اجتہاد کی لغوی تحقیق :
لغت میں اجتہاد کا مادہ اشتقاق ’’جہد‘‘ہے جو کہ محنت اور کوشش کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے -علامہ جرجانی ؒ اپنی کتاب ’’معجم التعریفات‘‘ میں اجتہاد کا لغوی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’بذل الوسع و المجھود فی طلب الامر‘‘[1]
’’اجتہادکا لغوی معنی ہے کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت اورکوشش خرچ کردینا‘‘-
اسی طرح علامہ جرجانی اجتہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’بذل المجھود فی طلب المقصود من جھۃ الاستدلال‘‘[2]
’’بطریق ِاستدلال کسی مقصود کے حصول کیلئے اپنی پوری ہمت اور جہد خرچ کردینا‘‘-
اصطلاحی تحقیق :
علامہ زبیدیؒ تاج العروس میں اجتہاد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’الاجتھاد بذل الوسع فی طلب الامر المراد بہ ردّ القضیۃ من طریق القیاس الی الکتاب و السنۃ‘‘[3]
’’یعنی اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی مسئلہ کو قیاس کے واسطہ سے کتاب و سنت کی طرف لوٹانا ‘‘-
اجتہاد کی اصطلاحی تعریف:
علامہ جرجانی کے مطابق:
’’استفراغ الفقیہ الوسع لیحصل لہ ظن بحکم شرعی‘‘[4]
’’یعنی کسی فقیہ کا اپنی پوری کوشش کرکے کسی حکم شرعی سے استنباط کرتے ہوئے حکم ظنی تک پہنچنا‘‘-
قرآن و سنت سے اجتہاد کا ثبوت:
ارشادِ ربانی ہے:
’’وَ اِذَا جَآءَہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖط وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْہُمْط لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْط وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا ‘‘ [5]
’’اور جب اُن کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی ہے اس کا چرچاکر بیٹھتے ہیں اور اگر اس میں رسول اور اپنے ذی اختیار لوگوں کی طرف رجوع لاتے تو ضرور ان سے اُس کی حقیقت جان لیتے یہ جو بعد میں کاوش کرتے ہیں اور اگر اس میں رسول(ﷺ) اور اپنے ذی اختیار لوگوں کی طرف رجوع لاتے تو ضرور ان سے اس کی حقیقت جان لیتے وہ لوگ جو استنباط کرتے ہیں اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ضرور تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے ‘‘-
اس آیت مبارکہ میں اولو الامر سے مراد حاکم ہیں اور اکثر علماء کرام نے اس سے مراد مجتہدین عظام لئے ہیں-اس طرح آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اس حکم کو یہ لوگ رسول اللہ (ﷺ)اور مجتہدین کی طرف لوٹادیتے تو ان میں سے جو لوگ استنباط کرتے ہیں وہ اس کو جان لیتے-اس آیت مبارکہ سے استنباط مسائل کی اجازت ملتی ہے بلکہ یہاں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر مجتہدین حضرات ان کے لئے کسی حکم کو تلاش کریں تو یہ بھی شارع کی طرف سے جائز سمجھا جائے گا - اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایاکہ :
’’فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُوْلِی الْاَبْصَارِ‘‘[6]
’’پس تم عبرت حاصل کرو اے بصیرت رکھنے والوں ‘‘-
علماء کرام کے مطابق یہ آیت قیاس و اجتہاد کے جواز کی دلیل ہے -
اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی ہمیں اجتہاد کا ثبوت ملتا ہے جیسا محدثین کرام نے اس حدیث مبارک کو روایت کیا کہ:
