیں اور میرے پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ جیسے اہل کرم ہیں - [23]
سیدالمرسلین (ﷺ) کو خاتم النبیین ماننا ہر مسلمان کے لئے لازم و ملزوم ہے- اور یہ وہ حساس عقیدہ ہے جہاں عالم اور عارف ، ملا اور صوفی سب یک زبان ہیں- اصفیاءو اتقیاء کی تصنیفات ہوں یا علماءو فقہاء کی کتابیات ہوں، سب میں ختم نبوت کے عقیدہ پر ٹھوس دلیلیں اور واضح ارشادات موجود ہیں جو آج کے مسلمان کے لئے اس عقیدہ کی اہمیت و حرمت کو سمجھنے کا منہ بولتا ثبوت ہے- حضور رسالت مآب (ﷺ) کی بعثت سلسلہ نبوت کی خاتم ہے اور اب قیامت تلک خاتم الانبیاء کی شریعت ہی باقی اور جاوداں رہے گی-بے شک و بلا شائبہ!
٭٭٭
[1]( محک الفقر کلاں، ص :35)
[2]( اسرار القادری،ص: 10)
[3]( محک الفقر کلاں، ص :591)
[4]( اسرار القادری، ص: 49)
[5]( کلید التوحید کلاں،ص:257)
[6]( اسرار القادری، ص: 49)
[7]( کلید التوحید کلان:ص،41)
[8]( اسرار القادری،ص: 15)
[9]( محک الفقر کلاں،ص: 389)
[10]( نور الہدیٰ،ص:483)
[11]( مجالستہ النبی،ص:60-61)
[12]( محک الفقر کلاں،ص:465)
[13]( محک الفقر کلاں،ص:563)
[14]( محک الفقر کلاں، ص:629)
[15](محک الفقر کلاں، ص:749-751)
[16]( عین الفقر،ص: 371)
[17]( عین الفقر،ص:171)
[18]( محبت الاسرار،ص:33)
[19]( مفتاح العارفین،ص:127)
[20]( نور الہدیٰ خورد،ص:15)
[21]( شمس العارفین، ص: 139)
[22]( قرب دیدار،ص: 57)
[23]( فضل اللقاء،ص:147)