اگر ہم تاریخ اسلام کے جھروکوں میں لمحہ بھر کیلئے جھانکیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بد قسمتی سے ملتِ اسلامیہ کئی فرقوں میں تقسیم ہوئی، باہمی تعصب نے بارہا امتِ مسلمہ کے امن و سکون کو درہم برہم کیا- فتنہ و فساد کے شعلوں نے بڑے الم ناک حوادث کو جنم دیا اور گردشِ دوراں نے امتِ مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کو انتشار و افراق میں بدل دیا- لیکن اتنے اشد اختلافات کے باوجود تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس امر پر متفق رہے کی حضور نبی کریم(ﷺ) آخری نبی ہیں اور آقا پاک(ﷺ) کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نہ ہی اسلامی نظام کی مثل کوئی نیا نظام آئے گا- چنانچہ گزشتہ 14 صدیوں میں جس نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کیا اس لعین کو مرتد قرار دیا گیا اور اس کے خلاف علم جہاد بلند کر کے اس کی جھوٹی نبوت کو خاک میں ملا دیا گیا اور جس نے بھی اسلام کی مثل نیا نظام رائج کرنے کی کوشش کی وہ اپنے عبرتناک انجام سے دوچار ہوا- جیسا کہ حضور نبی کریم(ﷺ) کے آخری نبی ہونے کی شہادت رب لم یزل نے کتاب انقلاب میں دی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے-
’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَطوَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا‘‘[1]
’’نہیں ہیں محمد (ﷺ) کسی کے والد تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے‘‘-
حضور (ﷺ) کے آخری نبی ہونے کی تائید و تصدیق خود آپ (ﷺ) کے درجنوں فرامین سے ہوتی ہے-
یہی وجہ ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت اسلام کے ان چند بنیادی عقیدوں میں سے ایک ہے جن پر ہمیشہ ملتِ اسلامیہ کا اجماع رہا ہے اگر ہم ہندوستان کی تاریخ کو بنظر عمیق دیکھیں تو یہ بات طشت از بام ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمان اپنی سیاسی و مذہبی بالا دستی کھو دینے کی وجہ سے سخت ذہنی پریشانی اور یاس و قنوط کا شکار ہو چکے تھے اور اپنے اس اضمحال و اضطراب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ہر طرف منتظر آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ کوئی مرد خدا آ کر انہیں اس کرب و بلا سے نجات دلائے-اس دور کے مسلم دانشور بھی احیاء اسلام کے درد سے مضطرب و بے چین تھے مگر انہیں دوہری دشواری کا سامنا تھا ایک تو انقلاب زمانہ نے ان سے دنیاوی حکومت اور جاہ و جلال چھین لیا تھا، دوسری طرف یورپ کا مادی انقلاب ان کی دینی اقدار کو پامال اور جذبہ جہاد کو سبو تاژ کر رہا تھا- ادھر انگریزوں کے ناپاک عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے میر جعفر اور میر صادق سے بڑھ کر غدار، ضمیر فروش، ابن الوقت اور ایسے دین فروش کی ضرورت تھی جو کمپنی بہادر کا وفا دار اور انگریز سرکار کا ایجنٹ ہو- چنانچہ 1875ء کی تحریک آزادی کے بعد امت مسلمہ کے دلوں سے جذبہ جہاد نکالنے کیلئے اور مسلمانوں کے دینی عقائد کو مسخ کرنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کا انتخاب کیا گیا- بھارت کے صوبہ مشرقی پنجاب کے ضلع گورداس پور کی تحصیل بٹالہ کے ایک غیر معروف گاؤں قادیان کے رہنے والے اس شخص نے ایک ہی جست میں صرف نبوت کا دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ عالم کے روپ میں سامنے آیا، کبھی سازش کے تحت عسائیوں سے مناظرہ کر کے ایک مناظر کی شکل میں روشناس ہوتا رہا اور سادہ لوح مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرتا رہا- کبھی دجل و فریب پر مبنی کتابیں لکھ کر خود کو ایک مصنف کی حیثیت سے متعارف کرواتا رہا تو کبھی اپنی جھوٹی تعلیمات کے اشتہارات شائع کر کے سستی شہرت حاصل کرتا رہا- [2]
