نوٹ: (زیرِ نظر مضمون ڈاکٹر ساحرون شمس الدین Sahiron Syamsuddin) (کی تخلیق ہے جس کا انگریزی (Abu Hanifah’s Use of Solitary Hadith) سے اُردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے - ڈاکٹر ساحرون کا تعلق انڈونیشیاء سے ہے اور آپ سنن کلیجاگا اسٹیٹ اسلامی یونیورسٹی یوگیکارتا کے شعبہ اصول الدّین و فکرِ اسلامی میں تحقیقی و تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں- علوم القرآن، تفسیر اور حدیث پر آپ کے کئی مقالہ جات اور کتب شائع ہوچکی ہیں )-
یہ دعوے ایک بڑی حد تک مفروضے پر قائم ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے شرعی احکام اخذ کرنے میں نصِ قرآن اور روایاتِ رسول (ﷺ) کی بجائے رائے (ذاتی استدلال) اور قیاس پر انحصار کیا - [1]بہت سے مستشرقین نے بھی یہ مفروضہ اپنایا ہے- مثلاً، اگناز گولڈزیہر(Ignaz Goldziher) اپنی کتاب ’’The Zahiris: Their Doctrine and Their History‘‘ میں کہتا ہے کہ:
”امام ابوحنیفہ نے اسلامی فقہ کی تدوین کیلئے پہلی سعی قیاس کی بنیاد پر کی“-[2]
اہل الاَثَر کی امام ابوحنیفہ پر اہل الرائے کے نمائندے کی حیثیت سے تنقید کو بہت سے سکالرز نے تسلیم کیا ہے جن میں این جے کولسن (N.J. Coulson) نے دو طبقات کے تنازعے میں کرسٹلائزیشن کا کام کیا ہے-اس معاملے میں کولسن روایتی نقطہ نظر کی تائید کرتا دکھائی دیتا ہے کہ پہلےوالوں نے شرعی احکام کی تشکیل میں دلیل و منطق اور بعد والوں نے نص سے غفلت برتی- [3]
دوسری طرف، محمد ابن محمود الخوارزمی (متوفی: 665ھ /1267ء) نے ’’جامع المسانید‘‘ میں مذکورہ دعوی کی یہ کہہ کر نفی کی ہے کہ اس کے جواب دہندگان نے امام ابوحنیفہ کی فقہ کو صحیح معنوں میں سمجھا ہی نہیں- اِس نقطہ نظر کے اثبات کیلئے انہوں نے اپنی کتب میں کئی دلائل پیش کیے ہیں- [4]مزید برآں ابنِ حجر العسقلانی (متوفی:852ھ/1449ء) نے امام ابوحنیفہ اور ان کے پیروکاروں کو اہل الرائے یا ذاتی استدلال کے حق میں نص کو نظر انداز کرنے والوں میں شمار نہیں کیا - وہ فرماتے ہیں:
آپ کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ العلماء المتاخرین (آخری زمانے کے علماء) کے ارشادات کو سمجھیں جو کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ اور ان کے پیروکار اصحاب الرائے (اہلِ استدلال) تھے-ان بیانات کا مقصود ان کی قدر و منزلت میں تخفیف کرنا تھا ، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ انہوں نے سنت نبوی (ﷺ) اور اقوالِ صحابہ کرام پر ذاتی استدلال کو ترجیح دی بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اُس عمل سے نابلد تھے- [5]
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جوزف شاخٹ(Joseph Schacht) (متوفی:1969ء) نے مذکورہ بالا نقطہ نظر سے اتفاق کیا ہے جیسا کہ جوزف کے اِس بیان سے واضح ہے:
”روایات کے متعلق بشمول ابو حنیفہ اہلِ عراق کا رویہ بنیادی طور پر اہلِ مدینہ جیسا ہی ہے لیکن ان کی تھیوری زیادہ ترقی یافتہ ہے“ -[6]
مذکورہ بیان سے معلوم ہوتا ہےکہ نص کے معاملے میں برتاؤ پر علمائے کرام نے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہے، بالخصوص وہ احادیث نبوی(ﷺ) جن پر امام ابوحنیفہ نے اپنی قانونی رائے قائم کی ہے-لہٰذا یہ مقالہ روایتِ حدیث پر امام ابو حنیفہ کے انحصار کی حد کو دیکھ کر مسئلے کا جائزہ لےگا، بالخصوص وہ احادیث جنہیں آحاد[7] (Solitary) سمجھا جاتا ہے اور یہ جائزہ لے گا کہ امام ابوحنیفہ نے حدیثِ آحاد اور قیاس کی بنیاد پر قانونی فیصلوں کے درمیان تعارض سےکیسے نمٹا- تاہم، اس مسئلے کے تجزیے اور بیان سے قبل تعلّم ِ حدیث کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ کی زندگی کا مختصر احوال پیش کرنا زیادہ معاون ثابت ہوگا-
ابوحنیفہ( )اور تعلّم ِ حدیث:
ہمارے مطالعے کا اصل موضوع النعمان بن ثابت الکوفی ہے جو اپنی کنیت’’امام ابوحنیفہ ‘‘سے مشہور ہیں- آپ کی پیدائش سن (80ھ/669ء) میں اموی عہدِ خلافت میں خلیفہ عبد الملک ابنِ مروان (متوفی: 85ھ/704ء) کے زمانہ میں ہوئی اور آپ نے سن (150 ھ/767ء) میں وفات پائی- [8] کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کئی صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)سے شرفِ ملاقات کیا-[9] جن میں انس ابن مالک(متوفی: 93ھ/ 712ء)، عبد اللہ ابن حارث ابن جزالزبیدی (متوفی: 86ھ/ 705ء)، عبد اللہ ابن ابی اوفہ(متوفی: 87ھ/706ء) اور واثلہ ابن اسقع (متوفی: 83ھ/702ء) ہیں- جن سےآپ نے بلاواسطہ کئی احادیث بھی لیں -[10] اس بنیاد پر مسلم مؤرخین جیساکہ امام ابن سعد(متوفی: 230ھ/844ء) اور الخطیب نے آپ کو تابعین میں شمار کیا ہے- [11]آپ نے کئی تابعین سے بھی کثیر احادیث سماع کیں- امام المزّی نے ’’تہذیب الکمال‘‘ میں 78 راویانِ حدیث کی فہرست مرتب کی ہے جن میں سے زیادہ تر کوفہ میں مقیم تھے- [12]
یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اپنے علمِ حدیث میں وسعت و اضافے کی خاطر امام ابوحنیفہ نے بہت سے دیگر شہروں بالخصوص بصرہ، مکّہ اور مدینہ کا سفر بھی کیا جو مراکزِ حدیث کے طور پر معروف تھے- یہاں انہوں نے بہت سے جید محدثین کی زیرِ نگرانی علمِ حدیث حاصل کیا - کوفہ میں آپ نےحماد ابن ابی سلیمان (متوفی: 120ھ/738ء)جن سے علم فقہ بھی سیکھا، عامر الشعبی(متوفی:104ھ/722ء)، سلمہ ابن کہیل ابن الحصین (متوفی:123ھ/741ء)، ابو اسحاق سلیمان ابن ابی سلیمان الشیبانی الکوفی(متوفی:120ھ /738ء)، سماک ابن حرب (متوفی:123ھ/741ء)، محارب ابن دثار (متوفی: 116ھ/734ء)، عون ابن عبد الله (متوفی: 116ھ /734ء)، ہشام ابن عروہ (متوفی:146ھ/763ء) اور سلیمان بن مہران (متوفی: 148ھ/765ء) سے تعلیم حاصل کی- بصرہ میں بھی ابو حنیفہ نے قتادہ ابن دعامہ (متوفی : 118ھ /738ء) اور شعبہ ابن الحجاج (متوفی:160ھ /776ء ) سے حدیث کی تعلیم حاصل کی- مکّہ میں آپ نے عطاء ابن ابی رباح (متوفی: 114ھ/732ء) اور عکرمہ ابن عبد للہ البربری (متوفی: 105ھ/723ء) سے حدیث سیکھی- مدینہ میں انہوں نے سلیمان ا بن یسار (متوفی: 107ھ /725ء)، سالم ابن عبد الله ابن عمر (متوفی:106ھ /725ء) سے سماعِ حدیث کیا-[13] ابو حنیفہ نے اپنے شیوخ سے جو احادیث سیکھیں وہ آپ کے شاگردوں کو منتقل کی گئیں جن کےاسمائے گرامی امام المزّی نے تہذیب الکمال میں رقم کیے ہیں- ان میں حماد ابن ابی حنیفہ (متوفی:176ھ/792ء)، ابو یوسف یعقوب ابن ابراہیم القاضی (متوفی:182ھ /798ء) اور محمد ابن الحسن الشيبانی (متوفی:189ھ /805ء ) شامل تھے-[14] امام ابوحنیفہ سے مروی احادیث کی تدوین کے کفیل( ذمہ دار) یہ تین آئمہ تھے جو امام ابوحنیفہ کی ’’المسند‘‘ یا ’’کتاب لآثار‘‘ میں جمع کی گئی ہیں -[15]ابو حنیفہ کے علمِ حدیث میں وسعت وعمیق نظری کا اعتراف ان کے معاصرین نے بھی کیا ہے-مثلاً، ابویوسف نے کہاکہ فقہ (اسلامی قانون) سے متعلق حدیث کی تاویل میں امام ابوحنیفہ سے زیادہ علم رکھنے والا (ماہر) کوئی نہیں تھا- [16]سب سے بڑھ کر، امام ابوحنیفہ علوم ِ حدیث کی شاخ ’’الجرح و التعديل‘‘کے ماہر سمجھے جاتے تھے جس سے راویوں کی خصوصیات کو جانچا جاتا ہے تاکہ یہ فیصلہ کیا جاسکے آیا حدیث مستند ہے یا نہیں- مثال کے طور پر، امام ابوحنیفہ نے سفیان الثوری کو معتبر (ثقہ) راوی، زید بن عیاش کو ضعیف راوی اور جابر الجعفی کو موضوع (من گھڑت) راویِ حدیث میں شمار کیا ہے-[17] یہ ظاہر کرتا ہے کہ ابو حنیفہ کا علم ِحدیث اور راویوں کی قابلیت و اہلیت جس پر اس کی قبولیت منحصر ہوتی ہے، شک و شبہ سے بالاتر ہے- تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ کس حد تک اور کیسے ابو حنیفہ نے اپنے علمِ حدیث کو شرعی احکام کے استدلال کےلئےاستعمال میں لایا-
امام ابو حنیفہؒ کا آحاد روایات کی جانب طرزِفکر :
ایسی کثیر روایات ہیں جن میں امام ابو حنیفہ نے فقہی معاملات سے نبردآزما ہونے کےلئے روایاتِ رسول (ﷺ) میں وارد اُمور کے مقابلے میں اپنے ذاتی استدلال کو ترجیح دی ہے - [18]جیسا کہ حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے روایات ِ حدیث لیں لیکن پھر اپنی رائے کے حق میں انہیں رد کر دیا-بہر حال،خطیب بغدادی سےفراہم شدہ روایات ایسی امثال سے لبریز ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے احادیثِ رسول (ﷺ) کے بارے بظاہراً زود فہم انداز میں بات کی ہے-مثلاً، سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے امام ابو حنیفہ کو یہ حدیث رسول (ﷺ) بیان کی:
’’ البَيِّعَانِ بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا‘‘
خریدنے اور بیچنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں انہیں اختیار باقی رہتا ہے-
تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے اسے مبینہ رد کردیا ہے کہ کیا ہوگا اگر دونوں (بائع اور مشتری) کشتی پر سوار ہوں؟کیا ہوگا اگر دونوں قید میں ہوں؟ اور کیا ہوگا اگر وہ سفر میں ہوں؟وہ کیسے باہم جدا ہوسکتے ہیں؟ [19]
دوسری مثال یحییٰ بن آدم (متوفی :203ھ / 818ء) نے بیان کی ہے کہ جب امام ابوحنیفہ کی توجہ اس حدیث کی طرف دلائی گئی کہ:
’’الْوُضُوءُ نِصْفُ الْإِيمَانِ‘‘
’’وضو کرنا نصف ایمان ہے‘‘-
انہوں نے جواب دیا کہ پھر آپ اپنے ایمان کی تکمیل کیلئے دومرتبہ وضو کیوں نہیں کرلیتے ؟[20]
’’خطیب بغدادی کی ’’تاریخ ِ بغداد‘‘ میں چند مثالیں اور بھی موجود ہیں جہاں امام ابوحنیفہ نے بعض احادیث کا رد کیا ہے - اس بنیاد پر جی ایچ اے جوئن بال (G.H.A. Juynboll) نے اپنی کتاب (Muslim Tradition) میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ کو گاہے گاہے ہی مُتاثرین احادیث میں شمار کیا جا سکتا ہے-[21] میرے خیال میں، یہ تعین کرنا حددرجہ ضعیف دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ بات جانچنے کیلئے سکالرز کی تحقیق ادھوری ہے کہ امام ابوحنیفہ نے ایسی احادیث کا استعمال کیوں نہ کیا- درحقیقت، ماننے کو کافی دلائل ہیں کہ ایسی احادیث کا رد کیوں کیا، کیونکہ، ان کے مطابق، یہ احادیث مطلوبہ شروط القبول (احادیث رسول(ﷺ)کی قبولیت کا معیار) پر پورانہیں اترتیں-
امام ابوحنیفہ کا احادیث کی طرف رویہ کو سفیان الثوری کے قول میں ملاحظہ کیا جاسکتاہے:
’’میں نے سنا کہ انہوں (ابو حنیفہ) نے فرمایا: میں خدا کی کتاب (قرآن مجید) کو قبول کرتا ہوں، اگر میں اس میں کچھ نہ پاؤ ں تو میں سنت رسول (ﷺ) کو مانتا ہوں، اگر میں سنت میں کچھ نہ پاؤں تو صحابہ کرام کا فرمان قبول کرتا ہوں، اُن کی آراء سے میں جو چاہے لے لوں گا اور جو چاہے چھوڑ دوں گا -مَیں اُن کی آراء سے انحراف نہیں کرتا اور نہ ہی دوسروں(غیر صحابہ) کی آراء پہ عمل کرتا ہوں - لیکن جب کسی مسئلے کا تعلق ابراہیم، الشعبی، ابن سیرین، الحسن، عطاء، سعید بن المسّیب اور ان جیسے لوگوں (یعنی تابعین) سے ہوتو ایسی صورتوں میں مجھے اجتہاد کی جانب رجوع کرنا پڑے گا[22] جیسا کہ انہوں کیا- [23]
مذکور ہ بیان سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نےفقہی فیصلے کرنے میں سنت نبوی (ﷺ) جو کہ روایتِ احادیث کی صورت میں موجود ہے کو قرآن مجید کے بعد دوسری بنیاد قرار دیا ہے- جب کوئی قرآنی آیات یا روایاتِ حدیث ایسی موجود نہ ہوتیں جواس مسئلہ سے متعلق ہوتی جس کا امام ابو حنیفہ کو سامنا ہوتا تو وہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی اُن آراء کو ترجیح دیتے جنہیں وہ صحیح گردانتے تھے پھر چاہے وہ شخصی آراء پر مشتمل ہوں یا اجماع (اتفاقِ رائے) کی بنیاد پر اکٹھے ہوئے ہوں- [24]انہوں نے اجتہاد کا سہارا صرف تب لیا جب وہ درپیش قانونی مسئلے کا مندرجہ بالا مآخذات میں کوئی جواب تلاش نہ کرسکے-ابو حنیفہ کی نظر میں حدیث کی اہمیت کا اندازہ اُن کے اس قول سے بھی لگایا جا سکتا ہے:
”اگر رسول اللہ (ﷺ) سے کوئی حدیث ہے تو میں اس سے کسی اور چیز کے لیے انحراف نہیں کروں گا بلکہ اُسے قبول کروں گا، اگر آپ(ﷺ) کے صحابہ کرام سے کوئی آراء آتی ہیں تو میں ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں گا اور اگر تابعین کی طرف سے روایات میسر آئیں تو مَیں (خود کو اسی بنیاد پر رکھتے ہوئے) اپنی رائے کومتقابل لاؤں گا“ -[25]
تاہم یہ حقیقت ہے کہ امام ابوحنیفہ روایاتِ حدیث کے استعمال میں انتہادرجہ محتاط تھے-آپ نے انہیں قانونی مآخذ کے طور پر صرف تب استعمال کیا جب وہ پُریقین تھے کہ یہ اپنی شرطِ قبولیت پر پورا ترتی ہیں- ابو غدّہ نے الکوثری کی’’ فقہ اہل العراق‘‘ کے اپنے ایڈیشن میں تذکرہ کیا ہے کہ کوثری نے اپنی ’’تانیب الخطیب‘‘ میں ابو حنیفہ کے خبر واحد کی روایتِ احادیث کے معاملے میں احتیاط برتنے کی تفصیل بیان کی ہے- کوثری کے مطابق ابو حنیفہ نے خبرواحد کے ساتھ معاملہ کرتے وقت مندرجہ ذیل اصولوں کا اطلاق کیا:
- خبرواحد بشمول مرسل روایت[26] قبول کی جاتی ہے اگر وہ کسی قوی دلیل سے متصادم نہ ہو جیسا کہ قرآن مجید کی عمومی (آفاقی) اور ظاہر (واضح) آیات، السنۃ المشہورہ یعنی معروف روایات،[27] مقاصد الشریعہ (اسلامی شرعی احکام کے بنیادی مقاصد) اور دیگر آحاد جوکہ زیادہ مستند (صحیح)سمجھی جاتی ہیں- [28]
- اگرمتعلقہ روایت کا راوی معتبر(ثقہ) سمجھا جاتا ہے-
- اگر راوی اس روایت کو رد نہیں کرتا جو اس نے بیان کی ہے اور نہ ہی اپنے بیان شدہ قول کےخلاف عمل کرتا ہے اور نہ ہی اپنی بیان کردہ روایت کے برعکس فتویٰ (قانونی رائے) دیتا ہے-
یہ بتانابھی لازم ہے کہ جن صورتوں میں حدود سے متعلقہ کثیر روایات موجود تھیں اور جن میں باہمی اختلاف تھا امام ابو حنیفہ نے اس روایت پر عمل کرنے کو ترجیح دی جس میں معمولی (نسبتاًکم)سزاعائد کی گئی تھی-[29] انہی بنیادوں پر امام ابو حنیفہ نے ان روایات کو ردّ کیا جو آپ کے خیال میں مذکورہ شرائط پر پورا نہ اترتیں -
پہلی شرط کے لحاظ سے، یہ متعلقہ موضوع پر قوی ثبوت سے متصادم نہ ہو، السرخسی نےبیان کیا ہے کہ جو حدیث کسی قرآنی آیت کی تخصیص کرتی ہو اُسے اس آیت سے متصادم سمجھا جانا چاہیے اور اس لیے اسے مستند نہیں کہا جا سکتا- [30]سرخسی کا یہ خیال رسول اکرم(ﷺ) کے درج ذیل ارشاد پہ مبنی ہے( اسے امام شافعی نے بھی روایت کیا):
”میری وفات کے بعد تم میں احادیث بڑھ جائیں گی،پس اگر میرے نام سے کوئی حدیث مروی ہو تو اسے کتاب اللہ کے تابع کر نا (قرآن مجید کی روشنی میں پرکھنا) ، جو بھی روایت کتاب اللہ (قرآن مجید) موافقت رکھتی ہو اسے قبول کرنا اور سمجھ جانا کہ وہ میری طرف سے ہے- اس کے برعکس، جو بھی روایت کتاب اللہ سے متصادم ہو اسے لازمی رد کردینا اور جان لیناکہ میں اس کا جوابدہ نہیں ہوں “ -[31]
سرخسی کے مطابق ایک اور وجہ یہ ہے کہ قرآن حتمی(قطعی، متیقن بہ)ہے، خواہ ترسیل ِنقل کے لحاظ سے ہو یا متن کے لحاظ سے جبکہ ایک خبرِ واحد صرف احتمالی ہے-[32] اس کی ایک مثال جسے امام ابو حنیفہ قرآن کے ظاہر (بیّن ) مفہوم سے متعارض سمجھتے تھے وہ فاطمہ بنت قیس (رضی اللہ عنہا) سے منقول حدیث ہے- اس روایت کے مطابق ابوعمرو بن حفض (رضی اللہ عنہ) نے فاطمہ بنت قیس (رضی اللہ عنہا) کو تین دفعہ طلاق دی- حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (ﷺ) کے پاس حاضر ہوئے اور دریافت فرمایا کہ ابو عمرو(رضی اللہ عنہ)پر اُن کا نفقہ (کفالت) واجب ہے یا نہیں؟ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:
” وہ (عورت) نفقہ یا سکنہ (رہائش) حاصل نہیں کر سکتی“-[33]
مذکورہ خبرواحد حدیث کو امام ابوحنیفہ نے اِس بنا پررد کردیا کہ یہ’سورۃالطلاق، آیت:6‘‘کے ظاہر ی مفہوم کے خلاف ہے-
’’تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو “- [34]
اِس نکتہ پر امام ابوحنیفہ کی رائے شوافع سے مختلف ہے-[35] امام شافعی الرسالہ میں بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت قرآن مجید سے متصادم نہیں ہے کیونکہ حدیث آحادکسی قرآنی آیت کے عام مفہوم کو اس بنا پر خاص کر سکتی ہے کہ قرآنی آیت کے عموم (عمومیت) سے الیقین (یقینی) حاصل نہ ہوتا ہو-مگر صرف ظن (احتمال) ہوجیسا کہ خبرِ واحد سے ایسا ہوتا ہےاور یہ کسی متن کی تخصیص کسی بھی طرح سے تخصیص شدہ اور تخصیص کرنے کے مابین تضاد نہیں ہے بلکہ یہ اس کی وضاحت کرتا ہے جو واضح نہیں ہے- امام شافعی نے قرآنی آیات کی متعدد مثالیں دی ہیں جنہیں آحاد احادیث سے مخصوص کیا گیا ہے-[36]
امام ابوحنیفہ کا کسی ایسی حدیث کا رد کرنا جو اس کی قبولیت کیلئے عائد کردہ لازمی معیار پر پورا نہیں اترتی غنیمہ(مالِ غنیمت) کو اپنے شریک کاروں کے ساتھ تقسیم کے معاملے میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے- [37]ابو حنیفہ کے نزدیک جو مسلمان جنگ میں مارا جائے وہ مال ِغنیمت میں سے حصہ کا اہل نہیں ہے- یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ نے امام الاوزاعی کی سند سے اُس حدیث کا رد کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مالِ غنیمت کا ایک حصہ خیبر میں قتل ہونے والے مسلمان کو عطا کیا تھا- [38]ابو حنیفہ کی مذکورہ حدیث کو رد کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس سے کہیں زیادہ مستند الزہری کی روایت کردہ حدیث موجود تھی، جس میں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے عبیدہ ابن الحارث کو غنیمت کا حصہ دینے سے منع فرمایا دیا تھا جو غزہ بدر کے دوران صفرا ء میں شہید کیے گئے تھے- [39]
آحاد احادیث کے راویان کے ثقہ ہونےپر جو کہ قبولیت کی دوسری شرط ہے فقہائے احناف اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ثقہ (معتبر،قابلِ اعتماد) مانے جانے کیلئے راویان کی اسلام میں راسخ العقیدگی اور عقل کے علاوہ ان میں عدل (تقوٰی) اور ضبط (فہم) کی اہلیت کا پایا جانا ضروری ہے- ’’عدالہ‘‘ سے مراد شعائرِ دینیہ میں مستقل مزاجی ہے، خاص طور پر کسی بھی گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرنا اور گناہِ صغیر ہ سے اجتناب کرنا اور ان امور سے اجتناب کرنا جو اس کی عزت ِ نفس کے احساس میں محرومی کا سبب بنے-[40] دوسری طرف ’ضبط‘ سے مرادکسی کی قوتِ سماعت، دماغ میں بٹھانا اور روایہ (مروی خبر) کو سمجھنا ہے-[41] اسی لیے امام ا بو حنیفہ نے فرمایا:
”کوئی شخص حدیث کو اس وقت تک روایت نہ کرے یہاں تک کہ اُس نے حدیث سننے کے وقت سے لے کر اُسے روایت کرنے تک اپنے حافظے میں اچھی طرح محفوظ نہ کرلیا ہو“ -[42]
تمام راویان حدیث کیلئے اس بنا پر عدل اور ضبط کی شرط ضروری ہےکہ ہر روایت میں صدق(صحیح) یا کذب (غیر صحیح) کی صفت موجود ہوتی ہے اور صحت، جو کسی بھی روایتِ حدیث کیلئے لازمی ہے جزوی طورپر ا س روایت میں موجود ان خصوصیات پر منحصر ہے - [43]
راوی نے جو کچھ روایت کیاہے، اس کے فتوی یا افعال کے مابین ممکنہ تضاد کے بارے میں السرخسی اور البزدَوی نے اصول کی اپنی کتب میں اس قسم کے تضاد کی چار اقسام بیان کی ہیں -اولاً، وہ صورت ہے جہاں راوی روایت کا کلیتہً انکار کرتا ہے - بعض فقہاء جیساکہ امام ابوحنیفہ اور ابو یوسف نے اشارہ کیا ہے کہ ایک طرف اگر ایسا ہو تو اُس کی حدیث مستند قرار نہیں دی جاسکتی- دوسری طرف، امام الشافعی اور امام محمد ابن الحسن الشیبانی اب بھی اسے ایک مستند قانونی مآخذ سمجھتے ہیں- [44]ایسی روایت کی ایک مثال محمد ابن مسلم ابن شہاب الزہری (متوفی:124ھ/742ء) کی سند سے سلیمان ابن موسیٰ سے مروی ایک حدیث ہے جنہوں نےعروہ سے حدیث لی، انہوں نے اُم المؤمنین سیدہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے سنا کہ رسول اللہ(ﷺ) سے ارشاد فرمایا:
” جوعورت بھی اپنے ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے “-[45]
یہ لکھا ہے کہ جب عبد الملک بن عبد العزیز ابن جریج (متوفی:150ھ/767ء) نے زہری سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے اس کا اعتراف نہیں کیا- اس لیے امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف (شیخان) نے اس حدیث کوشما ر نہیں کیا- انہوں نے اس کی بجائے ایک اور حدیث کا انتخاب کیا جو ولی کی اجازت کے بغیر عورت کے نکاح کو جائز قرار دیتی ہے- حدیث میں آیاہے:
”بیوہ عورت اپنے ولی کے بالمقابل اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہےاور کنواری سے اس کی شادی کی اجازت لی جانی چاہیے اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے “ -[46]
دوسری قسم کا تضاد راوی کے عمل کرنے یا اس کی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف فتویٰ دینے میں ہے-ایسی صورتوں میں جہاں راوی کا عمل یا فتوٰی متعلقہ حدیث کے موصول ہونے سے پہلے لکھا کیا گیا ہو یا واقعات کے تواتر میں کوئی شبہ ہو تو حدیث مستند سمجھی جاتی ہے- لیکن اگر فتویٰ یا عمل بعد میں واقع ہوا ہو تو راوی نے جو حدیث بیان کی ہے اسے قانونی ماخذ کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا- اِس کی وجہ یہ ہے کہ راوی کا حکم یا عمل اس کی اپنی روایت کے برعکس ہونا یا تو اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ معتبر (ثقہ) نہیں ہے یا یہ کہ حدیث کو کسی اور حدیث سے احتمالاً منسوخ کردیاگیا تھا -اس طرح کی منسوخ حدیث کی ایک مثال ابن عمر(رضی اللہ عنہ)کی روایت ہے کہ رسول اللہ(ﷺ)رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین فرماتے تھے- تاہم یہ موجود ہے کہ مجاہد نے کہا کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کی مصاحبت میں کئی برسوں کے دوران انہوں نے کبھی بھی اُن کو نماز میں رفع یدین کرتے نہیں دیکھا سوائے ایک مرتبہ نماز کی ابتداء میں تکبیر کے- [47]
تیسری قسم کا تضاد اس وقت پایا جاتا ہے جب راوی حدیث کے ممکنہ معانی (متحملات) کا ایک حصہ بیان کرتا ہے-مثلاً ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
”بائع اور مشتری کو لین دین منسوخ کرنے کا اختیار ہے جب تک کہ وہ الگ نہ ہوجائیں“-
مذکورہ حدیث کے دو معانی ہیں: (الف) جسمانی علیحدگی جیسا کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ)نے سمجھا، اور (ب) ان کی پیشکش اور قبولیت کے بیانات کی علیحدگی کہ ایک فریق کی طرف سے پیشکش اور دوسری طرف سے قبولیت ہے-
اگرچہ ابن عمر(رضی اللہ عنہ) کا فہمِ حدیث بذاتِ خود مستند نہیں ہے لیکن پھر بھی حدیث کو صحیح مانا جائے گا، بہت حد تک احتمال ہے کہ ابو حنیفہ نے حدیث کا دوسرا معنی سمجھ لیا ہو، چنانچہ جب یحییٰ ا بن آدم نے اس کو پہلا معنی دیا تو امام ابو حنیفہ نے ان کی وضاحت رد کردی- باالفاظ دیگر دونوں نے حدیث کی سند کو تسلیم کیا لیکن دونوں نے اسے مختلف طریق سے سمجھا- [48]اِس مقام پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے بعض صورتوں میں متعلقہ حدیث کی لغوی مفہوم میں تشریح نہیں کی بلکہ اس کے معنی اخذ کرنے کے لیے اس سے ماوراء چلے گئے-[49] آخر میں، چوتھا تضاد اس وقت جنم لیتا ہے جب ایک راوی اپنی روایت کردہ حدیث کے موافق عمل پیرا ہونے سے انکار/انحراف کرتا ہے، اس لیے ایسی حدیث واجب العمل نہیں ہو سکتی - [50]
آحاد احادیث کی سند کے لیے امام ابو حنیفہ کا سخت معیار، جیسا کہ سطورِ بالا میں بیان کیا گیا ہے متعددروایات کی تردید کا باعث بنا جنہیں امام ابوحنیفہ کے معاصرین جیسے شامی محدث امام الاوزاعی اور عراقی عالم قاضی ابن ابی لیلیٰ (متوفی: 148ھ /765ء) اور وکلائے مدینہ کی اکثریت نے صحیح قرار دیا ہے- جبکہ ابوحنیفہ، اوزاعی اور ابن ابی لیلیٰ کے مابین فقہی احکام میں اختلافات کو ابویوسف نے بالترتیب اپنی کتب الرد على سير الأوزاعی اور اختلاف أبي حنیفہ و ابن أبی لیلیٰ میں مرتب کیے ہیں- اسی طرح ابو حنیفہ اور وکلائے مدینہ کے مابین فقہی مسائل میں اختلافات الشیبانی کی ’’کتاب الحجة على أهل المدينة‘‘ میں جمع کیے گئے تھے- یہ قوی امکان ہے کہ آحاد احادیث کے مؤقف کے بارے میں امام ابوحنیفہ پر ان کے معاصرین کی تنقید کم از کم جزوی طور پر مختلف آراء سے ہوئی ہو-ہماری اپنی رائے میں، امام ابوحنیفہ کا متعدد اخبار آحاد کو ترک کرنے کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے قانون کے قوی دلائل جیسا کہ قرآن مجید اور زیادہ مستند احادیث کو مقدم رکھا- اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا امام ابوحنیفہ نے خبرِ واحد پر قیاس کو ترجیح دی یا نہیں ؟ جب درپیش نکتےپر دونوں باہم متعارض تھے-
اخبار آحاد بالمقابل قیاس:
مفرد حدیث (خبرِ واحد) اور قیاس کے مابین تعارض کے مسئلہ پرسنی فقہی مکتبِ فکر( فقہ) کے بہت سے فقہاء نے بھی بحث کی ہے- اِس نکتے پہ اُن کی مختلف آراء درج ذیل حوالوں سے ملاحظہ کی جاسکتی ہیں-
حنبلی فقیہ، نجم الدین الطوفی (متوفی: 716ھ/ 1316ء) نے’’شرح مختصر الروضة‘‘ میں اور ابو اسحاق ابراہیم ابن علی الشیرازی(متوفی:476ھ/1083ء) جو کہ ایک شافعی فقیہ ہیں، نے ’’الوصول الی مسائل الاصول‘‘ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ صحیح سند کی حامل خبرِ واحد کو قیاس پر لازمی ترجیح دینی چاہیے- ان کےاس نقطہ نظر کی دلیل معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) کی ایک حدیث پر مبنی ہے جس میں اسلامی قانون کے مآخذات کی ترتیب بیان کی گئی ہے- اِس حدیث میں اجتہاد (جس میں قیاس بھی شامل ہے) سنت کے بعد مذکور تھا- حدیث کو قیاس پر فوقیت دینے کے دیگر اسباب میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا اجماع بھی شامل ہے اور اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا ہے کہ حدیث ایک گناہوں سے مبرّا شخص (المعصوم) یعنی رسول اللہ (ﷺ)کے کلام کو بیان کرتی ہے -[51]اس کے برعکس، فقہ مالکی کے بانی امام مالک ابن انس اور ان کے پیروکاروں نے جب بھی یہ باہم متعارض ہوئے تو قیاس کو خبرِ واحد پر ترجیح دی- یہ محض ایک قانونی مآخذ کے طور پر قیاس کے مستند ہونے کی وجہ نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حدیث کا اتصال السند (بلا خلل راویوں کا تسلسل) شبہ سے ماوراء نہیں ہے-اس احتمال کے پیش نظر کہ کم سے کم ایک راویِ حدیث ایسا ہو سکتا ہے جس نے جھوٹ بولا ہو یا روایت/حدیث بیان کرنے میں خطا کی ہو- [52]
مذکورہ بالا علماء کے برعکس فقہائے احناف جیسا کہ ابو الحسن علی ابن محمد البزدَوی (متوفی 482ھ/1089ء) اور السرخسی نے اِس طرف اشارہ کیا ہے کہ آیا خبرِ واحد کو قیاس پر ترجیح دی جائے گی یا نہیں؟ یہ راویان حدیث کے معیار پر منحصر ہے-ان کے نزدیک یہ راوی دو گروہوں میں منقسم ہیں-
اولاً: المعروفون راویوں پر مشتمل ہیں جو نہ صرف ثقاہت (معتبر، یعنی اپنی عدالت اورضبط کی وجہ سے) کے لیے مشہور ہیں بلکہ ان کے فقہ (حدیث کے موضوعِ بحث کی تفہیمِ کی صلاحیت) کیلئے بھی مشہور ہیں -
ثانیاً:وہ راوی ہیں جوصرف اپنی عدالت اور ضبط کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن ان میں فہمِ فقہ کا فقدان ہے- جہاں تک المجہولون کا تعلق ہے،یہ وہ راوی ہیں جو ماسوائے ایک یا دو احادیث کے غیر معروف ہیں جو انہوں نے روایت کی ہوں گی-مجہولون میں سے بعض کو ثقہ اور بعض کو غیر ثقہ سمجھا جاتا ہے جبکہ کچھ اپنے ثقاہت کے اعتبار سے قابلِ بحث ہیں[53]
فقہائے احناف کے درمیان اِس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ معروفون جو کہ اپنی فقہ کے لیے مشہور ہیں کی نقل کردہ احادیث کو قیاس پر مقدم رکھا جائے جیسا کہ خلفائے راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر ابن خطاب، حضرت عثمان ا بن عفان اورحضرت علی ابن ابی طالب(رضی اللہ عنہ)- اس کےلیے بیان کردہ وجوہات وہی ہیں جو حنبلی اور شافعی فقہاء نے پیش کی ہیں جیسے کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے-[54]
تاہم فقہائے احناف ایسے معروفون کی روایت کردہ احادیث پر متفق نہیں ہیں جو اپنے تقوٰی سے صرفِ نظر شرعی مسائل کی تفہیم کیلئے حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ)کی طرح نامور نہیں ہیں - حنفی فقیہ، عیسیٰ ابن ابان (متوفی 221ھ/836ء) کے ہاں قیاس پر روایت کرنے والی احادیث کو ترجیح دینے سےقبل راویوں کا عدالت اور ضبط کے علاوہ موادِ حدیث کا فہم (فقہ) بھی لازمی ہے- یہ اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ متعدد راوی ایسے تھے جو ایک قول کا صرف معنی بیان کرنے کے قابل تھے جبکہ اسے بالحرف روایت کرنے سے قاصر تھے- یہ عیاں ہے کہ ایسا کرنے میں راویوں کا فہم بہت معنی رکھتا ہے-اس کے برعکس، ابوالحسن الکرخی (متوفی 340ھ/952ء) کیلئے محتویات ِاحادیث (مضامین و مندرجات حدیث ) کو سمجھنے کی صلاحیت اِس بنا پر ضروری نہیں ہے کہ روایہ با لمعنی کے باوجود اس میں ثقہ راویوں جو حدیث کے مفہوم کو کسی بھی طرح متاثر نہیں کرتے تھے کی جانب سے تغیرات کی گئی ہیں- [55]اِس نکتہ پر البزدوی اور السرخسی دونوں آراء کو یکجا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اگر فہم (الفقہ) کی صلاحیت نہ رکھنے والے معروف سے مروی حدیث(آحاد) قیاس کی تائید کرتی ہے تو قبولِ حدیث لازم ہے اور اگر حدیث اس سے متصادم ہو پھر بھی اسے ترجیح دی جائے سوائے ضَرُورَۃ کے، یعنی جہاں صحیح استدلال کی کوئی اساس نہ ہو حدیث کی تائیدکے لئے‘‘-[56]
قیاس پر خبرِ واحد کو ترجیح دینا دراصل اوّلین فقہاء جیسے ابو حنیفہ، ابو یوسف اور محمد بن الحسن الشیبانی کا وطیرہ تھا-[57] ابو حنیفہ کے مذکورہ نظریے کے انطباق کی کئی مثالیں ہیں-انہوں نے متعدد فقہی احکام دینے میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے مروی اخبار آحاد کو استعمال کیا-اِن متعلقات میں سے ایک کسی شخص کے روزے کی سلامتی سے متعلق ہے جو نسیان (بھول چوک) سے کھاتا پیتا ہے-اس مقام پر حدیث اور قیاس کےنتائج باہم متعارض دکھائی دیتے ہیں-قیاس کی بنا پر یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کوئی بھی عبادت (اطاعتِ خداوندی) اپنے رکن (بنیادی عنصر) کی تکمیل کے بغیر باطل ہے، اس لیے اس کا اطلاق کسی بھی شخص پر ہو گا جو روزہ کی حالت میں بھول چوک کر کھا لے- [58] دوسری طرف حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے رسول اللہ (ﷺ) کا درج ذیل فرمان نقل ہوا ہے:
”جو شخص روزے کی حالت میں بھول کر کھا پی لے تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے، بیشک( جب اس نے بھول چوک سے کھایا پیا) اللہ تعالیٰ نے اسے کھلایا اور پلایا ہے “ -[59]
مذکورہ حدیث کے سبب ابو حنیفہ نے روزے کی سلامتی کو قبول کیا جو بظاہر بھول چوک کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا-[60] اس مسئلہ کے متعلق ابو حنیفہ نے کہا:”اگر ایسی کوئی حدیث موجود نہ ہوتی تو میں قیاس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا“- [61]اس سے عیاں ہوتا ہے کہ اگرچہ ایک غیر فقیہہ راوی کی روایت کردہ حدیث قیاس کے سہارے حاصل ہونے والے حکم سے متصادم ہے لیکن پھر بھی حدیث مقدم ہے-
تاہم بزدوی اور سرخسی کے نزدیک غیر فقیہ معروف راوی سے مروی خبرِ واحد کو قیاس پر صرف اسی صورت میں ترجیح دی جائے گی جب صحیح استدلال کا پیمانہ اس حدیث کی تائید میں ہو- یعنی یہ ایک دوسری قسم کا قیاس ہے جو حدیث کے موافق ہو-[62] لیکن اگر کوئی ایسا واقعہ جنم لے جسے انسداد باب الرائے کی اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی جب مضمون انسانی عقل سے کلی طور برقرار نہ رہ سکے تو پھر قیاس کا سہارا لینے والے حکم کو ترجیح دی جائے گی-اس سیاق میں ایک مثال التصریہ (دودھ روکا ہوا جانور) کے واقعہ سے ملتی ہے جو حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی حدیث میں مذکور ہے-یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اونٹی یا بکری کے سلسلے میں التصریہ (دودھ روکنے) سے پرہیز کرو (تاکہ دودھ ان کے تھنوں میں رہے)، جو شخص تصریہ کے بعد ایسا جانور خریدتا ہے اسے دودھ دوہنے کے بعد لین دین منسوخ کرنے کا اختیار ہے، اگر وہ مطمئن ہے تو انہیں رکھ لے اور اگر نہیں تو وہ انہیں (مالک کو) واپس کردے اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دودھ کے بدلے دیدے“ -[63]
یہ حدیث جو کسی لین دین کو منسوخ کرنے کے اختیار کی اجازت اور اِس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ بائع کو مشتری کی جانب سے اس دودھ کے عوض جو اس نے خرچ کیا ہے ایک صاع کھجو ر واپس ملے گی- تاہم بزدوی اور سرخسی کے ہاں یہ حدیث مستند نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن (2:194) [64]سے ماخوذ صحیح قیاس کے منافی ہے، دیگر احادیث اور اجماع جو مسلمانوں کو اشیاء کی ضمانت میں برابر مقدار کا حکم دیتا ہے اس صورت میں کھجور کا ایک صاع ناکافی ہوجاتا ہے-[65] اس بات پر امام ابو حنیفہ اور اُن کے جید تلامذہ قاضی ابو یوسف اورامام الشیبانی کا اختلاف رائے تھا- مؤخر الذکر نے مذکورہ حدیث کو صحیح قرار دیا جیسا کہ خیار کے معاملے میں ان کےعمل سے دیکھا جاسکتا ہے- [66]
وہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) جو کہ غیرمعروف تھے جیسے فاطمہ بنت قیس، وابصہ ابن معبد، سلمہ ابن المحبق اور معقل ابن سنان سے مروی آحاد احادیث کے بارے میں فقہائے احناف کا اتفاق ہے کہ اگر وہ صحیح قیاس سے متصادم ہیں تو انہیں قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) سے ان کا اِتّصال انتہا درجہ مشتبہ ہے- فقہائے احناف کے ہاں دیگر صحابہ اور تابعین کی صحیح قیاس کی تائید میں روایات کے رد کی متعدد مثالیں ملتی ہیں-اس سلسلے میں ایک مثال فاطمہ بنت قیس سے منقول حدیث ہے (مکمل روایت سطورِ بالا میں ابو حنیفہ کے خبرِ واحد کے بارے میں رویہ کی بحث میں نقل کی گئی ہے) جو یہ بتاتی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فیصلہ فرمایا تھا کہ وہ (عورت) جسے شوہر کی جانب سے تین طلاقیں دی گئیں نفقہ کی حقدار نہیں تھی- البتہ آپ کی یہ روایت عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) نے رد کر دی جو اِسے قرآن مجید (1:65اور 6) سے ماخوذ جسے صحیح قیاس کہا جا سکتا ہے کے مغائرسمجھتے تھے-اس بنا پر آپ نے فرمایا کہ:
”ہم کسی ایسی عورت کی روایت کے مقابلے میں کتاب اللہ اور سنت رسول (ﷺ) کو ترک نہیں کرتے جس کے بارے ہمیں معلوم نہیں کہ وہ صادق ہے یا کاذب اور آیا وہ یاد رکھتی ہیں یا بھلادیتی ہیں (جو کچھ سنتی یا دیکھتی ہیں )“ -[67]
اختتامیہ:
اپنے پاس موجود دلائل وبراہین کی بنا پر ہم نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ امام ابوحنیفہ نے مجموعی طور پر احادیث کے مقابلے میں آحاد احادیث پر بہت کم توجہ دی- حقیقت تو یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے صرف وہی احادیث استعمال کیں جنہیں وہ قرآن مجید کے قوی دلائل اور دیگر بہتر وصحیح احادیث کے موافق سمجھتے تھے-باالفاظ دیگر امام ابو حنیفہ کا متعدد آحاد احادیث کا رد اس بنا پر تھا کہ وہ احادیث قبولیت کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں جسے وہ صحت ِ حدیث کی جانچ کے لیے لازمی سمجھتے تھے- امام ابوحنیفہ نے ان آحاد احادیث کو ترجیح دی جو ایسے راویوں سے مروی تھیں جو مذہب اور اخلاقی خصائل جس کا اظہار ’’عدالہ‘‘ کی اصطلاح سے ہوتا ہے اور ذہنی و فکری صلاحیت سے معروف ضبط کہلانے والی اصطلاح جو قیاس کے ذریعے حاصل ہونے والے فیصلوں پر ہوتی ہے-ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی قرونِ اولیٰ کے فقہاء حتیٰ کہ ایک ہی مذہب کے فقہاء کے مابین بھی شرعی تصورات کے مآخذ کی حیثیت سے صحتِ احادیث کی جانچ پرکھ کے طریقوں پر کافی اختلاف پایا جاتا تھا-
٭٭٭
[1]محمد ابن محمود الخوارزمی،جامع المسانید(بیروت:دارالکتب العلمیہ)،1: 41–43؛الخوئی،معجم رجال الحدیث،19: 164؛الکوثری،فقہ اہل العراق،21
[2]Ignaz Goldziher, The Zahiris: Their Doctrine and Their History, trans. and ed., Wolfgand Behn
(Leiden: E. J. Brill, 1971), 13
[3]N. J. Coulson, A History of Islamic Law (Edinburgh: The University Press, 1964), 52
[4]الخوارزمی،جامع المسانید، 53-1:41
[5]الکوثری،فقہ اہل العراق،21
[6]Joseph Schacht, The Origins of Muhammadan Jurisprudence (Oxford: The Clarendon Press, 1959), 27.
[7]اِس مقالہ میں آحاد سے مراد ایسی روایاتِ حدیث ہیں جو اصطلاح’’المتواتر‘‘ کی درج درجہ بندی میں شمار نہیں ہوتیں- الخطیب البغدادی اور زین الدین العراقی (متوفی 806ھ/ء1404) جیسے علماء ’’المتواتر‘‘ کی تعریف ایسی حدیثِ رسول (ﷺ) کے طور پر کرتے ہیں جسے راویوں کی ایک بڑی تعداد نے روایت کیا ہو اور عام تجربے (العادہ) کے مطابق اُن راویوں کے کسی بھی موقع پر جھوٹ بولنے پر متفق ہونے کا احتمال تک نہ ہو-حدیث کے متن میں کسی بھی ابہام کے دخل کا عدم احتمال اور اُن تمام عوامل کی عدم موجودگی ہو جو راوی کو جھوٹ کی ترغیب دے سکتے ہیں - متواتر احادیث سے زود تر (فی الفور) یا ضروری علم (العلم الضروری ) حاصل ہوتا ہے-اس لیے مسلمانوں کا اپنی زندگیوں میں متواتر روایات کے متعلق رہنمائی ہونا لازمی ہے - جو احادیث مذکورہ شرائط پر پورا نہیں اترتیں آحاد کہلاتی ہیں- اس خصوصیت کے لحاظ سے جو کہ سند(راویوں کا سلسلہ ) اور متن (موضوعِ روایت) پر منحصر ہے آحاد احادیث صحیح،حسن یا ضعیف ہوسکتی ہیں-آحاد روایات میں ظن( علم احتمال ) شامل ہے- الآحاد، الصحیح اور الحسن شرعی معاملات میں بطور مآخذکام آسکتی ہیں جبکہ الضعیف نہیں- ان اصطلاحات کے متعلق مزید تفصیل اصول الحدیث اور اصول الفقہ کی بہت سی کتب میں موجودہے-دیکھیے:الخطیب البغدادی ،الكفايۃ فی علم الروايۃ،ایڈیٹر،احمد عمر ہاشم (بیروت:دارالکتاب العربی،1986)،32؛محمد جمال الدین القاسمی،قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث،ایڈیٹر،محمد بہجہ البیطار (بیروت: دارالنفائیس،1987)،151؛
On Inductive Corroboration, Probability and Certainty in Sunni Legal Thought"،Wael B.Hallaq
Law and Legal Theory in Classical and Medieval Islam (Aldershot: Variorum, 1994), ch. IV: 3-31, Nicholas Aghnides, Mohammedan Theories of Finance with an Introduction to Mohammedan Law and a Bibliography (Lahore: The Premier Book House, 1961), 39–47;
[8]الخطیب البغدادی،تاریخ بغداد،13:330-جہاں تک سال کا تعلق ہے کہ امام ابوحنیفہ کب پیدا ہوئے؟ خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ داؤد ابن علایاہ کا ماننا ہے کہ یہ 61ھ ہے- تاہم اُس کا اصرار ہے کہ یہ خبر مشتبہ(مشکوک ) ہے- مزید دیکھیے:تقی الدين ابن عبد القادر التميمی،الطبقات السنية في تراجم الحنفية،ایڈیٹر،عبد الفتاح محمد ابو غدة(قاہرہ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی،1970)،1:88؛الخوارزمی،جامع المسانید،1:21اور 78؛ محمد ابن یوسف الصالحی،عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنيفۃ النعمان(حیدر آباد:مطبعہ المعارف الشریعہ،1974)،42؛جمال الدین ابو الحجاج یوسف ابن عبد الرحمن المزّی تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، ایڈیٹر، بشار عواد معروف (بیروت: مؤسسات الرسالہ، 1992)، 29:444- یوسف ابن عبد الرحمن المزّی(متوفی:742ھ/1341ء) نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ یحیی بن معین(متوفی:233ھ/848ء) کہتے ہیں امام ابوحنیفہ کا سن وفات 151ھ /768ء تھا اور مکی ابن ابراہیم (215ھ/830ء)کے مطابق یہ 153ھ/770ء تھا-
[9]مسلم مخبرین نے صحابہ کرام() کی تعداد پر اتفاق نہیں کیا جن سےابوحنیفہ نےملاقات کی- بعض جیساکہ احمد ابن عبداللہ الاصبہانی (متوفی : 430ھ/1038ء) نے کہا کہ وہ تین تھے یعنی انس ابن مالک (ابوحنیفہ 13 سال کے تھے جب کو فہ میں ان سے ملے)،عبداللہ ابن الحارث (ابوحنیفہ 16 سال کے تھے جب مکہ میں ان سے ملے) اور عبداللہ ابن ابی اوفی -بعض جیساکہ ابن خلکان (متوفی:681ھ/1282ء)نے چار اسمائے گرامی دیے ہیں-انس ابن مالک (کوفہ میں)، عبداللہ ابن ابی اوفی(کوفہ میں)،سہل بن سعد الساعدی (متوفی :91ھ/710ء)، ابو طفيل عامر ابن واثلہ(متوفی:100ھ/708ء)(مکہ میں)-بعض نے یہ تعداد چھ (6) بتائی ہے ،انس ابن مالک، عبداللہ ابن انیس ،عبداللہ ابن الحارث ،عبداللہ ابن ابی اوفی،واثلہ ابن الاسقع اور عائشہ بنت عجرد- بعض جیساکہ الخوارزمی نے مذکور چھ اسمائے گرامی اور جابر ابن عبداللہ (متوفی:78ھ/698ء)کا نام شامل کر کے یہ تعداد سات بتائی ہے جبکہ بعض نے معقل ابن یسار(متوفی:65ھ/685ء) اور مذکورہ سات ا سمائے گرامی شامل کرکے یہ تعداد آٹھ بتائی ہے-دیکھیے:احمد ابن عبداللہ الاصبہانی ، مسند ابی حنیفہ،ایڈیٹر،نذر محمد ،24تا 25؛ابن خلکان، وفيات الأعيان، 5:406؛ الخوارزمی ،جامع المسانید ،1: 6تا 22 اور 2: 345تا 348؛الصالحی ،عقود الجمان ،49تا61-
[10]راویان کے مطابق اسنادِ احادیث( راویوں کا سلسلہ) صحیح،ضعیف حتی کہ موضوع (من گھڑت) کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں- دیکھیے، الصالحی ،عقود الجمان،62-54
[11]الخطیب البغدادی،تاریخ بغداد،13:324
[12]دیکھیے:المزّی تہذیب الکمال؛20-29:418 اور محمد ابن محمد الذہبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاہير والأعلام، ایڈیٹر، عمر عبد السلام تدمری، ،9:306
[13]Shibli Numani, Imam Abu Hanifah: Life and Work, tr., M. Hadi Hussain (New Delhi: Kitab Bhavan, 1988), 18–26.
[14]المزّی،تہذیب الکمال،22-29:420
[15]ابوحنیفہ سے منقول احادیث کے پندرہ مجموعے ہیں جنہیں الخوارزمی نے اپنی جامع المسانید میں شامل کیا ہے-یہ وہ مسانید ہیں جنہیں عبداللہ ا بن محمدابن یعقوب الحارثی (متوفی: 340ھ/52-951ء)، طلحہ بن محمد (متوفی: 380ھ/990ء)، محمد ابن المظفر ابن موسیٰ (متوفی :386ھ /996ء)، احمدا بن عبد اللہ الاصبہانی (متوفی: 430ھ/1038ء)، ابوبکر محمدا بن عبدالباقی الانصاری (متوفی: 535ھ/1140ء)، عبد اللہ ا بن عدی الجرجانی (متوفی : 365ھ/76-975ء)، الحسن ابن زیاد لؤلؤی (متوفی: 204ھ/819ء)، عمر ابن الحسن الاشنانی (متوفی :339/951)، ابو بکر احمد ابن محمد ابن خالد الکلاعی (متوفی: 432ھ/1041ء)، محمد ابن الحسین البلخی (متوفی :526ھ/1132ء)، ابو یوسف یعقوب ابن ابراہیم القاضی، محمد ابن ابی حنیفہ، محمد ابن الحسن الشیبانی جن کے مجموعہ کو الآثار کہتے ہیں اور عبداللہ ا بن محمد، ابی العوام الصغادی (متوفی: 290ھ/903ء) نے مرتب کیا -
[16]تقی الدین التمیمی، الطبقات السنية،1:99
[17]ایضاً،1:111
[18]الخطیب البغدادی،تاریخ ِ بغداد،390-91:13
[19]ایضاً،13:389
[20]ایضاً،13:388، (اس انداز کا نکتہ یہ ہے کہ ابو حنیفہ کو یقین تھا کہ یہ فرامین جو رسول اللہ(ﷺ)سے منسوب ہیں لیکن (کئی محققین کے مطابق) وہ آپ(ﷺ) کے فرامین نہیں تھے،ایڈیٹر)
[21]G. H. A. Juynboll, Muslim Tradition: Studies in the Chronology, Provenance, and Authorship of Early Hadith (Cambridge: Cambridge University Press, 1982), 122.
[22]اصولیّین اجتہاد کو اسلامی شرعی احکام کی جستجو میں فقیہ کی ذہنی صلاحیت کی بے حد سعی کے طور پر بیان کرتے ہیں-دیکھیے،علی ابن ابی علی العمیدی، الإحكام فی أصول الأحكام (قاہرہ:دارالحدیث)،4:218؛علی الشیرازی، الوصول إلى مسائل الأصول،ایڈیٹر، عبدالمجید الترکی(الجزائر:الشرکہ الوطنیہ)2:433؛ عبد الله دراز ابواسحاق الشاطبی کی الموافقات فی أصول الشريعۃ کی تفسیر شرح(بیروت:دارالکتب العلمیہ)،4:64 اور
Wael B. Hallaq, “Was the Gate of Ijtihad Closed?” in his Law and Legal Theory in Classical and Medieval Islam , ch. V.
[23]المزّی ، تہذیب الکمال،29:443؛الخطیب البغدادی،تاریخ ِ بغداد،13:368؛ الصالحی ،عقد الجمان،172
[24]دیکھیے،عبد الحلیم الجندی، أبو حنيفة :بطل الحرية والتسامح فی الإسلام(قاہرہ:دار السعد،1945)،138
[25]الصالحی ،عقد الجمان،173
[26]المرسل سے مراد ایسی حدیث ِرسول اللہ (ﷺ) ہے جس کی سند میں پہلے راوی (یعنی کسی صحابی) کا ذکر نہ ہو یعنی تابعی بلاواسطہ حضور اکرم(ﷺ) سے روایت نقل کرے - مثلا ،ایک تابعی جیسا کہ سعید بن المسیب (متوفی 94ھ/713ء) نے رسول اللہ(ﷺ) کے اُس صحابی کا نام لیے بغیر ایک حدیث نقل کی جن سے آپ نے یہ حدیث لی تھی- اہل علم اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ آیا مرسل روایت مستند (حجت ) ہے یا نہیں- دیکھیے ،الخطیب البغدادی ، الكفايۃ فی علم الروايۃ،435-423؛ حسین ابن عبداللہ الطیبی،الخلاصة فی اصول الحدیث،ایڈیٹر،صبحی السمرائی ،65-6؛ جلال الدین السیوطی، منظومۃ علم الأثر، محفوظ ابن عبد الله الترمسی کے منہج ذوی النظر کے ساتھ مطبوعہ (بیروت: دارالفکر، 1981 ) ، 54-49؛ صبحی الصالح ، علوم الحديث ومصطلحه،8-166؛خلدون الاحدب، أسباب اختلاف المحدثين،70-203
[27]حنفی اصولیّین کے نزدیک یہ اِس بنیاد پر ہے کہ آحاد کے ذریعے آیاتِ قرآنی اور السنہ المشہورہ کی تخصیص جائز نہیں ہے- اس کے برعکس شوافع نے اسے قابل قبول سمجھا ہے- دیکھیے محمد احمد السرخسی،اصول السرخسی ،1:364؛محمد ابن ادریس الشافعی،الرسالہ،ایڈیٹر،احمد محمد شاکر،64
[28]محدثین کے نزدیک اگر کوئی حدیث اِن چار شرائط پر پوری اترتی ہو تو اسے صحیح سمجھا جاتا ہے- (الف) اس کی سند (راویوں کا سلسلہ) شروع سے آخر تک (اولین راویوں یعنی کسی صحابی سے ) منقطع نہ ہو ؛(ب )، اس کے تمام راوی ثقہ ہوں؛ (ج )اس کی سند اور متن (مضمون) شاذ ؛( غیر منظم ، قوی دلیل کے منافی) اور (د) اس کی اسناد اور متن میں کوئی عیب یا نقص نہ ہو-احادیث کی صحت (صداقت) ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ حدیث مذکورہ شرائط کو کس حدتک بخوبی پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے- دیکھیے :الطبی،الخلاصة فی أصول الحديث،35:8؛عثمان ابن عبد الرحمن ابن الصلاح،مقدمۃ ابن الصلاح،زین الدین العراقی کے متن کے ساتھ مطبوعہ، التقييد و الإيضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح(بیروت:دارالفکر،1981)،42-20
[29]دیکھیے ، السرخسی ،اصول السرخسی،7- 3 : 2؛الکوثری، فقہ أہل العراق،الجندی،36-38؛ أبو حنيفۃ :بطل الحريۃ والتسامح فی الإسلام،140
[30]السرخسی،اصول السرخسی،1:364
[31]ایضاً؛1:365،مزید دیکھیے،الشافعی،الرسالہ،224؛ ابن عبد البر، جامع بيان العلم وفضله1:191
[32]ایضاً؛1:365،مزید دیکھیے، علاؤالدین عبد العزیزابن احمد البخاری، كشف الأسرار عن أصول فخر الإسلام البزدوی، ایڈیٹر ،محمد المعتصم باللہ البغدادی، 20-19 : 3
[33]ایضاً؛1:365،مزید دیکھیے ،علاؤالدین عبد العزیزابن احمد البخاری، كشف الأسرار عن أصول فخر الإسلام البزدوی، ایڈیٹر ،محمد المعتصم باللہ البغدادی، 20-19 : 3
[34]دیکھیے ،السرخسی،اصول السرخسی،1:365
[35]Schacht, The Origins, 29
[36]الشافعی،الرسالہ؛79-64، عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار ؛ 20 : 3، اورالعمیدی ، الإحكام فی أصول الأحكام،7-472 : 2
[37]ابو یوسف یعقوب ابن ابراہیم الانصاری، الرد على سير الأوزاعی،ایڈیٹر،ابو الوفاء الافغانی(قاہرہ،احیاء المعارف النعمانیہ)،23
[38]الاوزاعی ، سنن الأوزاعی،412
[39]ابویوسف، الرد على سير الأوزاعی،4-23
[40]عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 743 : -2،مزید دیکھیے،الخطیب البغدادی ، الكفايۃ فی علم الروايۃ،102
[41]عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 6-735 : 2
[42]تقی الدین ابن عبد القادر، الطبقات السنية،1:112
[43] عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 728 : 2
[44]دیکھیے ، السرخسی ،اصول السرخسی؛3 : 2، اور عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 5-124 : 3
[45]دیکھیے،ابوداؤد سلیمان ابن الاشعث، سنن ابی داؤد،ایڈیٹر،محمد محی الدین عبدالماجد، اور احمد ابن حنبل،مسند احمد ابن احنبل6:66
[46]دیکھیے، عبد العزیز البخاری، کشف الاسرار، 3: 129-31؛ مسلم ابن الحجاج النیسابوری، صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استئذان الثيب فی النكاح بالنطق والبكر بالسكوت ؛ ابوداؤد سلیمان ابن الاشعث، سنن ابی داؤد، کتاب النکاح ،باب فی الثيب ؛ ابو عیسیٰ محمد ابن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی، ابواب النکاح عن رسول اللہ، باب ما جاء في استئمار البكر والثيب ؛ اور الخوارزمی، جامع المسانید، 2:119
[47]السرخسی ،اصول السرخسی،6- 5 : 2، اور عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 4-132 : 3
[48]السرخسی ،اصول السرخسی،7- 6 : 2، اور عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 137-135 : 3
[49]Goldziher, The Zahiris, 18.
[50]السرخسی ،اصول السرخسی،7- 6 : 2، اور عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 137-135 : 3
[51]سلیمان ابن عبد القوی الطوفی شرح مختصر الروضة ،ایڈیٹر، عبد اللہ ابن عبد المحسن الترکی، اور الشیرازی، الوصول، 4- 103 : 2
[52]عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 700- 699 : 2
[53]دیکھیے،عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار،697 : 2،السرخسی ، اصول السرخسی،338: 1
[54]دیکھیے،عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 700- 698 : 2،السرخسی ، اصول السرخسی،339: 1
[55]دیکھیے ،عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 2:707
[56]عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 2:702 ، السرخسی ، اصول السرخسی،2- 340 : 1
[57]دیکھیے،عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، اور 704اور2:708 ، اور السرخسی ،اصول السرخسی،342 : 1
[58]دیکھیے ،ابویوسف ،اختلاف ابی حنیفہ،135؛ محمد ابن الحسن الشیبانی، کتاب الحجۃ علیٰ اہل المدینہ ،ایڈیٹر، مہدی حسن الکیلانی(حیدرآباد:مطبع المعارف الشرقیہ،1965)،1:391
[59]مسلم ابن الحجاج، صحیح مسلم ،کتاب الصیام ،باب أكل الناسی وشربہ
[60]مزید دیکھیے ، الشیبانی، ، کتاب الحجۃ علیٰ اہل المدینہ، 95-1:393،الشیبانی نے اِس حدیث کے راویوں کے طور پر دیگر صحابہ کرام علی ابن ابی طالب اور علقمہ بن قیس () کا بھی ذکر کیا ہے-
[61]دیکھیے ،الشیبانی، کتاب الحجۃ علیٰ اہل المدینہ ، 1:392؛ اور عبد العزیز البخاری،کشف الاسرا ر ،2:708
[62]دیکھیے ،عبد العزیز البخاری،کشف الاسرا ر ،2:702
[63]محمد ابن اسماعیل البخاری ،صحیح البخاری ،کتاب البیوع، باب النہی للبائع أن لا يحفل الإبل والبقر والغنم --،مسلم ابن الحاج ،صحیح مسلم ،کتاب البیوع ، باب بيع المصراة ،ابو داؤد سلیمان ابن الاشعث،سنن ابی داؤد ،کتاب البیوع، باب من اشترى مصراة فكرهها
[64]آیت ہے :” پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی---“
[65]عبد العزیز البخاری،کشف الاسرا ر ،5-2:704
[66]دیکھیے ،ابویوسف ،اختلاف ابی حنیفہ ،16؛ اور الخوارزمی ،جامع المسانید،2:25
[67]دیکھیے،عبد العزیز البخاری،کشف الاسرار، 24-2:706 ، اور السرخسی ،اصول السرخسی،45- 342 : 1