اللہ تعالیٰ نے حضور نبی پاک (ﷺ) کو ’’بِالْهُدٰى وَ دِينِ الْحَقِّ‘‘(ہدایت اور دینِ حق) کے ساتھ بھیجا تاکہ ’’لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ‘‘[1] (یہ دین تمام ادیان پہ غالب آ جائے) کا اتمام ہو-
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی اِس عظیم دعوت کے ابلاغ اور انجام دہی کےلئے اپنے بندوں میں سے صحابہ کرام ؓ جیسے نفوس قدسیہ کو چُنا،جس پر قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں گواہیاں موجود ہیں-
سورت نمل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ط[2]
تم کہو سب خوبیاں اللہ کو اور سلام اس کے چُنے ہوئے بندے پر-
امام ابن جریر ابو جعفر الطبری اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
حضرت ابن عباسؓ نے {وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى} کے بارے میں فرمایا کہ:
أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ اِصْطَفَاهُمُ اللّهُ لِنَبِيِّهِ[3]
اِس سے مُراد اصحاب مُصطفےٰ (ﷺ) ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کے لیے چن لیا-
اِسی حوالے سے حدیث پاک میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ اللهَ اِخْتَارَنِيْ، وَاخْتَارَ لِيْ أَصْحَابًا[4]
بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے چُن لیا اور میرے لیے میرے صحابہ کرام کو چُن لیا-
اِن نفوس قُدسیہ یعنی جماعت صحابہ کی حقانیت کو سُورۃ اِنفال میں یوں بیان فرمایا گیا:
اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ [5]
یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لئے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی-
اصحابِ رسول (ﷺ) کا مقبولِ بارگاہِ الٰہی اور نمائندہ خدا ہونے کی حیثیت کو سُورۃ المجادلہ میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:
رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُط اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللہِط اَ لَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ[6]
’’اللہ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بے شک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے‘‘-
صحابہ کرام کی مُسلَّمہ و مصدّقہ عالی حیثیت کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے ایمان کو معیار حق قرار دیتے ہوئے لوگوں کو اِن جیسا ایمان لانے کی دعوت دی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اٰمِنُوْا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ط اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ ‘‘[7]
اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤجیسے اور لوگ ایمان لا ئے ہیں تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لے آئیں سنتا ہے ؟ وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں -
اِس آیت مبارکہ کو دو حصوں میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں- ’’وَ إِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ‘‘ کی تفسیر میں علامہ ابو الحسن علی بن احمد بن محمد بن علی الواحدی، نيشاپوری، الشافعی (المتوفى: 468ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ جَمِيْعُ الْمُفَسِّرِيْنَ: اَلْمُرَادُ بِالنَّاسِ فِيْ هٰذِهِ الْآيَةِ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ (ﷺ)وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا بِهٖ [8]
تمام مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں الناس سے مراد اصحاب مصطفےٰ (ﷺ) اور آپ (ﷺ)پر ایمان لانے والے ہیں-
اِس آیت کریمہ کے آخری الفاظ :
’’اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ ‘‘
یہ صحابہ کرام ؓ کی عظمت، رفعت اور قرب خداوندی پر بمنزلہ مہر کے ثبت ہے -
شارحِ صحیحین مفسرِ قرآن حضرت علامہ غلام رسول سعیدیؒ اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ سنو یہی لوگ بے وقوف ہیں لیکن ان کو علم نہیں ہے‘‘-
منافقین نے رسول اللہ (ﷺ) کے اصحاب کو جاہل کہا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا اور ان کی زیادہ جہالت بیان کی کہ وہ نہ صرف جاہل ہیں بلکہ ان کو اپنی جہالت کا علم بھی نہیں اور اس آیت میں قصر قلب ہے اور کئی وجہ سے تاکید ہے، قصر قلب کا تقاضا یہ ہے کہ اصحاب رسول جاہل نہیں ہیں بلکہ یہی (منافقین) جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور خود کو عالم سمجھ رہے ہیں اور اس جملہ کو اللہ تعالیٰ نے ’’الا ، ان‘‘ اور اسمیت جملہ سے موکد فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ جہالت میں رہیں گے اور ان کو اپنی جہالت کا علم نہیں ہوگا-اور ایسی جہالت زیادہ لائق مذمت ہے کیونکہ جس شخص کو کسی چیز کا پتا نہ ہو اس میں صرف ایک جہالت ہے اور وہ بسا اوقات معذور ہوتاہے اور جب اس کو اس چیز کا پتا چلتا ہے یا اس کو مسئلہ بتا دیا جائے تو اس کی جہالت زائل ہوجاتی ہے اور اس کو ہدایت سے نفع پہنچتا ہے اور جو شخص جاہل ہو اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہو اس میں دو جہالتیں ہیں -ایک مسئلہ سے جہالت، دوسری اپنی جہالت سے جہالت، اس کو جہل مرکب کہتے ہیں-
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کو سب و شتم کرنا اللہ کوبہت ناگوار ہے ، منافقین نے ایک بار صحابہ کو جاہل کہا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ آیت نازل کر دی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ جاہل نہیں بلکہ ان کو جاہل کہنے والے خود جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور ان کا جہل دائمی ہے-اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی جہل سے براءت کی اور ان کو جاہل کہنے والوں کی مذمت کی -منافقین نے تو ایک بار صحابہ کو جاہل کہا تھا لیکن جب تک قرآن مجید پڑھا جاتا رہے گا یہ کہا جاتا رہے گا کہ منافقین جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل اور دائمی جہل میں گرفتار ہیں-اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ صحابہ پر سب و شتم کرنے والوں کا رد کرنا چاہیے اور صحابہ کا دفاع کرنا چاہیے کہ یہ سنت الٰہیہ ہے-[9]
