srs1984ء میں ایڈم رابرٹس نے لکھا کہ غیر قانونی قبضہ کے جملے کو عام طور پر تب استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی دشمن نا جائز طریقے سے عسکری قوت کے زور پر نا حق قبضہ کر لے- ایک چوتھائی صدی گزرنے کے بعد بھی ایڈم رابرٹس کا قول درست ثابت ہوا ہے- اسی حوالہ سے حق خود ارادیت کی دست اندیزی مباحث کا ایک بڑا موضوع رہا ہے- اسی دست اندیزی کے جرم کے نتیجے میں جس ایڈ بلم (حقِ جنگ) کی خلاف ورزی وقوع پذیرہوتی ہے-
ویانا کنونشن کے آرٹیکل نمبر 26 کے مطابق ریاستِ جونا گڑھ پر بھارت کا قبضہ غیر قانونی ہے اور پاکستان کے حق کو تسلیم کیا جانا چاہئے- موجودہ نواب آف جونا گڑھ نواب محمد جہانگیر خانجی نے بے شمار مواقع پر اس مؤقف کی حمایت کی ہے-
نواب صاحب نے کئی موقعوں پر کہا ہےکہ ریاستِ جونا گڑھ کاپاکستان کے ساتھ الحاق ویانا کنونشن کے لاء آف ٹریٹیز کے تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرتاہے-
قومی اور بین الاقوامی سطح پر جوناگڑھ کے مسئلے کے حل کے لئے غیر سنجیدہ رویے:
پاکستان نے جنوری 1948ء کو جوناگڑھ کا مسئلہ اقوام متحدہ کی اسمبلی میں اٹھایا- سلامتی کونسل نے جوناگڑھ کا مسئلہ کشمیر پینل کو سونپا، جو کہ آج تک حل نہیں ہوا- مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جوناگڑھ کا مسئلہ پسِ پشت ڈال دیا گیا- 2020ء میں حکومت ِپاکستان نے نیا سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں جوناگڑھ، سرکریک اور مناوادر کو پاکستان کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے-
قبضہ یا حالتِ جنگ کے دوران اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کچھ قانون لاگوکرتی ہے جیسے نمیبیا کے بارے میں1971ء میں مشاورتی کونسل نے مقبوضہ ممالک کے متعلق کچھ انسانی نوعیت جیسے چند واضح اصول بیان کیے- بین الاقوامی عدالت برائے انصاف نے Wall Opinion کے فیصلے میں متعین کیا کہ اسرائیل اپنے مقبوضہ علاقوں میں سماجی اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کا پابند ہے- بعین، ہندوستان پر بین الاقوامی حقوق انسانی کے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدہ (آئی سی سی پی آر) اور معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدہ (آئی سی ای ایس آر) کے مطابق اپنے مقبوضہ لوگوں کے حوالہ سے چند فرائض عائد ہوتے ہیں-
عالمی قانون کے مطابق جبراً الحاق غیرقانونی ہے- بین الاقوامی قانون کے مطابق ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے غیر قانونی الحاق کو تسلیم نہ کریں- یورپی یونین کا ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے امورِخارجہ غیر قانونی قبضوں کی صورت میں درجہ ذیل احتیاطی تدابیراختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے-
v ایک واضح اعلان ہونا چاہئے کہ ایسے الحاق کا کوئی اعتراف نہیں کیا جائے گا-
v الحاق کے مُمدومعاون اقدامات جیسے سرمایہ کاری ممنوع ہے-
v اگرقابض ریاست کسی بھی وقت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے تو قابض ریاست کے خلاف جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے-
v وہ افراد جوغیرقانونی قبضہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ذمہ دار ہیں، ان کو اثاثے منجمد اور ویزا پابندی جیسے نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے-
اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہر وہ قبضہ غیر قانونی ہے جو حکمرانی کے قانون کی خلاف ورزی سے کیا گیا ہو- مزید جس کے نتیجے کے طور پر غیر قانونی روایات جنم لیں جو حقِ خودارادیت کی بے حرمتی کا باعث بنے-
ماسوائےسلامتی کونسل کے غیر متزلزل قواعد کے نفاذ کے، جب بھی کوئی ریاست کسی دوسری ریاست پر قبضہ کرتی ہے تو وہ غیر قانونی قبضہ تصور کیا جائے گا خواہ وہ ایک عارضی ہی کیوں نا ہو- اس اصول کی خلاف ورزی کرنے اور طاقت کے بے جا استعمال پر پابندی ہونی چاہیے تاکہ ریاست کے حق کے احترام کے ساتھ لوگوں کے حقِ خود ارادیت کی بھی ذمہ داری نبھائی جا سکے- ریاستوں کو بالآخراس حوالہ سے فیصلہ کرنا چاہیے- ورنہ، حسبِ موقع ریاستیں غیر قانونی قبضہ کو بھی قانونی تصور کریں گی-
قبضے کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی تین عمومی قرار دادوں میں بیان کیا گیا ہے- اقوام متحدہ کے چارٹر:
“The Declaration on Principles of International Law concerning Friendly Relations and Co-operation among States”
جو کہ 1970ء میں اپنایا گیا جس میں واضح کیا گیا کہ چارٹر کی دفعات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زبردستی طاقت کے استعمال کے نتیجے میں کسی ریاست کے علاقے کو فوجی قبضے کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا-
1987ء کے Improving the Effectiveness of the Principle of Not Threatening or Using Force in International Relations کے مطابق:
“Neither the threat or use of power in the acquisition of territory, nor the threat or use of force in the occupancy of territory in violation of international law, will be acknowledged as lawful conquests or occupations.”
’’بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کونہ کسی خطے کے حصول کے دوران طاقت یا دھمکی کا استعمال پر، نا ہی قانونی فتح یا قبضے کے طور پر تسلیم کیا جائے گا‘‘-
بین الاقوامی قانون میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک ریاست جو بین الاقوامی سطح پر غیر قانونی کام کرتی ہے، اس جرم کے متاثرین کو مکمل معاوضہ ادا کرنے کی روادار ہوگی- اسے پہلے قانون کی خلاف ورزی بند کرنا ہوگی- اصل میں قانون کی خلاف ورزی تب تک موجود ہے جب تک قبضہ موجود ہے اس وجہ سے غیر قانونی قبضہ کو فورا ختم کیا جانا چاہیئے حتیٰ کہ قبضہ قانونی بھی ہو تو کسی نہ کسی وقت یہ ختم ہونا چاہیئے مگر ایک غیر قانونی قبضہ کے حوالہ سے اتنی مہلت بھی مہلک ثابت ہوسکتی ہے- بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سرگرمیوں کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کی تلافی بھی ضروری ہے- مثلاً 1969ء کے اعلانیئے کے مطابق جارحیت کرنے والے کو غیر قانونی قبضے کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کیلئے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنا لازمی ہے-
اقوامِ متحدہ نے یوگنڈا کو اتوری کی مسلح سرگرمیوں کے باعث ہونے والے سنگین نقصانات کے لئے جوابدہ ٹھہرایا- فیصلے ہونے سے قبل یوگنڈا عوامی جمہوریہ کانگوکو چھوڑ چکا تھا اس کے باوجود کونسل نے یوگنڈا کو حکم دیا کہ وہ متاثرین کے نقصان کی تلافی کے لئے ان کو معاوضہ ادا کرے-
مزید یہ کہ عراق کے کویت پر قبضے کے خاتمے پر غیر قانونی قبضہ کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کی تلافی کے لئے اس معاملے کو اقوامِ متحدہ میں اٹھایا گیا- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 674 (1990ء) میں کہا گیا کہ عراق، کویت پر حملے اور غیر قانونی قبضے کے نتیجے میں کویتی اور دیگر اقوام کے ساتھ ساتھ ان کے رہائشیوں اور کاروباروں کو پیش آنے والے کسی بھی نقصان، ناانصافی/تباہی اور زخمی ہونے والے کی تلافی کا ذمہ دار ہے-
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک کرایہ دار جو کسی بھی مقبوضہ علاقہ میں رہائش پذیر ہو اس کو اپنی حفاظت کے لئے کیا کرنا چاہیئے- والز کے کیس میں، بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے فیصلہ دیا کہ جب کسی ریاست کو مقبوضہ علاقہ میں خطرہ ہو تو اس وقت اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے ذاتی دفاع کا قانون غیر فعال تصور کیا جائے گا- کرسٹین گرے نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ ایک غیر مجاز قابض اپنے دفاع کے حق کو استعمال نہیں کر سکتا - لہذا! مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے اپنے دفاع کے دعوے کو مسترد کیا جانا چاہیئے-
اختتامیہ:
اس مضمون سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیر قانونی قبضہ وہ ہے جو کہ غیرمہذب اصولوں پر مبنی ہوتا ہے- جیسا کے اس مضمون میں مختلف مثالوں سے بیان کیا گیا ہے اگر ان قانونی شرائط کو پورا نہ کیا جائے تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے-
جونا گڑھ کو پاکستان کے قریب لانے کے لیے پاکستان کا مؤقف قومی اور بین الاقوامی سطح پر مزید فعال ہونا چاہیئے جس سے لوگوں کو امید دلائی جا سکے- ریاستِ پاکستان کی جانب سے اسلام آباد میں جوناگڑھ سیکرٹریٹ بنایا جانا چاہیئے- 9 نومبر 1947ء کو ریاستِ جوناگڑھ پر بھارتی قبضہ کے دن کو ایک سیاہ دن کے طور پر نامزد کیا گیا جو کہ سرکاری سطح پر منعقد کیا جانا چاہیئے- مسئلہ جوناگڑھ پر باقاعدہ آگاہی کیلئے سیمینارز اور کانفرنسز منعقد کروائی جانی چاہئیں تاکہ عوام کو اس مسئلے کی اہمیت کا ادراک ہو- ریاستِ جوناگڑھ کے الحاق پر پاکستان کا مؤقف قانونی طور پر بہت مضبوط ہے اس لئے اس مسئلہ کو اقوامِ متحدہ میں پورے اعتماد کےساتھ اٹھانا چاہیے-
حوالہ جات:
Ankit Rakesh, (2016) “The Accession of Junagarh, 1947-48: Colonial Sovereignty, State Violence and Post-Independence India” The Indian Economic and Social History Review, 53(3), pp. 1-34
Eyal Benvenisti, (2012) ‘Occupation, belligerent’, in Rüdiger Wolfrum (ed.), Max Planck Encyclopedia of Public International Law, Oxford University Press, p. 920, para. 1
ICTY, The Prosecutor v. Mladen Naletilic and Vinko Martinovic, Case No. IT-98-34-T, Judgment (Trial Chamber), 31 March 2003, para. 214
ICRC, “Occupation and Other Forms of Administration of Foreign Territory”
Kontorovich Eugene, (2017) “Unsettled: A Global Study of Settlements in Occupied Territories” (Oxford University Press(
Koutroulis Vaios, (2012) “The Application of International Humanitarian Law and International Human Rights Law in Situation of Prolonged Occupation: Only A Matter of Time?”, International Review of the Red cross, Vo. 94, Number 885
Muslims Perspectives, (2016) “Discussion on Junagarh: A Tragedy Lost in History” Vol.1, Issue 1,
Raghavan Srinath, (2010) “War and Peace in Modern India” (Palgrave and MacMillan)
Regulations concerning the Laws and Customs of War on Land, annex to the Convention (IV) respecting the Laws and Customs of War on Land,
Research Society of International Law, (2019) “The Law of Occupation and Illegal Annexation”
The Hague, 18 October 1907, available at: http://www.icrc.org/ihl.nsf/WebART/195–200053?OpenDocument. The authentic text of the Convention and the Regulations is the French one.
Yael Ronen, (2012), Illegal Occupation and its consequences, Israel Law Review, Vol. 41, Issue 1-2, pp. 201-245
٭٭٭