’’جب آقا کریم (ﷺ) نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو آپ (ﷺ) نے حضرت معاذ بن جبل سے پوچھا کہ آپ مسائل و مقدمات میں کس طرح فیصلہ کریں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا کتاب اللہ کے حکم کے مطابق- پھر آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اگر کتاب اللہ میں صراحت کے ساتھ اس کےحکم کا ذکر نہ ملے تو پھر کیسے فیصلہ کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے عرض کی اللہ کے رسول (ﷺ) کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا- پھر حضورنبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ اگر سنت میں بھی صراحت کے ساتھ اس کا فیصلہ نہ ملے تو پھر کیسے فیصلہ کرو گے؟ حضرت معاذ بن جبلؓ نے عرض کی:
’’أَجْتَهِدُ رَأْيٍ لَا آلُو‘‘
’’میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا ‘‘-
یہ جواب سن کر آپ (ﷺ) نے حضرت معاذؓ کے سینے پر تھپکی دی اور فرمایا:
’’الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللهِ (ﷺ)‘‘[7]
’’اللہ کا شکر ہے کہ جس نے رسول اللہ (ﷺ)کے نمائندہ کو یہ توفیق بخشی جو اللہ کے رسول کو خوش کرے‘‘-
حضرت عثمان غنیؓ کی شخصیت بطور مجتہد:
امیر المومنین خلیفۃ الرسول کاتب الوحی و جامع القرآن ذو النورین حضرت عثمان غنیؓ کی اولوالعزم و ہمہ جہت شخصیت تمام اوصاف و کمالات کا مجموعہ تھیں -آپؓ کے مناقب و فضائل اس قدر واضح و جلی ہیں کہ تمام مستند محدثین، آئمہ سیر،آئمہ تواریخ اور مفسرین نے اپنی اپنی کتب میں آپؓ کی سیرت و کردار کے بارے میں مستقل ابواب باندھے ہیں جو کہ آپؓ کی امتیازی شخصیت اور شرف و کمال کی واضح علامت ہے-آپ کی گراں مایہ ہستی کے کئی روشن پہلوؤں میں سے ایک اہم اور قابل قدر پہلویہ تھا کہ آپ علمی اور فقہی مسائل ومعاملات میں قرآن و سنت سے بطریقِ تدبرو تفکر اجتہادکر کے رائے قائم کرنےکا کمال ملکہ رکھتے تھے- جیسا کہ تاریخ کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ نے اپنے دور خلافت میں مختلف علاقوں کی طرف اسلامی لشکروں کو روانہ کیا جس کے نتیجے میں فتوحات کا سلسلہ وسیع ہو گیا اور دن بہ دن خلیفۃ المسلمین کی مصروفیات میں اضافہ ہوتا گیا لیکن تاریخی حوالہ جات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ آپؓ جس طرح جماعتِ صحابہ کرام میں ایک نمایاں، پُر وقار، پر اثر، شجاع ،سخی، کامیاب تاجر، قوی الرائے اور بے مثال منتظم تھے اسی طرح آپ جماعتِ صحابہ کرام میں بلند پایہ و نمایاں فقیہ و مجتہد بھی تھے - آپ کے فقہی اجتہادات کا دائرہ کار عبادات، معاملات، قضاۃاور دیگر شعبہ ہائے حیات کو شامل تھا - حضرت عثمان غنیؓ کا دور خلافت مستند روایت کے مطابق 12 سال کے عرصہ پر محیط تھا- اسی دورانیہ میں آپؓ نے مختلف اجتہادات و تفردات فرمائےجن میں یہ قابل ذکر ہیں:
v قرآن کریم کی جمع و تدوین اور امت کو ایک قرأت پر متفق کرنا
v مسجد حرام کی توسیع
v بیت المال سے مسجد نبوی (ﷺ) کی تعمیر نو
v نمازجمعہ کی ایک اذان کا اَضافہ
v منی میں نمازِ قصر کا مسئلہ
v حج تمتع کی ممانعت
v دوران احرام نکاح کی ممانعت
خوفِ طوالت کی وجہ سے ان میں سے چند کی مختصر وضاحت قارئین کی نظر کرتے ہیں:
قرآن کریم کی جمع و تدوین اور امت کو ایک قرات پر متفق کرنا:
سیدنا عثمان غنیؓ کے جملہ اجتہادات میں سے سر فہرست اورعظیم اجتہاد یہ تھا کہ آپؓ نے حفاظت ِ قرآن کریم کے تناظر میں حالات و واقعات کا بر وقت ادراک کرتے ہوئے ایک اہم پیش رفت کی جب مختلف قبائل نے قرآن پاک کو الگ الگ لہجوں میں پڑھنا شروع کردیا اور اختلاف ِقرأت کے مسائل پیدا ہونے لگے تو آپؓ نے امت مسلمہ کو ایک قرأت پر متفق کیا جو بلاشبہ امت مسلمہ پر آپؓ کا احسانِ لا زوال ہے- امام بخاریؒ نے ’’صحیح بخاری، کتاب فضائل قرآن‘‘ میں حضرت انس بن الکؓ سے روایت فرمایا:
’’حضرت حذیفہ بن یمانؓ امیر المومنین حضرت عثمان غنیؓ کے پاس حاضر ہوئے اس وقت آپ آرمینیہ اور آذربائیجان کی فتح کے سلسلے میں شام کے غازیوں کیلئے جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے،تاکہ وہ اہل عراق کو ساتھ لے کر جنگ کریں-حضرت حذیفہؓ قرآن کریم کی قرأت کے اختلاف کی وجہ سے کافی پریشان تھے -آپ نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ اے امیر المومنین اس سے پہلے کہ یہ امت مسلمہ بھی یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے آپ اس کی خبر لیجئے -چنانچہ حضرت عثمان غنیؓ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمرؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ صحیفے (جنہیں حضرت زید نے حضرت ابوبکرؓ کے حکم سے جمع کئے تھے جن پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا)ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں (کتابی شکل میں) نقل کروالیں پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے-ام المؤمنین حضرت حفصہؓ نے وہ صحیفے بھیج دیئے-حضرت عثمان غنیؓ نے حضرت زید بن ثابت ، عبد اللہ بن زبیر، سعد بن العاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشامؓ کو حکم دیا کہ وہ اس اصل صحیفہ کو مصحفوں میں نقل کرلیں-آپؓ نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں حضرت زیدؓ سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا-چنانچہ ان صحابہ کرامؓ نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لیے گئے تو حضرت عثمان ؓ نے اصل صحیفہ ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمرؓ کو واپس لوٹادیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھجوادیا اور حکم دیا کہ اس کے سوا کوئی چیز اگرقرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے‘‘- [8]
مسجد حرام کی توسیع:
دورِ نبوی(ﷺ)میں کعبۃ اللہ کے چاروں طرف ایک تنگ سا صحن تھا جس میں لوگ نماز پڑھتے تھے،خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں مسجد حرام کی یہی صورتحال رہی لیکن حضرت عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں اسلامی فتوحات اور فوج در فوج لوگوں کے اسلام میں داخلے کے باعث اور حج کی ادائیگی کیلئے آنے والے حجاج کرام کیلئے جب مسجد حرام تنگ پڑ گئی تو حضرت عمر ؓ نے کعبہ سے قریب مکانات کو خرید کر منہدم کردیا اور چاروں طرف ایک نیچی دیوار قائم کردی اور ساتھ ہی رات میں روشنی کا اہتمام بھی فرمایا لیکن دوسری مرتبہ جب عہد عثمانیؓ میں مسجد حرام تنگی کا شکار ہوگئی تو حضرت عثمان ؓ نے مسجد سے قریب مکانات کو خرید کر مسجد حرام میں شامل کرتے ہوئے چاروں طرف سے ایک نیچی دیوار قائم کردی جو قد آدم سے متجاوز نہ تھی جیسا کہ اس سے قبل حضرت عمر ؓ نے کیا –
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری (م 310ھ)اپنی کتاب ’’تاریخ الطبری‘‘ میں سن 26 ھ کے واقعات کے تحت رقمطراز ہیں کہ:
’’قال الواقدی: فیھا امر عثمان بتجدید انصاب الحرم و قال فیھا زاد عثمان فی المسجد الحرام و وسعہ ---‘‘[9]
’’امام واقدی فرماتے ہیں کہ سن 26 ھ میں حضرت عثمانؓ نے حرم میں کعبہ کے اردگرد کھڑے کئے گئے پتھروں کو نئے سرے سے بنانے کا حکم دیا- مزید فرماتے ہیں کہ اسی سال حضرت عثمانؓ نے مسجد حرام میں توسیع کے حوالےسے حکم جاری فرمایا‘‘-
بیت المال سے مسجد نبوی (ﷺ) کی تعمیر نو:
حضرت عثمان غنیؓ جب مسند خلافت پر جلوہ فرما ہوئے تو چونکہ فتوحات کی کثرت اور مدینہ منورہ کی آبادی میں غیر معمولی اضافہ کے باعث مسجد نبوی (ﷺ) میں نماز جمعہ و عیدین کی ادائیگی میں جگہ کی شدید تنگی کا سامنا تھا اس لئے اہل مدینہ نے آپؓ سے مطالبہ کیا کہ مسجد نبوی (ﷺ) کی توسیع کی جائے اس سلسلہ میں آپ نے تما م اکابر اصحاب حل و عقود سے مشاورت کے بعد مسجد نبوی (ﷺ) کی عمارت کو از سر نو تعمیر کرنے کا حکم جاری فرمایا- جیسا کہ امام ابن جریر طبری ؒ اس کے متعلق رقمطراز ہیں کہ:
’’امام طبری ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے 29 سن ہجری میں مسجد نبوی ﷺ میں توسیع کرائی، آپ نے ربیع الاول کے ماہ میں اس کی بناء شروع کی، وادی سے تعمیراتی سامان اونٹوں پر لاد کر مسجد پاک کے قریب اتارا جاتا، آپؓ نے مسجد مبارک کو منقش پتھروں سے تعمیر کروایا اور مسجد پاک کے ستونوں کو ایسے پتھروں سے تیار کروایا جس میں سیسہ بھرا گیا اور مسجد پاک کی چھت کو ساگوان کی لکڑی سے بنوایا ،آپ نے مسجد پاک کی لمبائی 108 گز اور چوڑائی 150گز تیار کروائی اور مسجد پاک کے دروازے اتنے ہی رکھے جتنے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں تھے یعنی 6 دروازے ہی رکھے‘‘- [10]
نمازجمعہ کی ایک اذان کا اَضافہ:
امام بخاری ؒ ’’کتاب الجمعہ‘‘میں روایت فرماتےہیں کہ :
’’عن ابن شھاب :ان السائب بن یزید اخبرہ: ان التاذین الثانی یوم الجمعۃ امر بہ عثمان حین کثر اھل المسجد،و کان التاذین یوم الجمعۃ حین یجلس الامام‘‘
’’حضرت ابن شہاب فرماتے ہیں کہ حضرت سائب بن یزیدؓ نے انہیں خبر دی کہ جمعہ کے دن دوسری اذان کا حکم حضرت عثمانؓ نے اس وقت دیا جب نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی اورجمعہ کے دن وہ پہلی اذان اس وقت دیتے تھے جب امام بیٹھ جاتا تھا‘‘-
اسی طرح سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ :
حضرت سائب بن یزیدؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) اور حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا ،پھر جب حضرت عثمانؓ کی خلافت میں لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپؓ نے جمعہ کے دن تیسری اذان(یعنی اقامت کا حکم دیا) کا حکم دیا چنانچہ مقام زوراء پر اذان دی گئی پھر اسی طرح معاملہ جاری رہا-
خلاصۂ کلام:
حضرت عثمان غنیؓ کا دور خلافت اسلامی تاریخ کا سنہرا باب تصور کیا جاتا ہے -آپؓ کا اجتہادی دائرہ کار تمام شعبہ ہائے حیات کو شامل تھا جن میں سے چند بنیادی اجتہادات کو درج بالا میں ذکر کیا گیا-اسی طرح آپ کی فقاہت اور اجتہادی صلاحیت کا اندازہ ان امور سے بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے جو آپ کی ’’اولیات‘‘ کہلاتی ہے-جیسا کہ علامہ جلال الدین السیوطی ؒ نے اپنی کتاب ’’تاریخ الخلفاء‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ:
’’سب سے پہلے آپؓ نے جاگیریں مقرر کیں، چراگاہیں رکھنے کا دستور جاری کیا،تکبیر میں سب سے پہلے آپ نے اپنی آواز کو پست کیا، لوگوں سے سب سے پہلے آپ نے ہی مسجد کی لپائی کروائی، مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کی،آپ نے لوگوں کو ازخود زکوٰۃ نکالنے کا حکم کیا-آپ نے ہی اولاً کوتوال مقرر کیا،مسجد میں مقصورہ (چھوٹا کمرہ یا مسجد میں امام کے کھڑا ہونےکی جگہ)،سب سے پہلے آپ نے ہی اپنے اہل و عیال کو لے کر ہجرت کی اور لوگوں کو ایک قرأت پر متفق کیا-اسی طرح آپ کے دور خلافت میں جب دنیاوی مال بہت بڑھ گیا تو پہلی بری بات یہ پیداہوئی کہ بے فکروں نے کبوتربازی اور غلیل اندازی شروع کی اس لئے حضرت عثمانؓ نے اس کے روکنے کیلئے اپنی خلافت کے آٹھویں برس بنی لیث سے ایک شخص کو مقرر کیا جس نے کبوتروں کے پر کتر ڈالے اور غلیلیں توڑدیں‘‘-[11]