جملہ صحابہ کرام ؓ میں سے خلفاء اربعۃ کو ایک منفرد حیثیت اور غیر معمولی مقام حاصل ہے -
اجل ائمہ تفسیرنے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلفاء اربعہ کی فضیلت کو ایک ہی آیت میں اکٹھے بیان فرمایا ہے اور وہ آیت مبارک یہ ہے - ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ط وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضْوَانًا سکتہ سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِم مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ط ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىۃِ ج صلے وَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ج کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ط وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا [10]
محمّد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے ان کی علامت ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹّھا نکالا پھر اسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بَھلی لگتی ہے تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں - اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان اور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا -
اِس آیت کی تفسیر میں امام ابو محمد بن ابو طالب اندلسی المالکی ، محی السنہ امام بغوی ، امام ثعلبی اور امام خازن جیسے اکابر ائمہ تفسیر لکھتے ہیں :
وَالَّذِيْنَ مَعَهُ‘‘ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ (ؓ)، ’’أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ‘‘ عُمَرُ بْنَ الْخَطَّابِ (ؓ)، ’’رُحَماءُ بَيْنَهُمْ‘‘ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ (ؓ)، ’’تَراهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا‘‘ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ (ؓ)[11]
’’وَالَّذِيْنَ مَعَهُ‘‘سے مراد حضرت ابو بكر الصديق ؓ ہیں-’’أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ‘‘ سے مراد حضرت عمر بن الخطاب ؓ ہیں-’’رُحَماءُ بَيْنَهُمْ‘‘ سے حضرت مراد عثمان بن عفّان ؓ ہیں،’’تَراهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا‘‘ سے مراد حضرت علی بن ابی طالب ؓ ہیں-
پھر مزیداسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’أَخْرَجَ شَطْـَٔہٗ‘‘أَبُوْ بَكْرٍن الصَّدِيْقُ،’’فَآزَرَهُ‘‘ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، ’’فَاسْتَغْلَظَ‘‘ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، يَعْنِيْ اِسْتَغْلَظَ بِعُثْمَانِ الْإِسْلَامَ ’فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهِ عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ يَعْنِيْ اِسْتَقَامَ الْإِسْلَامُ بِسَيْفِهٖ[12]
’’أَخْرَجَ شَطْـَٔہٗ ‘‘سے مراد حضرت ابوبكر الصدّيق ؓ ہیں ، ’’فَآزَرَهُ‘‘سے مراد حضرت عمر بن الخطّابؓ ہیں، ’’فَاسْتَغْلَظَ‘‘سے حضرت مراد عثمان بن عفّانؓ ہیں یعنی حضرت عثمان سے اسلام مضبوط ہوا، ‘‘ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ ‘‘سے حضرت مرادعلی بن ابی طالب یعنی آپ ؓ کی تلوار سے اسلام کو استقامت ملی-
حدیث پاک میں خلفاء اربعہ ؓ کے بارے میں حضور نبی کریم (ﷺ) نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ :
وَاخْتَارَ لِيْ مِنْ أَصْحَابِيْ أَرْبَعَةً: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَ عُثْمَانُ وَعَلِيٌّ[13]
اور میرے اصحاب میں سے میرے لئے چار صحابہ کو چُن لیا ہے حضرت ابو بکرصدیق، حضرت عمرفاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی شیر خداؓ -
اِس تمہیدی گفتگو کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہی وہ نفوس قدسیہ (صحابہ کرام) ہیں جن کے وسیلہ سے پُوری اُمت مسلمہ تک دین پہنچا ہے، قرآن پہنچا ہے، حدیث پہنچی ہے- اِنہی نفوسِ قدسیہ کے ربط ِ محبت اورربطِ عقیدت کے بغیر نہ تو دین کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟ نہ توقرآن کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ اور نہ تواللہ کے پاک رسول (ﷺ) و آلِ رسول (ﷺ) سے سچی محبت کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟
شیخ الاسلام امام المتکلمین نجم الدین ابو حَفص عمر النسفی ’’عقائد النسفی‘‘ میں لکھتے ہیں:
وَيَكُفُّ عَنْ ذِكْرِ الصَّحَابَةِ إِلَّا بِخَيْرٍ [14]
اور ذکر خیر کے علاوہ کسی طریقہ پر صحابہ کرام کے ذکر سے زبان کو روکا جائے-
امام المتکلمین علامہ سعدالدین تفتازانی’’شرح العقائد النسفیۃ ‘‘میں لکھتے ہیں :
وَ سَائِرُ الصَّحَابَۃِ لَا یُذْکَرُوْنَ اِلَّا بِخَیْرَ[15]
اور تمام صحابہ کرام کا ذکر (ہمیشہ) خیر کے ساتھ ہی کیا جائے-
اِنہی نفوسِ قدسیہ میں سے عظیم شان و رفعت اور قدر و منزلت کی منفرد حامل شخصیت امیرالمومنین سیدنا حضرت عثمان غنی ذوالنورین ؓ ہیں جن کی زندگی کا ہر پہلو انسانیت کیلئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتا ہے -
شرح الفقہ الاکبر میں ملا علی القاری المتوفی : 1014ھ سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ کی شان اور عظمت کے حوالے سے لکھتے ہیں :
وَھُوَ ذُوالنُّوْرَیْنِ کَمَا فِیْ نُسْخَۃٍ ، لِاَنَّہٗ تَزَوَّجَ بِنْتَیِ النَّبِیُّ (ﷺ) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام : لَوْ کَانَتْ لِیْ اُخْرٰی لَزَوَّجَھَا اِیَّاہُ، وَ یُقَالُ لَمْ یُجْمَعُ بَیْنَ بِنْتَیْ نَبِیٍّ مِنْ لَّدُنْ آدَمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اِلٰی قِیَامِ السَّاعَۃِ اِلَّا عُثْمَانَ (ؓ)- [16]
اور ان کا لقب ذو النورین ہے جیسے کہ ایک نسخے میں یہ الفاظ بھی ہیں کیونکہ حضرت عثمان ؓ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی دو بیٹیوں سے یکے بعد دیگر نکاح کیا تھا اور آپ (ﷺ) نے ان کے حق میں فرمایا تھا کہ اگر میری اور بیٹی بھی ہوتی تو میں اس کو بھی حضرت عثمان ؓ کے نکاح میں دے دیتا کہا جاتا ہے کہ حضرت آدمؑ سے لے کر کسی بھی امتی کے نکاح میں ایک ہی نبی کی دو بیٹیاں سوائے حضرت عثمان کے نہیں آئیں-
مزید حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
فَلَوْ كُنَّ عَشْرًا لَزَوَّجْتُهُنَّ عُثْمَانَ[17]
اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ضرور ان کا نکاح (یکے بعد دیگرے) عثمان سے کر دیتا-
آپ ؓ کے فضائل میں کئی آیات مبارکہ بھی نازل ہوئی ہیں حصولِ برکت کیلئے کچھ یہاں بیان کر دیتے ہیں : لیکن ایک بات ذہن نشین رہے کہ بعض دفعہ ایک ہی آیت مبارک کے شانِ نزول میں مختلف اقوال ہوتے ہیں تو ہم صر ف سیدنا حضرت عثمان غنی ذوالنورین ؓ سے متعلق ہی اقوال کو نقل کرنے کی کوشش کریں گے –
آیت :1
’’اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ط مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْبٌ ‘‘[18]
’’کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر اگلوں کی سی روداد نہ آئی پہنچی انہیں سختی اور شدت اور ہلا ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ کہہ اٹھا رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کب آئے گی اللہ کی مدد سن لو بیشک اللّٰہ کی مدد قریب ہے ‘‘-
ابو الحسن مقاتل بن سليمان بن بشير الازدی البلخى (المتوفى: 150ھ) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
نَزَلَتْ فِيْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَأَصْحَابِهٖ رَحِمَهُمُ اللهُ[19]
یہ آیت حضرت عثمان بن عفان ؓ اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے-
امام جلال الدین سیوطی (المتوفی : 911ھ) اسباب النزول میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ: نَزَلَتْ ھٰذِہٖ الْآیَۃُ فِیْ یَوْمِ الْآحْزَابِ، اَصَابَ النَّبِیَّ (ﷺ) وَاَصْحَابَہٗ یَوْمَئِذٍ بَلَاءٌ وَ حَصْرٌ ‘‘[20]
’’حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ یہ آیت احزاب والے دن کے بارے نازل ہوئی ، حضور نبی کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام ؓ کو اس دن مصیبت اور قید کاسامنا کرنا پڑا‘‘-
آیت :2
’’مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ‘‘[21]
’’ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ‘‘-
امام محمد بن احمد بن ابو بكر القرطبی (المتوفى: 671ھ) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’رُوِيَ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِيْ شَأْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا‘‘
’’روایت کی گئی ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان اور عبد الرحمٰن بن عوفؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے ‘‘-
’’وہ اس طرح کہ رسول اللہ (ﷺ) نے جب لوگوں کو صدقہ پر اُبھارا جس وقت آپ (ﷺ) نے غزوہ تبوک کی طرف نکلنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ چار ہزار لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) میرے پاس آٹھ ہزار تھے تو میں نے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے چار ہزار رکھے ہیں اور چار ہزار مَیں نے اپنے رب کو بطور قرض پیش کر دیے ہیں-تو رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا:
بَارَکَ اللہُ لَکَ فِیْمَا اَمْسَکْتَ وَفِیْمَا اَعْطَیْتَ
اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے اس میں بھی جو تونے گھر والوں کے لئے روک لیا اور اس میں بھی جو تو نے پیش کر دیا-
حضرت عثمان ؓ نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) اُس کی تیاری کا سامان میرے ذمہ ہے جس کے پاس تیاری کا سامان نہیں ہے ، تو اِن دونوں کے بارے میں یہ آیت مبارک نازل ہوئی‘‘-[22]
آیت :3
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ[23]
وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر دے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم -
امام ابو الليث نصر بن محمد سمرقندی (المتوفى: 373ھ) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
نَزَلَتْ فِيْ شَأنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، حِيْنَ اشْتَرٰى بِئْرَ رُوْمَةٍ، ثُمَّ جَعَلَهَا سَبِيْلًا عَلٰى الْمُسْلِمِيْنَ[24]
یہ آیت حضرت عثمان بن عفان ؓ کی شان میں نازل ہوئی ، جب انہوں نے بئر رومۃ خریداپھر مسلمانوں کے لیے وقف کیا -
امام محمد بن احمد بن ابو بكر القرطبی (المتوفى: 671ھ) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قِيْلَ: إِنَّهَا نَزَلَتْ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ(ؓ)
کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان ابن عفان ؓ کے بارے میں نازل ہوئی -
حضرت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ نے بیان کیا ہے جَيْش الْعُسْرَة غزوہ تبوک کی تیاری کے لئے حضرت عثمان ؓ ایک ہزار دینار لے کر حاضر ہوئے اور انہیں رسول اللہ (ﷺ) کی گود میں ڈال دیا تو میں نے آپ (ﷺ) کو دیکھا ، آپ اپنا دست مبارک اُن میں داخل کرتے ہیں اور انہیں الٹ پلٹ کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ:
مَا ضَرَّ ابْنَ عَفَّانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ اَللّٰهُمَّ لَا تَنْسَ هَذَا الْيَوْمَ لِعُثْمَانَ
آج کے بعد ابن عفا ن نے جو عمل بھی کیا وہ ان کے لئے نقصان دہ نہیں، اے اللہ تو آج کے دن عثمان کو نہ بھولنا-
حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو حضرت عثمان ؓ کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے دیکھا ہے-آپ فرما رہے تھے:
يَا رَبَّ عُثْمَانَ إِنِّيْ رَضِيْتُ عَنْ عُثْمَانَ فَارْضَ عَنْهُ فَمَا زَالَ يَدْعُوْ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ فَنَزَلَتْ:اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ أَمْوالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَا أَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَا أَذىً، الْآيَةَ.[25]
اے عثمان کے رب میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی اِس سے راضی رہ،آپ (ﷺ) مسلسل دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور یہ آیت نازل ہوئی:
اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ أَمْوالَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُوْنَ مَا أَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَا أَذىً" الْآيَةَ.
مفسرین کرام میں سے ابن عطیہ اندلسی، ابو الحسن خازن، امام جوزی ، امام ثعلبی امام الماوَردی اور علاوہ ازیں نےبھی یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت مبارک سیدنا حضرت عثمان ا بن عفان ذوالنورین ؓ کی شان میں نازل ہوئی ہے - [26]
آیت :4
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ [27]
اے ایمان والو! اللہ و رسول سےخیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اس حال میں کہ تم جانتے ہو -
علامہ ابن عطية الاندلسی المحاربی (المتوفى: 542ھ) اِسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
هٰذَا خِطَابٌ لِجَمِيْعِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَ هُوَ يَجْمَعُ أَنْوَاعِ الْخِيَانَاتِ كُلِّهَا قَلِيْلِهَا وَ كَثِيْرِهَا[28]
یہ قیامت تک کے تمام مومنین کے لیے خطاب ہے اور یہ ہر چھوٹی بڑی خیانت کو شامل ہے-
ابن جرير ابو جعفر الطبری (المتوفى: 310ھ) اِسی آیت کی تفسیر میں یہ قول بھی نقل فرمایا ہے :
عن عَبْد اللهِ بْنَ أَبِي قَتَادَةَ، يَقُولُ: نَزَلَتْ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا } [الأنفال: 27] فِي أَبِي لُبَابَةَ وَقَالَ آخَرُونَ: بَلْ نَزَلَتْ فِي شَأْنِ عُثْمَانَ (ؓ) [29]
حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا} [الانفال: 27] یہ آیت حضرت ابو لبابہ کے بارے میں نازل ہوئی اور متاخرین مفسرین نے فرمایا بلکہ یہ آیت حضرت عثمان غنی ؓ کی شان میں نازل ہوئی -
عَنِ الْمُغِيرَة بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي قَتْلِ عُثْمَانَ (ؓ) [30]
حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے آپ نے فرمایاکہ یہ آیت حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بارے نازل ہوئی ، (کیونکہ اِس طرح کا فتنہ و فساد برپا کرنا اللہ و رسول کے ساتھ خیانت ہے)
آیت :5
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاٰنْہٰرُج وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ ہَدٰىنَا لِہٰذَا ۵ وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰىنَا اللہُ ج لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ط وَنُوْدُوْٓا اَن تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [31]
اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لئے ان کے نیچے نہریں بہیں گی اور کہیں گے سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی اور ہم راہ نہ پاتے اگر اللہ نہ دکھاتا بے شک ہمارے رب کے رسول حق لائے اور ندا ہوئی کہ یہ جنت تمہیں میراث ملی صِلہ تمہارے اعمال کا-
امام الفقیہ ابو الليث نصر بن محمد بن احمد بن ابراہيم السمرقندی الحنفی (المتوفى: 373ھ) اِس آیت مبارک ’’وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
قَالَ اِبْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ فِيْ أَبِيْ بَكْرٍ ن الصِّدِّيْق وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَ نَحْوِهِمْ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) وَ مَنْ تَابَعَهُمْ عَلٰى سُنَّتِهِمْ وَمِنْهَاجِهِمْ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ[32]
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی حضرت علی ؓ اور اُن جیسے دیگر اصحاب ِمُصطفٰے (ﷺ) اور قیامت تک اُن کے راستے پر چلنے والے لوگوں کے بارے نازل ہوئی -
امام احمد ابن حنبل، امام عبد الرزاق الصنعانی، امام بیضاوی ، امام ابو جعفر الطبری ، نعیم بن حماد المروزی اور دیگر کئی محدثین و مفسرین اِسی آیت کی تفسیر میں اسد اللہ الغالب سیدنا علی ابن ابی طالبؓ کا قولِ مبارک لکھتے ہیں :
عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ (ؓ) إِنِّيْ لَأَرْجُوْ أَنْ أَكُونَ أَنَا وَعُثْمَانُ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ مِنَ الَّذِينَ قَالَ اللهُ تَعَالَى فِيهِمْ: {وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ}، رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ
حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ مَیں، حضرت عثمان ،حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ؓ بھی اُن لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ}رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ ‘‘[33]
آیت :6
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِذَا کَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَاْذِنُوْہُ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ ج فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْکَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْہُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَہُمُ اللہَ طاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر یقین لائے اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام میں حاضر ہوئے ہوں جس کے لئے جمع کئے گئے ہوں تو نہ جائیں جب تک ان سے اجازت نہ لے لیں وہ جو تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں پھر جب وہ تم سے اجازت مانگیں اپنے کسی کام کیلئے تو ان میں جسے تم چاہو اجازت دے دو اور ان کے لئے اللہ سے معافی مانگو ،بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے -
حافظ ابن کثیر (المتوفى: 774ھ) اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ :
’’اللہ تعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو (حضور نبی کریم (ﷺ) کے) ادب کی تعلیم دے رہا ہے کہ جس طرح آتے ہوئے اذن طلب کرنا چاہیے، اسی طرح واپس جاتے وقت بھی اجازت مانگنی چاہیے-آپ (ﷺ) کی اجازت کے بغیر واپس نہیں جاناچاہیے اور یہ کامل مومن ہونے کی دلیل ہے‘‘-[34]
امام ابو الليث نصر بن محمد بن احمد بن ابراہيم السمرقندی (المتوفى: 373ھ) اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں
وَقَالَ مُقَاتِلٌ: نَزَلَتْ فِيْ شَأنِ عُثْمَانَ حِيْنَ اِسْتَأذَنَ فِيْ غَزْوَةِ تَبُوْكٍ بِالرَّجُوْعِ إِلٰى أَهْلِهٖ، فَأْذَنَ لَهٗ. ثُمَّ قَالَ: وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللهَ أَيْ فِيْمَا اِسْتَأذَنُوْكَ مِنَ الرَّجُوْعِ بِغَيْرِ حَاجَّةٍ لَّهُمْ. إِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ لِمَنْ تَابَ رَحِيْمٌ بِهٖ[35]
حضرت مقاتل نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عثمان غنی ؓ کی شان میں نازل ہوئی جب انہوں نے غزوہ تبوک میں گھر واپسی کی اجازت طلب کی پس آپ (ﷺ) نے انہیں اجازت فرما دی پھر آپ (ﷺ)کو حکم ہوا کہ آپ ان کیلئے استغفار فرمائیں جنہوں نے بلا وجہ آپ سے واپسی کی اجازت طلب کی، بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے -
آیت :7
اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ ط قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ طاِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ
کیا وہ جسے فرمانبرداری میں رات کی گھڑیاں گزریں سجود میں اور قیام میں آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت کی آس لگائے کیا وہ نافرمانوں جیسا ہو جائے گا تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں-
علامہ ابو الحسن علی بن احمد بن محمد بن علی الواحدی، النيشاپوری، الشافعی (المتوفى: 468 ھ) نے اِسی آیت ’’أَمْ مَنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ‘‘ کی تفسیر میں یہ قول بھی نقل فرمایا ہے :
وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ نَزَلَتْ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ[36]
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے-
امام عبدالرحمان بن محمدابن ابی حاتم (المتوفی : 327ھ ) اس آیت کی تفسیر میں اسی قول کی وضاحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد حضرت عثمان بن عفان ؓ ہیں -حضرت ابن عمر ؓ نے یہ اس لئے فرمایا کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ رات کو بکثرت نماز پڑھا کرتے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے حتی کہ وہ ایک رکعت میں پورا قرآن مجید ختم کر لیتے تھے-حضرت ابو عبیدہ ؓ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے‘‘-[37]
آیت :8
وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْہَا وَ اَنَابُوْٓا اِلَی اللہِ لَہُمُ الْبُشْرٰی ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ [38]
اور وہ جو بتوں کی پوجا سے بچے اور اللہ کی طرف رجوع ہوئے انہیں کے لئے خوشخبری ہے تو خوشی سناؤ میرے ان بندوں کو -
امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن أبی بكر القرطبی (المتوفى : 671ھ) ، اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی نقل فرمایا ہے :
رُوِيَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدٍ وَسَعِيدٍ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ[39]
روایت کیا گیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت سعد، حضرت سعید، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی-
آیت :9
اٰمِنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ [40]
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں اوروں کا جانشین کیا تو جو تم میں ایمان لائے اور اس کی راہ میں خرچ کیا ان کے لئے بڑا ثواب ہے -
امام جلال الدين السيوطی (المتوفى: 911ھ) اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں :
نزلت في عثمان بن عفان (ؓ) فإنه جهَّز جيش العسْرة.[41]
یہ آیت مبارک حضرت عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ،کیونکہ انہوں نے جیش العسرۃ کوسامان مہیا کیا-
آیت :10
وَ مَا لَکُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَ لِلہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ط لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُم مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ط اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا ط وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰیط وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ [42]
اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین سب کا وارث اللہ ہی ہے تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنّت کا وعدہ فرماچکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے-
علامہ ابو المظفر، منصور بن محمد بن عبد الجبار ابن احمد المروزى السمعانی (المتوفى: 489ھ) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وَ ذَكَرَ النَّقَاشُ أَنَّ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِيْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (ؓ) وَكَانَ قَدْ جَهَزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ وَ أعْطٰى سَبْعَمِائَةٍ وَّ ثَلَاثِيْنَ بَعِيْرًا وَ أعْطٰى سَبْعِيْنَ فَرَسًا، وَكَانَ أَعْطَاهَا بِآلَاتِهَا[43]
اور نقاش نے ذکر کیا کہ یہ آیت حضرت عثمان غنی ؓ کے بارے میں نازل ہوئی اور انہوں نے جیش العسرۃ کے موقعہ پر 733 اونٹ اور 70 گھوڑے سامان سمیت دیئے -
آیت :11
یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُصلےارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً [44]
اے اطمینان والی جان اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی-
امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابی بكر القرطبی (المتوفى:671ھ) ان آیات کریمہ کے تحت لکھتے ہیں :
وَرَوٰى الضَّحَّاكُ إِنَّهَا نَزَلَتْ فِيْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (ؓ) حِيْنَ وَقَفَ بِئْرَ رُوْمَة[45]
حضرت ضحاک نے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان غنی ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے بئر رومۃ کو وقف کیا-
آیت :12
سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشٰی[46]
عنقریب نصیحت مانے گا جو ڈرتا ہے -
امام فخر الدين الرازی (المتوفى: 606ھ) اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں:
قِيْلَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِيْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ[47]
کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے-
آیت :13
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی [48]
بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا
امام قرطبی (المتوفى :671ھ) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
عَنْ عَطَاءٍقَالَ: نَزَلَتْ فِيْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (ؓ)[49]
حضرت عطاء ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے-
خلاصہ ٔ کلام:
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جن کی سماجی و معاشرتی حیثیت کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرمائے:’’اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا‘‘، جن کی عظمت میں آقا کریم (ﷺ) یہ ارشاد فرمائیں: ’’وَاخْتَارَ لِيْ أَصْحَابًا‘‘، جن کی بارگاہِ الٰہی میں مقبولیت کا یہ عالم ہو: ’’رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ‘‘، جن کے ایمان کا یہ عالم ہو کہ رب تعالیٰ لوگوں سے فرمائے ’’اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ‘‘ کہ ان جیسا ایمان لے آؤ تب قبول کیا جائے گا-یعنی جن کے ایمان کو اللہ تعالیٰ لوگوں کیلئے بطور کسوٹی کے بیان فرمائے، جن کے کردرا کا یہ عالم ہو کہ محبوب خدا (ﷺ) اپنی امت سے فرمائیں: ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ‘‘[50]جن کی ’’authenticity‘‘ کا یہ عالم ہو کہ آقا کریم (ﷺ) امت سے فرمائیں’’اَصْحَابِيْ كَالنُّجُوْمِ بِأَيِّهمْ اِقْتَدَيْتُمْ اِهْتَدَيْتُمْ‘‘[51] تو یقیناً ان سے صرف محبت ہی کی جاسکتی ہے ان سے صرف پیار کا رشتہ ہی استوار کیا جا سکتا ہے کیونکہ محبوبِ خدا (ﷺ) اور ہمارے درمیان، قرآن اور ہمارے درمیان، دین اسلام اور ہمارے درمیان ، آلِ رسول اور ہمارے درمیان، ان کے علاوہ کوئی واسطہ و ربط نہیں ہے جو ہمیں ان تمام سے جوڑ سکے-
خدارا! اسی ربط اور رشتے کو کمزور نہ ہونے دیں-اگر یہ ربط اور رشتہ کمزور ہو گیا تو نہ تو دین کا فیض نصیب ہو سکے گا، نہ تو قرآن کا نور میسر آ سکے گا، نہ محبوبِ خدا اور آلِ رسول (ﷺ) سے محبت نصیب ہو سکےگی-اسی ربط اور رشتے کی ایک لڑی دامادِ رسول (ﷺ)، امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان بن عفان ذو النورین ؓ بھی ہیں -جن کی شان و عظمت میں بارگاہِ الٰہی سے کئی آیات مبارکہ نازل کی گئیں-جن کو محبوبِ خدا (ﷺ) کی بارگاہ سے ’’عُثْمَانُ فِی الْجَنَّةِ‘‘ اور’’مَا ضَرَّ ابْنَ عَفَّانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْم‘‘ کی سند عطا کی گئی ہو، جو صفتِ حیاء اور سخاوت میں اوجِ ثریا پہ متمکن ہوں، جن کی حیاء کا یہ عالم ہو کہ آقا کریم (ﷺ) فرمائیں ’’اَشَدُّ أُمَّتِيْ حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ‘‘[52]میری امت میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان بن عفان ہیں، جو ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ‘‘میں سے ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہوں- اس لئے ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم ان سے محبت و عقیدت کا رشتہ استوار کریں اور ان کے کردار میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کریں-اسی میں ہمارے لئے بھلائی اور خیر ہے-
٭٭٭
[1]الصف :9/ التوبہ: 33
[2]النمل:59
[3]تفسير الطبری لابن جریر أبو جعفر الطبری (المتوفى: 310هـ) ، جز :18 ، ص :98،الناشر: دار هجر
[4]السنة لابن أبي عاصم ،(المتوفى: 287هـ) جز: 2 ،ص: 483، الناشر: المكتب الإسلامي – بيروت
السنة لابی بکر بن الخلال (المتوفى: 311هـ) جز: 3 ،ص: 515، الناشر: دار الراية – الرياض
المعجم الكبير للطبرانی (المتوفى: 360هـ) ، جز: 17 ، ص: 140، دار النشر: مكتبة ابن تيمية – القاهرة
أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير الجزري (المتوفى: 630ھ) ، جز: 3 ،ص: 356، الناشر: دار الكتب العلمية ، بيروت
الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) ، جز: 4 ، ص:176، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
[5]الانفال : 4
[6]المجادلہ : 22
[7]البقرہ : 13
[8]الوسيط في تفسير القرآن المجيد للواحدی (المتوفى: 468هـ) ، جز :1 ،ص : 89، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان
تفسير النكت والعيون للماوردي (المتوفى: 450هـ) ، جز: 1 ،ص: 75، الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان
[9]تفسیر تبیان القرآن ، ج: 1، ص:311، فرید بک سٹال اردو بازار لاہور ، پاکستان
[10]الفتح : 29
[11]الهداية إلى بلوغ النهايةلامام أبو محمد مكي بن أبي طالب الأندلسي المالكي (المتوفى : 437هـ) جز :11، ص :6981، الناشر : كلية الشريعة والدراسات الإسلامية
الكشف والبيان للثعلبي (المتوفى: 427هـ) ، جز: 9 ، ص: 66، الناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت – لبنان
تفسیرمعالم التنزيل للبغوي الشافعي (المتوفى : 510هـ)، جز :4 ،ص: 245، الناشر : دار إحياء التراث العربي –بيروت
لباب التأويل في معاني التنزيل للخازن (المتوفى: 741هـ) ، جز :4 ،ص: 172، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
[12]الكشف والبيان للثعلبي (المتوفى: 427هـ) ، جز: 9 ، ص: 66، الناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت – لبنان
تفسیرمعالم التنزيل للبغوي الشافعي (المتوفى : 510هـ)، جز: 4 ،ص: 245، الناشر : دار إحياء التراث العربي –بيروت
تفسیر سراج المنير للشربيني الشافعي (المتوفى: 977هـ) ، جز :4 ، ص: 58، الناشر: مطبعة بولاق (الأميرية) – القاهرة
[13]تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم ، (المتوفى: 327هـ)، جز: 13 ،ص: 814، الناشر: مكتبة نزار مصطفى الباز - المملكة العربية السعودية
الشريعة للآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) ،جز: 4 ،ص :1680، الناشر: دار الوطن - الرياض / السعودية
[14]شروع و حواشی العقائد النسفیۃ ، جز: 1، ص : 172، دالکتب العلمیۃ ،بیروت ،لبنان
[15]شروع و حواشی العقائد النسفیۃ ، جز 1، ص : 173 ، دالکتب العلمیۃ ،بیروت ،لبنان
[16]شرح الفقہ الاکبر ،جز: 1 ،ص: 62، قدیمی کتب خانہ آرم باغ ، کراچی ،پاکستان
[17]الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم، (المتوفى: 287ھ)،جز: 5، ص: 378، الناشر: دار الراية - الرياض
الشريعة لأبو بكر محمد بن الحسين الآجُرِّيُّ البغدادی (المتوفى: 360ھ) ، جز: 4 ،ص: 941، الناشر: دار الوطن - الرياض / السعودية
المعجم الكبير لأبو القاسم الطبرانی (المتوفى: 360ھ) ، جز :22 ، ص: 436، دار النشر: مكتبة ابن تيمية – القاهرة
[18]البقرہ: 214
[19]تفسير مقاتل بن سليمان لابو الحسن مقاتل بن سليمان الأزدي البلخى (المتوفى: 150ھ)، جز : 1 ، ص: 182الناشر: دار إحياء التراث ، بيروت
[20]اسباب النزول للسیوطی (المتوفی:911ھ)، جز:1، ص: 62، دارالفجرللتراث ، القاہرہ
[21]البقرہ: 261
[22]تفسیر بحر العلوم: لأبو الليث السمرقندی (المتوفى: 373ھ)، جز: 1 ،ص :228، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان
تفسیر الجامع لأحكام القرآن لامام قرطبی (المتوفى : 671ھ) ، جز:3، ص: 303، الناشر : دار الكتب المصرية - القاهرة
تفسیر اللباب لأبو حفص سراج الدين عمر بن علي بن عادل الحنبلی (المتوفى: 775ھ) ، جز : 4 ، ص :377، الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان
[23]البقرہ: 262
[24]تفسیر بحر العلوم لأبو الليث السمرقندي (المتوفى: 373ھ)، جز: 1 ،ص: 229، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان
[25]الجامع لأحكام القرآن لامام قرطبی (المتوفى : 671ھ) ، جز 3 ،ص : 306، الناشر : دار الكتب المصرية – القاهرة
العجاب في بيان الأسباب لابن حجر العسقلانی (المتوفى: 852ھ) ، جز: 1 ،ص: 621،الناشر: دار ابن الجوزی
أسباب نزول القرآن للواحدی، النيسابوری، الشافعی (المتوفى: 468ھ)،جز: 1 ،ص :89، الناشر: دار الكتب العلمية- بيروت
معالم التنزيل فی تفسير القرآن لامام البغوی الشافعی (المتوفى : 510ھ) ، جز: 1 ،ص : 360، الناشر : دار إحياء التراث العربي ،بيروت
[26]المحرر الوجيز فی تفسير الكتاب العزيز لابن عطية الأندلسی المحاربی (المتوفى: 542ھ)، جز:1 ،ص : 356، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
تفسیر لباب التأويل فی معانی التنزيل لامام أبو الحسن الخازن (المتوفى: 741ھ) ، جز :1،ص: 199، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
تفسیر السراج المنير للخطيب الشربينی الشافعی (المتوفى: 977ھ) ، جز :1 ،ص: 176، الناشر: مطبعة بولاق (الأميرية) - القاهرة
زاد المسير فی علم التفسير لامام الجوزی (المتوفى: 597ھ)، جز :1 ،ص : 238، الناشر: دار الكتاب العربي – بيروت
الكشف والبيان عن تفسير القرآن لابو اسحاق الثعلبی (المتوفى: 427ھ)، جز: 2، ص: 258، الناشر: دار إحياء التراث العربی، بيروت – لبنان
تفسيرالنكت والعيون للماوردی البغدادی (المتوفى: 450ھ)، جز :1 ،ص : 337، الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان
[27]الانفال : 27
[28]المحرر الوجيز فی تفسير الكتاب العزيز لابن عطية الأندلسی (المتوفى: 542ھ) ، جز :2،ص: 517، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
[29]تفسیر طبری لابن جریر ابو جعفر الطبری (المتوفى: 310ھ) ، جز: 13، ص : 482، الناشر: مؤسسة الرسالة
[30]تفسیرطبری لابن جریر ابو جعفر الطبری (المتوفى: 310ھ) ، جز: 13، ص : 482، الناشر: مؤسسة الرسالة
تفسير القرآن العظيم لابن كثير (المتوفى: 774ھ)، الناشر: دار الكتب العلمية، - بيروت
الدر المنثور للسيوطی (المتوفى: 911ھ)،جز: 4 ،ص: 50 ، الناشر: دار الفكر – بيروت
[31]الاعراف : 43
[32]تفسیربحر العلوم لأبو الليث السمرقندی (المتوفى: 373ھ)، جز: 1 ،ص:541، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان
[33]تفسير عبد الرزاق لامام عبد الرزاق بن همام الصنعانی (المتوفى: 211ھ) ، جز: 2، ص: 80، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
تفسير الطبری لابن جریر أبو جعفر الطبری (المتوفى: 310ھ)، جز: 10 ،ص: 199، الناشر: دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان
انوار التنزيل واسرار التاويل للبيضاوی (المتوفى: 685ھ) ، جز: 3 ،ص :13، الناشر: دار إحياء التراث العربي ، بيروت
كتاب الفتن لابو عبد الله نعيم بن حماد المروزی (المتوفى: 228ھ)، جز :1 ،ص :85، الناشر: مكتبة التوحيد – القاهرة
فضائل الصحابة لامام احمد بن حنبل الشيبانی (المتوفى: 241ھ)، جز: 2 ،ص: 618، الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت
السنة لابی بکر بن الخَلَّال البغدادی الحنبلی (المتوفى: 311ھ) ،جز:2 ،ص: 390 ، الناشر: دار الراية – الرياض
شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة لللالكائی(المتوفى: 418ھ) ، جز: 7، ص: 1433، الناشر: دار طيبة – السعودية
[34]تفسير القرآن العظيم لابن كثير(المتوفى: 774ھ) ،جز:6، ص:81 ، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت
[35]تفسیربحر العلوم لابو الليث السمرقندی (المتوفى: 373ھ)، جز: 2 ،ص:526، دارالکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان
[36]اسباب نزول القرآن للواحدی النيسابوری، الشافعی (المتوفى: 468ھ) جز :1 ،ص :368، الناشر: دار الإصلاح – الدمام
تفسير القرآن للسمعانی (المتوفى: 489ھ)، جز:4، ص: 461، الناشر: دار الوطن، الرياض – السعودية
الوسيط فی تفسير القرآن للواحدی النيسابوری، الشافعی (المتوفى: 468ھ)، جز :3 ،ص: 573، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت ، لبنان
تفسیرالدر المنثور للسيوطی (المتوفى: 911ھ) ،جز: 7، ص :214، الناشر: دار الفكر – بيروت
تفسیر روح المعانی للألوسی (المتوفى: 1270ھ) ، جز :12، ص: 237، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
[37]تفسیر ابن ابی حاتم لامام ابن ابی حاتم المتوفی : 327 ، جز 10 ، ص: 3248، الناشر: مکتبہ نزار مصطفی ،مکہ مکرمہ
[38]الزمر : 17
[39]تفسیرالجامع لاحكام القرآن للقرطبی (المتوفى : 671ھ) ، جز :15 ، ص : 244، الناشر : دار الكتب المصرية - القاهرة
تفسیرالتسهيل لعلوم التنزيل لابن جزی الغرناطی (المتوفى: 741ھ) ، جز: 2 ، ص :219 ، الناشر: شركة دار الأرقم بن أبی الأرقم ، بيروت
تفسیر روح البيان لإسماعيل حقی الحنفی (المتوفى: 1127ھ)، جز: 8 ،ص: 89، الناشر: دار الفكر، بيروت
[40]الحدید: 7
[41]معترك الاقران فی اعجاز القرآن، للسيوطی (المتوفى: 911ھ) ، جز: 2 ،ص: 509، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت ، لبنان
[42]الحدید:10
[43]تفسير القرآن للسمعانی (المتوفى:489ھ)، جز:5، ص:367، الناشر: دار الوطن، الرياض – السعودية
[44]الفجر:27-28
[45]تفسیرالجامع لاحكام القرآن للقرطبی (المتوفى:671ھ) ، جز :20 ، ص: 58، الناشر : دار الكتب المصرية - القاهرة
تفسير القرآن العظيم لابن کثیر(المتوفى: 774ھ) جز: 8، ص: 400، الناشر: دار طيبة للنشر والتوزيع
تفسیر اللباب لابو حفص سراج الدين عمر بن علی بن عادل الحنبلی (المتوفى: 775ھ) ، جز: 20 ، ص: 336 ، الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت
تفسیرالدر المنثور للسيوطی (المتوفى: 911ھ)، جز :8، ص :514، الناشر: دار الفكر – بيروت
[46]الاعلی : 10
[47]التفسير الكبير للرازی (المتوفى: 606ھ)، جز :31، ص: 34، الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت
[48]الاعلی : 14
[49]تفسیر الجامع لأحكام القرآن للقرطبی (المتوفى :671ھ) ، جز: 20 ،ص: 22، الناشر : دار الكتب المصرية – القاهرة
[50]السنة للمَرْوَزِی (المتوفى: 294هـ) ، جز: 1 ،ص: 27، الناشر: مؤسسة الكتب الثقافية - بيروت
شرح مشكل الآثار لأبو جعفرالطحاوی (المتوفى: 321هـ) ، جز: 3 ،ص: 223، الناشر: مؤسسة الرسالة
شرح معاني الآثار لأبو جعفرالطحاوی (المتوفى: 321هـ) ، جز: 1، ص: 80، الناشر: عالم الكتب
الشريعة للآجُرِّيُّ البغدادی (المتوفى: 360هـ) ، جز: 4 ، ص: 1703، الناشر: دار الوطن - الرياض / السعودية
شرح السنة للبغوی الشافعي (المتوفى: 516هـ) ، جز: 4 ، ص: 119، لناشر: المكتب الإسلامي - دمشق، بيروت
مشكاة المصابيح للتبريزی (المتوفى: 741هـ) ، جز: 1 ،ص: 58، الناشر: المكتب الإسلامي - بيروت
[51]الشريعة للآجُرِّيُّ البغدادی (المتوفى: 360هـ) ، جز: 4 ،ص: 1690، الناشر: دار الوطن - الرياض / السعودية
الإبانة الكبرى لابن بطة العكبری (المتوفى: 387هـ) ، جز: 2،ص: 564، الناشر: دار الراية للنشر والتوزيع، الرياض
مشكاة المصابيح للتبريزی (المتوفى: 741هـ) ، كتاب المناقب ، الناشر: المكتب الإسلامي - بيروت
[52]السنة لابن ابی عاصم ،لأبو بكر بن أبي عاصم (المتوفى: 287هـ) ،جز: 2 ،ص: 587، الناشر: المكتب الإسلامي – بيروت
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبو نعيم الأصبهاني (المتوفى: 430هـ) ، جز :1 ،ص: 56 ، الناشر: دار الكتاب العربي – بيروت
الفتح الكبير للسيوطي (المتوفى: 911هـ) ،جز :1 ،ص: 177، الناشر: دار الفكر - بيروت / لبنان
الصواعق المحرقة لابن حجر الهيتمي(المتوفى: 974هـ) ، جز: 1 ، ص :315، الناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان