جوناگڑھ کے اہم حقائق: ایک طائرانہ نظر

جوناگڑھ کے اہم حقائق: ایک طائرانہ نظر

جوناگڑھ کے اہم حقائق: ایک طائرانہ نظر

مصنف: ڈاکٹر عالیہ سہیل نومبر 2021

تعارف:

جونا گڑھ کے الحاق پاکستان کے فیصلے کے فورًا بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک اجلاس طلب کیا- جس میں پوری قوت کے ساتھ اس الحاق کو روکنے اور ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا- نواب آف جونا گڑھ نواب مہابت خانجی اور قائد اعظم کو دھمکی دی گئی کہ وہ اپنا یہ فیصلہ تبدیل کریں، جس کے انکار کے نتیجے میں انڈیا نے ریاست کی ناکہ بندی کر دی- قائد اعظم اور نواب صاحب کو بدنام کرنے کی ایک منظم مہم شروع کر دی گئی تاکہ جونا گڑھ میں فوجی کاروائی کا جواز ثابت کیا جاسکے- اس تحریر کے مقاصد درجہ ذیل ہیں:

  1. انڈیا کے شیطانی پروپیگنڈہ کی وضاحت
  2. جونا گڑھ کے نوابین کی مثالی حکمرانی کا جائزہ

جھوٹا پروپیگنڈہ:

جوناگڑھ کے مسلمان حکمرانوں کے ترقی پسندانہ اطوار اور اقدامات کو داغدار کرنے کیلئے ان کی بہترین طرز حکمرانی کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا اور حقائق کے برعکس پیش کیا گیاتاکہ جونا گڑھ کا انڈیا کے ساتھ جبری الحاق کیا جا سکے- نوابین پر ان کے شاہانہ طرز زندگی کی وجہ سے تنقید کی گئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ وہ اپنی رعایہ کی فلاح و بہبود کے لئے کام نہیں کر سکتے-مغربی اور انڈین میڈیا نے مسلسل اس پروپیگنڈے کے ساتھ یہ تاثر دیا کہ جونا گڑھ پر حملہ نہیں کیا گیا بلکہ نواب کی حکومت گرنے کے بعد ریاست کی باگ دوڑ کو سنبھالاگیا- گجرات کے وہ اخبارات جو کانگرس کی ملکیت میں تھے انہوں نے کانگریسی ایماء پر ریاست کی طرف سے ہندوؤں پر مظالم کی جھوٹی کہانیاں شائع کرنی شروع کر دیں جس سے ہندوآبادی کے دلوں میں خوف پیدا ہوا اور انہوں نے ہمسایہ ریاستوں میں ہجرت شروع کر دی- یہ بھی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جونا گڑھ ریاست نے مختلف ریاستی اداروں میں سندھی، بلوچ اور پٹھان شامل کر لئے ہیں جو ہندوؤں سے ناروا سلوک کر رہے ہیں-

جوناگڑھ ایک فلاحی ریاست کی شاندار مثال

ورلڈ بینک نے حکمرانی کو اس طرح بیان کیا ہے:

The manner in which power is exercised in the management of a country's economic and social resources for sustainable human development.” [1]

’’مستحکم انسانی ترقی کیلئے ملکی معیشت اور عوامی وسائل کو مربوط انداز میں چلانے کیلئے طاقت کے استعمال کے طریقہ کار کو حکمرانی کہتے ہیں‘‘-

مختلف گروہوں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے اور فیصلہ کرنے کے لئے ایک سیاسی نظام کے تحت قانون متعارف کروایا جاتا ہے- حکومتوں کے فیصلوں سے عوام متاثر ہوتی ہے-آمدن اور صلاحیت کے درمیان تعلق کبھی بھی خودکار یا غیر متزلزل نہیں ہوتا، کسی بھی ریاست کو اچھا حکمران تب تصور کیا جاتا ہے کہ جب وہ آمدن اور معاشی ترقی کو انسانی ترقی میں بدلنے کی اہلیت رکھتی ہو-

مذہبی ہم آہنگی کا قیام:

اگرچہ 1592ء سے جوناگڑھ پر مسلمانوں کی حکومت تھی لیکن اس میں اکثریت آبادی ہندوازم سے تعلق رکھتی تھی- کثیرالنسلی اورمذہبی اختلافات کےباوجود جوناگڑھ کے مختلف گروہ باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے تھے- اس کاعملی مظاہرہ اس بات سے عیاں ہوتا ہے کہ ریاست کی81 فیصد آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی جو بغیر کسی مذہبی پابندیوں کے آرام دہ اور پر امن زندگی گزار رہی تھی- جو درحقیقت مسلم نوابین کی اعلیٰ ترین طرزِحکومت اور برداشت کی عکاسی کرتی ہے جنہوں نےامن پر مبنی ہم آہنگی پر عمل درآمد کو یقینی بنایا-