کبھی اپنے آپ کو مجدد کہا تو کبھی مامور من اللہ بنا- کبھی خود کو محدث کہا تو کبھی اپنے آپ کو امام زماں لکھا- کہیں مہدی اور کہیں مسیح موعود ہونے کا اعلان کیا تو ظلی بروزی نبی بنا - مختصر یہ کہ بالآخر1901ء میں تمام حدود پھلانگ کر اپنی جھوٹی نبوت و رسالت کا اعلان کر دیا اور لوگوں کے سامنے اسلام کے متوازی ایک نیا دین پیش کیا-
یہی وجہ ہے کہ آج تک جدید علماء مفکرین اور دانشور حضرات امت مسلمہ کو فتنہ قادیانیت سے آگاہ کرتے رہے اور اس فتنے کی سر کوبی کے لئے شب و روز کوشاں رہے ملت اسلامیہ کے ہزاروں نوجوانوں نے اسی مقدس مشن کی خاطر اپنی متاع زیست کو نذرانے کے طور پر ہتھیلیوں پر نقد پیش کیا-
1-امامِ اہلسنت اعلی ٰحضرت احمد رضا خان بریلوی نے فتنہ قادیانیت کے متعلق فرمایا تھا کہ:
’’مسلمانوں کے بائیکاٹ کے سبب قادیانیوں کو مظلوم سمجھنے والا اور ان سے میل جول چھوڑنے کو ظلم نا حق سمجھنے والا اسلام سے خارج ہے اور جو کافر کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر ہے‘‘-[3]
2-مفکر اسلام علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے قادیانیت کے متعلق وسیع معلومات ٹھوس حقائق اور ناقابل تردید دستاویزی ثبوت کے پیش نظر فرمایا تھا کہ:
’’قادیانی اسلام اور وطن دونوں کے غدار ہیں‘‘- [4]
3-عالم اسلام کی عظیم شخصیت مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا کہ :
’’مرزا قادیانی دجال تھا، دجال تھا، دجال تھا مَیں اس سلسلہ میں قانون انگریز کا پابند نہیں قانون محمدی (ﷺ) کا پابند ہوں‘‘- [5]
4-پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے سابق جسٹس پیر محمد کرم شاہ شاہ الازہریؒ نے فرمایا تھا کہ :
’’فتنہ قادیانیت خارش زدہ کتے سے بھی بدتر ہے‘‘-[6]
یہی وجہ تھی کہ عالم اسلام اس فتنے کے خلا ف جو ملت اسلامیہ کے لئے زہر قاتل ثابت ہوا نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر کا مصداق ہو چکا تھا- جس کی وجہ سے ممالک اسلامیہ میں قادیانیوں کے ساتھ بُرا حشر ہوا-
1953ء میں مصر نے اپنے ملک میں قادیانیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی اور جماعت احمدیہ کو غیر قانونی قرار دیا-
1965ء جنوبی افریقہ کی جوڈیشل (Judicial) نے فتویٰ جاری کیا کہ احمدی مسیحائی کافر ہیں ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں-
24 اپریل 1973ء میں ملت اسلامیہ کی عالمی تنظیم رابطہ عالم اسلامی کے ایک اجلاس میں اسلامی ممالک کی 100سے زائد تنظیموں کے مقتدر نمائندے شریک ہوئے جنہوں نے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی- [7]
آخر کار امت مسلمہ کی بے شمار قربانیاں اور کاوشیں ثمر بار ثابت ہوئیں اور فتنہ قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھوک دی گئی جب 7 ستمبر 1974ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کا قانون منظور کرتے ہوئے قادیانی گروپ اور لاہوری گروپ کو غیر مسلم قرار دیا-
یہ تھا وہ اجمالی جائزہ جو فتنۂ قادیانیت کے خلاف ملت اسلامیہ کی عظمت کا آئینہ دار ہے-
ملت اسلامیہ کیلئے لمحہ فکریہ:
یہ بات اب روز روشن کی طرح مترشح ہو جاتی ہے کہ فتنہ قادیانیت دین و ملت کےلئے کس طرح زہر قاتل ثابت ہوا- بانی قادیانیت اور اس کے پیروکاروں نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گھناؤنا کردار ادا کیا اور یہ لوگ ملت اسلام کے غدار اور انگریزوں کے وفادار رہے- اسلامی شعائر کو مٹانے اور جذبہ جہاد کو ختم کرنے کے درپے رہے پر بڑا المناک حادثہ جو مسلمانوں کو پیش آیا اس سے قادیانی سازش اور غداری کی بو آتی ہے بلکہ وہ قادیانیوں کا شاخسانہ تھا-
- عرب ممالک پر انگریزوں کا قبضہ
- ہندوستان میں انگریز راج کو دوام بخشنے میں قادیانی کاوشیں
- مسجد کانپور کی شہادت
- تحریک خلافت جلیانوالہ باغ کا خونی حادثہ
- اسرائیل کی تعمیر میں قادیانیوں کا کردار
- تحریک آزادی ہند کی مخالفت
- پاکستان بھارت 1965ء کی جنگ
- بنگلہ دیش کی علیحدگی
- مسئلہ کشمیر کا التواء
- پاکستانی ایٹمی پلانٹ کی قادیانی مخالفت
11. پاکستانی اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش
المختصر !یہ کہ ہر موقعہ پر قادیانیوں نے شرمناک کردار ادا کیا اور ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں اسلام دشمن طاقتیں برطانیہ روس امریکہ اور انگریزوں کی ناجائز اولاد اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا حقیقت یہ ہے کہ قادیانیوں نے امریکہ کی سی آئی اے اسرائیل کی موساد اور بھارت کی ایجنسیوں سے بڑھ کر دشمنان اسلام کیلیے خدمات سرانجام دیں- یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے ہمیشہ قادیانیوں پر نوازشات کیں اور ان کے ذریعے ملت اسلامیہ کے اہم خفیہ راز حاصل کیے آج بھی اسرائیل میں بڑی تعداد میں قادیانی سرکاری عہدوں پر فائز ہیں جو کہ عالم اسلام کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں- روزنامہ اوصاف کی رپورٹ یکم اکتوبر 1999ء کے مطابق قادیانی انتہائی اہم محکموں پر چھائے ہوئے ہیں -[8] حال ہی میں ملک کے ممتاز محقق محمد متین خالد نے اپنے مضمون ’’دہشت گرد کون‘‘ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ حالیہ دہشتگردی میں قادیانی ملوث ہیں- لہذا ارباب اقتدار اور ملت اسلامیہ سے گزارش ہے کہ وہ بچائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے کے دشمنان اسلام کی اس فریب سازش سے نبرد آزما ہونے کیلئے سینہ سپر رہیں کیونکہ :
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے |
٭٭٭
[1](الاحزاب:40)
[2](عبد الحکیم خان اکتر شاہجہان پوری، برطانوی مظا لم، ص: 11)
[3](امام احمد رضا خان بریلوی، احکام شریعت، لاہور: رضا پبلیکیشنز، 2000 ، ص: 3)
[4]( ڈاکٹر غلام جیلانی برق، حرف محرمانہ، ص: 5)
[5]( حوالہ بالہ، ص: 6)
[6](جسٹس پیرمحمد کرم شاہ الازہری، فتنہ انکار ختم نبوت، لاہور: ضیا القرآن پبلیشرز، 1998، ص: 8)
[7]( پرو فیسر داکٹر محمد طاہر القادری، عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادنیت، لاہور: منہاج القرآن پبلیکیشنز، 1995، ص: 7)
[8]( رور نامہ اوصاف، مورخہ یکم اکتوبر، 1999)