اللہ تعالیٰ نے انسان کی راہنمائی اور رشد و ہدایت کے لئے انبیاء کرام ؑ کا سلسلہ شروع کیا جس کا آغاز حضرت آدم ؑ کی ذات سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام محبوب کریم (ﷺ) کی ذات اقدس پر ہوتا ہے- آپ شجر نبوت کے آخری پھل اورقصرنبوت کی آخری اینٹ ہیں رب کائنات کی طرف سے انسانیت کی رشد و ہدایت کیلئے مبعوث کردہ آخری نبی و رسول ہیں لہذا حضور خاتم النبیین حضرت محمد (ﷺ) کا آفتابِ رسالت قیامت تک کیلئے پوری انسانیت کو اپنے نورِ نبوت سے منور کرتا رہے گا-
عقیدۂ ختم نبوت اسلام اور اہل سنت و الجماعت کے ان بنیادی اور اساسی عقائد میں سے ہے جس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا اسلام کے اصول اور ضروریاتِ دین میں سے ہے اگر یہ عقیدہ مجروح ہو جائے تو بندے کے دامنِ ایمان میں کچھ باقی نہیں بچتا اس لئے قرآنِ مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے ہماری نجات کے لئے توحید و رسالت، قیامت، معاد و حشر کے عقیدہ کو ایمان کا جزو لازم ٹھہرایا ہے وہاں عقیدہ ختم نبوت کو بھی ایمان کا جزو لاینفک قرار دیا ہے-جس سے ذرا بھر بھی تجاوز دنیا اور آخرت کا خسارہ ہے-لہٰذا عہدِ نبوی (ﷺ) سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آپ (ﷺ) بغیر کسی تاویل و تخصیص کے خاتم النبیین ہیں-اگر آپ کے بعد کوئی نبوت کا دعوٰی کرتا ہے تو اس کے دعوٰی نبوت میں کوئی صداقت نہیں ہے وہ محض جھوٹا اور کذاب ہے عقیدۂ ختم نبوت چونکہ بڑا اہم اور بنیادی عقیدہ تھا تو آپ (ﷺ) نے نہ صرف اپنے بے شمار فرامین اور احادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کی خبر دی بلکہ اپنے غلاموں کو جھوٹے مدعیانِ نبوت سے خبردار بھی کیا جس سے عقیدہ ختم نبوت کی نزاکت اور اس کی فضیلت و اہمیت کا پتہ چلتا ہے لہٰذا زیر نظر مضمون میں ہم عقیدہ ختم نبوت کی فضیلت و اہمیت پر چند احادیث مبارکہ پیش کریں گے-
1-حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِيْ، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰى بَيْتًا فَأَحْسَنَهٗ وَأَجْمَلَهٗ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ، وَيَعْجَبُوْنَ لَهٗ، وَيَقُوْلُوْنَ هَلَّا وُضِعَتْ هٰذِهِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّيْنَ [1]
میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس گھر کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ میں (قصرِ نبوت کی) وہ (آخری) اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں-
2-حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا مجھے چھ وجوہ سے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے:
- أُعْطِيْتُ جَوَامِعُ الْكَلِمِ
مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے
- وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ
اور رعب سے میری مدد کی گئی ہے
- وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ
اور میرے لئے غنیمتوں کو حلال کر دیا گیا ہے
- وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُوْرًا وَمَسْجِدًا
اور تمام روئے زمین کو میرے لئے آلہ طہارت اور نماز کی جگہ بنا دیا گیا ہے
- وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً
اور مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے
- وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّوْنَ[2]
اور مجھ پر نبیوں کو ختم کیا گیا ہے
اس میں نمبر 5 اور نمبر6 ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ ’’تمام مخلوق کی طرف‘‘ نبی بن کے آنے سے مراد ہی یہی ہے کہ اب کسی اور نبی کی ضرورت نہیں رہ گئی ، سرکار (ﷺ) کے علاوہ یہ منصب کسی اور نبی کو حاصل نہیں کہ اس کی نبوت کو کل عالمین کیلئے عموم عطا کیا گیا ہو-چونکہ آپ سب عالمین کی طرف نبی بن کے آئے اس لئے چھٹے نمبر میں مزید وضاحت سے فرما دیا کہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے-
3-عبد اللہ بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک میں نے حضرت ابو ہریرہ سے سنا ،وہ فرماتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
فَإِنِّيْ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدِيْ آخِرُ الْمَسَاجِدِ[3]
میں آخر الانبیاء ہوں اور میری مسجد آخر المساجد ہے-(یعنی آخری مساجد الانیباء ہے)
4-حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ :
كَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهٗ نَبِيٌّ وَ إِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ وَسَيَكُوْنُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُوْنَ[4]
بنی اسرائیل کا ملکی انتظام ان کے انبیاء کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہوجاتا تو اس کا قائم مقام دوسرا نبی ہو جاتا اور بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے میرے بعد بہ کثرت خلفاء ہوں گے-
5-محمد بن جبیر اپنے والد حضرت جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
لِيْ خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِيْ الَّذِيْ يَمْحُو اللهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِيْ يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِيْ وَأَنَا الْعَاقِبُ [5]
میرے کئی نام ہیں میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں اللہ میرے سبب سے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے-میں عاقب (آخر میں مبعوث ہونے والا) ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا-
6-اسماعیل بن ابی خالد بیان کرتے ہیں کہ:
قُلْتُ لِابْنِ أَبِيْ أَوْفٰى رَأَيْتَ إِبْرَاهِيْمَ ابْنَ النَّبِيِّ (ﷺ)؟ قَالَ: مَاتَ صَغِيْرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ (ﷺ) نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهٗ، وَلَكِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهٗ[6]
میں نے حضرت عبد اللہ بن اوفی سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ (ﷺ) کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کو دیکھا تھا! انہوں نے کہا وہ کم سنی میں وصال فرما گئے تھے اگر ان کے لئے آپ کے بعد زندہ رہنا مقدر ہوتا تو وہ نبی ہوتے لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے-
7-حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا، آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ[7]
نبوت میں سے صرف مبشرات باقی ہیں مسلمانوں نے پوچھا یا رسول اللہ (ﷺ) مبشرات کیا ہیں تو آپ (ﷺ)نے فرمایا اچھے خواب-
8-حضرت مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ :
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ (ﷺ) خَرَجَ إِلَى تَبُوْكَ، وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا، فَقَالَ: أَتُخَلِّفُنِيْ فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ:أَلَا تَرْضٰى أَنْ تَكُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ، مِنْ مُوسٰى إِلَّا أَنَّهٗ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ [8]
جب آپ (ﷺ)تبوک کی طرف نکلے تو آپ نے اپنے پیچھے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنایا تو انہوں نے عرض کی کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنا رہے ہیں تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا تم میرے لئے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ ؑ کے لئے ہارون تھے-مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا-
9-حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أُوْتُوْا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوْتِيْنَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ[9]
ہم آخری (نبی) ہیں لیکن قیامت کے دن سبقت کرنے والے ہیں ان کو ہم سے پہلے کتاب عطا کی گئی اور ہم کو ان کے بعد عطا کی گئی-
10-حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَيَكُوْنَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيْمَةٌ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ كَذَّابُوْنَ قَرِيْبًا مِنْ ثَلاَثِيْنَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهٗ رَسُوْلُ اللهِ[10]
قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوگروہوں کے درمیان بہت بڑی جنگ ہوگی ان دونوں کا دعوٰی ایک ہوگا اور قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس دجال و کذاب ظاہر ہوں گے ان میں سے ہرایک کا گمان ہوگا کہ بے شک وہ اللہ کا رسول ہے-
11-حضرت جابر بن عبد اللہ محبوب کریم (ﷺ) سے روایت فرماتے ہیں کہ:
أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَّمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ[11]
میں تمام رسولوں کا قائد ہوں لیکن اس پر فخر نہیں-میں خاتم النبیین ہوں لیکن فخر نہیں اور میں پہلا شافع اور مشفع ہوں لیکن فخر نہیں-
12-حضرت عِرباض بن ساریہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
إِنِّيْ عِنْدَ اللهِ مَكْتُوْبٌ بِخَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِيْنَتِهِ[12]
بے شک میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا اور بے شک (اس وقت) حضرت آدم ؑ اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے-
13-حضرت سہل بن سعد بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے چچا حضرت عباس کو فرمایا کہ:
أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَهُ وَقَالَ: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَأَبْنَاءِ الْعَبَّاسِ وَ أَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْعَبَّاسِ[13]
میں خاتم النبیین ہوں پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا یا اللہ حضرت عباس اور ان کے بیٹوں اور ان کے پوتوں کی بخشش فرما-
14-حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ:
إِ نَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَّ[14]
بے شک رسالت و نبوت ختم ہو چکی ہےپس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی کوئی نبی ہے-
15-حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
لَوْ كَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ[15]
اگر کوئی میرے بعد نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے-
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) سب سے آخری نبی ہیں- آپ (ﷺ) کے بعد کوئی نبی نہیں-نبوت کا جو سلسلہ ابو البشر حضرت آدم ؑ سے شروع ہوا تھا وہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) پر ختم ہو چکا ہے قرآن مجید کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی رسالت عامہ کو کمال صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے آپ نے مختلف تمثیلات کے ذریعے خاتم النبیین کے معنیٰ کو بلیغ انداز سے واضح فرما دیا ہے-آپ (ﷺ) نے نبوت کو ایک محل سے تشبیہ دے کر خود کو اس کی آخری اینٹ قرار دیا جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ قصر نبوت مکمل ہوچکنے کے بعد اب اس اس میں ایک اینٹ کی گنجائش بھی نہیں ہے آپ نے احادیث مبارکہ میں خاتم النبیین کی صراحت ’’لا نبی بعدی‘‘ کے الفاظ کے ذریعے فرما کر ہر قسم کی نبوت کے امکان کی کلیتاً نفی فرما دی-آپ نے اپنے بعد نبوت کا جھوٹا دعوٰی کرنے والوں کی پیشگی خبر دے کر امت کو بروقت ان کے فتنے سے خبردار کیا- آپ (ﷺ) نے حضرت عمر اور حضرت علیؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کیلئے بھی امکانِ نبوت کی نفی فرما کر، اُمتی نبی کے تصور ہی کو جڑ سے کاٹ کر معدوم کر دیا-آپ (ﷺ) نے اپنی زبانِ حق سے واضح فرمادیا کہ میرے بعد کوئی نبی بھی مبعوث نہیں ہوگا-البتہ میرے بعد امت میں خلفاء ہوں گے اس سے ثابت ہوا کہ امتِ محمدی (ﷺ) میں کوئی شخص خلیفۃ الرسول تو ہوسکتا ہے مگر نبی نہیں ہو سکتا-اسی طرح آپ(ﷺ) نے فرمایا کہ میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارات ہیں جو کہ نیک خواب ہیں-اس فرمان اقدس سے آپ (ﷺ) نے اس امکان کی نفی فرما دی کہ کوئی شخص عالم خواب میں ہونے والی بشارات کی بنیاد پر دعوٰی نبوت کردے-
الغرض! حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے بعد نبوت کے ہر احتمال اور امکان کی کلیتاً نفی فرما کر عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے-اسی طرح صحابہ کرام اور تابعین نے بھی اپنے قول و عمل کے ذریعے نہ صرف عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت کی بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس عقیدہ کی فضیلت و اہمیت کو بھی اجاگر کیا-
حضرت حبیب بن زید انصاری کو آقا کریم (ﷺ) نے یمامہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا تو اس نے حضرت حبیب کو کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں-
اس نے پھر کہا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو حضرت حبیب نے جواب دیا کہ میں بہرا ہوں میں تیرا کلام نہیں سنتا وہ ظالم آپ کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا اور یہی سوال دہراتا رہا اور حضرت حبیب اس کو یہی جواب دیتے رہے-یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے-[16]
اس واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کے دل میں عقیدۂ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت کس قدر اجاگر تھی-
تابعین میں سے حضرت ابو مسلم خولانی جن کا اصل نام عبد اللہ بن ثوب ہے، ان کی داستان بھی قابل رشک اور قابل ذکر ہے-آپ یمن کے رہنے والے تھے، آقا کریم (ﷺ) کے عہد مبارک میں ہی ایمان لائے لیکن آپ (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں حاضری کا موقع نہ مل سکا-یمن میں اسود عنسی نامی شخص نبوت کا جھوٹا دعویدار ظاہر ہوا-وہ لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرتا تھا، اس نے حضرت ابو مسلم خولانی کو اپنے پاس بلوایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی تو ابو مسلم نے انکار کیا-پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم حضرت محمد (ﷺ) کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ ہاں میں ایمان رکھتا ہوں-اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ جلائی اور حضرت ابو مسلم کو اس آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے آگ بے اثر ہوگئی اور آپ صحیح سلامت رہے-یہ صورتحال دیکھ کر اسود عنسی اور اس کے پیروکاروں پر خوف طاری ہوگیا اور انہوں نے اسود عنسی کو مشورہ دیا کہ ان کو جلا وطن کردو ورنہ ان کی وجہ سے تمہارے متبعین کا ایمان متزلزل ہو جائے گا چنانچہ آپ کو جلا وطن کر دیا گیا-آپ یمن سے نکل کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے-اس وقت آپ (ﷺ) کا وصال مبارک ہو چکا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ تھے جب ان سے ملاقات ہوئی اور سارا حال سنایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ (ﷺ) کے اس شخص کی زیارت کرائی ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اللہ جیسا معاملہ فرمایا-[17]
مذکورہ واقعہ سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ حضرت ابو مسلم خولانی کے دل پر عقیدہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت کی اتنی گہری چھاپ تھی کہ انہوں نے آگ میں جانا تو قبول کر لیا لیکن ذرا بھر بھی آپ اس عقیدے سے متزلزل نہیں ہوئے جس کی وجہ سے اللہ پاک نے آپ کو محفوظ رکھا-
عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے صحابہ کرام ؓ کا اس بات پر باقاعدہ اجماع ہوا کہ مدعیءِ نبوت واجب القتل ہے-آپ (ﷺ) کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں ہوئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کی تعداد 259 ہے؛ اور تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہدِ خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ میں لڑی گئی اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ اور تابعین کی تعداد 1200 ہے جن میں سے 700 قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے تو گویا کہ صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جامِ شہادت نوش کر گئی تو اس سے عقیدہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے-
٭٭٭
[1]( صحيح البخاری، بَابُ خَاتِمِ النَّبِيِّينَ (ﷺ)
[2]( صحیح مسلم، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَ مَوَاضِعِ الصَّلَاةَ)
[3]( صحیح مسلم بَابُ فَضْلِ الصَّلَاةِ بِمَسْجِدَيْ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ)
[4]( صحيح البخاري، بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ)
[5]( صحيح البخاري بَابُ مَا جَاءَ فِي أَسْمَاءِ رَسُولِ اللَّهِ (ﷺ)
[6](صحيح البخاري، بَابُ مَنْ سَمَّى بِأَسْمَاءِ الأَنْبِيَاءِ)
[7]( صحيح البخاري،بَابُ المُبَشِّرَاتِ)
[8]( صحيح البخاري، بَابُ غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهِيَ غَزْوَةُ العُسْرَةِ)
[9]( صحيح البخاري بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَ الصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ؟)
[10]( صحيح البخاري بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ)
[11]( سنن الدارمي بَابُ مَا أُعْطِيَ النَّبِيُّ (ﷺ) مِنَ الْفَضْلِ)
[12](صحيح ابن حبان، جز:14، ص:313)
[13](المعجم الكبير، جز:6، ص:205)
[14]( سنن الترمذی، بَابُ ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَ بَقِيَتِ المُبَشِّرَاتُ)
[15]( سنن الترمذي بَابٌ فِي مَنَاقِبِ أَبِي حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ (ؓ)
[16](الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جز:1، ص:320)
[17](الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جز:4، ص:175)