الحاقِ جوناگڑھ کے بارے میں مختلف بیانیے : ایک تحقیقی تجزیہ

الحاقِ جوناگڑھ کے بارے میں مختلف بیانیے : ایک تحقیقی تجزیہ

الحاقِ جوناگڑھ کے بارے میں مختلف بیانیے : ایک تحقیقی تجزیہ

مصنف: حمزہ ملک نومبر 2021

1947ء میں اس وقت کےجوناگڑھ کے نواب مہابت خانجی جو کہ لوگوں کی خواہشات کا مکمل طور پر خیال رکھتے تھے،نے  الحاق کا فیصلہ کرنے کے لئے ریاستی کونسل کو ذمہ داری دی- یہ کونسل ریاست کے مختلف مذاہب اور علاقوں کی نمائندگی کرتی تھی- نئی قائم شدہ بھارت کی ریاست کے اعلیٰ حکام نے، فقط اس وجہ سے کہ جوناگڑھ کی اکثریت آبادی ہندو ہے اور اس کی زمینی سرحد بھارت سے جڑی ہے فیصلہ کر لیا کہ ریاستِ جونا گڑھ ہندوستان میں ضم ہوگی- اسی طرح 12 اگست 1947ء کو ہندوستان نے جوناگڑھ کے نواب کو الحاق کی دستاویزات بھیجیں-  [1]

ہندوستان کا مؤقف:

جواہر لال نہرو اور مینن جیسے ہندوستانی رہنماء کا خیال تھا کہ جوناگڑھ کی اکثریت آبادی ہندو ہے اس وجہ سے ان کو ہندوستان میں شامل ہونا چاہیے-انہوں نے یہ دلیل دی کہ پاکستان صرف مسلمانوں کے لئے بنایا جا رہا ہے اس وجہ سے صرف مسلمان اکثریت والے علاقے ہی پاکستان کا حصہ ہونے چاہیے اور باقی تمام شاہی ریاستوں کو ہندوستان میں شامل ہونا چاہیے- دوسری چیزوں کے علاوہ اس بہانے کا جواز بنا کر ہندوستان نے ایک ہموار الحاق کی توقع میں الحاق کی دستاویزات بھیجیں-[2]  جبکہ کسی بھی ریاست کے الحاق کے لیے 1947ء کے قانونِ آزادیِ ہند میں کوئی ایسی شرط نہیں تھی بلکہ اس ایکٹ کے مطابق تمام شاہی ریاستوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنے حکمران کے نظریہ اور خواہش پر کسی بھی ریاست میں شامل ہوسکتے ہیں- ہندوستانی حکام نے الحاق کے حوالہ سےفقط مذہبی شناخت کی بنا پر لوگوں کی خواہشات کو فرض کیا جو کہ عوام کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا- مزید براں جہاں بات جوناگڑھ کی ہوئی وہاں اس کوزمینی سرحد سے بھی جوڑ دیا-

ایک اور نقطہ جو بھارتی بیانئے کا حصہ ہے وہ اس وقت عمومی طور پر کاٹھیا واڑ کے پورے خطے اور خاص طور پر جونا گڑھ کی امن و امان کی صورتحال بھی تھی- ہندوستان نے یہ ظاہر کیا کہ اس کی فوجیں صرف ہنگامی حالات کے لئے حرکت میں ہیں جنہوں نے ریاست کے الحاق کے بعد 9 نومبر کو جونا گڑھ پر قبضہ کرلیا تھا اور جوناگڑھ میں تقریبا بیس ہزار کے قریب اسلحے سے لیس فوج کھڑی تھی-[3] ہندوستانی فوج نے سپلائی لائنیں درہم برہم کردیں اور ریاست میں معاشی بحران پیدا کر دیا جس کے نتیجہ میں تشدد اور لوٹ مار شروع ہوگئی- اسی تشدد اور لوٹ مار نے ہندوستانی فوجوں کے جوناگڑھ میں داخلے کا جواز بنایا-

اس کے علاوہ بھی ہندوستان نے چند اقدامات اٹھائے جن میں ایک عبوری حکومت کا قیام بھی تھا- اس حکومت کا سرکردہ شامڑ داس گاندھی تھا جو کہ مہاتما گاندی کا بھتیجاتھا- یہ بات بھولنی نہیں چاہیےکہ ریاست جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق کے بعد اس عارضی حکومت کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا-[4]  اس کے باوجود سردار البھ بھائی پٹیل، جو کہ ہندوستان کے پہلے نائب وزیرِ اعظم تھے، نے جوناگڑھ کے نواب پر اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کے لئے دباؤ ڈالا- یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پٹیل کا تعلق گجرات (کی ریاست جام نگر سے نچلی ذات کے ہندؤوں) سے تھا اور اس کی اس خطے سے ذاتی وابستگی تھی-

عالمی دنیا کا مؤقف

عالمی میڈیا اور بین الاقوامی اداروں نے جوناگڑھ کے حوالہ سے کوئی خاطرخواہ کردار ادا نہیں کیا- جونا گڑھ کے الحاق کے حوالہ سے زیادہ تر پریس کوریج نیویارک ٹائمز نے کی- اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں بھی مسئلہ جوناگڑھ کا مسئلہ لے جایا گیا- نیویارک ٹائمز نے نواب مہابت خانجی کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے کو شائع کیا، مزید یہ بھی لکھا گیا کہ ہندوستانی حکومت نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی اور الحاق کو روکنے کی بھی کوشش کی-  [5]

شروع شروع میں حالات معمول پر تھے البتہ ہندوستانی حکومت کے چند اقدامات نے پورے کاٹھیاواڑ بالخصوص جونا گڑھ میں تشدد اور بدامنی کو ہوا دی- بھارتی فوج کی جانب سے کی گئی معاشی ناکہ بندی نے ریاستِ جوناگڑھ کے لوگوں کو بہت ہی برے طریقے سے متاثر کیا- سپلائی لائنز کی مکمل تباہی کی وجہ سے خطہ میں معاشی بحران پیدا ہوگیا- اسی دوران وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جواہر لال نہرو کو کسی بھی ایسے عمل سے دور رہنے کی تنبیہ کی جوجنگ کا باعث بنے- اس کی وجہ یہ تھی کہ الحاق کے بعد جوناگڑھ پاکستان کا حصہ تھا- [6] اس وجہ سےاس خطہ میں کسی بھی طرح کی جاریت کو پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا-

تاہم ہندوستان نے قبل از وقت کاروائی کی اور خطے میں اپنی فوجیں داخل کیں خاص طور پر جوناگڑھ کی سرحد میں اسلحہ سے لیس فوج کو داخل کیا گیا- اس کاروائی کے جواز کے طور پر یہ کہا گیا کہ جونا گڑھ کی سرحد میں کسی بھی قسم کی بدامنی کی فضا ہندوستان کے امن کو خراب کر سکتی ہے-[7]  البتہ عسکری دستوں کی تعداد ایسی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی نسبت کہیں زیادہ تھی- ہندوستان کا 20 ہزارکے قریب اسلحہ سے لیس فوج کا بھیجنا اس عمل کی عکاسی کرتا ہے- ان کے علاوہ تینوں افواج یعنی بری فوج، نیوی اور فضایہ وہاں پہ مقرر کی گئیں-[8]  ہندوستان کی نیول فورسز کی جانب سے  9 اکتوبر 1947ء کو بندرگاہ بند کردی گئی- اس کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد یعنی 16 اکتوبر 1947ء کو جعفر آباد پورٹ کو بھی بند کردیا گیا- یہ اقدامات پاکستان کی سمندری سرحد کو جونا گڑھ کی سمندری سرحد سے الگ کرنے کےلئے اٹھائے گئے- [9] جونا گڑھ کے نواب مہابت خانجی کے 23 اکتوبر 1947ء کو پاکستان آنے کے بعد ہندوستان کی فوجیں ریاستِ جوناگڑھ میں داخل ہو گئیں- ہندوستان نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ یہ ایک عارضی قدم ہے، جیسے ہی امن و امان قائم ہوگا فوجیں واپس چلی جائیں گیں-

ریاستِ جوناگڑھ میں معاشی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر میں سخت گیر ماحول نے ریاست میں لوٹ مار کے خوف کی فضا کو قائم کیا- 29اکتوبر 1947ء برصغیر کے مختلف خطوں بالخصوص حیدر آباد، کشمیر اور جونا گڑھ کے حوالہ سے تشدد کی خبریں شائع ہوئیں-[10]  جیسے ہی ہندوستانی افواج ریاستِ جوناگڑھ میں داخل ہوئیں حالات مزید بد تر ہو گئے کیونکہ لوگوں کے درمیان عجیب قسم کی الجھنوں نے جنم لیا کیونکہ سپلائی لائنز درہم برہم ہوگئی تھیں اس وجہ سے انتشار کی صورتحال پیدا ہوگئی-

اگر اقوامِ متحدہ کی بات کی جائے تو یہ مسئلہ سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے- البتہ جموں و کشمیر کے تنازع کے حوالہ سےکی جانے والی بحث کے دوران کئی دفعہ جونا گڑھ کا بھی تذکرہ دیکھنے کو ملتا ہے- 14 مارچ 1950ء کی قرارداد سے قبل مسئلہ جوناگڑھ سکیورٹی کونسل کی توجہ کا مرکز رہا- بنیادی طور پر پاکستان اور بھارت دونوں نے جموں و کشمیر کے من چاہا حل نکلوانےکے لئے جوناگڑھ کے مسئلے کا استعمال کیا-[11]ہندوستان نے یہ دعویٰ کیا کہ کشمیر اور جوناگڑھ کی اکثریت ہندوستان میں شامل ہونا چاہتی ہے اس وجہ سے رائے شماری کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ 1947ء کے قانونِ آزادیٔ ہند میں الحاق کے حوالے سے ایسی کسی شق کا ذکر نہیں ملتا-

پاکستان کامؤقف

تقسیم ِ ہند کے وقت کے نواب جناب نواب مہابت خانجی نے شعوری طور پرمختلف عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا- ان عوامل میں سے ایک رعایا کی مرضی بھی تھی- ریاست کے پاس ایک ایسا نظامِ حکومت موجود تھا جو لوگوں کی خواہشات کا مکمل احترام کرتا تھا- اس امر کو یقینی بنانے کیلئے کونسل قائم کی گئی تھی جو مختلف مذاہب اور علاقوں کی نمائندگی کرتی تھی-اس کونسل کو پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کے فیصلے کی ذمہ داری سونپی گئی- متواتر مباحث اور مکالموں کے بعد بالآخر کونسل نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا- لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نوابین کو الحاق کے حوالہ سےرعایا کی خواہش کا خیال رکھنے کی تاکید کی تاکہ الحاق کےاس عمل کو ہموار بنایا جاسکے- الحاق کا فیصلہ جمہوری تھا جس میں تمام گروہوں کے لوگ شامل تھے-

پاکستان کے مؤقف کا ایک اہم حصہ ہندوستان کی دھمکی بھری حکمتِ عملی کے متعلقہ ہے کیونکہ بھارت نے ریاست کے خلاف معاشی ناکہ بندی کی جنہوں نے اقتصادی سرگرمیوں کو بہت برے طریقے سے متاثر کیا- جس نے گھمبیر ماحول کو جنم دیا جس میں ہندوستان کی طرف سے بندرگاہیں سیل کر دیئے جانے نے مزید اضافہ کیا- سپلائی لائنوں کی خرابی کی وجہ سے لوگوں کے درمیان خوراک کا بحران پیدا ہو گیا- جیسا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ایسے ماحول میں مایوسی اور تشدد جنم لیتا ہے، اسی طرح ریاست میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی اور لوٹ مار شروع ہوگئی- پاکستان کا کہناہے کہ الحاق کے دو ماہ بعدیعنی اگست سے اکتوبر تک ریاست میں مکمل امن تھا اور اس مکمل وقت میں پاکستان کا پرچم جوناگڑ ھ میں لہراتا رہا- اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ نواب کا فیصلہ رعایا کی مرضی کے مطابق تھا-

مزید یہ کہ ہندوستان کے اعلیٰ حکام کی جونا گڑھ جاکر نواب کو فیصلہ تبدیل کروانے کی کوشش کے دستاویزی شواہد موجود ہیں-ہندوستان کے پہلے نائب وزیرِاعظم ولبھ بھائی پٹیل نواب کو ملنے خود گئے لیکن ان کی ملاقات نہ ہوسکی-[12]  پاکستان کے مطابق ہندوستان کی طرف سے دھمکیوں کی یہ ایک واضح مثال ہےجو کہ 1947ء کے قانونِ آزادیِ ہند کے طے کردہ اصول کے خلاف ہے جو شاہی ریاستوں کو آزادانہ الحاق کی مکمل اجازت فراہم کرتاہے-لہٰذا پاکستان کا جونا گڑھ سے الحاق ان ٹھوس بنیادوں پر قانونی ہے-

پاکستان کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ہندوستان اس وقت چند شر پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا جو جوناگڑھ کاپاکستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے تھے- لیکن یہ فیصلہ صرف ان کے لئے نہیں تھا بلکہ نواب نے تمام رعایا کے حقوق کو مجموعی طور پر مدِنظر رکھا- کچھ سازشی عناصر نے ہندوستان کا دورہ کیا اور ریاستِ جونا گڑھ میں پاکستانی فوجوں کے ظلم کی جھوٹی کہاوتیں سنائیں جس کی بنیاد کسی بھی ٹھوس شواہد سے نہیں ملتی کیونکہ اس وقت پاکستان کی عسکری قوت کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں تھا- [13] ان سازشی عناصر کے دہلی جانے کا مقصد خاص طور پر وہاں کے فیصلہ سازوں کے درمیان خوف کی فضا کو قائم کرنا تھا- یہ تمام اقدامات ہندوستان کے حق میں سونے پر سہاگہ ثابت ہوئے جو پہلے سے ہی ریاستوں میں فوجیں بھیجنے کے لئے تیا ر بیٹھا تھا- ان تما م ثبوتوں کی بنا پر پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تما م اقدامات محض اتفاق سے ممکن نہیں ہوئے بلکہ ہندوستان کی سوچی سمجھی سازش تھی کہ جونا گڑھ کو پاکستان میں شامل ہونے سے روکا جا سکے-

اختتامیہ

بھارت کا یہ دعوی کہ شاہی ریاست جوناگڑھ ہندوستان کا حصہ ہونا چاہیئے فقط اکثریت آبادی کا ہندو ہونے کی وجہ سے ہے جوکہ 1947ء کے قانونِ آزادیِ ہند کے اصولوں پر مبنی نہیں کیونکہ شاہی ریاست میں نواب یا مہاراجہ کی حیثیت ’’خود مختار‘‘ تھی - ہندوستان نے اس بات کو درست ثابت کرنے کے لئے رائے شماری منعقد کروانے کا ڈھونگ رچایاجس کی شفافیت پر عالمی اداروں بلکہ پاکستان نے بھی سوال اٹھایا اور اسے مسترد کیا- ہندوستان کا یہ دعویٰ کہ جوناگڑھ کی سر حد پاکستان سے ملی ہوئی نہیں مشکوک ہے- یہ عالمی طور پر تسلیم شدہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سمندری سرحدیں ایک حقیقت ہیں اور دنیا کے بہت سے ممالک سمندری سرحد کو آپس میں بانٹتے ہیں جو آپس میں زمینی طور پرمتصل نہیں ہیں امریکہ کی ریاست الاسکہ اس کی واضح مثال ہے- ماؤنٹ بیٹن کے مطابق الحاق کی دستاویز کی منظوری کے بعد جوناگڑھ پاکستان کا حصہ ہے-[14]  جوناگڑھ نے 14 اگست کو پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا جوکہ 15 ستمبر کو پاکستان نے منظور کیا- اس طرح یہ پاکستان کا حصہ ہے اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کو یقینی طور پرریاستِ پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ ہو گا-

ان تمام ثبوتوں اور بحث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان کے مؤقف میں صداقت ہے اور اس کو عالمی میڈیا کوریج بھی حاصل ہے-جبکہ دوسری طرف ہندوستان کا موقف اپنے اندر خامیوں کو سموئے ہوئے ہے اور اس کی اساس فقط زمینی ربط اور اکثریت ہندو آبادی پر ہے- مندرجہ بالا دونوں نکات اپنے اندرنقص رکھتے ہیں اور 1947ء کے قانونِ آزادیٔ ہند کے بالکل خلاف ہیں کیونکہ پاکستان کی سمندری سرحدیں جوناگڑھ سے جڑی ہیں اور جوناگڑھ کی رعایا کی نمائندگی کرنے والی کونسل  اور خود مختار شاہی حکمران نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کیا-

٭٭٭


[1]Menon, V. P. (1961). The story of the integration of the Indian States. Madras: Orient Longmans

[2]Menon, V. P. (1961). The story of the integration of the Indian States. Madras: Orient Longmans

[3]Ali, C. M. (1967) The Emergence of Pakistan. New York: Columbia University Press

[4]Hodson, H. V. (1969). The great divide: Britain, India, Pakistan. London: Hutchinson

[5]New York Times. (1947, October 7). India lands troops to cut off state.

[6]Hodson, H. V. (1969). The great divide: Britain, India, Pakistan. London: Hutchinson

[7]Menon, V. P. (1961). The story of the integration of the Indian States. Madras: Orient Longmans

[8]New York Times. (1947, October 9). Pakistan will negotiate if India withdraws force.

[9]New York Times. (1948, March 9). Plebiscite repeat offered by India.

[10]New York Times. (1948, March 9)

[11]United Nations. (1950). Report of The Security Council to The General Assembly (A/1361). New York: United Nation

[12]Menon, V. P. (1961). The story of the integration of the Indian States. Madras: Orient Longmans

[13]New York Times. (1948, March 9)

[14]Hodson, H. V. (1969). The great divide: Britain, India, Pakistan. London: Hutchinson

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر