ابتدائیہ:
مسلمانانِ برصغیر کی انتھک محنت اور ولولے کے نتیجے میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کی حا مل ہندوستانی قیا دت نے انگریز کے ساتھ مل کر جہاں پاکستان کے لیے بے شمار مسا ئل پیدا کیے وہا ں ریا ستوں کے الحا ق کے حوالہ سے بڑی مکاری اور دوہرے معیارات کا مظاہرہ کیا جیسا کہ ریاست جموں و کشمیر اور حیدر ا ٓباد دکن پر غیر قانونی قبضہ کرنا بہر حال ریاست جونا گڑھ کا معاملہ ان سب سے الگ ہے کیونکہ ریاست جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ مکمل الحاق کر لیا تھا - جس کو ریاست پاکستان نے بھی تسلیم کر لیا تھا - لہٰذا یہ زمین کا ٹکڑا پاکستان کا ایک باقاعدہ حصہ بن گیا- انڈیا نے جونا گڑھ پر حملہ کر کے عالمی قوا نین کی خلاف ورزی کر تے ہوئے ریاست پاکستان کے جائز قانونی حصے پر قبضہ جمالیا- زیر نظر مضمون کا مقصد ریاست جونا گڑھ کی پاکستان کے ملکی قانون میں حیثیت معلوم کرنا ہے-
دستاویز الحاق:
پاکستان کے ملکی قانون میں ریاست جوناگڑھ کی حیثیت معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے دستاویزِ الحاق جوناگڑھ کی قانونی حیثیت جاننا ضروری ہے-
- ریاست جوناگڑھ کو قانون آزادی ہند 1947ء کے تحت یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ جس ریاست کے ساتھ چاہے الحاق کرے- [1]
نواب آف جونا گڑھ نے ریاست جوناگڑھ کی کونسل کے ساتھ مشاورت کے بعد اپنا حق استعمال کیا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی قانونی دستاویز تیار کی-
- قانونِ آزادی ہند 1947ء نے پاکستان اور انڈیا کو یہ اختیار دیا تھا کہ جو ریاست ان کے ساتھ شامل ہونا چاہے ان کو شامل کر لیں تو گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے یہ حق استعمال فرمایا اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی منظوری کے بعد دستاویز الحاق جونا گڑھ پر دستخط ثبت کئے-
- ریاست جوناگڑھ نے الحاق پاکستان کا فیصلہ جوناگڑھ کے سرکاری گزٹ جسے دستورُالعمل سرکار جوناگڑھ کہاجاتاہے میں 15اگست 1947ء کو شائع کیا- [2]
درج بالا تاریخی معلومات بتاتی ہیں کہ دستاویزِ الحاق جونا گڑھ نا صرف ایک قانونی دستاویز ہے بلکہ عالمی قانون اور ملکی قانون دونوں میں قابل قبول شہادت کا درجہ رکھتی ہے -
دستورساز اسمبلی:
پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے جوناگڑھ کوپاکستان کے ملکی قانون میں قانونی حیثیت دی- دستور ساز اسمبلی کی منظوری کے بعد ہی قائداعظم محمد علی جناح نے دستاویز الحاق جوناگڑھ پر دستخط ثبت کیے- بعد ازاں محترم وفاقی وزیر سفیران نے الحاق کی دستاویز 11فروری1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں پیش کی اسی طرح پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے جونا گڑھ کو پاکستان کا قانونی حصہ بنادیا-
انتظامیہ کامؤ قف:
ایڈمنسٹریٹولاء کسی بھی ملک کے قانون کا اہم حصہ ہوتا ہے- ملکی انتظامیہ کا ہرعمل اورحکم اس کے قانون کو واضح کرتا ہے- پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے ریاست جوناگڑھ کی حیثیت کو پاکستانی قانون میں مکمل واضح کردیا- جب لیاقت علی خان کو جواہرلال نہرو نے جونا گڑھ کے ہندوستانی قبضے کے متعلق آگاہ کیا تو پاکستان کے وزیر اعظم نے جواب دیا:
”سر زمین جوناگڑھ پاکستان کاحصہ ہے پاکستانی حکومت کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ کسی کو جوناگڑھ بلائے- پاکستانی وزیراعظم نے ہندوستان کے جوناگڑھ پرقبضے کو ننگی جارحیت اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا‘‘-[3]
زیادہ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نہرو نے بھی تسلیم کیاکہ جونا گڑھ ہندوستان کا حصہ نہیں ہے اوراس نے جواب دیا:
’’مخصوص حالات کے پیش نظر جو کہ جونا گڑھ کے دیوان نے پیش کیے ہیں- ہمارے مقامی کمشنرنے عارضی طور پر جوناگڑھ کا انتظام سنبھال لیاہے یہ سب کچھ بدنظمی اور انتشار سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے تاہم یہ قبضہ جاری رکھنے کی ہماری کوئی خواہش نہیں ہے ہم جونا گڑھ کی عوام کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کا جلد حل چاہتے ہیں- ہم پہلے ہی آپ کو بتا چکے ہیں کہ آخری فیصلہ ریفرینڈم کے ذریعے کیا جائے گا ہم اس مسئلے کو اور جونا گڑھ سے جڑے اور معاملات کو آپ کی حکومت کے نمائندوں سے بحث کرنا چاہتے ہیں-ہم نواب صاحب کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی اپنے نمائندے اس کانفرنس میں ضرور بھیجے‘‘-[4]
پاکستان کے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی نے جواباًکہا:
”تمہارا ٹیلی گرام جس میں ہندوستانی قبضے کے متعلق بتایا گیا ہے میں نے 10نومبر 1947ء کو حاصل کیا-تمہارا پاکستانی حکومت کی اجازت اور حقیقتاً اور ہمارے علم میں دیے بغیر جونا گڑھ کا انتظام سنبھالنا اور ہندوستانی افواج کو جونا گڑھ بھیجنا پاکستانی سرحدی حدود کی اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے‘‘-[5]
وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پریس بیان جاری کیا جس میں کہا:
’’بے حد اشتعال دلانے کے باوجود ہم نے فوجی تصادم سے گریز کیا اگرچہ ہم جونا گڑھ میں فوج بھیجنے کا مکمل حق رکھتے تھے مگر ابھی تک ہم نے ایک فوجی بھی نہیں بھیجا‘‘- [6]
دساتیرِ پاکستان:
دستور پاکستان 1956ء، دستور پاکستان 1962ء اور دستور پاکستان 1973ء یہ واضح کرچکے ہیں کہ جو ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرتی ہیں وہ پاکستان کا حصہ ہیں- [7]
ڈاک ٹکٹ:
حکومت پاکستان نے ریاست جونا گڑھ کو پاکستان کے ڈاک ٹکٹ میں شامل کیا-اس طرح حکومت پاکستان نے اپنے عمل سے بھی ریاست جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ قرار دیا-
”یہ ٹکٹیں حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کی گئی جن پر جونا گڑھ اور مناودر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا-ایک عالمی ٹکٹ کی نمائش کے موقع پر دوآنہ اور تین پیسہ ٹکٹ کی سپیشل ٹکٹ کے طور پر نمائش کی گئی‘‘-[8]
نیا سیاسی نقشہ:
گورنمنٹ آف پاکستان نے نیا سیاسی نقشہ2020ء میں جاری کیا اس نقشے میں مقبوضہ جموں کشمیر کو مقبوضہ علاقہ واضح ظاہر کرنے کے ساتھ جونا گڑھ کو پاکستان کے نقشہ میں شامل کیا گیا ہے- اس طرح حکومت پاکستان نے آفیشلی طور پر جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ تسلیم کیاہے-
وزیر اعظم پاکستان نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور کہا:
”وفاقی کابینہ کے منظور کیے جانے کے بعد اب یہ پاکستان کا آفیشل میپ ہوگاجو کہ سکولوں اور کالجوں میں استعمال ہوگا‘‘-[9]
نواب آف جونا گڑھ نواب جہانگیر خانجی اور دیوان آف جونا گڑھ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے عمران خان اور اس کی کابینہ کا نئے سیاسی نقشہ کے اجراء اور اس میں جونا گڑھ کی شمولیت پر شکریہ ادا کیا-
سیفران کا کردار:
سب سے پہلے سیفران منسٹری نے ہی جونا گڑھ سٹیٹ کے الحاق پاکستان کی دستاویز کو پہلی قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا یہ منسٹری ریاستوں اور سرحدی امور کے متعلق امور سر انجام دینے کی ذمہ دار ہے اس سے قطع نظر کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد کوئی حکومت جونا گڑھ Cause پر اپنا بھر پور کردار ادا نہیں کر سکی مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے-
ریاستوں اور سرحدی امور پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اپنے حالیہ اجلاس میں مسئلہ جونا گڑھ پر بحث کی ہے جس کے اعلامیہ میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جونا گڑھ کے مسئلہ کو عالمی سطح پر بھر پور طریقے سے اُجاگر کرے- [10]
ضروری اقدامات:
درج بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے ملکی قانون کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے جونا گڑھ پاکستان کا حصہ ہے مگر جونا گڑھ کی قانونی حیثیت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے چند اقدامات نہایت ہی ضروری ہیں-
I. وفاقی مقننہ میں نمائندگی:
چونکہ جونا گڑھ پاکستان کاحصہ ہے تو جونا گڑھ کی آبادی پاکستان کی آبادی ہے عملاً جونا گڑھ کی آبادی دو حصوں میں تقسیم ہے:
- پاکستان میں رہنے والی جونا گڑھ کمیونٹی-
- انڈیا کے زیر تسلط بسنے والی جونا گڑھ کمیونٹی-
چاہے پاکستان میں رہنے والی جونا گڑھ کمیونٹی ہو یا انڈیا کے زیر تسلط بسنے والی کمیونٹی دونوں کو پاکستان کی وفاقی مقننہ میں نمائندگی کا مکمل حق ہے- حکومت پاکستان اور مجلس شوریٰ کو چاہیے کہ وفاقی مقننہ میں جونا گڑھ کمیونٹی کیلئے سیٹیں مختص کریں جو کہ دو حصوں میں تقسیم کی جائیں ان میں سے نصف سیٹوں پر جونا گڑھ کمیونٹی کے ووٹ کی بنیا د پر نمائندے منتخب کئے جائیں اور آدھی سیٹیں انڈیا کے زیر تسلط جونا گڑھ آبادی کیلئے خالی رکھی جائیں- اگر انڈیا، گلگت بلتستان کے لیے جموں و کشمیر اسمبلی میں اپنے جعلی مؤقف کی بنیا دپرسیٹیں مختص کر سکتا ہے تو پاکستان کو اپنے قانونی حصہ کی آبادی کیلئے ایساکرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیئے-
II. جونا گڑھ اسمبلی کا قیام:
جس طرح پاکستان میں ہر صوبے، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کی نمائندگی کے لیے ان کی اسمبلیاں موجود ہیں اسی طرح جونا گڑھ کمیونٹی جو پاکستان میں رہ رہی ہے ان کی نمائندگی کے لیے جونا گڑھ اسمبلی کا قیام ناگزیر ہے-
III. نئی وزارت کا قیام:
مسئلہ جونا گڑھ اور جونا گڑھ کمیونٹی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے وزارت امورِ کشمیر کی طرح مخصوص وزارت کا قیام عمل میں لایا جائے- وزارت قائم کرنے سے نہ صر ف کمیونٹی کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوگی بلکہ اس سے کمیونٹی کی قانونی حیثیت بھی مستحکم ہوگی-
IV. تمام شعبہ ہائے زندگی میں نمائندگی:
جونا گڑھ کمیونٹی کو پاکستانی قانون میں مخصوص حیثیت رکھنے کی بناء پر تمام شعبہ ہائے زندگی میں علیحدہ نمائندگی دی جائے- مثلاً پاکستان سول سروسز میں جس طرح تمام صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لیے الگ الگ کوٹہ ہوتا ہے جونا گڑھ کمیونٹی کے لیے بھی کوٹہ مختص کیا جائے ایسا کرنے سے جونا گڑھ کمیونٹی کی ملکی قانون میں قانونی پوزیشن واضح ہوگی-
اختتامیہ:
حاصل کلام یہ ہے کہ جونا گڑھ عالمی قانون کے تحت پاکستان کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ملکی قانون کے مطابق بھی پاکستان کا حصہ ہے- ملکی قانون کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے جونا گڑھ کی قانونی حیثیت بالکل واضح ہے تاہم چند ضروری اقدامات سرانجام دینے سے جونا گڑھ کی قانونی حیثیت مزیدمستحکم کی جاسکتی ہے-
٭٭٭
[1]The text of Indian independence ACT of 1947
[2]Menon, V.P. the story of the integration of Indian states. London: Orient Longman. 2014.
[3]Adul Thaplawla, Illegal occupation of Junagadh A Pakistani territory Karachi: 2008.
[4]Ibid
[5]Ibid
[6]Ibid
[7]The text of constitution of Pakistan 1973.
[8]Abdul Thaplawala, Illegal occupation of Junagadh A Pakistani Territory Karachi: 2008.
[9]Dawn, August 4, 2020, https://www.dawn.com/news/1572590/in-landmark-move-pm-Imran-Unveils-new-Political-map-of-Pakastan
[10]The Express Tribune, October 20, 2020, https://tribune.com.Pk/story/2269123/govt-told-to-highlight-issue-of-Junagadh-State