انسان کی لغوی تعریف:
انسان عربی زبان کے لفظ اَلْاِنْس سے مشتق ہے جس کے معنی آدمی اور بشر کےہیں- اسم الانس کے ساتھ ان زائد برائے مبالغہ لگانے سے انسان بنتا ہے-[1]
علامہ مجد الدین فیروز آبادی (م: 817ھ) لکھتے ہیں:
’’بشر انسان کو کہتے ہیں- بشر کا معنی انسان کی ظاہری کھال ہے اور کھال کو کھال سے ملانا مباشرت ہے- بشارت اور بشری کا معنی خوشخبری دینا ہے ‘‘-[2]
انسان کا اسم تصغیر اُنَیس ہے- حضرت ابن عبّاس (رض) کا قول ہےکہ انسان کو اس لئے انسان کا نام دیا گیا ہے کہ اس کے ذمے ایک کام لگایا گیا تھا تو وہ اسے بھول گیا-
’’لفظ الانیس کا ایک مطلب انس کرنے والا دوست ہے یعنی ہر وہ چیز جس سے انس ہو ‘‘-[3]
انسان کی تخلیق قرآن و سنّت کی روشنی میں :
اللہ پاک نے قرآن کریم میں انسان کے وجود پذیر ہونے ،اس کائنات میں آنے اور اس کی تخلیق کے بارے میں متعدد مقامات پر تذکرہ کیا ہے- ہم یہاں تین عنوانات کے تحت تخلیقِ انسان پر گفتگو کریں گے-
1-حضرت آدم (ع) کی تخلیق کے مراحل:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ‘‘[4]
’’جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا-پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لئے سجدے میں گرنا ‘‘-
ان آیات میں اللہ ربّ العزت نے آدم (ع) کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا ہے- اکثر مفسرین نے ان آیات کی تفسیر کے لیے ان احادیث کو پیش کیا ہے-
امام ابن عساکر (رح)نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ:
’’حضرت آدم (ع)کی تخلیق کے لیے تمام روئے زمین سے مٹی لی گئی پھر اس مٹی کو زمین پر ڈال دیا گیا حتیٰ کہ وہ چمٹنے والی مٹی ہوگئی پھر اس کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ وہ سیاہ بدبودار کیچڑ ہوگئی- پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے شایانِ شان ہاتھ سے ان کا پتلا تیار کیا- حتیٰ کہ وہ پتلا خشک ہوگیا اور ٹھیکرے کی طرح بجنے والی خشک مٹی ہوگیا کہ جب اس پر انگلی ماری جائے تو اس سے کھنکتی ہوئی آواز نکلے‘‘-
امام جلال الدین سیوطی(رح) لکھتے ہیں:
’’امام فریابی، امام ابن سعد، امام ابن جریر، امام ابن ابی حاتم، امام حاکم اور امام بیہقی (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت آدم (ع) کو آدم اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ وہ” ادیم الارض“ یعنی صفحہ زمین سے پیدا کئے گئے ہیں ‘‘-[5]
امام ابن سعد، امام ابو یعلیٰ، امام ابن مردویہ اور امام بیہقی (رح)نے حضرت ابوہریرہ (رض)سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے آدم (ع) کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو کیچڑ(گیلی مٹی) کردیا، پھر اس کو چھوڑ دیا، حتیٰ کہ سیاہ گارا ہوگئی پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے آدم (ع)کا پتلا بنایا اور ان کی صورت بنائی، پھر اس کو چھوڑ دیا حتیٰ کہ وہ خشک ہوکر بجنے والی مٹی کی طرح ہوگیا- ابلیس اس پتلے کے پاس سے گزر کر کہتا تھا کہ یہ کسی امر عظیم کیلئے بنایا گیا ہے- پھر اللہ تعالیٰ نے اس پتلے میں اپنی پسندیدہ رُوح پھونک دی، اس رُوح کا اثر سب سے پہلے ان کی آنکھوں اور نتھنوں میں ظاہر ہوا، ان کو چھینک آئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو الحمدللہ کہنے کا القاء کیا انہوں نے الحمدللہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک اللہ- پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم (ع) اس جماعت کے پاس جاؤ اور ان سے بات کرو دیکھو یہ کیا کہتے ہیں- حضرت آدم (ع)ان فرشتوں کے پاس گئے اور کہا السلام علیکم- انہوں نے کہاو علیکم السلام- پھر آدم علیہ السلام اللہ کے پاس گئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، انہوں نے کیا کہا حالانکہ اللہ کو خوب علم ہے- حضرت آدم (ع) نے کہا: اے رب میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے کہا وعلیکم السلام- اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے آدم (ع) یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کے سلام کرنے کا طریقہ ہے-[6]
2-ابن آدم کی تخلیق کے مراحل:
اللہ تعالیٰ انسان کی تخلیق شکم مادر میں کیسے فرماتا ہے اور جسم انسانی کن مراحل سے گزرتا ہے اس حوالے سے سورۃ المومنون میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘[7]
’’پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی- تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا ہے ‘‘-
اس آیت کریمہ میں انسان کی تخلیق کے جو مراحل بیان کیے گئے ہیں حدیث مبارکہ میں بھی اسی طرح انسان کی تخلیق کے مراحل بیان ہے-
حضرت عبداللہ ابن مسعود(رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ﷺ) نے فرمایا :
’’بے شک تم میں سے کسی ایک کی خلقت کو اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک رکھا جاتا ہے- پھر چالیس دن تک وہ جما ہوا خون ہوتا ہے پھر چالیس دن میں وہ گوشت بن جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونک دیتا ہے‘‘-[8]
3-عالم ارواح میں رُوح انسانی کی تخلیق:
اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں لفظ کُنسے ارواح کی تخلیق فرمائی اور اسی عالم میں عہد الست ہوا اور ارواح سے سوال کیا گیا ’’الست بربکم‘‘ کہا: میں تمہارا رب نہیں ہوں جس پر تمام ارواح نے ’’بلٰی‘‘ کہہ کر اللہ ربّ العزت کی ربوبیت کا اقرار کیا- جس سے پتہ چلتا ہے کہ رُوح کی تخلیق جسم سے قبل ہوئی ہے اور اس کی ایک دلیل یہ حدیث بھی ہے-
حضرت عائشہ صدیقہ(رض) بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’رُوحیں مجتمع لشکر ہیں جو ان میں سے ایک دوسرے سے متعارف ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے سے الفت رکھتی ہیں اور جو ایک دوسرے سے ناآشنا ہوئی ہیں وہ آپس میں اختلاف کرتی ہیں‘‘-[9]
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی (م: 752ھ) لکھتے ہیں:
’’اس حدیث سے مراد یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے ابتداء خلقت کی خبر دینا مقصود ہو جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ رُوحوں کو جسموں سے پہلے پیدا کیا گیا ہے اور جب رُوحوں کا جسموں میں حلول ہوا تو ان کی آپس میں شناسائی یا عدم شناسائی عالم ارواح کے اعتبار سے ہوئی تو رُوحیں جب دنیا میں ایک دوسرے سے ملیں تو ان کا ایک دوسرے سے متفق یا مختلف ہونا بھی اسی سابق شناسائی کا عدم شناسائی کے اعتبار سے تھا‘‘-[10]
امام جلال الدین سیوطی (م:911ھ )نے بھی لکھا ہے کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے روحوں کو جسموں سے پہلے پیدا کیا ہے‘‘-[11]
علامہ بدرالدین عینی حنفی (م:855ھ) نے بھی لکھا ہے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ روحوں کو جسموں سے پہلے پیدا کیا گیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ جسموں کے فنا ہونے کے بعد بھی روحیں باقی رہتی ہیں- اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ :
’’شہداء کی رُوحیں سبز پرندوں کی پوٹوں میں رہتی ہیں‘‘-[12]
عظمت انسان قرآن مجید و احادیث نبوی (ﷺ) کی روشنی میں:
1- تمام مخلوقات پر فضیلت
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اپنی تمام مخلوقات پر اسے فضیلت و برتری عطا کی ہے- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا‘‘[13]
’’اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی‘‘-
اس آیت میں اللہ ربّ العزت نے انسان کے تمام مخلوقات میں مکرم و مشرف و فضیلت والا ہونے کا ذکر فرمایا ہے-بزبانِ منظور احمد فاتح:
فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے |
بقول الطاف حسین حالی:
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا |
ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اپنا مقام اور مرتبہ پہچانے- اللہ تعالیٰ اور رسول کریم (ﷺ) کے احکام کے ذریعے اس کے قرب کی مسلسل جدوجہد کرے-
2- کائنات کی تمام اشیاء کا انسان کے لیے بنانا
اللہ ربّ العزت نے انسان کو اپنے قرب و وصال کے لیے تخلیق فرمایا جب کہ ربِّ کائنات نے اس کائنات کی تمام اشیاء کو انسان کے نفع اور فائدے کے لیے پیدا کیا- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا‘‘[14]
’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے‘‘-
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ ص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ‘‘[15]
’’بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی تبدیلی میں اور کشتی میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندگی بخشی اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل جو آسمان اور زمین کے درمیان حکم کے پابند ہیں ان سب میں یقینا عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں‘‘-
3- انسان کا زمین میں اللہ کا خلیفہ ہونا
اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت اور نیابت کا سہرا انسان کے سر پر سجایا ہے- قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کا تذکرہ موجود ہے- ایک مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ‘‘
’’اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے‘‘-
بعض علماء نےمذکورہ بالاآیت کے تناظر میں خلیفہ کی یہ تعریف کی ہے:
’’خلیفہ اسے کہتے ہیں جو کسی کے ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات کو اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے اور اس کی منشاء کو ٹھیک ٹھیک پورا کرے- اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اعلیٰ اور ارفع مقام اس لیے عطا فرمایا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے احکام کو بجا لاتے ہوئے اسلامی نظام کو نافذ کرے اور نظامِ عدل و انصاف قائم کرے-
4- اللہ تعالیٰ کا انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنانا:
تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’کن‘‘ سے پیدا کیا اور انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ‘‘[16]
فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس نے اس (ہستی) کو سجدہ کرنے سے روکا ہے جسے میں نے خود اپنےہاتھوں سے بنایا ہے-
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہےجیسا کہ حدیث مبارک میں ہے کہ صحیح مسلم کی روایت کی مطابق حضرت ابوہریرہ(رض) بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو مارے تو چہرے سے اجتناب کرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (ع) کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے‘‘-[17]
اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا:
’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ‘‘[18]
’’بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا‘‘-
مقصد انسان قرآن و سنت کی روشنی میں
1- انسان کی وجہ تخلیق
قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت انسان کی تخلیق کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘[19]
’’اور میں نے جن اور آدمی اپنے ہی لئے بنائے کہ میری بندگی کریں‘‘-
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ:
’’یہاں عبادت سے مراد اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان ہے‘‘-[20]
حضرت مجاہد (رض)نے کہا ہے کہ:
’’اس آیت کا معنی ہے کہ مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ مجھے پہچانیں- علامہ ثعلبی نے کہا یہ قول اس لئے حسن ہے کیونکہ قرآنِ مجید کی متعدد آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے‘‘-[21]
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ سیّد محمود آلوسی(رح)’’ رُوح المعانی‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں:
اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے’’تاکہ وہ میری عبادت کریں‘‘، اس کا معنی ہے تاکہ وہ مجھے پہچان لیں اور اللہ تعالیٰ کو پہچاننا اس کی عبادت کرنے کا سبب ہے-سو آیت میں مسبب کا ذکر ہے اور اس سے سبب کا ارادہ فرمایا ہے اور یہ مجاز مرسل ہے اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ معرفت معتبر ہے جو اس کی عبادت سے حاصل ہو نہ کہ وہ معرفت جو بغیر عبادت کے حاصل ہو- جیسا کہ فلاسفہ عقلی دلائل سے اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرتے ہیں اور یہ عمدہ قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جنات اور انسانوں کو پیدا نہ کرتا اگر اس کی معرفت حاصل نہ ہوتی، اس کے وجود کی معرفت حاصل ہوتی نہ اس کی توحید کی- اس کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے‘‘-[22]
وہ حدیث مبارکہ جس کا ذکر امام آلوسی (رح)نے فرمایا ہے وہ یہ حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ‘‘ [23]
’’مَیں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس مَیں نے مخلوق کو پیدا فرمایا تاکہ میری پہچان ہو‘‘-
اس حدیث قدسی کو کثرت سے صوفیاء کرام نے بیان کیا ہے جس میں علامہ ابن عربیؒ ، سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ، حضرت سلطان باھوؒ ، حضرت مجدد الفؒ ثانی اور بہت سے صوفیاء کرام (رض)شامل ہیں-
قرآن و سنت سے یہ بات واضح ہے انسان کا مقصد حقیقی اپنے رب کی معرفت اور اس کا قرب ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓ اِلَی اللہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘[24]
’’تم فرماؤ یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور جو میرے قدموں پرچلیں دل کی آنکھیں رکھتے ہیں اور اللہ کو پاکی ہے اور میں شریک کرنے والا نہیں ‘‘-
اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ سید محمود آلوسی (رح) لکھتے ہیں :
’’ادعوا الیٰ اللّٰہ ای ادعوا لناس الیٰ معرفتہ‘‘
’’ دعوت الیٰ اللہ سے مراد لوگوں کو اس کی ذات کی معرفت و پہچان کی طرف دعوت دینا ہے‘‘-
ملا علی القاری (رح)’’ فقہ اکبر‘‘ جو امام اعظم ابو حنیفہ کی تصنیف لطیف ہے، کی شرح میں مقدمہ میں رقمطراز ہیں:
’’ان اول ما یحب علی العبد معرفۃ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ‘‘[25]
’’بے شک بندے پر سب سے پہلا وجوب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی معرفت کا ہے کیونکہ اس کی معرفت و پہچان کے بغیر اس کی کامل طور پر بندگی بجا نہیں لا سکتا‘‘-
معرفت الٰہی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی (رض)اپنی تصنیف لطیف ’’سرالاسرار ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’من لم یعرفہ کیف یعبدہ‘‘
’’جو شخص اس ذات کی معرفت و پہچان نہیں رکھتا وہ اس کی کامل عبادت کیسے کر سکتا ہے‘‘-
پس معلوم ہوا کہ انسان کی زندگی کا حقیقی مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت کو حاصل کرنا ہے-صوفیاء کرام (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت ظاہر و باطن کی پاکیزگی سے ہوتی ہے- انسان کا ظاہر شریعت مطہرہ کی پابندی سے پاک ہوتا ہے -جبکہ انسان کا باطن اللہ تعالیٰ کے قلبی ذکر سے پاک ہوتا ہے -
2- دین کے نفاذ کی کوشش:
جب انسان اپنے قلب کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نور سے منور کرلیتا ہے اور اپنے ظاہر کو شریعت محمدی (ﷺ) سے آراستہ کر لیتا ہے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ انسانیت کی اصلاح کیلیے میدان عمل میں نکلے اور ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘کا فریضہ سرانجام دے کیونکہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے بھی صحابہ کرام (رض) کی تربیت اسی انداز میں فرمائی- مکی دَور میں حضور نبی کریم (ﷺ) نے صحابہ کے عقائد کو پختہ فرمایا اور اپنی نگاہِ مبارک سے ان کے باطن کا تزکیہ فرمایا-جب ان کا قلب اللہ تعالیٰ کی معرفت سے منور ہوگیا تو ہجرت مدینہ کے بعد آپ (ﷺ) نے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور پھر صحابہ کرام(رض) کو معاشرہ میں عملی کردار ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا نفاذ معاشرہ میں ہوسکے اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے-’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث مبارکہ سے ہوتا ہے-
حضرت عبداللہ بن مسعود(رض) بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’ جب بنو اسرائیل میں گناہ بہت بڑھ گئے تو ان کے علماء نے منع کیا، لیکن وہ باز نہیں آئے- وہ علماء ان کی مجلسوں میں بیٹھتے رہے اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل بھی ان کی طرح کر دیے اور حضرت داؤد (رض) اور حضرت عیسیٰ ابن مریم (ع) کی زبان سے ان پر لعنت کی گئی کیونکہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے- رسول اللہ(ﷺ) ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ (ﷺ) اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے- تم ان کو ضرور نیکی کا حکم دیتے رہنا اور برائی سے روکے رہنا اور تم ظالموں کے ہاتھ کو پکڑ لینا اور ان کو حق کے مطابق عمل پر مجبور کرنا‘‘- [26]
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث (رح) (متوفی :275ھ) روایت کرتے ہیں:حضرت قیس فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا:
اے لوگو! تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کسی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں ہوگا-(المائدۃ :105)اور تم اس آیت سے غلط مطلب نکالتے ہو اور ہم نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو یہ فرماتے سنا، جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں تو اللہ ان سب پر عذاب لے آئے گا اور ہیثم کی روایت میں ہے، جس کسی قوم میں گناہوں پر عمل کیا جاتا ہے اور وہ ان گناہوں کو مٹانے پر قادر ہو پھر نہ مٹائیں تو عنقریب اللہ تعالیٰ ان سب پر عذاب لے آئے گا‘‘- [27]
بحیثیت فرد جہاں انسان کی اپنی اصلاح ضروری ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے آقا کریم (ﷺ) کے حکم کا تابع ہوکر معاشرے میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کیلئے عملی اقدام اُٹھائے جائیں تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہو سکے-
خلاصہ کلام :
انسان کی اس کائنات میں مرکزی حیثیت ہے- اس کا اپنے رب سے تعلق عبد ہونے کا ہے اور کائنات سے تعلق خلیفۃ اللہ ہونے کا ہے-یعنی جب انسان اللہ کا کامل عبد بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے وجود کو اپنی نشانی بنا دیتا ہے اور کائنات کی تسخیر اس کے وجود سے ہوتی ہے-اس لیے ضروری ہے کہ ہر انسان انفرادی طور پر اپنے رب کی معرفت سے روشناس ہو اور پھر اجتماعی طور پر ایک ریاست کی صورت میں اللہ کے دین کے نفاذ کی کوشش کرے-وہ کوئی معمولی وجود نہیں ہے بلکہ اس کائنات کی انمول ترین چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خصوصی قدرو منزلت ہے اور جو اسرارِ الہٰیہ کا امین اور اُس کی صفات و کمالات کا مظہر ہے-
٭٭٭
[1](مختار الصحاح ، ص :50)
[2](القاموس المحیط، ج:1، ص:698،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
[3](مختار الصحاح ، ص :50)
[4](سورۃ ص:71-72)
[5](الدر المنشور، ج:1، ص:49، آیت اللہ العظمی ایران)
[6](ایضاً، ص:48)
[7](المؤمنون:14)
[8](صحیح بخاری و مسلم)
[9](صحیح بخاری/ سنن ابی داؤد)
[10](فتح الباری،ج:6، ص:369، مطبوعہ لاہور،1401ھ)
[11](الحاوی للفتاوی، ج:2، ص:100، مطبوعہ المکتبہ النوریہ الرضویہ، لائل پور، پاکستان)
[12](عمدۃ القاری، ج:15، ص:216، مطبوعہ ادارۃ الطباعہ النمیریہ، مصر 1328ھ)
[13](الاسراء:70)
[14](البقرۃ:29)
[15](البقرۃ:164)
[16](سورۃ ص:75)
[17](صحیح مسلم، رقم الحدیث :6532)
[18](التین:4)
[19](الذاریات:56)
[20](الاسرار المرفوعۃ، رقم الحدیث:698، ص:179، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1405ھ)
[21](تفسیر ثعلبی، ج:9، ص:120، داراحیاء التراث العربی، البیروت 422ھ)
[22](روح المعانی جز:27، ص:33، دارالفکر بیروت، 1417ھ)
[23](علامہ عبد الرحمٰن بن محمد ابن خلدون ’’تاریخ ابن خلدون‘‘، ج: 1، المقدمہ ، فصل : فی علم التصوف، ص:385،دار الکتب العلمیۃ ، بیروت)
(السید الشریف علی بن محمد بن علی الجرجانی ، الحنفی ، ’’التعریفات‘‘، ص :120، قدیمی کتب خانہ کراچی ، پاکستان)
( علامہ الشیخ علی بن سلطان محمد القاری الحروی : تفسیر’’انوار القرآن و اسرار الفرقان‘‘، ج:5، ص:35، دارالکتب العلمیۃ ، لبنان)
(علامہ ابو الفضل شہاب الدین السیّد محمود الآلوسی البغدادی ، تفسیر ’’روح المعانی‘‘ ، ج:14، ص:39، المکتبہ الحقانیہ، ملتان ، پاکستان )
[24](الیوسف:108)
[25](ملا علی القاری فی الشرح علی الفقہ الاکبر للامام ابوحنیفہ)
[26](سنن ترمذی، ج:5، رقم الحدیث :3098)
[27](سنن ابو داؤد، ج:3، رقم الحدیث :4236)