امام اعظم ابو حنیفہؒ کا منہج استدلال اور حدیث مبارکہ

امام اعظم ابو حنیفہؒ کا منہج استدلال اور حدیث مبارکہ

امام اعظم ابو حنیفہؒ کا منہج استدلال اور حدیث مبارکہ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری جون 2023

یہ بات ہر صاحب عقل اور دیندار مسلمان کو معلوم ہے کہ دین کے اُصول و فروع ا ور عقائد و اعمال سب کی بنیاد قرآن و حدیث ہےاجماع امت اور قیاس کی بنیاد بھی قرآن وحدیث پر ہے جس طرح قرآن کے احکام پر ایمان لانااور ان پر عمل پیرا ہونا لازم ہے اسی طرح حدیث کے احکام پر ایمان لانا اور اُن پر عمل پیرا ہونا بھی لازم و ضروری ہے- احادیث کے انکار کے بعد قرآن پر ایمان کا دعوی محض دعوی بلا دلیل ہو گا اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے محبوب کی اطاعت واتباع کرنے کا بھی حکم فرمایا-حتی کہ ارشاد فرما یاکہ :

’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ‘‘[1]

’’جس نے رسول پاک کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘-

یہ ایک بدیہی امر ہے کہ حدیث وسنت کی روایت اور حفاظت و ترویج محدثین کے حصےمیں آئی اور درایت و تفقہ کا شرف فقہاء کرام کو نصیب ہوا یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی استعداد و صلاحیت اور ذہن و فہم کا دائرہ کبھی ایک نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ انسانی آراء وافکار کا فرق وامتیاز ہمیشہ سے قائم ہے اور یہی فرق احادیث و آثار کی تفہیم اور ان میں اجتہاد کی صورت میں بھی نظر آتا ہے- بے شمار فقہائے کرام نے اپنے اپنے اجتہادات و استدلالات کے اصول وضع کیے اور اُن کے مطابق مسائل واحکام کا استنباط کیا ان فقہاء کرام میں امام ابو حنیفہ ایک نامور شخصیت ہیں جو فقہ حنفی کے بانی بھی ہیں تو انہوں نے بھی استدلالات و اجتہادات کے اُصول و قواعد وضع کیے جس کے مطابق فقہائے احناف مسائل کا استنباط کرتے رہے-

ہم زیر نظر مضمون میں امام اعظم ابو حنیفہ کے احادیث میں منہج استدلال کو اُن کی آراء و قضایا کی روشنی میں مختصر بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ اُن کے ہاں حدیث سے استدلال و اجتہادکا کیا درجہ ہے کیونکہ بعض کم علم حلقوں میں بڑا عجیب و غریب یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ امام اعظم احادیث وسنت پر اپنی رائے اور قیاس کو مقدم رکھتے تھے اور حدیث کو چھوڑ دیتے تھے-اگر تحقیقی طور پر اور حقیقت پسندانہ نگاہ سے اس تاثر کا جائزہ لیا جائے تو نہ صرف یہ تاثر غلط اور بے جا ہے- بلکہ امام صاحب نے اس تاثر اور تہمت کی نفی بھی فرمائی ہے- ملا علی قاری شرح مسند ابی حنیفہ کے مقدمہ میں امام اعظم کا قول نقل فرما تے ہیں:

’’كذب والله وافترى علينا من يقول اننا نقدم القياس على النص وهل يحتاج بعد النص الى القياس ‘‘[2]

’’اللہ کی قسم وہ بندہ جھوٹا ہے اور اُس نے ہم  پرافتر ا باندھا جو یہ کہے کہ ہم قیاس کو نص (حدیث) پر مقدم کرتے ہیں کیا نص (حدیث) کے بعد بھی کسی قیاس کی ضرورت رہ جاتی ہے‘‘-

علامہ علاء الدین عبد العزيز بن احمد البخاری امام نعيم بن عمر کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ:

’’انہوں نے فرمایا کہ میں نے امام ابو حنیفہ سےسنا، آپ نے فرمایا‘‘

’’عجبا للناس يقولون انى اقول با الرأى وما افتى الا با الاثر‘‘[3]