نوابین نےتمام مذاہب کوعزت دی اور ہندوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کو یقینی بنایا- تقریباً40 گاؤں کی آمدن کو مسلمانوں اور ہندوں کے مقدس مقامات کیلئےمختص کیا گیا تھا- ہردن دوپہر 12 بجے ضرورت مند لوگوں میں بلا امتیازِ رنگ،نسل و مذہب مفت خوراک بانٹی جاتی تھی- اس پُر وقار عمل کو 1947ء میں ریاست پر ہندوستان کے قبضے اور نواب صاحب کی پاکستان ہجرت کے بعد ترک کر دیا گیا-

جامع تعلیم کے لئے اقدامات:

مسلم نوابین نے ایک مکمل ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کیلئے تعلیم کو عام کیا تاکہ معاشرہ کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص تک تعلیم کی رسائی ہو- نواب بہادر خانجی (سوئم)نے تمام طالب علموں کے لئے میٹرک تک مفت تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کیا- انہوں نے فیاض مندانہ طریقے سے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کیلئے وقف کیاتاکہ جوناگڑھ کے طالب علم وہاں آسانی سے داخلہ لے سکیں- نواب رسول خانجی نے اپنے ذاتی وسائل سے ہندوستان میں ایک بہترین مسلم کالج کوقائم کیاجو کہ بہاؤ الدین کالج کے نام سے جانا جاتا ہے- اس کالج میں صرف 15 فیصد طالبعلم مسلمان تھے اور باقی تمام غیر مسلم قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے البتہ بغیر کسی امتیاز کے سب طالبعلموں میں وظائف تقسیم کئے جاتے تھے جو کہ مسلمان نوابین کی سخاوت،  فیاضی اور وسیع مذہبی سوچ کی عکاس ہے-

1867ء میں شاندار عوامی لائیبریری قائم کی گئی جس میں تقریباًبائیس ہزار نایاب اور کئی قیمتی کتب دستیاب تھیں- 30 سال بعد اس کو جونا گڑھ شہر کے وسط میں تین منزلہ عمارت کی صورت دے دی گئی-

معاشی ترقی :

جونا گڑھ صدیوں سے کاٹھیاوار کا ایک اہم معاشی مرکز رہا ہے- نوآبادیاتی دور میں ریاستِ جوناگڑھ کو ہندوستان کی دوسری بڑی خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست سمجھا جاتا تھا- شہزادہ دلاور خانجی نے کاروباری کمپنیوں کےانتظام کے لئے ایک مجلس قائم کی جو ’’مجلسِ دلاور‘‘ (Dilwar Syndicate) کے نام سے جانی جاتی تھی-

ریاستِ جونا گڑھ ہر طرح کی جدید سہولت جیسے اسکول،  کالج، بازار، تفریحی مقامات اور عجائب گھر سے آراستہ تھی- ریاست میں نقل و حرکت کا اپنانظام موجود تھا جن میں بندرگاہیں، ڈاک کا نظام، دھاتی سڑکیں بھی شامل تھیں- 1887ء میں ریاستِ جوناگڑھ کی طرف سے ریلوے کا نظام متعارف کروایا گیا- ریاست کی آمدن کیلئے ایک مربوط نظام موجود تھا- ریاست کی طرف سے مذہبی مقدس مقامات کے لئے زمین بھی وقف کی جاتی تھی- ریاست میں اعلیٰ قسم کے ہسپتال بھی موجود تھے- جن میں شہزادہ البرٹ لیوپروسی ہسپتال سرِفرست ہے جو 1890ء میں قائم کیا گیا-

عدالتی نظام:

اخلاقیات، منطق، فطرت، مذہب، مساوات، شفافیت، قانون کی بالادستی اور انسانو ں کے ناسلب کئے جانے والے اور پیدائشی حقوق کی حفاظت کی بنا پر اخلاقی حق کے تصور کو انصاف کہا جاتا ہے- ریاستِ جوناگڑھ میں انصاف پر مبنی عدالتی نظام موجود تھا جہاں ہر ایک کے ساتھ برابری اور متوازن سلوک برتا جاتا تھا اور صرف قانون ہی کوفوقیت حاصل تھی- سر  فیروزشاہ میٹھا، سرچمن لال اور سیٹھل وار سٹل وار  (Sital War)جیسے معروف قانون دانوں نے اس مقصد کے لئے خدمات سر انجام دی- کیونکہ ہندوآبادی زیادہ پڑھی لکھی تھی اس وجہ سے ریاست کے انتظامی عہدوں پر ہندو فائز تھے- صدیوں سے وہ لوگ مسلم حکام سے دفاداری کے ساتھ ریاست کو خدمات پیش کر رہے تھے-

جمہوری ڈھانچہ:

نواب ہونے کے باوجود جوناگڑھ کے مسلم حاکم نے ہمیشہ جمہوری طریقہ سے اپنے فرائض کو سر انجام دیا- مہابت خان دوئم کے اکتیس سال کے دور حکومت میں کابینہ کا نظام لایا گیا- ریاست کے مختلف شعبہ جات کے امو ر کی باگ دوڈ سنبھالنے اور اس کو احسن انداز میں چلانے کے لئے مختلف وزیروں کی تقرری کی گئی- جنہوں نے ریاست کی فلاح، انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے اور اس کی خوبصورتی کےلئےاپنی خدمات پیش کیں- ریاست کے پاس مختلف وزراء پر مشتمل ایک ریاستی کابینہ کونسل تھی جس کی صدارت ’’دیوان‘‘ کرتے تھے جو کہ ریاست کے وزیرِ اعظم گردانے جاتے تھے- اس کابینہ کے مختلف حصے تھے جن کا تقرر صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ہوتا تھا اور یہ اپنے فرائض انجام دینے کے حوالہ سے مکمل آزاد تھے، مزید یہ کہ ان کے مذکورہ امور کی انجام دہی میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں تھا- اسی طرح ریاست میں سماجی کارکنان، کاروباری شخصیات، ماہرِ تعلیم، سکالر اور زمین داروں میں سے شفافیت کے ساتھ منتخب کئے گئے لوگوں پرمشتمل ایک مشاورتی کونسل بھی تھی جو ریاست کی ضرورت کے مطابق اپنی خدمات سر انجام دیتی تھی-

جونا گڑھ کے شہر کی اپنی میونسپل کمیٹی بھی تھی جو شہر کی صفائی اور دیگر معاملات کومدنظر رکھتی تھی- مزیدیہ کہ امن اور انصاف کو یقینی بنانے کےلئے ’’پنچایت‘‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا-

ماحول دوستانہ اقدامات:

جونا گڑھ جنگلوں، پہاڑوں اور وسیع زرخیز زمین پر مشتمل ہے اسی وجہ سے نواب مہابت خانجی سوئم نے کاشت کاری کو فروغ دیا- جانوروں سے محبت کی وجہ سے نواب صاحب نے مویشیوں پربہت زیادہ خرچ کیامثلاً گیرگائے، کاٹھیواری گھوڑے اور اعلیٰ نسل کے کتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا- ان جانوروں کا اتنی اچھے طریقے سے خیال رکھا گیا کہ ان میں سے اکثر نے ریاستی مقابلوں میں انعامات حاصل کئے-

نوابین کی طرف سے جنگلات کی بقا ءکے لئے بہت سخت قانون عمل درآمد کروائے گئے- نواب مہابت خانجی سوئم کو ایشیائی شیر کی نسل کو ناپید ہونے سے بچائے جانے کی کوششوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہےکہ انہوں نے گیرکو ایک محفوظ جنگل بنایا-آج بھی گِیر ایشیائی شیر کے مسکن کی اکلوتی جگہ ہے-

اختتامیہ:

بھارت کا نوابین کےترقی، خوشحالی، استحکام اور ہم آہنگی سے بھرئے ہوئے دور کے اصل چہرے کو مسخ کرنے کا پروپیگنڈا جھوٹا اور بے بنیادہے، کیونکہ صدیوں سے نوابین جونا گڑھ انصاف پر مبنی حکومتیں چلاتے آئے ہیں- آخر میں موجودہ نواب آف جوناگڑھ نواب محمد جہانگیر خانجی صاحب صوفیائےکرام کی تعظیم، اپنے پختہ عزم کی بنا پر اور دیوان ریاستِ جوناگڑھ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب جو کہ مسلم انسٹیٹیوٹ کےمسلم دنیا میں امن، استحکام اور قیادت کے مشن کے لئے اپنی زندگی وقف کئے ہوئے ہیں، آپ سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ جوناگڑھ کی اس مثالی حکمرانی کی اعلیٰ روایت کو برقرار رکھیں گے-

٭٭٭


[1]Governance Indicators: Where are We, Where Should We Be Going? By Daniel Kaufamann and Aart Kraay The World Bank, page 5 {World bank (1992)}

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر