سخاو ت کا مفہوم:
رزق ِحلال میں سے رضائے الٰہی کی خاطر غریبوں، ضرورت مندوں،مسکینوں اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا سخاوت ہے-سخاوت ایک ایسا شجرِ سایہ دار ہےجس کی چھاؤں دنیا وآخرت میں سخی کے لیے سکون و راحت کا سبب بنتی ہے-سخاوت کا متضاد بُخل ہے-بخیل ہونا ایسا ناسور ہے جس کی بدبو دارین میں بے چینی اور اضطراب کا باعث ہے-سخی کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ(ﷺ) نے بہت پسند کیا ہے-جبکہ بخیل سے ناپسندیدگی اور کراہت کااظہار کیا گیا ہے-
شیخ سعدی فرماتے ہیں:
سخیاں ز اموالِ بر می خورند |
’’سخی اپنے مال کا پھل کھاتے ہیں جبکہ بخیل سونے چاندی کا غم کھاتے ہیں‘‘-
سید دو جہاں خاتم النبیین ہادی انس و جاں (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’سخاوت جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے-اس کی ٹہنیاں زمین تک لٹکی ہوئی ہیں-جو اس میں سے ایک ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے وہ ٹہنی اسے جنت میں کھینچ لیتی ہے‘‘-[1]
سیدنا عثمان غنی (رضی اللہ عنھم) سید الاسخیاء بعد الانبیاء
جب بھی سخاوت کا ذکر آتا ہے تو بندہ مومن کی توجہ دامادِ رسول(ﷺ)،سراپا شرم و حیاء سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے-آپؓ کو اللہ کریم نے بہت زیادہ دنیاوی مال و زر سے نوازا تھا اور پھر رب کی نوازش یہ تھی کہ اپنا مال رازقِ حقیقی کی بارگاہ میں خرچ کرنے سے کبھی گریز نہ کرتے تھے-اس سلسلہ میں آپؓ کی کشادہ دلی اپنی مثال آپ ہے-جب بھی اسلام یا اہلِ اسلام کو مال کی ضرورت پڑی تو بابِ کرم سیدنا عثمانؓ کو ہمیشہ کھلا پایا- ذیل میں سیدنا عثمانِ غنیؓ کی سخاو ت کے چند واقعات کا ذکر کرتے ہیں:
بئررومہ کی خریداری:
جب فدایانِ اسلام مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکےمدینہ منورہ تشریف لائے تو پینے کے میٹھے پانی کا فقدان تھا-مدینہ شریف سےچا رکلومیٹر کی دوری پر ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا-جسے بئر رومہ کہا جاتا ہے-یہ ایک یہودی کی ملکیت تھا، جو پانی بیچا کرتا تھا-ایک دن سید دوعالم، ساقیِ کوثر (ﷺ) نے فرمایا: جو شخص مسلمانوں کیلئے بئررومہ خریدے گا اسے جنت میں اس سے بہتر انعام ملے گا‘‘-حضرت عثمان غنی ؓ نے بئررومہ 35 ہزار درہم میں خریدا اور حضور علیہ الصلوٰۃو السلام سے آکر عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) جس طرح آپ (ﷺ) نے جنت کے چشمے کا وعدہ فرمایا ہے اگر میں وہ کنواں خریدوں تو مجھے بھی جنت میں وہ چشمہ ملے گا-حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: ’’ہاں بالکل ملے گا‘‘- حضرت عثمان ؓ نے عرض کی میں نے وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ہے-[2]
جیش العسرہ کی تیاری میں کردار:
جیش العسرہ( تنگ دستی میں مبتلا لشکر) سے مراد غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہونے والا لشکر ہے-وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جن ایام میں اس لشکر نے پیش قدمی کی وہ مالی لحاظ سے تنگ دستی کے دن تھے-کھجوریں پکنے کا موسم تھا لیکن اس سے پہلے ہی لشکر کی روانگی کا حکم مل گیا کیونکہ اہلِ روم پوری تیاری کے ساتھ ہر قل شاہ روم کی قیادت میں مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنا رہے تھے-صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے جسم کمزور تھے-سواریوں اور سامانِ جنگ کی کمی تھی-مگر ان کے جذبات دیدنی تھے-بقول اقبالؒ:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا |
حضور نبی کریم(ﷺ) نے جیش العسرہ کی تیاری کے لیے مال پیش کرنے کی ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے،کجاوے اور پلان سمیت 100 اونٹ اپنے ذمہ لیتا ہوں-
حضرت عبد الرحمٰن بن خباب ؓ فرماتے ہیں:
’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دوبارہ ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ پھر کھڑے ہوئے اور کہا میں دو سو اونٹ کجاوے اور پلان سمیت اپنے ذمہ لیتا ہوں- سرکار دو عالم (ﷺ) نے تیسری مرتبہ اِ نفاق فی سبیل للہ کی ترغیب دی تو آپؓ پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا: میں اپنے ذمہ تین سو اونٹ کجاوے اور پلان سمیت لیتا ہوں‘‘-
راوی کہتے ہیں کہ:
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام منبر سے اتر رہے تھے اور خوشی سے اپنا ہاتھ لہرا کر فرما رہے تھے-
’’اگر عثمان ( اتنا خرچ کرنے کے بعد) کوئی بھی (نفل) عمل نہ کرے تو ان کا کوئی نقصان نہ ہو گا‘‘-[3]
ترمذی شریف کی دوسری روایت حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہ سے ہے:
’’جب جیش العسرہ کی تیاری ہو رہی تھی تو حضرت عثمانؓ حضور نبی کریم(ﷺ) کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے اور وہ آقا کریم(ﷺ) کی جھولی میں ڈال دیے-(راوی نے کہا) میں نے دیکھا حضور نبی کریم (ﷺ) ان دیناروں کو اپنے ہاتھوں میں اُلٹ پلٹ کر رہے تھے اور فرما رہے تھے آج کے بعد عثمانؓ کو اس کا کوئی عمل نقصان نہیں دے گا-یہ دو مرتبہ فرمایا‘‘-[4]
حرم کعبہ کی توسیع:
جوں جوں اسلام پھیل رہا تھا اور اہل ِ اسلام کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا-حرم کعبہ کی توسیع کرنا ضروری تھا- 26 ھ میں حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے مال سے مسجد حرام کے قریبی مکانات کو خرید کر مسجد حرام میں شامل کیا-اس طرح مسجد حرام کی توسیع کی-اسی سال عجم کا مشہور قلعہ سابور فتح کیا-[5]
مسجد نبوی(ﷺ)کی وسعت میں حصہ:
حضرت سیدنا عثمان بن عفانؓ کو مسجدِ نبوی(ﷺ) سے گہری محبت تھی-جب بھی اس کی توسیع کا موقع آیا آپؓ نے دل کھول کر مال پیش کیا- اس کا اظہار آپؓ نےبلوائیوں کے محاصرہ کے دوران صحابہ کرامؓ کو گواہ بناتے ہوئے کیا:
’’میں اس شخص سے خدا کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں جس نے رسول اللہ (ﷺ) سے یہ سنا ہو، آپ (ﷺ) فرماتے تھے کون ہے؟ بعوض جنت میں ایک گھر کے، اس مسجد میں کچھ اضافہ کردے -پس میں نے اپنے مال سے زمین خریدی اور (مسجد میں اضافہ کردیا)-اس پر لوگ تائید میں بول اٹھے‘‘-[6]
علاوہ ازیں 29 ھ میں بڑے اہتمام کے ساتھ مسجدِ نبوی (ﷺ) میں توسیع کروائی-عمارت کے لیے چونا اور پتھر بطنِ نخل سے منگوایا-ستونوں کو سیسے سے مضبوط کیا-آپؓ نے سابقہ لمبائی میں 20 گز اور چوڑائی میں 30 گز کا اضافہ کیا-[7]
خاندانِ رسول (ﷺ) پر خرچ:
حضرت عثمان ؓ کو آپ(ﷺ) کے ساتھ والہانہ وابستگی تھی-آپ (ﷺ) کی رضا جوئی کے لیے کُل کائنات نثار کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے-ایک مرتبہ آقائے دو جہاں (ﷺ) کی دعوت کا اہتمام کیا -راستے میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے قدم مبارک گنتے جا رہے تھے- آپ (ﷺ) کے پوچھنے پر عرض کیا؛ یارسول اللہ (ﷺ) جتنے قدم آپ میرے گھر تک چل کر تشریف لائے ہیں-میں اتنے غلام آزاد کرو ں گا-آپؓ فخر الفقراء کے فقر ِ اختیاری اور زاہدانہ زندگی دیکھ کربے قرار ہوجاتے- جب موقع ملتا محسنِ انسانیت (ﷺ)کی خدمت میں تحائف پیش کرتے ‘‘-[8]
قیمتی حلہ اور ہزار درہم کی سخاوت:
ابنِ سعید یربوع مخزومیؓ سے روایت ہے:
’’میں مسجد میں گیا ایک شیخ( حضرت عثمانؓ) حسن الوجہ لیٹے ہوئے تھے-ان کے سر کے نیچے اینٹ یا اینٹ کا ٹکڑا تھا-میں کھڑے کا کھڑا رہ گیا-ان کی طرف دیکھتا تھا اور ان کے حسن و جمال سے متعجب و حیران ہوتا تھا-انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں او رفرمایا: اے لڑکے ! تم کو ن ہو؟ میں نے انہیں اپنے متعلق بتایا-آپؓ کے قریب ایک لڑکا سو رہا تھا-اسے بلایا اور کچھ حکم دیا-مجھے فرمایا بیٹھ جاؤ! وہ لڑکا ایک قیمتی حلہ(جوڑا) اور 1 ہزار درہم لیکر واپس آیا-آپؓ نے مجھے وہ حلہ پہنا دیا اور ہزار درہم اس جوڑے کی جیب میں ڈال دیا- میں اپنے والد کے پاس آیا اور اسے خبر دی انہوں نے پوچھا کہ تیرے ساتھ یہ حسنِ سلوک اور جود و کرم کس نے کیا؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا -میں تو اتنا جانتا ہوں وہ مسجد میں سو رہے تھےاور میں نے ان سے زیادہ صاحبِ حُسن و جمال کبھی نہیں دیکھا-میرے والد نے کہا وہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ ہیں‘‘-[9]
غلاموں کی آزادی :
غلام آزاد کرنا اسلام میں ایک بڑی عبادت اور عظیم کارِ ثواب ہے-حضرت عثمان غنیؓ اس کا بھی بڑا اہتمام کرتے تھے-لہٰذا ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے-کسی جمعہ میں اگر ایسا نہیں کر سکتے تھے تو اگلے جمعہ کو دو غلام آزاد کرتے تھے-جب مفسدین نے آپ کے مکان کا گھیراؤ کیا تو آپؓ کے وفادار غلاموں کی ایک جماعت نے بلوائیوں سے جنگ کرنے کی اجازت چاہی-آپؓ نے حرمِ نبوی(ﷺ)کا لحاظ رکھتے ہوئےکسی کو اجازت نہ دی-بلکہ فرمایا: جو ہتھیار نہیں چلائے گا اسے آزاد کروں گا-[10]
اہل و عیال پر خرچ:
اپنے اہل و عیال پر رزق حلال میں سے خرچ کرنا اور ان کے ساتھ بھلائی کرنا اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کو بہت پسند ہے-ارشادِ نبوی (ﷺ) ہے:
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والو ں کے لیے اچھا ہے اور میں ا پنے گھر والوں کیلئے تم سب سے اچھا ہوں‘‘-
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) عام طور پر اپنی بیویوں کو استطاعت کے مطابق عمدہ اور خوبصورت لباس پہناتے-حضرت عثمان غنیؓ بھی اس کا خاص خیال رکھتے تھے-چنانچہ ایک مرتبہ آپؓ نے ایک ریشمی چادر200درہم میں خریدی اور فرمایا:یہ نائلہ(آپؓ کی بیوی) کیلیے ہے- وہ اسے اوڑھے گی تو میں خوش ہوں گا-[11]
حصول جنت کے لیے باغ کا صدقہ:
حضرت عثمانِ غنی ؓ نے کئی مرتبہ اپنے مال کو راہِ خدا میں خرچ کرکے جنت حاصل کی-آپؓ حصول جنت کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے-
علامہ اسماعیل حقی ؒ تفسیر روح البیان میں فرماتے ہیں:
’’مدینہ منورہ میں ایک منافق رہتا تھا-اس کا درخت ایک انصاری پڑوسی کے مکان پر جھکا ہوا تھا- جس کا پھل ان کے مکان میں گرتا تھا-انصاری نےسرکار اقدس (ﷺ) سے اس کا ذکر کیا-اس وقت تک منافق کا نفاق لوگوں پر ظاہر نہیں ہوا تھا-حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: کہ تم درخت انصاری کو دے دو-اس کے بدلے تمہیں جنت کا درخت ملے گا-مگر منافق نے انصاری کو درخت دینے سے انکار کر دیا-جب اس واقعہ کی خبر حضرت عثمان ؓ کو ہوئی کہ منافق نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے فرمان کو منظور نہیں کیا تو آپؓ نے پورا ایک باغ دے کر اس سے درخت کو خرید لیا اور انصاری کو دے دیا‘‘-
اس پر حضرت عثمان کی تعریف اور منافق کی برائی میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
’’جو خوف رکھتا ہے وہ تو نصیحت حاصل کرے گا اور بے خوف بد بخت اس سے کترائے گا-جو بڑی تیز آگ میں داخل ہو گا‘‘-
اس آیت کریمہ میں ’’من یخشیٰ‘‘سے مراد حضرت عثمان غنی اور ’’اشقیٰ‘‘ سے مراد حکمِ رسالت (ﷺ) کے باوجود درخت دینے سے انکار کرنے والا منافق ہے-[12]
غلہ کے چالیس اُونٹ:
’’اطعام الطعام‘‘( لوگوں کو کھانا فراہم کرنا) اسلام میں بہت پسندیدہ عمل ہے،احادیث میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے-حضرت عثمان غنیؓ کی زندگی میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں -جب آپؓ نے غربا کی خدمت کو مالی منفعت پر تر جیح دی-حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں سخت قحط پڑا -انہی دنوں اُونٹوں کا قافلہ (جو40 اُونٹوں پر مشتمل تھا) حضرت عثمان غنیؓ کا غلہ لے کر باہر سے آیا -امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ نے معمولی قیمت پر غربا کیلیے خریدنا چاہا لیکن حضرت عثمان غنی نے فروخت کرنے سے انکار کر دیا-مدینہ کے تاجروں کے کئی گنا نفع کی پیش کش کی لیکن آپؓ نے وہ بھی ٹھکرا دی اور فرمایا: میں کم از کم دس گنا منافع لینا چاہتا ہوں-جب قافلہ مدینہ پہنچا تو اعلان فرمایا جس کو غلہ کی ضرورت ہوآکر مفت لے جائے-پھر جب حضرت عمر فاروق ؓ سے ملے تو کہنے لگے آپؓ اور تاجر مجھے غلے کی بہت تھوڑی قیمت دے رہے تھے مگر میں نے اپنا غلہ خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت زیادہ قیمت پر بیچا ہے‘‘-[13]
خلاصۂ کلام:
سیدنا حضرت عثمان غنیؓ نےاپنے وصف ِ سخاوت سے متعدد مرتبہ جنت خریدی-آپؓ کیلیے قرآنَ مجید کی کئی آیات کا نزول اور احادیث طیبہ کا ورود، سخاوت کے ثمرات کا منہ بولتا ثبوت ہے-لہٰذا ہم سب کو چاہیے اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کی خوشنودی کے لیے اپنا مال نیک کاموں میں خرچ کریں- غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کے لیے سخاوت کے دروازے کھولیں تاکہ اللہ کی رحمتوں کے مستحق بن سکیں-حدیث مبارک ہے:
’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خیر وبھلائی کا ادارہ کرتا ہے تو اس سے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے‘‘-[14]
صد سلاموں کے ساتھ اختتام اس شعر پر کرتا ہوں:
ضرورت جب پڑی دین متین کو مال و دولت کی |
٭٭٭
[1]( احیاء العلوم،امام ابو حامد محمد الغزالیؒ،ص 371،مکتبہ دار اشاعت ،کراچی)
[2](المنتخب لطبرانی ،جلد 5،ص 11،سلیمان بن احمد الطبرانی)
[3]( ترمذی، جلد 2، ص 289،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی،مکتبہ رحمانیہ ،لاہور)
[4](ایضاً)
[5](تاریخ الخلفاء،ص 159،جلال الدین سیوطی عبد الرحمٰن بن ابی بکر،زاویہ پبلیشرز)
[6](ازالۃ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، کراچی)
[7](تاریخ اسلام،پروفیسر محمد عبداللہ ملک، قریشی برادرز پبلیشرز،لاہور)
[8]( تاریخ اسلام،پروفیسر محمد عبداللہ ملک،لاہور)
[9](المعجم الکبیر،ص 271، ابو القاسم سلیمان بن احمد الطرانی،مصر)
[10]( مراۃ المناجیع،جلد 8، ص 395 ،حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمیؒ ،گجرات)
[11](طبقات ابن سعد،جلد 3،ص40،کراچی)
[12](تفسیر روح البیان ،جلد 10 ،ص 408،علامہ اسماعیل حقیؒ،الحکمۃ ٹرسٹ،یو -کے)
[13](تاریخ اسلام،ص 358،پروفیس محمد عبد اللہ ملک)
[14](مسند الفردوس،جلد 4،ص 217 ،ابو نصر ---- ، دارالکتب العلمیۃ،بیروت)