حضور نبی کریم خاتم النبیین (ﷺ) کی زندگی مُبارک کا کوئی گوشہ ایسانہیں ہے جس میں آپ (ﷺ) نے اُمت کو یا دنہ رکھا ہو، چاہئےغارِ ثورہو،غارِ حرا ہو،بدر کا میدان ہو ،سفرِ معراج ہو،دن کا اُجالاہو یا رات کی تنہائیاں،دنیا ہو یا آخرت، عالم ِ برزخ ہو یا عالم ِ حشر حضور رسالت مآب (ﷺ)نے کسی مقام پر بھی اُمت کو تنہا نہیں چھوڑا، اگر حضور نبی کریم (ﷺ) کی حیاتِ مُبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بعض دفعہ آپ (ﷺ) ساری رات مُصلے پرکھڑے ہو کر اُمت کیلئے دعا مانگتے مانگتے صُبح فرما دیتے -[1]
ایک دفعہ آپ (ﷺ)نے اُمت کو ہمیشہ کی مُشقت سے بچانے کی خاطرسائل کے تین دفعہ پوچھنے پرکہ یارسول اللہ (ﷺ)! کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ (ﷺ) خاموش رہے ’ہاں‘ نہ فرمائی بعد میں فرمایا: لَوْ قُلْتُ:نَعَمْ لَوَجَبَتْ، اگرمَیں’’ہاں‘‘کہ دیتاتوحج ہرسال فرض ہو جاتا، وَ لَمَا اسْتَطَعْتُمْ اور تم اس کی ادائیگی کیا طاقت نہ رکھتے-[2] آپ (ﷺ) قدم قدم پر اُمت کا خیال فرماتے،رسول اللہ (ﷺ) جب اپنےصحابہ کرام ؓ میں سے کسی کو بھی کہیں کام کے لیے بھیجتے تو آپ (ﷺ) اُسے خصوصی حکم فرماتے : ’’بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا‘‘ ( لوگوں کو ) بشارتیں دو اور متنفر نہ کرو- ’’وَيَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا‘‘ اور (لوگوں کیلئے) آسانیاں پیدا کرو ، مشکلات پید انہ کرو -[3]
آقاکریم (ﷺ) کا اُمت کیلئے دَرد مند ہُونا ،اُمت کے لیے پریشان ہونا ،ہر وقت اُمت کی اصلاح،اُس کے غلبے اور اُس کی تعمیرو ترقی کے لیے متفکر رہنا یہ اِس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بھیجا ہی ایسی شان کے ساتھ تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘[4]
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے- تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے- (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘-ا
یہ ’’عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ‘‘ کی عملی تفسیر تھی کہ آپ (ﷺ) نے قیامت تک آنے والے ہر ہر فتنے سے اُمت کو خبر دار کیا تاکہ میری اُمت اُن فتنوں سے محفوظ رہ سکے - سیدنا حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! رسول اللہ (ﷺ) نے دنیا ختم ہونے تک تمام فتنہ گروں کو جو تین سو یا کچھ زیادہ ہیں ، مگر ہم کو اُن کے نام بتا دئیے، اُس کا نام، اُس کے باپ کا نام اور اُس کے قبیلے کا نام،[5] اُنہی فتنوں میں سے ایک فتنہ ’’انکارِ ختم نبوت‘‘ کا ہے- میرے کریم اور رحیم آقا پاک (ﷺ) نے اِس فتنے کے بارے میں بھی اپنی اُمت کو خبردار فرمایا ہے تاکہ اُمت اِس فتنے سے بھی محفوظ رہ سکے -
حضرت ثوبان ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:اور بے شک عنقریب میری اُمت میں30 دجال ہوں گے اُن میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ مَیں خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں-[6]
اِن کذابوں کا دعوٰی کرنا ہی حضور نبی پاک (ﷺ) کی ختم نبوت کی حقانیت و صداقت پر دلیل ہے کیونکہ مسلمان پہلے سے اِس سے باخبر ہے پس جب اِن کذابوں کے اس جھوٹے دعوٰی کی خبر سنتا ہے تو اُس کا ایمان اور عقیدہ آپ (ﷺ) کی ختم نبوت پر اوربھی مضبوط ہو جاتا ہے کیونکہ آقا کریم (ﷺ) نے اُمت کو پہلے ہی سے مُطلع فرما دیا تھا کہ مَیں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں-
آپ (ﷺ) کے بعد جو بھی نبوت کا دعوٰی کرے گا وہ کذاب اور جھوٹا ہوگا-پوری اُمت کا اِس عقیدے پر اجماع ہو چکا ہے کہ آپ (ﷺ) کے بعدسوائے حضرت عیسیؑ کے کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ (ﷺ) ہی خاتم النبیین ہیں-
اِس مختصر تمہید کے بعد عقیدہ ختم نبوت سے متعلق اپنی گزارشات کوچار حصوں میں تقسیم کیا ہے -
پہلا حصہ :
صاحبان علم اور صاحبِ تحقیق شخصیات نے عقیدۂ ختم نبوت کے اثبات اور منکرین ختم نبوت کے فریب کارانہ اور دجالی جھوٹے دعوؤں کو قرآن کریم کی ایک سو سے اوپر آیات کریمہ سے واضح کیا ہے ؛اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر قرآن مجید کو بطورِ وحی کے دیکھا جائے تو سارا قرآن ہی آقا کریم (ﷺ) کی ختم نبوت کی دلیل ہے کیونکہ قرآن مجید آخری وحی ہے تو نزول قرآن کے بعد وحی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا ہے- اگرآپ (ﷺ) کے بعد کسی نبی نے آنا ہوتا تو وحی کا دروازہ بند نہ کیا جاتا کیونکہ وحی نبوت کاخاصہ ہے- یہی عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت کی دلیل ہے اور اِسی عقیدہ پر سورہ البقرہ کی اِس ابتدائی آیت کریمہ کی گواہی بھی موجود ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَج ‘‘[7]
’’اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں‘‘-
اِس آیت کریمہ میں یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ جو وحی آپ (ﷺ) پر نازل ہوئی اُس پر ایمان لایا جائے اور جو وحی آپ (ﷺ) سے پہلے نازل ہوئی اُس پر ایمان لایا جائے اور اگر آپ (ﷺ) کے بعد بھی وحی کا نزول ممکن ہوتا تو بعد میں آنے والی وحی پر بھی ایمان لانا ضروری قرار دیا جاتا، تو جب اِن دو و حیوں پر ایمان لانے کے علاوہ کسی تیسری وحی پر ایمان لانے کا ذکر نہیں ہے، تو اِس سے معلوم یہ ہُوا کہ سیدنا حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کے بعد نزول وحی کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے منقطع ہو گیا اور آپ (ﷺ) کے اوپر نبوت ختم ہو گئی،آپ (ﷺ) کے بعد کوئی نبی اور رسول مبعوث نہیں ہو گا، جیسا کہ سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا:
’’ إِنَّهُ قَدِ انْقَطَعَ الْوَحْيُ وَتَمَّ الدِّين ‘‘[8]
’’بے شک وحی منقطع ہو چکی اور دین مکمل ہو چکا ‘‘-
گویا نزولِ قرآن کے بعد وحی کے منقطع ہوجا نے اور دین کے مکمل ہو جانے کا کا مل یقین رکھنا، یہ ہمارے عقائد میں شامل ہے جبکہ اِس کے برعکس عقیدہ رکھنا کفر ہے -
اِسی عقیدے (آپ (ﷺ) کے بعد نزولِ وحی کا اعتقاد رکھنا کفر ہے) کوحضور سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ العزیز (المتوفی : 1039ھ) نے ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں بیان فرمایا ہے -[9]
شيخ الاسلام، امام ابن حجر مکی ہیتمی (المتوفى: 974ھ) نے اِسی عقیدہ کو اپنے فتاوی میں یوں رقم فرمایا ہے:
’’جو شخص حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ)کے بعد نزولِ وحی کا اعتقاد رکھے وہ باجماعِ مسلمین کافر ہے‘‘-[10]
کیونکہ وحی نبوت کا خاصہ ہے تو نزولِ قرآن کے بعد نزولِ وحی کے اعتقاد رکھنے کا مطلب یہ گا کہ وہ آپ (ﷺ) کے بعد نئے نبی کے آنے کے جائز ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو تمام سَلف و خَلف نے ایسا اعتقاد رکھنے کو کفر قرار دیا ہے ‘‘-
گویا کہ پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نزولِ قرآن کے بعد وحی نازل نہیں ہوسکتی؛ اور معلوم ہے کہ وحی ہے کیا؟ وحی نبی کا خدا سے رابطے کا ذریعہ ہے تو جب وحی کا نزول ممکن ہی نہیں نبی کا خدا سے رابطہ ہی نہ ہوا، اور جس نبی کا خدا سے رابطہ ہی نہ ہو وہ نبی کیسے؟ اس کی نبوت کیسی؟معلوم ہوا کہ وحی کے بغیر نبوت کا کوئی تصور نہیں ہے-
حصول و پختگیٔ ہدایت کے لئے قرآن مجید کی چار آیاتِ مبارکہ پیش کرتا ہوں: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ‘‘[11]
’’اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے جنہیں ہم وحی کرتے ‘‘-
’’وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ‘‘[12]
’’اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے‘‘-
’’وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلاَّ رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ‘‘[13]
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ سے پہلے (بھی) مردوں کو ہی (رسول بنا کر) بھیجا تھا ہم ان کی طرف وحی بھیجا کرتے تھے‘‘-
’’ وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآءُط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ ‘‘[14]
’’اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ ؑ سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لیے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا)، بے شک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے‘‘-
ان تمام آیات کریمہ سے واضح ہے کہ وحی کے بغیر نبوت کا کوئی تصور نہیں ہے اور جب اس پر اجماع ہو چکا ہے کہ نزولِ قرآن کے بعد نزولِ وحی ممکن نہیں ہے تو پھر نبوت کیسے ممکن ہوئی؟؟؟تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی نبوت کا دعوٰی کرے گا وہ جھوٹ و فریب کاری کے سوا کچھ نہیں -
دوسرا حصہ :
دُوسر ی بات یہ ہے کہ اِس وحی (یعنی قرآن مجید ) کے ہوتے ہوئے قیامت تک کسی اور وحی کی ضرورت نہیں ہو گی اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس وحی کو یعنی قرآن مجید کو ہی قیامت تک کیلئے کافی قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اِس وحی (قرآن مجید) میں قیامت تک کے لوگوں کی رہنمائی کیلئے مکمل سَامان موجود ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِيْنَ ‘‘[15]
’’یہ (قرآن) تو سارے جہان والوں کیلیے نصیحت ہی ہے‘‘-
علامہ ابو البركات عبد الله بن احمد النسفی (المتوفى: 710ھ) تفسیر نسفی میں اِسی آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’ یعنی قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے تمام جنوں اور انسانوں کے لیے نصیحت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے مجھ پر نازل کیا ہے سو میں اِسی قرآن مجید کی تمہیں تبلیغ کرتا ہوں ‘‘-
یہی وجہ تھی کہ قیامت تک آنے والے لوگوں کو اِس وحی (قرآن پاک) کی اتباع کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
’’اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآءَ ط‘‘‘[16]
’’(اے لوگو!) تم اس (قرآن) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے اور اس کے غیروں میں سے (باطل حاکموں اور) دوستوں کے پیچھے مت چلو‘‘-
اِس آیتِ کریمہ اور مفسرین کرام کی وضاحت سے یہ واضح ہوا کہ جب آپ (ﷺ) پر نازل ہونے والی وحی (قرآن) میں قیامت تک کے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی اور پند و نصیحت کا مکمل سامان موجود ہے اور اِس وحی (قرآن) کو ہر قسم کی تحریف و تبدیلی اور کمی و بیشی سے بھی ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا گیا ہے -جس پر قرآن مجید کی گواہی موجود ہے:
’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘[17]
’’بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے‘‘-
تو پھر ایسی وحی (قرآن) کے ہوتے ہوئے کسی اور وحی کی ضرورت ہی کیا ہے؟اور جب کسی وحی کی ضرورت ہی نہ رہی تو پھربلامقصد اور بلا ضرورت وحی کا نزول کیسے ہوسکتا ہے؟ اور جب وحی کا نزول ہو ہی نہیں سکتا، ممکن ہی نہیں ہے اور وحی تو نبی کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا واحد ذریعہ ہوتا ہے، جو نزولِ قرآن کے بعد ہمیشہ کیلئے بندکر دیا گیا ہے تو پھر وہ نبوت کیسی جس میں بندوں کیلئے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا کوئی پیغام ہی نہ ہو؟ حالانکہ متکلمین نے یہ لکھا ہے کہ نبوت و رسالت اللہ اور بندوں کے درمیان ہے ہی سفارت کاری کا نام - تو پھربلامقصد اور بلا ضرورت وحی کا نزول کیسے ؟ اور بلامقصد اور بلا ضرورت نبوت کیسی؟؟ ؟
گویا اِس کا صرف یہ ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم خاتم النبیین میرے کریم آقا و مولیٰ (ﷺ) کی ذات بابرکات پر نزول قرآن کے بعد کسی وحی کے نزول کا دعوٰی کرنا یا کسی بھی معانی میں جھوٹی نبوت کا دعوی کرنا سوائے کذب بیانی، دوکھے،فریب، دجل،فراڈ اور جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے -
تاریخ اسلام کا سب سے بڑا اِجماع، خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام ؓ کا جس مسئلہ پر ہوا ہے وہ یہی ختم نبوت کا مسئلہ تھا کہ نہ تو نزول قرآن کے بعد وحی نازل ہو سکتی ہے اور نہ آپ (ﷺ) کی بعثت کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کا تصور کیا جا سکتا ہے ،آقا کریم (ﷺ) نے اُمت کو بتلا دیا تھا :
’’ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ‘‘[18]
’’مَیں خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘
اِس لئے اُمت نے اِن کذابوں کے جھوٹی نبوت کے دعواؤں کو نہ کبھی قبول کیا تھا، نہ کیا ہے اور نہ کبھی کرے گی -
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ (ﷺ) پر نازل ہونے والی وحی (قرآن) قیامت تک آنے والے تمام جن و انس کی ہدایت و رہنمائی کیلئے کافی ہے تو پھر اِس کے ساتھ اِس بات کو بھی ذہن نشین کر لیں کہ آقا پاک (ﷺ) قیامت تک تمام جن و انس کو اِسی وحی (قرآن) کے ذریعے ڈرانے والے ہیں، کیونکہ آپ (ﷺ) کوقیامت تک پیدا ہونے والے تمام جن و انس کیلئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک تمام جن وانس کی ہدایت و رہنمائی کرنا آقا پاک (ﷺ) کے فرائض نبوت میں سے ہے- علمائے حق نے پورے ایقان کے ساتھ لکھا ہے کہ فیضان نبوت پورے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور رہے گا جس میں ایک لمحہ کا بھی انقطاع ہے نہ ہو گا -
مفتی بغداد علامہ شہاب الدين محمود آلوسی (المتوفى: 1270ھ) ’’تفسیر روح المعانی‘‘ میں ’’وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
إشارة إلى عدم انقطاع فيضه صلّى الله تعالى عليه وسلم عن أمته إلى يوم القيامة،
’’اِس (آیت) میں آپ (ﷺ) کے فیض کا آپ (ﷺ) کی اُمت سے تا قیامت ختم نہ ہونے کا اشارہ ہے‘‘-
یعنی اِس سے یہ معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا فیض اپنی اُمت سے تاقیامت منقطع نہیں ہو گا (یعنی پورے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہے گا )
عارف باللہ شیخ علامہ إسماعيل حقی الحنفی (المتوفى: 1127ھ) ’’تفسیر روح البیان‘‘ میں سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیات مُبارک کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’صحابہ کرام ؓ کے عموماً بلا واسطہ مُعلم خود حضور نبی پاک (ﷺ) اور تابعین اور اُن کے بعد ہر قرن میں ہر ایک کے مُعلم بھی آپ(ﷺ) ہیں لیکن اُمت کے وارثین اور دین و ملت کے کاملین کے (اور قرآن کریم کے) واسطہ سے‘‘-
اِس آیت کریمہ اور مفسرین کرام کی وضاحت سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ آپ (ﷺ) سے تمام جن و انس کو ہدایت و رہنمائی مل رہی ہے بغیر ایک لمحہ کے انقطاع کے، ہاں کسی کو بالواسطہ اور کسی کو براہ راست یعنی بلاواسطہ -تو پھر یہاں پر کسی نئے نبی کی ضرورت کا سوال ہی کیسے پیدا ہو سکتا ہے ؟
چونکہ نبی کی بعثت تو جن و انس کی رشد و ہدایت کیلئے ہوتی ہے وہ تو پہلے سے فیضان نبوت محمدی (ﷺ) کی صورت میں اُمت میں بغیر انقطاع کے جاری و ساری ہے اور تاقیام قیامت جاری رہے گا - تو پھر بلا مقصد نبوت کیسی ؟؟؟
تو اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بعثت مصطفے (ﷺ) کے بعد جوبھی نبوت کا دعوٰی کرے گا وہ سوائے فریب کاری ، جھوٹ اور دوکھے کے کچھ بھی نہیں ہو گا -
تیسرا حصہ :
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:
’’وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَط‘‘[19]
’’ اور میری طرف یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے تمہیں اور ہر اُس شخص کو جس تک (یہ قرآن) پہنچے ڈر سناؤں‘‘-
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مُفسرین کرام نے واضح طور پر لکھا ہے کہ تمام جن و انس کوحضور نبی پاک (ﷺ) کی طرف سے ہدایت و رہنمائی مل رہی ہے اور قیام قیامت تک ملتی رہے گی کسی کو براہ راست اور کسی کو بالواسطہ جن میں سے چند حوالے پیش خدمت ہیں: [20]
اِس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام کے منقول شدہ مختلف اقوال میں سے یہاں پر صرف حضرت ابن زید اور حضرت محمد بن کعب قُرَظِیؓ کے چندا قوال نقل کرتے ہیں :
’’حضرت ابن زید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: جس کو قرآن پہنچا ’’فأنا نذيره‘‘ پس مَیں اُس کا نذیر ہوں (یعنی مَیں اُس کو ڈرانے والا ہوں)‘‘-
حضرت ابن زیدکی دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے ، فرماتے ہیں: جس کو بھی (یہ)قرآن پہنچے، تو رسول اللہ (ﷺ) خود اُس کے نذیر ہیں -
حضرت محمد بن کعب قُرَظِی سے روایت ہے فرماتے ہیں : جس کو قرآن پہنچا بے شک اُس کو نبی پاک (ﷺ) نے خود تبلیغ فرمائی -
حضرت محمد بن کعب قُرَظِیؒ کی دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے،فرمایا: جس تک قرآن پہنچا گویا کہ اُس نے حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی زیارت (یعنی آپ (ﷺ) سے ملاقات) کی اور اُس نے آپ (ﷺ) سے قرآن سُنا -
علامہ ابو البركات عبد الله بن احمد بن محمود النسفی (المتوفى: 710ھ) تفسیر نسفی میں اِسی آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں :
’’یعنی مَیں اِس قرآن مجید کے ذریعے اُن لوگوں کو قیامت تک ڈر سناتا رہوں جن لوگوں تک یہ قرآن پاک پہنچتا ر ہے گا اور حد یث شریف میں ہے کہ جس شخص کے پاس یہ قر آن مجید پہنچ گیا تو گویا کہ اُس نے حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) کی زیارت کی (یعنی ملاقات)‘‘-
امام المفسرین امام قاضی بيضاوی (المتوفى:685ھ) ’’تفسیر بیضاوی‘‘ میں اِسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’یعنی اے اہل مکہ مَیں تمہیں اِس قرآن کے ذریعے ڈراؤں اور اُن تمام کو جن کو یہ قرآن پہنچے ، چاہے وہ سیاہ ہوں یا سرخ یا ثقلین (جنوں اور انسانوں) میں سے ہوں، یا اے موجود لوگو مَیں تمہیں اِس قرآن کے ذریعے ڈراؤں اور قیامت کے دن تک جس کو قرآن پہنچے اُن کو بھی اور اِس میں دلیل ہے کہ قرآن کریم کے احکام نزولِ قرآن کے وقت تمام موجود لوگوں اور اُس کے بعد کے تمام لوگوں کیلیے عام ہیں‘‘-
سورۃ الجمعہ کی دوسری اور تیسری آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام فخرالدین الرازی الشافعی (المتوفی:606ھ) ’’تفسیر کبیر‘‘میں لکھتے ہیں:
’’یعنی آپ (ﷺ)صحابہ کرام کو بھی تعلیم دیتے ہیں اور بعد میں آنے والوں کو بھی تعلیم فرماتے ہیں‘‘-[21]
فتاوی حدیثیہ میں ہے کہ جب شیخ الاسلام امام ابن حجر ہیتمی مکی (المتوفى: 974ھ)سے سوال کیا گیا:
’’هَل يُمكن الْآن الِاجْتِمَاع بِالنَّبِيِّ (ﷺ) فِي الْيَقَظَة والتلقي مِنْهُ ‘‘
’’کیا اب بھی حضور پاک (ﷺ) سے حالت بیداری میں اکٹھے ہونا اور آپ (ﷺ) سے ملاقات کرنا ممکن ہے ؟ ‘‘
ناچیز سمجھتا ہے کہ سائل کا مطلب یہ تھا کہ کیا اب بھی حضور نبی پاک خاتم الانبیاء والمرسلین سے حالت بیداری میں اکتساب فیض حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ کیا اب بھی آپ (ﷺ) سے راہنمائی لی جا سکتی ہے ؟
تو شیخ ابن حجر نے جواباً فرمایا: ہاں یعنی اب بھی حالت بیداری میں آپ(ﷺ) سے ہدایت و راہنمائی لی جاسکتی ہے اور پھر آپ نے جواب لکھا اور جواب کے آخر میں یہ روایت نقل فرمائی کہ جب ولی اللہ نے دورانِ درس، فقیہ سے فرمایا کہ یہ حدیث باطل ہے تو فقیہ نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ تو اُس ولی نے فرمایا:
’’فقال ھذالنبی (ﷺ) واقف علی راسک یقول انی لم أقل ھذا الحدیث وکشف للفقیہ فرأہ‘‘[22]
’’حضور نبی کریم (ﷺ) یہ تیرے سر کے پاس تشریف فرما ہیں اورفرمارہے ہیں کہ مَیں نے یہ حدیث نہیں فرمائی، بعد میں اُس بزرگ نے اُس فقیہ کو بھی زیارت کروا دی‘‘-
حضرت امام جلال الدین سیوطیؒ (المتوفى: 911ھ) ’’الحاوی للفتاوی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ شیخ خلیفہ بن موسی النھر ملکی کے اکثر افعال حالتِ بیداری میں حضور نبی کریم (ﷺ) سے اخذ شدہ تھے - [23]
شیخ احمد بن مُبارک ’’الابریز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مَیں نے حضرت شیخ عبدالعزیز دباغ ؒ سے اِس آیت ’’یَمْحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُ‘‘[24] کے متعلق دریافت کیا کہ علماء تفسیر کا اس میں بہت سا اختلاف ہے (آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں ) حضرت شیخ نے فرمایا :
’’لا أفسر لكم الآية إلا بما سمعت من النبي (ﷺ) یذكره لنافي تفسيرها بالأمس ‘‘[25]
’’مَیں اِس آیت کی وہی تفسیر بیان کروں گا جو آپ (ﷺ) سے میں نے سنی تھی جو ہمارے لئے کل آقا کریم (ﷺ) نے اس آیت کی تفسیر بیان فرمائی تھی‘‘-
دیوبند مکتبۂ فکر کے ایک بہت بڑے محدث اور شارح بخاری علامہ شیخ انورشاہ کشمیری (متوفی:1352ھ) ’’فیض الباری شرح صحیح بخاری ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’علامہ شعرانی نے بھی بیداری میں رسول اللہ (ﷺ) کی زیارت کی اور آٹھ ساتھیوں کے ساتھ آپ(ﷺ) سے ’صحیح بخاری‘پڑھی، اُن آٹھ میں سے ایک حنفی تھا‘‘- [26]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تما م حوالہ جات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) اَب بھی کسی کو براہ راست رشد و ہدایت عطا فرما رہے ہیں،کسی کو قرآن مجید کے ذریعے سے، کسی کو اُمت کے وارثین اور دین و ملت کے کاملین کےواسطے سے- الغرض! فیضان نبوت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تسلسل کے ساتھ بغیر کسی انقطاع کے ہر لمحہ ہر لحظہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے اور تمام عالم انسانیت و جِنات اور زمان و مکان کو سیراب کئے جا رہا ہے، ایک لمحہ کیلئے بھی ساکت نہیں ہے اور تاقیام قیامت تمام جن و انس آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت کے فیضان سے رشدو ہدایت کے جام پورے تسلسل کے ساتھ بغیر کسی انقطاع کے بَھر بَھر کے لئے جارہے ہیں اور لئے جاتے رہیں گے تو ذرا سا بھی عقل و شعور رکھنے والا شخص یہ بتائے کہ جس محبوب پاک (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کیلئے جمیع خلق کی ہدایت و راہنمائی کیلئے رسول بنا کر بھیجا ہو اور اُس ذات پاک (ﷺ) کا فیض بھی تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہو اور اُس محبوب پاک (ﷺ) سے جمیع خلق براہ راست، بلا واسطہ بھی مستفیض ہو رہی ہو اور بالواسطہ بھی،جس میں ایک لمحہ کا بھی انقطاع نہ ہو تو ایمان سے بتائیے ،وہاں پر کسی نئے نبی کی نبوت کے پنپنے کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟
واللہ ، باللہ! وہاں تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا، چہ جائیکہ کوئی کذاب،مفتری، دجال، گمراہ اور گمراہ گر، اپنی فریب کارانہ جھوٹی نبوت کے اعلان کرنے کا سوچ سکے -
چوتھا حصہ :
خالقِ اَرض و سماء نے آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت کے دائرہ کار کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے جیسا کہ سورۃ الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَۨا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ ‘‘[27]
’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے‘‘-
امام فخر الدین الرازی الشافعی (المتوفی :606ھ)’’ تفسیر کبیر‘‘اور علامہ ابو حفص سراج الدين عمر بن علی الحنبلی (المتوفى: 775ھ) ’’تفسیراللباب فی علوم الكتاب‘‘ میں اِسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:
’’هَذِهِ الْآيَةُ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ مُحَمَّدًا عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ مَبْعُوثٌ إِلَى جَمِيْعِ الْخَلْقِ‘‘[28]
’’یہ آیت اِس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ سیدنا حضرت محمد(ﷺ) تمام مخلوق کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں‘‘-
آقاکریم (ﷺ) کا جمیع خلق کی طرف مَبعوث کیا جانا اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ آپ (ﷺ) کی رسالت کی دعوت قیامت تک تمام مخلوق کیلئے ہے اور تمام مخلوق آپ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانے کی مکلف ہے یعنی کائنات انسانی میں خواہ اُس کا تعلق کسی بھی رنگ ،نسل ، قوم ،علاقہ اور زبان سے ہو آپ(ﷺ) اُس کے نبی اور رسول ہوں گے کیونکہ آپ (ﷺ) کی بعثت جمیع خلق کیلئے ہے -
تو اس سے یہ واضح ہوا کہ کوئی بھی جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والا کذاب، دجال، مفتری، اگراللہ تعالیٰ کو خالق مانتا ہے اور اپنے آپ کو مخلوق اور انسانیت کی فہرست میں شمار کرتا ہے تو وہ آقا کریم (ﷺ) کی نبوت و رسالت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا-یا تو آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت اور ختم نبوت پر ایمان لا کر مسلمان ہو جائےگا یا انکار کر کے کافر ہوجائے گا-اگر آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت پرایمان نہیں لاتا اور ختم نبوت کا انکار کرتا ہے تو انکار کرتے ہی کافر ہو جائے گا اب وہ مسلمان نہیں رہا، اب اگر وہ جھوٹی نبوت کا دعوٰی کرے گا تو کفر کی بنیاد پر کرے گا - تو کافر نبی کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ آقا پاک (ﷺ) کی نبوت و رسالت اور آپ (ﷺ) کی ختم نبوت کے انکار نے تو اُسے اسلام سے پہلے ہی باہر نکال دیا تھا - تو اِس سے واضح ہوا کہ جو بھی دجال، مفتری اور کذاب جھوٹی نبوت کا دعوٰی کرے گا تو وہ کفر کی بنیاد پر کرے گا اور کافر نبی نہیں ہو سکتا -
آخر میں حضور سیدی مرشدی حضور جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب دامت برکاتہم العالیہ سرپرست اعلی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر پورے اسلام کی عمارت قائم ہے - اگر اِس عقیدے میں ذرا بھر بھی شکوک و شبہات کی دراڑ پیدا ہو گئی تو اسلام کی پوری عمارت دھڑام سے گر جائے گی، اِس لئے آج دشمنِ اسلام اپنے پورے کر و فر اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ مسلمانوں کا اِس عقیدہ سے تعلق کمزور کرنے پر سر توڑ کوششیں کر رہا ہے اور سادہ لوح مسلمانوں کو مختلف د ُنیاوی مراعات کا جھانسہ دے کر قادیانی بنایا جا رہا ہے تو ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنے تمام اہل و عیال کو بحیثیت مُسلمان ہونے کے اِسلام کے جُملہ عقائد اور خاص کر عقیدہ ختم نبوت سے مُتعلق عقلی اور نقلی دونوں طریقوں سے اُن کی تربیت کریں، جسمانی اور روحانی پاکیزگی، تزکیہ اور طہارت کے لحاظ سے لمحہ بہ لمحہ اُن کی خبر لیتے رہیں اور وقتاً فوقتاً اُن کے اخلاقیات اور عادات کو جانچتے رہیں کیونکہ یہی ہماری قوم و ملک اور ملت کا عظیم سرمایا ہیں- شاعر مشرق ، ترجمانِ اسلام، محافظ عقیدۂ ختم نبوت حضرت علامہ محمد اقبال ؒ ختم نبوت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
پس خدا بَر ما شریعت ختم کرد |
’’اللہ تعالیٰ نے شریعت ہم پر ختم کردی ہے جیسے رسول پاک (ﷺ) پر رسالت ختم کردی ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) کے بعد کسی اور نبی کا نہ آنا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس سے ناموسِ دینِ مصطفےٰ کا تحفظ ہے‘‘-
٭٭٭
[1](مُسند احمد، ج:8،ص:554،دارالکتب العلمیہ، بیروت و لبنان)
[2]( صحیح مسلم ،کتا ب الحج)
[3]( صحيح البخاری، کتاب العلم)
[4](التوبہ:128)
[5]( سنن أبی داود ، كِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ)
[6](سنن ترمذی، ابواب الفتن)
[7]( البقرہ:4)
[8]( مشكاة المصابيح ،كتاب المناقب)
[9](کلید التوحید کلاں،جز:1، ص:141، العارفین پبلی کیشنز)
[10]( الفتاوى الفقہيۃ الكبرى ، جز :4 ، ص: ،194 ، المكتبۃ الإسلامیۃ)
[11](الیوسف:109)
[12](النحل:43)
[13](الانبیاء:7)
[14](الشورٰی:51)
[15](سورۃ ص:87)
[16]( الاعراف : 3)
[17](الحجر:9)
[18]( سنن الترمذی، ابواب الفتن)
[19](الانعام:19)
[20]( تفسیر طبری /تفسیر قرطبی/تفسیر ابن کثیر، زیر آیت الانعام : 19)
[21](التفسیرالکبیر، ج:15، جز:30 ص:5، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
[22]( فتاوی حدیثیہ ،جز: 1، ص: 212)
[23](الحاوی للفتاوی، ج:2، ص:246، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
[24](الرعد:39)
[25]( اَلْاِبْرِیز من کلام سیدی عبدالعزیز دباغ ،جز: 1، ص:226،المکتبۃ العصریہ ،بیروت ،لبنان)
[26](فیض الباری شرح صحیح بخاری، ج:1، ص:292، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
[27](اعراف:158)
[28]( تفسیر کبیر ، تفسیراللباب فی علوم الكتاب)