آئمہ اصول کے مطابق اسلامی فقہ کا دار و مدار قیاس و اجتہاد پر ہے کیونکہ اسی کے ذریعے مجتہد نئے پیش آمدہ مسائل کا دلائل کے ساتھ حل تلاش کرتا ہے- لہٰذا مجتہد کیلئے ضروری ہے کہ اُسے اجتہاد کی تمام وَجُوہ و طُرق کا صحیح طور پر علم ہو اسی طرح مجتہد کیلئے یہ بھی شرط ہے کہ وہ تمام علوم قرآنیہ،سنت رسول(ﷺ)،اجماع صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور دیگر تمام شرعی (دینی ہو ں یا دنیاوی)علوم میں مہارت تامہ رکھتا ہوں اور جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا کہ مجتہد کی تعریف ہی یہ ہے کہ جو نصوص ِکتاب و سنت سے شرعی احکا م کو بطریق استدلال استنباط کرنے میں اپنی پوری ہمت،طاقت اور عقلی و فکری استعداد خرچ کردے -
آخر میں چند تجاویز پیش کرتے ہوئے اپنی گفتگو کااختتام کرتا ہوں :
تجاویز:
آج کا معاشرہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر مختلف قسم کے مسائل میں گھرا ہوا ہے-جن کی خلاصی اور ترقی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہم قرآن و سنت میں بتائے ہوئے اجتہاد کے طریقہ کار سے کام لیں- خصوصاً ایسے مسائل جن کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی واضح نصوص موجود نہیں-جیسا کہ جدید میڈیکل سائنس اور اسی طرح کے دیگر مختلف مسائل جن میں بذریعہ اجتہاد حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے- یا وہ مسائل و معاملات جن کے بارے میں کتاب و سنت کی عبارات ایک سے زیادہ معانی کی متحمل ہیں اور ان کی تشریحات و توضیحات میں آئمہ کے اقوال مختلف ہیں-امت اور مملکت کے مفاد کے پیش نظر فقہاءِ عظام کسی ایک تشریح کو ترجیح دے سکتے ہیں یا کوئی ایسی جدید تعبیر و تشریح اختیار کر سکتے ہیں جن کی دور حاضر میں ضرورت ہو-اسی طرح وہ مسائل جن کا اسلامی فقہ میں کوئی ذکر نہیں جس طرح عہد حاضر کے جدید مسائل ان کے متعلق اجتہاد کے ذریعے قوانین وضع کئے جاسکتے ہیں- لیکن شرط یہ ہے کہ اجتہاد کے ذریعے وضع کئے جانے والے قوانین قرآن و سنت کی روح اور منشا ء کے منافی نہ ہوں-ہر عہد کی طرح موجودہ دور میں بھی اجتہاد کی ضرورت موجود ہے اور اس سے کام لینا وقت کی ضرورت ہے اور اسی میں ہماری ترقی کا راز مضمر ہے-
٭٭٭
[1]الجرجانی،علی بن محمد السید الشریف،معجم التعریفات،(قاہرہ:دارالفضیلۃ )،ص:12
[2]ایضاً
[3]السید محمد مرتضی بن محمد الحسینی الزبیدی،المتوفی1205ھ،تاج العروس،جلد: 4، باب الدال (بیروت :دارلکتب العلمیہ،ایڈیشن دوم،1433ھ)،ص:305
[4](الجرجانی،علی بن محمد السید الشریف،معجم التعریفات،(قاہرہ:دارالفضیلۃ )ص:12
[5](النساء:83)
[6]الحشر:2
[7]سنن ابی داؤد،کتاب الاقضیۃ
[8]صحیح بخاری، کتاب فضائل قرآن
[9] الطبری ،ابی جعفر محمد بن جریر متوفی310ھ، تاریخ الطبری( بیروت: دارالکتب العلمیہ، ایڈیشن پنجم ،1433ھ)،ص:595
[10]الطبری ،ابی جعفر محمد بن جریر متوفی310ھ، تاریخ الطبری( بیروت: دارالکتب العلمیہ، ایڈیشن پنجم ،1433ھ)،ص:606
[11]السیوطی،امام جلال الدین عبدالرحمن،تاریخ الخلفاء،(لاہور:شبیر برادرز)،ص:239