انڈین آزادی ایکٹ 1947ء کے تحت ہندوستان کی تمام شاہی ریاستیں آزادانہ طور پر یہ فیصلہ کرسکتی تھیں کہ وہ چاہیں تو مکمل طور پر آزاد رہیں یا پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرلیں- جونا گڑھ ریاست کےعزت مآب نواب مہابت خانجی نے ریاست کی سٹیٹ کونسل(جس میں تمام کمیونٹیز کے نمائندے شامل تھے) سے مشاورت کے بعد پاکستان کےساتھ الحاق کافیصلہ کیا-
15 ستمبر 1947ء کو جونا گڑھ ریاست کا پاکستان کے ساتھ باقاعدہ الحاق ہوا اور جونا گڑھ ریاست باضابطہ طور پر پاکستان کی Dominion کا حصہ بن گئی- Instrument of accession کو نواب مہابت خانجی نے بانی پاکستان کو فارورڈ کیا اور انہوں نے اسے قبول کیا- جوناگڑھ کی تمام ریاستی عمارتوں پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ جونا گڑھ اب باقاعدہ طور پر پاکستانی سر زمین کا حصہ ہے-
پاکستان اور جونا گڑھ کے درمیان الحاق کے دستاویزات (Instrument of Accession)ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جوکہ معاہدوں کے قانون پر ویانا کنونشن 1969ء کا مکمل پابند ہے جس کےآرٹیکل 2 کے تحت:
’’معاہدے کا مطلب ہے ایک بین الاقوامی معاہدہ جو ریاستوں کے مابین تحریری شکل میں اختتام پذیر ہوتا ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت چلتا ہے، چاہے وہ کسی ایک آلے میں ہو یا دو یا اس سے زیادہ متعلقہ آلات میں اور جو بھی اس کا مخصوص عہدہ ہو‘‘-
اس لئے پاکستان کا جونا گڑھ کے ساتھ معاہدہ تمام بین الاقوامی اصولوں کے عین مطابق تھا-
معاہدے میں بنیادی تین چیزیں حکومتِ پاکستان کے پاس تھیں جن میں فارن افیئرز آف سٹیٹ، ڈیفنس اور کمیونیکیشنز شامل تھیں- اس کے علاوہ باقی تمام چیزیں ریاست کے پاس تھی-
بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے کےلیے تیار نہیں تھا- نہرو، پٹیل اور دیگر نے پاکستان کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اورتمام شاہی ریاستوں کو ڈرایا اور دھمکایا تاکہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق نہ کرسکیں- جب بھارت کو ریاستِ جونا گڑھ کا پاکستان کے ساتھ الحاق برداشت نہ ہوا تو بھارت نے 9 نومبر 1947ء کو جونا گڑھ میں اپنی افواج داخل کر دی اور طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے ریاست پر غاصبانہ قبضہ کرلیا-
ہندوستان نے جوناگڑھ پر جو قبضہ کیااس کی کئی وجوہات تھیں اِس قبضےکے چند قانونی پہلوؤں کا یہاں جائزہ لیتے ہیں- اقوامِ متحدہ کا چارٹر جس کے پاکستان اور ہندوستان دونوں پابند ہیں، اس چارٹر کی ابتداء ہی اس بات سے ہوتی ہے کہ اقوام ِ متحدہ اس بات کویقینی بنائے گی کہ کوئی ریاست زور زبردستی، ناانصافی اور Act of aggression نہ کرے- ہندوستان نے جونا گڑھ میں جو کیا وہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی تھی کہ ہندوستان نے وہاں پر ناانصافی اور Act of aggression کا مظاہرہ کیا- بھارت نے جان بوجھ کر جارحیت پسندانہ عمل کرتے ہوئے پاکستان کی خود مختاری کو نقصان پہنچایا جوکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 شق 4 کی سراسرخلاف ورزی تھی-
فورتھ جنیوا کنونیشن کا آرٹیکل45 کہتاہے کہ کوئی بھی فورس جو کسی علاقے پر قابض ہے اسے یہ حق نہیں کہ وہ طاقت کے بل بوتے پہ وہاں کے لوگوں سے اپنی وفاداری کا عہد لیں- ہندوستان جب جونا گڑھ پر اپنا قبضہ مکمل کرتا ہے تو وہاں پرسینکڑوں کی تعداد میں توپیں اور ٹینکس نصب کردیے گئے اور ہرسر پر ایک ایک فوجی بندوق تانے کھڑا تھا جیسے آج ہم کشمیر میں دیکھتے ہیں کہ کس طرح کشمیر ایک ملٹری سٹیٹ بنا ہوا ہے اسی طرح ہندوستان نے جوناگڑھ پر ملٹری قبضہ کیا ہوا تھا- ٹینکوں کی آمد سے جونا گڑھ کی زمین لرز رہی تھی اور لوگوں میں خوف و ہراس تھا- ہندوستانی وہاں پر اتنی بڑی تعداد میں ٹینکوں اور توپوں کے ساتھ گئے، ان ٹینکوں اور توپوں کے سائے میں ریفرنڈم کروایا جبکہ اس ریفرنڈم کی بین الاقوامی قانون میں کوئی حیثیت نہیں تھی- اگر ہم ریفرنڈم کا رزلٹ دیکھیں تو وہ 99.9 فیصد یا اس سے بھی کچھ زیادہ تھا- فورتھ ہاگ ریزولیوشن کا آرٹیکل 45 کہتا ہےکہ:
’’مقبوضہ علاقے کے باشندوں کو دشمن طاقت سے تابعداری اور ماتحتی کرنے پر مجبور کرنا منع ہے‘‘-
تو اس بین الاقوامی قانون کے تناظر میں جو ریفرنڈم کروایا گیا تھا وہ کالعدم ٹھہرتا ہے-
قابض قوت کا طرزِ عمل قبضے کے قانون کے تحت چلتا ہے خاص طور پر بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون (IHL) جسے جنگ کے قوانین (Jus in bello) کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون (IHRL) بھی کہا جاتا ہے- بھارت نے جونا گڑھ پر دشمن فوج کے طور پر غیر قانونی قبضہ کیا جو کہ ہاگ کے ضابطے 1907 (HR) کے آرٹیکل 42 کی خلاف ورزی تھی- آرٹیکل 42 بیان کرتا ہے کہ:
’’وہ علاقہ مقبوضہ سمجھا جاتا ہے جو دشمن فوج کے اختیار میں ہو- قبضہ اس علاقے تک پھیلا ہوتاہے جہاں دشمن فوج کااختیار قائم ہو اور اسے استعمال کر سکتا ہو‘‘-
جونا گڑھ بہت امیرریاست تھی جس کی اپنی سونے کی کانیں تھیں- اربوں ڈالرز کے جواہرات تھے تو قابض بھارتی فوج نے وہاں پر لوٹ کھسوٹ کی-فورتھ جنیوا کنونشن کا آرٹیکل 47 کہتا ہے:
“Pillage is formally forbidden”.
مطلب جو بھی قابض طاقت آتی ہے اسے یہ اجازت نہیں کہ لوٹ کھسوٹ کرے، تو نوابوں کی اربوں کھربوں کی جائیداد اور جواہرات تھے، ہندوستان نے نہ صرف ان کو لوٹا بلکہ لوگوں کی جان و مال کو بھی نقصان پہنچایا- اس لیے بھارت کا یہ عمل بھی مکمل طور پر غیرقانونی تھا-
عام طور پر تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اور لٹریچر میں ایک بات کی جاتی ہے کہ ہندوستان کا جو قبضہ ہے اس کے مقابلے میں مزاحمت نہیں کی گئی تو اسی فورتھ جنیوا کنونشن کا آرٹیکل 2 اس کی وضاحت کرتا ہے کہ اگر کسی جگہ پر مزاحمت نہیں بھی ہوئی تو قابض فوج کا قبضہ ہمیشہ غیرقانونی ہی رہتا ہے-
فورتھ جنیواکنونشن کا آرٹیکل 2 بین الاقوامی دشمنی کے دوران قبضہ شدہ کسی بھی علاقے پر لاگو ہوتا ہے- وہ ایسے حالات میں بھی لاگو ہوتے ہیں جہاں ریاستی علاقے پر قبضہ بغیر کسی مسلح مزاحمت کے ہوتا ہے-
مطلب کہ ایک پتھر بھی نہ پھینکا جائے اورایک نعرہ بھی نہ لگایا جائے تو پھر بھی جو فورس وہاں آکر قابض ہوتی ہے ناجائز ہی تصور کی جاتی ہے- گوکہ کشمیر کے اندر Nature مختلف تھی وہاں پر مزاحمت ہوئی جبکہ جوناگڑھ میں مزاحمت نہیں ہوئی تھی- اس لیے اگر مزاحمت نہیں بھی ہوئی تھی تو بھی جونا گڑھ پر ہندوستان کا قبضہ اسی طرح غیر قانونی اور ناجائز ہے جیسا کہ کشمیر پر -
ان تمام بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں بھارت کا جونا گڑھ پر قبضہ ناجائز اور غیر قانونی تھا- اس مسئلے کے پُر امن حل کےلئےپاکستان نے اقوامِ متحدہ میں جوناگڑھ کا کیس فائل کیا- اقوامِ متحدہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے اور امن کیلئے خطرات کی روک تھام اور خاتمے کے لئےاجتماعی کاروائی کے لئے قائم کیا گیا تھا-
اقوامِ متحدہ کی قرار داد نمبر47،39 اور 51 جونا گڑھ کے مسئلے کو ڈیل کرتی ہے جس میں اقوام متحدہ نے یہ قرار دادیں پاس کیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جتنے بھی تنازعات ہیں بشمول جوناگڑھ ان کے پرامن حل کیلئے فوری اقدامات کیے جائے- ہندوستان کی یہ کوشش تھی کہ 1947ء سے لے کر 1948ء تک اور بعد میں بھی جو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ایجنڈا ڈسکس ہوتا ہے اس کو’’Jammu & Kashmir Question‘‘ رکھا جائے لیکن 20 جنوری 1948ء کو پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے خط کے ذریعے گفتگو کر کے درخواست کا ٹائٹل تبدیل کروایا اور اس میٹنگ کےالفاظ درج ذیل ہیں:
“There was discussion at the 23rd meeting of a change in the agenda which had up to then been titled as Jammu and Kashmir title; this was now altered to the India-Pakistan Question”.
بانی پاکستان اور وزیرِ اعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان کی ہدایت پروزیرِ خارجہ کا اقوامِ متحدہ میں ٹائیٹل تبدیل کروانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت پاکستان اور ہندوستان کے درمیان صرف کشمیر کا تنازعہ نہیں تھا- اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں وکشمیر کا تنازعہ بہت بڑا تھا لیکن اس وقت اور بھی تنازعات تھے اور اس وقت ہندوستان کی یہ کوشش تھی کہ اقوامِ متحدہ میں صرف جموں و کشمیر کے تنازعے پر بحث کی جائے اور باقی تنازعات کو پسِ پشت ڈال دیا جائےلیکن پاکستانی قیادت نے اس ٹائیٹل کو تبدیل کروایا اور پھر اس کے بعد سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں یہ الفاظ تھے:
“Though with the understanding of the Kashmir Question would be discussed first as a particular case of the general India Pakistan dispute.” Though this would not mean that consideration the other issue of the Pakistan’s complaint would be postponed”.
بدقسمتی سے ہماری آئندہ آنے والی حکومتوں کی نااہلی اور نالائقی اس چیز کا سبب بنی جس کا پاکستان نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا- یہ اصول خود بانیانِ پاکستان نے طے کیے اور ان کی ہدایات پر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کا فارن آفس معاملات کو بخوبی دیکھ رہا تھا اس لیے ان تمام بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں بھارت کا جونا گڑ ھ پر غاصبانہ قبضہ سراسر غیرقانونی اور ناجائز تھا جو کہ دراصل پاکستان کے وقار اور سالمیت پر حملہ تھا-
گورنمنٹ آف پاکستان کو چاہیےکہ اس بین الاقوامی معاملےکے حل کیلئے جونا گڑھ کا کیس عالمی عدالتِ انصاف میں لے کر جائے جو کہ اس مسئلے پر اہم کردار اداکرسکتی ہے- کیونکہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے آئین کے آرٹیکل 36 کےمطابق:
’’عدالت کا دائرہ اختیار ان تمام معاملات پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ فریقین اس کو ریفر کرتے ہیں اور تمام معاملات خاص طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر میں یا معاہدوں اور کنونشنوں میں نافذ ہیں‘‘-
اس کے علاوہ جونا گڑھ کا کیس اقوامِ متحدہ میں گزشتہ 70 سالوں سے حل طلب ہے جسے دوبارہ زندہ کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے- اقوامِ عالم کو یہ باور کرانے کیلئے کہ جوناگڑھ پاکستان کا حصہ ہے جوناگڑھ کی ایک مخصوص قانون دانوں کی ٹیم تشکیل دی جائے جو انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن کے سامنے اس مقدمے کو رکھےاور ان سے جونا گڑھ کے قانونی پہلوؤں پر بات کریں تاکہ وہ اپنے متعلقہ ممالک کو جونا گڑھ کے مسئلے سے آگاہ کریں کہ جوناگڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت کا 9 نومبر 1947ء کا غاصبانہ قبضہ غیر قانونی تھا- ہم قائداعظم محمد علی جناح کے سیاسی فالور ہونے کی حیثیت سے جونا گڑھ کےقانونی پہلؤوں پر مکمل یقین رکھتے ہیں- گورنمنٹ آف پاکستان، فارن آفس، دانشوروں، صحافیوں، سیاسی قائدین، وکلاء برادری اور دیگر تمام اداروں کو چاہیےکہ وہ کشمیر کی طرح جونا گڑھ کی بھی اونرشپ لیں اور تحریکِ آزادی جوناگڑھ میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں اسں سے کشمیرکاز کوبھی تقویت ملےگی- اس سب میں سوشل میڈیا ہمارے پاس ایک بہت بڑی طاقت ہے جس کے مثبت استعمال سے ہم دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ 9 نومبر 1947ء کو انتہا پسند بھارت کا جونا گڑھ پر قبضہ غیرقانونی اور ناجائز تھا اور جونا گڑھ پاکستان کا قانونی حصہ تھا، ہےاور ہمیشہ رہےگا-
٭٭٭