’’اُن لوگوں پر تعجب ہے جو کہتے ہیں کہ میں اپنی رائے سے فتوی دیتا ہوں بلکہ میں تو اثر (حدیث) سے ہی فتوی دیتا ہوں‘‘-

مقامِ غورہےکہ آپ نےکتنے  واضح الفاظ میں اس تاثر اور تہمت کی نفی کی ہے-آپ نےاس تاثر کے پھیلانے والوں کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اُن پر اظہار افسوس بھی کیا ہے -

حقیقت تو یہ ہے کہ امام اعظم،  اللہ کے دین میں اپنی رائے سے بات کرنے سے منع فرماتے تھے اور لوگوں کو اتباع سنت کو لازم کرنے کی ترغیب دیتے تھے-

علامہ محمد جمال الدین القاسمی فرماتے ہیں:

’’كان الامام ابو حنيفة یقول اياكم والقول في دين الله تعالیٰ با الرأى و علیکم باتباع السنة فمن خرج عنها ضل‘‘[4]

’’امام ابو حنیفہ فرماتے تھے کہ اے لوگو تم اللہ کے دین میں اپنی رائے سے بات کرنے سےبچو اور تم پر اتباع سنت لازم ہے جو اس حد سے نکلا وہ گمراہ ہو گیا ‘‘-

یہی وجہ ہے کہ ایک مقام پر آپ نے کتاب و سنت اور اجماع صحابہ کی اتباع کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

’’کسی ایک کیلئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول سے نص پائے جانے اور اجماع امت کے پائے جانے کے وقت اپنی رائے سے کوئی بات کہے اور جب کسی مسئلہ میں صحابہ کرام کا اختلاف ہو اور اُس میں اُن کے مختلف اقوال ہوں تو ان اقوال میں سے جو قول کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہوتا ہے ہم اس کو اختیار کر لیتے ہیں‘‘-[5]

اسی طرح آپ سے یہ بھی روایت کیا گیاہےکہ آپ نے ارشاد فرمایا:

’’ماجاء عن الله ورسوله لا نتجاوز عنه وما اختلف فيه الصحابة اخترناه وما جاء عن غيرهم اخذنا وتركنا‘‘[6]

’’جو اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے آئے ہم اُس سے تجاوز نہیں کرتے اور جس میں صحابہ کرام کا اختلاف ہوتو جس کا قول ہمیں قریب آئے ہم اُس کو اختیار کر لیتے ہیں‘‘-

اگر صحابہ کرام کے علاوہ کسی کا قول آئے تو کبھی کسی قول کو لے بھی لیتے ہیں اور کسی قول کو کسی وجہ سے چھوڑ بھی دیتے ہیں-

آپ کی اتباع سنت اوراعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ سے سوال کیا گیا ہے کہ اگر آپ کاقول کتاب الله، خبر رسول اور قول صحابہ کے بالفرض مخالف آجائے تو پھر ہم کیا کریں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اُس وقت میرے قول کو ترک کر دو اِن کے مقابلے میں اُس کی کوئی حیثیت نہیں-

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی عقد الجيد فی احکام الاجتھاد میں نقل فرماتے ہیں:

’’امام ابو حنیفہ سے سوال کیا گیا جب آپ کے قول کے مخالف کتاب اللہ آجائے تو پھر؟ فرمایا کہ کتاب اللہ کے مقابلے میں میرے قول کو چھوڑ دو پھر کہا گیا کہ جب خبر رسول اُس کے مخالف آجائے تو فرمایا کہ خبر رسول کے مقابلے میں بھی میرے قول کو چھوڑ دو پھر کہا گیا کہ جب صحابہ کا قول آپ کے قول کے مخالف آجائے تو آپ نے فرمایا تو صحابہ کے قول کے مقابلے میں بھی میرے قول کو چھوڑ دو‘‘-[7]

جب ہم امام صاحب کے منہج استدلال پر غور کرتے ہیں تو یہ بات کہیں بھی نظر نہیں آتی کہ آپ حدیث پر اپنی رائے اور قیاس کو مقدم رکھتے ہوں یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر امام صاحب اپنے منہج استدلال کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں جس کو امام یحی بن معین نے نقل فرمایا ہے:

’’میں سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کرتا ہوں  جو بات کتاب اللہ سے معلوم نہ کرسکوں تو پھر سنت رسول کو لیتا ہوں پھر اگر میں کتاب اللہ اور سنت رسول سے کوئی چیز نہ پاسکوں تو پھر میں آپ کے صحابہ کے قول پر عمل کرتا ہوں اور اُن میں سے جس کے قول چاہوں لے لیتا ہوں اور جس کے قول کو چاہوں چھوڑ دیتا ہوں - البتہ صحابہ کے قول کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے قول کو اختیار نہیں کرتا جب معاملہ ابراہیم نخعی، امام شعبی ، محمد بن سیرین، حسن بصری، عطاء  اور سعید بن المسیب تک پہنچتا ہے تو یہ ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے اجتہاد کیا تو میں اجتہاد سے کام لیتا ہوں جس طرح انہوں نے اجتہاد کیا‘‘-[8]

 اگر امام صاحب کے اس فرمان پر غور کیا جائے تو ان کےطریقہ استدلال کی جو ترتیب ہے - وہ کچھ یوں ہے کہ پہلے کتاب اللہ پھر سنتِ رسول پھر صحابہ کرام کے اقوال -اگر ان تینوں میں سے کوئی بات معلوم نہ ہو سکے تو پھر امام ابو حنیفہ قیاس و اجتہاد کی طرف جاتے -ایسا نہیں ہے کہ حدیث اور قول صحابہ کو چھوڑ کر براہ راست قیاس و اجتہاد کی طرف چلے جاتے، کیونکہ اُن کے ہاں جو حدیث صحیح ثابت ہو جاتی اس پر عمل کرنااُن کا مذہب تھا- علامہ ابن عابدین المعروف علامہ شامی فتاوی شامی میں امام اعظم کا قول نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

’’اذا صح الحدیث فھو مذ ہبی‘‘[9]

’’جب حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہو جاے تو وہ میرا مذہب ہے ‘‘-

ابو حمزه السکری فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے سنا آپ نے فرمایا:

’’اذا جاء الحديث الصحيح الاسناد عن النبي عليه السلام اخذنابه‘‘[10]

’’جب نبی پاک(ﷺ) سے صحیح الاسناد حدیث آجائے تو ہم اس پر عمل کرتے ہیں ‘‘-

امام بدر الدین زرکشی البحر المحیط میں فرماتے ہیں:

’’وقد ثبت عن ابى حنيفة انه قال ما جاءناعن الله وعن الرسول فعلى الرأس والعين‘‘[11]

’’تحقیق یہ بات امام ابو حنیفہ سے ثابت ہے انہوں نے فرمایا کہ جو حکم اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے آئے وہ ہمارے سر اور آنکھوں پر ہے‘‘-

توجب امام اعظم کتاب و سنت کو سر اور آنکھوں پر رکھتے ہوں اور حدیث صحیح اُن کا مذہب ہو اور وہ اُس پر عمل پیرا بھی ہوں تو پھر بھی یہ کہنے کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ امام صاحب خبر رسول پر اپنی رائے اور قیاس کو مقدم رکھتے تھے ۔ لیکن اس کےباوجودپھر بھی حقیقت حال سے ناشناسی اور مخالفت و عداوت کی وجہ سے یہ تاثر اتنا پھیلایا گیا کہ وقت کے امراء اور اکابرین بھی اس کی لپیٹ میں آگئے اور امام صاحب کو ان کے سامنے اپنے اصولی موقف کی صفائیاں پیش کرنی پڑیں-

 جیسا کہ خلیفہ ابو جعفر کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کو خط لکھا کہ مجھے یہ اطلاع پہنچی ہے کہ آپ قیاس کو حدیث پر ترجیح دیتے ہیں تو امام اعظم نےاُس کے جواب میں لکھا کہ :

’’لیس الامر کما بلغک یا امیر المومنین، انما اعمل اولا بکتاب اللہ، ثم بسنۃ رسول اللہ (ﷺ) ثم باقضیۃ ابی بکر و عمر و عثمان و علی، ثم باقضیۃ بقیۃ الصحابۃ، ثم اقیس بعد ذلک اذا اختلفواء‘‘[12]

’’اے امیر المومنین، معاملہ ویسے نہیں ہے جیسے آپ کو اطلاع پہنچی ہے-میں سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کرتا ہوں، پھر رسول اللہ (ﷺ) کی سنت پر، پھر ابوبکر،   عمر،  عثمان اور علی (رضی اللہ عنھم) کے فیصلوں پر، پھر باقی صحابہ کے فیصلوں پر اور پھر اس کے بعد اگر صحابہ کا اختلاف ہو تو قیاس سے کام لیتا ہوں‘‘-

اسی طرح سادات میں سے امام محمد الباقر بن علی  السجاد بن حسین (رضی اللہ عنہ)  بن علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) جب امام اعظم کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی امام صاحب کوکہا کہ کیا آپ نے قیاس کی وجہ سے میرے جدِ امجد کے دین اور احادیث کو تبدیل کر دیا ہے تو امام ابو حنیفہ نے عرض کی کہ اے امام محمد بن علیؒ آپ کی حرمت و عزت میرے نزدیک اسی طرح ہے جس طرح آپ(ﷺ)کی حرمت و عزت صحابہ کے نزدیک تھی- آپ ذرا تشریف رکھیں میں آپ کو اصل صورت حال سے آگاہ کرتا ہوں تو امام اعظم نے عرض کی میں آپ سے تین سوال کرتا ہوں اُن کے جواب دیجیےامام اعظم نے پہلا سوال کیا کہ کیا مردزیادہ کمزور ہے یا عورت تو امام محمد بن علی نے فرمایا کہ عورت زیادہ کمزور ہے- تو امام ابو حنیفہ نے عرض کی کہ وراثت میں مرد کے کتنے حصے ہیں اور عورت کے کتنے-امام محمد بن علی نے جواباً کہا کہ مرد کے دو حصے ہیں اور عورت کا ایک   حصہ امام ابوحنیفہ نے عرض کی یہ آپ کے نانا امجد کا فرمان ہے اگر میں نے آپ کے نانا امجدکے دین کو تبدیل کیا ہوتا تو پھر میں قیاس کے مطابق یہ کہتا کہ مرد کیلئے ایک حصہ اور عورت کیلئے دو حصے ہوں اس لیےکہ عورت مرد سے زیادہ کمزور ہے-

 پھر آپ نے دوسرا سوال کیا کہ کیا نماز افضل ہے یا روزہ تو انہوں نے جواب دیا کہ نماز افضل ہےتو عرض کی کہ یہ آپ کے جدِّ امجد کا فرمان ہے اگر میں نے اُن کے دین کو تبدیل کیا ہوتا تو جب عورت ایام مخصوصہ سے پاک ہوتی ہے تو میں قیاس کے مطابق اُس کو نماز قضا کرنے کا حکم دیتا نہ کہ روزے کی قضا کا-

پھر آپ نے تیسرا سوال کیا کہ کیا بول زیادہ  نجس ہے یا نطفہ تو انہوں نے جواب دیا کہ بول زیادہ نجس ہے- تو امام ابو حنیفہ نے جواب دیا کہ اگر میں نے حضور اکرم )ﷺ(کے دین کو تبدیل کیا ہوتا- تو قیاس کے تقاضا کے مطابق بول کی وجہ سے غسل کرنے کا حکم دیتا اور نطفہ کی وجہ سے وضو کرنے کا حکم دیتا اس لیے کہ بول نطفہ سے زیادہ نجس ہے . لیکن معاذ اللہ میرے اندر یہ طاقت نہیں کہ میں قیاس کی وجہ سے آپ (ﷺ)کے دین کو تبدیل کردوں تو جب امام ابو حنیفہ کا سنت پہ اتنا روشن مؤقف ملاحظہ فرمایا تو امام محمد بن علی اُٹھے اور امام ابو حنیفہ کو سینے سے لگایا-[13]

امام صاحب نے جس طرح اپنے اقوال و آراء سے اپنے منہج استدلال کو واضح کیا ہے اسی طرح نامور آئمہ فن نے بھی اپنے ارشادات سے امام اعظم کے منہج استدلال کو بیان کیا ہے جس سے نہ صرف اُس تاثر کا ازالہ ہو جاتا ہے بلکہ یہ بات اپنے پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ امام ابو حنیفہ احادیث و اخبار کو اپنی رائے اور قیاس پر مقدم رکھتے تھے-

 امام ابو یوسف جن کا شمار امام صاحب  کے اکابر اوراجل تلامذہ میں ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں:

’’امام ابو حنیفہ کے سامنے جب مسئلہ پیش ہوتا تو آپ سوال کرتے کہ تمہارے پاس اس کے متعلق کوئی آثار وروایات ہیں-جب ہم روایات بیان کرتے اور وہ بھی ان روایات کو بیان کرتے جو اُن کے پاس ہوتیں- پھر غور و فکر ہوتا اگر ایک قول کی تائید میں زیادہ روایات ہوتیں تو اُس کو اختیار کر لیتے تھے اگر دونوں طرف کی روایات برابر ہوتیں تو کسی ایک قول کو اختیار کر لیتے تھے‘‘-[14]

شداد بن حکیم فرماتے ہیں کہ امام زُفر نے فرمایا:

’’انما ناخذ بالرأى مالم یجی الاثر فاذا جاء الاثر تركنا الرأى واخذنا با الاثر‘‘[15]

’’بے شک ہم رائے (قیاس)پر اُس وقت عمل کرتے جب کوئی اثر نہ ملتاجب کوئی اثرمل جاتا تو ہم رائے کو چھوڑ دیتے تھے اور اثر پر عمل کرتے تھے‘‘-

تو امام زفر کے اس قول سےیہ بات با لکل واضح ہو رہی ہے کہ امام اعظم قیاس کی طرف اس وقت جاتے جب کسی مسئلہ کے حکم کے بارے کوئی اثر معلوم نہیں ہوتا تھا جب اثر مل جاتا تو پھر قیاس کو چھوڑ کر حدیث پر عمل پیرا ہوتے-

 امام فضیل بن عیاض امام صاحب کے طرز استدلال کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’کان اذا وردت عليه مسألة فيها حديث صحيح اتبعه و ان كان فيها قول عن الصحابة و التابعین اخذ به والا قاس فاحسن القياس‘‘[16]

جب امام ابو حنیفہ کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتا اور اُس میں حدیث صحیح موجود ہوتی تو وہ اُس کی اتباع کرتے اگر اس مسئلہ کے بارے صحابہ اور تابعین کا قول موجود ہوتا .تو اس کو اختیار کر لیتے ورنہ قیاس سے کام لیتے اور عمدہ قیاس کرتے تھے‘‘-

 علامہ احمد بن یونس کے والد فرماتے ہیں کہ:

’’کان ابوحنيفة شديد الاتباع الاحاديث الصحاح‘‘[17]

’’امام ابو حنیفہ احادیث صحیح کی بڑی سختی سے اتباع کرتے تھے‘‘-

جب کتب احناف کا مطالعہ کرتے ہیں تو مسائل میں جا بجا ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جہاں قیاس کا تقاضا تو کچھ اور ہوتا ہے لیکن وہاں امام اعظم نے اُس قیاس کو کسی حدیث و اثر یا صحابی کے فتوٰی اور قول کی وجہ سے ترک کیا ہوتا ہے- اس سے نہ صرف امام صاحب کے منہج استدلال کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ قیاس پر حدیث کو ترجیح دینے کا تاثر مزید پختہ ہوتا ہے ہم یہاں چند عملی نمونے پیش کرتے ہیں جہاں امام صاحب نے حدیث کے مقابلے میں قیاس کو ترک کیا ہے-

 امام محمد بن حسن شیبانی امام اعظم سے ایک مباحثہ کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو اس کا کیا حکم ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا:

’’اگر ہنسناقہقہہ کے بغیرہو تو وہ اپنی نماز میں جاری رہے اگر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا تو وضو اور نماز کا اعادہ کرے چاہےاُس نے بھول کر یا جان بوجھ کرقہقہہ مارا ہو -تو میں نے عرض کی کہ آپ کے ہاں ہنسنے کا حکم یہ کیوں ہے حالانکہ قیاس کے تقاضا کی رو سے ہنسنے اور کلام کرنے کا حکم ایک جیسا ہونا چاہیے- (یعنی جس طرح نماز میں کلام کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا صرف نماز ٹوٹتی ہے اسی طرح ہنسنے سے بھی وضو نہیں ٹوٹنا چاہیے)- تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ بات تو اسی طرح ہے لیکن میں نےہنسنے کے معاملے میں اُس حدیث کو اختیار کیا ہے جورسول اکرم (ﷺ)سے مروی ہے‘‘-[18]

علامہ بدر الدین الزرکشی فرماتے ہیں کہ احناف ابوہریرہ  والی حدیث کہ جس نے بھول کر کھایایا پیا اُس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا-اگرچہ یہ قیاس کے مخالف ہے لیکن پھر بھی انہوں نے اس پر عمل کیا ہے حتی کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا:

’’اگر اس کے بارے روایت نہ ہوتی تو میں قیاس کے ساتھ روزے کی قضا کا حکم دیتا‘‘-[19]

علامہ شمس الدین السرخسی ؒ امام صاحب کے منہج استدلال کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

امام ابو حنیفہ نے نبیذ تمر(کھجوروں کے پانی) کے ساتھ وضو کرنے کے متعلق خبر واحد کو اختیار کیا ہے اور اس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا ہے‘‘-[20]

 اب مقام غور ہے کہ اگر امام صاحب کے مد نظر احادیث و روایات نہ ہوتیں تو قیاس کے مطابق نماز میں قہقہہ مارنے سے وضو کے نہ ٹوٹنے اور بھول کر کھانے پینے سے روزہ کےفاسد ہونے کا حکم لگا سکتے تھے- لیکن ایسا نہیں کیا چونکہ امام اعظم متبع سنت اور احادیث نبوی کوقیاس پر مقدم رکھتے تھے تو اس لیے قیاس کو چھوڑ دیااور احادیث کو اختیار کیا-

خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ کاحدیث میں منہج استدلال بڑا واضح ہے آپ نے روایت و درایت کے درمیان فطری توازن برقرار رکھا ہے عقل وقیاس کو اس پر فوقیت دینے کی بجائے اس کے تابع کیا ہے -یہی تو فقہ حنفی کی خوبصورتی اور امتیازی شان ہے کہ اس میں نہ تو عقل وقیاس کی ضرورت و افادیت سے انکار کیا گیا ہےاورنہ اسےنص روایت پر ترجیح دی گئی ہے اور نہ ہی نص و روایت کے فہم کو عقل وقیاس کی معاونت سے محروم کیا گیا ہے -

٭٭٭


[1](النساء:80)

[2](شرح مسند ابی حنیفۃ از ملا علی قاری، جز:1، ص:4)

[3](کشف الاسرار شرح اصول بزدوی، جز:1، ص:16)

[4](قواعدا لتحدیث، جز:1، ص:52)

[5](جواہر المضیہ فی طبقات الحنفیہ، جز:2، ص:473)

[6](ایضاً)

[7](عقد الجید فی احکام الاجتہاد و التقلید، جز:1، ص:22)

[8](تاریخ ابن معین، جز:4، ص:63)

[9](رد المحتار علی الدر المختار، جز:4، ص:63)

[10](الانتقاء فی فضائل الثلاثہ الآئمہ الفقہاء، جز:1، ص:144)

[11](البحر المحیط فی اصول الفقہ، جز:6، ص:212)

[12](المیزان الکبرٰی، جز:1، ص:80)

[13](مناقب ابی حنیفہ للمکی، ص:143)

[14](ایضاً)

[15](الفقیہ و المتفقہ، جز:1، ص:17)

[16](کشف الاسرار شرح اصول بزدوی، جز:1، ص:17)

[17](ایضاً)

[18](کتاب الاصل، جز:1، ص:174)

[19](البحر المحیط فی اصول الفقہ، جز:6، ص:212)

[20](اصول السرخسی، جز:1، ص:145)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر